Tag: اگست انتقال

  • ماسٹر رام چندر: ریاضی کا ماہر اور کائنات کا کھوجی جس سے گھر والوں نے قطع تعلق کرلیا

    ماسٹر رام چندر: ریاضی کا ماہر اور کائنات کا کھوجی جس سے گھر والوں نے قطع تعلق کرلیا

    ماسٹر رام چندر برطانوی راج میں ایک ریاضی داں، معلّم اور محقق کی حیثیت سے معروف تھے۔ انھوں نے الجبرا اور علمِ مثلث پر وقیع مضامین سپردِ قلم کیے اور علمی و تحقیقی مقالے ان کی وجہِ شہرت بنے۔

    رام چندر کی دو تصنیفات کا برطانیہ میں بھی چرچا ہوا اور حکومت نے ان کی گراں قدر علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان تھا۔ انھوں نے اس سے متعلق اپنے ایک مضمون میں چند سوالات اٹھائے تھے اور بعد میں اپنی تحقیق اور قیاس کی بنیاد پر اس کی وضاحت بھی کی جو ایک رسالے میں شایع ہوئی۔ ہم یہاں ان کا وہ مضمون قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں، لیکن اس سے پہلے رام چندر کے حالاتِ زندگی اور ان کی علمی کاوشوں کا مختصر احوال جان لیجیے۔

    وہ ہریانہ کے مشہور علاقہ پانی پت کے ایک ہندو گھرانے میں‌ 1821ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ 11 اگست 1880ء کو رام چندر نے وفات پائی۔ وہ شروع ہی سے سائنس اور علمی موضوعات میں‌ دل چسپی رکھتے تھے۔ 1945ء میں رام چندر نے اخبار فوائد النّاظرین اور 1847ء میں ایک علمی اور ادبی ماہ نامہ محبِّ ہند بھی جاری کیا۔ وہ ایک خوب صورت طرزِ نگارش کے حامل صحافی بھی تھے۔ رام چندر کا شمار متحدہ ہندوستان کی ان شخصیات میں‌ ہوتا ہے جو تعلیمِ نسواں کے بڑے حامی تھے جب کہ گونگوں اور بہروں کو بھی تعلیم دینے کی حمایت کرتے تھے۔ ان کے والد رائے سندر لال ماتھر محکمۂ مالیات میں ملازم تھے۔ بارہ برس کی عمر میں انگریزی مدرسے میں داخل ہوئے، بعد میں دہلی کالج میں داخلہ لیا اور وہاں اپنی قابلیت کی وجہ سے وظیفہ پایا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد رام چندر اسی کالج میں مدرس ہو گئے اور اردو میں الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں۔ 1854ء کی بات ہے جب انھوں نے ہندو مذہب ترک کیا اور عیسائی مذہب کو اپنا لیا جس پر ان کے خاندان اور دوسروں لوگوں نے ان سے سماجی تعلق قطع کر دیا تھا۔

    کائنات سے متعلق رام چندر کے سوالات اور ان کی فکر ملاحظہ کیجیے۔

    "اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”

    "واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔

    پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔

    چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کر کے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔

    پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک ما بین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔

    یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔

    واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”

  • ‘وہ آؤٹ ہوگئے تو سمجھو کھیل ہی ختم’ ٹیسٹ کرکٹر حنیف محمد کا تذکرہ

    ‘وہ آؤٹ ہوگئے تو سمجھو کھیل ہی ختم’ ٹیسٹ کرکٹر حنیف محمد کا تذکرہ

    کرکٹ کمنٹیٹر جمشید مارکر کہتے تھے، ’حنیف محمد جب بیٹنگ کرنے جاتے تھے تو ہم کانپتے تھے، دل کو دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں وہ آؤٹ نہ ہوجائیں، پھر سمجھو کھیل ہی ختم ہو جائے گا۔‘

    یہ تذکرہ ہے لٹل ماسٹر کے نام سے مشہور ہونے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان کا جو کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور طویل علالت کے بعد 2016 میں آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔

    حنیف محمد نے کئی شان دار اننگز کھلیں اور کرکٹ کے میدان میں ریکارڈ بنائے۔ ان کی 499 رنز کی اننگز 35 سال تک فرسٹ کلاس کرکٹ میں سب سے طویل انفرادی کام یابی کا عالمی ریکارڈ رہی جسے برائن لارا نے 1994 میں 501 رنز بنا کر توڑا تھا۔ 23 جنوری 1958 کو ویسٹ انڈیز کے خلاف بارباڈوس میں حنیف محمد نے 337 رنز کی اننگز کھیل کر ایک اور کارنامہ انجام دیا۔ ان کے وکٹ پر رہنے کا دورانیہ اس اننگز میں 970 منٹ تھا جو اس کھیل کی ریکارڈ بک کا حصّہ بن گیا۔

    کرکٹ کے کھیل میں پاکستان کی فتح کو یقینی بنانے اور اپنی ٹیم کے لیے فخر کا باعث بننے والے لٹل ماسٹر نے 21 دسمبر 1934ء کو جونا گڑھ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ وہ پاکستان کی اس پہلی کرکٹ ٹیم کے رکن تھے جس نے اکتوبر 1952ء میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلی۔ حنیف محمد 1969ء تک ٹیسٹ کرکٹر کے طور پر فعال رہے اور اس عرصے میں 55 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 12 سنچریوں کی مدد سے مجموعی طور پر 3915 رنز اسکور کرنے والے کھلاڑی بنے۔

    حنیف محمد کے تین بھائی وزیر محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد نے بھی ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی، البتہ ایک بھائی رئیس محمد ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیل سکے۔ حنیف محمد کے صاحبزادے شعیب محمد کو بھی ٹیسٹ کرکٹر کے طور پر پاکستان میں یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حنیف محمد کا خاندان کراچی آگیا تھا جہاں والد کے سائے سے محروم ان بھائیوں نے بڑے مشکل حالات کا سامنا کیا۔ بعد میں دو بھائیوں کو بینک میں ملازمت ملی تو ان کے مالی حالات بتدریج بہتر ہوتے چلے گئے۔

    قابلِ‌ ذکر بات یہ ہے کہ حنیف محمد اور ان کے بھائیوں‌ کا کھیلوں بالخصوص کرکٹ سے لگاؤ کی وجہ ان کے والدین تھے۔ ان کی والدہ خود بھی دو کھیلوں کی چیمپئین تھیں اور والد شیخ اسماعیل بھی بہت اچھے کلب کرکٹر رہے تھے۔ لٹل ماسٹر حنیف محمد پلیئنگ فار پاکستان کے نام سے ایک کتاب کے مصنّف بھی ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: کئی فلمی نغمات اخلاق احمد کی آواز میں امر ہوگئے

    یومِ‌ وفات: کئی فلمی نغمات اخلاق احمد کی آواز میں امر ہوگئے

    پاکستان فلم انڈسٹری میں‌ پسِ پردہ گائیکی کے لیے معروف اخلاق احمد 1999ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ کئی فلمی گیتوں کو اپنی آواز دینے والے اخلاق احمد شوقیہ گلوکار تھے، اور خود بھی نہیں جانتے تھے کہ ایک دن انھیں پاکستان بھر میں پہچان اور بطور گلوکار شہرت ملے گی۔

    1952ء میں کراچی میں پیدا ہونے والے اخلاق احمد نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسٹیج پروگراموں کے لیے شوقیہ گلوکاری کا سلسلہ شروع کیا اور اسی شوق ے دوران موقع ملا تو 1971ء میں ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ نامی فلم کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروا دیا یہ فلم کراچی میں بنائی جارہی تھی، یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن انھیں خاص توجہ نہ ملی۔ مگر بعد کے برسوں‌ میں وہ ملک میں مقبول ترین گلوکاروں‌ کی صف میں‌ شامل ہوئے۔

    1974ء میں اداکار ندیم نے اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ میں اخلاق احمد کے آواز میں ایک نغمہ شامل کیا اور موسیقار روبن گھوش نے لاہور میں ان کی آواز میں اپنی فلم ’’چاہت‘‘ کا ایک نغمہ ’’ساون آئے، ساون جائے…‘‘ ریکارڈ کیا۔ اس نغمے کو بہت زیادہ پسند کیا گیا اور یہ فلمی دنیا کا ایک مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔ بعد میں اخلاق احمد کو اسی گیت پر خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    اس گلوکار کو پاکستان ٹیلی وژن کے پروگراموں میں مدعو کیا جانے لگا اور ان کے کئی گیت پی ٹی وی پر نشر ہوئے جس نے اخلاق احمد کو ملک بھر میں‌ عزت اور نام و مقام دیا۔ وہ ہر خاص و عام میں‌ مقبول تھے۔

    اخلاق احمد نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کام یاب فلموں کے لیے گیت گائے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    اخلاق احمد کو آٹھ نگار ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ کو چھونے والے اس فن کار کو 1985ء میں خون کے سرطان کی تشخیص کے بعد علاج کی غرض سے لندن جانا پڑا جہاں وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔

    اخلاق احمد کراچی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • کیا فرینگ گلِ کی اخلاقی بددیانتی نے گراہم بیل کو ٹیلی فون کا موجد ‘بنایا’ تھا؟

    کیا فرینگ گلِ کی اخلاقی بددیانتی نے گراہم بیل کو ٹیلی فون کا موجد ‘بنایا’ تھا؟

    آج اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوگا کہ وہ ایجاد جس نے ہوا کے دوش پر ہماری زندگیوں اور مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، اس کے موجد گراہم بیل نہیں‌ تھے، جی ہاں‌، ہم بات کررہے ہیں‌ ٹیلی فون کی جس کی جدید اور ترقی یافتہ شکل اسمارٹ فونز کی صورت میں‌ اب ہمارے ہاتھوں‌ میں ہے۔

    دہائیوں قبل کئی میل دور بیٹھے دو افراد ٹیلی فون کے ذریعے ایک دوسرے کی آواز سنتے اور آپس میں بات چیت کرتے تھے اور یہ مواصلاتی رابطہ ٹیلی فون سیٹ کے ذریعے قائم ہوتا تھا۔ اس نظام اور آلے کے موجد گراہم بیل مشہور ہوئے جو ایک اسکاٹش انجینئر اور اختراع ساز تھے۔ 2 جون 1875ء کو انھوں نے مواصلاتی نظام کی وضاحت کرتے ہوئے ٹیلی فون جیسی حیرت انگیز سہولت کی ایجاد کا مژدہ سنایا۔

    1887ء میں اس ایجاد کی عملی صورت برلن میں‌ سامنے آئی اور اوّلین ٹیلی فون لائن کے ساتھ سیٹ کو منسلک کیا گیا۔ بعد میں‌ دنیا بھر میں‌ اس نظام کے تحت تاریں اور ٹیلی فون سیٹ نظر آنے لگے۔ مگر ایک صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے بعد لندن میں قائم سائنس میوزیم میں محفوظ فائلوں کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایک جرمن سائنس دان نے گراہم بیل سے 15 سال پہلے ٹیلی فون ایجاد کر لیا تھا۔

    یہ فائل جو سب کی نظروں سے اوجھل تھی، سائنس میوزیم کے اُس وقت کے مہتمم جان لفن کے ہاتھ لگی تو اس کا مطالعہ کرنے کے بعد شواہد کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا جو سائنس کی دنیا میں گراہم بیل کی شہرت کو مشکوک بناتا ہے۔

    میوزیم میں موجود کاغذات کی بدولت دو نام سامنے آئے جن میں ایک جرمن سائنس دان فلپ ریئس کا تھا اور اس فائل کے مطالعے کے بعد کہا گیا کہ اس نے 1863ء میں‌ موصلاتی نظام کی مدد سے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون سیٹ پر وصول کرنے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ اسی فائل میں دوسرا نام اُس برطانوی بزنس مین کا ہے جس پر فلپ ریئس کے اس کارنامے کو دنیا کی نظروں‌ سے مخفی رکھنے کا الزام ہے۔ اس شخص کو مواصلاتی سائنس اور کاروبار کی تاریخ میں‌ سَر فرینک گِل کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    ان کاغذات کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ اسی کاروباری شخصیت نے گراہم بیل کی شہرت کو برقرار رکھنے کے لیے جرمن سائنس دان کے آلے اور تجربات کے شواہد اور تفصیلات کو عام نہیں ہونے دیا۔ سَر فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی نے اسی جرمن سائنس داں کے تیّار کردہ آلے پر کئی برس بعد تجربات کیے تھے، لیکن اس زمانے میں فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی کاروبار کے لیے ایک ایسا معاہدہ کرنے والی تھی جس کا تعلق بیل کمپنی کی ایک شاخ سے تھا۔ اگر اس وقت جرمن سائنس داں کے ایجاد کردہ آلے کے کام یاب تجربات منظرِ عام پر لائے جاتے تو معاہدے کی توثیق کے امکانات محدود ہوسکتے تھے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اس سے پہلے بھی کئی محققین ٹیلی فون کی ایجاد کا سہرا جرمن سائنس داں کے سَر باندھنے کی بات کرچکے ہیں اور ان کے دعوؤں کو میوزیم میں موجود فائل سے تقویت ملتی ہے۔

    آج ٹیلی فون کے شہرت یافتہ موجد الیگزینڈر گراہم بیل کا یومِ وفات ہے۔ وہ
    ذیابیطس کے مرض کے باعث جسمانی پیچیدگیوں کے سبب سخت علیل ہوگئے تھے اور 1922ء میں انتقال کرگئے۔

    گراہم بیل کا وطن اسکاٹ لینڈ تھا اور بعد میں انھوں نے امریکا ہجرت کی تھی۔ 3 مارچ 1847ء کو گراہم بیل نے دنیا میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد ماہرِ لسانیات تھے اور پروفیسر کی حیثیت سے اپنے شعبے میں‌ فعال تھے۔ گراہم بیل کی والدہ قوّتِ سماعت سے محروم تھیں۔ مشہور ہے کہ اس سائنس داں کو والدہ کی اسی محرومی نے مواصلاتی نظام کے تحت ایک آلے کی ایجاد پر آمادہ کیا تھا۔ گراہم بیل ادب اور فنونِ‌ لطیفہ کے بھی بڑے شیدائی تھے اور پیانو بجانے میں انھیں کمال حاصل تھا۔

    گراہم بیل کی ایجاد سے متعلق تنازع یا کسی بھی بحث کو چھوڑ کر بات کی جائے تو وہ ایک باصلاحیت اور قابل طالبِ علم تھے انھیں لڑکپن ہی سے نت نئی چیزیں بنانے کا شوق ہوگیا تھا۔ اس دنیا میں ان کے استاد اور راہ نما ان کے والد تھے۔ گراہم بیل نے محض 14 سال کی عمر میں گندم صاف کرنے والی ایک سادہ مشین بناکر خود کو انجینیئر اور موجد ثابت کیا۔ وہ ایڈن برگ کے رائل ہائی اسکول اور بعد میں ایڈن برگ یونیورسٹی اور یونیورسٹی کالج آف لندن میں‌ داخل ہوئے اور اپنی تعلیم مکمل کی۔

    گراہم بیل 23 برس کے تھے جب معالج کی تشخیص نے انھیں تپِ دق کا مریض بتایا اور معالج کے مشورے پر والدین انھیں کینیڈا کے ایک صحّت افزا مقام پر لے گئے، اور وہاں بھی گراہم بیل سائنسی تجربات میں‌ مگن رہے۔ اس وقت انھوں نے بالخصوص ٹیلی گراف کے تصوّر کو عملی شکل دینے کے لیے کام کیا اور کام یاب ہوئے۔

    متعدد اہم اور نمایاں سائنسی ایجادات کے ساتھ الیگزینڈر گراہم بیل نے 1881ء میں میٹل ڈیٹیکٹر کی ابتدائی شکل متعارف کروائی۔ 1898ء میں ٹیٹرا ہیڈرل باکس کائٹس اور بعد میں‌ سلور ڈاٹ طیارہ بنایا، جس کی آزمائش 1909ء میں کی گئی اور یہ پرواز کام یاب رہی۔ اسی طرح‌ کئی مشینیں اور کام یاب سائنسی تجربات پر انھیں اس زمانے میں جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں اور ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

    عالمی شہرت یافتہ گراہم بیل جذبۂ خدمت سے سرشار رہے اور تاعمر سماعت سے محروم افراد کی مدد اور ان کے معمولاتِ زندگی کو اپنی ایجادات کی مدد سے آسان بنانے کے لیے کام کرتے رہے۔ انھوں نے ایسے اسکول قائم کیے جہاں سماعت سے محروم بچّوں کو تعلیم دی جاتی تھی جب کہ اساتذہ کی تربیت کا بھی اہتمام کیا اور ہر قسم کی اعانت کا سلسلہ آخری دم تک جاری رکھا۔ یہاں‌ یہ بات بھی قابلِ‌ ذکر ہے کہ اس سائنس داں نے اپنی شریکِ‌ سفر جس خاتون کو بنایا، وہ قوّتِ گویائی سے محروم تھیں۔

  • لیڈی ڈیانا: وہ مسکراتیں تو سب مسرور نظر آتے، غم زدہ ہوتیں تو ہر کوئی افسردہ ہوجاتا

    لیڈی ڈیانا: وہ مسکراتیں تو سب مسرور نظر آتے، غم زدہ ہوتیں تو ہر کوئی افسردہ ہوجاتا

    لیڈی ڈیانا نے 24 سال قبل اس دنیا سے اپنا ناتا توڑ لیا تھا، مگر وہ آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔

    کروڑوں دلوں کی فاتح شہزادی ڈیانا 1997ء میں آج ہی کے دن زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ فرانس کے دارُالحکومت پیرس میں ان کی کار کو حادثہ پیش آیا تھا۔

    شہزادی ڈیانا کی اچانک موت جہاں شاہی خاندان اور ان کے لواحقین کے لیے صدمہ تھی، وہیں دنیا بھر میں غم و افسوس کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈیانا کی آخری رسومات اور تدفین کے مناظر ٹیلی ویژن اسکرین پر دو ارب ناظرین نے دیکھے۔

    وہ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کی شریکِ حیات تھیں جن کے بطن سے ولیم اور ہیری نے جنم لیا۔ ڈیانا کی وفات کے وقت شہزادہ ولیم 15 اور شہزادہ ہیری 12 برس کے تھے۔

    برطانوی شاہی خاندان کی بہو، پرنسس آف ویلز ڈیانا یکم جولائی 1961ء کو انگلینڈ میں پیدا ہوئیں۔ ڈیانا فرانسس اسپنسر ان کا نام تھا جو بعد میں لیڈی ڈیانا مشہور ہوئیں۔

    وہ سحر انگیز شخصیت کی مالک تھیں جن کی جادو بھری دل کش مسکراہٹ ہر ایک کو ان کا گرویدہ بنا لیتی تھی۔ کہتے ہیں ڈیانا کی زندگی میں خوشیاں اور غم اس طرح مل گئے تھے کہ وہ مسکراتیں تو ہر چہرہ خوشی سے دمکنے لگتا اور جب وہ رو پڑتیں تو ہر آنکھ اشک بار ہوجاتی۔

    1980ء میں برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کے ساتھ ان کی دوستی کا چرچا ہوا اور 24 فروری 1981ء کو ان کی منگنی کی تقریب منعقد ہوئی۔اسی سال 29 جولائی کو وہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے اور اس جوڑے کے گھر دو بیٹوں نے جنم لیا۔

    وقت کے ساتھ ساتھ شاہی جوڑے کے تعلقات میں سرد مہری آتی گئی اور وہ ایک دوسرے پر بے وفائی کے الزامات لگاتے ہوئے دور ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔

    شہزادی ڈیانا نے خود کو فلاحی کاموں میں مصروف کرلیا اور دنیا بھر میں مختلف مسائل کبھی بارودی سرنگوں کے خطرے کی نشان دہی تو کبھی ایڈز جیسے بدترین مرض سے لڑنے کے لیے مہمّات میں‌ شریک رہیں، لیکن ازدواجی زندگی کی تلخیوں اور کرب سے نجات نہ حاصل کرسکیں۔ البتہ اسی کشمکش میں پریوں کی شہزادی اور اس جیسے کئی خوب صورت اور شایانِ شان القابات سے پکاری گئی ڈیانا کی روح جسم کے آزار سے ضرور نجات پاگئی۔

  • نذیر کا تذکرہ جنھوں نے کلکتہ سے لاہور تک اپنے فلمی سفر میں‌ شان دار کام یابیاں سمیٹیں

    نذیر کا تذکرہ جنھوں نے کلکتہ سے لاہور تک اپنے فلمی سفر میں‌ شان دار کام یابیاں سمیٹیں

    پاکستان کے نام ور فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار نذیر نے 26 اگست 1983ء کو اس دارِ‌ فانی سے منزلِ جاودانی کی طرف کوچ کیا۔ انھوں نے 1935ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی فلم ’’چانکیہ‘‘ سے ہندوستان بھر میں بے مثال شہرت پائی تھی۔

    نذیر 1904ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز ایک خاموش فلم سے کیا تھا اور 1933ء میں کلکتہ چلے گئے جو اس زمانے کی فلم انڈسٹری ہونے کی وجہ سے ہر بڑے چھوٹے فن کار کا ٹھکانہ تھا۔ انھیں ان کے فلم ساز دوست کی مدد حاصل تھی اور نذیر کو ’’چانکیہ‘‘ میں‌ اداکاری کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے ثابت کردیا کہ وہ باصلاحیت اور نہایت باکمال فن کارہیں۔ اس فلم نے انھیں‌ شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی دور میں ان کی دیگر فلمیں چندر گپت، دہلی کا ٹھگ، پیاس اور اپنی نگریا وغیرہ نمائش پذیر ہوئیں۔

    اداکار نذیر نے 1939ء میں ہند پکچرز کے نام سے اپنا فلمی ادارہ بنا لیا اور سندیسہ، سوسائٹی، آبرو، سلمیٰ، لیلیٰ مجنوں اور وامق عذرا نامی فلموں میں نظر آئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے سورن لتا سے شادی کرلی جن کے ساتھ ان کی فلمی جوڑی بہت پسند کی گئی تھی۔

    قیام پاکستان کے بعد نذیر لاہور آگئے۔ یہاں انھوں نے ’’سچائی‘‘ کے نام سے اپنی پہلی فلم بنائی۔ اس کے بعد فلم ’’پھیرے‘‘ ریلیز ہوئی اور اس نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ اس کے بعد نذیر نے انوکھی داستان، خاتون، شہری بابو، ہیر، صابرہ، نورِ اسلام، عظمتِ اسلام جیسی کام یاب فلمیں‌ انڈسٹری کو دیں۔ انھوں نے اداکاری کے علاوہ فلم سازی میں خوب نام و مقام بنایا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ ہمہ جہت فن کار لاہور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔

  • چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کے چند اوراق

    چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کے چند اوراق

    نیل آرمسٹرانگ کا نام 20 جولائی سن 1969ء کو ہمیشہ کے لیے زمین کی تاریخ میں محفوظ کر لیا گیا تھا اور مستقبل میں اگر انسان چاند پر آباد ہوا تو وہاں بھی تاریخ کے اوّلین اوراق پر اسی خلا نورد کا نام جگمگا رہا ہو گا۔

    نظامِ شمسی کے سیّارے زمین کے گرد گھومنے والے چاند کی سطح پر پہلا انسانی قدم نیل آرمسٹرانگ کا تھا۔

    یہ امریکی خلا نورد 2012ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔

    امریکی خلائی مشن اپالو گیارہ کے کمانڈر کے طور پر خلا میں ان کا سفر اور چاند پر اترنا زمین کی تاریخ کے عظیم الشّان واقعات میں سے ایک ہے۔ اس موقع پر آرمسٹرانگ نے تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ یہ انسان کا چھوٹا سا قدم ہے، لیکن حقیقت میں انسانیت کی ایک بہت بڑی جَست ہے۔

    نیل آرمسٹرانگ نے دل کی بیماری کے سبب 82 برس کی عمر میں دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا تھا۔ وہ 1930ء میں امریکا میں‌ اوہائیو کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ انجینئر کے طور پر کام کرنے لگے اور امریکی بحریہ کے پائلٹ بھی رہے اور تعلیم اور تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ بعد میں‌ امریکا کے خلائی مشن کا حصّہ بنے۔

    چاند پر نیل آرمسٹرانگ اور ان کے ساتھی خلا نورد ایڈوِن ایلڈرن تقریباً تین گھنٹے چہل قدمی کے بعد کام یابی سے زمین پر لوٹ آئے تھے۔

    نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کا آخری خلائی مشن اپالو گیارہ تھا اور اس کے بعد ان کو ناسا کے ایڈوانس ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعینات کر دیا گیا تھا اور انھیں دفتری امور تفویض کر دیے گئے۔ اسی عہدے کے ساتھ، ان کو ناسا کا ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا تھا۔ اس تعیناتی کے ایک سال کے بعد ہی انھوں نے یہ عہدہ چھوڑ دیا اور سنسناٹی یونیورسٹی میں پروفیسر برائے انجینئرنگ کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔

    انھیں امریکا میں قومی سطح کے اعزازات اور دنیا بھر میں مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا۔ آرمسٹرانگ سنسناٹی میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مقیم تھے اور یہیں وفات پائی۔

  • ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے معروف مزاحیہ اداکار جمشید انصاری کی برسی

    ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے معروف مزاحیہ اداکار جمشید انصاری کی برسی

    آج ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اسٹیج کے معروف فن کار جمشید انصاری کی برسی ہے جو ڈراموں میں اپنے مزاحیہ کرداروں کی وجہ سے ملک بھر میں مقبول ہوئے۔ وہ 24 اگست 2005ء کو طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    جمشید انصاری 31 دسمبر 1942ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر سہارن پور میں پیدا ہوئے، تقسیمِ ہند کے موقع پر ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا جہاں جمشید انصاری نے تمام عمر گزار دی۔

    انھوں نے تقریباً 200 ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کا فنی کیریئر 40 برسوں پر محیط ہے جن میں جمشید انصاری نے ’انکل عرفی‘، ’گھوڑا گھاس کھاتا ہے‘، ’تنہائیاں’، ’اَن کہی‘ جیسے مشہور ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور خوب شہرت حاصل کی۔ ’ جھروکے‘، ’دوسری عورت‘، ’زیر زبر پیش‘، ’منزلیں‘، ’بے وفائی‘ بھی ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ یس سر نو سر، برگر فیملی، رات ریت اور ہوا، زہے نصیب، ماہِ نیم شب میں انھوں نے مزاحیہ کردار ادا کیے تھے۔

    ایک زمانہ تھا جب ملک بھر میں لوگوں کی تفریح اور معلومات کا واحد اور مقبول ترین ذریعہ ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ پاکستان میں ریڈیو پروگرام اور ڈراموں میں کئی آرٹسٹوں نے اپنی آواز اور صدا کاری کے فن کو آزمایا اور خوب شہرت حاصل کی جن میں جمشید انصاری بھی شامل تھے۔

    مرحوم نے ریڈیو پر طویل ترین عرصے تک چلنے والے مقبول ترین پروگرام ’حامد میاں کے ہاں‘ میں صفدر کا یادگار کردار ادا کیا تھا۔ اس کھیل میں ان کے ادا کیے ہوئے مکالمے زبان ردِ عام ہوئے۔

    پی ٹی وی کے ڈراموں کی بات کی جائے تو ’چکو ہے میرے پاس‘، ’قطعی نہیں!‘، اور ڈرامے میں بات بات پر ان یہ کہنا، ’افشاں تم سمجھ نہیں رہی ہو‘ اور ’زور کس پر ہوا‘ ناظرین کو مسکرانے پر مجبور کر دیتا تھا۔

    جمشید انصاری نے مشہور اسٹیج ڈرامے ’بکرا قسطوں پر‘ میں بھی کردار ادا کیا تھا۔

    2005ء میں انھیں برین ٹیومر تشخیص ہوا تھا جو بہت زیادہ پھیل چکا تھا اور اسی مرض نے انھیں ہمیشہ کے لیے اپنے پرستاروں سے دور کردیا۔ لیکن ان کی یاد آج بھی دلوں میں زندہ ہے۔

  • پریت نگر اور پریت لڑی والے گور بخش سنگھ کا تذکرہ

    پریت نگر اور پریت لڑی والے گور بخش سنگھ کا تذکرہ

    سردار گور بخش سنگھ کا نام پنجابی ادب کے ایک نام وَر قلم کار کے طور پر لیا جاتا ہے جو 1977ء میں آج کے ہی دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیب تھے۔

    26 اپریل 1895ء کو پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے گور بخش سنگھ نے والد کے انتقال کے بعد مشکلات کا سامنا کیا، لیکن کسی طرح تعلیم کا سلسلہ ترک نہ کیا، انھوں نے میٹرک کے بعد ایف سی کالج، لاہور میں داخلہ لیا، معاشی مشکلات کی وجہ سے اسی زمانے میں ایک معمولی ملازمت بھی شروع کردی، بعد میں 1913ء میں تھامسن سول انجینئری کالج، روڑکی سے ڈپلوما حاصل کیا۔ فوج میں بھرتی ہوکر عراق اور ایران گئے، 1922ء امریکا میں مشی گن یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری لے کر واپس آئے اور ریلوے انجینئر کے طور پر عملی زندگی شروع کی۔

    انھوں نے پنجابی ادب کو اپنے افسانوں، سواںح و تذکروں، تراجم، ڈراموں سے مالا مال کیا اور اپنی الگ شناخت بنائی۔ 1933ء میں انھوں نے لاہور سے پنجابی اور اُردو زبان میں ایک ماہانہ میگزین ‘‘پریت لڑی’’ جاری کیا جو لوگوں میں اتنا مقبول ہوا کہ ان کا نام ہی ‘‘گور بخش سنگھ پریت لڑی ’’پڑ گیا۔

    یہی نہیں‌ اپنے وطن سے ان کی محبّت کا بھی عجیب عالم رہا اور انھوں نے 1936ء میں لاہور اور امرتسر کے درمیان ‘‘پریت نگر ’’ یعنی محبت کرنے والوں کا شہر آباد کیا جس میں شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ انسان دوست اور فن و ثقافت سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بسایا۔ وہ ہر سال یہاں ادبی اجتماع منعقد کرتے جس میں برصغیر کے کونے کونے سے ادیب، شاعر اور دانشور شریک ہوتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے وقت جب یہ شہر بھی فسادات سے محفوظ نہ رہا تو گور بخش سنگھ دل برداشتہ ہو کر دہلی چلے گئے تھے۔

    انھوں نے کہانی، ناول، ڈرامے، مضامین اور بچوں کے ادب پر پچاس سے زائد کتب شائع کروائیں۔ گور بخش سنگھ نے میکسم گورکی کے مشہور ناول ‘‘ماں ’’ کا پنجابی ترجمہ بھی کیا۔

  • یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    آج اردو کے نام وَر ترقّی پسند شاعر اور صحافی خالد علیگ کا یومِ وفات ہے۔ زندگی کی 83 بہاریں دیکھنے والے خالد علیگ نے 2007ء میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا شمار پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ قلم کاروں میں ہوتا تھا۔

    خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ سمیت پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور میں قیام کیا، بعد سندھ کے شہروں میرپور خاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی آگئے جہاں تمام زندگی گزاری۔

    خالد علیگ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حرّیت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے جن کے انتقال کے بعد انھیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور 1978ء میں اس اخبار کی بندش تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

    خالد علیگ ہمیشہ ترقّی پسند مصنّفین کی تحریک میں سرگرم رہے۔ ایوب خان اور جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں آمریت اور فردِ‌ واحد کے فیصلوں کے خلاف انھوں نے صحافیوں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خالد علیگ کی شاعری میں ظلم و جبر سے نفرت، آمریت کی مخالفت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی شاعری جراتِ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔

    وہ ایک ایسے شاعر اور صحافی تھے جس نے کسی بھی موقع پر سرکاری امداد قبول نہیں کی اور اپنے قلم کو آزاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز سنی اور وہی لکھا جو حق اور سچ تھا۔ وہ خود دار تھے اور ہمیشہ خود کو اپنے ضمیر کا قیدی رکھا۔ خالد علیگ نے محنت کش طبقے اور عوام کے حق کے لیے شاعری اور صحافت کے ذریعے ہمیشہ آواز بلند کی اور بہت نام و مقام، عزّت اور احترام پایا۔ ساری زندگی کراچی شہر کی ایک بستی لانڈھی میں اپنے چھوٹے سے گھر میں گزار دی اور ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی جھیلی مگر خود داری اور اپنی آزادی کو برقرار رکھا۔

    خالد علیگ کو 1988ء میں مالی امداد کا حکومتی چیک بھجوایا گیا جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ شدید علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل تھے تو معلوم ہوا کہ حکومت کی جانب سے ان کا علاج سرکاری خرچ پر کروانے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ جان کر وہ اسپتال سے فوری گھر منتقل ہو گئے۔

    ان کی شاعری کا ایک مجموعہ ’غزال دشت سگاں‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو ان کے دوستوں اور شاگردوں نے شائع کروایا تھا۔

    ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں

    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں