Tag: اگست برسی

  • کشمیری لال ذاکر: اردو فکشن کا ایک بڑا نام

    کشمیری لال ذاکر: اردو فکشن کا ایک بڑا نام

    اردو فکشن کا نام بلند کرنے والوں میں کشمیری لال ذاکر کا نام نمایاں ہے جن کے ناولوں اور افسانوں میں اعلٰی انسانی اقدار اور زندگی کے صحت مند عناصر پوری توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔ ذاکرنے شاعری بھی کی ہے لیکن ان کے ناول اور افسانے اردو ادب کے لئے ایک بیش بہا دین ہیں اور سرمایہ افتخار۔

    کشمیری لال کا بچپن کشمیر کی رنگین اور تازگی بخش فضاؤں میں کھیلا اور تخلیقی ادب کی طرف مائل ہوا تھا۔ شاید اسی لیے ایک دل کشی، حسن افروزی اور فرحت بخش چاندنی اُن کی ادبی کاوشوں میں بھی اٹھکیلیاں لیتی ہے۔ وہ 31 اگست 2016ء میں چل بسے تھے اور اسی مناسبت سے ہم اج ان کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

    کشمیری لال ذاکر نے جہاں ایک آزمودہ کار ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے معاشرے کی اصلاح و بہبود میں ہاتھ بٹایا، وہیں ہندوستان میں اپنی مسلسل لگن اور ریاضت سے اردو فکشن کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا خونِ جگر جلاتے رہے۔ ان کی تصانیف اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ ادب برائے زندگی اور ادب برائے مقصدیت پر ایمان رکھنے کے باوجود ذاکر نے نہ تو ترقی پسند تحریک کی انتہا پسندانہ روش اور نعرہ بازی کا ساتھ دیا اور نہ جدیدیت اور اشاریت جیسی کسی نام نہاد تحریک کا دُم چھلّا بن کر اپنے فن کی سچائی اور کھرے پن کو مجروح کیا۔

    کشمیری لال ذاکر ۱۷ اپریل ۱۹۱۹ میں ضلع بیگا بنیان، گجرات میں پیدا ہوئے۔ ایم اے انگریزی کیا اور تاحیات محکمۂ تعلیم سے منسلک رہے۔ پرنس آف ویلز کالج جموں میں طالب علم تھے تو خود بھی کالج کے ادبی میگزین کے مدیر رہے۔ تعلیم کے شعبہ کے ساتھ ہریانہ اردو اکادمی کے لیے بھی خدمات سر انجام دیں۔ ابتدائی تعلیم ریاست پونچھ اور سری نگر کے اسکولوں میں حاصل کی تھی۔ ذاکر صاحب نے اپنے ادبی سفر کا آغاز تو شاعری سے کیا تھا لیکن پھر فکشن کی طرف آگئے۔ وہ ان ادیبوں میں سے تھے، جو تقسیم کے بعد ملک بھر میں بھڑک اٹھنے والے فسادات اور کشمیر کی الم ناک صورت حال پر بہت رنجیدہ تھے اور بہت سے واقعات نے انھیں کرب و اذیت میں گرفتار کیا جن پر ان کی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان کی کتابیں ’جب کشمیر جل رہا تھا‘ ’انگھوٹھے کا نشان‘ ’اداس شام کے آخری لمحے‘ ’خون پھر خون ہے‘ ’ایک لڑکی بھٹکی ہوئی‘ وغیرہ اسی تخلیقی کرب کا اظہار ہیں۔ کشمیری لال ذاکر کی مختلف اصناف پر مشتمل سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ کشمیری لال ذاکر نے سیندور کی راکھ کے نام سے ناول لکھ کر ناول نگاری کا آغاز کیا۔ ذاکر کو کئی اہم ترین اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

    ۱۹۴۱ میں ان کی غزل لاہور کے ادبی جریدے "ادبی دینا” میں چھپی تھی جس کے بعد یہ سلسلہ فکشن تک پھیل گیا۔ انھوں نے ۲۹ ناول لکھے۔ ان کی چند دیگر تصانیف میں "میری شناخت تم ہو” ، "آدھے چاند کی رات” ، ہارے ہوئے لشکر کا آخری سپاہی”، اس صدی کا آخری گرہن”، بنا چھت گھر” اور ” خوابوں کے قافلے” شامل ہیں۔

  • نجیب محفوظ: نوبیل انعام یافتہ مصری ناول نگار

    نجیب محفوظ: نوبیل انعام یافتہ مصری ناول نگار

    عرب دنیا کے پہلے نوبیل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ تھے جن کی تخلیقات نے انھیں متنازع بنا دیا تھا اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔ نجیب محفوط 30 اگست 2006ء میں قیدِ‌ حیات سے آزاد ہوئے۔

    نجیب محفوظ 17 سال کے تھے جب انھوں نے قلم تھاما اور لکھنے کا آغاز کیا، لیکن ان کی پہلی تصنیف اُس وقت منظرِ عام پر آئی جب ان کی عمر 38 برس ہوچکی تھی۔ انھوں نے مصر میں ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ جس ناول پر انھیں نوبیل انعام دیا گیا اس کی اشاعت 30 سال قبل ہوئی تھی۔ نجیب محفوظ کا تعلق مصر تھا جنھوں نے نصری ادب کو کئی بے مثال کہانیاں دیں۔ انھیں 1988ء میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

    ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ وہ مشہور شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911ء کو پیدا ہوئے۔ نجیب محفوظ نے تیس سے زائد ناول اور تین سو سے زائد کہانیاں لکھیں۔ انھوں نے فلم کے لیے اسکرپٹ اور اسٹیج ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ مؤقر روزناموں‌ کے لیے مضامین اور کالم بھی لکھے۔

    نجیب محفوظ کا بچپن غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے گزرا۔ ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہونے والے نجیب محفوظ روایت شکن ثابت ہوئے اور اپنے معاشرے کے اُن موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جنھوں نے قدامت پسندوں کی نظر میں‌ نجیب محفوظ کو معاشرے اور مذہب کا باغی ٹھیرایا۔ نجیب محفوظ نے جس عہد میں سانس لی، وہ مصر پر برطانیہ کے قبضے اور انقلابی تحریکوں کا عہد تھا اور اسی کے زیرِ اثر نجیب محفوظ کی تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔

    1934 میں نجیب محفوظ نے جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز میں داخلہ لیا، لیکن تعلیم مکمل نہ کرسکے اور لکھنے میں منہمک ہوگئے۔ وہ مذہبی امور کی وزارت میں بھی رہے اور آرٹ کی سنسر شپ کے شعبے کے ڈائریکٹر بھی۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے جب کہ ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ 80 کی دہائی میں‌ شائع ہوئی۔ یہ ان کی تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 پر مبنی ہے۔ اس کتاب نے ان کو مقبول مصنفین کی صف میں لاکھڑا کیا اور ناقدین کی نظر میں وہ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی وجہ سے ممتاز ہوئے۔ اپنے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ کا حصّہ بناتے ہوئے انھوں‌ نے کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ ان کا ناول ’جبلاوی کے بیٹے‘ قسط وار شائع ہونا شروع ہوا تو مذہبی طبقہ ان کا مخالف ہوگیا۔ اس ناول کی اشاعت بمشکل ممکن بنائی گئی اور پھر اسے کتابی شکل دینا بھی آسان ثابت نہیں ہوا۔ مصر میں کوئی پبلشر اسے شائع کرنے پر تیار نہ ہوا تو نجیب محفوظ نے اسے لبنان سے شائع کروایا۔

  • شہاب حسن دہلوی: بہاولپور کا ایک دہلوی مؤرخ

    شہاب حسن دہلوی: بہاولپور کا ایک دہلوی مؤرخ

    اردو ادب میں شہاب دہلوی کو ایک شاعر، مؤرخ، محقق اور متعدد کتابوں کے مصنّف کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو مشہور جریدے الزبیر کے مدیر تھے۔ شہاب دہلوی تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے مشہور شہر بہاولپور آبسے تھے اور اس شہر سے ان کی محبّت تادمِ آخر قائم رہی۔ اسی محبت نے شہاب دہلوی کو بہاولپور کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر تحقیقی کام پر مجبور کیا اور انھوں نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں۔

    شہاب دہلوی 29 اگست 1990 کو انتقال کرگئے تھے او آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام سید مسعود حسن رضوی تھا۔ ان کے خاندان کے بزرگ قیامِ پاکستان سے عشروں پہلے دہلی سے بہاولپور آئے تھے اور یہاں ریاستی عہدوں پر فائز رہے تھے۔ شہاب دہلوی 20 اکتوبر 1922 کو پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش دہلی کی تھی۔ ان کے والد اور تایا بھی نہ صرف شاعر اور ادیب تھے بلکہ علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ دہلی شہر میں اشاعتی ادارہ بنام مطبع رضوی قائم کر رکھا تھا۔ شہاب دہلوی نے آنکھ کھولی تو گھر میں کتابیں دیکھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو سنتے رہے۔ یوں ان میں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور مطالعہ نے ان کے ذہن کو سیراب کیا۔ بڑے ہوئے تو عملی زندگی کا آغاز دہلی کے ایک ماہنامہ الہام کے اجرا سے کیا۔ بہاولپور آنے کے بعد شہاب دہلوی نے نہ صرف الہام کا دوبارہ اجرا کیا بلکہ یہاں کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ یہ وہ شہر تھا جہاں ان کے بزرگوں کے نقشِ قدم موجود تھے۔ لوگ اس خاندان سے واقف تھے اور یوں شہاب دہلوی کو بہاولپور سے اپنی محبّت کا جواز مل گیا۔ انھوں نے شعر و ادب کے ساتھ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ شہاب دہلوی نے تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے بہاول پور اور اس خطّے پر نظر ڈالتے ہوئے یہاں کی دینی اور روحانی شخصیات کا خاص طور پر تذکرہ کیا ہے اور روحانی فضا کو اپنی کتابوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کتابوں میں مشاہیر بہاولپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری اور وادیٔ جمنا سے وادیٔ ہاکڑہ تک شامل ہیں۔ بطور محقّق شہاب دہلوی کا گراں قدر کام ان کو بہاولپور کی تاریخ و ثقافت کا مستند مؤرخ ثابت کرتا ہے۔

    شہاب حسن دہلوی کا کلام نقوش شہاب، گل و سنگ، اور موجِ نور کے نام سے شائع ہوا۔

  • محسنِ اردو میر محبوب علی خان کا تذکرہ

    محسنِ اردو میر محبوب علی خان کا تذکرہ

    حیدر آباد دکن کو برصغیر میں شان و شوکت، تہذیب و ثقافت اور علم و فنون کا ایسا نقش کہا جاسکتا ہے، جسے صدیاں فراموش نہیں کرسکیں‌ گی۔ ہندوستان کی اسی مرفہ الحال ریاست کے فرماں روا میر محبوب علی خان کا کارنامہ یہ تھا کہ سب سے پہلے انھوں نے اردو کو اپنی ریاست کی سرکاری زبان قرار دیا اور اسے وقار و تمکنت بخشا۔

    آج نظام دکن میر محبوب علی خان کا یومِ وفات ہے جن کی اردو زبان کی ریاستی سطح پر سرپرستی اور اس کے لیے مستقل مالی اعانت تاریخ کا حصّہ ہے۔ دکن کو گنگا جمنی تہذیب کا عملی نمونہ کہا جاتا تھا، جس کا خزانہ معمور تھا اور جو تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تھی۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں بڑا طبقہ تیلگو دوسرا کنڑ بولتا تھا اور ایک علاقہ مراٹھی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھا۔ نظامِ دکن نے اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر ان سب کو آپس میں گویا جوڑ دیا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔

    نظام دکن کی سخاوت اور علم و فنون میں دل چسپی کی بدولت ہندوستان بھر سے ہر نادرِ روزگار، یکتا و یگانہ اور عالم فاضل شخصیات نے وہاں کا رخ کیا اور اردو زبان کی خدمت کے ساتھ علم و فنون کی ترقی و فروغ کے لیے خوب کام کیا اور میر محبوب علی خاں کے دربار سے عزت و توقیر، انعام و اکرام پایا۔ یہ سب میر محبوب علی خان کی اردو کی سرپرستی اور اسے سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔

    حیدر آباد دکن، بیدر و گلبرگہ میں مختلف ادوار میں قطب شاہی، بہمنی دور کے سلاطین کے بعد مغل حکم راں اورنگ زیب عالم گیر کا بھی راج رہا۔ 1724ء میں یہاں سلطنتِ آصفیہ کی بنیاد رکھی گئی اور اس خاندان کے بادشاہ نظام دکن مشہور ہوئے جن کی فیاضی، سخاوت اور زبان و ادب سے لگاؤ اور اس کے لیے خزانے سے مال خرچ کرنا مشہور رہا ہے۔

    میر محبوب علی خان آصفی دور کے چھٹے حکم راں تھے۔ 17 اگست 1866ء کو پیدا ہونے والے محبوب علی خان نے تخت نشینی کے بعد اپنے عہد میں فارسی کی جگہ اردو کو رائج کیا اور اس فیصلے نے زبان کو بے مثال ترقی دی۔ ان کا دور 50 سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے جس میں نظامِ دکن نے تعلیمی ادارے، مدرسے اور دارُالعلوم مع اقامت گاہ قائم کیے اور جدید و اسلامی علوم کی تعلیم کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ میر محبوب علی خان 29 اگست 1911ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    میر محبوب علی خان کے بعد ان کے بیٹے میر عثمان علی خان حیدرآباد کے آخری بادشاہ تھے اور ان کی تخت نشینی کے بعد دکن ہی نہیں برصغیر میں اردو نے عدیمُ النظیر ترقی کی اور خوب پھولی پھلی۔ علوم و فنون، دین و مذہب، تہذیب و ثقافت کا وہ کون سا آفتاب، کیسا گوہرِ آب دار تھا جسے حضور نظام کے دربار سے نوازا نہ گیا۔ میر عثمان علی خان نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کی منظوری دی جس کا ذریعۂ تعلیم صرف اردو قرار پایا۔ اس کے لیے عثمان علی خان اپنے خزانوں کا منہ کھول دیا اور بے دریغ دولت خرچ کی۔

  • جان ہسٹن کا تذکرہ جن کی فلمیں‌ شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں

    جان ہسٹن کا تذکرہ جن کی فلمیں‌ شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں

    جان ہسٹن کو فلمی دنیا میں بحیثیت ڈائریکٹر جو امتیاز اور بے مثال شہرت ملی، وہ بہت کم لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ وہ غیرمعمولی شخصیت کے مالک تھے جن کی بطور امریکی فلم ڈائریکٹر متعدد فلمیں شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ جان ہسٹن نے اسکرین رائٹر کے طور پر بھی شان دار کام یابیاں سمیٹیں اور اداکاری بھی کی۔

    جان ہسٹن نے ایک ہنگامہ خیز زندگی بسر کی۔ وہ بگڑے ہوئے نوجوان کی طرح مئے نوشی، رقص و سرود کی محفلوں کے عادی اور جوئے کا شوق پورا کرتے تھے۔ مگر یہ ان کی زندگی کا ایک رخ ہے۔ ہسٹن اپنے کام سے بہت مخلص رہے جب کہ ان کا حال یہ تھا کہ نشے کے عالم میں ان کی اکثر شامیں شور شرابا اور ہلڑ بازی کرتے گزر جاتیں۔ وہ نصف شب کو اپنے آوارہ دوستوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے گھر کی راہ لیتے اور اگلے روز دن ڈھلنے تک سوتے رہتے۔ ظاہر ہے ایسے نوجوان سے کیا توقع کی جاسکتی تھی۔ مگر حیرت انگیز طور پر یہی جان ہسٹن گُھڑ سواری کے ماہر، باکسنگ کے کھلاڑی اور فائن آرٹ کے شوقین بھی تھے۔ فنون لطیفہ میں دل چسپی رکھنے والے جان ہسٹن انگریزی اور فرانسیسی ادب کا مطالعہ بھی کرتے تھے جس نے ان کی فکر کو پختگی اور خیال کو وسعت دی اور تب جان ہسٹن لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ فیچر رائٹنگ اور کہانیوں سے قلمی سفر کا آغاز کیا اور بعد کے برسوں میں ایک باکمال فلم ڈائریکٹر اور اسکرپٹ رائٹر مشہور ہوئے۔

    جان ہسٹن نے فلمی دنیا میں 46 برس کے دوران متعدد بڑے اور نہایت معتبر اعزازات اپنے نام کیے، اور آج اس شعبہ میں آنے والوں کو ان کے نام اور کام کی مثال دی جاتی ہے۔ جان ہسٹن 28 اگست 1987 کو چل بسے تھے۔

    فلم ڈائریکٹر جان ہسٹن کا بچپن اور نوعمری کا دور تنہائی اور کرب کے عالم میں‌ گزرا۔ ان کے والدین میں علیحدگی ہوگئی تھی۔ انھیں بورڈنگ ہاؤس میں رہنا پڑا۔ انہی دنوں دل اور گردے کی مختلف پیچیدگیوں اور امراض نے جان ہسٹن کو گھیر لیا اور بغرضِ علاج انھیں مختلف شہروں میں قیام کرنا پڑا۔ اس دوران انھیں زندگی کے مختلف روپ دیکھنے اور سمجھنے کا موقع بھی ملا اور یہی سب فلمی دنیا میں ان کے بہت کام آیا۔

    وہ امریکا میں 5 اگست 1906 کو پیدا ہوئے تھے۔ نوعمری ہی میں انھیں باکسنگ کا شوق پیدا ہوگیا اور وہ باقاعدہ رِنگ میں اترے اور متعدد مقابلوں میں فاتح بھی رہے۔ البتہ ایک مقابلے میں اپنے حریف کے ہاتھوں ناک تڑوانے کے بعد انھوں نے میدان چھوڑ دیا۔ فائن آرٹ میں دل چسپی اتنی بڑھی کہ باقاعدہ مصوری کرنے لگے۔ پیرس میں کچھ عرصہ قیام کے دوران ہسٹن نے وہاں بطور پورٹریٹ آرٹسٹ بھی کام کیا۔ جان ہسٹن کی مہارت کا شعبہ فلم ڈائریکشن ہے۔ ان کو دو مرتبہ آسکر دیا گیا اور پندرہ مرتبہ اس ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے۔ ہالی وڈ کی فلموں میں ہسٹن نے بطور اداکار بھی کام کیا۔

    ہالی وڈ میں جان ہسٹن کی آمد اسکرپٹ رائٹر کے طور پر ہوئی تھی۔ بعد میں ”وارنرز” کے بینر تلے فلم ڈائریکشن شروع کی۔ جان ہسٹن نے Frankie and Johnny کے عنوان سے اسٹیج پلے لکھا تو اس کا معقول معاوضہ ملا۔ تب اسی کام کو ذریعۂ معاش بنانے کا سوچا۔ اور مزید دو شارٹ اسٹوریز Fool اور Figures of Fighting Men کے نام سے لکھیں جو ایک امریکی میگزین کی زینت بنیں۔ یہ 1929 کی بات ہے۔ اس کے بعد جان ہسٹن فیچر رائٹر کے طور پر دی نیویارک ٹائمز کے صفحات پر جگہ پانے لگے۔

    جان ہسٹن کو مہم جوئی، جنگ و جدل، اجنبی راستوں اور نئی منزلوں کا سفر ہمیشہ متوجہ کرتا رہا اور انہی واقعات کی عکاسی انھوں نے فلموں میں کی۔ ان کی زیادہ تر فلمیں مشہور ناولوں سے ماخوذ ہیں۔ ان کی شان دار فلموں میں The Maltese Falcon، Wise Blood ، The Misfits، The African Queen شامل ہیں۔

    ہسٹن کی ان کام یابیوں کے دوران ایک تکلیف دہ واقعہ یہ پیش آیا کہ ان کی کار سے ٹکرا کر ایک راہ گیر عورت ہلاک ہوگئی۔ مقدمہ چلا تو جان ہسٹن بے قصور قرار پائے، مگر ذہن اور دل پر ایسا بوجھ تھا جس نے برسوں ان کی جان نہ چھوڑی۔ وہ ہمیشہ اس کے لیے ملول رہے۔

  • کلیم عثمانی: مقبول ترین ملّی نغمات اور فلمی گیتوں کا خالق

    کلیم عثمانی: مقبول ترین ملّی نغمات اور فلمی گیتوں کا خالق

    کلیم عثمانی مقبول ملّی نغمات کے خالق ہی نہیں ان کے فلمی گیت بھی بہت مشہور ہوئے، مگر بحیثیت غزل گو شاعر بھی انھوں نے اپنی پہچان بنائی۔ بلاشبہ وہ ان شعرا میں سے ہیں جن کا بطور فلمی نغمہ نگار ہی برصغیر میں چرچا نہیں ہوا بلکہ غزل جیسی معتبر صنف سخن میں بھی وہ قتیل شفائی، مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، سیف الدین سیف، تنویر نقوی اور دوسرے شعرا کی طرح مشہور تھے۔

    28 اگست 2000ء کو کلیم عثمانی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ ضلع سہارن پور، دیو بند میں 28 فروری 1928 کو پیدا ہوئے۔ والد فضل الٰہی بیگل بھی شاعر تھے اور اس علمی و ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والے احتشام الٰہی نے بھی یہی مشغلہ اپنایا۔ وہ شاعری کے میدان میں کلیم عثمانی کے نام سے پہچانے گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آگیا تھا جہاں بطور شاعر انھوں نے شہرت پائی۔

    کلیم عثمانی نے اپنے وقت کے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ ان کا ترنم بہت مشہور تھا اور لاہور اور پاکستان بھر میں وہ مشاعروں میں‌ ترنم سے اپنا کلام پیش کرکے داد پاتے تھے۔ کلیم عثمانی نے غزل گوئی سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور بعد میں‌ فلموں کے لیے گیت لکھنے شروع کیے۔ فلم بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے لیے ان کے تحریر کردہ گیت بہت مقبول ہوئے اور کلیم عثمانی کو ان کے بعد فلم انڈسٹری میں بہت اہمیت دی جانے لگی۔

    1966ء میں کلیم عثمانی نے فلم ہم دونوں اور جلوہ کے گیت تخلیق کیے جس سے ان کی شہرت کو گویا پَر لگ گئے۔ جلوہ وہ فلم تھی جس کے یہ دو گیت انتہائی اعلیٰ درجے کے تھے، کوئی جا کے ان سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں… اور لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں…۔ ایک فلم راز کا مقبول ترین گیت تھا، میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا….. کلیم عثمانی نے لکھا تھا۔ 1974ء میں فلم شرافت ریلیز ہوئی جس کے ایک گیت کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ اس گیت کی موسیقی روبن گھوش نے ترتیب دی تھی اور اس کے بول تھے ’’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے…. لہریں بھی ہوئیں مستانی سی۔‘‘ اس گیت کی مثال آج بھی دی جاتی ہے اور بلاشبہ یہ وہ گیت ہے جو کلیم عثمانی کو بطور نغمہ نگار ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

    جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب اور نازنین جیسی کام یاب فلموں کے نغمات بھی کلیم عثمانی نے لکھے تھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ایک زمانہ تھا جب ریڈیو پر فلمی گیت سامعین کی فرمائش پر نشر کیے جاتے تھے۔ ان میں دوسرے شعرا کی طرح کلیم عثمانی کے لکھے ہوئے نغمات بھی شامل ہوتے تھے۔

    1973 میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبولِ عام گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ یہ گیت آج بھی ہماری سماعتوں میں محفوظ ہے اور جب بھی سنا جائے ایک عجیب لطف دیتا ہے۔ اگر ملّی نغمات کی بات کریں تو پاکستانی قوم کی امنگوں اور وطن کے لیے جذبات کی ترجمانی کرنے والے ان نغمات میں "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور "یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے….” سرفہرست ہیں۔ کلیم عثمانی کے یہ ملّی نغمات تاقیامت پاکستان کی فضاؤں میں گونجتے رہیں گے۔

    غزل گو شاعر، اور فلمی گیت نگار کلیم عثمانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی جس کے چند اشعار ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    غزل
    رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
    چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

    خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
    شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

    پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی
    پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح

    بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
    میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح

  • شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال پر پہنچانے والے فانی بدایونی کا تذکرہ

    شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال پر پہنچانے والے فانی بدایونی کا تذکرہ

    اردو ادب میں فانی بدایونی کو یاسیات کا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کا کلام حزن و یاس، رنج و الم سے عبارت ہے۔

    فانی کا اصل نام شوکت علی خاں تھا، وطن بدایوں اور تخلّص انھوں نے فانی اختیار کیا۔ 1879ء میں پیدا ہوئے اور 27 اگست 1941ء تک دنیا کے میلے اور زندگی کے جھمیلے میں گرفتار رہے۔

    فانیؔ بدایونی کے کلام میں یوں تو وارداتِ قلب و نظر، اخلاقیات، فلسفہ اور تصوف کا بیان بھی ملتا ہے، لیکن یاس و نا امیدی کے مضامین بڑی آب و تاب کے ساتھ کلام میں ظاہر ہوئے ہیں اور اسی بنا پر انھیں یاسیات کا شاعر کہا گیا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ فانیؔ نے اردو شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔

    ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور بعد میں مکتب میں داخل ہوئے۔ 1892ء میں گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا اور انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ فانی نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔ کالج کے زمانے میں شغل جاری رہا اور احباب کی فرمائش پر ان کو کلام سناتے رہتے تھے۔ بعد میں‌ وکالت پڑھ کر لکھنؤ میں پریکٹس کرنے لگے، لیکن پھر والد اور چند اعزّہ کے انتقال کے بعد ان کا ہر کام سے گویا دل اچاٹ ہوگیا۔ معاش کے حوالے سے تنگی ان کو لاحق ہوئی۔ یہ ایک تکلیف دہ زمانہ تھا جس میں طبیعت یاسیت پر مائل ہوگئی۔ اسی دور میں انھیں غمِ جاناں نے بھی آ گھیرا اور عشق میں ناکامی ہوئی جس سے وہ شکستہ خاطر ہوئے۔

    فانی نے شہر شہر کی خاک چھانی اور معاش کے لیے جگہ جگہ قسمت آزمائی۔ آخر وہ مرفہ الحال ریاست حیدر آباد دکن پہنچے جہاں دربار سے اداروں تک عالم فاضل شخصیات کی قدر افزائی کی جاتی تھی اور نظام دکن کی جانب سے وظیفہ دیا جاتا تھا۔ دکن میں فانی اچھے برے دن کاٹ کر اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔

    ممتاز نقاد اور ادیب آل احمد سرور فانی بدایونی کے بارے میں‌ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

    "فانیؔ کے والد بڑے سخت گیر تھے۔ فانی کو اپنے پہلے عشق میں ناکامی ہوئی۔ ملازمت انہیں راس نہ آئی۔”

    "ان کے والد ان کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہیں کچھ آزادی بریلی کالج میں ملی، مگر دراصل ان کی ادبی شخصیت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بنی جب وہ حسرت اور ان کی اردوئے معلیٰ سے قریب آئے۔ انہوں نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی جس طرح اقبالؔ نے دی۔ اقبالؔ کو بھی اپنا پیشہ پسند نہ تھا، مگر وہ فانیؔ سے زیادہ لطافت کی خاطر کثافت کو گوارا کر سکتے تھے۔ فانیؔ اچھے وکیل ہو سکتے تھے کیوں کہ وہ ذہین آدمی تھے، مگر ان کی شاعرانہ شخصیت ان پر اتنی حاوی ہو گئی تھی کہ وہ وکالت کے پیشے کی پستی اور زمانہ سازی گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ایک شاہانہ انداز سے زندگی گزارنے میں انہیں لطف آتا تھا۔”

    "کلکتے اور بمبئی کے سفر، لکھنؤ میں کچھ دن کے ٹھاٹھ، حیدرآباد میں شروع میں ان کی فضول خرچیاں، فانیؔ کے مزاج کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔”

    "فانیؔ کو ادبی شہرت جلد حاصل ہو گئی اور آخر تک وہ معاصرین میں ممتاز رہے۔ لکھنؤ، اٹاوے، مین پوری علی گڑھ اور آگرے میں مشاعروں میں ان کی غزلیں حاصلِ مشاعرہ سمجھی جاتی تھیں جب کہ ان میں یگانہ، جگر جیسے قابلِ قدر شاعر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی ادبی شہرت 1920ء سے شروع ہوئی اور 1930ء میں عروج کو پہنچ گئی۔”

    "فانیؔ پُر گو نہ تھے۔ ماہر القادری کا بیان ہے کہ ان کی غزل کئی کئی دن میں مکمل ہوتی تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے بیان کیا ہے کہ ان پر ایک استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ان کی مایوسیوں اور ناکامیوں، تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔”

    "فانیؔ بہت پریشاں رہے مگر انہوں نے کبھی کسی سے ان پریشانیوں کا اظہار نہ کیا۔ جب وہ بدایوں میں اپنے ایک وسیع اور کشادہ مکان کو رہن رکھ رہے تھے تو ان کے ایک ملنے والے آگئے اور انہوں نے تازہ کلام کی فرمائش کی۔ فانیؔ نے انہیں اپنا ایک شعر یہ کہہ کر سنایا کہ آج ہی موزوں ہوا ہے۔”

    اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یارب
    درو دیوار دیے اب انہیں ویرانی دے

    "وہ اگرچہ ہنگامے سے گھبراتے تھے اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے مگر دوستوں کی محفل میں ہنستے بولتے بھی تھے۔ گو کسی نے انہیں قہقہہ لگاتے نہیں سنا۔ دوسروں کے کلام کی تعریف کرتے تھے مگر ان اشعار کی، جو انہیں پسند آتے تھے۔ جب ماہرُ القادری نے ان کی اس غزل کی تعریف کی جس کا مطلع ہے۔”

    پھر فریبِ سادگی ہے رہ نمائے کوئے دوست
    مٹنے والی آرزو ہی لے چلیں پھر سوئے دوست

    تو ان سے کہنے لگے لیکن آتشؔ کے اس مصرع کا جواب کہاں..

    دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

    "ماہر القادری نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ پڑوس میں ریڈیو تھا۔ کہیں سے کوئی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا مشاعرہ تو ابھی جاری ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہو چکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہر بین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں تو تعجب کی بات نہ ہو گی۔”

    "1922ء میں علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی کو غزل کی فرمائش پر لکھا ہے، ’’میری بکواس نہ پڑھنے کے لائق ہے نہ سننے کے قابل۔ دامنِ اردو پر ایک بدنما داغ کے سوا کچھ نہیں۔ کوشش کیجیے کہ مٹ جائے۔ یہ آپ کا پہلا فرض ہے۔ میگزین کے بیش بہا صفحات پر میری غزل کا وجود باعثِ ننگ ہے۔ زبان اردو کے نادان دوست نہ بنیے۔’‘ یہ انکسار اس زمانے میں شرفاء کا دستور تھا۔ غالباً اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ اپنی تعریف آپ کرنا معیوب ہے۔ ہاں دوسرے تعریف کریں تو اور بات ہے۔”

    فانی بدایونی کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانیؔ
    زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

    یہ مقطع ان کی پیشِ نظر غزل کا حاصل ہے۔ اسی غزل میں ایک اور مقطع بھی شامل ہے جو بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے:

    اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
    زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

  • ماؤنٹ بیٹن: تقسیمِ ہند کا اعلان کرنے والا وائسرائے جو بم دھماکے میں ہلاک ہوا

    ماؤنٹ بیٹن: تقسیمِ ہند کا اعلان کرنے والا وائسرائے جو بم دھماکے میں ہلاک ہوا

    تقسیمِ ہند سے قبل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہاں وائسرے کے طور پر قدم رکھا اور ہندوستان کے نئے مالک و مختار کی حیثیت سے کئی اہم اور تاریخ ساز فیصلے کیے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کے باشندوں کی سیاسی اور سماجی حیثیت کا تعین بھی کیا اور وہ اعلان بھی جس کے بعد ہندوستان برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہوگیا۔ یہ تقسیمِ ہند کا اعلان تھا۔

    تقسیمِ ہند کے فیصلے نے برصغیر میں آلام و مصائب کا ایک ایسا طوفان کھڑا کر دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ 1947ء میں بٹوارے کا اعلان ہوا تو جہاں بھارت اور پاکستان کے نام سے دو آزاد ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے وہیں سرحدوں کے دونوں اطراف لاکھوں انسانوں کی لاشیں بھی بے گور و کفن پڑی دیکھی گئیں۔ برطانوی دور کا یہ آخری وائسرائے 1979ء میں آج ہی کے دن ایک بم دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد چل بسا تھا۔ اسے مغربی آئرلینڈ میں بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

    مؤرخین کے مطابق تقسیمِ ہند کا اعلان عجلت میں کیا گیا تھا اور ماؤنٹ بیٹن نے ہندوؤں سے ساز باز کرکے مسلمانوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔ اس نے بطور حکم راں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری نہیں کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی مسلم اکثریتی علاقے بھی بھارت میں شامل کر دیے گئے۔

    ماؤنٹ بیٹن 25 جون 1900ء کو ونڈسر برکشائر، انگلینڈ میں‌ پیدا ہوا۔ وہ برطانیہ کے شاہی خاندان کا فرد تھا۔ اس نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے بحریہ میں اعلیٰ ترین عہدے پر خدمات انجام دی تھیں۔ ملکہ کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے ماؤنٹ بیٹن نے 24 مارچ 1947ء کو ہندوستان میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا اور اس کے فوری بعد یہاں کے تمام بااثر قائدین اور اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کے بعد اس نے تقسیم کا وہ فیصلہ کیا جس میں جانب داری اور جھکاؤ واضح تھا۔ اکابرینِ ہند سے ملاقاتوں میں وائسرائے نے متحدہ ہندوستان میں برطانیہ کے لیے انتظامی راستہ نکالنے کی کوشش کی مگر جب اس پر واضح ہو گیا کہ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ناگزیر ہے تو 3 جون 1947ء کو تقسیمِ ہند کا اعلان کردیا۔

    ماؤنٹ بیٹن کی ہلاکت کا واقعہ شمالی آئرلینڈ کے ہنگامہ خیز دنوں میں پیش آیا۔ یہ وہ دور تھا جب شمالی آئر لینڈ کے برطانوی بادشاہت کے زیرِ نگیں رہنے یا خودمختار بننے کا تنازع چل رہا تھا۔ برطانوی دستوں اور آزادی کے حامیوں میں تصادم کا سلسلہ جاری تھا۔ اس وقت ماؤنٹ بیٹن کے قتل کی ذمہ داری آئرش ری پبلکن آرمی نے قبول کی تھی اور کہا تھا کہ یہ ہمارے ملک پر قبضے کی کوشش کے خلاف کارروائی ہے۔ اس روز ماؤنٹ بیٹن سیر و تفریح اور شکار کی غرض سے وہاں موجود تھا۔ عملے کے اراکین کے علاوہ 79 سالہ ماؤنٹ بیٹن کے ہمراہ اس کی بڑی بیٹی، داماد، نواسے اور خاندان کے چند دیگر افراد بھی وہاں گئے ہوئے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن اور اہلِ خانہ دریا کی سیر کے لیے جب لکڑی کی ایک کشتی پر سوار ہوئے تو اس میں نصب کردہ بم پھٹ گیا۔ کہتے ہیں کہ ماؤنٹ بیٹن کو زندہ حالت میں پانی سے نکال لیا گیا، لیکن اس کی ٹانگیں بُری طرح زخمی ہوچکی تھیں اور وہ زخم اور درد کو برداشت نہ کرسکا اور چل بسا۔

  • نذیر: پاکستانی فلمی دنیا کا ایک قابل و باصلاحیت فن کار

    نذیر: پاکستانی فلمی دنیا کا ایک قابل و باصلاحیت فن کار

    پاکستانی فلمی صنعت میں اداکار نذیر کو ایک قابل و باصلاحیت فن کار کے طور پر پہچانا جاتا ہے جنھوں نے فلم سازی اور ہدایت کاری کے شعبہ میں بھی نام کمایا۔ نذیر 26 اگست 1983ء کو وفات پاگئے تھے۔ بطور اداکار نذیر کی وجہِ شہرت 1935ء میں ریلیز کردہ فلم ’’چانکیہ‘‘ تھی۔

    نذیر 1904ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام نذیر احمد خان تھا۔ نذیر نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز ایک خاموش فلم سے کیا اور اداکاری کے شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کے لیے 1933ء میں کلکتہ چلے گئے۔ یہ شہر اس دور میں فلم انڈسٹری کی وجہ سے ہر بڑے چھوٹے فن کار کا ٹھکانہ تھا۔ نذیر کو ان کے فلم ساز دوست کا تعاون حاصل تھا اور وہاں انھیں فلم ’’چانکیہ‘‘ میں‌ کام مل گیا۔ اداکار نذیر نے اس فلم میں اپنی پرفارمنس سے خود کو باکمال فن کار ثابت کیا۔ یہ ایک کام یاب فلم تھی جس نے نذیر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان کی دیگر فلمیں چندر گپت، دہلی کا ٹھگ، پیاس اور اپنی نگریا وغیرہ بھی اسی دور میں ریلیز ہوئیں۔

    1939ء میں اداکار نذیر نے اپنا فلمی ادارہ بنایا اور سندیسہ، سوسائٹی، آبرو، سلمیٰ، لیلیٰ مجنوں اور وامق عذرا نامی فلموں میں بطور اداکار نظر آئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے سورن لتا سے شادی کر لی۔ وہ اپنے وقت کی ایک کام یاب اور مقبول فن کار تھیں جن کے ساتھ نذیر کو فلمی جوڑی کے طور پر بہت پسند کیا گیا۔

    قیام پاکستان کے بعد نذیر لاہور آگئے۔ یہاں انھوں نے ’’سچائی‘‘ کے نام سے اپنی پہلی فلم بنائی۔ اس کے بعد فلم ’’پھیرے‘‘ ریلیز ہوئی اور اس نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ ان کے بعد نذیر نے انوکھی داستان، خاتون، شہری بابو، ہیر، صابرہ، نورِ اسلام، عظمتِ اسلام جیسی کام یاب فلمیں‌ انڈسٹری کو دیں۔ فلمی ناقدین کے مطابق اداکاری کے ساتھ نذیر نے فلم سازی کے شعبہ میں بھی خوب کام کیا۔

    فلمی دنیا کے اس باکمال فن کار کو لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • مقبول ترین پاکستانی شاعر احمد فراز کا تذکرہ جو پائلٹ بننا چاہتے تھے!

    مقبول ترین پاکستانی شاعر احمد فراز کا تذکرہ جو پائلٹ بننا چاہتے تھے!

    جدید شاعری میں ایک بڑا نام احمد فراز کا ہے جو اردو کے مقبول ترین شاعر ہیں۔ فراز کی ستائش اور پذیرائی کا سلسلہ ان کی زندگی میں بھی جاری تھا اور آج بھی فراز کو ایک ایسا شاعر کہا جاتا ہے جس نے ایک عہد کو متأثر کیا۔ فراز کی رومانوی شاعری ہی نہیں ان کا مزاحمتی کلام بھی بہت مشہور ہے اور ایک زمانہ میں فراز کی نظمیں سیاسی و سماجی جبر، بندشوں اور ناانصافی کے خلاف نعرہ بن کر گونجتی رہی ہیں۔ احمد فراز خواص اور عوام دونوں میں یکساں مقبول تھے۔

    احمد فراز 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا اور شعر و ادب کی دنیا میں احمد فراز کے نام سے لازوال شہرت پائی۔ احمد فراز کا خاندان پشاور منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں نے ایڈورڈز کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اور بعد میں پشاور یونیورسٹی سے ہی اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری جیسے بڑے شعرا سے احمد فراز کا جو تعلق بنا، اس نے فراز کو بہت متاثر کیا اور ان کی شاعری انقلابی نظموں اور ترانوں میں ڈھلنے لگی۔ احمد فراز نے پشاور یونیورسٹی ہی میں لیکچرار کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دیے۔ احمد فراز 25 اگست 2008ء کو وفات پاگئے تھے۔

    انھوں نے پی ٹی وی کواپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا،

    "زندگی کی کرشمہ سازیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ انسان خواب بھی دیکھتا ہے، تعبیریں کچھ نکلتی ہیں۔ مجھے بھی شروع میں پائلٹ بننے کا شوق تھا۔ اس لیے کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا پاکستانی پائلٹ کی یونی فارم میں، مجھے بہت اچھا لگا۔ تو میں نے سوچا کہ میں پائلٹ بنوں گا۔ جب میں فرسٹ ایئر میں پہنچا تو میں نے بھی جی ڈی پائلٹ کے لیے اپلائی کر دیا۔ انٹرویو ہوا، اس میں سلیکٹ ہوا۔ پھر میڈیکل بھی ہو گیا ٹھیک ٹھاک ۔ پھر مجھے بلاوا آ گیا۔ ان دنوں میرے بڑے بھائی نے آرمی جوائن کر لی تھی۔ تو میری والدہ کو ایک طرح کی پریشانی ہوئی۔ ایک بیٹا فوج میں چلا گیا، دوسرا بیٹا ایئر فورس میں جا رہا ہے۔ ظاہر ہے وہ بہت اداس اور غم گین ہو گئیں۔ بل کہ یہاں تک کہ جب بلاوے کا کال آئی تو انھوں نے میرے کاغذات پھاڑ دیے اور بعد میں مجھے بتایا کہ بیٹا تمھیں وہاں نہیں جانا۔ والدین کی سوچ اپنی جگہ ہوتی ہے، خاص طور سے ماؤں کی۔” وہ مزید کہتے ہیں شاید مجھے شاعر بن کر شہرت کمانا تھی تو یہی ہوا۔

    احمد فراز کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ان کا سادہ اندازِ تحریر اور وہ سلاست ہے جس میں حد درجہ نزاکت اور لطافت پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار عام آدمی بھی بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ احمد فراز نے پہلا شعر کب کہا، اس حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے والد عید کے کپڑے لائے۔ فراز کو یہ کپڑے پسند نہیں آئے بلکہ انھیں اپنے بھائی کے لیے خریدا گیا کپڑا زیادہ پسند آیا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شعر کہا تھا:

    سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
    لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے

    احمد فراز کی شاعری میں مزاحمتی رویے بھی بڑی شدت سے ملتے ہیں۔ انھوں نے ملک میں آمریت اور فوجی اقتدار کے خلاف کھل کر لکھا۔ ضیا دور میں فراز کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بعد میں فراز نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔ چھے سال تک برطانیہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہنے کے بعد وہ 1988ء میں پاکستان آئے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن چکی تھیں۔ فراز کو اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور بعد میں وہ کئی سال تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کے شعری مجموعوں میں ’’جاناں جاناں، نایافت، تنہا تنہا، سب آوازیں میری ہیں اور بے آواز گلی کوچوں میں‘‘ شامل ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔ جدید لب و لہجے کے اس خوب صورت شاعر کے کلام میں رومانوی موضوعات کے علاوہ سماجی اور سیاسی عوامل کے زیر اثر جنم لینے والے‌ خیالات اور جذبات بھی ملتے ہیں۔ وہ سماجی اقدار کے بہت بڑے علم بردار تھے اور اس حوالے سے اپنی فکر اور نظریات کا شاعری میں بھی اظہار کیا ہے۔ احمد فراز کی چند غزلوں کو فلموں میں شامل کیا گیا اور وہ بہت مقبول ہوئیں۔ خاص طور پر فلم ’’انگارے‘‘ اور ’’محبت‘‘ میں ان کی جو غزلیں شامل کی گئیں وہ کلاسک کا درجہ اختیار کر گئیں۔ مہدی حسن کی آواز میں ان کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہوگی:

    اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    فراز کی مشہور غزل کا مطلع جسے مہدی حسن نے گایا تھا

    رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے آ
    آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے آ