Tag: اکتوبر وفیات

  • شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اردو زبان و ادب میں اپنی شعری اور نثری تخلیقات کے علاوہ انھیں تدوین و تالیف، تراجم، تنقید اور ان کے تحقیقی کاموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    لسانیات اور اصطلاحات کے میدان میں ان کی وقیع و مستند کاوشوں نے انھیں ان کے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ آج شان الحق حقّی کا یومِ وفات ہے۔

    اردو زبان کی اس ممتاز شخصیت کا تعلق دہلی سے تھا جہاں انھوں نے 1917ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم دہلی ہی میں حاصل کی، سینٹ اسٹیفن کالج، علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے اور دہلی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے۔

    شان الحق حقّی کے علم و ادب ذوق و شوق نے انھیں لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں میں وہ مختلف رسائل و جرائد کے مدیر رہے، پاکستان میں محکمہ اطلاعات، اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی میں ملازمت کے دوران انھوں نے بڑا اہم کام کیا۔ ترقی اردو بورڈ (کراچی) اور مقتدرہ قومی زبان کے لیے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ وہ کثیراللسان محقق تھے۔

    اردو، عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، سنسکرت، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے جدید آکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری بھی مرتّب کی تھی۔

    تارِ پیراہن (منظومات)، نکتہ راز (مضامین)، خیابانِ پاک، نشیدِ حریت، اور انجان راہی آپ کی اہم کاوشیں ہیں۔ وہ ایک ایسے ادیب اور شاعر تھے جس نے متنوع اور ہمہ گیر تخلیقی کام کیا۔

    1958ء میں اردو لغت بورڈ کے قیام کے بعد آکسفورڈ انگریزی ڈکشنری کی طرز پر اردو کی ایک جامع لغت مرتب کرنے کا اہم کام ہونا تھا۔ اس میں تاریخی اصولوں پر اردو کے تمام الفاظ کو جمع کیا جانا تھا۔ بابائے اردو بورڈ کے پہلے چیف ایڈیٹر تھے اور ان کے سیکریٹری حقی صاحب تھے۔ انھوں نے کتابیں اور دیگر مواد جمع کرنے سے لے کر اسٹاف کی بھرتی تک تمام امور خوش اسلوبی، دل جمعی اور محنت سے سرانجام دیے۔ تاہم بعض اختلافات کی وجہ سے لغت کی تیّاری سے قبل ہی بورڈ کو خیرآباد کہہ دیا۔ وہ اردو لغت بورڈ سے کم و بیش 17 سال منسلک رہے۔

    ان کی تیارکردہ کتاب فرہنگِ تلفظ اپنی مثال آپ ہے۔ تراجم اورشاعری سے لے کر صحافت تک ہر جگہ ان کی تحریروں میں اردو کی چاشنی اور الفاظ کا تنوع دکھائی دیتا ہے۔

    بچّوں کے لیے کہانیاں، نظمیں لکھنے کے ساتھ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کے علمی مضامین الگ ہیں جب کہ کتابوں کی تعداد 60 کے لگ بھگ ہے۔

    شان الحق حقی کی کتابیں دنیا کی بیشتر اہم لائبریریوں سمیت لائبریری آف کانگریس اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو لائبریری میں بھی موجود ہیں۔

    بعد میں وہ وہ کینیڈا منتقل ہوگئے تھے جہاں 11 اکتوبر 2005ء کو جگر کے عارضے کے باعث اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

    شان الحق حقی کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔ ان کی ایک مشہور غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع تھا۔

    تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
    ورنہ ہم کو بھی تمنّا تھی کہ چاہے جاتے

  • نوح ناروی کا تذکرہ جو استاد داغ کے بعد ان کے جانشین بنے

    نوح ناروی کا تذکرہ جو استاد داغ کے بعد ان کے جانشین بنے

    نوح ناروی استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے جو بعد میں ان جانشین بنے۔ اردو ادب میں انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے روایتی موضوعات اور عام بندشوں کو اپنے مخصوص کلاسیکی رنگ میں خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔

    نوح ان شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے اپنے تخلص کو اپنی شاعری کی صورت گری میں بہت جگہ دی۔ ان کے مجموعوں کے نام اس کی عمدہ مثال ہیں جن میں سفینہ نوح ، طوفانِ نوح ، اعجازِ نوح شامل ہیں۔

    ان کا اصل نام محمد نوح تھا۔ تخلّص بھی نوح اختیار کیا۔ تذکروں میں ان کا سنِ‌ پیدائش 1878ء لکھا ہے جب کہ ضلع رائے بریلی ان کا آبائی وطن تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، اس کے بعد میر نجف علی سے فارسی، عربی کا درس لیا اور ان زبانوں میں کمال حاصل کیا۔

    نوح جو حضرت داغ دہلوی کے شاگرد تھے، اپنی شاعری میں اسی بانکپن اور بے باکی کے لیے پہچانے گئے جو داغ کا خاصہ تھا۔ حسن و عشق کے موضوعات کو انھوں نے خوب صورتی سے اپنے اشعار میں‌ برتا ہے۔

    10 اکتوبر 1962ء اردو زبان کے اس شاعر نے وفات پائی۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    محفل میں تیری آ کے یوں بے آبرو ہوئے
    پہلے تھے آپ، آپ سے تم، تم سے تُو ہوئے

    ہم انتظار کریں ہم کو اتنی تاب نہیں
    پلا دو تم ہمیں پانی اگر شراب نہیں

    اللہ رے ان کے حسن کی معجز نمائیاں
    جس بام پر وہ آئیں وہی کوہِ طور ہو

    ستیا ناس ہو گیا دل کا
    عشق نے خوب کی اکھاڑ پچھاڑ

  • گوریلا جنگجو چی گویرا کی کہانی جو مزاحمت اور انقلاب کا استعارہ بنا

    گوریلا جنگجو چی گویرا کی کہانی جو مزاحمت اور انقلاب کا استعارہ بنا

    چی گویرا نے اپنی موت سے دو برس قبل الجزائر میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔‘

    امریکا کو ناکوں چنے چبوانے والے گوریلا جنگجو چی گویرا کو 9 اکتوبر 1967ء میں اس کی زندگی سے محروم کرکے منوں مٹّی تلے دبا دیا گیا تھا۔ 1997ء میں معلوم ہوا کہ اسے بویلیا کے گاؤں لاہیگورا میں خفیہ طور پر سپردِ خاک کیا گیا تھا، اور تب اس کی باقیات کو وہاں سے نکال کر کیوبا پہنچایا گیا۔

    ارجنٹینا میں پیدا ہونے والا چے گویرا وہ انقلابی تھا جس نے فیڈل کاسترو کے ساتھ 1959ء کے انقلابِ کیوبا کی قیادت کی تھی۔ وہ بائیں بازو کے حامیوں کا ہیرو تھا جس کی زندگی، جدوجہد اور تصاویر انقلابیوں کے لیے عزم و ہمّت اور سامراج سے نفرت کی علامت بن گئی تھیں۔

    مارکسی فکر سے متاثر چی گویرا اس نتیجے پر پہنچا کہ محنت کش طبقے اور محکوم لوگوں کی آزادی کا واحد راستہ انقلابی جدوجہد کے ذریعے ہی نکالا جاسکتا ہے۔ اس نے ایک خواب ہی نہیں‌ دیکھا بلکہ اس کی تعبیر پانے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔

    چے گویرا کی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہو گا کہ اس نے پیدائش کے بعد ارنسٹو گویرا ڈی لا سرنا کا نام پایا۔ وہ 14 جون 1928ء کو ارجنٹینا کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس نے طب کی تعلیم حاصل کی اور اس عرصے میں جنوبی اور وسطی امریکا میں اسے بہت زیادہ سفر کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران چے گویرا نے ہر طرف غربت اور ظلم و جبر دیکھا اور بعد میں مارکسزم میں دل چسپی لیتے ہوئے اس پر کُھلا کہ جنوبی اور وسطی امریکا کے مسائل کا واحد حل مسلح جدوجہد کرنا ہے۔

    چی گویرا اپنی انقلابی جدوجہد کے ساتھ زندگی سے بھرپور ایسا شخص تھا جو رگبی اور شطرنج کا کھلاڑی، فوٹو گرافر، موٹر بائیک رائیڈر، ایک لکھاری بھی تھا۔ یوں تو وہ ڈاکٹر بن چکا تھا، لیکن اسے گوریلا جنگجو کے طور پر وہ لافانی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی جس کا دورانِ تعلیم اس نے خود بھی تصوّر نہیں کیا ہو گا۔

    چی گویرا نے فیڈل کاسترو سے مل کر امریکا نواز کیوبائی حکومت کا تختہ الٹنے اور گوریلا جدوجہد کے ذریعے انقلاب لانے کی جدوجہد میں اس طرح حصّہ لیا جیسے وہ اس کی آبائی سرزمین ہے۔ وہ ہر اس جگہ لڑنے گیا جہاں ظلم ہو رہا تھا۔ بعد میں وہ فرانس، چین، شمالی کوریا، مصر، الجزائر سمیت سات نو آزاد افریقی ممالک کے دورے پر گیا اور وہاں کی قیادت کو اپنا فلسفہ سمجھاتا رہا۔ 1965ء میں وہ کیوبا لوٹا اور دوہفتے بعد اچانک منظرِ عام سے غائب ہوگیا۔اور اس کے بعد چی گویرا کی موت کی خبر آئی۔

    ارجنٹائن کے شہری چی گویرا کی انقلابی خدمات کے طور پر انقلاب کے بعد اسے کیوبا کی شہریت دی گئی۔ انقلابی عدالت کا سربراہ بنایا گیا جس نے سیکڑوں انقلاب دشمنوں کو سزائے موت دی اور پھر اسے اہم عہدے اور وزارت کا قلم دان سونپا گیا۔ لیکن اختلافات کے بعد وہ کیوبا کی شہریت واپس کرکے کانگو میں انقلابی جدوجہد کے لیے روانہ ہو گیا، تاہم وہاں کے باغیوں سے مایوس ہوکر چند ماہ بعد ہی موزمبیق چلا گیا جہاں پرتگیزی نوآبادیاتی حکومت سے نبرد آزما تحریک کو اپنی خدمات پیش کیں۔ لیکن وہ بھی اسے نہ سمجھ سکے۔ اسی دوران سی آئی اے کو کانگو میں چی گویرا کی موجودگی کا پتہ چل گیا اور وہ بعد میں اس کے بولیویا پہنچنے تک نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھ رہی تھی۔ بولیویا میں وہ زندگی اور موت کی آنکھ مچولی جاری رکھے ہوئے تھا کہ مخبری ہوگئی اور اسے پکڑ لیا گیا۔

    چی گویرا کی جدوجہد اور اس کی موت دونوں کا اس قدر شہرہ ہوا اور وہ ایسا مقبول ہوا کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ 1968ء میں طلبا کی عالمی تحریک کے دوران چی گویرا کی آٹھ برس پرانی ایک تصویر لاکھوں ٹی شرٹس اور پوسٹروں پر چھپ گئی۔ بعد میں یہ مختلف تنظیموں کے پرچموں، انقلابی اور عوامی مہمّات میں استعمال ہوئی اور یہ لاطینی امریکا کے مختلف ممالک سے لے کر دنیا بھر میں ٹی شرٹس اور کافی کے مگ پر بھی دیکھی گئی۔

    چی گویرا کی باقیات کو کیوبا میں سانتا کلارا میں ایک مقبرہ تعمیر کرکے پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں چی گویرا کی قیادت میں کیوبا کے انقلاب کی آخری فیصلہ کن لڑائی ہوئی تھی۔

  • ژاک دریدا: وہ فلسفی جس کے افکار و نظریات نے علم و فنون پر گہرے اثرات مرتب کیے

    ژاک دریدا: وہ فلسفی جس کے افکار و نظریات نے علم و فنون پر گہرے اثرات مرتب کیے

    فرانس کے سب سے معروف فلسفی اور ردِ ساختیات (ڈی کنسٹرکشن) کے بانی ژاک دریدا 2004ء میں آج ہی کے دن سرطان کے مرض کے سبب زندگی کی جنگ ہار گئے تھے۔ وہ 74 سال جیے اور دنیا بھر میں اپنے فلسفے اور نظریات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔

    ان کے نظریات کی ہمہ گیری نے علم و ادب کے تمام شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ تاہم ان پر تنقید بھی کی گئی اور ان کے خیالات کو لایعنی اور بے معنیٰ بھی کہا گیا۔ اس کے باوجود دنیا انھیں علم و ادب، تنقید اور لسانیات کے ایک یگانہ روزگار اور دانش ور کی حیثیت سے پہچانتی ہے۔

    ان کے فلسفے نے ادب، فن، اخلاقیات اور روایتی مابعدالطبیعیات کو متاثر کیا۔

    ژاک دریدا الجزائر کے ایک یہودی خاندان میں 1930ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے فلسفے پر توریت کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ وہ 1952ء میں فرانس منتقل ہوگئے اور ہاورڈ اور سوربون میں تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کے ساتھ باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ انھیں جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر، ایڈمنڈ ہسرل اور فرائڈ کے خیالات کی توسیع قرار دیا جاتا ہے۔

    انھیں کیمبرج نے 1992ء میں اعزازی ڈگری دی تھی۔ دریدا فرانس میں تارکینِ وطن کے حقوق اور چیکو سلواکیہ میں آزادی کی حمایت میں مہم چلاتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے مخالف رہے اور نیلسن منڈیلا کی حمایت میں بھی مہم چلائی۔

    2003ء میں دریدا کے نام ہی سے ان کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس کا دورانیہ 84 منٹ تھا۔ اس فلم کے دوران دریدا کی کتابوں سے بھری ہوئی دیواروں کے قریب سے گزرتے ہوئے کوفمین نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے یہ سب کتابیں پڑھی ہیں؟

    دریدا نے فوراً جواب دیا: نہیں، صرف ان میں سے چار پڑھی ہیں، لیکن میں نے انھیں انتہائی انتہائی غور سے پڑھا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف افکارِ تازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنایا بلکہ اپنے انقلابی تصورات سے فکر و نظر کو مالا مال کیا۔ ان کے متنوع افکار کے اثرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں ژاک دریدا کی حیات و خدمات اور فلسفیانہ تصوّرات پر پانچ سو سے زائد مفصل اور جامع تحقیقی مقالات لکھے گئے۔ ریسرچ اسکالرز نے چودہ ہزار سے زائد مقالات لکھ کر ان کے اسلوب کی تفہیم کی سعی کی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

  • ممتاز ادیب، فکشن نگار اور نقّاد ڈاکٹر انیس ناگی کا تذکرہ جو تلخ گو مشہور تھے

    ممتاز ادیب، فکشن نگار اور نقّاد ڈاکٹر انیس ناگی کا تذکرہ جو تلخ گو مشہور تھے

    اردو ادب میں ڈاکٹر انیس ناگی فکشن نگار، نقّاد اور شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے 2010ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    ’زوال‘ اور ’دیوار کے پیچھے‘ ان کے اہم ناول شمار کیے جاتے ہیں۔ 10 ستمبر 1939ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے انیس ناگی کا خاندانی نام یعقوب علی تھا۔

    انیس ناگی نے ناولوں کے علاوہ شعری اور تنقیدی مضامین کے مجموعے، شعری اور نثری تراجم یادگار چھوڑے۔

    وہ ساٹھ کی دہائی میں ’نئی شاعری‘ کی تحریک کے نام سے سامنے آنے والے ان لوگوں میں شامل تھے جن کے لیے شاعری کا روایتی پیرایہ اور اظہار ناقابلِ قبول تھا۔ انھوں نے تجربات کیے اور اس تحریک میں ان کے ساتھ افتخارجالب، محمد سلیم الرحمان، عباس اطہر، زاہد ڈار و دیگر بھی شامل ہوگئے۔

    ڈاکٹر انیس ناگی کو اپنے ہم عصروں میں اس لیے امتیاز حاصل ہے کہ وہ تخلیقی کام کے ساتھ ساتھ نظری اور فلسفیانہ اساس بھی فراہم کرتے رہے۔ انیس ناگی کا ایک اہم کام ان کے شعری تراجم ہیں۔

    کہتے ہیں کہ وہ لگی لپٹی رکھنے کے عادی نہ تھے۔ انھوں نے جو سچ جانا اور جیسا درست سمجھا، اسے بیان کرنے میں کسی کی ناراضی اور تعلق کو نقصان پہنچنے کی پروا نہ کی۔ ان کے بارے میں‌ مشہور تھا کہ تلخ گوئی ان کا شیوہ ہے۔

    انھیں لاہور میں اقبال ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کامران مرزا کی بارہ دری سے وابستہ مغل دور کی تلخ یادیں

    کامران مرزا کی بارہ دری سے وابستہ مغل دور کی تلخ یادیں

    لاہور میں کامران کی بارہ دری اپنے طرزِ تعمیر کا ایک نمونہ اور اس وقت کے حکم راں کی ایک یادگار ہے۔ اسے مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے بڑے بیٹے کامران مرزا نے بنوایا تھا اور یہ اسی کے نام سے موسوم ہے۔

    کامران مرزا نے یہاں صرف بارہ دری نہیں بلکہ اس کے آس پاس ایک شان دار مغل باغ بھی تعمیر کروایا تھا۔ جج عبدالطیف نے ”تاریخِ لاہور میں اس کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے“ یہ مستحکم و مضبوط پرانی عمارت اپنی عالی شان اور بلند و بالا محرابوں کے ہمراہ دریائے راوی کے دائیں کنارے پر کھڑی ہے۔

    آج کامران مرزا کا یومِ‌ وفات ہے۔ بابر کے بعد مغلیہ سلطنت کا وارث کامران مرزا کا سوتیلا بھائی نصیر الدین محمد ہمایوں بنا۔ کہتے ہیں اس نے فراخ دلی سے اس وقت کے لاہور کا یہ علاقہ اپنے بھائی کامران مرزا کو سونپ کر حکم راں بنا دیا، مگر ان میں دشمنی اور شاہی رقابت ہوگئی۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ کامران نے لاہور پر قبضہ کر لیا تھا۔

    کامران مرزا نے 1530ء میں شہر میں اپنا باغ تعمیر کروایا تھا۔ اسی باغ میں اس نے 1540ء میں یہ بارہ دری تعمیر کروائی، جو لاہور میں تعمیر کی جانے والی پہلی مغلیہ عمارت بھی کہلاتی ہے۔

    کامران مرزا مغلیہ سلطنت کے بانی مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر کا دوسرا بیٹا تھا۔ اس کا سنِ پیدائش 1512ء لکھا گیا ہے، وہ بابر کی بیوی گل رخ بیگم کے ہاں کابل میں پیدا ہوا تھا۔ مغل تخت کے وارث نصیرالدین ہمایوں اور کامران مراز میں دشمنی کا نتیجہ وہی نکلا جو تاج و تخت کے پیچھے ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ کامران کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور کہتے ہیں کہ سوتیلے بھائی ہمایوں نے اسے اندھا کروا دیا اور بعد میں حج کے لیے مکّہ روانہ کردیا۔

    5 اکتوبر 1557ء کو کامران نے وہیں وفات پائی۔

  • ڈاکٹر داؤد رہبر: انھوں نے اپنے ملک اور ثقافت سے دور رہ کر بھی اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا

    ڈاکٹر داؤد رہبر: انھوں نے اپنے ملک اور ثقافت سے دور رہ کر بھی اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا

    اردو ادب کی کثیر الجہت شخصیت ڈاکٹر داؤد رہبر کی زندگی کا کم و بیش سارا شعوری حصّہ علم و ادب کی تحصیل، جمع و تدوین، تشریح اور تخلیق میں گزرا۔

    نثر کے علاوہ شاعری بھی ان کا حوالہ ہے لیکن اس کا ذکر کم کم ہوا ہے۔اردو زبان کے نام ور ادیب، مضمون نگار، ماہرِ موسیقی اور شاعر کا آج یومِ وفات ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے 5 اکتوبر 2013 کو داعئ اجل کی آواز پر لبیک کہا۔ وہ امریکا میں سکونت پذیر تھے۔

    داؤد رہبر 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ جامعہ کیمبرج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اورینٹل کالج لاہور اور بعد ازاں کینیڈا، انقرہ اور امریکا کی جامعات سے تعلیم مکمل کی اور درس و تدریس کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    ڈاکٹر محمد داؤد رہبر ایک لائق باپ کے لائق بیٹے تھے۔ ان کے والد پروفیسر محمد اقبال پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے سربراہ تھے، فرانسیسی اور دوسری مغربی زبانوں پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی خصوصی توجہ اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث داؤد رہبر جلد ہی علم و فضل کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پہنچنے کی تمنا کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے ملک اور کلچر سے دور رہنے کے باوجود اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا تھا۔

    اکرام چغتائی نے اپنے تذکرے میں ان کے بارے میں لکھا، ’’داؤد رہبر کثیر تصانیف مصنف ہیں اور ان کے موضوعات میں حیران کن تنوع پایا جاتا ہے، ان کی کتب اور مقالات کی جامع فہرست پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوعمری ہی میں ان کے مقالات برصغیر کے معتبر علمی جرائد میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ داؤد نے لاہور سے عربی میں ایم اے کیا، کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ پھر انقرہ یونیورسٹی میں تقرری ہوئی، بقیہ زندگی کینیڈا اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دیے، کتابیں لکھیں اور مقالات تحریر کیے۔‘‘

    ان کی تصانیف میں تسلیمات(مضامین)، باتیں کچھ سُریلی سی اور نسخہ ہائے وفا (موسیقی پر مضامین)، پراگندہ طبع لوگ (عام آدمی کی کہانیاں)، مشاعرے کا فاتح- نواب میرزا داغ دہلوی، کلچر کے روحانی عناصر اور شعری کلیات شامل ہیں۔

  • معروف شاعر اور افسانہ نگار اختر انصاری دہلوی کی برسی

    معروف شاعر اور افسانہ نگار اختر انصاری دہلوی کی برسی

    آج ترقّی پسند فکر کے اہم شاعر، افسانہ نگار اور نقّاد اختر انصاری دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 5 اکتوبر 1988ء کو انتقال کرگئے تھے

    ان کی شاعری، تنقید اور افسانے ان کی ترقی پسند فکر اور جدوجہد کا عکس ہیں۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے اختر انصاری دہلوی اپنی تخلیقات میں گہرے طنز اور شدّتِ جذبات کے اظہار کے لیے مشہور ہیں۔

    ’نغمۂ روح‘ ’آبگینے‘ ’ٹیڑھی زمین‘ ’سرور جاں‘ (شاعری) ’اندھی دنیا اور دوسرے افسانے‘ ، ’نازو اور دوسرے افسانے‘، ’حالی اور نیا تنقیدی شعور‘، ’افادی ادب‘ (تنقید) وغیرہ ان کی تصانیف ہیں۔

    اختر انصاری یکم اکتوبر 1909ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد ایوب انصاری تھا، لیکن ادب کی دنیا میں الگ نام سے پہچانے گئے۔ والد چوں کہ ترکِ سکونت کے بعد دہلی آگئے تھے، سو انھوں نے خود کو دہلوی کہلوانا پسند کیا۔ اختر نے اینگلو عربک اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کرنے کے بعد یونیورسٹی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی۔

    1947ء میں اردو میں ایم اے کرنے کے بعد کچھ عرصے تک شعبۂ اردو میں لکچرر رہے۔ بعد میں ٹرینگ کالج میں ملازمت اختیار کی۔ ان کے دو مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    یادِ ماضی عذاب ہے یارب
    چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

    شباب نام ہے اس جاں نواز لمحے کا
    جب آدمی کو یہ محسوس ہو جواں ہوں میں

    اختر انصاری دہلوی کی دو کتابیں ایک قدم اور سہی اور اردو افسانہ، بنیادی اور تشکیلی مسائل بعد از مرگ شائع ہوئیں۔

  • یومِ وفات: نام وَر مصوّر احمد پرویز نے تیز اور شوخ رنگوں میں‌ اپنی بے رنگ زندگی کو چھپائے رکھا

    یومِ وفات: نام وَر مصوّر احمد پرویز نے تیز اور شوخ رنگوں میں‌ اپنی بے رنگ زندگی کو چھپائے رکھا

    پاکستان سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصوّر احمد پرویز 1979ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں تجریدی مصوّر کے طور پر شہرت ملی۔

    احمد پرویز 7 جولائی 1926ء کو راولپنڈی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا سلسلہ سینٹ جوزف کالج اور گورڈن کالج راولپنڈی میں مکمل کیا۔ وہ ایک سیماب صفت انسان تھے جن کی زندگی والدین کی علیحدگی اور دوسرے عوامل کے سبب متاثر ہوئی تھی اور خود انھوں نے بھی تین شادیاں کیں جو ناکام رہیں۔ یوں احمد پرویز کی ذاتی زندگی بھی ذہنی دباؤ اور کرب میں گزری۔

    شراب نوشی نے انھیں اور ان کے اہلِ‌ خانہ کو مشکل سے دوچار کردیا تھا، وہ گھر اور آسائشوں سے دور ہوتے چلے گئے اور زندگی میں تلخیاں بڑھتی چلی گئیں۔ بعد میں بھی دوسری شادیاں ایسے ہی حالات کی وجہ سے ناکام ہوگئیں۔ تاہم انھوں نے اپنے فن میں کمال حاصل کیا اور دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔

    1952ء میں احمد پرویز کے فن پاروں کی پہلی نمائش جامعہ پنجاب لاہور کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ میں منعقد ہوئی جسے اہلِ فن نے بے حد سراہا۔ 1955ء سے 1964ء تک وہ لندن میں قیام پذیر رہے اور 1966ء سے 1969ء تک امریکا کے شہر نیویارک میں وقت گزارا۔ اس دوران ان کا بڑے بڑے آرٹسٹوں اور آرٹ سے تعلق برقرار رہا۔ اس سے قبل بھی بیرونِ ملک رہتے ہوئے انھوں نے غیرملکی فن کاروں سے بہت کچھ سیکھا تھا اور تجریدی مصوّری میں ایک علٰیحدہ اور منفرد اسلوب کے مالک کہلائے۔

    زندگی کے آخری دورمیں انھوں نے اپنے لیے گلدان اور پھول کے موضوع کا انتخاب کیا تھا۔ اس پر انھوں نے لاتعداد تصویریں بنائی تھیں۔ احمد پرویز کی مصوّری کی پہچان تیز اور شوخ رنگ تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اس باکمال مصوّر کو 1978ء میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • عبدالسّلام ندوی: انشا و ادب میں ممتاز ایک اسلامی مفکّر اور عالم فاضل شخصیت

    عبدالسّلام ندوی: انشا و ادب میں ممتاز ایک اسلامی مفکّر اور عالم فاضل شخصیت

    ان کی طبیعت شاعرانہ اور تخیل پرست تھی، ہلکے پھلکے مضامین کو وہ ادبی حسن و لطافت سے پورا کر دیتے تھے، قلم اتنا پختہ اور منجھا ہوا تھا کہ قلم برداشتہ لکھتے تھے۔

    یہ عبدالسّلام ندوی کا تذکرہ ہے جو دارُ العلوم ندوۃُ العلما، لکھنؤ کے فارغ التحصیل اور اوّلین فاضل شخصیات میں سے ایک تھے۔

    ہندوستان میں انشا و ادب میں ممتاز اس مصنّف، شاعر اور مؤرخ کا شمار اپنے وقت کی بلند پایہ علمی و ادبی شخصیت اور اسلامی مفکّر علاّمہ شبلی نعمانی کے چہیتے شاگردوں میں ہوتا تھا۔

    عبد السلام ندوی پہلے مصنّف ہیں جنھوں نے باقاعدہ تصنیف کا کام سیکھا، انھوں نے طلبائے ندوہ میں سب سے پہلے مضمون نویسی پر انعام پایا، سب سے پہلے اپنے استاد علامہ شبلی کا طرزِ تحریر اختیار کیا اور سب سے زیادہ کام یاب رہے۔

    اس نادرِ روزگار شخصیت کا آبائی علاقہ اعظم گڑھ کا موضع علاءُ الدّین پٹی تھا جہاں 16 فروری 1883ء کو شیخ دین محمد کے گھر آنکھ کھولی۔ والد فارسی، ہندی اور قدیم ہندوانہ طریقہ حساب کے بڑے ماہر تھے، اسلامیات اور دینیات کے بھی عالم تھے، شرحِ جامی تک عربی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کا تعلق متوسط درجے کے زمین دار، کاشت کار اور تاجر خاندان سے تھا۔

    عبدُ السّلام ندوی نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی، اس کے بعد عربی کی تعلیم کے لیے کان پور، آگرہ اور غازی پور کا سفر کیا۔ اور 1906ء میں دارُ العلوم ندوۃُ العلما میں درجہ پنجم میں داخلہ لے لیا۔ 1910ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد وہیں عربی ادب میں استاد مقرر ہو گئے۔

    عبد السلام ندوی کو شعر وادب کا ذوق اور لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ دارُ العلوم میں علّامہ شبلی نعمانی نے ان کی اس صلاحیت کو بھانپ لیا تھا اور تصنیف و تالیف کے حوالے سے ان کی بہترین تربیت کی تھی۔ ان کا پہلا مضمون اسی زمانے میں علّامہ شبلی کی نظر سے گزرا اور انھوں نے اسے "الندوی” رسالہ میں تعریفی نوٹ کے ساتھ شائع کردیا۔

    یہ عبدالسّلام ندوی کی بڑی حوصلہ افزائی تھی اور شبلی جیسے استاد اور عالم فاضل کی تعریف اور توجہ ان کے نزدیک بڑی عزّت اور انعام کی بات تھی۔ یوں ان کا تصنیف و تالیف میں شوق بڑھا۔ بعد کو "الندوہ” کے معاون مدیر اور پھر مدیر بنائے گئے۔ علّامہ شبلی نے جب سیرتُ النّبی کی تالیف کا کام شروع کیا تو مولانا عبد السّلام کو اپنا معاون بنایا تھا۔

    1912ء میں وہ مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ "الہلال” کلکتہ سے وابستہ ہو گئے اور ڈیڑھ دو سال تک الہلال میں کام کیا۔ 1914ء میں الہلال کی بندش اور اسی سن میں علامہ شبلی کی وفات کے بعد انھوں‌ نے اپنے مرحوم استاد کے خوابوں کی تکمیل کے لیے دارُ المصنّفین شبلی اکیڈمی جاکر وہاں سید سلیمان ندوی اور مسعود علی ندوی کے ساتھ اس کی تعمیر و ترقی میں حصّہ لیا۔ ان کا شمار اس کے مؤسسین اور بانیان میں ہوتا ہے۔

    مولانا عبدُ السّلام کو کئی جہتوں کے سبب اس دور میں اہمیت حاصل رہی ہے اور ان کے کام کو لائقِ تحسین جانا گیا ہے۔

    مولانا عبدُ السّلام ندوی نے مختلف موضوعات پر سیکڑوں مضامین لکھے جب کہ ان کی مستقل تصنیفات ایک درجن سے زائد ہیں جن میں اسوۂ صحابہ اور اسوۂ صحابیات 1922ء، حکمائے اسلام (دو جلدیں) 1956ء، اقبال کامل 1929ء، امام رازی 1953ء، اسلامی قانون فوجداری 1950ء، شعر العرب و دیگر شامل ہیں۔

    ان کا انتقال 1955ء میں آج ہی کے دن ہوا تھا۔ عبدالسّلام ندوی اپنے استاد علّامہ شبلی مرحوم کے سرہانے مدفون ہیں۔