Tag: اگست برسی

  • تسلیم فاضلی: بے مثال فلمی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    تسلیم فاضلی: بے مثال فلمی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    پاکستانی فلموں کے لیے بے مثال نغمات تخلیق کرنے والے تسلیم فاضلی نے فلم انڈسٹری میں بڑا نام و مقام پایا۔ بحیثیت نغمہ نگار جس تیزی سے انھوں نے شہرت اور مقبولیت کا سفر طے کیا، اسی تیزی سے زندگی کا ساتھ بھی چھوڑ دیا۔ تسلیم فاضلی 17 اگست 1982 کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔

    تسلیم فاضلی کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے اور ان کے گھر میں‌ اپنے وقت کے مشاہیر اور جید اہل قلم کا آنا جانا لگا رہتا تھا جن میں شکیل ؔ بدایونی، جگر ؔمراد آبادی اور جانثار ؔ اختر وغیرہ شامل تھے۔ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر ادبی مجالس اور مشاعروں میں بھی جاتے رہتے تھے جس نے تسلیم فاضلی کو لکھنے پڑھنے کی طرف مائل کیا اور وہ شعر موزوں کرنے لگے۔ تقسیم کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔

    کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد تسلیم ؔفاضلی نے گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے انٹر سائنس پھر اسلام آباد سے فنون میں بی اے کیا۔ اس عرصے شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا پھر اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے پاکستان کی معروف فلمی اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    انھوں نے سادہ اور عام فہم شاعری کی اور یہ فلمی گیت بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت میں ان کی ایک غزل شامل کی گئی تھی جو آج بھی بہت مقبول ہے۔ اس کا مطلع ہے:

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور یہی وہ گیت تھا جس کے بعد تسلیم فاضلی کو کئی فلموں کے لیے نغمات لکھنے پیشکش کی گئی۔ لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا اور انھیں صفِ اوّل کے نغمہ نگاروں میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ ان کے چند گیت پاکستانی فلم انڈسٹری کے کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے، ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا، مجھے دل سے نہ بھلانا، کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی…..جیسے کئی فلمی گیت لازوال ثابت ہوئے اور یہ وہ نغمات ہیں جنھیں‌ ہر دور میں سنا گیا اور سراہا گیا۔

    تسلیم فاضلی اپنی اسی سدا بہار اور بے مثال شاعری کی بدولت آج بھی ہمارے دلوں‌ میں‌ زندہ ہیں۔

  • نازیہ حسن: پاپ میوزک کی ملکہ کا تذکرہ

    نازیہ حسن: پاپ میوزک کی ملکہ کا تذکرہ

    پاکستان میں گلوکاری کے شعبہ میں اپنے فن اور انداز کی بدولت شہرت اور بطور پاپ سنگر مقبولیت کی انتہا کو چھونے والی نازیہ حسن کو مداحوں سے بچھڑے 25 برس بیت گئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ نازیہ حسن کو گلوکاری کے میدان کی ایک ساحرہ کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان میں میوزک کی دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

    نازیہ حسن 3 اپریل 1963ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے والدین یاسر حسن اور منیزہ حسن کی پہلی اولاد تھیں۔ ان کے چھوٹے بھائی زوہیب حسن اور ایک بہن زہرہ تھیں۔ بعد ازاں یہ خاندان انگلینڈ منتقل ہو گیا۔ نازیہ پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن اور بار ایٹ لاء کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے ایک ادارے میں ملازمت کی۔ وہ انتہائی قابل اور ذہین تھیں اور تعلیمی میدان سے لے کر عملی زندگی تک ان کا سفر کام یابیوں سے بھرا ہوا ہے۔ پاپ میوزک کی دنیا میں قدم رکھنے والی نازیہ حسن نے پاکستان بھر میں نہ صرف دلوں پر راج کیا بلکہ ان کی شہرت اور فن کو بھارت اور دنیا بھر میں چاہنے والوں نے سراہا۔

    وہ لاکھوں پاکستانیوں کی محبوب گلوکارہ تھیں جنھوں نے شوقیہ گلوکاری کا آغاز کیا تھا مگر جلد ہی اپنے بھائی زوہیب حسن کے ساتھ اسے کریئر کے طور پر اپنا لیا۔ ان کے خوب صورت اور دل موہ لینے والے گیتوں کے ساتھ مشرقی انداز اور مغربی سازوں کے امتزاج سے جو گیت سماعتوں تک پہنچے، انھوں نے دلوں کو مسخر کرلیا۔ یہ 1980ء کی بات ہے جب ایک تقریب میں ان کی ملاقات بھارتی اداکار فیروز خان سے ہوئی اور ان کی فلم ’’قربانی‘‘ کا گیت ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘ نازیہ کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس نے ہر طرف دھوم مچا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے نازیہ حسن شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف چودہ برس تھی۔ اس پر نازیہ کو 1981 ء میں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی اور کم عمر ترین گلوکارہ تھیں۔

    زوہیب حسن کے ساتھ انھوں نے پاپ گائیکی کو نئی جہت دی اور 1981ء میں پہلا البم ریلیز ہوا جس کا نام ’’ڈسکو دیوانے‘‘ تھا۔ یہ البم اس وقت کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ایشیائی پاپ البم قرار پایا۔ اس کے بعد 1982ء میں ’’بوم بوم‘‘، 1984ء میں ’’ینگ ترنگ‘‘ اور 1987ء میں ’’ہاٹ لائن‘‘ جیسے کامیاب البموں نے ان کے مداحوں کو ان کی آواز اور نئے طرز گائیکی کا دیوانہ بنا دیا۔

    نازیہ حسن نے پی ٹی وی پر موسیقی کے پروگراموں کی میزبانی کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ 1988 میں وہ معروف موسیقار سہیل رعنا کے ساتھ پروگرام ’’سارے دوست ہمارے‘‘ میں جلوہ گر ہوئیں۔ چودہ ممالک کے ٹاپ ٹین چارٹس پر نازیہ، زوہیب چھائے رہے۔

    حکومتِ پاکستان نے 2002ء میں بعد از مرگ نازیہ حسن کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ ان کی شادی کراچی کے صنعت کار اشتیاق بیگ سے ہوئی تھی۔ نازیہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئی تھیں اور لندن میں دو سال اس بیماری سے لڑنے کے بعد 13 اگست 2000ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ بوقت مرگ ان کی عمر صرف 35 سال تھی۔

  • ہرمن ہیسے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    ہرمن ہیسے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    ہرمن ہیسے کو شروع ہی سے جادوئی کہانیاں اور دیو مالائی داستانیں پسند تھیں۔ وہ کہانیاں پڑھتا اور اپنے تصور میں انوکھی اور انجانی دنیا آباد کرکے لطف اندوز ہوتا رہتا۔ ان کہانیوں میں وہ اس قدر ڈوب جاتا کہ ان کے کردار اسے اپنے اردگرد نظر آنے لگتے اور ہرمن ہیسے اپنی چشمِ تصور سے پُراسرار واقعات کو رونما ہوتے دیکھتا۔ بعد کے برسوں میں وہ خود ایک ناول نگار کی حیثیت سے دنیا بھر میں پہچانا گیا اور اس کی کہانیوں کو بے پناہ مقبولیت ملی۔

    ہرمن ہیسے 19 جولائی 1877 کو جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا اور ایسے گھرانے کا فرد بنا جس کا ماحول مذہبی اور روایات کا پابند تھا۔ اس کے والدین اپنے مذہب کی تبلیغ کی غرض سے زیادہ تر وقت گھر سے باہر اور اکثر دور دراز کے علاقوں میں گزارتے اور وہ ان کے جانے کے بعد اپنے چشمِ تصور سے ایک مَن پسند دنیا آباد کرلیتا۔ ہرمن ہیسے نے شعور اور آگاہی کی مسافتیں طے کیں تو خود کو لکھنے کی طرف مائل پایا۔ اس نے قلم تھاما اور اپنے تخیل کے سہارے کہانیاں لکھنے لگا۔ مگر اسے یہ خبر نہ تھی کہ ایک روز دنیا بھر میں اس کی کہانیوں کی تعریف ہو گی اور اس کے ناول مقبول ہوں گے۔

    ہرمن ہیسے کو لکھنے کا شوق اس وقت ہوا جب اس نے کتابوں کی خرید و فروخت سے معاش کا سلسلہ باندھا۔ اسی دوران وہ مطالعے کا عادی بنا اور پھر ایک ادیب کی حیثیت سے سفر شروع ہوگیا۔

    اس جرمن ادیب نے شاعری بھی کی، مگر اس کی وجہ شہرت فکشن ہے۔ ہرمن ہیسے 25 سال کا تھا جب اس کا ایک شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا، مگر اسے پذیرائی نہ مل سکی۔ 1905 میں اس نے ایک ناول Beneath the Wheel شایع کروایا جو ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ حوصلہ افزائی نے ہرمن ہیسے کے قلم کو مہمیز دی اور اس نے کئی افسانے اور کہانیاں‌ تخلیق کیں۔ ان کا موضوع یورپ کے معاشرتی رویے اور اخلاقی قدریں تھیں جن کو اس نے اپنے کرداروں کے ذریعے پیش کیا ہے۔ وہ معاشرے کا تضاد، کھوکھلا اور بگڑتے ہوئے طور طریقوں کو قارئین کے سامنے لایا۔

    The Glass Bead Game، Steppenwolf اور Siddhartha ہرمن کے مشہور ناول ہیں۔ فکشن کے میدان میں یہ ناول اپنے تخلیقی جوہر اور اسلوب کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    اس کے ناول سدھارتھ کا اردو ترجمہ ہندوستان بھر میں مقبول ہوا۔ اس پر ناقدین اور اہل قلم نے تبصرہ کیا اور آج بھی اس ناول اور اس کے مرکزی کردار پر بحث کی جاتی ہے اور یہ آج بھی مقبول ناول ہے۔ ہرمن ہیسے کا یہ ناول 1922 میں شایع ہوا تھا اور 1946 میں سدھارتھ پر ناول نگار کو ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔

    ہرمن ہیسے اپنے مذہبی اور فرسودہ سسٹم کے خلاف مختلف صورتوں میں بغاوت کرتا رہا۔ وہ ایک مشنری اسکول سے بیزار ہو کر بھاگ گیا تھا۔ اس نے خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی اور سوسائٹی کی گلی سڑی روایات اور جبر کے خلاف بولتا بھی رہا۔ 1911ء میں ہرمن ہیسے نے برصغیر کا رخ کیا اور سیلون، سنگا پور، سماٹرا اور انڈیا کا سفر کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت اس کو جرمن فوج میں رضا کار کے طور پر قیدیوں کی نگرانی کرنا پڑی اور وہیں اس نے جنگ اور اس کی ہولناکی کا گہرا ادراک کیا اور رزمیہ شاعری کے خلاف لکھنے لگا۔

    جرمنی میں دائیں بازو کے متعصب قلم کار ہرمن ہیسے کی مخالفت کرنے لگے اور جب اسے غدار قرار دے کر اس کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کی گئی اور تو وہ سوئٹزر لینڈ چلا گیا۔ ہرمن ہیسے نے تین شادیاں کی تھیں، مگر اس کی ازدواجی زندگی خوش گوار نہیں رہی۔ بعض وجوہ کی بنا‌ پر اس نے اپنا نفسیاتی اور روحانی علاج بھی کروایا۔ دراصل ہیسے کے والد کی وفات کے بعد اس کا بیٹا شدید بیمار ہوا اور اس کی بیوی پاگل ہو گئی۔ یہ سب واقعات بھی اس کے لیے ذہنی دباؤ کا باعث بنتے رہے۔ وہ 9 اگست 1962ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    کہتے ہیں کہ آخری عمر میں وہ گوشہ نشیں ہو گیا تھا اور گھر کے صدر دروازے پر یہ تحریر چسپاں کردی تھی کہ ملاقات کی زحمت نہ فرمائیں۔

  • کرار نوری: اردو ادب کی ایک فراموش کردہ شخصیت

    کرار نوری: اردو ادب کی ایک فراموش کردہ شخصیت

    کرار نوری اردو ادب کا ایک ایسا فراموش کردہ نام ہے جسے کبھی بطور شاعر، ادیب اور مترجم پہچانا جاتا تھا۔ رفتارِ زمانہ اور گردشِ دوراں میں جہاں کئی اور قابل و باصلاحیت شخصیات کے نام ذہن سے محو ہو گئے، انہی میں ایک کرار نوری بھی ہیں۔ اسی لیے نئی نسل کے قلم کاروں اور قارئین میں‌ سے شاذ ہی ان سے واقف ہوں گے۔ شاعری کرار نوری کا مستند حوالہ اور ریڈیو پاکستان ان کی ایک مستحکم پہچان ہے۔

    کرار نوری کا اصل نام سیّد کرار میرزا تھا۔ وہ اپنے وقت کے عظیم شاعر مرزا غالب کے ایک شاگرد آگاہ دہلوی کے پَڑ پوتے تھے۔ کرار نوری کا وطن جے پور، دہلی تھا۔ وہ 30 جون 1916ء کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کرار نوری ہجرت کرکے پنجاب کے شہر راولپنڈی چلے آئے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد کراچی آکر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو پاکستان میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کرار نوری نے ادبی سفر بھی جاری رکھا۔ وہ متعدد اخبار و جرائد سے بھی منسلک رہے۔

    کرار نوری نے شہرِ قائد کے علمی و ادبی حلقوں‌ میں اپنی شاعری کے ذریعے پہچان بنائی تھی۔ ان کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ کرار نوری کا نعتیہ کلام ’’میزانِ حق‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آیا۔ 1990ء میں آج ہی کے دن وفات پانے والے کرار نوری کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے
    لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے

    ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا
    کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے

    کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے
    محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے

    حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح
    تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے

    نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں
    ہم دامنِ حیات پکڑ کر مچل گئے

  • ٹونی موریسن: امریکا کی عظیم ناول نگار کا تذکرہ

    ٹونی موریسن: امریکا کی عظیم ناول نگار کا تذکرہ

    نوبیل انعام یافتہ ٹونی موریسن کو ان کے ناول ‘محبوب‘ (Beloved) کی اشاعت کے بعد 1988ء میں فکشن کا پلٹزر پرائز بھی دیا گیا تھا۔ ان کا یہ ناول ایک ایسی ماں کی زندگی کے بارے میں ہے، جو اپنی بیٹی کو غلامی کی زنجیر میں جکڑنے سے بچانے کے لیے قتل کرنے کا اذیت ناک فیصلہ کرتی ہے۔

    ٹونی موریسن امریکا کے سیاہ فام ادیبوں میں بہت منفرد اور اعلیٰ مقام کی حامل تھیں جن کو افریقی نژاد امریکی مصنفین کی اہم ترین نمائندہ بھی سمجھا جاتا تھا۔ ان کی مشہور تصانیف میں ‘انتہائی نیلی آنکھیں‘، ‘سلیمان کا گیت‘، ‘انسان کا بچہ‘، ‘جاز‘ اور ‘جنت‘ شامل ہیں۔

    وہ پہلی امریکی سیاہ فام مصنّف تھیں جن کو 1993ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ ٹونی موریسن ایک بے مثل فکشن رائٹر کے طور پر ہی نہیں بااثر سیاہ فام خاتون بھی مشہور ہوئیں۔ وہ 2019ء میں آج ہی کے دن چل بسی تھیں۔ ٹونی موریسن نے 1931ء میں اوہائیو کے ایک قصبے میں جنم لیا۔ ان کا بچپن غربت اور تعصب پر مبنی سلوک دیکھتے ہوئے گزرا۔ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ سفید چمڑی والوں کا توہین آمیز رویہ ان کی تلخ یادوں کا حصہ رہا۔ وہ ایک مزدور کی بیٹی تھیں۔ لیکن تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوکر عملی زندگی میں درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا اور ادب کے مطالعہ کا شوق اپنایا تو خود بھی لکھنے لگیں۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عظیم قلم کار کے طور پر سامنے آئیں اور کئی مشاہیر اور اعلیٰ منصب دار ان کے فن و افکار سے متاثر ہوئے۔ ان میں‌ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی شامل ہیں۔ انہی کے دورِ صدرات میں ٹونی موریسن کو ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔ سویڈش اکیڈیمی نے نوبیل انعام کا اعلان کرتے ہوئے ٹونی موریسن کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور بطور مصنّف ان کی بصیرت کو ان الفاظ میں سراہا تھا، ‘ٹونی موریسن اپنے ناولوں میں تخیلاتی قوتوں کو بروئے کار لاتی ہیں، ان کی نثر شاعرانہ ہے، وہ زندگی کے ایک لازمی حصے کے طور پر امریکی بدیہی حقیقت کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ اپنے بیانیے کی سچائی کے اظہار میں وہ بے رحم ہیں۔’

    وہ امریکا کی ایک ایسی مصنفہ کہلائیں جس نے فکشن کی زبان کو نئے طلسم اور سحر انگیزیوں سے آشنا کیا اور زبان کو آزادی کے رمز اور نعمت سے سرشار کیا۔ وہ سیاہ فاموں کو مستقبل کی نوید سنانے والی خاتون تھیں اور ہمیشہ سیاہ فام نسل کو یہ یقین دلاتی رہیں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ دانش ور اور اہل قلم سمجھتے ہیں کہ ٹونی موریسن نے اپنے لفظوں سے غلامی کی زنجیرکو توڑا اور زبان سے بے پایاں محبت کے استعارے تخلیق کیے۔

    ٹونی موریسن 1967ء سے1983ء تک افریقی امریکی رائٹر کے طور پر رینڈم ہاؤس کی ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز رہیں۔ انھوں نے پرنسٹن اور دیگر یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ پروفیسر نولیوے روکس کے مطابق ان کے پہلے ناول ”دی بلیوسٹ آئی” کو ایک سنگ میل کی حیثیت سے دیکھا جائے گا جو ایک سیاہ فام لڑکی کی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ یہ وہ ناول تھا جس نے بلاشبہ موریسن کی شہرت کو چار چاند لگا دیے تھے۔ ٹونی موریسن کی ایک تصنیف ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon) بھی بہت مقبول ہوئی اور آج بھی اس ناول کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔

    ناول نگار ٹونی موریسن نیویارک میں مقیم تھیں اور وہیں ان کی زندگی کا آخری دن تمام ہوا۔

  • سَمیرہ موسیٰ: پُراسرار موت کا شکار ہونے والی مسلمان جوہری سائنس داں

    سَمیرہ موسیٰ: پُراسرار موت کا شکار ہونے والی مسلمان جوہری سائنس داں

    سَمیرہ موسیٰ………. یہ نام آپ نے سنا ہے؟ شاید آپ میں سے کچھ لوگ ہی اس شخصیت سے واقف ہوں گے، وہ بھی بھولی بسری کہانی کے طور پر اور ان کے ذہنوں میں اس نام کے ساتھ ہی کچھ حوالے بجلی کی طرح کوند گئے ہوں گے…….. جوہری سائنس داں……..حادثے میں موت…….موساد۔

    امت مسلمہ کی اس عظیم خاتون کی داستان ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے جو سرخ چہرے کے ساتھ کف اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کو سائنس میں کچھ نہ کرنے کا طعنہ دے کر مسلمان نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ کہانی ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشوں کے وجود سے انکاری ہیں۔

    سمیرہ موسیٰ مصر سے تعلق رکھنے والی جوہری سائنس داں تھیں۔ وہ جوہری سائنس کے پُرامن مقاصد، خاص طور پر بیماریوں کے تدارک، کے لیے استعمال کے لیے کوشاں تھیں۔ وہ ”خطرہ” تب بنیں جب انھوں نے سستی دھاتوں کے ایٹم توڑ کر کم خرچ جوہری بم بنانے کی مساوات وضع کی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ جاننے سے پہلے سمیری موسیٰ کی مختصر سی زندگی کے نشیب وفراز کا قصہ پڑھیے۔

    سَمِیرہ موسیٰ نے 3 مارچ 1917کو مصر کے شمالی علاقے غربیا میں جنم لیا۔ ان کے والد علاقے کے مشہور سیاسی کارکن تھے، جب کہ والدہ اپنی بیٹی کے عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی سرطان کے باعث دنیا چھوڑ گئیں۔ سمیرہ کمسن ہی تھیں کہ ان کے والد انھیں لے کر مصر کے دارالحکومت قاہرہ منتقل ہوگئے، جہاں انھوں نے اپنی جمع پونجی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں لگا کر یافت کا بندوبست کیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس ذہین لڑکی نے سیکنڈری ایجوکیشن میں اعلیٰ ترین نمبر حاصل کرکے خود کو انجنیئرنگ کی تعلیم کا حق دار بنالیا تھا، مگر اس نے آگے پڑھنے کے لیے قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ سائنس کا انتخاب کیا۔

    1939میں سمیرہ نے شان دار کام یابی کے ساتھ بی ایس سی ریڈیالوجی کی تکمیل کی، جس کے بعد انھوں نے ایکسرے کی تابکاری کے اثرات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنالیا۔ کلیہ سائنس کے سربراہ علی مصطفیٰ مشرفۃ کو اپنی فطین طالبہ سے توقع تھی کہ وہ تدریس کے پیشہ اپنا کر اور فیکلٹی سے بہ طور استاد وابستہ ہوکر ذہنوں کی آبیاری میں ان کی مدد کرے گی۔ سمیرہ اپنے شفیق استاد کی امید پر پوری اتریں۔ وہ قاہرہ یونیورسٹی کے کلیہ سائنس کی پہلی خاتون اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئیں، یہ اس جامعہ میں تدریس کے منصب پر بھی کسی عورت کی پہلی تقرری تھی۔ اولیت کا یہ سلسلہ اس وقت معراج کو پہنچ گیا جب وہ جوہری تابکاری کے مضمون میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے اس شعبے میں پہلی خاتون سائنس داں قرار پائیں۔

    سمیرہ موسیٰ جوہری طاقت کے پُرامن مقاصد کے استعمال پر یقین رکھتی تھیں اور اس نظریے کی پرچارک تھیں۔ ان کا کہنا تھا، ”میری خواہش ہے کہ سرطان کے لیے جوہری علاج دست یاب ہو اور اتنا سستا ہو جیسے اسپرین (ٹیبلیٹ)۔” ان کے اس قول نے بڑی شہرت حاصل کی، اور شاید یہ سوچ بھی ان کی موت کا سبب بنی۔ اپنے اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے سخت محنت کی اور ان کی تحقیقی سرگرمیوں کا محور یہی سوچ بنی رہی۔ یہ خیال ہی کیا کم قیامت خیز تھا کہ سمیرہ موسیٰ کی اس مساوات نے تو ہلچل ہی مچادی جس کی مدد سے سستی دھاتوں کے جوہر توڑ کر ایک سستا جوہری بم بنانا ممکن ہوجاتا۔ یہ استحصال زدہ تیسری دنیا کی اقوام خاص طور پر مسلم ممالک کو ایٹمی حملے کے خوف سے نجات دلانے کا تیر بہ ہدف نسخہ تھا، تو دوسری طرف ایٹم بم اور دیگر بڑے پیمانے پر ہلاکت پھیلانے والے ہتھیاروں کے بل پر دنیا میں من مانی کرنے والے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی۔

    سمیرہ موسیٰ نے ”جوہری توانائی برائے امن کانفرنس” کا انعقاد کیا، جس میں بہت سے ممتاز سائنس داں مدعو کیے گئے تھے۔ اس پلیٹ فارم سے اس زیرک اور انسانیت دوست سائنس داں نے ”جوہر برائے امن” کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ سمیرہ موسیٰ کی کوششوں سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں جوہری توانائی کے خطرات سے بچاؤ کے لیے بہت سی سفارشات مرتب کی گئیں اور کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے لیے سمیرہ موسیٰ پیش پیش رہیں۔

    سرطان کے مرض سے جنگ سمیرہ کی سرگرمیوں میں اہم ترین رہی، جس کا سبب ان کی والدہ کا اس موذی مرض کا شکار ہوکر دنیا سے چلے جانا تھا۔ وہ مختلف اسپتالوں میں جاکر رضاکارانہ طور پر سرطان کے مریضوں کی ان کے علاج میں مدد کرتی تھیں۔

    اس باصلاحیت سائنس داں اور محقق کی شہرت مصر کی سرحدیں پار کر کے دور دور تک پہنچ چکی تھی۔ جوہری سائنس میں بے مثال کام یابیوں کی بنا پر سمیرہ موسیٰ کو 1950میں امریکا کی فل برائٹ (Fulbright) اسکالر شپ ملی اور انھیں امریکی ریاست میسوری کی سینٹ لوئس یونیورسٹی میں تحقیقی سرگرمیوں کے لیے مدعو کیا گیا۔ ساتھ ہی امریکا پہنچنے پر انھیں امریکی شہریت کی بھی پیشکش کی گئی، مگر سمیرہ نے پیروں میں پڑی اس امریکی شہریت کو لات مار دی جس کی خاطر لوگ امریکیوں کے پیروں میں پڑ جاتے ہیں۔ انھوں نے یہ پیشکش رد کرتے ہوئے کہا،”میرا مُلک میرا انتظار کر رہا ہے۔”

    امریکا میں قیام کے بعد وہ وطن واپسی کی تیاری کر رہی تھیں کہ انھیں کیلیفورنیا کی کچھ جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی دعوت دی گئی۔ وہ پہلی غیرملکی ہوتیں جو امریکا کے ان حساس مقامات تک براہ راست رسائی حاصل کرپاتیں۔ اس دعوت پر امریکا میں نسل پرستانہ اور منفی ردعمل سامنے آیا۔

    بتایا جاتا ہے کہ 5 اگست 1952 کو وہ کیلیفورنیا کے لیے روانہ ہوئیں۔ راستے میں ایک وادی سے کچھ پہلے ان کی کار کسی پُراسرار حادثے کا شکار ہو کر چالیس فٹ گہرائی میں جا گری اور وہ فوری طور پر جاں بہ حق ہو گئیں، مگر کار کے ڈرائیور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کار کے گرنے سے پہلے اس نے چھلانگ لگا دی تھی اور زندہ بچ گیا لیکن کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا! سمیرہ کو مدعو کرنے والی فیکلٹی کا کہنا تھا کہ انھیں لانے کے لیے کوئی کار نہیں بھیجی گئی تھی، جب کہ ڈرائیور کی شناخت بھی جعلی تھی۔

    اس سانحے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔ ڈرائیور کا لاپتا ہونا صاف بتا رہا تھا کہ سمیرہ حادثے کا شکار نہیں ہوئیں انھیں باقاعدہ سازش کے تحت قتل کیا گیا ہے، مگر جس سائنس داں کی امریکا میں اتنی آؤ بھگت کی گئی اور جسے امریکی اپنی شہریت دینے کے لیے بے تاب تھے اس کی پُراسرار موت کا معاملہ دبا دیا گیا۔ اس شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سمیرہ موسیٰ کو قتل کیا گیا اور یہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی کارستانی تھی۔ ایک ممتاز عرب اور مسلم سائنس داں ہونے کی حیثیت سے اور سستے جوہری بم کے تصور کے باعث سمیرہ اسرائیل کا ہدف تھیں۔

    (سمیرہ موسیٰ کے حالاتِ زندگی پر محمد عثمان جامعی کے مضمون سے اقتباس)

  • پی ٹی وی کے سینئر اداکار محمود صدیقی کی برسی

    پی ٹی وی کے سینئر اداکار محمود صدیقی کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے اداکاروں میں محمود صدیقی کو ان کے منفرد انداز اور دلنواز لب و لہجے کی بدولت پہچانا جاتا تھا۔ ان کا شمار سینئر اداکاروں میں ہوا۔ انھوں نے پی ٹی وی کے کئی ڈراموں میں یادگار کردار نبھائے۔

    محمود صدیقی 2000ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق سندھ کے مشہور شہر سکھر سے تھا۔ محمود صدیقی نے 1944ء میں ایک چھوٹے سے قصبے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں‌ نے قانون کی مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سندھ سے تعلق رکھنے والے نام ور شاعر اور ادیب شیخ ایاز بھی وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ محمود صدیقی نے ان کے جونیئر کے طور پر وکالت کا آغاز کیا تھا۔ شیخ ایاز کی صحبت میں انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا محمود صدیقی شروع ہی سے انسانی حقوق کا شعور رکھتے تھے اور سیاسی و سماجی کاموں میں دل چسپی لیتے تھے۔
    انھوں نے ایک نظریاتی کارکن کے طور پر خود کو سیاسی پلیٹ فارم سے متحرک کرنے کا فیصلہ کیا تو سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن ان کا انتخاب تھی۔ وہ اس سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانہ میں محمود صدیقی نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    محمود صدیقی نے مختصر عرصہ ریڈیو پاکستان میں بطور اناؤنسر بھی گزارا اور قلیل مدّت کے لیے روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ 1973ء میں محمود صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن کے ایک سندھی ڈرامہ بدمعاش سے اداکاری کا آغاز کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں وہ زینت، گلن وار چوکری، تلاش اور رانی جی کہانی میں نظر آئے اور اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے پی ٹی وی کے ناظرین میں خاصے مقبول ہوئے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت اردو زبان میں پی ٹی وی کا ڈرامہ ’’دیواریں‘‘ تھا۔ اس ڈرامہ نے محمود صدیقی کو ملک گیر شہرت دی اور پھر انھیں مزید ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا اور یہ سبھی یادگار ثابت ہوئے۔ ان میں مشہور ڈرامہ جنگل، قربتوں کی تلاش، دنیا دیوانی اور کارواں شامل ہیں۔ محمود صدیقی کو ڈرامہ کارواں میں بہترین اداکاری پر پی ٹی وی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    محمود صدیقی نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ایک سیریل نہلے پہ دہلا کے نام سے بنائی تھی جو بہت مقبول ہوئی تھی۔

    اداکار محمود صدیقی کراچی میں ڈالمیا روڈ پر ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • فرمان فتح پوری: اردو کے بلند پایہ نقّاد اور محقق

    فرمان فتح پوری: اردو کے بلند پایہ نقّاد اور محقق

    اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے، وہ بہت کم اہلِ قلم کو نصیب ہوتا ہے وہ ایک بلند پایہ نقّاد، معتبر محقق اور ماہرِ لسانیات تھے۔ فرمان فتح پوری کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ ان کے مضامین و مقالات اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔

    وہ غیرمنقسم ہندوستان میں فتح پور شہر میں 26 جنوری 1926ء کو پیدا ہوئے فرمان فتح پوری کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر والد اور چچا سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں، قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ مصدرنامہ، گلستان بوستان بھی گھر ہی پر پڑھیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ‌ علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کیا۔

    فرمان فتح پوری کا میدان تنقید اور تحقیق تھا اور وہ زبان و بیان کی باریکیوں کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات کے بڑے نکتہ بیں تھے۔ انھیں ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ ان کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب کا گراں‌ قدر سرمایہ ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور ناقد ان کی ادبی خدمات اور کارناموں کے معترف رہے اور انھیں پائے کا نقّاد تسلیم کیا جن کے ہاں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ نظم و نثر اور ادب کی جملہ اصناف اور متعدد اسالیب پر اپنی مدلّل اور جامع رائے اور تنقید کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر موضوعات پر خوب کام کیا۔ وہ تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ فرمان فتح پوری کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ جہاں ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ نہایت مستند مانی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری 2013ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ حکومتِ‌ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • علی سردار جعفری:‌ ترقی پسند تحریک کا ایک مبلغ، انقلابی شاعر اور ادیب

    علی سردار جعفری:‌ ترقی پسند تحریک کا ایک مبلغ، انقلابی شاعر اور ادیب

    علی سردار جعفری ایک درد مند اور انسان دوست شخصیت کے طور پر مشہور تھے۔ وہ ان اہلِ قلم میں شامل تھے جنھوں نے قوم اور فرد کی آزادی و ترقی کا خواب دیکھا اور اپنی انقلابی شاعری سے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔

    علی سردار جعفری نے ہندوستان میں وہ دور دیکھا جب ترقی پسند ادب کے عروج کے ساتھ برصغیر میں آزادی اور تقسیمِ ہند کے لیے انقلابی نعروں کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی تھی۔ وہ بلرام پور (ضلع گونڈہ، اودھ) میں 29 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے اور 2000ء میں یکم آج ہی کے روز ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ بھارت کے شہر ممبئی میں مقیم تھے۔

    شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری بھی ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے۔ انھوں نے اس پلیٹ فارم سے اپنے افکار و نظریات کے اظہار کے ساتھ اپنی تخلیقات کے ذریعے ہندوستان میں بھائی چارے اور انسان دوستی کا پرچار کیا۔ ان کی نظمیں فرد کی آزادی اور ترقی و خوش حالی کے خیالات سے آراستہ ہیں۔ علی سردار جعفری اپنے وقت کے مقبول انقلابی شاعروں میں‌ سے شامل تھے۔ ان کی نظموں کو ہندوستان بھر میں پڑھا گیا۔ نئے قلم کاروں کو متاثر کرنے والے علی سردار جعفری شاعر ہی نہیں ادبی نقّاد اور ایسے مصنف تھے جن کا قلم شخصی خاکے، تذکرے، تنقیدی مضامین، افسانے اور ڈرامے بھی لکھتا رہا اور پھر ان کی یادداشتوں پر مشتمل کئی تحریریں‌ بھی یادگار ثابت ہوئیں۔

    شاعری کی بات کی جائے تو وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے لیکن ان کی غزلیں اور گیت بھی پسند کیے گئے جن میں خاص طور پر ایک جذباتی رو پائی جاتی ہے۔ علی سردار جعفری کے کلام وہ صوتی آہنگ ملتا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔

    اپنے ایک انٹرویو میں علی سردار جعفری نے اپنے حالاتِ زندگی، تعلیم و تربیت کے مراحل اور اپنے ادبی سفر کے بارے میں بتایا تھا کہ: میرا نام اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ آج تک اس نام کا دوسرا آدمی نہیں ملا۔ ہاں سردار علی نام کسی قدر عام ہے۔ حافظ شیرازی کے ایک قصیدے میں علی سردار اس طرح استعمال ہوا ہے کہ میرے نام کا سجع بن جاتا ہے۔ سب سے پہلے گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے سلطان المدارس لکھنؤ بھیج دیا گیا، وہاں جی نہیں لگا۔ ایک مولوی صاحب کے گھر قیام تھا۔ وہاں بھی جی نہیں لگا اور میں فرار ہو کر بلرام پور واپس چلا گیا۔ بلرام پور کے انگریزی اسکول لائل کالجیٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ کھلی فضا تھی، اچھے استاد تھے، ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں تھیں۔ صبح ناشتہ کر کے گھر سے اسکول جانا اور شام کو چار بجے پھر واپس آکر ناشتہ کرنا، اور میل ڈیڑھ میل دور ایک پریڈ گراؤنڈ میں پیدل جا کر دو گھنٹے کرکٹ، ہاکی کھیلنا روز کا معمول تھا۔

    علی سردار جعفری کے مطابق، اسی زمانے میں انیسؔ کے زیرِ اثر شاعر شروع کی۔ 1933ء میں بیس سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ (ابتدائی تعلیم کے چند سال ضائع ہوگئے تھے)

    یہ ایک طوفانی زمانہ تھا جب تحریکِ آزادی اپنے شباپ پر تھی۔ اس عہد کے علی گڑھ نے اردو زبان کو اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، منٹو، مجاز، جاں نثار اختر، جذبی، خواجہ احمد عباس، جلیل قدوائی، اختر انصاری، شکیل بدایونی، عصمت چغتائی اور 1940ء کے آس پاس اخترالایمان کا تحفہ دیا۔ وہاں خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر رشید جہاں، ڈاکٹر محمد اشرف وغیرہ سے تعارف ہوا اور جن کی صحبت اور فیض نے ذوقِ ادب اور آزادی کے جذبے کو جلا عطا کی۔ ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا اور دہلی جا کر اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ یہ وہ تاریخی کالج تھا جو دہلی کالج کے نام سے ایک بڑا تعلیمی کردار ادا کرچکا تھا۔ وہاں داخلہ دلوانے میں جلیل قدوائی اور اختر انصاری نے مدد کی۔ اس واقعہ کے پچاس سال بعد 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ (D.Litt.) کی اعزازی ڈگری سے عزت افزائی کی۔ یہ میرے لیے اس اعتبار سے بہت بڑا اعزاز تھا کہ مجھ سے پہلے اعزازی ڈگری شعراء کی فہرست میں علامہ اقبال، مسز سروجنی نائیڈو اور حضرت جگر مراد آبادی کو عطا کی گئی تھی۔

    اس پس منظر اور زندگی کے مختلف ادوار کی جھلک کے بعد علی سردار جعفری پر بات کی جائےتو بجا طور پر وہ اردو ادب میں اپنی شاعری کے ذریعے مقام بنانے میں کام یاب رہے اور ترقی پسند دانش ور اور مصنّف کے طور پر ان کو امتیاز حاصل ہے۔ اس کے ساتھ انگریزوں سے آزادی کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد کا زمانہ بھی یہی تھا اور علی سردار جعفری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے متحرک اور فعال رکن بھی بن چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں، جواہر لال نہرو سے اسی زمانے میں ملاقات ہوئی اور ملاقات کا یہ شرف آخر دن تک قائم رہا۔ ان کے انتقال سے دو ماہ قبل تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی نے ایک چھوٹا سا مشاعرہ پنڈت جی کی تفریح طبع کے لیے کیا تھا، جس میں فراقؔ، سکندر علی وجدؔ اور مخدوم محی الدّین بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی نظم “میرا سفر” فرمائش پر سنائی تھی۔

    علی سردار جعفری کا تعلیمی سفر جس زمانہ میں جاری تھا، اسی زمانہ میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے بینر تلے اپنی سیاسی سرگرمیاں بھی شروع کرچکے تھے اور قید یا نظر بندی بھی ان کے حصّہ میں آئی۔ یوں نوجوانی میں وہ ادب کی دنیا سے ایک نہایت فعال اور متحرک شخصیت کے طور پر بھی سب کے سامنے آتے رہے۔ سردار صاحب اس بارے میں لکھتے ہیں، دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں لکھنؤ آ گیا۔ پہلے مجازؔ کے ساتھ قانون کی تعلیم کے لیے ایل۔ ایل۔ بی میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد اس کو چھوڑ کر انگریزی ادب کی تعلیم کے لیے ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ لیکن آخری سال کے امتحان سے پہلے جنگ کی مخالفت اور انقلابی شاعری کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل اور بنارس سنٹرل جیل میں تقریباً آٹھ ماہ قید رہا اور پھر بلرام پور اپنے وطن میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی دسمبر 1941ء میں ختم ہوئی۔ لکھنؤ میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر احمد وغیرہ کی صحبت رہی۔ وہیں پہلی بار ڈاکٹر ملک راج آنند سے ملاقات ہوئی۔ 1938ء میں کلکتہ میں ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شانتی نکیتن جا کر ٹیگور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں بلراج ساہنی سے ملاقات ہوئی جو ہندی پڑھاتے تھے۔

    علی سردار جعفری مزید لکھتے ہیں: 1943ء میں بمبئی آنا ہوا۔ سجاد ظہیر کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار ’قومی جنگ‘ میں صحافتی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس محفل میں بعد کو سبط حسن، مجازؔ، کیفیؔ، محمد مہدیؔ وغیرہ شامل ہوئے۔ آہستہ آہستہ بمبئی اردو ادب کا مرکز بن گیا۔ 1949ء کے بعد بمبئی میں جوشؔ، ساغر نظامی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، میرا جی، اخترالایمان، سجاد ظہیر، ساحرؔ، کیفیؔ، مجروحؔ، حمید اختر اور بہت سارے سربرآوردہ ادیب جمع ہوگئے۔ اس زمانے کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی اجلاس نے پوری اردو دنیا میں ایک دھوم مچا رکھی تھی۔ باہر سے آنے والے ادیب ان اجلاسوں میں بڑی مسرت سے شریک ہوتے تھے۔ 1949ء میں جو ہندوستانی سیاست کا ہیجانی دور تھا اور کمیونسٹ پارٹی کی انتہا پسندی اپنے شباب پر تھی، حکومت ہند کی طرف سے پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ میں بمبئی میں دو بار گرفتار کیا گیا۔ پہلی بار پندرہ دن کے لیے۔ دوسری بار ڈیڑھ سال کے لیے۔ یہ زمانہ بمبئی کے آرتھر روڈ جیل اور ناسک کی سنٹرل جیل میں گزرا۔ 1950ء میں یکایک رہا کر دیا گیا۔ وہ عید کی شام تھی۔ دوسرے دن صبح ہی صبح بمبئی آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ عید کا دن تھا۔

    علی سردار جعفری کے تحریر کردہ ڈرامے اور افسانے بھی مختلف ادبی پرچوں کی زینت بنے۔ وہ ممبئ سے جاری ہونے والے سہ ماہی "نیا ادب” کے مدیر بھی تھے۔ انھوں نے انگریزی سے کئی مصنفین کی تحریروں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ علی سردار جعفری کی ادبی تخلیقات پر مشتمل کتابوں‌ میں ان کی نظموں کے مجموعہ پرواز (1943)، نئی دنیا کو سلام (طویل تمثیلی نظم، 1948)، امن کا ستارہ (دو طویل نظمیں 1950ء)، ایک مجموعہ پتھر کی دیوار (1953ء) اور لہو پکارتا ہے (1968ء) میں شایع ہوئے جب کہ افسانوں کی کتاب منزل (1938ء)، ڈراموں کا مجموعہ یہ خون کس کا ہے (1943ء) شایع ہوئی۔ اس کے علاوہ کتاب بعنوان لکھنؤ کی پانچ راتیں (1965ء)، اقبال شناسی (1969ء) میں منظر عام پر آئی۔ فلم کے لیے بطور گیت نگار اور مصنّف بھی کام کیا۔

    بھارتی حکومت نے علی سردار جعفری کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری ایوارڈ اور 1997ء میں گیان پیٹھ ایوارڈ دیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 1978ء میں انھیں اقبال میڈل (تمغائے امتیاز) سے نوازا گیا جب کہ روس نے خصوصی تمغائے ماسکو (ستّر سالہ جشنِ پیدائش پر) 1984ء میں دیا تھا۔

  • رشی دا: وہ فلم بینوں کو ہنسانے اور رلانے کا ہنر جانتے تھے!

    رشی دا: وہ فلم بینوں کو ہنسانے اور رلانے کا ہنر جانتے تھے!

    رشی دا کو انڈین فلمی صنعت کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ ان کی فلمیں انڈیا ہی نہیں پاکستان میں بھی دیکھی گئیں اور یادگار ثابت ہوئیں۔ ان میں اصلی نقلی، اناڑی، اور نمک حرام کے نام شامل ہیں۔

    رشی کیش مکھرجی المعروف رشی دا 83 سال کی عمر میں 2006ء میں چل بسے تھے۔ ستمبر 1922ء کو رشی کیش مغربی بنگال کے مشہور شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اسی شہر کی جامعہ سے گریجویشن کے بعد کچھ عرصہ تدریس کے فرائض انجام دیے، بعد میں فلم ایڈٹنگ سیکھی۔ اس زمانے میں کلکتہ بھی فلم کا ایک بڑا مرکز ہوتا تھا۔لیکن بعد میں سب نے بمبئی کا رخ کرلیا تھا۔ 1951ء میں رشی دا نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ پہلی مرتبہ انھوں نے نامور فلم ساز بمل رائے کے ساتھ کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ فلم مسافر میں بمل رائے کے معاون ڈائریکٹر رہے۔ یہ فلم تو کام یاب نہیں ہوسکی لیکن مشہور اداکار اور فلم ساز راج کپور رشی کیش مکھرجی کے کام سے بہت متاثر ہوئے اور 1959ء میں اپنی فلم ’اناڑی‘ کے لیے ہدایات کار منتخب کرلیا۔ اس فلم میں اداکار راج کپور کے ساتھ اس دور کی مشہور اداکارہ نوتن کام کررہی تھیں۔ یہ فلم نہایت کام یاب ثابت ہوئی اور رشی دا کے کیریئر کو خوب اجالا۔ رشی دا نے کم مگر نہایت معیاری فلمیں بنائیں اور شان دار کام کیا۔ وہ 46 فلموں کے ہدایت کار تھے جنھوں نے پندرہ فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ رشی دا بھی بامقصد تفریح کے قائل تھے اور وہ سماجی موضوعات پر فلم بنانا پسند کرتے تھے۔

    ہدایت کار رشی دا نے گھریلو فلمیں اور سیدھی سادی کہانیاں سنیما بینوں کو دیں۔ وہ اپنی فلموں میں جس طرح انسان کی فطرت اور اس کے جذبات کی عکاسی کرتے تھے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ رشی دا کی اکثر فلمیں یا تو رونے پر مجبور کردیتی ہیں یا لوگ قہقہے لگانے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ رشی دا کی فلموں کے نغمات بھی بہت مقبول ہوئے۔ فلم آشیرواد، ابھیمان، گڈی، گول مال اور خوبصورت وہ فلمیں ہیں جو رشی دا کی شہرت کی وجہ اور کام یابیوں کی مثال ہیں۔

    فلمی ناقدین کے مطابق رشی دا کا کمال یہ تھا کہ وہ تشدد اور عریانیت کا سہارا لیے بغیر اپنی فلموں میں جان ڈالنا جانتے تھے۔ انھوں نے گھریلو اور عام موضوعات کے ساتھ متوسط طبقہ کے مسائل کو اجاگر کیااچھی طرح استعمال کرتے تھے۔ رشی دا فلم کو ایک طاقت ور میڈیم کے طور پر اصلاح اور پیغام رسانی کا ذریعہ خیال کرتے تھے اور اس سے یہی کام لیا۔ ان کا کمال وہ ہلکی پھلکی کامیڈی فلمیں بھی ہیں جو چپکے چپکے، نرم گرم، جھوٹ بولے کوا کاٹے
    اور آنند کے نام سے بہت مقبول ہوئیں۔ رشی دا کی یادگار فلم ’آنند‘ میں اداکار راجیش کھنہ کو کینسر کے مرض کی آخری اسٹیج پر دکھایا ہے اور یہ شخص اس مشکل وقت میں بھی اپنے ساتھیوں کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ ابھیمان میں رشی دا نے میاں بیوی کے رشتے کو بہت خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔

    رشی کیش مکھرجی کو 1999ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا جب کہ 1960ء میں ان کو اپنی فلم انورادھا پر صدر جمہوریہ میڈل دیا گیا تھا۔ فلمی دنیا میں رِشی دا کو ایک سلجھا ہوا انسان سمجھا جاتا تھا جن کا طنز و مزاح اور پرجوش انداز بھی مشہور تھا۔