Tag: اگست اموات

  • یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    آج اردو کے نام وَر ترقّی پسند شاعر اور صحافی خالد علیگ کا یومِ وفات ہے۔ زندگی کی 83 بہاریں دیکھنے والے خالد علیگ نے 2007ء میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا شمار پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ قلم کاروں میں ہوتا تھا۔

    خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ سمیت پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور میں قیام کیا، بعد سندھ کے شہروں میرپور خاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی آگئے جہاں تمام زندگی گزاری۔

    خالد علیگ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حرّیت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے جن کے انتقال کے بعد انھیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور 1978ء میں اس اخبار کی بندش تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

    خالد علیگ ہمیشہ ترقّی پسند مصنّفین کی تحریک میں سرگرم رہے۔ ایوب خان اور جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں آمریت اور فردِ‌ واحد کے فیصلوں کے خلاف انھوں نے صحافیوں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خالد علیگ کی شاعری میں ظلم و جبر سے نفرت، آمریت کی مخالفت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی شاعری جراتِ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔

    وہ ایک ایسے شاعر اور صحافی تھے جس نے کسی بھی موقع پر سرکاری امداد قبول نہیں کی اور اپنے قلم کو آزاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز سنی اور وہی لکھا جو حق اور سچ تھا۔ وہ خود دار تھے اور ہمیشہ خود کو اپنے ضمیر کا قیدی رکھا۔ خالد علیگ نے محنت کش طبقے اور عوام کے حق کے لیے شاعری اور صحافت کے ذریعے ہمیشہ آواز بلند کی اور بہت نام و مقام، عزّت اور احترام پایا۔ ساری زندگی کراچی شہر کی ایک بستی لانڈھی میں اپنے چھوٹے سے گھر میں گزار دی اور ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی جھیلی مگر خود داری اور اپنی آزادی کو برقرار رکھا۔

    خالد علیگ کو 1988ء میں مالی امداد کا حکومتی چیک بھجوایا گیا جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ شدید علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل تھے تو معلوم ہوا کہ حکومت کی جانب سے ان کا علاج سرکاری خرچ پر کروانے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ جان کر وہ اسپتال سے فوری گھر منتقل ہو گئے۔

    ان کی شاعری کا ایک مجموعہ ’غزال دشت سگاں‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو ان کے دوستوں اور شاگردوں نے شائع کروایا تھا۔

    ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں

    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

  • یومِ وفات: طفیل احمد جمالی نے اپنی فکاہیہ تحریروں میں سیاست اور سماج کی برائیوں کی نشان دہی کی

    یومِ وفات: طفیل احمد جمالی نے اپنی فکاہیہ تحریروں میں سیاست اور سماج کی برائیوں کی نشان دہی کی

    آج معروف ادیب، شاعر اور اردو ممتاز صحافی طفیل احمد جمالی کی برسی ہے۔ وہ 12 اگست 1974ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ ایک مزاح نگار کی حیثیت سے خاصے مقبول تھے۔ ان کے فکاہیے بہت پسند کیے گئے۔

    طفیل احمد جمالی 1919ء میں بنارس میں پیدا ہوئے تھے۔ گریجویشن کے بعد منشور دہلی سے منسلک ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے جہاں مختلف مؤقر روزناموں سے منسلک رہے۔ طفیل جمالی نے انجام، نگار، لیل و نہار اور نمکدان کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔

    انھوں نے ملکی حالات اور سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی برائیوں پر فکاہیہ کالم لکھ کر شہرت حاصل کی۔ طفیل احمد جمالی نے چند فلموں کے لیے گیت اور مکالمے بھی تحریر کیے تھے۔

    وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: ٹونی موریسن امریکا کی پہلی سیاہ فام نوبیل انعام یافتہ ادیب تھیں

    یومِ وفات: ٹونی موریسن امریکا کی پہلی سیاہ فام نوبیل انعام یافتہ ادیب تھیں

    نوبیل انعام یافتہ ادیب ٹونی موریسن 5 اگست 2019ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ وہ امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف تھیں جنھوں نے ادب کا معتبر ترین ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    ٹونی موریسن امریکا کے سیاہ فام ادیبوں میں منفرد اور بلند مقام و مرتبے کی حامل تھیں۔ انھیں افریقی نژاد امریکی مصنّفین کی نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔

    وہ اوہائیو کے ایک علاقے میں 1931ء میں پیدا ہوئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جہاں اپنے تخیل اور قلم کا سہارا لے کر شہرت اور مقبولیت کا سفر شروع کیا، وہیں درس و تدریس ان کے معاش کا ذریعہ کا شعبہ بنا۔ اس دوران وہ ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتی رہیں اور تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ انھوں نے ناول نگاری کے میدان میں اپنے اسلوب اور منفرد کہانیوں کی بدولت قارئین کی بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی ان کے مداح تھے۔

    ٹونی موریسن کو 1993ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا اور اس موقع پر سویڈش اکیڈیمی کی جانب سے ان کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور مصنّف کی بصیرت کو خاص طور پر سراہا گیا تھا۔

    ٹونی موریسن کو ان کے ناول ‘محبوب‘ (Beloved) نے شہرت بھی دی اور یہ ناول 1988ء میں فکشن کے پلٹزر پرائز کا بھی حق دار قرار پایا۔ یہ ایک درد ناک کہانی تھی جس میں انھوں نے ایسی ماں کو پیش کیا تھا جو اپنی بیٹی کو غلامی کی زندگی سے بچانے کے لیے اسے قتل کر دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ان کی دیگر اہم ترین تصنیفات میں ‘چشمِ نیلگوں(Bluest Eye)‘، ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon)، شامل ہیں۔ مؤخر الذّکر ناول بہت مقبول ہوا اور ٹونی موریسن کو امریکا میں زبردست پذیرائی ملی۔

    باراک اوباما کے دورِ صدرات میں انھیں امریکا کا ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔

    نیویارک میں مقیم ٹونی موریسن مختصر علالت کے بعد 88 سال کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔

  • بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور کام یاب ہدایت کار شمیم آرا کی برسی

    بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور کام یاب ہدایت کار شمیم آرا کی برسی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ شمیم آرا کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2016ٰء میں آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی تھیں۔ شمیم آرا بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور 1950ء سے 1970ء کی دہائی تک صفِ اوّل کی اداکارہ رہیں۔ انھوں نے فلم نگری میں ہدایت کارہ کے طور پر بھی خود کو آزمایا اور کام یاب فلمیں بنائیں۔

    22 مارچ 1938ء کو بھارتی ریاست اتر پردیش کے مشہور شہر علی گڑھ میں پیدا ہونے والی شمیم آرا کا خاندانی نام ’پتلی بائی‘ تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد جب انھوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا تو شمیم آرا کے نام سے متعارف ہوئیں۔

    انھوں نے نجم نقوی کی فلم ’کنواری بیوہ‘ سے اداکاری کا سفر شروع کیا تھا جس میں انھیں خاص کام یابی تو نہیں ملی، لیکن وہ نازک اندام اور خوب صورت تھیں اور سنیما بینوں کو ان کا معصومانہ اندازِ بیان بہت پسند آیا اور اس طرح 1958ء میں انھیں فلموں میں کاسٹ کیا جانے لگا، لیکن اگلے دس سال تک ناکامیوں نے شمیم آرا کا راستہ روکے رکھا۔ تاہم 1960ء میں فلم’ سہیلی‘ نے ان کا نصیب کھول دیا۔ یہ فلم ہٹ ہوگئی اور اس میں شمیم آرا کی کردار نگاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    1962ء میں اُن کی فلم’ قیدی‘ آئی جس میں فیض احمد فیض کی غزل ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ شمیم آرا پر فلمائی گئی تھی۔ یہ فلم کام یاب ترین فلم قرار پائی اور اداکارہ کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی سال ان کی کئی فلمیں کام یاب رہیں جن میں آنچل، محبوب، میرا کیا قصور، قیدی اور اِنقلاب شامل ہیں۔ 1963ء میں ’دلہن، اِک تیرا سہارا، غزالہ، کالا پانی، سازش، سیما، ٹانگے والا جیسی فلموں نے دھوم مچا دی اور شمیم آرا صفِ اوّل کی اداکارہ کہلائیں۔

    شمیم آرا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے پاکستان کی پہلی رنگین فلم ’نائلہ‘ میں اداکاری کی۔

    1970ء کی دہائی میں انھوں نے ہدایت کاری کا آغاز کیا اور پلے بوائے، مس استنبول، منڈا بگڑا جائے، ہاتھی میرے ساتھی جیسی کام یاب ترین فلمیں بنائیں۔

    2011ء میں دماغ کی شریان پھٹ جانے کے باعث ان کا آپریشن کیا گیا تھا جس کے بعد وہ کوما میں چلی گئی تھیں اور بعد میں انھیں علاج کے لیے لندن لے جایا گیا تھا اور وہاں تقریباً 6 سال علالت کے بعد وفات پاگئیں۔ ان کی عمر 78 برس تھی۔

  • یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا بچّوں کے مقبول ترین ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔ آپ نے بھی اپنے بچپن میں تھمبلینا، اسنو کوئن، اگلی ڈکلنگ اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ یہ سبق آموز اور پُرلطف کہانیاں اسی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن 1875ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    اس عظیم لکھاری کا وطن ڈنمارک ہے جہاں اس نے دو اپریل 1805ء کو ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آج بھی ڈنمارک کے دارُالحکومت کوپن ہیگن میں اس کا مجسمہ نصب ہے جس کے ساتھ وہاں جانے والے تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔ بچّوں کے اس محبوب مصنّف کی کہانیوں پر کئی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس کی کہانیاں سچّائی اور ہمّت کا سبق دیتی ہیں۔

    ابتدا میں ہانز نے ایک اوپرا میں کام کیا مگر وہاں مایوسی اس کا مقدّر بنی اور پھر وہ شاعری اور افسانہ نویسی کی طرف مائل ہوگیا۔ تاہم ایک بڑے ادیب نے تخلیقی صلاحیتوں کو بھانپ کر ہانز کو بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا مشورہ دیا۔ اس نے کہانیاں لکھنا شروع کیں تو بچّوں ہی نہیں بڑوں میں بھی مقبول ہوتا چلا گیا۔ اس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835ء میں چھپا۔

    ہانز کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے تھے۔ غربت اور تنگ دستی کے انہی دنوں میں وہ والد کے سائے سے بھی محروم ہوگیا اور دس سال کی عمر میں معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    ہانز اینڈرسن نے اسکول میں چند ہی جماعتیں پڑھی تھیں، لیکن وہ مطالعے کا شوق رکھتا تھا اور کام کے دوران جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    بچّوں کے لیے مستقل مزاجی سے لکھنے کے ساتھ ہانز نے بڑوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ اس کی کہانیوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس لکھاری نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کو نہایت خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں پیش کیا اور یہ کہانیاں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    ہانز کے قلم کی طاقت اور جادوئی اثر رکھنے والی کہانیوں نے اسے وہ شہرت اور مقبولیت دی جس کا دنیا نے یوں اعتراف کیا کہ اب اس ادیب کے یومِ پیدائش پر بچّوں کی کتب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

  • نام وَر محقق، نقّاد اور مصنّف ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی برسی

    نام وَر محقق، نقّاد اور مصنّف ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی برسی

    ماہرِ لسانیات، نام وَر محقّق، نقاد اور مشہور ادبی جریدے نگار کے مدیر ڈاکٹر فرمان فتح پوری 3 اگست 2013ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنّف تھے جو اردو زبان و ادب کا سرمایہ ہیں۔

    وہ 26 جنوری 1926ء کو ہندوستان کے شہر فتح پور میں پیدا ہوئے اور اسی شہر کی نسبت ان کے نام سے جڑی رہی۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی، انھوں نے یہاں جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں جامعہ کراچی ہی میں اردو ادب کی تدریس سے منسلک ہو گئے۔

    تنقید اور تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر فتح پوری انتہائی قدآور شخیصت تھے اور ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے انھیں‌ اردو زبان کا پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔

    انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں، جن میں تحقیق و تنقید، اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط شامل ہیں جو اردو زبان و ادب کا نہایت معتبر اور مستند حوالہ ہیں۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری تقریباً تین دہائیاں اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ اس موضوع پر مستند حوالہ ہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ کی لغت میں سے کئی جلدیں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی نگرانی میں مکمل کی گئی تھیں۔

    مشہور ہے کہ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا تھا۔ ان کے تحریر کردہ مضامین دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو حکومتِ پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل نے آج کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں

    ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل نے آج کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں

    1922ء میں آج ہی کے دن الیگزینڈر گراہم بیل نے دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ ان کی ایک ایجاد کی بدولت انسان فاصلے سے براہِ راست آواز کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے قابل ہوا تھا۔ ان کی اس ایجاد کو ہم ٹیلی فون کہتے ہیں۔

    اسکاٹ لینڈ ان کا وطن تھا جو بعد میں امریکا منتقل ہوگئے، وہ ایک انجینئر اور اختراع ساز تھے جنھوں نے 2 جون 1875ء کو ٹیلی فون ایجاد کیا جو دنیا بھر میں انسانوں کے درمیان رابطے اور بات چیت کا وسیلہ بنا۔ آج ہم وائر لیس ٹیکنالوجی اور اسمارٹ فونز کے دور میں زندہ ہیں، لیکن 1885ء میں جب گراہم بیل نے ٹیلی فون کمپنی کی بنیاد رکھی تو مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا ہوگیا۔

    الیگزینڈر گراہم بیل نے اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈن برگ میں 3 مارچ 1847ء کو ایک پروفیسر اور ماہرِ لسانیات کے گھر میں آنکھ کھولی۔ ان کی والدہ قوّتِ سماعت سے محروم تھیں۔ کہتے ہیں گراہم بیل کو ان کی والدہ کی اسی محرومی نے سائنس اور نشریاتی رابطوں کے تجربات پر آمادہ کیا تھا۔ گراہم بیل شاعری، آرٹ اور موسیقی کا شوق رکھتے تھے اور پیانو بھی بجانا جانتے تھے۔

    انھوں نے 14 برس کی عمر میں گندم صاف کرنے والی ایک مشین بنائی تھی جو ان کی پہلی ایجاد تھی۔ تعلیم کا سلسلہ ایڈن برگ کے رائل ہائی اسکول اور ایڈن برگ یونیورسٹی اور یونیورسٹی کالج آف لندن سے مکمل کیا۔

    گراہم بیل 23 برس کی عمر میں تپِ دق کے عارضے میں مبتلا ہوئے تو والدین انھیں کینیڈا کے ایک صحت افزا مقام پر لے گئے جہاں بیل ایسے ٹیلی گراف کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیے کام کرتے رہے، جو ایک ساتھ کئی پیغامات وصول کر سکے۔ اس ضمن میں مزید کام اور عملی تجربات نے انھیں کام یابی دی اور انھوں نے فلاڈیلفیا میں ٹیلی فون کی نمائش اور اس کے کام کا عملی مظاہرہ کیا۔

    الیگزینڈر گراہم بیل کو حکومت کی جانب سے انعام و میڈلز کے علاوہ کئی کالجوں اور یونیورسٹیوں نے اعزازی ڈگریاں دیں۔

    75 برس کی عمر میں ذیابیطس کے مرض سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور طبّی مسائل نے انھیں علیل کردیا تھا اور اسی باعث ان کا انتقال ہوگیا۔

  • انقلاب آفریں نظموں کے خالق علی سردار جعفری کی برسی

    انقلاب آفریں نظموں کے خالق علی سردار جعفری کی برسی

    اردو کے ممتاز ترقّی پسند شاعر، نثر نگار اور نقّاد، اشتراکی دانش وَر اور انسان دوست علی سردار جعفری یکم اگست 2000ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھیں ان کے سیاسی اور سماجی نظریات اور حقوق کے لیے جدوجہد کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    سردار جعفری نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں اپنی تخلیقات کے سبب پہچان بنائی۔ وہ نظم کے میدان میں حالاتِ حاضرہ اور زندگی کے روزمرّہ واقعات کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے رہے جب کہ ان کے قلم نے نثر کے عمدہ نمونے بھی اردو کو دیے اور فکری و ادبی رنگ لیے ان کے مضامین کو پسند کیا گیا۔

    سردار جعفری کی کتاب "ترقی پسند ادب” ان کی ناقدانہ بصیرت کا ثبوت ہے۔ انھوں نے افسانہ اور ڈراما بھی لکھا۔ انھوں نے شعر گوئی کے سفر میں اختراعات اور جدّت کا ثبوت دیا۔ ان کے اشعار میں عوامی نعرے اور محاورے پڑھنے کو ملتے ہیں جو ان کی شاعری کی مقبولیت کا سبب تھے۔ وہ زمانہ طالب علمی ہی میں اپنے نظریات اور رجحانات کے ساتھ پیش کی گئی شاعری کی وجہ سے نوجوانوں‌ میں مقبول ہوچکے تھے۔

    علی سردار جعفری 26 نومبر 1913ء کو اتر پردیش میں ضلع گونڈہ کے شہر بلرام پور میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا سفر شروع ہوا تو پندرہ سولہ سال کی عمر میں انھوں نے مرثیے لکھنے شروع کر دیے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر اور بعد میں انگریزی اسکول میں ہوئی، بعد میں اینگلو عربک کالج سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایل ایل بی اور ایم۔ اے انگلش میں داخلہ لیا۔ وہ دہلی اور لکھنؤ میں اس وقت کے گرم سیاسی ماحول میں اپنے وقت کے نام ور ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ رہے جن میں سجاد ظہیر، سبط حسن، اسرار الحق مجاز و دیگر شامل ہیں۔ سردار جعفری بھی سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہو گئے اور گرفتار بھی ہوئے، جیل میں بھی رہے۔ بعد میں ادبی پرچے نکالے اور کمیونسٹ پارٹی کے پرچم تلے سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔

    1960 کے عشرہ میں انھوں نے پارٹی کی عملی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور صحافتی و ادبی سرگرمیوں میں دل چسپی لینے لگے۔ ان کی شعری تخلیقات کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں کیے گئے اور ان کی ادبی خدمات پر بھارت میں انھیں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں گیان پیٹھ نمایاں ہے۔ حکومت نے انھیں پدم شری کے خطاب سے نوازا تھا۔

    سردار علی جعفری دل کے عارضے کے سبب ممبئی میں وفات پاگئے تھے۔