Tag: اکتوبر وفیات

  • یومِ وفات: استاد امراؤ بندو خان گائیکی اور سارنگی نوازی میں یکساں مہارت رکھتے تھے

    یومِ وفات: استاد امراؤ بندو خان گائیکی اور سارنگی نوازی میں یکساں مہارت رکھتے تھے

    استاد امراؤ بندو خان نے اپنے والد کی طرح موسیقی کے ابتدائی اسباق اور تربیت اپنے ماموں اُستاد چاند خان سے لی تھی۔ یہ اسباق کلاسیکی گائیکی اور سارنگی نوازی دونوں کے تھے۔

    اس طرح استاد امراؤ بندو خان کو ان خوش نصیبوں میں سے ایک کہا جاسکتا ہے جو گائیکی اور سارنگی نوازی دونوں میں مہارت رکھتے تھے۔

    استاد امراؤ بندو خان کی پیدائش 1915ء کی تھی اور 4 اکتوبر 1979ء ان کا یومَ وفات ہے وہ برصغیر پاک و ہند کے نامور گائیک اور سارنگی نواز کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کے والد ہندوستان کے نام ور کلاسیکی گائیک اور سارنگی نواز استاد بندو خان تھے جو بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔

    امراؤ بندو خان بھی موسیقی اور آواز، راگ راگنیوں اور سازوں کے شیدائی نکلے۔ ان کی سارنگی نوازی میں اپنے والد کی جھلک نظر آتی تو گائیکی میں استاد چاند خان کی۔

    وہ آل انڈیا ریڈیو کے مُستند گائیک تھے، لیکن 1958ء میں پاکستان چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان کراچی میں میوزک ڈائریکٹر مقرر ہو گئے۔

    استاد امراؤ بندو خان 1958ء سے لے کر اپنی وفات 1979ء تک ریڈیو پاکستان کراچی میں بطور موسیقار، کلاسیکی گائیک اور سارنگی نواز وابستہ رہے۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے 1981ء میں بعد از مرگ تمغا حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکار مسعود رانا کا تذکرہ

    پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکار مسعود رانا کا تذکرہ

    پاکستان کی فلمی صنعت سے وابستہ ہوکر اپنی مدھر آواز کا جادو جگانے والے مسعود رانا 2005ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اس عظیم گلوکار کا فنی سفر تین عشروں پر محیط ہے جس میں انھوں نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے گیت گائے۔ ایسے گیت جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور مسعود رانا کی آواز بھی سماعتوں میں محفوظ ہے۔

    گلوکار مسعود رانا 9 جون 1938ء کو سندھ کے شہر میرپورخاص میں پیدا ہوئے۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز 1962ء میں بننے والی فلم انقلاب سے ہوا۔ انھوں نے بہت جلد اردو اور پنجابی کے نام وَر گلوکاروں کے درمیان اپنی پہچان بنا لی اور انڈسٹری میں ان کی مصروفیت بڑھتی چلی گئی۔

    مسعود رانا کو پاکستان فلم انڈسٹری کا مکمل اور ورسٹائل گلوکار کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنے وقت کے بڑے بڑے فلم ساز ضرور اپنی فلم کے لیے ان سے رابطہ کرتے تھے۔

    مسعود رانا نے اپنے فنی کیریئر میں 700 سے زائد گانے ریکارڈ کرائے اور ساتھی گلوکاروں کے ساتھ ان کے دو گانے بھی بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے بڑے اور نام ور گلوکاروں کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگایا اور اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ مسعود رانا نے چند پاکستانی فلموں میں اداکاری بھی کی۔

    ان کے مشہور اردو گانوں میں فلم آئینہ کا گانا ’تم ہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تم سے پیار کروں‘ فلم بدنام کا گانا ’کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے یہ سفر اکیلے ہی کاٹ لے‘ فلم چاند اور چاندنی کا گانا ’تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے‘ اور دیگر مقبول گانے شامل ہیں۔

    انھوں‌ نے آئینہ، دھڑکن، مجاہد، نائلہ، کون کسی کا، بھیّا، سنگ دل، پاک دامن، احساس، دامن اور چنگاری، میرا ماہی، مرزا جٹ، دھی رانی اور کئی فلموں‌ کے لیے گیت گائے۔

    مسعود رانا کا شمار ان گلوکاروں‌ میں‌ ہوتا ہے جنھیں خاص طور پر ہائی پِچ کے گيت ريکارڈ کرانے کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔ رومانوی گیت ہی نہیں طربیہ دھنوں اور غمگین شاعری‌ کو اپنی دل گداز آواز دینے والے مسعود رانا کو ان کی اسی خوبی نے اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ ممتاز کیا۔

  • قابل اجمیری: شاعرِ بے مثل جس نے محض 31 سال کی عمر میں‌ دنیا کو خیرباد کہہ دیا تھا

    قابل اجمیری: شاعرِ بے مثل جس نے محض 31 سال کی عمر میں‌ دنیا کو خیرباد کہہ دیا تھا

    جگر مراد آبادی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نوجوان شعرا کو نہ صرف سنتے تھے بلکہ کلام پسند آتا تو خوب داد بھی دیتے۔

    کئی اچھے شعرا کو انہی کے کہنے پر مشاعرہ پڑھنے اور اپنی پہچان بنانے کا موقع بھی ملا۔ قابل اجمیری بھی جگر مراد آبادی کے ساتھ حیدرآباد سندھ کے ایک مشاعرے میں کلام پڑھنے گئے تھے۔ جگر نے خود سامعین سے ان کا تعارف کروایا اور قابل نے اپنے اشعار سنا کر شعرا اور حاضرین سبھی کی توجہ حاصل کرلی۔

    قابل اجمیری کو اردو زبان کا بے مثل شاعر کہا جاتا ہے جس نے بہت کم عمر پائی۔ وہ 31 برس کے تھے جب دنیا کو خیرباد کہا۔

    اجمیر کے رہنے والے قابل نے تقسیم کے بعد کراچی کا رخ کیا تو یہاں کوئی گھر بار نہ تھا۔ ماہرُ القادری مرحوم نے اپنے رسالے ’’فاران‘‘ کے دفتر میں سر چھپانے کی جگہ دے دی تھی۔ اسی زمانے میں جگر صاحب سے قابل کا تعارف ہوا تھا۔

    27 اگست 1931ء کو پیدا ہونے والے قابل کا اصل نام عبد الرّحیم تھا۔ شاعری کا آغاز کیا تو قابل تخلّص اور اجمیر کی نسبت ساتھ لگائی۔ انھیں نوجوانی ہی میں ٹی بی کا مرض لاحق ہوگیا جو 3 اکتوبر 1962ء کو ان کی وفات کا سبب بنا۔ یوں قابل شاعری کا دور بمشکل دس بارہ برس پر محیط ہے، لیکن جدید غزل کو انھوں نے اس مختصر عرصے میں مالا مال کردیا۔

    قابل کی زندگی میں اس وقت ایک دردناک موڑ آیا تھا جب وہ رنج و غم اور تکلیف کو اچھی طرح سمجھتے بھی نہیں‌ تھے۔ وہ چھے سال کے تھے جب اچانک یکے بعد دیگرے والد اور والدہ کا انتقال ہو گیا۔ ان کے دادا نے ان کی پرورش کی۔ قابل کا بچپن علمی و ادبی اور اجمیر کی درگاہ کے روحانی ماحول میں گزرا۔

    وہ نوعمری میں‌ شعر کہنے لگے تھے اور پہلی بار اجمیر میں منعقدہ آل انڈیا مشاعرے میں شرکت کی۔ اس مشاعرے میں ساغر نظامی، حفیظ جالندھری، سیماب اکبر آبادی اور جگر مراد آبادی بھی شریک تھے۔ ان کے درمیان قابل نے اپنے اشعار پیش کرکے خوب داد وصول کی۔

    قابل اجمیری کی وفات کے بعد ان کا شعری مجموعہ’’دیدۂ بیدار‘‘ اور ’’خونِ رگِ جاں‘‘ شایع ہوئے اور پھر ان کے کلام پر مشتمل کلیات بھی منظرِ عام پر آیا۔

    قابل اجمیری نے مختصر اور طویل بحروں میں خوب صورت اشعار کہے۔ ان کے کئی اشعار مشہور ہوئے جن میں سے چند یہ ہیں۔

    تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
    عشق انسان کی ضرورت ہے

    ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
    آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے

    تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
    میں رو رہا ہوں، تم ہنس رہے ہو، میں مسکرایا تو کیا کرو گے؟

    حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
    ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے

  • میرا جی: بڑا شاعر جسے مے نوشی کی طرح شاید اپنی بداعمالیاں بھی عزیز تھیں!

    میرا جی: بڑا شاعر جسے مے نوشی کی طرح شاید اپنی بداعمالیاں بھی عزیز تھیں!

    ہندوستان میں حلقہ اربابِ ذوق کا قیام اور ترقّی پسند تحریک کے شور میں کئی نام سامنے آئے جنھوں نے گلستانِ ادب کو نئی فکر، نظریے کے ساتھ اپنے منفرد اسلوب، اندازِ بیان، جدید لب و لہجے اور نئے آہنگ کے ساتھ ایسی تخلیقات سے سجایا جس میں عصری شعور کو بہت اہمیت دی گئی تھی۔ یوں کہیے کہ ادب میں یک رنگی کا دور گیا اور انسان کو اس کی کلیّت کے حوالے سے دیکھنے اور سمجھنے کا آغاز ہوا۔

    اسی زمانے میں ادب میں صنفِ‌ سخن کی بات کی جائے تو شعرا نے قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے نظم کے مرّوجہ تصوّر کو بھی تبدیل کردیا۔ شعری موضوعات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظم کی ہیئت میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اور آزاد نظم کو مقبولیت ملی۔ آزاد نظم میں ایک بہت ہی مقبول نام ”میرا جی “ کا بھی ہے جو فن و ادب میں تو یگانہ و ممتاز شخصیات میں شمار ہوئے، لیکن اپنی عادات اور اوصاف میں بدنام ہوئے۔ ان سے اکثر ادیب و شاعر بھی کتراتے اور میل جول میں‌ محتاط رہتے۔ تاہم انھیں اپنی رسوائی عزیز رہی اور وہ بدنامی اور لعن طعن سے بے نیاز اپنی ڈگر پر قائم رہے۔

    جدید نظم نگاری اور اردو شاعری میں بڑا نام و مقام پیدا کرنے والے میرا جی کی زندگی کا سفر 38 برس پر محیط ہے۔ انھوں نے اپنی کج روی، بلا نوشی اور بے اعتدالیوں سے زندگی کو بہت مختصر کر لیا تھا۔ خود کو تماشا بنا کر رسوائیوں کو سینے سے لگائے ان کی عمرِ عزیز کے چند برس لاہور میں، تین چار سال دہلی میں اور آخری تین چار برس بمبئی میں خواری اور بدحالی کے عالم میں گزرے۔

    میرا جی 3 نومبر 1949ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ان کی ذہنی و جسمانی حالت اور کیفیت کو دیکھتے ہوئے انھیں جنسی اور نفسیاتی مریض بھی کہا گیا اور ان کی اس حالت کا ذکر ان کے ہم عصروں نے کیا ہے۔ میرا جی کی بد قماشیوں اور بدکاریوں کی داستانیں منٹو، اخلاق احمد، قیوم نظر، سلیم احمد نے تو بیان کی ہی ہیں، خود میرا جی نے خود کو سچّا، کھرا اور بے باک ثابت کرتے ہوئے اپنی قبیح عادات اور زندگی کے ناپسندیدہ پہلوؤں پر لکھا ہے۔

    میرا جی کے فنی سفر کی بات کریں تو انھوں نے ابتدائی دور میں‌ سامری کا تخلص اپنایا، لیکن بعد میں میرا جی کے نام سے شہرت پائی۔‌

    میرا جی کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا۔‌ وہ 1913ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا مستند اور مضبوط حوالہ ان کی نظم گوئی ہے۔ کم عمری ہی میں‌ شاعری کا آغاز کرنے والے میرا جی نے نظم کے میدان میں متعدد تجربات بھی کیے اور اس صنفِ سخن کو منفرد انداز اور نئے موضوعات دیے۔

    ان کے والد ریلوے میں‌ انجینئر تھے جن کا تبادلہ لاہور کر دیا گیا جہاں وہ میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوئے۔ اسی نسبت سے انھوں‌ نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا۔ وہ ترقی پسند تحریک کا زمانہ تھا اور ادب میں نئے تجربات کیے جارہے تھے۔ میرا جی نے حلقۂ ارباب ذوق میں دل چسپی لینا شروع کی اور 1937ء میں رسالہ ادبی دنیا کے نائب مدیر بنے۔ 1941ء میں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کی۔ چند سال دلّی میں گزارے اور پھر بمبئی چلے گئے جہاں ایک ادبی رسالہ “خیال” جاری کیا۔

    میرا جی کو باغی اور روایت شکن شاعر بھی کہا جاتا ہے جنھوں‌ نے اردو نظم گوئی میں موضوع اور تکنیک کے حوالے ہم عصروں سے الگ راستہ اختیار کیا۔ ان کے متعدد مجموعہ کلام شائع ہوئے جن میں گیتوں‌ کی کتاب کے علاوہ مشرق و مغرب کے نغمے، میرا جی کی نظمیں اور نگار خانہ سرِفہرست ہیں۔

    معروف ادیب اور محقق جمیل جالبی نے میرا جی کا کلام اکٹھا کر کے کلیات شایع کروائی تھی۔

    میرا جی نے غیر ملکی ادب کے اردو تراجم کے ساتھ ان تخلیقات کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا۔ انھوں نے کئی اسکرپٹ اور مضامین تحریر کیے، کالم لکھے اور ترجمہ نگاری کے فن میں بھی نام کمایا۔

  • معروف فلم ساز اور کہانی کار ریاض شاہد کا تذکرہ

    معروف فلم ساز اور کہانی کار ریاض شاہد کا تذکرہ

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف فلم ساز و ہدایت کار ریاض شاہد کا یومِ وفات ہے۔ وہ صحافی اور مصنّف بھی تھے۔ تاہم ان کی اصل پہچان منفرد موضوعات پر بنائی گئی ان کی فلمیں ہیں۔

    ریاض شاہد 1972ء کو آج ہی کے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے لاہور کے ایک کشمیری گھرانے میں 1930ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام شیخ ریاض تھا۔ ریاض شاہد کو خون کا سرطان لاحق تھا اور اسی بیماری کے سبب انھوں نے وفات پائی۔

    لاہور کے اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ریاض شاہد نے صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور ’چٹان‘ سے منسلک ہوئے۔ بعدازاں فیض احمد فیض کے جریدے ’لیل و نہار‘ سے وابستہ ہوئے۔ ریاض شاہد نے ’ہزار داستان‘ کے نام سے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا اور بعد میں انھوں نے فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھنے کا آغاز کیا۔

    شاہد ریاض نے ’بھروسہ‘ فلم کا اسکرپٹ لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور یہ پہلی کاوش ہی ان کی کام یابی اور شہرت کا سبب بنی۔ یہ فلم 1958ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    اس کے بعد ان کی فلم ’شہید‘ ریلیز ہوئی جو تہلکہ خیز ثابت ہوئی۔ اس کے بعد 1962ء میں انھوں نے خود کو ہدایت کار کے طور پر آزمایا اور اس میدان میں ان کی پہلی فلم ’سسرال‘ تھی جو پاکستانی فلمی صنعت کی یادگار فلموں میں سے ایک ہے۔ اس کام یابی کے بعد ریاض شاہد نے فلم ’فرنگی‘ کی کہانی، ’نیند‘ کا اسکرپٹ لکھا اور 1967ء میں ان کی تحریر کردہ نہایت منفرد فلم ’گناہ گار‘ سامنے آئی۔

    ریاض شاہد کی بنائی ہوئی ناقابلِ فراموش اور شاہکار فلموں میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر ’زرقا‘ اور ’یہ امن‘ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح تاریخی موضوع پر فلم ’’غرناطہ‘‘ بھی ریاض شاہد کی کاوش تھی۔

    انھوں نے تیس سے زائد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے جن میں ’’شکوہ، خاموش رہو، آگ کا دریا، بدنام، بہشت اور حیدر علی‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔

    ریاض شاہد نے اردو کے علاوہ کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے جن میں مشہور ترین فلم’’ نظام لوہار‘‘بھی شامل ہے۔

    خداداد صلاحیتوں کے مالک ریاض شاہد کو پاکستان میں فلمی دنیا کے معتبر ترین نگار ایوارڈ سے 11 مرتبہ نوازا گیا جب کہ ان کی فلم’’زرقا‘‘ نے تین نگار ایوارڈ اپنے نام کیے۔

    انھوں نے اپنے وقت کی نام ور ہیروئن نیلو سے شادی کی، اس جوڑے کے گھر تین بچّوں نے جنم لیا جن میں سے شان نے فلمی صنعت میں قدم رکھا اور صفِ اوّل کے اداکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔

  • بہمنی سلطنت: تاج الدّین فیروز شاہ کا عہد گلبرگہ کا بامِ‌ عروج ثابت ہوا

    بہمنی سلطنت: تاج الدّین فیروز شاہ کا عہد گلبرگہ کا بامِ‌ عروج ثابت ہوا

    بہمنی سلطنت کا آٹھواں حکم ران ابو المظفر تاج الدّین فیروز شاہ تھا جس کا دورِ حکومت 1397ء سے 1422ء تک رہا۔

    فیروز شاہ کی تاریخِ پیدائش اور اس کے ابتدائی حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں، لیکن مؤرخین اس کا یومِ وفات یکم اکتوبر 1422ء بتاتے ہیں۔ آج اس بہمنی سلطان کا یومِ‌ وفات ہے جس کے بارے میں قیاس یہ ہے کہ وہ 1371ء میں پیدا ہوا اور 1397 میں تخت سنبھالا تھا۔ گلبرگہ اس سلطنت کا دارُالخلافہ تھا۔

    تاج الدّین فیروز شاہ کی پیدائش کے حوالے سے اس قیاس کو محمد قاسم فرشتہ کے اس تذکرے سے تقویت ملتی ہے کہ وہ اپنے چچا داؤد شاہ کے اِنتقال کے وقت سات سال کا تھا جب کہ اس کے بھائی احمد شاہ کی عمر چھے برس تھی۔

    فیروز شاہ کے ابتدائی حالات کا بھی کوئی علم نہیں، سوائے اِس کے کہ اس کی پیدائش اس کے چچا محمد شاہ اوّل کے عہد میں ہوئی تھی اور انھوں نے ان دونوں بھائیوں کو استاد فضل اللہ کے آگے زانوئے تلمذ طے کرنے بھیجا تھا۔ انہی کے حلقے میں فیروز شاہ کی تربیت اور درس مکمل ہوا۔ دونوں بھائیوں نے جو فیروز شاہ اور احمد شاہ کے نام سے بعد میں بہمنی سلاطین مشہور ہوئے، نے استاد کی خصوصی توجہ اور شفقت سے خوب دل لگا کر علم حاصل کیا۔

    مؤرخین کے مطابق تاج الدّین فیروز شاہ غیر معمولی طور پر ذہین اور طبّاع واقع ہوا تھا۔ اس نے اپنے استاد فضل اللہ کے علم و فضل سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان کی صحبت سے خوب فیض پایا۔ فیروز شاہ نے اپنے ذخیرۂ علم سے جو شعور اور دانش سمیٹی تھی، اسے پھیلانے کا فیصلہ کیا اور تخت نشینی کے بعد بہمنی سلطنت میں تعلیم اور مدارس کی سرپرستی کے ساتھ اساتذہ کی پزیرائی اور عزّت کرتا رہا۔

    بہمنی سلطنت کی تاریخ میں فیروز شاہ کے دور کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور خود اسے ذی علم اور فاضل ترین حکم ران تسلیم کیا جاتا ہے جس نے اپنے عہد میں تہذیب و تمدن اور علم و فضل کی بڑی قدر کی اور اس کے فروغ کے لیے نمایاں کام کیا۔

    فیروز شاہ دکن کے بہمنی خاندان کے اُن سلاطین میں سے ہے جن کو مؤرخین نے دکن کا تاج بھی کہا ہے کیوں کہ اُس کا عہدِ حکومت دکن کا بامِ ترقی تھا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اُس زمانے میں فیروز شاہ نے سلطنت کو سنبھالا تھا جب اغیار کے ہاتھوں اسے دھکا لگ رہا تھا اور ڈر تھا کہ کہیں یہ نوخیز سلطنت برباد نہ ہوجائے، لیکن فیروز شاہ نے اسے ایسی مضبوط طنابوں سے جکڑ دیا کہ سلطنت عرصہ دراز تک مستحکم رہی۔

    فیروز شاہ سیاست اور امورِ سلطنت میں بھی اپنی فہم و فراست اور ذہانت کے سبب کام یاب رہا اور وہ ایسا حکم ران تھا جس نے تمام اقوام اور روایات کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی ہمسایہ سلطنتوں کے سیاسی تعلقات پر بھی قائم رکھے اور معقول تدبیر سے جواب دیا۔

    فیروز شاہ مصلح بھی تھا جس نے سیاست اور معاشرت میں بڑی اِصلاحات بھی کیں۔ اہلِ دکن کے دل و دماغ میں ایک تلاطم اور معاشرت میں طوفان برپا کر دیا اور زندگی کا نیا مطمح نظر پیدا کرکے ایک جدید معاشرہ تشکیل دیا۔

    فیروز شاہ کا علمی شغف تمام بہمنی سلاطین سے زیادہ تھا۔ اُسے دکن کا مُعلَّم سلطان بھی کہا جاتا ہے جس نے زندگی بھر اپنی رعایا کی علمی و اِخلاقی خدمت بھی کی اور دکن میں علم کے بڑے بڑے خزانے جمع کردیے۔

    فیروز شاہ کی علم نوازی سے گلبرگہ مرکزِ‌ علم و فضل بن گیا تھا اور سلطنت کو آس پاس کی ریاستوں میں پہچان و قبولیت ملی۔