Tag: اگست انتقال

  • نجیب محفوظ: پہلا عرب نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نجیب محفوظ: پہلا عرب نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نجیب محفوظ عرب دنیا کے پہلے مصنّف تھے جنھیں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔

    نجیب محفوظ 17 سال کے تھے جب انھوں نے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، لیکن ان کی پہلی تصنیف اُس وقت منظرِ عام پر آئی جب نجیب محفوظ 38 برس کے ہوچکے تھے۔ جب کہ اُن کے ناول کو بھی اشاعت کے 30 سال بعد ادبی انعام سے نوازا گیا تھا۔

    مصر کے اس ادیب کی نوبیل انعام یافتہ تصنیف اُن کے ملک میں متنازع رہی ہے اور اسی بناء پر اُن پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا جس میں زخمی ہوئے تھے۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ 30 اگست 2006ء میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کا تعلق مصر سے تھا۔

    مصری ادب کو اپنی کہانیوں سے مالا مال کرنے والے نجیب محفوظ کو 1988ء میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ مصر کے مشہور شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911ء میں پیدا ہونے والے نجیب محفوظ نے تیس سے زائد ناول اور تین سو سے زائد کہانیاں لکھیں۔ وہ فلم کے لیے اسکرپٹ اور اسٹیج ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ مؤقر روزناموں‌ کے لیے مضامین اور کالم بھی لکھتے رہے۔ نجیب محفوظ کو مصر میں ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے مقبولیت حاصل تھی اور اپنے ناولوں کی وجہ سے انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی۔

    نجیب محفوظ کا بچپن غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے گزرا جب کہ ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہونے والے نجیب محفوظ روایت شکن ثابت ہوئے اور اپنے معاشرے کے اُن موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جنھوں نے قدامت پسندوں کی نظر میں‌ نجیب محفوظ کو معاشرے اور مذہب کا باغی ٹھیرایا۔ نجیب محفوظ نے جس عہد میں سانس لی، وہ مصر پر برطانیہ کے قبضے اور انقلابی تحریکوں کا عہد تھا اور اسی کے زیرِ اثر نجیب محفوظ کی تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔

    مصری ادیب نجیب محفوظ نے 1934 میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز میں داخلہ لیا، لیکن تعلیم مکمل نہ کرسکے اور لکھنے میں منہمک ہوگئے۔ اپنے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ کا حصّہ بناتے ہوئے انھوں‌ نے کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے جب کہ ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ 80 کی دہائی میں‌ شائع ہوئی۔ یہ ان کی تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 پر مبنی ہے۔ اس کتاب نے مصری قارئین میں ان کی مقبولیت کو بڑھایا جب کہ دنیا بھر میں‌ نجیب محفوظ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی وجہ سے پہچانے گئے۔

  • نیّرہ نور: ایک خوب صورت آواز، ناقابلِ فراموش شخصیت

    نیّرہ نور: ایک خوب صورت آواز، ناقابلِ فراموش شخصیت

    نیّرہ نور کی آواز میں کئی گیت اور غزلیں آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہیں‌، بالخصوص ملّی نغمات پاکستان بھر میں‌ مقبول ہیں اور نیّرہ نور کی پہچان ہیں۔ پچھلے سال آج ہی کے روز بلبلِ پاکستان کہلانے والی نیّرہ نور انتقال کر گئی تھیں۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    سنہ 2005 میں حکومت پاکستان نے گلوکارہ نیّرہ نور کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ وہ برسوں پہلے گلوکاری ترک کر کے میڈیا اور تقاریب سے دور ہوچکی تھیں‌، لیکن جب بھی پاکستان میں موسیقی اور گلوکاری کی بات ہوگی اور جشنِ آزادی کی مناسبت سے پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا تو نیّرہ نور کا نام ضرور لیا جائے گا۔ اس گلوکارہ کے معروف گیتوں اور ملّی نغموں میں تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا، آج بازار میں پا بجولاں چلو، کہاں ہو تم چلے آؤ، اے عشق ہمیں برباد نہ کر، اے جذبۂ دل گر میں‌ چاہوں، ہم کہ ٹھہرے اجنبی، وطن کی مٹی گواہ رہنا، جو نام وہی پہچان، پاکستان پاکستان، شامل ہیں۔

    نیّرہ نور نے 70 کی دہائی میں اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا اور یہ سلسلہ گیتوں، غزلوں کے علاوہ فلموں اور ڈراموں کے لیے پسِ پردہ گائیکی تک جاری رہا۔

    ان کا بچپن آسام میں گزرا۔ نیّرہ نور کا سنہ پیدائش 1950ء ہے۔ وہ 7 سال کی عمر میں‌ ہجرت کر کے اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئی تھیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں گلوکارہ نے بتایا تھا کہ گھر کے قریب صبح صبح گھنٹیاں بجتی تھیں، لڑکیاں بھجن گاتی تھیں اور ان کی آواز نیّرہ نور کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی تھی۔ `میں خود کو روک نہیں پاتی تھی، بیٹھ کر سنتی رہتی تھی تب تک جب تک وہ وہاں سے چلی نہیں جاتی تھیں۔‘

    تقسیمِ ہند کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی۔ یہاں‌ زمانۂ طالبِ علمی میں دوستوں کے درمیان نیّرہ نور اکثر انھیں محظوظ کرنے کے لیے گاتی تھیں۔ ان کی آواز کی شہرت اساتذہ تک پہنچی اور ایک مرتبہ ان کو لاہور میں منعقدہ یوتھ فیسٹیول میں اقبال اوپرا کے لیے گانے کا موقع ملا۔ اس کے بعد لاہور میں اوپن ایئر میں نیّرہ نور کو گانے پر گولڈ میڈل دیا گیا۔ اس طرح حوصلہ افزائی کے ساتھ بطور گلوکارہ بھی ان کی پہچان بننے لگی۔ لیکن کبھی یہ نہیں‌ سوچا تھا کہ باقاعدہ گلوکاری بھی کریں‌ گی۔

    پہلی مرتبہ نیّرہ نور کو ریڈیو پر باقاعدہ گانے کا موقع ملا اور ایک غزل ان کی آواز میں‌ سامعین تک پہنچی۔ 1968ء میں‌ ریڈیو سے گونجنے والی اس آواز نے 1971ء میں‌ ٹی وی پر گانے کا آغاز کیا تھا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ وہ موسیقی کے کئی پروگراموں کا حصّہ بنیں‌۔ فلموں کے لیے بھی انھوں نے بہترین گانے گائے اور نگار ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    نیّرہ نور نے منتخب کلام گایا اور فیض‌ صاحب کی غزلوں اور ںظموں کو بہت ہی دل کش انداز میں پیش کیا۔ گلوکارہ کی آواز میں فلم فرض اور ممتا کے لیے ایک ملّی نغمہ `اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔

    گلوکارہ نیّرہ نور نے گانا باقاعدہ نہیں سیکھا تھا بلکہ ریڈیو پر نشر ہونے والی موسیقی سن کر تربیت حاصل کی تھی۔ گلوکاری ان کی خداداد صلاحیت تھی۔ لیکن اس میں‌ نکھار لانے کے لیے وہ بڑے گلوکاروں‌ کو سنتی رہیں‌ اور اپنی شہرت اور ریڈیو، ٹی وی پر اپنی پذیرائی دیکھ کر ریاض کرنا بھی شروع کر دیا۔ فنِ گائیکی میں نیّرہ نور اختری فیض آبادی، بیگم اختر سے متأثر تھیں۔

    بلبلِ پاکستان کے نام سے مشہور ہونے والی نیّر نور نے بلاشبہ اپنے سریلے گیتوں سے پاکستان بھر میں شہرت اور لوگوں کا پیار سمیٹا اور جہانِ موسیقی میں ان کا خاص مقام ہے۔

  • رازؔ سے مل کے آپ خوش ہوں‌ گے!

    رازؔ سے مل کے آپ خوش ہوں‌ گے!

    ابوالفاضل رازؔ چاند پوری کا اصل نام محمد صادق اور تخلص رازؔ تھا۔ اپنے بڑے بیٹے محمد فاضل کی عالمِ طفلی میں وفات کے بعد اس مناسبت سے ابوالفاضل کنّیت اختیار کر لی۔

    رازؔ چاند پوری 25 مارچ 1892ء کو قصبہ چاند پور ضلع بجنور (یو۔ پی) کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گھر میں تعلیم و تعلم اور علم و حکمت کے چرچے تھے، اس لیے رازؔ کی تعلیم و تربیت کی جانب خصوصی توجہ دی گئی۔ دستور کے مطابق رازؔ چاند پوری نے اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز مکتب سے کیا اور پوری توجہ کے ساتھ تعلیم حاصل کی، چنانچہ اپنی ذاتی دل چسپی اور فطری ذہانت کے سبب اردو اور فارسی کی مروجہ تعلیم سے بہت جلد فراغت حاصل کرلی۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول مراد آباد سے اردو اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی، مگر 1911ء میں گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ اور معاشی تنگی کے سبب تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ لیکن ادبی ذوق اور مطالعے کا شوق برابر قائم رہا۔ یہی وجہ تھی کہ اردو اور انگریزی کے ساتھ عربی اور ہندی میں بھی کافی استعدا د پیدا کر لی تھی۔
    دورانِ تعلیم ہی طبعی رجحان شاعری کی جانب ہو چکا تھا۔ بہت جلد شعر موزوں بھی کرنے لگے۔ چوں کہ والد صاحب خود ایک اچھے شاعر اور اردو اور فارسی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے، جب اپنے صاحبزادے کی موزونیٔ طبع کا علم ہوا، تو اُن کی حوصلہ افزائی کی، بلکہ اُن کے ذوقِ شعری کو اُبھارنے اور معیار کو نکھارنے میں بھی کافی مدد کی۔ ملازمت کے سلسلے میں جب آگرہ میں مقیم ہوئے تو علّامہ سیمابؔ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور زانوئے ادب تہ کیا۔ رازؔ چاند پوری نے فطری ذوق کے سبب بہت کم عرصے میں شعر گوئی میں اعلیٰ صلاحیت اور فنی پختگی حاصل کر لی۔ وہ اپنی ایک غزل میں فرماتے ہیں؎

    سیکھی ہے رازؔ میں نے سیمابؔ نکتہ داں سے
    یہ رمزِ شعر گوئی، یہ طرزِ خوش نوائی

    رازؔ چاند پوری کا علامہ سیمابؔ کے ساتھ بے حد قریبی تعلق رہا، دونوں کے درمیان برابر ملاقات کا سلسلہ بھی قائم رہا۔ پھر رفتہ رفتہ استاد اور شاگرد کے توسط سے قائم ہونے والا یہ رشتہ ایک مضبوط یارانہ تعلقات تک جا پہنچا جو آخر عمر تک قائم رہا۔ جس کی مناسبت سے رازؔ چاند پوری لکھتے ہیں: ’’جب تک میں آگرہ میں رہا، ہر ہفتہ سیمابؔ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور وہ بھی کبھی کبھی غریب خانے پر تشریف لاتے رہے۔ رفتہ رفتہ تعلقات بڑھ کر دوستی کی حد تک پہنچ گئے اور سیمابؔ صاحب کی زندگی کے آخر دن تک قائم رہے۔‘‘

    رازؔ چاند پوری کی زندگی کے بیشتر ایّام مصائب و آلام میں گزرے۔ ایک طرف روزگار کا غم تھا تو دوسری جانب تین بچّوں کی موت نے انھیں اور ہی زیادہ مغموم کر دیا تھا۔ پھر رفیقۂ حیات کی مسلسل کی علالت اور 1955ء میں داغِ مفارقت دے جانے کے باعث اُنھیں کبھی سکون میسر نہ ہو سکا۔ انھیں ملازمت کے سلسلے میں کئی بار نقل مکانی بھی کرنی پڑی مگر اِن تمام مشکلات کے باوجود وہ جہاں بھی رہے، خود کو شعر و ادب سے وابستہ رکھا۔

    رازؔ چاند پوری نے اپنے تجربات و محسوسات کی روشنی میں اپنے خیالات کو جس فن کارانہ خوبی کے ساتھ پیش کیا، اس سے اُن کے فکر و فن اور شاعرانہ برتری کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے شاعری کے ذریعہ زندگی کے عام مسائل کو جس خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے اس سے ادب کا عام قاری بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

    ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے باوجود وہ خاصی حد تک گوشہ نشیں ہی رہے۔ وہ کہتے ہیں۔ ؎

    مشکل نہیں کہ گرمیِ محفل نہ بن سکوں
    لیکن میں اپنے رنگِ طبیعت کو کیا کروں

    اور یہ شعر دیکھیے۔

    گم نام ہوں، گم نام سہی بزمِ ادب میں
    اے رازؔ یہ کیا کم ہے کہ بدنام نہیں ہوں

    ایک ادیب اور شاعر کی حیثیت سے رازؔ چاندپوری نے کئی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصانیف اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔ اُن کی مطبوعہ کتابوں میں ’زرّیں افسانے، ’دنیائے راز، ’نوائے زارؔ، ’داستانِ چند (یادداشتیں اور سوانح علامہ سیمابؔ اکبرآبادی) وغیرہ شامل ہیں۔ رازؔ چاند پوری کی شعری و نثری کتابیں ادب میں ایک اضافہ ضرور تھیں، مگر اس دنیا میں انھیں وہ مقام و مرتبہ حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ سزاوار تھے۔ 1955ء کے بعد وہ شعر و ادب سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور چودہ سال گوشہ نشینی میں گزار کر 25 اگست 1969ء کو دنیا سے رخصت ہوئے۔

    رازؔ چاند پوری بنیادی طور پر غزل گو شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن انھوں نے بے شمار نظمیں بھی کہی ہیں۔ اُنھوں نے زندگی کے مختلف مسائل و موضوعات پر قلم اٹھایا، اور نظموں میں ہیئت اور بیان کے نئے تجربے بھی کیے، مگر اُن کے یہاں عام طرزِ شاعری سے ہٹ کر زیادہ تر داخلی رنگ کی جلوہ گری دیکھنے کو ملتی ہے۔

    رازؔ کی ایک بڑی شاعرانہ خصوصیت یہ ہے کہ اُن کی بیشتر تخلیقات موسیقیت اور غنائیت سے بھرپور ہوتی ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو عام مقبولیت حاصل ہوئی۔

    (حوالہ جات: رازؔ چاند پوری، داستانِ عہد گل، نوائے رازؔ، عبدالقادر سروری، جدید اردو شاعری)

  • نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ نے سترہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور جب وہ اڑتیس برس کے تھے تو ان کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی۔ اسی طرح ان کے ناول کو اشاعت کے تیس سال بعد نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    مصری ادب کو اپنی کہانیوں سے مالا مال کرنے والے نجیب محفوظ نے 2006ء میں وفات پائی تھی۔ انھیں 1988ء میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911 کو پیدا ہونے والے نجیب محفوظ نے اپنے ادبی سفر میں تیس سے زائد ناول اور 350 کہانیاں تخلیق کیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے اسکرپٹ، اسٹیج پلے بھی لکھے جب کہ مؤقر جرائد اور اخبارات میں‌ ان کے مضامین اور کالم بھی شائع ہوتے تھے۔ وہ ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے اپنی تخلیقات کے سبب مصر میں مقبول ہوئے اور بعد میں دنیا بھر میں انھیں پہچانا گیا۔

    نجیب محفوظ نے غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے ابتدائی عمر گزاری اور ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ اس کے باوجود وہ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہوئے اور روایت سے بغاوت کرتے ہوئے ان موضوعات کو بھی زیرِ نوکِ قلم لائے جس نے قدامت پرستوں کے درمیان انھیں متنازع بنا دیا۔

    مصر پر برطانوی قبضے اور انقلابی تحریکوں نے نجیب محفوظ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ اس فکر کو پروان چڑھایا جس میں انھیں تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کا موقع ملا۔

    نجیب محفوظ نے 1934 میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز کے لیے داخلہ لیا، لیکن اس مضمون میں اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکے اور لکھنے لکھانے میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے مصر کے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ میں اجاگر کیا اور کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے اور اسّی دہائی میں ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ شائع ہوئی۔ یہ تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 کا احاطہ کرتا ہے۔ نجیب محفوظ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی ایک مثال تھے۔

  • پرویز حسن سے پرویز مہدی تک شہرت اور مقبولیت کے سفر کی کہانی

    پرویز حسن سے پرویز مہدی تک شہرت اور مقبولیت کے سفر کی کہانی

    پرویز حسن نے فنِ گائیکی میں اپنے استاد مہدی حسن سے گہری عقیدت کی بنا پر خود کو پرویز مہدی کہلوانا پسند کیا اور انہی کا اندازِ گائیکی اپنایا۔ پرویز مہدی بنیادی طور پر غزل گائیک تھے، لیکن کئی نغمات اور متعدد لوک گیت بھی ان کی آواز میں مقبول ہوئے۔

    معروف گلوکار پرویز مہدی 2005ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 57 سال جب کہ موسیقی کی دنیا میں‌ ان کا سفر لگ بھگ تیس برس جاری رہا۔ نام ور شعرا کی غزلیں اور کئی گیت ریکارڈ کروانے والے پرویز مہدی کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ملک بھر میں‌ پہچان ملی۔

    70ء کی دہائی میں جب ریڈیو اسٹیشن لاہور سے ’میں جانا پردیس’ نشر ہوا تو لوگ پرویز مہدی کی آواز سے آشنا ہوئے اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    پرویز مہدی نے 14 اگست 1947ء کو لاہور میں ریڈیو کے ایک مشہور گلوکار بشیر حسین راہی کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ موسیقی اور سازوں سے بچپن ہی سے قریب ہوگئے تھے اور انھیں گانے کا شوق بھی شروع ہی سے تھا۔ پرویز مہدی نے جے اے فاروق سے موسیقی کی ابتدائی تربیت حاصل کی تھی اور بعد میں مہدی حسن کے پہلے اعلانیہ شاگرد بنے۔

    ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے پرویز مہدی لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگنے والے کا تذکرہ

    نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگنے والے کا تذکرہ

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور جیّد صحافی ملا واحدی کی زندگی کا سفر 22 اگست 1976ء کو کراچی میں تمام ہوا۔ مصورِ فطرت خواجہ حسن نظامی نے انھیں ملا واحدی کا نام دیا تھا اور وہ اسی نام سے پہچانے گئے۔

    ملا واحدی 17 مئی 1888ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تعلیم بھی اسی شہر سے مکمل کی۔ ادب اور صحافت کا شوق نوعمری میں ہی ہوگیا تھا اور 15 برس کے تھے جب مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مؤقر اخبارات کی زینت بنے۔ ان میں ماہنامہ ’’زبان‘‘، ’’وکیل‘‘ ہفتہ وار ’’وطن‘‘ اور روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ جیسے رسائل اور جرائد شامل تھے۔ 1909ء میں خواجہ حسن نظامی نے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا تو ملا واحدی کو نائب مدیر کی حیثیت سے ان کے ساتھ کا کرنے کا موقع ملا اور بعد میں ملا واحدی نے ہی یہ رسالہ سنبھالا اور کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کردیا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی چلے آئے تھے۔

    ملا واحدی دہلوی اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’شبیر قوّال کا نام آپ نے ممکن ہے سُنا ہو، وہ میرا ہم محلّہ تھا۔ بچپن سے اسے گانے کا شوق تھا۔ آواز پھٹی پھٹی سی تھی لیکن گائے جاتا تھا۔ آخر گاتے گاتے کلانوت ہوگیا۔ ریڈیو والے اسے بلانے لگے اور ریکارڈ بھرنے لگے۔ دلّی میں اُس نے خاصی شہرت حاصل کرلی تھی۔ کراچی میں اس کی چوکی کا خاصا ڈنکا بجا۔ میں بھی شبیر مرحوم کی طرح لکھتے لکھتے کچھ کچھ لکھ لینے کے قابل ہوا ہوں۔ میرے والد صاحب کو شکایت تھی کہ میری اردو کم زور ہے، لیکن خدا کی شان، والدِ ماجد کے رحلت فرماتے ہی میری توجہ نصاب کی کتابوں سے زیادہ اُردو کی طرف ہوگئی۔ ڈپٹی نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی کی کتابیں پڑھنے لگا۔ علومِ جدید کی ڈگری اور علومِ دین کی دستارِ فضیلت سے تو محروم رہا مگر چوراسی سال کی عمر تک طالب علم ہوں۔ اخباروں، رسالوں میں سن 1903ء سے لکھ رہا ہوں۔ میں ادیب یا انشا پرداز کہلانے کا مستحق اپنے تئیں نہیں سمجھتا۔ قلم کار کا لفظ بھی بہ تامل استعمال کیا ہے۔ قلم گھسائی لکھنا چاہیے تھا۔ البتہ سڑسٹھ سال قلم گھسائی میرے زمانے میں اور کسی نے نہیں کی، اور مجھے فخر ہے کہ میرا کوئی مضمون اوّل دن سے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا گیا۔‘‘

    وہ مزید لکھتے ہیں، ’’1934ء سے 1946ء تک میونسپل کمیٹی کی ممبری چمٹی رہی۔ مسلسل بارہ برس میونسپلٹی میں بھاڑ جھونکا۔ قصہ مختصر 1947 کے اکتوبر میں دلّی سے بھاگا تو نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگا تھا۔ دہلوی سے کراچوی بنا تو ساٹھ باسٹھ برس کا بوڑھا تھا۔‘‘

    کراچی آنے کے بعد انھوں نے علمی اور ادبی مشاغل کا آغاز کیا اور یہاں سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا ازسرنو اجرا عمل میں لائے، یہ رسالہ 1960ء تک شایع ہوتا رہا۔ ملا واحدی ان ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے دلّی شہر کے باسیوں کی باتوں اور یادوں کو خاص طور پر رقم کیا ہے۔ ان کی تحریریں ملک کے مؤقر اخبارات اور معروف جرائد کی زینت بنیں۔ ان کی تصانیف میں تین جلدوں پر مشتمل حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات شامل ہیں۔

    ملا واحدی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شاہ نور اسٹوڈیو کے احاطے میں مدفون سیّد شوکت حسین رضوی کا تذکرہ

    شاہ نور اسٹوڈیو کے احاطے میں مدفون سیّد شوکت حسین رضوی کا تذکرہ

    سیّد شوکت حسین رضوی لاہور میں شاہ نور اسٹوڈیو کے احاطے میں مدفون ہیں۔ وہ 1998ء میں آج ہی کے دن کے وفات پاگئے تھے۔ وہ پاکستان کے صف اوّل کے ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں میں‌ شمار کیے جاتے ہیں۔

    وہ متحدہ ہندوستان میں اتر پردیش کے شہر اعظم گڑھ میں 1913ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ شوکت رضوی نے کلکتہ کے مشہور تھیٹر سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور بحیثیت تدوین کار اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔ اس زمانے کے ایک مشہور فلم ساز سیٹھ دل سکھ پنچولی نے شوکت حسین کو کلکتہ سے لاہور آنے کی دعوت دی اور یہاں آکر انھوں نے گل بکاؤلی اور خزانچی جیسی فلموں کے لیے بحیثیت تدوین کار کام کیا۔ سیٹھ پنچولی نے انھیں اپنی پہلی فلم ’’خاندان‘‘ کے ہدایت کار کے طور پر مزید آگے بڑھنے کا موقع دیا تو شوکت رضوی نے بھی انھیں‌ مایوس نہیں کیا۔ اس فلم کو بہت پذیررائی ملی۔

    نور جہاں پہلی مرتبہ اسی فلم میں بطور ہیروئن جلوہ گر ہوئی تھیں۔ اسی فلم نے شوکت حسین رضوی اور نور جہاں کو قریب کردیا اور انھوں نے شادی کرلی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سید شوکت حسین رضوی کی پہلی فلم ’’چن وے‘‘ تھی جس کے بعد گلنار، جان بہار، عاشق اور بہو رانی و دیگر فلمیں‌ بطور ہدایت کار ان کی کام یابی کا سبب بنیں۔

    فلم انڈسٹری میں تدوین کار کی حیثیت سے ان کی فلموں یملا جٹ اور دوست کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ فلمیں تھیں جس نے دل سکھ پنچولی کو ان کی جانب متوجہ کیا تھا اور ان کی فلم خاندان کام یاب رہی تھی۔ نور جہاں سے شادی کر کے شوکت رضوی ان کے ساتھ ممبئی چلے گئے اور تقسیم ہند کے بعد یہ جوڑا اپنے تین بچّوں سمیت پاکستان آیا۔ یہاں شوکت حسین رضوی نے ملتان روڈ پر شاہ نور اسٹوڈیو قائم کیا اور اسی عرصہ میں جب نور جہاں سے اختلافات اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی تو شوکت حسین نے معروف اداکارہ یاسمین سے شادی کرلی جن کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ اس کے بعد وہ صرف تین اردو فلمیں بناسکے جن میں سے ایک دلہن رانی تھی جو فلاپ فلم ثابت ہوئی اور اس کے بعد شوکت حسین رضوی نے فلم نگری سے دوری اختیار کرلی تھی۔

    شوکت حسین رضوی نے 85 سال کی عمر میں اس دارِ فانی کو خیرباد کہا۔

  • یادوں کو مہکاتے، سماعتوں‌ میں‌ رس گھولتے نغمات کے خالق تسلیم فاضلی کا تذکرہ

    یادوں کو مہکاتے، سماعتوں‌ میں‌ رس گھولتے نغمات کے خالق تسلیم فاضلی کا تذکرہ

    ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا۔‘‘ یہ گیت آپ نے بھی شاید سنا ہو، جو محبّت بھرے اور بے قرار دل کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ گیت تسلیم فاضلی کی یاد دلاتا ہے جو 1982ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں سے ایک ہیں‌ جنھیں‌ نوجوانی ہی میں‌ فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کے بعد شہرت اور مقبولیت مل گئی۔ 17 اگست کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرجانے والے اس شاعر نے دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ تسلیم فاضلی اردو کے مشہور شاعر دعا ڈبائیوی کے فرزند تھے۔ یوں ادبی ذوق انھیں‌ ورثے میں ملا اور وہ وقت بھی آیا جب تسلیم فاضلی خود شاعری کرنے لگے اور فلمی دنیا میں‌ اپنی خوب صورت شاعری کی بدولت نام بنایا۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور کئی کام یاب فلموں کے لیے انھوں نے خوب صورت گیت لکھے۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے نغمات تحریر کرنے پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    فلم انڈسٹری میں‌ اپنے زمانۂ عروج میں تسلیم فاضلی نے اس وقت کی معروف اداکارہ اور مقبول ہیروئن نشو سے شادی کی تھی۔

    فلم انڈسٹری کے اس باکمال تخلیق کار نے سادہ اور عام فہم شاعری کی اور ایسے گیت لکھے جو دلوں کو چُھو گئے اور پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی بہت مقبول ہوئے۔ ان کی مشہور غزل فلم زینت میں شامل کی گئی جس کا مطلع یہ ہے۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ وہ گیت ہے جو آج بھی ہماری سماعتوں‌ میں‌ رس گھول رہا ہے اور اسے بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اسی گیت نے تسلیم فاضلی پر شہرت کے دَر وا کیے تھے جس کے بعد انھیں بطور شاعر کئی فلموں کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا اور وہ صفِ اوّل کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے متعدد گیت لازوال ثابت ہوئے جن کے بول ہیں، یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، کہانی محبت کی زندہ رہے گی، ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے، ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا، مجھے دل سے نہ بھلانا، کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی۔

    یہ نغمات فلمی شاعری میں‌ کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں اور تسلیم فاضلی کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

  • عہدِ سیاہ میں حق و صداقت کا پرچار کرنے والے خالد علیگ کا تذکرہ

    عہدِ سیاہ میں حق و صداقت کا پرچار کرنے والے خالد علیگ کا تذکرہ

    حق گوئی اور جرأتِ اظہار کے ساتھ جہدِ مسلسل خالد علیگ کی پہچان رہی۔ سماج کے پسے ہوئے طبقات کے لیے انھوں‌ نے اپنی آواز بلند کی اور ہر دور میں ناانصافی اور جبر کے خلاف اپنے قلم کو متحرک رکھا۔ آج خالد علیگ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کے فعال رکن تھے۔ سینئر صحافی اور مزاحمتی شاعری کے لیے ملک بھر کے روشن خیال اور دانش ور طبقے میں عزّت اور احترام سے یاد کیے جانے والے خالد علیگ 2007ء میں‌ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ وہ طویل عرصے سے پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا تھے۔

    خالد علیگ 1925ء میں متحدہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کی سند حاصل کی تھی۔ تقسیمِ ہند کے وقت ہی ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا، جہاں وہ صوبۂ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور بعد میں‌ لاہور میں‌ ٹھہرے۔ اس کے بعد صوبۂ سندھ میں میرپورخاص، خیر پور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔

    خالد علیگ نے ہندوستان میں‌ سیاسی اور سماجی تحریکوں کے علاوہ اس زمانے میں مختلف فلسفہ ہائے حیات اور نظریات کو پروان چڑھتے دیکھا اور نوجوانی میں کمیونسٹ نظریات سے متاثر ہوگئے۔ انھوں نے صحافت کا آغاز بھی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے ‘منشور’ سے کیا۔ اس کے بعد روزنامہ حریت سے وابستہ ہوگئے اور بعد میں روزنامہ مساوات کے نیوز ایڈیٹر بنے اور 1978ء میں اخبار کی بندش تک اسی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

    ملک میں سیاسی آمریت کے دور میں روزنامہ مساوات سے وابستہ صحافیوں اور اخباری کارکنوں‌ کی آزمائش شروع ہوگئی۔ خالد علیگ ایوب خان کے دور میں‌ بھی اپنی آواز جمہوریت اور عوام کے حق میں بلند کرنے والوں‌ میں‌ شامل رہے تھے اور ضیا کے دور میں جب صحافیوں، انسانی حقوق کے علم برداروں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور ان کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا تو خالد علیگ صحافیوں کی تحریک کے سرکردہ راہ نما تھے۔ مساوات کو پیپلز پارٹی کا ترجمان اخبار کہا جاتا تھا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوام بالخصوص محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرتا تھا، لیکن خالد علیگ نے کبھی پیپلز پارٹی یا سرکاری امداد بھی قبول کرنا گوارہ نہیں‌ کیا۔ وہ ترقی پسند مصنفین کی صف میں‌ رہتے ہوئے اپنے نظریات اور اپنے قلم سے ملک میں جمہوریت اور عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے کام کرتے رہے۔

    بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں اپنے دورِ حکومت میں مالی امداد کے لیے چیک بھجوایا، مگر خالد علیگ نے قبول نہیں کیا۔ شدید علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل ہوئے تو صوبائی حکومت نے سرکاری خرچ پر علاج کرانے کا اعلان کیا جس پر وہ اسپتال سے گھر منتقل ہوگئے تھے۔

    خالد علیگ نے اپنی شاعری کو جبر اور استحصال کے خلاف مزاحمتی آواز بنا کر پیش کیا اور ایک مجموعہ ’غزالِ دشت سگاں‘ یادگار چھوڑا۔ وہ مالی مسائل کا شکار بھی رہے اور کراچی کے علاقے لانڈھی میں‌ 80 گز کے مکان میں ساری عمر گزار دی۔ ان کا مجموعۂ کلام ان کے دوستوں اور شاگردوں نے شائع کروایا تھا۔

    ان کے معاصرین اور جونیئرز انھیں خالد بھائی کہتے تھے جس نے تمام عمر انھیں اپنے قول و فعل سے خود داری، راست گوئی اور حق و صداقت کا پرچم بلند رکھنے کا درس دیا ان کی شاعری کا غالب حصّہ انقلابی اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے، لیکن خالد علیگ کا وصف یہ ہے کہ انھوں نے غزل اور نظم کی جمالیات کا خیال رکھا ہے۔ یہاں ہم ان کی ایک خوب صورت غزل نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں

    مرے جسم و جاں پہ اسی کے سارے عذاب سارے ثواب ہیں
    وہی ایک حرفِ خود آگہی کہ ابھی جو میں نے کہا نہیں

    نہ وہ حرف و لفظ کی داوری نہ وہ ذکر و فکرِ قلندری
    جو مرے لہو سے لکھی تھی یہ وہ قراردادِ وفا نہیں

    ابھی حسن و عشق میں فاصلے عدم اعتماد کے ہیں وہی
    انہیں اعتبارِ وفا نہیں مجھے اعتبارِ جفا نہیں

    وہ جو ایک بات تھی گفتنی وہی ایک بات شنیدنی
    جسے میں نے تم سے کہا نہیں جسے تم نے مجھ سے سنا نہیں

    میں صلیبِ وقت پہ کب سے ہوں، مجھے اب تو اس سے اتار لو
    کہ سزا بھی کاٹ چکا ہوں میں، مرا فیصلہ بھی ہوا نہیں

    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

  • خوش مزاجی اور زندہ دلی دردانہ بٹ کی پہچان تھی

    خوش مزاجی اور زندہ دلی دردانہ بٹ کی پہچان تھی

    سینئر اداکارہ دردانہ بٹ نے اپنے کیریئر کے دوران اسٹیج، ٹیلی وژن اور فلمی پردے پر کئی سنجیدہ اور مزاحیہ کردار نبھائے۔ ان کی پہچان اور مقبولیت کا سبب خاص طور پر ٹیلی وژن ڈراموں کے کامیڈی کردار ہیں۔ کینسر کے مرض میں مبتلا دردانہ بٹ پچھلے سال 12 اگست کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    دردانہ بٹ 9 مئی 1938ء کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم برطانیہ میں‌ حاصل کی جہاں ان کے والد پاکستان کے سفارت خانے میں تعلیمی اتاشی تھے۔ وہ گیارہ سال کی تھیں جب والد کا پاکستان تبادلہ ہوگیا اور یہاں لاہور میں‌ سکونت اختیار کرنے کے بعد دردانہ بٹ کو ان کے والد نے مری کے مشنری اسکول میں داخل کروا دیا۔ اس کے بعد ان کا کانووینٹ لاہور میں داخلہ ہوا۔

    1967ء میں دردانہ بٹ کی شادی سعید احمد خان سے ہوئی جو ان کے ننھیالی عزیز بھی تھے، لیکن ڈیڑھ سال کے بعد ان کے شوہر کی وفات ہوگئی۔ انھوں نے مزید پڑھنے کا فیصلہ کیا اور کالج سے گریجویشن کرنے کے دوران وہاں اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لینے لگیں۔ اس کے بعد وہ فرانس چلی گئیں جہاں فرینچ میں ڈپلوما حاصل کیا اور واپس آکر ایک نجی اسکول میں پی ٹی ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔

    دردانہ بٹ نے بطور کمرشل پائلٹ کچھ عرصہ ہوا بازی بھی کی، لیکن نظر کم زور ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں۔ وہ جوڈو کراٹے اور آتشیں اسلحے کا استعمال بھی جانتی تھیں۔

    تھیٹر اور اسٹیج سے اداکاری نے انھیں پی ٹی وی تک پہنچا دیا اور یہاں دردانہ بٹ کو منور ظریف اور معین اختر جیسے بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ مزاحیہ خاکوں پر مشتمل پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ میں نظر آئیں اور ناظرین میں‌ پہچان بنائی۔ پی ٹی وی پر انھوں نے معین اختر کے ساتھ نوکر چاکر، آنگن ٹیڑھا جیسے ڈراموں میں‌ کردار نبھائے اور تنہائیاں میں بی بی کے روپ میں زبردست پذیرائی اور شہرت حاصل کی، بعد میں پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں بھی مختلف ڈراموں میں‌ کردار نبھانے کا موقع ملا۔

    دردانہ بٹ نے 2019 میں آخری مرتبہ ڈرامہ رسوائی میں اپنا کردار نبھایا تھا۔