Tag: اکتوبر وفیات

  • بابائے فطرت استاد اللہ بخش کی برسی

    بابائے فطرت استاد اللہ بخش کی برسی

    استاد اللہ بخش کو بابائے فطرت اور ثقافتی مصوّر بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے اس نام وَر مصوّر کی زندگی کے اوراق 1978ء میں آج ہی کے دن بے رنگ ہوگئے تھے۔

    استاد اللہ بخش کو ماڈرن لینڈ اسکیپ اور تشبیہی نقّاشی (Figurative painting) کا ماہر جانا جاتا ہے۔ وہ انتہائی باصلاحیت تھے اور فنِ مصوّری میں مہارت و کمال ان کی توجہ، دل چسپی اور ریاضت و مشق کا نتیجہ تھا۔ البتہ مصوّری میں بنیادی تعلیم منی ایچر پینٹنگ کے ماہر استاد عبد اللہ سے حاصل کی تھی۔

    ابتدائی عمر میں انھوں نے تشہیری بورڈ پینٹ کرنے کا کام کیا تھا اور بعد میں بمبئی، کلکتہ میں مختلف اداروں سے وابستہ رہے اور پینٹنگ اور سینری بنانے کا کام کرتے رہے۔ اس طرح انھوں نے رنگوں اور برش کو سمجھا اور تجربہ حاصل کیا۔ لاہور لوٹنے پر ایک اخبار میں کمرشل آرٹسٹ کے طور پر کام کرنا شروع کردیا اور پھر ایک مصوّر کی حیثیت سے پنجاب کی دیہاتی زندگی اور ثقافت کو کینوس پر اتارنے کا وہ سلسلہ شروع کیا جس نے انھیں دنیا بھر میں شہرت دی۔

    انھوں نے پنجاب کی رومانی داستانوں کے لافانی کرداروں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں کو اپنے مصوّرانہ تخیل سے چار چاند لگا دیے۔

    استاد اللہ بخش وزیر آباد میں 1895ء میں پیدا ہوئے تھے۔ استاد اللہ بخش کے والد کرم دین محکمہ ریلوے کی ورک شاپ میں رنگ ساز تھے اور ریل گاڑیوں پر رنگ کیا کرتے تھے، اور اس طرح وہ شروع ہی سے رنگ اور برش سے واقف تھے۔ وہ قدرتی مناظر اور دیہات کے سادہ اور روایتی ماحول میں‌ پلے بڑھے جس کی کشش نے انھیں فن کار بنا دیا۔

    وہ آبی، روغنی ، ٹیمپرا اور پوسٹر رنگوں کے علاوہ چاک وغیرہ میں بھی بڑی مہارت سے کام کرتے تھے۔ پنجاب کے دیہات کی روزمرّہ زندگی کی تصویر کشی کے علاوہ انھوں نے زرخیز میدانی علاقوں اور وہاں کی لوک داستانوں کو اپنے فن میں پیش کیا۔ ان کی حقیقت سے قریب تر پینٹنگز رنگوں، زندگی اور جیتے جاگتے لوگوں سے بھرپور تھیں، جس نے دیکھنے والوں کو بہت متاثر کیا۔

    1919ء میں انھیں شملہ فائن آرٹس سوسائٹی کی جانب سے انعام سے نوازا گیا تھا اور اخبارات نے انھیں بمبئی کا ماسٹر پینٹر کہا، مگر اس حوصلہ افزائی کے باوجود وہ سب کچھ چھوڑ کر لاہور واپس آگئے۔ وہ سیلانی طبیعت کے سبب کسی ایک جگہ جم کر کام نہیں کر پائے۔ 1924ء میں مہاراجہ جموں کشمیر نے انھیں کورٹ پینٹر کی ملازمت کی پیشکش کی، جہاں وہ تقریباً 1938ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے بہت سی تصاویر بنائیں اور 1928ء میں ممبئی میں ہونے والی تصویری نمائش میں ان کے ایک شاہ کار کو اوّل انعام دیا گیا۔ لوگ ان کے فن پاروں سے بہت متاثرہوئے اور ان کا کام مشہور مصوّروں میں زیرِ بحث آیا۔

    استاد اللہ بخش کے لاہور میوزیم میں کئی فن پارے رکھے گئے ہیں جو شائقین کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔

    استاد اللہ بخش کو حکومت پاکستان کی طرف سے ’تمغہ حسن کارکردگی‘ سے نوازا گیا تھا۔

  • چارلس ببیج کا پہلا میکانی کمپیوٹر جو الیکٹرونک کمپیوٹر کی بنیاد بنا

    چارلس ببیج کا پہلا میکانی کمپیوٹر جو الیکٹرونک کمپیوٹر کی بنیاد بنا

    چارلس ببیج (Charles Babbage) کو فادر آف کمپیوٹر تصوّر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک موجد اور میکانی مہندس ہی نہیں‌ ریاضی دان اور فلسفی بھی مشہور تھا۔

    26 دسمبر 1791ء لندن کے ایک قصبے میں‌ آنکھ کھولنے والے چارلس ببیج 18 اکتوبر 1871ء کو وفات پا گیا تھا۔ چارلس ببیج نے ڈیجیٹل پروگرام ایبل کمپیوٹر(programmable computer) كا تصوّر پیش کرکے شہرت حاصل کی۔ اس نے پہلا میکانی کمپیوٹر ایجاد کیا تھا جو الیکٹرونک کمپیوٹر کی بنیاد بنا۔

    ماہرین کے مطابق جدید کمپیوٹر کا تصوّر دراصل اسی سائنس دان اور موجد کے اینالیٹکل انجن کے مطابق ہے۔

    چارلس کی زندگی کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہو گاکہ وہ لندن کے ایک بینک کار اور امیر آدمی کا بیٹا تھا جس کی ابتدائی تعلیم اعلیٰ‌ درجے کے اسکولوں میں ہوئی۔ وہ تقریباً آٹھ سال کا تھا جب ایک خطرناک بخار کی وجہ سے اس کی تدریس کا عمل متاثر ہوا۔ اسے گھر پر پڑھنے کا مشورہ دیا گیا۔ اسی عرصے میں اس کا وقت ایک بڑی لائبریری میں گزرا جہاں اس کی توجہ اور دل چسپی ریاضی کے مضمون میں بڑھ گئی۔ وہ ایک زبردست ریاضی دان تو بن گیا، لیکن سند یافتہ نہیں تھا۔ 1814ء میں اس نے بغیر امتحان کے ایک اعزازی ڈگری حاصل کرلی۔

    ببیج کی محنت اور اپنے مضمون میں‌ غور و فکر کا سلسلہ جاری رہا اور ایک وقت آیا جب وہ مصنوع و ایجاد کے قابل ہوگیا۔ اس نے جس وقت ریاضی اور اعداد و شمار کے جدولوں كی تیّاری کا کام شروع کیا تو اس کے لیے معاوضے پر لوگوں کو رکھنا پڑا۔ لیکن ان جدولوں کی جانچ پڑتال پر کئی گھنٹے لگ جاتے اور تب بھی انسانی غلطیاں ختم کرنا آسان نہیں‌ ہوتا تھا، وہ جدول بنانے كے کام سے اکتا گیا اور ایک ایسی مشین بنانے کے بارے میں سوچنے لگا جو غلطی کے بغیر جدولوں كا حساب كرلے۔

    1822ء میں اس سائنس دان نے ڈفرینشل انجن تیّار کر لیا جو قابلِ اعتماد جدول بنا سکتا تھا۔ 1842ء میں اس نے اینالیٹکل انجن کا خیال پیش کیا، جو فی منٹ 60 اضافے کی اوسط رفتار سے ریاضی کے کسی بھی مسئلے کے لیے حساب کے افعال کو مکمل طور پر خود کار طریقے سے انجام دے سکے۔ بدقسمتی یہ تھی کہ وہ اس مشین کا قابلِ عمل نمونہ تیار نہیں کرسکتے تھے۔ تاہم اس کے ان مفروضوں اور تصوّرات کو اہم مانا جاتا ہے۔

  • نبَّاضِ دوراں حکیم محمد سعید کا تذکرہ

    نبَّاضِ دوراں حکیم محمد سعید کا تذکرہ

    یہ اُس مسیحا کا تذکرہ ہے جس نے وطنِ عزیز میں مستقبل کے معماروں کی کردار سازی کو اپنا فرض جانا، جس نے محسوس کیا کہ قوم کے نونہالوں کی ذہنی تربیت اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی راہ نمائی ضروری ہے اور اس مقصد کی تکیمل کے لیے ’’ہمدرد نونہال‘‘ کا آغاز کیا۔ یہ مسیحا اور قوم کا درد رکھنے والے حکیم محمد سعید تھے۔

    1998ء میں آج ہی کے دن احسان فراموشی اور بدنصیبی کا آسیب اس شجرِ سایہ دار کو نگل گیا تھا۔ حکیم محمد سعید کے قتل کی خبر آن کی آن میں ہر طرف پھیل گئی۔ وہ صوبہ سندھ کے گورنر بھی رہے۔

    پاکستان کے نام وَر طبیب اور ادویّہ سازی کے مستند اور مشہور ادارے ’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ کے بانی سربراہ کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    9 جنوری 1920ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر دلّی میں آنکھ کھولنے والے حکیم سعید طبِ مشرق سے وابستہ گھرانے کے فرد تھے۔ ان کے والد نے 1906ء میں دلّی میں طب و حکمت کا ادارہ ’ہمدرد دواخانہ‘ قائم کیا تھا۔

    حکیم سعید نے ابتدائی تعلیم کے دوران عربی، فارسی، اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور 18 برس کی عمر میں دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ انھوں نے فارمیسی میں گریجویشن اور علم الادویّہ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942ء میں اپنا خاندانی کام سنبھالا اور ہمدرد وقف لیبارٹریز سے منسلک ہوگئے۔

    1945ء میں انھوں نے فارمیسی میں ماسٹرز بھی کرلیا۔ اسی برس ان کی شادی نعمت بیگم سے ہوگئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد حکیم محمد سعید اپنے کنبے کے ساتھ کراچی چلے آئے اور یہاں ’ہمدرد پاکستان‘ کی بنیاد رکھی۔

    انھوں نے 1952ء میں انقرہ یونیورسٹی، ترکی سے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ کی اور وطن واپس آکر سندھ یونیورسٹی میں پروفیسر آف فارمیسی کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ بعد ازاں وہ مستعفی ہو گئے۔

    ان کے قائم کردہ ادارے کے زیرِ اہتمام 1985ء میں یونیورسٹی قائم کی گئی جس کے وہ پہلے چانسلر مقرر ہوئے۔ بعد میں انھوں نے مدینۃُ الحکمت کی بنیاد رکھی۔ طبّ و حکمت کے ساتھ وہ ان تعلیمی اداروں کے معاملات دیکھتے ہوئے علم و ادب سے بھی وابستہ رہے۔ انھوں نے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں طب و حکمت سے متعلق تعلیمی سرگرمیوں میں‌ حصّہ لیا اور پروگراموں میں‌ شرکت کرتے رہے۔

    حکیم سعید اردو اور انگریزی کی دو سو کے قریب کتابوں کے مصنّف تھے جب کہ نونہال بچّوں کا وہ مقبول رسالہ تھا جس کے بانی حکیم سعید نے بلاشبہ دو نسلوں کو نہ صرف لکھنا پڑھنا سکھایا، بلکہ ان کو غور و فکر کی عادت ڈالی، دین و دنیا کی تعلیم کا ذوق و شوق پروان چڑھایا، اخلاق و آدابِ معاشرت سکھائے اور اس رسالے نے ادبِ‌ اطفال کے ساتھ اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں 1966ء میں ’ستارۂ امتیاز‘ اور بعد از مرگ ’نشانِ امتیاز‘ سے نوازا۔

  • یومِ وفات:‌حمید اختر کا تذکرہ جنھوں نے "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹی

    یومِ وفات:‌حمید اختر کا تذکرہ جنھوں نے "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹی

    دراز قد اور خوب رُو حمید اختر کی آواز بھی جان دار تھی۔ انھیں اداکاری کا شوق ہوا تو قسمت آزمانے بمبئی کی فلم نگری کا رخ کیا جہاں انھیں کسی طرح ’آزادی کی راہ پر‘ نامی ایک فلم میں سائیڈ ہیرو کا رول بھی مل گیا، لیکن یہ سفر یہیں تمام ہوا اور حمید اختر نے ایک صحافی، ادیب، فلم ساز اور ترقی پسند تحریک کے کارکن کی حیثیت سے نام و مقام بنایا۔

    آج حمید اختر کا یومِ وفات ہے۔ 2011ء میں ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔

    1924ء میں ضلع لدھیانہ میں پیدا ہونے والے حمید اختر مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے بچپن کے دوست تھے۔ انھیں نوجوانی میں اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر ابن انشاء کی رفاقت بھی نصیب ہوئی اور یوں فکروفن اور علم و ادب سے تعلق گہرا ہوتا چلا گیا۔ اسی ذوق و شوق اور ترقی پسند رجحانات نے حمید اختر کو انجمن ترقی پسند مصنفیں سے ناتا جوڑنے پر آمادہ کر لیا۔

    جن دنوں وہ بمبئی میں مقیم تھے، وہاں انھیں کرشن چندر، سجاد ظہیر، سبطِ حسن اور ابراہیم جلیس جیسے ترقی پسندوں سے ملنے کا موقع ملا اور بعد میں ان سے گہری شناسائی ہوگئی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد حمید اختر پاکستان آئے جہاں ان دنوں اشتراکی فکر کے حامل دانش وروں پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ حمید اختر بھی گرفتار ہوئے اور دو سال کے لیے زنداں میں رہنا پڑا۔

    ’کال کوٹھڑی‘ حمید اختر کے انہی ایامِ اسیری کی روداد ہے۔ 1970ء میں انھوں نے آئی اے رحمان اور عبداللہ ملک کے ساتھ مل کر روزنامہ ’آزاد‘ جاری کیا جو بائیں بازو کے آزاد خیال گروپ کا ترجمان تھا۔ یہ اخبار بعد میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کے بعد بند ہوگیا۔

    حمید اختر نے اپنے ترقی پسند ساتھیوں کے خاکے بھی احوالِ دوستاں کے نام سے لکھے ہیں۔ ان کی اسیری کے دنوں کی ایک یاد ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    ” ایک روز میں تنہائی سے تنگ آکر بوکھلا گیا، شام کو ڈپٹی صاحب آئے تو میں نے ان سے کہا، ”جناب عالی! میں اس تنہائی سے پاگل ہو جاﺅں گا۔ میں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا، میرے وارنٹ پر قیدِ تنہائی کی سزا نہیں لکھی۔ مجھے سیفٹی ایکٹ میں نظر بند کرنے کا وارنٹ ہے، قیدِ تنہائی میں ڈالنے کے لیے نہیں لکھا ہوا، اگر مجھے مارنا ہی ہے تو ایک ہی دن مار کر قصہ ختم کر دیجیے۔

    ڈپٹی صاحب نے بہت سوچ بچار کے بعد بظاہر ہمدردانہ لہجے میں کہا: ” تمہارے وارنٹ پر تنہائی کی قید نہیں لکھی ہوئی، مگر تمہاری تنہائی آٹو میٹک قسم کی ہے، کیونکہ نظر بندوں کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انھیں دوسرے قیدیوں سے نہ ملنے دیا جائے، اب کوئی اور سیاسی قیدی آجائے تو اسے تمہارے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

    میں نے کہا: ”خدا کے لیے کسی اور کو گرفتار کرائیے یہ اہلِ ملتان اس قدر مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں؟ کوئی صاحبِ دل اس شہر میں ایسا نہیں ہے کہ جو ایک تقریر کر کے گرفتار ہو جائے۔ مولوی مودودی کے کسی چیلے کو ہی پکڑ لائیے، کوئی انسان تو ہو جس سے بات کر سکوں، مگر افسوس کہ نہ ڈپٹی صاحب میری بات مانے اور نہ ملتان شہر نے کوئی ایسا صاحبِ دل پیدا کیا۔

  • بے باک رقاصہ اور بہادر جاسوس ماتا ہری کے درد ناک انجام کی کہانی

    بے باک رقاصہ اور بہادر جاسوس ماتا ہری کے درد ناک انجام کی کہانی

    کہتے‌ ہیں ماتا ہری نے ایک زمانے میں یورپ کے دارالحکومتوں کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا تھا۔ کیا وزیر، مشیر، امرا و صنعت کار اور جنرل سبھی اس کے دیوانے تھے۔ وہ رقص میں بے بدل اور اپنے زمانے کی سلیبرٹی تھی۔

    حسین و جمیل ماتا ہری کو رجھانے کا فن آتا تھا۔ وہ نیم عریاں رقص کے لیے مشہور تھی۔ اس نے سبھی کو اپنی اداؤں سے مار رکھا تھا۔ دولت اور ہر قسم کی آسائش اس کے قدموں میں تھی۔ رقص کی ماہر اور بے باک ماتا ہری کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران جاسوسہ اور ڈبل ایجنٹ بن کر کام کرنا پڑا اور یہی اس کی موت کی وجہ بنا۔

    گرفتاری اور ‘الزامات’ ثابت ہونے کے بعد 15 اکتوبر 1917ء کو اس کی موت کی سزا پر عمل کرتے ہوئے شوٹ کردیا گیا۔ مشہور ہے کہ ماتا ہری نے فائرنگ اسکواڈ کو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے منع کردیا تھا۔

    وہ نیدر لینڈز میں کے شہر لیووارڈن میں‌ پیدا ہوئی۔ مخلوط النسل مارگریٹ زیلے کا سنِ پیدائش 1876ء ہے جو ماتا ہری کے نام سے معروف ہے۔ یہ انڈونیشیائی زبان سے آیا ہوا نام تھا جہاں وہ کم عمری میں شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ مقیم تھی۔ اس کی یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور وہ رشتہ ختم کرکے فرانس چلی گئی۔

    وہ ایک ولندیزی تاجر کی بیٹی تھی، جس نے ایک فوجی افسر سے اسے بیاہ دیا، لیکن 26 سال کی ماتا ہری یہ تعلق توڑ کر پیرس پہنچ گئی۔ وہاں پیٹ بھرنے کے لیے اس نے اپنے حسن اور اداؤں کا سہارا لیا اور ایک کلب میں رقص کرنے لگی۔ جلد ہی اس کے حسن و جمال اور نیم عریاں رقص کا یورپ بھر میں چرچا ہونے لگا۔ اور بعد کے برسوں میں‌ وہ باکمال رقاصہ کہلائی۔ لیکن چند سال بعد اس کی کشش نجانے کیوں ماند پڑ گئی۔ اس دوران اس کے مال و آسائش میں بھی کمی آئی اور وہ مقروض ہوگئی۔ اپنی زندگی کے اسی موڑ پر ماتا ہری نے جاسوسہ بننے کا فیصلہ کیا۔

    ایک جرمن سفارت کار نے اس کو فرانس کے راز جرمن حکومت کو فراہم کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔ ماتا ہری کو پیسے سے غرض تھی۔ وہ اب بھی اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ آسانی سے فرانس کے اعلیٰ حکام اور فوج کے افسران تک رسائی حاصل کرسکتی تھی۔

    یہ سلسلہ شروع ہوا تو ماتا ہری نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں سے بھی رقم بٹورنے کا سوچا اور خود کو جاسوسی کے کام کے لیے پیش کردیا۔ فرانسیسی حکام کو کسی وقت اس پر شبہ ہو چکا تھا کہ وہ جرمنوں کے لیے کام کررہی ہے۔ تاہم اسے متعدد مشن دیے گئے اور ساتھ ہی اس کی نگرانی بھی کی جانے لگی اور ایک دن اسے گرفتار کرلیا گیا۔

  • تحریکِ پاکستان کے نام وَر راہ نما راجا صاحب محمود آباد کا تذکرہ

    تحریکِ پاکستان کے نام وَر راہ نما راجا صاحب محمود آباد کا تذکرہ

    تحریکِ پاکستان کے نام ور راہ نما راجا امیر احمد خان المعروف راجا صاحب محمود آباد 1973ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    راجا صاحب کا شمار قائدِ اعظم کے رفیق اور تحریکِ‌ پاکستان کے ان عظیم راہ نماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے آزادی کے لیے عملی میدان میں نہ صرف اپنی تمام استعداد اور صلاحیتوں کو استعمال کیا بلکہ اپنی دولت بھی بے دریغ تحریکی کاموں پر خرچ کی۔

    وہ 5 نومبر 1914ء کو پیدا ہوئے تھے۔ راجا صاحب کوئی عام ہندوستانی نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق یو پی کے ایک حکم ران گھرانے سے تھا۔ ان کے والد مہا راجا سر محمد علی خان یو پی کی مشہور ریاست محمود آباد کے والی تھے۔ اسی گھرانے میں راجا صاحب نے آنکھ کھولی اور خاندانی ماحول پھر روپے پیسے کی فراوانی دیکھی، ان کی تعلیم و تربیت بڑے اچھے پیمانے پر ہوئی۔ انھوں نے اردو کے علاوہ انگریزی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل کیا۔

    23 مارچ 1931ء کو ان کے والد کی وفات کے بعد راجا امیر احمد خان محمود آباد کے والی بن گئے اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کے قومی مسائل کے حل کے لیے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں فعال حصہ لینے لگے۔

    اس زمانے میں مسلم لیگ کو جب کبھی مالی امداد کی ضرورت پڑی راجا صاحب نے سب سے پہلے بڑھ کر اس ضرورت کو پورا کیا۔ انھوں نے اپنی وسیع و عریض ریاست کی ساری آمدنی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے وقف کردی تھی۔

    1947ء میں جب پاکستان بنا تو راجا صاحب پاکستان چلے آئے۔ انھیں یہاں متعدد مرتبہ وزارت اور سفارتی عہدوں کی پیشکش ہوئی لیکن راجا صاحب نے ہمیشہ اس سے گریز کیا۔ وہ ایسے پُرخلوص، درویش صفت اور جاہ و منصب سے بے نیاز انسان تھے جس کی زندگی کا واحد مقصد تحریک اور آزادی رہا۔

    بعد میں راجا صاحب انگلستان چلے گئے جہاں وہ اسلامک ریسرچ سینٹر سے وابستہ تھے۔ انھوں نے لندن میں انتقال کیا اور مشہد میں سپردِ خاک کیے گئے۔

  • گلوکار کشور کمار کا تذکرہ جنھیں کئی سال تک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا

    گلوکار کشور کمار کا تذکرہ جنھیں کئی سال تک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا

    کشور ایک ایسے گلوکار تھے جو اپنے عہد میں ایک خوب صورت آواز بن کے ابھرے اور امر ہو گئے۔

    بالی وڈ کے گانوں کو اپنی آواز دینے والے مقبول ترین گلوکار کشور کمار 13 اکتوبر 1987ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    کشور کمار کے 70 اور 80 کی دہائی میں گائے گئے رومانوی گانے آج بھی ان کے مداحوں کی سماعتوں میں تازہ ہیں۔

    1946ء میں گلوکاری کی دنیا میں قدم رکھنے والے کشور کمار نے اپنے کریئر میں سیکڑوں گیت گائے۔ تاہم ممبئی کی فلمی صنعت میں بطور گلوکار اپنا سفر شروع کرنے اور اس وقت کی مشہور اور مقبول ترین آوازوں کے درمیان جگہ بنانے کے لیے انھیں‌ بہت محنت کرنا پڑی اور اس نگری میں انھیں عظیم موسیقاروں نے مسترد کردیا تھا۔

    یہ بھی حققیت ہے کہ وہ کلاسیکی گائیکی سے ناواقف تھے، لیکن پھر ان کی شہرت کا وہ سفر شروع ہوا جس میں انھوں نے کئی ایوارڈ اپنے نام کیے اور مقبولیت کی انتہا کو چھو لیا۔

    کشور بنگالی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام ابہاس کمار گنگولی تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1929ء تھا۔ ان کے بڑے بھائی فلمی دنیا کے معروف اداکار اشوک کمار تھے جن کی بدولت انھیں سب پہلے 1946ء میں فلم شکاری میں گیت گانے کا موقع ملا۔

    پلے بیک سنگنگ کے علاوہ کشور کمار نے متعدد فلموں میں اداکاری اور ہدایت کاری کے جوہر بھی دکھائے، کئی فلموں میں موسیقی بھی دی، گلوکاری میں مخصوص انداز سے یوڈیلینگ کرنا ان کا منفرد انداز تھا۔

    ان کے گائے ہوئے گانوں پر اپنے وقت کے سپر اسٹارز نے پرفارمنس دی اور نام کمایا۔ کشور کمار کو مجموعی طور پر 27 بار فلم فیئر کے بہترین گلوکار ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا اور آٹھ مرتبہ وہ اس ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔

    کلاسیکی موسیقی کی تربیت نہ ہونے کے باوجود انھوں نے سنہ 1981ء میں راگ شیورنجنی میں جس طرح ‘میرے نیناں ساون بھادوں…’ اور راگ یمن میں لطیف انداز میں ‘چُھو کر میرے من کو’ گایا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    ان کی آواز میں یہ مقبول ترین گانے آپ نے بھی سنے ہوں گے، ’میرا جیون کورا کاغذ، کورا ہی رہ گیا،‘ ’او ماجھی رے دریا کا دھارا،‘، ’بڑی سونی سونی ہے زندگی یہ زندگی۔‘

    اداکاری، گلوکاری اور ہدایت کاری کے علاوہ کشور کمار کو شاعری کا بھی شوق تھا۔ وہ ایک اچھے پینٹر اور آرٹسٹ بھی تھے۔

  • قاضی فیض محمد: سندھ کے سیاسی و سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کا تذکرہ

    قاضی فیض محمد: سندھ کے سیاسی و سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کا تذکرہ

    قاضی فیض محمد سندھ دھرتی کے وہ فرزند تھے، جو سیاسی و سماجی مسائل کی آگاہی اور تاریخ کا شعور رکھتے تھے اور انھوں نے متحدہ ہندوستان کے زمانے میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادب بھی تخلیق کیا۔

    قاضی فیض محمد نے اپنے دور میں معروف سیاست دانوں اور قوم پرست راہ نماؤں کے ساتھ مل کر ہاریوں، مزدوروں اور محنت کشوں سمیت معاشرے کے محروم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لیے جدوجہد میں حصّہ لیا۔ انھوں نے سندھ کے حقوق کے لیے ہر سیاسی پلیٹ فارم استعمال کیا۔

    23 نومبر 1908ء کو پیدا ہونے والے قاضی فیض‌ محمد کے نام اور ان کے کام سے‌ آج نوجوان نسل شاید ہی واقف ہو۔ وہ 13 اکتوبر 1982ء کو وفات پاگئے تھے۔

    صوبہ سندھ کے قاضی فیض محمد ضلع نوشہرو فیروز کی تحصیل محراب پور کے شہر ہالانی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ہالانی اور بعد میں خیرپور اور نوشہرو فیروز سے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے 1929ء میں میٹرک پاس کیا۔ 1940ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر کے نواب شاہ میں وکالت کا سلسلہ شروع کیا۔

    انھوں نے متعدد کتابیں لکھیں جن میں منھنجو خواب، دردن سندو داستان، منھنجو سفر اور دو ناول جنسار، انجان قابل ذکر ہے۔

    انھوں نے خاکسار تحریک سے وابستگی کے دوران ہی سندھ ہاری کمیٹی کے رکن بنے اور کئی سیاسی جماعتوں کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔ ان کی سیاسی بصیرت اور فکری وجدان نے انھیں سندھ کے قومی حقوق کے حصول کی جنگ کو اپنے واضح فکری اور نظریاتی رجحانات کے ساتھ پانچ دہائیوں تک سیاست میں متحرک و فعال رکھا۔

  • پاکستانی فلم صنعت کے باکمال ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    پاکستانی فلم صنعت کے باکمال ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    پاکستان کے نام وَر فلمی ہدایت کار انور کمال پاشا 1987ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ وہ ایک ادیب اور مترجم بھی جس نے فلم نگری سے مکالمے لکھ کر اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

    انور کمال پاشا کا تعلق لاہور کے ایک علمی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد حکیم محمد شجاع کا شمار اردو کے مشہور ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی کئی کہانیوں پر برصغیر کے باکمال ہدایت کاروں نے فلمیں بنائیں۔

    انور کمال پاشا کو اپنے والد کی وجہ سے شروع ہی سے اردو زبان و ادب کا بھی شوق رہا۔ انھوں نے مشہور ناول گڈ ارتھ کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    وہ سرکاری ملازمت چھوڑ کر فلمی دنیا میں آئے تھے اور یہاں فلم ’’شاہدہ‘‘ کے مکالمے لکھ کر انڈسٹری سے وابستہ ہوئے، اس کے بعد بطور ہدایت کار انور کمال پاشا نے اپنے والد کے ناول ’’باپ کا گناہ‘‘ پر ’’دو آنسو‘‘ نامی فلم بنائی۔ یہ 1950ء میں ریلیز ہوئی اور کام یاب ثابت ہوئی۔

    بعد میں انور کمال پاشا نے غلام، قاتل، سرفروش، چن ماہی اور انار کلی جیسی فلمیں بنائیں جنھیں زبردست کام یابی نصیب ہوئی۔ ان کی دیگر فلموں میں دلبر، رات کی بات، انتقام، گمراہ، لیلیٰ مجنوں شامل ہیں۔

    فلم انڈسٹری کے اس ہدایت کار کو ان کی فلم ’’وطن‘‘ کی کہانی کے لیے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1981ء میں انور کمال پاشا کو ان کی تیس سالہ فلمی خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • گرو دت کی کہانی جس نے موت کے بعد لازوال شہرت حاصل کی

    گرو دت کی کہانی جس نے موت کے بعد لازوال شہرت حاصل کی

    گرو دت کو زندگی میں جو شہرت نہ مل سکی وہ موت کے بعد اس کا مقدر بنی۔ انھوں نے خود کشی کرلی تھی۔ 10 اکتوبر 1964ء کی ایک صبح وہ اپنے بیڈ روم میں مردہ پائے گئے تھے۔

    1970ء کی دہائی میں گرو دت کو جیسے نئی زندگی مل گئی۔ ان کی فلموں کا چرچا ہونے لگا اور 1980ء میں ایک فرانسیسی محقق نے کی گرو دت پر ریسرچ شایع ہوئی تو اسے دنیا بھر میں‌ پہچان مل گئی۔ بعد کے برسوں میں گرودت کی فلمیں فرانس میں اور یورپ کے دیگر شہروں میں منعقدہ میلوں میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔

    وہ ہندوستان کے نام وَر اور باکمال ہدایت کار، فلم ساز اور اداکار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ بنگلور میں 9 جولائی 1925ء کو پیدا ہوئے۔

    گرو دت بیس برس کی عمر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے اور گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایت کاروں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی اوّلین تصور کی جانے والی فلم ’باز‘ سے پہلے تین فلمیں ’لاکھا رانی‘،’ ہم ایک ہی‘ اور’گرلز اسکول‘ بھی کی تھیں۔

    گرو دت کی بمبئی میں خود کشی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی تھی۔ دیو آنند، پرتھوی راج، نرگس اور مینا کماری، جانی واکر اور وحیدہ رحمان جیسے فن کار خبر ملتے ہی سب کام چھوڑ کر بمبئی پہنچ گئے۔ فلم نگری کا ہر چھوٹا بڑا فن کار، آرٹسٹ غم زدہ تھا۔ وہ 39 سال کے تھے جب اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

    1951ء میں فلم نگری نے کئی خوب صورت اور یادگار فلمیں‌ ریلیز کی تھیں جن میں گرو دت کی فلم بازی بھی تھی جس نے اچھا خاصا بزنس کیا اور محض 25 برس کی عمر میں انھیں ایک باکمال ہدایت کار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ انھوں نے اپنی فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور ایک باصلاحیت اداکار کے طور پر خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    اگلے سال انھوں نے فلم جال کی ہدایات دیں اور پھر آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، سی آی ڈی منظرِ عام پر آئی، جس میں گرو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا تھا جو اس ہدایت کار کی ذاتی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوا۔

    1953ء میں گرو دت معروف سنگر گیتا دت سے شادی کرچکے تھے اور ان کے دو بیٹے بھی تھے، لیکن وحیدہ رحمان کی وجہ سے اس کی خانگی زندگی میں گویا زہر گھل گیا۔

    گرو دت کی بیوی نے تنگ آکر الگ مکان لے لیا اور بچّوں کو لے کر وہاں چلی گئی۔ تب وحیدہ رحمان نے خود پر الزام آتا دیکھ کر گرو دت سے دوری اختیار کر لی اور یوں گرو دت بالکل تنہا رہ گئے۔

    اسی زمانے میں‌ گرو دت نے ایک فلم بنائی جو ناکام ہوگئی جس کا ہدایت کار کو شدید صدمہ ہوا۔ کہتے ہیں اس فلم کی ناکامی نے انھیں‌ توڑ کر رکھ دیا۔

    ایک روز انھوں نے وافر مقدار میں نیند کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی ختم کر لی۔