Tag: اگست برسی

  • تلوار کی دھار پر رقص کرنے والی میڈم آزوری کا تذکرہ

    تلوار کی دھار پر رقص کرنے والی میڈم آزوری کا تذکرہ

    شوبز کی دنیا میں میڈم آزوری کے نام سے شہرت پانے والی رقاص کا یہ تذکرہ رفتگاں کی یاد تازہ کرنے کے سلسلے کی ایک کڑی ضرور ہے، مگر بدقسمتی دیکھیے کہ شہرت اور دولت سمیٹنے والی اس فن کار نے آخری عمر میں نہ صرف ناقدری کا بار اٹھایا بلکہ مشکلات اور مسائل کا سامنا بھی کیا اور آج یہ ایک فراموش کردہ نام ہے۔

    رقص، میڈم آزوری کا وہ فن تھا جس میں‌ ان کے کمال اور مہارت کا اعتراف ہر بڑے فن کار اور آرٹسٹ نے کیا۔ انھیں خوب داد ملی اور ہر محفل میں انھیں مدعو کیا جاتا تھا جہاں حاضرین ان کے فن کا مظاہرہ دیکھتے اور تعریف کرنے پر خود کو مجبور پاتے۔ میڈم آزوری کا اصل نام اینا میری گوزیئزیلر (Anna Marie Gueizelor) تھا۔ وہ 1907ء میں بنگلور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد کا تعلق جرمنی سے تھا اور والدہ ہندوستانی۔ والد ڈاکٹر تھے، لیکن ان کی ازدواجی زندگی ناکام ثابت ہوئی اور یوں علیحدگی کے بعد والد ہی نے اپنی بیٹی اینا میری کی پرورش کی۔ میڈم آزوری کو والد نے بیلے ڈانس اور پیانو بجانے کی تربیت دلوائی اور بعد میں بمبئی میں سکونت اختیار کی تو وہاں‌ اینا نے کلاسیکی رقص سیکھا۔ ان کے والد کے حلقۂ احباب میں فن و ادب سے وابستہ شخصیات بھی شامل تھیں۔ ان کی ایک دوست عطیہ فیضی بھی تھیں اور انہی کے توسط سے اینا میری نے کلاسیکی رقص سیکھنے کا آغاز کیا تھا۔ اسی زمانے میں اینا کو آزوری کا نام بھی مل گیا۔

    یہ 1929ء کی بات ہے جب آل انڈیا ریڈیو کا پہلا اسٹیشن دھن راج محل بمبئی میں کھلا۔ جہاں افتتاحی تقریب کے دوران اینا یعنی آزوری نے پیانو بجایا۔ میڈم آزوری کو اتفاق سے مہاراجہ پٹیالہ کے بیٹے کی شادی میں شرکت کا موقع ملا تووہاں مہارانی کی خواہش پر انھوں نے تلوار کی دھار پر رقص کر کے سبھی کو حیران و ششدر کر دیا۔ بعد میں‌ باقاعدہ کتھک رقص سیکھا اور اس فن کی معراج پر پہنچیں۔ خصوصاً کتھا کلی، بھارت ناٹیم، کتھک اور ہر قسم کے رقص میں ماہر ہوگئیں۔

    1947ء میں اس مایہ ناز رقاصہ کی شادی میر مقبول محمود سے ہوگئی اور تقسیم کے بعد یہ جوڑا پاکستان آ گیا۔ یہاں میڈم آزوری نے لڑکیوں کو رقص سکھانا شروع کیا۔ لیکن اپنے شوہر کی وفات کے بعد وہ گوشہ نشین ہو گئی تھیں۔ اگست 1998ء میں‌ اپنے دور کی یہ مشہور رقاص چل بسی تھیں۔ انھیں روالپنڈی کے گورا قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    میڈم آزوری نے ایک رحم دل اور انسان دوست شخصیت کی مالک تھیں۔ انھوں نے کئی یتیم کرسچن بچّوں کی کفالت کی اور انھیں ڈانس کی تربیت بھی دی۔ انھوں نے متعدد ہندوستانی فلموں میں‌ ڈانس کیا اور چند فلموں میں بطور اداکارہ بھی نظر آئیں۔ میڈم آزوری نے بکنگھم پیلس میں بھی فن کا مظاہرہ کیا تھا۔

  • کلیم عثمانی: بے مثال ملّی نغمات اور لازوال فلمی گیتوں کا شاعر

    کلیم عثمانی: بے مثال ملّی نغمات اور لازوال فلمی گیتوں کا شاعر

    کلیم عثمانی کے تحریر کردہ متعدد ملّی نغمات آج بھی ہم جب سنتے ہیں تو اپنے اندر ایک نیا جوش و جذبہ، توانائی اور ولولہ محسوس کرتے ہیں کلیم عثمانی 2000ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے، لیکن ان کا نام ان کے گیتوں کی طرح ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔

    معروف گیت نگار کلیم عثمانی ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے بھی اردو ادب میں پہچانے جاتے ہیں۔ کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ ضلع سہارن پور، دیو بند میں 28 فروری 1928 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد فضل الٰہی بیگل بھی شاعر تھے۔ کلیم عثمانی نے علمی و ادبی ماحول میں پرورش پائی اور شاعری ان کا مشغلہ ٹھیرا۔ شاعری کے میدان میں انھوں نے کلیم عثمانی کے نام سے شناخت بنائی۔ ان کا خاندان قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آبسا تھا اور یہیں کلیم عثمانی نے بطور شاعر اپنی شہرت اور شناخت کا سفر طے کیا۔

    وہ ممتاز شاعر احسان دانش کے شاگرد رہے۔ کلیم عثمانی لاہور، کراچی اور پاکستان بھر میں تمام بڑے مشاعروں میں‌ مدعو کیے جاتے جہاں وہ ترنم سے اپنا کلام سنا کر داد سمیٹتے تھے۔ کلیم عثمانی نے غزل گوئی سے اپنا شعری سفر شروع کیا تھا اور پھر فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ پاکستانی فلم بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے لیے تحریر کردہ کلیم عثمانی کے گیت بہت مقبول ہوئے اور ان کی بدولت کلیم عثمانی کو فلم انڈسٹری میں مزید کام ملا۔

    فلم راز کا ایک مقبول گیت جس کے بول تھے، میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا….. کلیم عثمانی نے لکھا تھا جسے سرحد پار بھی بہت پسند کیا گیا۔ جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب اور نازنین نامی فلمیں بھی کلیم عثمانی کے ن غمات سے سجی ہوئی تھیں۔ ان کے یہ گیت کئی بڑے گلوکاروں کی آواز میں ریڈیو‌ سے نشر ہوئے اور پاکستان بھر میں مقبول تھے۔

    1973 میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبولِ عام گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ملّی نغمات کی بات کی جائے تو کلیم عثمانی کے گیت ہماری آزادی کا خوب صورت ترانہ اور پاکستان کی پہچان اجاگر کرنے کا ذریعہ ہیں۔ "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور "یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” کلیم عثمانی ہی کے تحریر کردہ ملّی نغمات ہیں۔ شاعر کلیم عثمانی کو لاہور کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

    کلیم عثمانی کی ایک مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

    رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
    چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

    خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
    شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

    پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی
    پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح

    بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
    میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح

  • آر اے نکلسن: تصوف کا دیوانہ، جلال الدّین رومی کا پرستار

    آر اے نکلسن: تصوف کا دیوانہ، جلال الدّین رومی کا پرستار

    اسلامی ادب اور تصوف پر علمی اور تحقیقی کام کے حوالے سے آر اے نکلسن کو مغربی دنیا میں خاص شہرت حاصل رہی ہے۔ وہ ایک انگریز مستشرق تھے جنھوں نے 13 ویں صدی عیسوی کے صوفی شاعر مولانا جلال الدّین رومی کی شخصیت کو موضوع بناتے ہوئے ان کے کلام کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔

    نکلسن نے 1868ء میں انگلستان کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کی تعلیم یبرڈین یونیورسٹی اور ٹرینیٹی کالج سے بذریعۂ کیمبرج ہوئی۔ شروع ہی سے انھیں زبانیں سیکھنے میں دل چسپی پیدا ہوگئی تھی اور بعد میں وہ اسلامی ادب کا مطالعہ کرنے اور تصوف میں کشش محسوس کرنے لگے تھے جو ان کی وجہ شہرت بھی بنا۔ نکلسن نے 27 اگست 1945ء کو انگلستان میں وفات پائی۔ انھوں نے 1901ء میں یونیورسٹی کالج لندن میں فارسی زبان کی تدریس سے عملی زندگی شروع کی تھی۔ وہ 1926ء تک فارسی کے لیکچرر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے اور پھر کیمبرج میں 1926ء سے 1933ء تک عربی کے سر تھامس ایڈمز کے پروفیسر‘ رہے۔ یہ دراصل کیمبرج میں ایک تدریسی منصب کا نام ہے۔

    نکلسن نے اسلام اور دینی تعلیمات کے ساتھ مختلف اسلامی ادوار کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس دوران ان کی توجہ اور دل چسپی تصوف میں بڑھ گئی۔ وہ ہندوستان میں‌ رائج زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھیں تصوف کے موضوع پر عربی، فارسی اور عثمانی ترک دور کی کتابوں کے مطالعہ کا موقع ملا تو انھوں نے اپنی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت سے کام لے کر انگریزی میں اس پر لکھنا شروع کیا۔ وہ دو کتابوں کے مصنّف ہیں جن میں لٹریری ہسٹری آف عرب اور دی مائسٹکس آف اسلام شامل ہیں۔ آر اے نکلسن نے مثنوی مولانا روم پر مستند کام کیا۔ ان کی کتاب 1925ء سے 1940ء کے درمیان آٹھ جلدوں میں شائع ہوئی۔ اس کے لیے آر اے نکلسن نے مثنوی کے پہلے اہم فارسی ایڈیشن کو سامنے رکھا اور اس کی بنیاد پر انگریزی میں مکمل ترجمہ اور تشریح کی۔ یہ ان کا بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پروفیسر رینالڈ ایلیین نکلسن کو مختصراً آر اے نکلسن لکھا جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال کے بی اے کے تحقیقی مقالہ کے ایک ممتحن بھی رہے۔ اقبال کے یورپ میں قیام کے زمانے میں نکلسن وہاں فارسی کے استاد تھے اور اسلامی تصوف اور رومی پر ان کی بات کو سند مانا جاتا تھا۔ علامہ اقبال کی پہلی شعری تصنیف ‘اسرارِ خودی’ کا انگریزی ترجمہ بعنوان The Secrets of the Self بھی اسی انگریز مستشرق نے کیا تھا جو 1920 میں لندن سے شائع ہوا تھا۔ اس ترجمہ کی بدولت علامہ اقبال کی شہرت یورپ بھر میں پھیلی۔

    آر اے نکلسن نے تادمِ مرگ رومی کی فکر اور ان کی صوفیانہ شاعری پر تحقیق کرتے رہے۔وہ رومی کی مثنوی کے بارے میں کہتے ہیں: ” مثنوی ایک باوقاراورعظیم الشان بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے… پرسکون اور گہرا، جو راستے کے ہرنشیب و فراز سے بے نیاز ایک لامتناہی سمندر سے ہم آغوش ہو جاتا ہے۔ ان کا دیوان جھاگ اڑاتی ہوئی پرجوش لہروں کی مانند پہاڑوں کی پاکیزہ تنہائیوں میں کھوجا تا ہے۔ رومی ہر دور کا عظیم ترین صوفی شاعر ہے۔”

  • پی ٹی وی کی معروف اداکارہ خالدہ ریاست کی برسی

    پی ٹی وی کی معروف اداکارہ خالدہ ریاست کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ خالدہ ریاست نے اپنے وقت کے مقبول ترین ٹی وی ڈراموں میں بہترین اداکاری کی اور ناظرین کی توجہ حاصل کی۔ اداکارہ خالدہ ریاست سرطان کے مرض میں مبتلا تھیں اور 26 اگست 1996ء کو وفات پائی۔ آج اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    پی ٹی وی کے ناظرین کو اپنی عمدہ پرفارمنس سے متاثر کرنے والی خالدہ ریاست یکم جنوری 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے اپنے فنی کریئر کا آغاز 70 کی دہائی میں ڈرامہ سیریل ‘نامدار‘ سے کیا، جس میں ان کے ساتھ نام ور اداکار شکیل نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ خالدہ ریاست کی مقبولیت کا آغاز حسینہ معین کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ‘بندش‘ سے ہوا۔ انھوں نے انور مقصود کے اسکرپٹ پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل ‘ہاف پلیٹ‘ میں بھی لیجنڈری اداکار معین اختر کے ساتھ اپنا کردار نبھایا تھا۔

    اداکارہ خالدہ ریاست کے دیگر مشہور ڈراموں میں لازوال، مانی، ایک محبت سو افسانے، پڑوسی، کھویا ہوا آدمی، ٹائپسٹ شامل ہیں۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ویمی: فلم اور فیشن کی دنیا کا وہ نام جو عبرت کا نشان بن گیا!

    ویمی: فلم اور فیشن کی دنیا کا وہ نام جو عبرت کا نشان بن گیا!

    فلم نگری یا شوبزنس کی چکاچوند میں کئی چہرے ایسے ہیں جنھیں بلاشبہ لازوال شہرت اور مقبولیت ملی اور کئی دہائیاں بیت جانے کے باوجود انھیں فراموش نہیں کیا جاسکا، مگر ان فلم اسٹارز کی ذاتی زندگی کسی المیّے سے کم نہیں رہی۔ ظاہری شکل و صورت سے اور عام میل جول کے دوران آسودہ اور مطمئن نظر آنے والے ان فن کاروں میں اداکارہ ویمی بھی شامل ہیں۔ بولی وڈ کی اداکارہ ویمی وقت کی گردش اور حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہوئیں اور نشانِ عبرت بن گئیں۔

    ہندوستان کے نام وَر اداکار سنیل دت کی فلم ہمراز سے ویمی نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ اداکارہ کو ان کی ابتدائی فلموں کی کام یابی کے بعد انڈسٹری میں اسٹار کا درجہ مل گیا اور شہرت کے ساتھ دولت کی دیوی بھی ان پر مہربان ہوگئی۔ مگر بولی وڈ کی یہ اداکارہ کام یابیوں کے اس سفر کے ساتھ گھریلو زندگی کو نہ سنبھال سکی اور ازدواجی زندگی تلخیوں کا اس کے کیریئر پر منفی اثر پڑا۔ وہ مقروض بھی ہوتی چلی گئی اور جگر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد ممبئی کے اسپتال میں 22 اگست 1977 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ اپنے وقت کی اس اسٹار اداکارہ کی لاش کو ٹھیلے پر رکھ کر‌ آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے لے جانا پڑا۔ ایک وقت تھا جب دولت ویمی کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھی۔ فلم ساز اسے پیشگی ادائی کردیتے تھے اور اس رقم سے وہ ایک پرآسائش طرزِ‌ زندگی اپنائے ہوئے تھی۔

    مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کا یہ فلمی گیت شاید آپ نے بھی سنا ہو۔

    تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو
    میں یوں ہی مست نغمے لٹاتا رہوں

    اور یہ بھی اپنے وقت کا مقبول گیت تھا۔

    کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے
    پرستش کی تمنا ہے عبادت کا ارادہ ہے

    1967ء میں‌ فلم ہمراز ریلیز ہوئی تھی اور یہ گیت اسی فلم میں شامل تھے جو بہت مقبول ہوئے۔ اس فلم نے باکس آفس پر دھوم مچا دی تھی۔ اداکارہ ویمی نے اسی فلم میں‌ مرکزی کردار نبھایا تھا اور یہ دو مقبول ترین گیت بھی اسی اداکارہ پر فلمائے گئے تھے۔

    اداکارہ ویمی کا سنہ پیدائش 1943ء تھا۔ وہ سکھ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ انھوں نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ ویمی کو شروع ہی سے گلوکاری کا شوق تھا۔ وہ فنِ اداکاری میں بھی دل چسپی رکھتی تھیں۔ اسی شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ ممبئی میں منعقدہ میوزک شوز اور ثقافتی پروگراموں میں شرکت کے لیے جایا کرتی تھیں۔ وہاں ان کی ملاقات میوزک ڈائریکٹر روی سے ہوئی اور انھوں نے ویمی کو بی آر چوپڑا کے بینر تلے بننے والی فلم میں‌ کام دلوا دیا۔ یوں‌ بڑے پردے پر ویمی کا سفر شروع ہوا۔

    فلم ہمراز نے ویمی کو راتوں رات اسٹار بنا دیا جس کے بعد وہ فلم آبرو میں‌ نظر آئیں اور شائقین نے انھیں اس فلم میں بھی پسند کیا۔ ویمی کا ہیئر اسٹائل بھی اس زمانے میں بہت مقبول ہوا۔ ان کی تصاویر ہر مقبول فلمی رسالے کی زینت بننے لگی تھیں۔ اس شہرت کے ساتھ انھوں نے اپنے وقت کے کام یاب بزنس مین شیو اگروال سے شادی کرلی، لیکن یہ ان کی زندگی کا بدترین فیصلہ ثابت ہوا۔

    شادی کے کچھ عرصہ بعد ویمی کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کے شوہر انھیں جسمانی تشدد اور ظلم کا نشانہ بناتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے یہ تعلق ختم کر لیا۔ علیحدگی کے بعد ویمی نے کلکتہ میں ٹیکسٹائل کا کاروبار شروع کیا لیکن اس میں‌ بری طرح ناکام رہیں۔ وہ فلمی دنیا سے بھی دور ہوچکی تھیں‌ اور وہ شہرت اور دولت جو انھوں نے اپنے مختصر کیریئر کے دوران حاصل کی تھی، اب ان کے ہاتھوں سے نکل رہی تھی۔ ازدواجی زندگی کی تلخیوں اور علیحدگی کے ساتھ کاروبار میں ناکامی اور مالی نقصانات نے ویمی کو شراب نوشی پر آمادہ کرلیا۔ ان کے پاس جو رقم تھی وہ ان کے عام اخراجات، شراب خریدنے پر لگ جاتی تھی اور پھر وہ اپنی شراب خریدنے کے لیے جسم فروشی کرنے لگیں۔

    اداکارہ ویمی کے اچھے دنوں کے ساتھی اور فلمی دنیا کے لوگ اُن سے دور ہوچکے تھے۔ فلم نگری کی اس اسٹار نے جس اسپتال کے جنرل وارڈ میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں‌ لیں وہاں انھیں ایک غریب اور بدحال عورت کے طور پر لایا گیا تھا۔ کثرتِ شراب نوشی سے ان کا جگر خراب ہوچکا تھا اور جو لڑکی کل تک فلم، فیشن اور اسٹائل کی دنیا میں پہچان رکھتی تھی، اس کی زندگی کا انجام بدترین اور عبرت ناک تھا۔

  • حسن علی آفندی:‌ سندھ کی ایک تاریخی حیثیت کی حامل درس گاہ کے بانی

    حسن علی آفندی:‌ سندھ کی ایک تاریخی حیثیت کی حامل درس گاہ کے بانی

    کراچی کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں کئی قابل و باکمال شخصیات ایسی نظر آئیں گی جنھوں نے سندھ میں علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی ترویج و اشاعت میں بنیادی کردار ادا کیا جن میں سے ایک حسن علی آفندی بھی ہیں۔ انھوں نے سندھ کے دارالخلافہ کراچی کو ایک عظیم الشّان درس گاہ دی جس کے قیام کا مقصد مسلمانوں کی نئی نسل کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔

    یہ تاریخی درس گاہ ہمارا قومی اثاثہ ہے اور مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت میں اپنا کردار آج بھی ادا کر رہی ہے۔ اس کا نام سندھ مدرستہُ الاسلام ہے جس کے بانی حسن علی آفندی کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا نام فلاح و بہبود کے کاموں اور تعلیم و تربیت کے میدان میں ان کی خدمات کی وجہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ حسن علی آفندی 20 اگست 1895ء کو اس دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    حسن علی آفندی 14 اگست 1830ء کو سندھ کے شہر حیدرآباد کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے، مگر اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل بنایا بلکہ سندھ کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی فکر کرتے ہوئے اس عظیم درس گاہ کے قیام کے اپنے خواب کو بھی پورا کیا جس سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے بھی تعلیم حاصل کی۔

    حسن علی آفندی نے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اس راستے میں کئی مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، اسی دوران انھیں سندھ کے مسلمان نوجوانوں کے لیے تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ تب انھوں نے ہندوستان کی قابل شخصیات اور مخیّر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کی مدد اور تعاون حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ 1885ء میں حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃُ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ایک اسکول تھا، بعد میں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔

    پاکستان کے بانی، محمد علی جناح، نے سندھ مدرسہ الاسلام سے ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ حسن علی آفندی کے فلاحی کارناموں کے اعتراف میں برطانوی سرکار نے انہیں خان بہادر کا خطاب دیا تھا۔

    حسن علی آفندی ہندوستان کی سیاست سے بھی وابستہ رہے اور آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے رکن کے طور پر کام کیا۔ 1934ء سے 1938ء تک وہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔

    حسن علی آفندی بھی سرسید کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں نے اگر جدید تعلیم حاصل نہ کی تو وہ ہر لحاظ سے پیچھے رہ جائیں گے اور ہندوستان کی آزادی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ سندھ مدرسہ نے ثابت کیا کہ حسن علی آفندی اور ان کے ساتھیوں کا ایک جدید درس گاہ کے قیام کا فیصلہ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں تھا کیوں کہ بعد میں اسی ادارے سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ کئی ایسے مسلمان راہ نما نکلے جنھوں نے مسلمانوں کی اصلاح اور تحریک پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا۔

  • شاذ تمکنت: اردو نظم کا خوب صورت شاعر

    شاذ تمکنت: اردو نظم کا خوب صورت شاعر

    حیدر آباد دکن وہ ریاست تھی جس کے سلطان میر عثمان علی خان نے برصغیر میں اردو کی تعلیم اور علم و ادب کو پروان چڑھانے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اور اس زبان کی ترقی اور ادیب و شعراء کے لیے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی۔ اسی مرفّہ الحال ریاست میں شاذ تمکنت نے آنکھ کھولی تھی اور ادب کی دنیا میں بطور شاعر پہچانے گئے۔ آج ان کا نام رفتگاں میں شامل ہے۔ شاذ 1985ء آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔

    شاذ تمکنت کا اصل نام سیّد مصلح الدّین تھا۔ وہ 31 جنوری 1933ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد نظامِ دکن کے ہاں ملازم تھے۔ افتادِ دوراں نے والدین کو زندگی بسر کرنے کی زیادہ مہلت نہ دی۔ شاذ تمکنت نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے ساتھ زندگی سے بہت کچھ سیکھا اور کم عمری میں‌ شاعری کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اس دور میں‌ ہندوستان میں کئی سیاسی تحریکیں چل رہی تھیں‌ اور معاشرہ بھی طرح‌ طرح‌ کی تبدیلیو‌ں سے گزر رہا تھا جب کہ اردو ادب ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر تھا جو بڑی حد تک کم بھی ہو رہا تھا۔ افسانہ و مختصر کہانیوں کا سلسلہ نئے موضوعات کے ساتھ جاری تھا، انقلاب آفریں نغمات لکھے جارہے تھے اور تنقید کے میدان میں مختلف رجحانات کا زور تھا۔ شاذ تمکنت نے اسی ماحول میں روایتی اور جدید شاعری کے درمیان جو پُل تعمیر کیا وہ بجائے خود ایک دَور کا آئینہ دار ہے۔

    شاذ کی غزلوں اور نظموں میں جہاں ذاتی زندگی کے دکھ درد ملتے ہیں، وہیں ان کا دکھ، زمانہ کے عمومی تجربہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ شاذ تمکنت نے جب شعر کہنا شروع کیا، ترقی پسند تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین نے عوامی مصنفین کا چولا بدلا تھا۔ شاذ تمکنت بھی اسی سے وابستہ ہوئے لیکن ترقی پسند تحریک کی ادعائیت سے خود کو دور رکھا۔ اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ کرنے والے شاذ تمکنت نے اپنے دور کے دو بڑے شاعروں جوش اور فراق سے اکتسابِ ہنر کیا اور بہت جلد اپنا طرزِ اظہار الگ کر لیا۔ وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام کے پیش لفظ میں اپنا نظریۂ فن یوں بیان کرتے ہیں: میں غمِ ذات اور غمِ کائنات کو علاحدہ علاحدہ خانوں میں نہیں بانٹتا بلکہ میری دانست میں غمِ ذات عبارت ہوتا ہے، غمِ کائنات سے۔ ایک فرد کا غم اس کا ا پنا ہوتے ہوئے بھی درپردہ افراد کے دکھ سکھ کی ترجمانی کرتا ہے۔ کائنات کے خارجی موضوعات بھی اس وقت تک کام یاب شعر کا جامہ نہیں پہن پاتے جب تک کہ اس میں شخصیت کا غم ذات کا پُٹ نہ ہو۔ میں شعر کسی پیغام کی خاطر یا درس دینے کے لیے نہیں کہتا۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ شعر ہو یا افسانہ، اوّل اوّل فن کار اپنی تسکین کے لیے، اپنی انا کو سکون بخشنے کی خاطر تخلیق کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ متاعِ ہنر آخر آخر اتنی دل پذیر ہو جائے کہ شاعر اپنے پر اہلِ دہر کا قیاس کرے۔

    اردو شاعری کی محبوب صنف یعنی غزل اور نظم کے علاوہ شاذ تمکنت نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔ غالب اور اقبال کی غزلوں پر تضمین کے علاوہ شاذ تمکنت کے ذخیرۂ کلام میں قطعات، گیت، نعت، اور مناجات بھی شامل ہیں۔

    شاذ تمکنت ایک نظم گو شاعر کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں، لیکن غزل میں بھی ان کی منفرد شناخت ہے۔ ان کی ابتدائی نظموں کا نمایاں وصف مرصّع مرقع نگاری ہے۔ ان کی بیش تر نظموں میں تشبیہی اور وصفی مرکبات ان کے اظہار کا جزوِ لاینفک ہیں۔ مرحوم کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں تراشیدہ (1966)، بیاضِ شام (1973)، نیم خواب (1977) اور دستِ فرہاد شامل ہیں۔ آخری مجموعۂ کلام بعد از مرگ 1994 میں شایع ہوا تھا۔ شاذ تمکنت کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
    تُو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے

    اس شاعر کی ایک مناجات "کب تک مرے مولا ” بہت مقبول رہی ہے اور اسے ہندوستان کے معروف گلوکاروں نے گایا ہے۔ شاذ تمکنت کا ایک گیت ”سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو” بھی پاک و ہند کے معروف گلوکاروں کی آواز میں مقبول ہوا تھا۔

  • ایلوس پریسلے: امریکی گلوکار جس کی شخصیت کا سحر آج بھی برقرار ہے

    ایلوس پریسلے: امریکی گلوکار جس کی شخصیت کا سحر آج بھی برقرار ہے

    ایلوس پریسلے کی شخصیت کا سحر آج بھی برقرار ہے۔ شہرۂ آفاق گلوکار کے گیتوں کے ریکارڈز اب بھی بڑی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں جس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    16 اگست 1977ء کو ایلوس پریسلے چل بسے تھے۔ امریکہ میں ہر سال میمفس میں واقع ایلوس پریسلے کی جائے سکونت گریس لینڈ وِلا پہنچ کر ان کے مداح اس گلوکار کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ یہ تعداد سالانہ چھے لاکھ تک پہنچتی ہے۔ ایلوس پریسلے کو ’’کنگ آف راک‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس گلوکار کے فن و شخصیت پر کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں اور فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ ایلوس پریسلے 1977ء میں اپنی شہرت کے بامِ عروج پر تھے جب دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ صرف 42 سال جیے۔

    ایلوس آرون پریسلے 8 جنوری 1935ء کو ایک غریب امریکی خاندان میں پیدا ہوئے۔ پریسلے کے والدین کا ہاتھ ہمیشہ تنگ رہتا تھا۔ وہ مسی سپی کے چھوٹے سے شہر ٹوپیلو کے میں پلا بڑھا۔ والدین اپنے بیٹے کو باقاعدگی سے چرچ لے جاتے تھے جہاں ایلوس کو موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوا۔ موسیقی سے ننھّے ایلوس کی انسیت وقت کے ساتھ بڑھتی رہی اور وہ وقت بھی آیا جب ’’ہارٹ بریک ہوٹل‘‘ نامی ایک گیت نے نوجوان گلوکار کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ گیت ایلوس پریسلے نے 1956ء میں گایا تھا۔ اس زمانے میں نوجوان نسل نے ایک نئی اور منفرد آواز سنی تھی جس میں‌ فن کار اپنے گٹار کے ساتھ جھومتا ہوا سیدھا ان کے دلوں‌ میں اتر گیا۔ سبھی اُس کے دیوانے ہوگئے۔

    امریکی نوجوانوں پر اپنا جادو چلانے والے ایلوس پریسلے نے موسیقی کے میدان میں وہ کام یابیاں سمیٹیں کہ جلد ہی پوری دنیا میں پہچانے جانے لگے۔ اُن کے گیتوں کے ریکارڈ بڑی تعداد میں فروخت ہوئے۔ ایلوس پریسلے نے کئی شان دار کنسرٹس کیے۔ لیکن شہرت اور مقبولیت کے زینے طے کرتے ہوئے وہ کثرتِ شراب نوشی اور منشیات کا استعمال بھی کرنے لگے تھے اور بالآخر گریس لینڈ میں ان کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

    اس بے مثال فن کار نے اپنے کیریئر کے دوران 800 سے زیادہ گیت گائے اور 33 فلموں میں بطور ہیرو بھی جلوہ گر ہوئے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت پاپ میوزک ہے۔ ایلوس کی بیٹی لیزا میری پریسلے کی شادی 1994ء میں پاپ میوزک کے بے تاج بادشاہ مائیکل جیکسن کے ساتھ ہوئی تھی جو دو سال سے بھی کم عرصہ تک برقرار رہ سکی۔ وہ بھی گلوکارہ اور نغمہ نگار کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔ لیزا بھی اب اس دنیا میں نہیں رہی ہیں۔

  • ناسخ کا تذکرہ جنھیں طنزاً پہلوانِ سخن بھی کہا گیا

    ناسخ کا تذکرہ جنھیں طنزاً پہلوانِ سخن بھی کہا گیا

    اردو شاعری کے کلاسیکی دور کے ممتاز شاعر ناسخ کو رجحان ساز بھی کہا جاتا ہے۔ وہ استاد شاعر کہلائے جن کو اصلاحِ زبان کے لیے کاوشوں‌ کے سبب بھی یاد رکھا جائے گا۔ ناسخ دبستانِ لکھنؤ کا ایک اہم اور بڑا نام ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    شیخ امام بخش ناسخ اردو شاعری میں نام و مرتبہ پانے کے علاوہ دبستانِ لکھنؤ کے بانی مشہور ہوئے۔ غزل میں ناسخ سے پہلے لکھنؤ بھی دلّی ہی کا معترف تھا لیکن بعد میں سیاسی اثرات ایسے پڑے کہ لکھنؤ والوں میں، زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی جداگانہ شناخت کی طلب جاگ اٹھی۔ دلّی کی زبان کا شور و غوغا برائے نام رہ گیا اور سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی وجہ سے منظر نامہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اس زمانے میں جب ناسخ نے دلّی کا لب و لہجہ اور لفظیات چھوڑ کر شاعری کی تو لکھنؤ میں ان کا چرچا ہونے لگا اور سبھی ان کے اسلوب کو اپنانے لگے۔ ناسخ نے جو بنیاد رکھی تھی، ان کے شاگردوں نے اس پر کام کیا اور اس طرح باقاعدہ دبستانِ لکھنؤ وجود میں آیا۔ یہ اسلوب اور اندازِ بیان اردو شاعری پر چھا گیا۔ نازک خیالی، پُرشکوہ اور بلند آہنگ الفاظ کا استعمال اور داخلیت سے زیادہ خارجیت پر اس دور کے شعراء توجہ دینے لگے۔

    ناسخ نے اپنے زمانے میں نہ اردو صرف و نحو پر کام کیا بلکہ روز مرّہ اور محاورات کی چھان پھٹک کی اور اس کے قاعدے بھی مقرر کیے۔ ناسخ نے اردو شاعری کو سنگلاخ زمینوں اور الفاظ کا اسیر ضرور بنایا، لیکن وہی تھے جن کے طفیل لکھنؤ نے شعر و سخن میں کمال اور زبان و بیان میں‌ ایسا معیار اور بلندی پائی کہ لکھنؤ کی زبان بھی کسوٹی بن گئی۔

    امام بخش ناسخ کا بچپن والد کے سائے سے محروم رہا۔ ناسخ 1772ء میں پیدا ہوئے اور 16 اگست 1838ء کو انتقال کیا۔ فیض آباد کے ناسخ کو والد کی وفات کے بعد لکھنؤ کے ایک تاجر نے گود لیا اور اسی نے تعلیم و تربیت کی۔ مال دار گھرانے میں‌ رہنے کے سبب ان کی اچھی پرورش ہوئی اور اعلیٰ تعلیم پائی۔ بعد میں وہ اسی تاجر کی جائیداد کے وارث بھی بنے۔ یوں ناسخ خوش حال اور فارغ البال تھے۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی۔

    اس زمانے میں پہلوانی اور کسرت بھی ایک مفید مشغلہ سمجھا جاتا تھا۔ ناسخ خوب تن و توش کے تھے۔ ورزش کا شوق تھا اور شروع ہی سے پھرتیلے تھے۔ خوش حال گھرانے کے فرد تھے تو عمدہ غذا اور خوراک اچھی تھی۔ محمد حسین آزاد کے بقول ناسخ کے تین شوق تھے۔ اوّل کھانا، دوسرا ورزش کرنا اور تیسرا شوق شاعری۔ انھیں حاسد طنزاً پہلوانِ سخن بھی کہتے تھے۔

    ناسخ اپنی شاعری میں لفظوں کے نئے نئے تلازمے تلاش کر کے ان کے لئے نئے استعارے وضع کرتے۔ وہ بنیادی طور پر لفظوں کے آدمی تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک معنیٰ ثانوی اہمیت رکھتے تھے۔ یہ کہنا درست ہے کہ ان کا کلام عربی کے ثقیل اور نہایت بھاری الفاظ سے بوجھل ہے۔ اکثر اشعار بے مزہ اور بہت سے شعروں کا مضمون رکیک بھی ہے۔ لیکن بعض کلام میں‌ نزاکتِ خیال اور معنی آفرینی بھی ملتی ہے۔ ناسخ کی علمیت اور زبان دانی کا اعتراف کرتے ہوئے اردو شاعری کے نقّاد یہ بھی کہتے ہیں ناسخ تصویر تو بہت خوب بناتے تھے لیکن وہ اس میں روح پھونکنے سے عاجز رہے۔

  • برتولت بریخت: اچھوتا اور متاثر کن ڈرامہ نگار

    برتولت بریخت: اچھوتا اور متاثر کن ڈرامہ نگار

    بیسویں صدی کے اوائل میں جرمن ادب کی چند اہم تحریکوں میں نوکلاسیکیت، نو رومانویت، علامتیت اور سب سے بڑھ کر اظہاریت شامل تھیں جس میں نفسیاتی مسائل خاص طور پر نمایاں ہوئے۔ ادب کے جدید دور کا سب سے متاثر کن اور اچھوتا ڈرامہ نگار برتولت بریخت (Bertolt Brecht) تھا۔ ایک اظہاریت پسند کے طور پر اپنا ادبی سفر شروع کرنے والے برتولت بریخت نے جلد ہی ایک مخصوص انداز اپنا لیا اور اسٹیج کے ذریعے اس کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ وہ اس میڈیم کو سیاسی اور اخلاقی سطح پر شعور پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھتا تھا۔

    بیسویں صدی کے معروف جرمن شاعر، ڈراما نویس اور تھیٹر ڈائریکٹر برتولت بریخت نے 14 اگست 1956 کو مشرقی برلن میں وفات پائی۔ اسے ڈراما نگاری نے عالمی سطح پر شہرت دی۔ بریخت 10 فروری 1898ء کو ریاست بویریا کے ایک قصبے میں پیدا ہوا اور نوعمری میں اس نے پہلی عالمی جنگ دیکھی۔ تمثیل نگاری اور ڈراما نویسی میں دل چسپی لینے کے ساتھ وہ میونخ یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ بیسویں صدی کے یورپی ڈراما نویسوں میں اہم مقام حاصل کرنے والے بریخت نے تھیٹر کی دنیا میں نئے اور انقلابی تجربات کیے۔ اسے سراہا بھی گیا اور اس کے کام اور اسلوب پر تنقید بھی کی گئی۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام سے متنفر اور انسانوں سے محبّت کرنے والا ایسا تخلیق کار تھا جسے یورپ اور امریکہ میں بھی پذیرائی ملی۔

    1920ء کے بعد کے دور میں بریخت نے اظہاریت یا ایکسپریشنزم کی روایت کو اپنایا اور اپنا مشہور ڈراما ’’آدمی، آدمی ہے‘‘ لکھا۔ پھر اس نے رزمیہ تھیٹر کو ترقی دی۔ اس نے ڈرامہ کے لیے سیٹ بنانے پر توجہ دی اور اسے حقیقت سے قریب تر کیا۔ اس میں موسیقی کو بھی اہمیت دی۔ برتولت بریخت شاعر بھی تھا اور اپنے گیت خود لکھتا تھا۔ اس کا ایک ڈراما تین پینی کا اوپرا یورپ و امریکہ میں بے حد مقبول ہوا اور ایک تھیٹر میں مہینوں اسٹیج کیا جاتا رہا۔ یہ ڈراما سب سے پہلے 1928ء میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کی موسیقی کرٹ ویل نے ترتیب دی تھی۔ اس میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اس کی فکر نمایاں ہے۔

    بریخت فاشزم کا سخت مخالف تھا چنانچہ 1932ء میں ہٹلر برسرِ اقتدار آیا تو اس نے ترک وطن کرکے پہلے ڈنمارک اور پھر امریکہ میں سکونت اختیار کر لی۔ یہاں اس نے دو نہایت اہم ڈرامے ’’ماں کی ہمت اور اس کے بچے‘‘ اور ’’شت زوان کی عورت‘‘ لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1948ء میں بریخت مشرقی جرمنی لوٹ آیا اور ڈراموں کا ایک الگ تھیٹر قائم کرلیا۔ یہاں 1955ء میں اس نے قفقاز کے چاک کا دائرہ نامی رزمیہ پیش کیا جو اس صنف کا نہایت اعلیٰ نمونہ ہے۔ برتولت بریخت کے ڈراموں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جو اس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔