Tag: اکتوبر وفیات

  • معروف افسانہ نگار اور شاعرہ وحیدہ نسیم کا تذکرہ

    معروف افسانہ نگار اور شاعرہ وحیدہ نسیم کا تذکرہ

    اردو کی ممتاز افسانہ و ناول نگار اور شاعرہ وحیدہ نسیم کا آج یومِ وفات ہے۔

    وحیدہ نسیم 9 ستمبر 1927ء کو اورنگ آباد، حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں اور ہجرت کرکے کراچی آبسیں۔ انھوں نے عثمانیہ گرلز کالج حیدرآباد دکن سے 1951ء میں ایم ایس سی کیا اور 1952ء میں پاکستان منتقل ہوگئیں۔ نباتیات ان کی مہارت کا مضمون تھا اور یہاں وہ اسی کی تدریس سے وابستہ تھیں۔ وہ 1987ء میں کراچی کے ایک کالج سے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔

    اپنی ملازمت کے ساتھ انھوں نے یہاں اپنا تخلیقی سفر اور ادبی سرگرمیاں‌ جاری رکھیں۔ وہ شاعرہ، ناول و افسانہ نگار اور محقّق بھی تھیں۔ انھوں نے جس دور میں اپنی شاعری کا آغاز کیا وہ ترقی پسند ادب کے عروج کا زمانہ تھا۔ انھیں شاعرہ کی حیثیت سے مقبولیت ملی جب کہ ان کے افسانے بھی پسند کیے گئے۔

    وحیدہ نسیم متعدد کتابوں کی مصنف تھیں جن میں ’موجِ نسیم‘، ’نعت و سلام‘، ’مرثیہ کاکوری‘ (شاعری)۔ ’ناگ منی‘ ،’راج محل‘، ’رنگ محل‘ اور’دیپ‘ (افسانوی مجموعے) تھے۔ ان کی دیگر مشہور تصانیف میں ’اورنگ آباد: ’ملک عنبر سے اورنگ زیب تک‘، ’عورت اور اردو زبان(تحقیق)‘ اور ’شاہان ہے تاج‘ (تنقید) شامل ہیں۔ ’داستاں در داستاں‘، ’ساحل کی تمنا‘، ’غم دل کہا نہ جائے‘، ’شبو رانی‘، ’زخم حیات‘ بھی ان کی مشہور کتب ہیں۔

    وحیدہ نسیم نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو زبان کی اس ادیب اور شاعرہ کی ایک کہانی پر ناگ منی نامی فلم بھی بنائی گئی تھی۔

  • یومِ وفات: حیاتُ الحیوان علّامہ کمال الدین دمیری کی شاہ کار تصنیف ہے

    یومِ وفات: حیاتُ الحیوان علّامہ کمال الدین دمیری کی شاہ کار تصنیف ہے

    شہرہ آفاق اور شاہ کار کتابوں میں “حیاتُ الحیوان” آج بھی سرِ فہرست ہے جو علّامہ کمال الدّین دمیری کی تصنیف ہے۔ وہ مصری محدّث، محقّق اور عالم تھے جن کا آج یومَِ وفات ہے۔ تاریخ میں‌ علامہ کمال الدّین دمیری کا نام ماہرِ حیوانات کے طور پر محفوظ ہے۔

    دمیری کی کنیت “ابوالبقا” ہے، جن کا وطن مصر تھا۔ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے ان کا سنِ‌ پیدائش 1349ء بتایا ہے۔ انھوں نے “دمیرہ” نامی علاقے میں آنکھ کھولی۔ علاّمہ کے حالاتِ زندگی پر دست یاب معلومات کے مطابق انھوں نے ابتدائی اور اس دور کے مطابق تمام ضروری تعلیم قاہرہ سے حاصل کی، اس کے بعد جامعہ ازہر میں درس و تدریس میں مصروف ہو گئے۔

    وہ اپنے وقت کے ایک پرہیز گار اور عالم فاضل مشہور تھے۔ ان کی زندگی کا کچھ عرصہ مکہ میں بھی گزرا اور وہ وہاں‌ بھی درس و تدریس میں مصروف رہے۔

    عّلامہ دمیری نے مختلف علوم کی تحصیل میں اپنے وقت کی باکمال اور نام ور شخصیات سے استفادہ کیا۔

    ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف میں جانوروں کے خصائل اور خصوصیات ہی نہیں بلکہ ان کی شرعی حلّت، ان کے چیدہ چیدہ طبی فوائد سے بھی بحث کی گئی ہے جو ان کے علم کا ثبوت اور ان کی تحقیق و ریاضت نمونہ ہے۔ حیاتُ الحیوان ایک مفصّل کتاب ہے جس میں 1069 جانوروں کا ذِکر کیا گیا ہے۔

    تاریخی کتب میں اپنے وقت کے اس جیّد عالم کی وفات کی تاریخ 27 اکتوبر اور سن 1405ء تحریر ہے۔ ان کا انتقال قاہرہ میں ہوا اور مقبرہ الصوفیہ سعید السعد میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • یومِ‌ وفات: ممتاز مفتی نے اپنی کہانیوں کے کرداروں کے باطن کو موضوع بنایا اور قارئین میں مقبول ہوئے

    یومِ‌ وفات: ممتاز مفتی نے اپنی کہانیوں کے کرداروں کے باطن کو موضوع بنایا اور قارئین میں مقبول ہوئے

    اردو ادب میں اپنے افسانوں اور ناول نگاری کے سبب پہچان بنانے والے ممتاز مفتی کو ان کے سفر ناموں کی بدولت بے پناہ مقبولیت ملی۔ وہ اپنی ڈراما نگاری اور خاکہ نویسی کے لیے بھی مشہور ہیں۔ آج ممتاز مفتی کی برسی ہے۔

    ممتاز مفتی اردو افسانے کی روایت میں ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے موضوع، مواد اور تکنیک کے اعتبار سے کئی تجربے کیے۔ ان کے افسانوں کا موضوع گمبھیر نفسیاتی مسائل اور عام زندگی کی مشکلات ہیں۔ ’علی پور کا ایلی‘ ممتاز مفتی کا ایک ضخیم ناول ہے جسے بہت سراہا گیا اور قارئین میں بے حد مقبول ہوا۔

    ممتاز مفتی کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔

    ممتاز مفتی کا ناول ’’الکھ نگری‘‘ بھی قارئین میں بہت مقبول ہوا جب کہ سفر نامے ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ کو بہت پزیرائی ملی۔ ان کے خاکوں کے مجموعے پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ کے نام سے شایع ہوئے۔ ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔
    انھوں نے انشائیے بھی لکھے اور ’غبارے ‘ کے نام سے ان کے انشائیوں کا مجموعہ بہت پسند کیا گیا۔

    27 اکتوبر 1995ء کو ممتاز مفتی نے اس دارِ فانی کو الوداع کہا، وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں ممتاز مفتی کو ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

  • نام وَر ادیب، افسانہ نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کی برسی

    نام وَر ادیب، افسانہ نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کی برسی

    26 اکتوبر 1977ء کو اردو کے نام ور ادیب، کالم نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ابراہیم جلیس 1922ء میں بنگلور میں پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گلبرگہ حیدرآباد دکن میں ہوئی تھی۔

    1942ء میں انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کیا اور تقریباً اسی زمانے میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز حیدرآباد دکن سے ہی ہوا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں مختلف اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز، انجام، جنگ، حریت اور مساوات شامل تھے۔ انھوں نے ایک ہفت روزہ بھی عوامی عدالت کے نام سے جاری کیا۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے روزنامہ مساوات کے مدیر بھی رہے جو مارشل لاء کے زمانے میں زیرِ عتاب آگیا۔

    ابراہیم جلیس ایک بہت اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے سنجیدہ و فکاہیہ مضامین تحریر کیے اور کالم لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان کا طنز و مزاح اور فکاہیے بہت پسند کیے گئے۔ ابراہیم جلیس نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں زرد چہرے، چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابل ذکر ہیں۔

    ابراہیم جلیس کو حکومتِ پاکستان نے بعدازمرگ تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • پروفیسر آرنلڈ کی مشہور کتاب پریچنگ آف اسلام کے مترجم عنایتُ اللہ دہلوی کا تذکرہ

    پروفیسر آرنلڈ کی مشہور کتاب پریچنگ آف اسلام کے مترجم عنایتُ اللہ دہلوی کا تذکرہ

    عنایت اللہ دہلوی اردو زبان کے معروف مصنّف، ناول نگار، ڈراما نویس، مترجم اور افسانہ نگار تھے۔ انھیں اردو کا بہترین مترجم مانا جاتا ہے۔

    عنایت اللہ دہلوی کا سنِ پیدائش 1869ء ہے۔ وہ دہلی کے محلہ قاضی واڑہ میں مشہور مترجم، انشا پرداز و مؤرخ مولوی ذکاء اللہ دہلوی کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دہلی میں ایک اتالیق سے حاصل کی اور بعد میں گورنمنٹ اسکول اور عربک اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ تیسری جماعت میں تھے جب والد انھیں اپنے ساتھ الٰہ آباد لے گئے۔ اس سفر میں عنایت اللہ کو پہلی بار سر سید احمد خان سے ملاقات کا موقع میسر آیا جو ان کے والد کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔

    الٰہ آباد میں 1880ء تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج علی گڑھ کے اسکول میں داخل لیا۔ یہاں سے 1885ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1887ء میں ایف اے اور 1891ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بی اے کے بعد مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور دہلی لوٹ آئے۔

    علی گڑھ میں تعلیم کے دوران میں سر سید کی توجہ کا مرکز رہے اور ان کی راہ نمائی اور شفقت حاصل رہی جس نے انھیں پڑھنے اور لکھنے پر آمادہ کیے رکھا۔ 1892ء میں سرسید کی فرمائش پر ابو ریحان البیرونی کی مختصر سوانح عمری لکھ کر تصنیفی کام کا آغاز کیا اور سر سید سے داد پائی۔

    1893ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے اور سرسید نے کالج کی لائبریری کا انتظام ان کے سپرد کیا۔ وہ کچھ عرصے کالج میں ریاضی کے اعزازی پروفیسر بھی رہے، اس کے بعد دہلی چلے آئے۔ 1894ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے جہاں سر سید کے ماہنامہ تہذیبُ الاخلاق کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1897ء میں سر سید کی ایما پر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام کا دعوتِ اسلام کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جس کے کئی باب سر سید نے سنے اور داد دی۔

    1901ء سے انھوں نے باقاعدہ ملازمت کا آغاز کیا اور ڈسٹرکٹ و سیشن جج جون پور کے منصرم (یعنی چیف سپرٹینڈنٹ) مقرر ہوئے۔ اس ملازمت کے طفیل متعدد شہروں میں تبادلہ اور وہاں قیام کا موقع ملا۔

    دار الترجمہ حیدرآباد(دکن) کے قیام کے بعد 20 جنوری 1921ء کو وہ سر راس مسعود اور سر اکبر حیدری کی کوششوں سے دکن آ گئے اور ناظم دارُ الترجمہ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ اس عہدے پر تقریباً 14 سال تک فائز رہے۔

    اردو کے اس محسن کی تصانیف و تراجم کی تعداد 57 کے قریب ہے۔ ان میں تذکرہ ابو ریحان البیرونی، خوابِ پریشاں، امپیریل رول ان انڈیا، دعوتِ اسلام، انگریزی نظائر قانون کا ترجمہ، جاپان کا تعلیمی نظم و نسق، صلاح الدین اعظم، یونانی شہنشاہیت، عرب قدیم کا تمدن، تاریخِ ادبیات عرب، چنگیز خان، امیر تیمور، عبرت نامہ اندلس، تاریخ مغل، اندلس کا تاریخی جغرافیہ، سلامبو، تائیس، نجم السحر وغیرہ شامل ہیں۔

    عنایت اللہ دہلوی نے 24 اکتوبر 1943ء کو برطانوی ہند کے شہر ڈیرہ دون میں انتقال کیا۔

  • خواجہ ناظم الدّین: اعلیٰ ترین حکومتی مناصب سے بے سروسامانی تک

    خواجہ ناظم الدّین: اعلیٰ ترین حکومتی مناصب سے بے سروسامانی تک

    خواجہ ناظم الدین تحریکِ پاکستان اور قائدِ اعظم کے مخلص اور قریبی ساتھی تھے جو قیامِ پاکستان کے بعد اعلیٰ حکومتی منصب پر فائز ہوئے اور ایک شریف النفس اور ایمان دار سیاست دان کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

    قیام پاکستان کے بعد سیاست کے میدان میں اپنی مخالفت، سازشوں اور اختیارات کی رسہ کشی نے انھیں سخت مایوس کیا۔ وہ 1964ء میں آج ہی کے دن حرکتِ قلب بند ہوجانے کی وجہ سے وفات پاگئے تھے۔

    پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ”رودادِ چمن“ میں لکھتے ہیں: ”خواجہ ناظم الدین مرحوم نے آڑے وقت میں قربانیاں دی تھیں۔ مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کی خدمت کی تھی۔ مثلاً جب ہندو اخبارات نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا تو اسی ناظم الدین نے اپنی جملہ آبائی جائیداد بیچ کر مسلمانوں کا انگریزی اخبار ”اسٹار آف انڈیا“ کلکتہ سے جاری کروایا تھا اور خود قلاش بن کر بیٹھ گیا تھا۔ قربانی کے ایک ایسے مجسمے کو کس طرح بے آبرو کر کے ہمیشہ کے لیے سیاست سے نکال دیا گیا۔

    ان کو ایسے وقت خلافِ قانون اور خلافِ شرافت پرائم منسٹری سے ڈسمس کیا گیا، جب وہ ہنوز مسلم لیگ پارٹی کے سربراہ تھے اور پارٹی کا مکمل اعتماد ان کو حاصل تھا۔ ڈسمس ہو جانے کے بعد اس معصوم انسان کے پاس نہ رہنے کا گھر اور نہ معاش کا کوئی ذریعہ رہا۔ عارضی طور پر کراچی کے ایک مخیر شخص نے ان کی خستہ حالی پر رحم کھا کر ان کو سر چھپانے کے لیے ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے کر دے دیا۔

    میں جب سندھ کا ریونیو وزیر بنا تو وہ میرے پاس درخواست لے کر آئے کہ ان کو سندھ میں زمین کا تھوڑا سا غیر آباد ٹکڑا دیا جائے، جہاں وہ مرغ بانی کر کے فاقہ کشی سے بچنے کا بندوبست کر سکیں۔ زمین تو میں نے دے دی مگر مرغی خانہ نہ بن سکا، مجبوراً دربدر خاک بسر وہ اپنا یہ حال لے کر ڈھاکہ پہنچے اور وہاں پاکستان کے دوست اور دشمن قائد اعظم کے اس قریبی ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ آخر ان کا دل ٹوٹ گیا اور وہ اپنی کہانی لے کر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوگئے۔ جس ملک کو بنانے میں ناظم الدین نے نمایاں حصہ لیا تھا۔ اس میں ان کے لیے کوئی جگہ نہ نکل سکی۔“

    خواجہ ناظم الدین جدوجہدِ آزادی کے ممتاز راہ نما اور قائد اعظم محمد علی جناح کے بااعتماد ساتھی تھے۔ وہ ڈھاکا میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر سیاسی میدان میں قدم رکھا۔

    وہ ڈھاکا میونسپل کمیٹی کے چیئرمین، مجلس دستور ساز بنگال کے رکن اور متحدہ بنگال کے وزیر تعلیم، وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ کے مناصب پر فائز رہے۔

    1937ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور پھر تاعمر اسی جماعت سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ اور قائد اعظم کی وفات کے بعد گورنر جنرل بنے، لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد انھیں پاکستان کا وزیرِ اعظم بنایا گیا، لیکن 1953ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے انھیں غیر آئینی طور پر برطرف کردیا اور وہ دلبرداشتہ ہوکر سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔

  • کنگ آف رومانس یش چوپڑا کا تذکرہ

    کنگ آف رومانس یش چوپڑا کا تذکرہ

    یش چوپڑا بالی وڈ میں ’کنگ آف رومانس‘ مشہور تھے۔ اس معروف ہدایت کار نے شائقینِ سنیما کو زندگی سے بھرپور فلمیں دیں اور اپنے فن اور صلاحیتوں سے انڈسٹری میں نام کمایا۔ یش چوپڑا آج ہی کے دن 2012ء میں ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    یش چوپڑا ڈینگی بخار میں مبتلا تھے اور اسپتال میں زیرِ علاج تھے، لیکن وائرس نے ان کی زندگی بچانے کی ہر کوشش ناکام بنا دی۔

    یش چوپڑا کا فلمی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ جس میں انھوں نے شائقین کو ’’دیوار‘‘، ’’چاندنی‘‘، ’’سلسلہ‘‘ اور ’’ڈر‘‘ جیسی مقبول فلمیں دیں۔

    وہ 1932ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے آئی ایس جوہر اور اپنے بڑے بھائی بی آر چوپڑا کے اسسٹنٹ کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی فلم ’دھول کا پھول‘ 1959ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ یش چوپڑا نے 1973ء میں اپنی فلم کمپنی ’یش راج‘ فلمز بنائی جس کے بعد انھوں نے امیتابھ بچن کے ساتھ بالی وڈ کی کام یاب ترین فلمیں ’دیوار‘، ’کبھی کبھی‘ اور ’ترشول‘ بنائیں۔

    ’سلسلہ‘، ’مشعل‘، ’چاندنی‘ اور ’لمحے‘ ان کی وہ کام یاب ترین فلمیں تھیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ منفرد اور رجحان ساز فلمیں ہیں۔

    یش چوپڑا کو 6 نیشنل فلم ایوارڈ اور 11 فلم فیئر دیے گئے جن میں بہترین ہدایت کار کے 4 ایوارڈ انھوں نے اپنے نام کیے تھے۔ بھارتی حکومت نے یش چوپڑا کو دادا صاحب پھالکے اور پدم بھوشن اعزازات سے نوازا تھا۔

    بالی وڈ کے اس ہدایت کی رومانوی فلموں کی خاصیت ان کے منفرد گیت، موسیقی اور رقص ہے۔ ہدایت کار نے اپنی فلموں میں سماجی مسائل کو بھی اجاگر کیا۔

  • ماہر موسیقار اور گلوکار استاد مبارک علی خان کی برسی

    ماہر موسیقار اور گلوکار استاد مبارک علی خان کی برسی

    استاد مبارک علی خان پاکستان کے نام وَر موسیقار اور گلوکار تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 21 اکتوبر 1957ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    مبارک علی خان کا گھرانا موسیقی اور گائیکی کے لیے مشہور تھا۔ ان کا تعلق لاہور سے تھا جہاں انھوں نے 1917ء میں آنکھ کھولی۔ وہ استاد علی بخش خان کے فرزند اور استاد برکت علی خان اور استاد بڑے غلام علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔

    مبارک علی خان نے 1938ء میں فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی، لیکن سفر کے آغاز پر انھوں نے گلوکار ہی نہیں بلکہ اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کو آزماتے ہوئے بطور ہیرو بھی کام کیا تھا۔ یہ مہارانی اور سوہنی کمہارن نامی فلمیں تھیں جو انڈسٹری میں ان کا تعارف ثابت ہوئیں۔

    قیام پاکستان کے بعد استاد مبارک علی خان کو فلم دو آنسو اور شالیمار کی موسیقی بھی ترتیب دینے کا موقع ملا۔ وہ موسیقی میں اپنے والد استاد علی بخش خان، بڑے بھائی استاد بڑے غلام علی خان اور استاد سردار خان دہلی والے کے شاگرد رہے۔

    استاد مبارک علی خان نے اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے بعد سیکڑوں لوگوں کو موسیقی کی تعلیم دی اور فن کاروں کو موسیقی اور گائیکی کی تربیت دی۔ انھوں نے کلاسیکل، دھرپد، خیال، دادرا، ٹھمری، غزل اور گیت میں اپنے فن کو منوایا۔

    استاد مبارک علی خان لاہورمیں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: ‘آنگن ٹیڑھا’ کے ‘اکبر’ نے سلیم ناصر کو لازوال شہرت عطا کی

    یومِ‌ وفات: ‘آنگن ٹیڑھا’ کے ‘اکبر’ نے سلیم ناصر کو لازوال شہرت عطا کی

    ٹیلی ویژن ڈراموں میں اپنی لاجواب اداکاری کی بدولت ناظرین میں مقبول ہونے والے سلیم ناصر 19 اکتوبر 1989ء کو دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    سلیم ناصر نے 15 نومبر 1944ء کو بھارت کے شہر ناگپور میں آنکھ کھولی اور قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آگئے۔

    سلیم ناصر نے اپنی فنی زندگی کا آغاز پاکستان ٹیلی وژن کے لاہور مرکز کے ایک ڈرامے ’’لیمپ پوسٹ‘‘ سے کیا تھا۔ کراچی میں مستقل رہائش کے بعد انھوں نے چھوٹی اسکرین پر مختلف کردار نبھائے جن میں ان کے سنجیدہ اور مزاحیہ انداز کو ناظرین نے بے حد پسند کیا۔ انھوں نے اپنے وقت کے مقبول ڈراموں دستک، نشان حیدر، آخری چٹان، یانصیب کلینک، بندش اور ان کہی میں کام کیا جب کہ انور مقصود کا تحریر کردہ آنگن ٹیڑھا وہ ڈرامہ تھا جس نے انھیں امر کردیا۔ اس میں انھوں نے اکبر کا کردار نبھایا تھا جس کے مزاحیہ مکالمے اور سلیم ناصر کا مخصوص انداز بے انتہا پسند کیا گیا۔

    سلیم ناصر نے فلم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انھیں حسن کارکردگی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • بابائے ایجادات کا تذکرہ تھامس ایلو ایڈیسن جنھیں مخالفت اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا

    بابائے ایجادات کا تذکرہ تھامس ایلو ایڈیسن جنھیں مخالفت اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا

    تھامس ایلوا ایڈیسن کو عموماً بابائے ایجادات کہا جاتا ہے۔ اس عظیم امریکی سائنس دان کا سنِ پیدائش 1847ء ہے جو زندگی کی 84 بہاریں دیکھنے کے بعد 1931ء آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا تھا۔

    آج کی طرح ایڈیسن کے زمانے میں نہ تو خبر رسانی کے ذرایع ایسے تھے کہ کسی کارنامے کی سیکنڈوں میں دنیا کو خبر ہوجائے اور نہ ہی مستند معلومات کا حصول سہل تھا۔ کوئی خبر، اطلاع، اعلان یا کسی بھی واقعے کے بارے میں‌ لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتے۔ اس طرح مبالغہ آرائی، جھوٹ یا غلط فہمی بھی پیدا ہوجاتی تھی۔ ایسا ہی کچھ ایڈیسن کے ساتھ بھی ہوا اور اس کی ایجادات، سائنسی تھیوری یا اکثر کارناموں پر اسے حاسدین کی مخالفت کے ساتھ لعن طعن بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس پر الزام لگا کہ وہ دوسروں کی سائنسی نظریات اور ان کی تحقیق و تجربات سے فائدہ اٹھا رہا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلب ایڈیسن کی ایجاد نہیں تھا بلکہ اس نے ہمفرے ڈیوی کے خیالات اور آئیڈیا پر کام کر کے ایک تجربہ کیا اور بلب ایجاد کرلیا۔ تاہم اسے اوّلین برقی قمقمے کا موجد مانا جاتا ہے۔

    تھامس ایڈیسن ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس خاندان کے آمدنی کے ذرائع محدود تھے جس میں تھامس اور اس کے 8 بہن بھائیوں کی پرورش مشکل تھی۔ اس کے باوجود اس کی والدہ نے جو ایک اسکول میں استانی تھیں، اپنے بچّوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔

    یہ عجیب بات ہے، مگر اس زمانے کے اکثر سائنس داں اور اہم اشیا اور قابلِ ذکر ایجادات کے لیے مشہور شخصیات کسی نہ کسی بیماری یا جسمانی معذوری کا شکار رہی ہیں۔ ایڈیسن کو بھی 8 برس کی عمر میں تیز بخار ہوا جس سے ان کے دونوں کانوں کی سماعت متاثر ہوئی اور چند برس میں وہ کچھ بھی سننے کے قابل نہیں رہا۔ ایڈیسن کو بچپن سے سائنسی تجربات کا بہت شوق تھا۔

    وہ بارہ سال کا ہوا تو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریل گاڑی میں کتابیں بیچنے کا کام کرنے لگا۔ اس نے کچھ عرصہ بعد اسی ڈبے میں ایک چھوٹا سا کیبن بنا لیا، اور بعد میں اسی جگہ کو ایک لیبارٹری میں تبدیل کرکے برقی کام شروع کردیا۔ اس نے اپنی ذہانت اور شوق و لگن سے کچھ ایسے تجربات کیے جنھوں نے اسے موجد بنا دیا۔

    ایڈیسن نے آٹومیٹک ٹیلگراف کے لیے ٹرانسمیٹر ریسور ایجاد کیا اور اس اثنا میں چند مزید چھوٹی ایجادات کیں جن سے اسے خاصی آمدنی ہوئی۔ بعد میں وہ ایک ذاتی تجربہ گاہ بنا کر سائنسی تجربات اور ایجادات میں‌ مصروف ہوگیا جن میں فونو گراف (جس نے آگے چل کر گرامو فون کی شکل اختیار کی) بلب، میگا فون، سنیما مشین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

    اس امریکی موجد کو 1915ء میں نوبل پرائز بھی ملا۔ بچپن سے تنگی اور عسرت دیکھنے کے علاوہ بیماری کا شکار ہوجانے کے باوجود ایڈیسن نے ہمّت نہ ہاری اور آج اس کا شمار انیسویں صدی کے بہترین موجد کے طور پر کیا جاتا ہے۔