Tag: اگست اموات

  • علی سردار جعفری: ممتاز ترقی پسند شاعر

    علی سردار جعفری: ممتاز ترقی پسند شاعر

    علی سردار جعفری کا شمار ترقی پسند تحریک سے وابستہ ممتاز شعرا میں ہوتا ہے جن کی شخصیت ہمہ جہت پہلوؤں کی حامل تھی۔ وہ شاعر بھی تھے، نقّاد بھی اور نثر میں‌ ادبی موضوعات پر انھوں نے توصیفی اور تنقیدی مضامین، افسانے و ڈرامے اور اپنی یادداشتوں اور ادبی تذکروں پر مبنی تحریریں‌ یادگار چھوڑی ہیں۔

    علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے پلیٹ فارم سے اپنے افکار و نظریات کی ترویج و تبلیغ تمام عمر کرتے رہے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے عالمی سطح پر امن و آشتی، بھائی چارے اور انسان دوستی کا پرچار کیا۔ وہ فرد کی آزادی اور ترقی و خوش حالی کے لیے نظمیں لکھتے رہے اور ہر خاص و عام نے ان کے کلام کو سراہا۔ آج علی سردار جعفری کا یومِ وفات ہے۔

    بنیادی طور پر علی سردار جعفری نظم کے شاعر تھے لیکن انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں اور گیت نگاری بھی کی ہے جن کا خاصہ یہ ہے کہ وہ مسلسل اور مربوط ہیں اور ایک جذباتی رو اُن میں پائی جاتی ہے۔ ان کے کلام ایک ایسا صوتی آہنگ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ علی سردار جعفری ایک درد مند انسان تھے جس نے قوم اور فرد کی آزادی اور ترقی کا خواب دیکھا اور اپنی شاعری میں سجا کر اہلِ ادب اور عوام کے سامنے پیش کیا۔

    بلرام پور (ضلع گونڈہ، اودھ) میں 29 نومبر 1913ء کو پیدا ہونے والے علی سردار جعفری ممبئی میں یکم اگست 2000ء کو وفات پاگئے تھے۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر نے ایک موقع پر اپنے حالاتِ زندگی، تعلیم و تربیت اور اپنے ادبی سفر کا احوال یوں بتایا تھا: میرا نام اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ آج تک اس نام کا دوسرا آدمی نہیں ملا۔ ہاں سردار علی نام کسی قدر عام ہے۔ حافظ شیرازی کے ایک قصیدے میں علی سردار اس طرح استعمال ہوا ہے کہ میرے نام کا سجع بن جاتا ہے۔

    انھوں‌ نے اپنی تعلیم اور مشاغل و معمولاتِ نوعمری سے متعلق بتایا، سب سے پہلے گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے سلطان المدارس لکھنؤ بھیج دیا گیا، وہاں جی نہیں لگا۔ ایک مولوی صاحب کے گھر قیام تھا۔ وہاں بھی جی نہیں لگا اور میں فرار ہو کر بلرام پور واپس چلا گیا۔ بلرام پور کے انگریزی اسکول لائل کالجیٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ کھلی فضا تھی، اچھے استاد تھے، ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں تھیں۔ صبح ناشتہ کر کے گھر سے اسکول جانا اور شام کو چار بجے پھر واپس آکر ناشتہ کرنا، اور میل ڈیڑھ میل دور ایک پریڈ گراؤنڈ میں پیدل جا کر دو گھنٹے کرکٹ، ہاکی کھیلنا روز کا معمول تھا۔

    علی سردار جعفری کے مطابق، اسی زمانے میں انیسؔ کے زیرِ اثر شاعر شروع کی۔ 1933ء میں بیس سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ (ابتدائی تعلیم کے چند سال ضائع ہوگئے تھے)

    یہ ایک طوفانی زمانہ تھا جب تحریکِ آزادی اپنے شباپ پر تھی۔ اس عہد کے علی گڑھ نے اردو زبان کو اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، منٹو، مجاز، جاں نثار اختر، جذبی، خواجہ احمد عباس، جلیل قدوائی، اختر انصاری، شکیل بدایونی، عصمت چغتائی اور 1940ء کے آس پاس اخترالایمان کا تحفہ دیا۔ وہاں خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر رشید جہاں، ڈاکٹر محمد اشرف وغیرہ سے تعارف ہوا اور جن کی صحبت اور فیض نے ذوقِ ادب اور آزادی کے جذبے کو جلا عطا کی۔

    ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا اور دہلی جا کر اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ یہ وہ تاریخی کالج تھا جو دہلی کالج کے نام سے ایک بڑا تعلیمی کردار ادا کرچکا تھا۔ وہاں داخلہ دلوانے میں جلیل قدوائی اور اختر انصاری نے مدد کی۔ اس واقعہ کے پچاس سال بعد 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ (D.Litt.) کی اعزازی ڈگری سے عزت افزائی کی۔ یہ میرے لیے اس اعتبار سے بہت بڑا اعزاز تھا کہ مجھ سے پہلے اعزازی ڈگری شعراء کی فہرست میں علامہ اقبال، مسز سروجنی نائیڈو اور حضرت جگر مراد آبادی کو عطا کی گئی تھی۔

    وقت گزرا تو جہاں انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مقام بنایا اور ترقی پسند دانش ور اور مصنّف کے طور پر مشہور ہوئے، وہیں آزادی کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد کا زمانہ بھی یہی تھا اور علی سردار جعفری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے متحرک اور فعال رکن بھی بن چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں، جواہر لال نہرو سے اسی زمانے میں ملاقات ہوئی اور ملاقات کا یہ شرف آخر دن تک قائم رہا۔ ان کے انتقال سے دو ماہ قبل تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی نے ایک چھوٹا سا مشاعرہ پنڈت جی کی تفریح طبع کے لیے کیا تھا، جس میں فراقؔ، سکندر علی وجدؔ اور مخدوم محی الدّین بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی نظم “میرا سفر” فرمائش پر سنائی تھی۔

    علی سردار جعفری کا تعلمی سفر درجہ بہ درجہ جاری تھا اور اسی دوران وہ شاعری اور کمیونسٹ پارٹی کے بینر تلے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی مگن تھے، وہ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں، دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں لکھنؤ آ گیا۔ پہلے مجازؔ کے ساتھ قانون کی تعلیم کے لیے ایل۔ ایل۔ بی میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد اس کو چھوڑ کر انگریزی ادب کی تعلیم کے لیے ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ لیکن آخری سال کے امتحان سے پہلے جنگ کی مخالفت اور انقلابی شاعری کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل اور بنارس سنٹرل جیل میں تقریباً آٹھ ماہ قید رہا اور پھر بلرام پور اپنے وطن میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی دسمبر 1941ء میں ختم ہوئی۔

    لکھنؤ میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر احمد وغیرہ کی صحبت رہی۔ وہیں پہلی بار ڈاکٹر ملک راج آنند سے ملاقات ہوئی۔ 1938ء میں کلکتہ میں ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شانتی نکیتن جا کر ٹیگور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں بلراج ساہنی سے ملاقات ہوئی جو ہندی پڑھاتے تھے۔

    1943ء میں بمبئی آنا ہوا۔ سجاد ظہیر کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار ’قومی جنگ‘ میں صحافتی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس محفل میں بعد کو سبط حسن، مجازؔ، کیفیؔ، محمد مہدیؔ وغیرہ شامل ہوئے۔ آہستہ آہستہ بمبئی اردو ادب کا مرکز بن گیا۔ 1949ء کے بعد بمبئی میں جوشؔ، ساغر نظامی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، میرا جی، اخترالایمان، سجاد ظہیر، ساحرؔ، کیفیؔ، مجروحؔ، حمید اختر اور بہت سارے سربرآوردہ ادیب جمع ہوگئے۔ اس زمانے کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی اجلاس نے پوری اردو دنیا میں ایک دھوم مچا رکھی تھی۔ باہر سے آنے والے ادیب ان اجلاسوں میں بڑی مسرت سے شریک ہوتے تھے۔

    1949ء میں جو ہندوستانی سیاست کا ہیجانی دور تھا اور کمیونسٹ پارٹی کی انتہا پسندی اپنے شباب پر تھی، حکومت ہند کی طرف سے پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ میں بمبئی میں دو بار گرفتار کیا گیا۔ پہلی بار پندرہ دن کے لیے۔ دوسری بار ڈیڑھ سال کے لیے۔ یہ زمانہ بمبئی کے آرتھر روڈ جیل اور ناسک کی سنٹرل جیل میں گزرا۔ 1950ء میں یکایک رہا کر دیا گیا۔ وہ عید کی شام تھی۔ دوسرے دن صبح ہی صبح بمبئی آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ عید کا دن تھا۔

    علی سردار جعفری کی ادبی تخلیقات میں ان کی نظموں کے مجموعہ پرواز (1943)، نئی دنیا کو سلام (طویل تمثیلی نظم، 1948)، امن کا ستارہ (دو طویل نظمیں 1950ء)، ایک مجموعہ پتھر کی دیوار (1953ء) اور لہو پکارتا ہے (1968ء) میں شایع ہوئے جب کہ افسانوں کی کتاب منزل (1938ء)، ڈراموں کا مجموعہ یہ خون کس کا ہے (1943ء) اور کتاب لکھنؤ کی پانچ راتیں (1965ء) جب کہ اقبال شناسی (1969ء) میں شایع ہوئی۔ فلم کے لیے بھی انھوں نے گیت نگاری کی اور مصنّف بھی رہے جب کہ ادبی خدمات کی بنیاد پر علی سردار جعفری کو بھارت میں پدم شری ایوارڈ، جب کہ اقبال میڈل (تمغائے امتیاز) حکومتِ پاکستان نے 1978ء میں دیا تھا، اسی طرح خصوصی تمغہ ماسکو (ستّر سالہ جشن پیدائش پر) 1984ء میں عطا کیا گیا۔ 1997ء میں وہ گیان پیٹھ ایوارڈ کے حقدار بنے۔ کئی دوسرے ادبی انعامات اور اعزازات بھی علی سردار جعفری کو دیے گئے تھے۔

    علی سردار جعفری نے شاعری کے علاوہ ڈرامے بھی لکھے اور افسانہ نگاری بھی کی۔ وہ ممبئ سے چھپنے والے سہ ماہی "نیا ادب” کے مدیر تھے۔ انھوں نے شیکسپئر کی چند تحریروں کا اردو میں ترجمہ کیا اور کچھ دوسرے تراجم بھی کیے۔

  • خوش مزاجی اور زندہ دلی دردانہ بٹ کی پہچان تھی

    خوش مزاجی اور زندہ دلی دردانہ بٹ کی پہچان تھی

    سینئر اداکارہ دردانہ بٹ نے اپنے کیریئر کے دوران اسٹیج، ٹیلی وژن اور فلمی پردے پر کئی سنجیدہ اور مزاحیہ کردار نبھائے۔ ان کی پہچان اور مقبولیت کا سبب خاص طور پر ٹیلی وژن ڈراموں کے کامیڈی کردار ہیں۔ کینسر کے مرض میں مبتلا دردانہ بٹ پچھلے سال 12 اگست کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    دردانہ بٹ 9 مئی 1938ء کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم برطانیہ میں‌ حاصل کی جہاں ان کے والد پاکستان کے سفارت خانے میں تعلیمی اتاشی تھے۔ وہ گیارہ سال کی تھیں جب والد کا پاکستان تبادلہ ہوگیا اور یہاں لاہور میں‌ سکونت اختیار کرنے کے بعد دردانہ بٹ کو ان کے والد نے مری کے مشنری اسکول میں داخل کروا دیا۔ اس کے بعد ان کا کانووینٹ لاہور میں داخلہ ہوا۔

    1967ء میں دردانہ بٹ کی شادی سعید احمد خان سے ہوئی جو ان کے ننھیالی عزیز بھی تھے، لیکن ڈیڑھ سال کے بعد ان کے شوہر کی وفات ہوگئی۔ انھوں نے مزید پڑھنے کا فیصلہ کیا اور کالج سے گریجویشن کرنے کے دوران وہاں اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لینے لگیں۔ اس کے بعد وہ فرانس چلی گئیں جہاں فرینچ میں ڈپلوما حاصل کیا اور واپس آکر ایک نجی اسکول میں پی ٹی ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔

    دردانہ بٹ نے بطور کمرشل پائلٹ کچھ عرصہ ہوا بازی بھی کی، لیکن نظر کم زور ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں۔ وہ جوڈو کراٹے اور آتشیں اسلحے کا استعمال بھی جانتی تھیں۔

    تھیٹر اور اسٹیج سے اداکاری نے انھیں پی ٹی وی تک پہنچا دیا اور یہاں دردانہ بٹ کو منور ظریف اور معین اختر جیسے بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ مزاحیہ خاکوں پر مشتمل پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ میں نظر آئیں اور ناظرین میں‌ پہچان بنائی۔ پی ٹی وی پر انھوں نے معین اختر کے ساتھ نوکر چاکر، آنگن ٹیڑھا جیسے ڈراموں میں‌ کردار نبھائے اور تنہائیاں میں بی بی کے روپ میں زبردست پذیرائی اور شہرت حاصل کی، بعد میں پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں بھی مختلف ڈراموں میں‌ کردار نبھانے کا موقع ملا۔

    دردانہ بٹ نے 2019 میں آخری مرتبہ ڈرامہ رسوائی میں اپنا کردار نبھایا تھا۔

  • ‘وہ آؤٹ ہوگئے تو سمجھو کھیل ہی ختم’ ٹیسٹ کرکٹر حنیف محمد کا تذکرہ

    ‘وہ آؤٹ ہوگئے تو سمجھو کھیل ہی ختم’ ٹیسٹ کرکٹر حنیف محمد کا تذکرہ

    کرکٹ کمنٹیٹر جمشید مارکر کہتے تھے، ’حنیف محمد جب بیٹنگ کرنے جاتے تھے تو ہم کانپتے تھے، دل کو دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں وہ آؤٹ نہ ہوجائیں، پھر سمجھو کھیل ہی ختم ہو جائے گا۔‘

    یہ تذکرہ ہے لٹل ماسٹر کے نام سے مشہور ہونے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان کا جو کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور طویل علالت کے بعد 2016 میں آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔

    حنیف محمد نے کئی شان دار اننگز کھلیں اور کرکٹ کے میدان میں ریکارڈ بنائے۔ ان کی 499 رنز کی اننگز 35 سال تک فرسٹ کلاس کرکٹ میں سب سے طویل انفرادی کام یابی کا عالمی ریکارڈ رہی جسے برائن لارا نے 1994 میں 501 رنز بنا کر توڑا تھا۔ 23 جنوری 1958 کو ویسٹ انڈیز کے خلاف بارباڈوس میں حنیف محمد نے 337 رنز کی اننگز کھیل کر ایک اور کارنامہ انجام دیا۔ ان کے وکٹ پر رہنے کا دورانیہ اس اننگز میں 970 منٹ تھا جو اس کھیل کی ریکارڈ بک کا حصّہ بن گیا۔

    کرکٹ کے کھیل میں پاکستان کی فتح کو یقینی بنانے اور اپنی ٹیم کے لیے فخر کا باعث بننے والے لٹل ماسٹر نے 21 دسمبر 1934ء کو جونا گڑھ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ وہ پاکستان کی اس پہلی کرکٹ ٹیم کے رکن تھے جس نے اکتوبر 1952ء میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلی۔ حنیف محمد 1969ء تک ٹیسٹ کرکٹر کے طور پر فعال رہے اور اس عرصے میں 55 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 12 سنچریوں کی مدد سے مجموعی طور پر 3915 رنز اسکور کرنے والے کھلاڑی بنے۔

    حنیف محمد کے تین بھائی وزیر محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد نے بھی ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی، البتہ ایک بھائی رئیس محمد ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیل سکے۔ حنیف محمد کے صاحبزادے شعیب محمد کو بھی ٹیسٹ کرکٹر کے طور پر پاکستان میں یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حنیف محمد کا خاندان کراچی آگیا تھا جہاں والد کے سائے سے محروم ان بھائیوں نے بڑے مشکل حالات کا سامنا کیا۔ بعد میں دو بھائیوں کو بینک میں ملازمت ملی تو ان کے مالی حالات بتدریج بہتر ہوتے چلے گئے۔

    قابلِ‌ ذکر بات یہ ہے کہ حنیف محمد اور ان کے بھائیوں‌ کا کھیلوں بالخصوص کرکٹ سے لگاؤ کی وجہ ان کے والدین تھے۔ ان کی والدہ خود بھی دو کھیلوں کی چیمپئین تھیں اور والد شیخ اسماعیل بھی بہت اچھے کلب کرکٹر رہے تھے۔ لٹل ماسٹر حنیف محمد پلیئنگ فار پاکستان کے نام سے ایک کتاب کے مصنّف بھی ہیں۔

  • الحاجب المنصور: عالمِ اسلام اور اندلس کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش کردار

    الحاجب المنصور: عالمِ اسلام اور اندلس کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش کردار

    محمد بن ابی عامر نے اندلس کی حکم رانی کا خواب اُس عمر میں دیکھا تھا جس میں ان کے ساتھی گپ شپ اور تفریحی مشاغل میں مصروف رہتے تھے۔ ماہ و سال کی گردش نے جب ان کے خواب کو حقیقت میں بدلا تو وہ محمد بن ابی عامر الحاجب المنصور کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ اندلس کے بہترین منتظم جب کہ عالمِ اسلام کے بہادر اور فاتح سپاہ سالار بنے۔

    اندلس کی تاریخ کے اس فرماں روا کے بارے میں کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے، لیکن کئی معتبر مؤرخین اور تذکرہ نویسوں کے علاوہ مشہور سیاحوں نے ان کے عہد کا مختصر احوال رقم کیا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ محمد بن ابی عامر المنصور کے حالاتِ زندگی اور تخت سے فتوحات تک تفصیل میں جائیں تو ہمیں کئی روایات اور ان سے منسوب قصائص پڑھنے کو ملیں گے جن سے ان کی سیرت و کردار اور عہدِ حکم رانی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ آئیے حالاتِ زندگی سے انھیں جاننے کا آغاز کرتے ہیں۔

    ان کا آبائی وطن جنوبی اسپین بتایا جاتا ہے جہاں انھوں نے ایک ساحلی شہر الخضرا کے متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ مؤرخین کی اکثریت متفق ہے کہ ان کا سنِ پیدائش 937ء رہا ہوگا۔ ابن ابی عامر کے جدامجد کا نام عبدالمالک المعفری تھا جو اندلس کی پہلی فتح کے زمانے میں طارق بن زیاد کے سپاہیوں میں سے ایک تھا اور یہاں الخضرا کے قریب آباد ہوا تھا۔ اسی سپاہی کی آٹھویں نسل میں محمد بن ابی عامر پیدا ہوئے۔

    ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں اس دور کے دستور کے مطابق مکمل کرکے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے قرطبہ آنے والے محمد بن ابی عامر کو دورانِ تعلیم بڑا آدمی بننے کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے حاجبُ السّلطنت (وزیر اعظم) بننے کا خواب دیکھنا شروع کردیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ سنجیدگی سے اس کے لیے منصوبہ بندی کرنے لگے کہ اس منصب پر فائز ہوکر کیسے ملکی معاملات کو سدھار سکتے ہیں۔ جب وہ یہ باتیں اپنے دوستوں سے کرتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے اور انھیں بے وقوف اور دیوانہ کہتے، لیکن ان کی یہ خواہش اور جستجو ختم نہ ہوئی۔ اس حوالے سے ایک روایت مختلف انداز سے بیان کی جاتی ہے جس میں سے ایک کچھ یوں ہے: قرطبہ کی مسجد میں محمد بن ابی عامر اور ان کے ساتھی اپنے اپنے مستقبل کے بارے میں‌ بات کررہے تھے۔ ابن ابی عامر نے خود کو مستقبل میں سلطنت کا وزیرِاعظم بتایا تو دوست بے ساختہ ہنسنے لگے۔ ایک شوخ لڑکے نے طنزیہ شعر بھی چُست کر دیا۔ محمد بن ابی عامر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ انھوں نے کہا: ’’یہ تو ہو کر ہی رہے گا۔ ابھی وقت ہے، اپنے لیے جو مانگنا ہے، مانگ لو‘‘۔ یہ سن کر ایک دوست نے استہزائیہ انداز میں کہا: ’’اے ابن ابی عامر! مجھے قاضی بننے کا شوق ہے، تم مجھے میرے آبائی شہر مالقہ کا قاضی بنا دینا۔‘‘ دوسرے نے پولیس کا اعلیٰ کا عہدہ مانگا۔ تیسرے نے کہا کہ مجھے شہر کے تمام باغات کا نگران بنا دینا۔ جس لڑکے نے طنزیہ شعر پڑھا تھا، اس نے حقارت سے کہا: ’’تمہاری اگلی سات نسلوں میں بھی کوئی وزیرِ اعظم بن گیا تو میرا منہ کالا کر کے گدھے پر شہر میں گشت کرانا۔‘‘ اور پھر لڑکا پچھتایا۔

    ابن عامر نے قرطبہ سے قانون اور ادب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی شہر کی کچہری میں بطور عرضی نویس کام شروع کر دیا۔ اپنی سنجیدگی، دل جمعی، قابلیت اور نکتہ سنجی کے باعث وہ شاہی حکام کی نظروں میں آئے اور ان کے توسط سے شاہی خاندان کے ساتھ تعلق قائم ہو گیا۔ بعض تذکروں میں‌‌ آیا ہے کہ خلیفۂ وقت کو اپنے دونوں شہزادوں کے لیے اتالیق اور جائیداد کا حساب رکھنے کے لیے محرّر چاہیے تھا اور محمد بن ابی عامر اس کے لیے منتخب ہوگئے۔ قسمت ان کے خواب اور عزم و ارادے کے ساتھ تھی اور وقت نے کچھ اس تیزی سے کروٹ بدلی کہ ابنِ عامر وہ شخص بن گئے جس کے تعاون اور مدد سے خلیفہ ہشام اوّل کے انتقال کے بعد بارہ سالہ ولی عہد ہشام دوم مسندِ خلافت تک پہنچے۔ اور پھر اسی نو عمر خلیفہ نے اپنے محسن کو حاجب جیسے اہم ترین عہدے پر فائز کیا۔ ابنِ عامر کا یہ عہد چھتیس سال تک رہا جس میں انھوں نے عیسائی لشکروں سے باون جنگیں لڑیں اور ہر بار میدان سے فاتح بن کر لوٹے۔ وہ المنصور کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اس سے قبل وہ قاضی کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے

    مشہور برطانوی مؤرخ اور ماہرِ آثارِ قدیمہ اسٹینلے لین پول نے المنصور کے بارے میں لکھا: ’’عبدالرحمٰن سوئم نے جس عظیم اندلس کا خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر المنصور کے عہد میں ہوئی‘‘۔ ابنِ ابی عامر المنصور نے اندلس میں اعلیٰ پائے کا انتظام رائج کیا اور ہر شعبے میں‌ قاعدہ مقرر کیا۔ اس عہد میں رشوت اور بدعنوانی کی سختی سے بیخ کنی کی گئی جب کہ اہلِ علم و ادب کی بڑی قدر افزائی اور ان کے لیے وظیفے مقرر کیے۔

    مشہور ہے کہ ابنِ ابی عامر نے اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل اپنے وزرا کو بتایا: ’’میں زمانۂ طالبِ علمی سے سوچتا تھا کہ اگر تقدیر مجھے اندلس کا طاقتور ترین شخص بنا دے تو میں اس سلطنت کو عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچا دوں گا کہ یہاں کے شہری ہونے پر سب فخر کریں گے۔‘‘ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ان کے عہد میں عوام خود کو بہت محفوظ خیال کرتے تھے۔ دوسری طرف وہ اسلام کے ایک بہادر سپاہی اور اپنے دین کے محافظ بھی تھے جس نے میدانِ جنگ میں عیسائیوں کو بدترین شکست دی تھی جس کی بنا پر وہ المنصور سے سخت نفرت کرتے تھے، لیکن بعد کے ادوار میں عیسائی مؤرخین نے بھی لکھا کہ اس مسلمان منتظم کے دور میں‌ اندلس کو جو عروج نصیب ہوا، وہ دوبارہ نہ مل سکا۔ انھوں نے کئی علاقوں کو فتح کے بعد مرکز کے صوبے کے طور پر اپنی سلطنت سے جوڑا اور خراج وصول کرکے اسے مالی طور پر مستحکم کیا۔

    ابنِ ابی عامر اندلس اور مسلم تاریخ کا ایک ایسا جگمگاتا کردار ہے، جس کی آب و تاب کئی سو سال گزرنے جانے کے بعد بھی ماند نہیں پڑی۔ تاریخ کی کتب میں آیا ہے کہ وہ الحاجب المنصور کے نام سے یاد کیے جاتے تھے جس میں‌ حاجب ان کا عہدہ اور المنصور ان کی غیرمعمولی فتوحات کے لیے دیا گیا نام تھا۔ 10 اگست 1002ء کو وفات پانے والے اس مشہور مسلمان منتظم اور جرنیل کی یادگار کے طور پر وسطی اسپین میں ایک پہاڑ کی سب سے بلند چوٹی کو ان سے موسوم ہے۔ اسپین میں کئی مقامات پر ان کے مجسمے نصب ہیں اور آج بھی دسویں صدی کے اس نام ور مسلمان جرنیل کی بہادری اور شان دار عہد کی یاد دلاتے ہیں۔

  • لاڑکانہ کی بیگم اشرف عباسی کا تذکرہ جو قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر تھیں

    لاڑکانہ کی بیگم اشرف عباسی کا تذکرہ جو قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر تھیں

    بیگم اشرف عباسی کا نام پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں‌ قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر کے طور پر درج ہے۔ ان کی وابستگی پیپلز پارٹی سے رہی اور ذوالفقار علی بھٹو انھیں سیاست کے میدان میں لائے تھے۔

    ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی کا تعلق لاڑکانہ سے تھا۔ وہ 1925 میں حکیم محمد سعید خان عباسی کے گھر پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم لاڑکانہ سے حاصل مکمل کرنے کے بعد دہلی اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم رہیں۔ یہ تعلیمی سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رہا اور وہ دو بچّوں‌ کی ماں تھیں جب ڈاؤ کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔

    بے نظیر بھٹو لاڑکانہ کے اس عباسی خاندان پر بہت اعتماد کرتی تھیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک پر عملی سیاست میں قدم رکھنے والی اشرف عباسی 1962ء میں صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور 1973 میں قومی اسمبلی میں‌ پہنچیں جس کے بعد انھیں قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ اس کمیٹی کی بھی رکن رہیں جس نے 1973 کا آئین مرتب کیا تھا۔ 1977 کے انتخابات ہوئے تو بیگم اشرف عباسی کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر کام یابی کے بعد محکمۂ بلدیات کا قلمدان سونپا گیا تھا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے قریبی مراسم ہونے کی وجہ سے جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں سیاسی اور عوامی جدوجہد کرنے والے راہ نماؤں اور کارکنوں‌ کے ساتھ انھوں نے بھی متعدد مرتبہ نظر بندی اور قید جھیلی۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد اور مختلف مواقع پر احتجاج کی قیادت کے دوران انھوں نے بھی لاٹھی چارج اور دوسری مشکلات کا سامنا کیا اور ثابت قدم رہیں۔

    سندھ میں بحالیٔ جمہوریت کی تحریک شروع ہوئی تو بیگم اشرف عباسی بھی اگلی صفوں‌ میں رہیں اور اسی پاداش میں 14 ماہ جیل میں بھی گزارنے پڑے۔

    1988ء کے عام انتخابات میں وہ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ عملی سیاست سے دور ہوجانے کے بعد بیگم اشرف عباسی کئی جامعات کی سینڈیکیٹ ممبر اور ’شہید ذوالفقار بھٹو انسٹیٹیوٹ‘ لاڑکانہ کی چیئرپرسن بھی رہیں۔ انھوں نے ایک ٹرسٹ قائم کیا تھا اور اس پلیٹ فارم سے مستحق اور نادار خواتین کی امداد کی جاتی تھی۔

    بیگم اشرف عباسی نے اپنی سیاسی زندگی اور ذاتی حالات اور واقعات پر مشتمل ایک کتاب سندھی زبان میں ’جیکی ھلن اکیلیوں‘ کے عنوان سے تحریر کی جس کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا۔ بیگم اشرف عباسی نے 2014ء میں‌ آج ہی کے دن 89 برس کی عمر میں‌ وفات پائی۔

  • یومِ‌ وفات: کئی فلمی نغمات اخلاق احمد کی آواز میں امر ہوگئے

    یومِ‌ وفات: کئی فلمی نغمات اخلاق احمد کی آواز میں امر ہوگئے

    پاکستان فلم انڈسٹری میں‌ پسِ پردہ گائیکی کے لیے معروف اخلاق احمد 1999ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ کئی فلمی گیتوں کو اپنی آواز دینے والے اخلاق احمد شوقیہ گلوکار تھے، اور خود بھی نہیں جانتے تھے کہ ایک دن انھیں پاکستان بھر میں پہچان اور بطور گلوکار شہرت ملے گی۔

    1952ء میں کراچی میں پیدا ہونے والے اخلاق احمد نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسٹیج پروگراموں کے لیے شوقیہ گلوکاری کا سلسلہ شروع کیا اور اسی شوق ے دوران موقع ملا تو 1971ء میں ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ نامی فلم کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروا دیا یہ فلم کراچی میں بنائی جارہی تھی، یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن انھیں خاص توجہ نہ ملی۔ مگر بعد کے برسوں‌ میں وہ ملک میں مقبول ترین گلوکاروں‌ کی صف میں‌ شامل ہوئے۔

    1974ء میں اداکار ندیم نے اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ میں اخلاق احمد کے آواز میں ایک نغمہ شامل کیا اور موسیقار روبن گھوش نے لاہور میں ان کی آواز میں اپنی فلم ’’چاہت‘‘ کا ایک نغمہ ’’ساون آئے، ساون جائے…‘‘ ریکارڈ کیا۔ اس نغمے کو بہت زیادہ پسند کیا گیا اور یہ فلمی دنیا کا ایک مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔ بعد میں اخلاق احمد کو اسی گیت پر خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    اس گلوکار کو پاکستان ٹیلی وژن کے پروگراموں میں مدعو کیا جانے لگا اور ان کے کئی گیت پی ٹی وی پر نشر ہوئے جس نے اخلاق احمد کو ملک بھر میں‌ عزت اور نام و مقام دیا۔ وہ ہر خاص و عام میں‌ مقبول تھے۔

    اخلاق احمد نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کام یاب فلموں کے لیے گیت گائے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    اخلاق احمد کو آٹھ نگار ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ کو چھونے والے اس فن کار کو 1985ء میں خون کے سرطان کی تشخیص کے بعد علاج کی غرض سے لندن جانا پڑا جہاں وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔

    اخلاق احمد کراچی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • بلند پایہ محقق، نقّاد اور معلّم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا تذکرہ

    بلند پایہ محقق، نقّاد اور معلّم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا تذکرہ

    ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری کا نام اردو زبان و ادب میں نہایت معتبر اور انھیں ایک قد آور شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ مشہور ادبی جریدے نگار کے مدیر تھے۔ جہانِ علم و ادب میں‌ انھیں ایک ماہرِ لسانیات، محقّق اور بلند پایہ نقّاد کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

    فرمان فتح پوری 3 اگست 2013ء کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جو ہمارا علمی و ادبی سرمایہ ہیں۔

    اردو کے اس نام وَر کی زندگی کے اوراق الٹیں‌ تو تاریخِ پیدائش 26 جنوری 1926ء اور متحدہ ہندوستان میں‌ ان کا آبائی علاقہ فتح پور بتایا جاتا تھا۔ اسی شہر کی نسبت ان کے نام سے ہمیشہ جڑی رہی۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ‌علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کردیا۔

    تنقید اور تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر فتح پوری نے بڑا نام و مقام پایا۔ ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے انھیں‌ اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کرنے والے فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر عنوانات سے اپنا کام سامنے رکھا۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ اس موضوع پر نہایت مستند مانی جاتی ہے۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔

    مشہور ہے کہ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ ان کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں اور بیش بہا خزانہ ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • خاکسار تحریک کے بانی، ادیب، خطیب اور عالمِ دین علّامہ عنایتُ اللہ مشرقی کی برسی

    خاکسار تحریک کے بانی، ادیب، خطیب اور عالمِ دین علّامہ عنایتُ اللہ مشرقی کی برسی

    خاکسار تحریک کے بانی، ادیب، عالمِ دین اور ممتاز ریاضی دان علاّمہ عنایت اللہ مشرقی 1963ء آج ہی کے دن دارِ فانی سے عالمِ‌ جاودانی کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ان کا مدفن لاہور میں ہے۔

    علّامہ عنایت اللہ مشرقی 25 اگست 1883ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور شان دار تعلیمی ریکارڈ کی وجہ سے ہندوستان میں نمایاں ہوئے۔ کیمبرج یونیورسٹی انگلستان سے ریاضی اور طبیعیات کے شعبوں میں اعلیٰ امتیازات حاصل کیے۔ وہ اسلامی تعلیمات اور مشرقی ثقافت کے دل دادہ ایسے فرد تھے جس نے ہندوستان میں اپنی تحریر، تقریر اور قول و عمل سے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کے کارناموں اور اجداد کی میراث کی جانب متوجہ کیا۔

    1926ء میں مصر میں موتمر اسلامی کی کانفرنس میں‌ جہاں‌ دنیا بھر کے ہوش مند اور صاحبِ علم مسلمان راہ نماؤں نے شرکت کی وہیں علّامہ مشرقی بھی مدعو تھے۔ کانفرنس میں انھوں نے عربی زبان میں خطاب کیا جو ’’خطابِ مصر‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ انھوں نے 1931ء میں خاکسار تحریک کے نام سے ایک جماعت قائم کی، جس کا منشور نظم، ضبط، خدمت خلق اور اطاعتِ امیر تھا۔ اس پلیٹ فارم سے علامہ مشرقی کی آواز پر آزادی کی تڑپ رکھنے والے مسلمانوں نے اپنی قوّت کا مظاہرہ شروع کیا تھا۔

    1950ء میں علّامہ صاحب نے ’’انسانی مسئلہ‘‘ نامی مقالہ لکھ کر دنیا بھر میں‌ ہوش مند انسانوں کو چونکا دیا۔ اس مقالہ میں صاحبِ علم یعنی سائنس دانوں کو حکومت کرنے کا حق حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی تھی جو ان کے ذہن کی اختراع تھی۔ اس کے ساتھ ہی طبقاتی انتخاب میں غریب کی حکومت قائم کرنے کا قابل عمل تصور دیا گیا تھا۔ بیرونی دباؤ پر انگریز حکومت نے علّامہ مشرقی کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔

    ان کے علمی و دینی کارنامے اور ہندوستان میں انگریز راج کے خلاف ان کی سیاسی اور نظریاتی جدوجہد کئی ابواب کا تقاضا کرتی ہے دین ِاسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی آزادی کے لیے انتھک جدوجہد کرنے والا یہ عظیم انسان ایک بلند پایہ انشا پرداز، فلسفی اور مؤرخ بھی تھا۔ ان کی متعدد مذہبی اور دینی کتب اور علمی و ادبی تصنیف شایع ہوچکی ہیں۔

  • اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    قمر جمیل اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کرانے کے لیے مشہور ہوئے اور انھیں‌ نثری نظم کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کے معروف نقّاد، ادیب، شاعر اور مدیر تھے جن کی آج برسی ہے۔

    قمر جمیل نے حیدرآباد دکن میں 10 مئی 1927ء کو آنکھ کھولی۔ وہ تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے تھے۔ شروع ہی سے مطالعہ اور ادب کا شوق تھا جس نے انھیں خود بھی لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں‌ میں ادبی دنیا میں انھوں نے اپنی شناخت اور الگ پہچان بنائی۔

    وہ طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ قمر جمیل نے نثری نظم کی تحریک کا کراچی سے آغاز کیا تو ادیب اور شاعر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی اس تحریک نے تخلیق کے میدان میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا۔

    قمر جمیل کی زندگی میں ان کے دو شعری مجموعے خواب نما اور چہار خواب شائع ہوئے جب کہ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ جدید ادب کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا تھا۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی ادب سے بھی لگاؤ رکھتے تھے۔ عالمی ادب کا مطالعہ اور نئے افکار و رجحانات پر ان کی گہری نظر تھی۔

    دریافت کے نام سے قمر جمیل نے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔

    27 اگست سن 2000ء کو کراچی میں وفات پانے والے قمر جمیل کو عزیز آباد کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ایک پتھر جو دستِ یار میں ہے
    پھول بننے کے انتظار میں ہے

  • یومِ وفات: فانی بدایونی نے اپنی شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا

    یومِ وفات: فانی بدایونی نے اپنی شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا

    1941ء میں‌ آج ہی کے روز اس جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والے اردو کے نام وَر شاعر شوکت علی خان کا تخلّص بھی فانیؔ تھا۔ وہ اپنی حزنیہ شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا کلام ہجر کی وارداتوں، غمِ روزگار، رنج و الم کے موضوعات سے بھرا ہوا ہے۔

    کہتے ہیں کہ فانیؔ نے اردو شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ وہ 1879ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے شہر کی نسبت بدایونی کا لاحقہ استعمال کیا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور بعد میں مکتب گئے۔ 1892ء میں گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا اور انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ فانی نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔

    کالج کے زمانے میں شغل جاری رہا اور احباب و مختلف حلقوں میں‌ کلام سنانے لگے۔ بعد میں‌ وکالت پڑھ کر لکھنؤ میں پریکٹس کرنے لگے، لیکن پھر والد اور چند اعزّہ کے انتقال کے بعد ان کا ہر کام سے گویا دل اچاٹ ہوگیا اور معاش کے حوالے سے تنگی کا سامنا رہنے لگا جس نے انھیں یاسیت کی طرف دھکیل دیا۔ اسی عرصے میں غمِ جاناں نے بھی آ گھیرا اور ناکامی کے بعد بری طرح ٹوٹ گئے۔

    فانی نے شہر شہر کی خاک چھانی اور معاش کی خاطر جگہ جگہ قسمت آزماتے رہے۔ آخر فانی حیدر آباد دکن پہنچ گئے جہاں دربار سے اداروں تک عالم فاضل شخصیات کی قدر افزائی کی جاتی تھی اور نظام دکن کی جانب سے وظیفہ دیا جاتا تھا دکن میں فانی اچھے برے دن کاٹ کر دنیا سے چلے گئے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانیؔ
    زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

    یہ مقطع ان کی پیشِ نظر غزل کا حاصل ہے۔ اسی غزل میں ایک اور مقطع بھی شامل ہے جو بہت مشہور ہے، ملاحظہ ہو

    اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
    زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

    زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
    ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مَر جانے کا

    ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
    لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

    ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں
    کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا

    کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ
    آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا