Tag: اگست برسی

  • دردانہ بٹ: وہ اپنے مزاحیہ کرداروں کی بدولت ناظرین میں مقبول ہوئیں

    دردانہ بٹ: وہ اپنے مزاحیہ کرداروں کی بدولت ناظرین میں مقبول ہوئیں

    پاکستان ٹیلی وژن کی سینئر اداکارہ دردانہ بٹ نے سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں کرداروں کو بخوبی نبھایا وہ اپنے کیریئر کے دوران ٹی وی ہی نہیں اسٹیج اور فلم میں بھی کام کر کے اپنی پہچان بنائی۔ ان کی ناظرین میں‌ مقبولیت کا سبب ٹیلی وژن کے وہ ڈرامے ہیں جن میں انھوں نے کامیڈی کردار ادا کیے۔

    کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اداکارہ 12 اگست 2021 کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ دردانہ بٹ 9 مئی 1938ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم برطانیہ میں‌ حاصل کی جہاں ان کے والد پاکستان کے سفارت خانے میں تعلیمی اتاشی تھے۔ وہ گیارہ سال کی تھیں جب والد کا پاکستان تبادلہ ہوگیا اور یہاں لاہور میں‌ سکونت اختیار کرنے کے بعد دردانہ بٹ کو ان کے والد نے مری کے مشنری اسکول میں داخل کروا دیا۔ اس کے بعد ان کا کانووینٹ لاہور میں داخلہ ہوا۔

    1967ء میں دردانہ بٹ کی شادی سعید احمد خان سے ہوئی جو ان کے ننھیالی عزیز بھی تھے، لیکن ڈیڑھ سال کے بعد ان کے شوہر کی وفات ہوگئی۔ انھوں نے مزید پڑھنے کا فیصلہ کیا اور کالج سے گریجویشن کرنے کے دوران وہاں اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لینے لگیں۔ اس کے بعد وہ فرانس چلی گئیں جہاں فرینچ میں ڈپلوما حاصل کیا اور واپس آکر ایک نجی اسکول میں پی ٹی ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔

    اداکارہ دردانہ بٹ نے بطور کمرشل پائلٹ کچھ عرصہ ہوا بازی بھی کی، لیکن نظر کم زور ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں۔ وہ جوڈو کراٹے اور آتشیں اسلحے کا استعمال بھی جانتی تھیں۔ تھیٹر اور اسٹیج سے اداکاری نے انھیں پی ٹی وی تک پہنچا دیا اور یہاں دردانہ بٹ کو منور ظریف اور معین اختر جیسے بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ مزاحیہ خاکوں پر مشتمل پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ میں نظر آئیں اور ناظرین میں‌ پہچان بنائی۔ پی ٹی وی پر انھوں نے معین اختر کے ساتھ نوکر چاکر، آنگن ٹیڑھا جیسے ڈراموں میں‌ کردار نبھائے اور تنہائیاں میں بی بی کے روپ میں زبردست پذیرائی اور شہرت حاصل کی، بعد میں پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں بھی مختلف ڈراموں میں‌ کردار نبھانے کا موقع ملا۔

    انھوں نے آخری مرتبہ 2019 میں ڈرامہ رسوائی میں ایک کردار نبھایا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اداکارہ کو ماہرِ تعلیم کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے حکومت پاکستان نے دردانہ بٹ کو ‘تمغائے امیتاز سے نوازا تھا۔

  • ماسٹر رام چندر: صحافی اور ایک علمی شخصیت کا تذکرہ

    ماسٹر رام چندر: صحافی اور ایک علمی شخصیت کا تذکرہ

    ماسٹر رام چندر کا تذکرہ آج شاذ ہی کسی کتاب، کسی رسالہ میں‌ پڑھنے کو ملتا ہے، لیکن آج بھی نوجوان نسل کو علمی میدان میں ان کے کارناموں سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے معروف صحافی، ایک ریاضی داں، معلّم اور محقق بھی تھے۔ رام چندر نے الجبرا اور علمِ مثلث پر وقیع مضامین سپردِ قلم کیے اور کئی مقالے لکھے جو اس دور کے مشہور رسائل میں شایع ہوئے۔

    رام چندر کی دو تصنیفات کا برطانیہ میں بھی چرچا ہوا اور حکومت نے ان کی گراں قدر علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان تھا۔ اس سلسلہ میں‌ ان کے ایک مضمون اور اس پر ضمیمہ کو ہندوستان بھر میں شہرت ملی تھی۔

    رام چندر ہریانہ کے مشہور علاقہ پانی پت کے ایک ہندو گھرانے میں‌ 1821ء میں‌ پیدا ہوئے اور 11 اگست 1880ء کو وفات پاگئے۔ وہ شروع ہی سے سائنس اور علمی موضوعات میں‌ دل چسپی رکھتے تھے۔ رام چندر خوب صورت طرزِ نگارش کے حامل تھے۔ وہ تعلیمِ نسواں کے بڑے حامی ہی نہیں‌ تھے بلکہ قوتِ‌ سماعت و گویائی سے محروم افراد کی تربیت اور تعلیم کو بھی ضروری خیال کرتے تھے۔ ان کے والد رائے سندر لال ماتھر محکمۂ مالیات میں ملازم تھے۔ بارہ برس کی عمر میں رام چندر انگریزی مدرسے میں داخل ہوئے، بعد میں دہلی کالج میں داخلہ لیا اور وہاں اپنی قابلیت کی وجہ سے وظیفہ پایا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد رام چندر اسی کالج میں مدرس ہو گئے اور اردو میں الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں۔ 1854ء میں انھوں نے ہندو مذہب ترک کیا اور عیسائی مذہب کو اپنا لیا جس پر ان کے خاندان اور دوسرے لوگوں نے ان سے قطع تعلق کرلیا تھا۔

    ان کی دو کتابوں کی شہرت انگلستان تک پہنچی اور ایک کتاب کے لیے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی کورٹ آف ڈائریکٹرز نے ایک خلعت پنج پارچہ اور دو ہزار روپیہ نقد عطا کیا۔ وہ ہندوستان میں 1845ء میں ان کا ایک پندرہ روزہ علمی اخبار فوائد الناظرین اور 1847ء میں ایک علمی اور ادبی ماہنامہ محبِّ ہند جاری ہوا۔ پھر غدر مچ گیا اور اس دوران میں رام چندر نے چھپ چھپا کر زندگی بسر کی۔ تاہم غدر کے بعد اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ روڑکی میں ایک بڑے تعلیمی ادارے سے منسلک رہنے کے بعد دہلی آئے تو یہاں ڈسٹرکٹ اسکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوگئے اور اسی منصب سے خرابیِ صحت کی بنا پر سبک دوش ہوئے۔

    ماسٹر صاحب نے راجا مہندر سنگھ کے اتالیق کی حیثیت سے ریاست پٹیالہ کے دربار میں ملازمت بھی کی اور ریاست پٹیالہ میں سر رشتہ تعلیم کا قیام عمل میں آیا تو رام چندر اس کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ان کے دورِ ملازمت میں پٹیالہ میں تعلیم کو بہت فروغ ملا۔

    رام چندر کی صحت کبھی اچھی نہ رہی تھی۔ وہ چالیس برس کے تھے جب خرابیِ صحت کی بنا پر پنشن کی درخواست دے دی تھی۔ رفتہ رفتہ صحت گرتی ہی گئی اور ان کا انتقال ہوگیا۔

    کائنات سے متعلق رام چندر کے سوالات اور ان کی فکر ملاحظہ کیجیے۔

    "اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”

    "واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔

    پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔

    چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کر کے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔

    پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک مابین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔

    یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔

    واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”

  • ٹونی موریسن: نوبیل انعام حاصل کرنے والی امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف

    ٹونی موریسن: نوبیل انعام حاصل کرنے والی امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف

    ٹونی موریسن امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف تھیں جنھیں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ 2019ء میں آج ہی کے دن ٹونی موریسن چل بسی تھیں۔ انھیں ایک منفرد ناول نگار ہی نہیں افریقی نژاد امریکی مصنّفین کی نمائندہ قلم کار سمجھا جاتا ہے۔

    اوہائیو کے ایک علاقے میں 1931ء میں پیدا ہونے والی ٹونی موریسن نے تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا۔ اس عرصہ میں وہ اپنے تخیل اور قلم کا سہارا لے کر ادبی سفر شروع کرچکی تھیں اور ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لے رہی تھیں۔ ٹونی موریسن کو ناول نگاری کے میدان میں ان کے اسلوب اور منفرد کہانیوں کی بدولت شہرت اور مقبولیت ملی۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی ان کے مداح رہے ہیں۔ انہی کے دورِ صدرات میں ٹونی موریسن کو ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔

    1993ء میں ٹونی موریسن کو ادب کا نوبیل انعام دیتے ہوئے سویڈش اکیڈیمی نے ان کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور بطور مصنّف ٹونی موریسن کی بصیرت کو سراہا۔ ٹونی موریسن کا ایک مشہور ناول ‘محبوب‘ (Beloved) ہے جس پر وہ 1988ء میں فکشن کے پلٹزر پرائز کی حق دار قرار پائی تھیں۔ یہ ایک ماں اور بیٹی کی درد ناک کہانی تھی جس میں ماں اپنی بیٹی کو غلامی کی زندگی سے بچانے کے لیے قتل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ٹونی موریسن کی دیگر اہم ترین تصنیفات میں ‘چشمِ نیلگوں(Bluest Eye)‘، ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon)، شامل ہیں۔ مؤخر الذّکر ناول بہت مقبول ہوا اور ٹونی موریسن کو امریکا میں زبردست پذیرائی ملی۔ وہ نیویارک میں مقیم تھیں جہاں مختصر علالت کے بعد 88 سال کی عمر میں انتقال کیا۔

  • ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری: بلند پایہ نقّاد، یادگارِ‌ زمانہ شخصیت

    ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری: بلند پایہ نقّاد، یادگارِ‌ زمانہ شخصیت

    ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری اردو زبان و ادب کا ایک نہایت معتبر نام اور قد آور شخصیت ہیں جن کی شہرت اور شناخت ایک ماہرِ لسانیات، بلند پایہ نقّاد اور محقّق کے طور پر ہے۔ 3 اگست 2013ء کو ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنّف تھے اور ان کے مضامین و مقالات اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر صاحب کی تاریخِ پیدائش 26 جنوری 1926ء ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شہر فتح پور میں پیدا ہوئے اور اس شہر کی نسبت ہمیشہ ان کے نام سے جڑی رہی۔ اُن کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر والد اور چچا سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں، قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ مصدرنامہ، گلستان بوستان بھی گھر ہی پر پڑھیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ‌ علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کیا۔

    فرمان فتح پوری کا میدان تنقید اور تحقیق تھا اور وہ زبان و بیان کی باریکیوں کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات کے بڑے نکتہ بیں تھے۔ انھیں ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ ان کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب کا گراں‌ قدر سرمایہ ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور ناقد ان کی ادبی خدمات اور کارناموں کے معترف رہے اور انھیں پائے کا نقّاد تسلیم کیا جن کے ہاں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ نظم و نثر اور ادب کی جملہ اصناف اور متعدد اسالیب پر اپنی مدلّل اور جامع رائے اور تنقید کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر عنوانات سے خوب کام کیا۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ اس موضوع پر نہایت مستند مانی جاتی ہے۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ ان کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں اور بیش بہا خزانہ ہیں۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو حکومتِ‌ پاکستان ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • گراہم بیل: ایجادات کی دنیا کا بڑا نام، ایک ناقابلِ فراموش شخصیت

    گراہم بیل: ایجادات کی دنیا کا بڑا نام، ایک ناقابلِ فراموش شخصیت

    گراہم بیل کا نام اُس وقت سے ہمارے ذہنوں میں‌ محفوظ ہے جب ہم نے اسکول جانا شروع کیا تھا۔ آج بھی معلوماتِ عامّہ پر مشتمل سوالات ہوں یا انقلابی ایجادات کا تذکرہ کیا جائے، ٹیلی فون اور اس کے موجد گراہم بیل کا نام ضرور لیا جاتا ہے۔

    مواصلاتی رابطے کے آغاز کی بات کریں تو لوگوں کو دور بیٹھے ہوئے ایک مشین یا آلے کی بدولت احباب کی آواز سننے کا موقع اسکاٹش موجد، انجینئر اور اختراع ساز الیگزینڈر گراہم بیل کی بدولت ملا اور 2 جون 1875ء کو ٹیلی فون کی ایجاد نے دنیا کو بدل دیا۔ 1885ء میں گراہم بیل نے ٹیلی فون کمپنی کی بنیاد رکھی، جو بعد ازاں امریکن ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف (AT&T) کے نام سے معروف ہوئی۔ لینڈ لائن فون سے ٹیلی مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا ہوگیا، جو آج اسمارٹ فون کی ترقی یافتہ شکل میں ہماری جیب میں موجود ہے۔

    الیگزینڈر گراہم بیل نے اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈن برگ میں 3 مارچ 1847ء کو ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں لفظ اور آواز کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ ان کے والد پروفیسر میلوِل بیل ماہرِ لسانیات تھے۔ انھوں نے’’فونیٹک الفابیٹ ‘‘ بنائے تھے۔ جب کہ والدہ ایلیزا گریس، سماعت سے محروم تھیں اور ان کے لیے آواز ایک جادوئی شے اور ایسی چیز تھی جس کے لیے وہ متجسس رہتی تھیں۔ ماں کے اسی تجسس نے گراہم بیل کو آواز کی سائنس Acoustics کے مطالعہ پر مائل کیا۔ وہ صرف سائنس میں ہی دل چسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ والدہ کے طفیل شاعری، آرٹ اور موسیقی کا ذوق و شوق بھی ان میں‌ پیدا ہوا۔ اختراع اور نت نئی چیزیں بنانے کا ذوق لڑکپن سے ہی ان کے مزاج کا حصّہ رہا اور والد کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی نے انھیں آگے بڑھنے کا موقع دیا۔

    آج اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ جس ایجاد نے ہوا کے دوش پر ہماری زندگیوں اور مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، اس کے موجد گراہم بیل نہیں‌ تھے، لیکن ٹیلی فون اور مواصلاتی نظام کو 1887ء میں جب برلن میں‌ عوام کے سامنے متعارف کروایا گیا تھا تو نام گراہم بیل کا ہی لیا گیا تھا۔ بعد میں‌ اس نظام کے تحت تاریں اور ٹیلی فون سیٹ ہر جگہ نظر آنے لگے تھے۔ پھر ایک صدی سے زائد عرصہ بیت گیا ار اچانک لندن میں قائم سائنس میوزیم میں محفوظ فائلوں کی بنیاد پر یہ دعویٰ سامنے آیا کہ گراہم بیل سے 15 سال قبل ایک جرمن سائنس دان نے اسی موصلاتی نظام کے تحت کام کرنے والا ٹیلی فون ایجاد کیا تھا۔ یہ فائل جو سب کی نظروں سے اوجھل تھی، سائنس میوزیم کے اُس وقت کے مہتمم جان لفن کے ہاتھ لگی تو اس کا مطالعہ کرنے کے بعد شواہد کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا جو سائنس کی دنیا میں گراہم بیل کی شہرت کو مشکوک بناتا ہے۔

    میوزیم میں موجود کاغذات کی بدولت دو نام سامنے آئے جن میں ایک جرمن سائنس دان فلپ ریئس کا تھا اور اس فائل کے مطالعے کے بعد کہا گیا کہ اس نے 1863ء میں‌ موصلاتی نظام کی مدد سے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون سیٹ پر وصول کرنے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ اسی فائل میں دوسرا نام اُس برطانوی بزنس مین کا ہے جس پر فلپ ریئس کے اس کارنامے کو دنیا کی نظروں‌ سے مخفی رکھنے کا الزام ہے۔ اس شخص کو مواصلاتی سائنس اور کاروبار کی تاریخ میں‌ سَر فرینک گِل کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    ان کاغذات کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ اسی کاروباری شخصیت نے گراہم بیل کی شہرت کو برقرار رکھنے کے لیے جرمن سائنس دان کے آلے اور تجربات کے شواہد اور تفصیلات کو عام نہیں ہونے دیا۔ سَر فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی نے اسی جرمن سائنس داں کے تیّار کردہ آلے پر کئی برس بعد تجربات کیے تھے، لیکن اس زمانے میں فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی کاروبار کے لیے ایک ایسا معاہدہ کرنے والی تھی جس کا تعلق بیل کمپنی کی ایک شاخ سے تھا۔ اگر اس وقت جرمن سائنس داں کے ایجاد کردہ آلے کے کام یاب تجربات منظرِ عام پر لائے جاتے تو معاہدے کی توثیق کے امکانات محدود ہوسکتے تھے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اس سے پہلے بھی کئی محققین ٹیلی فون کی ایجاد کا سہرا جرمن سائنس داں کے سَر باندھنے کی بات کرچکے ہیں اور ان کے دعوؤں کو میوزیم میں موجود فائل سے تقویت ملتی ہے۔

    عالمی شہرت یافتہ موجد الیگزینڈر گراہم بیل 1922ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ اسکاٹ لینڈ سے ہجرت کرکے امریکا جانے والے گراہم بیل باصلاحیت اور قابل طالبِ علم تھے اور صرف 14 سال کی عمر میں انھوں نے گندم صاف کرنے والی ایک سادہ مشین بنا کر خود کو انجینیئر اور موجد ثابت کردیا تھا۔ وہ ایڈن برگ کے رائل ہائی اسکول اور بعد میں ایڈن برگ یونیورسٹی اور یونیورسٹی کالج آف لندن میں‌ داخل ہوئے اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ گراہم بیل 23 برس کے تھے جب انھیں تپِ دق کا مرض لاحق ہوا اور معالج کے مشورے پر والدین انھیں کینیڈا کے ایک صحّت افزا مقام پر لے گئے۔ وہاں بھی گراہم بیل سائنسی تجربات میں‌ مگن رہے۔ اس وقت انھوں نے بالخصوص ٹیلی گراف کے تصوّر کو عملی شکل دینے کے لیے کام کیا اور کام یاب ہوئے۔

    متعدد اہم اور نمایاں سائنسی ایجادات کے ساتھ الیگزینڈر گراہم بیل نے 1881ء میں میٹل ڈیٹیکٹر کی ابتدائی شکل متعارف کروائی۔ 1898ء میں ٹیٹرا ہیڈرل باکس کائٹس اور بعد میں‌ سلور ڈاٹ طیارہ بنایا، جس کی آزمائش 1909ء میں کی گئی اور یہ پرواز کام یاب رہی۔ اسی طرح‌ کئی مشینیں اور کام یاب سائنسی تجربات پر انھیں اس زمانے میں جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں اور ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

    گراہم بیل ایک درد مند انسان تھے اور وہ جذبۂ خدمت سے سرشار رہے۔ انھوں‌ نے تاعمر سماعت سے محروم افراد کی خوشی اور ان کے معمولاتِ زندگی کو اپنی ایجادات کے ذریعے آسان بنانے کی کوشش کی۔ گراہم بیل نے ایسے اسکول قائم کیے جہاں سماعت سے محروم بچّوں کو تعلیم دی جاتی تھی جب کہ اساتذہ کی تربیت کا بھی اہتمام کیا اور ہر قسم کی اعانت کا سلسلہ آخری دم تک جاری رکھا۔ یہاں‌ یہ بات بھی قابلِ‌ ذکر ہے کہ اس سائنس داں نے اپنی شریکِ‌ سفر جس خاتون کو بنایا، وہ قوّتِ گویائی سے محروم تھی۔

  • علی سردار جعفری:‌ انقلابی فکر کا پرچارک اور انسان دوست شاعر

    علی سردار جعفری:‌ انقلابی فکر کا پرچارک اور انسان دوست شاعر

    ہندوستان میں اردو ادب، ترقی پسند تحریک کا عروج، پھر تقسیمِ ہند سے قبل انقلاب کی گونج میں جن اہلِ قلم نے شہرت اور نام و مقام پایا، علی سردار جعفری انہی میں سے ایک ہیں۔

    علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے پلیٹ فارم سے اپنے افکار و نظریات کی ترویج و تبلیغ تمام عمر کرتے رہے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے عالمی امن، ہندوستان میں بھائی چارے اور عالمی سطح پر انسان دوستی کا پرچار کیا۔ وہ فرد کی آزادی اور ترقی و خوش حالی کے لیے نظمیں لکھتے رہے اور ہر خاص و عام نے ان کے کلام کو سراہا۔ آج علی سردار جعفری کا یومِ وفات ہے۔

    یہ بھی پڑھیے: اختر الایمان جنھیں سردار جعفری کی انانیت نے پنپنے نہ دیا!

    انقلاب آفریں نغمات کے خالق علی سردار جعفری نے اپنے تخلیقی وفور اور قلم کے زور پر ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کی اور اس دور کے نئے قلم کاروں کو متاثر کیا۔ وہ شاعر، نقّاد اور ایسے مضمون نگار تھے جن کے قلم سے کئی توصیفی اور تنقیدی مضامین، افسانے اور ڈرامے ہی نہیں نکلے بلکہ انھوں نے اپنی یادداشتوں اور ادبی تذکروں پر مبنی تحریریں‌ بھی یادگار چھوڑی ہیں۔

    بنیادی طور پر علی سردار جعفری نظم کے شاعر تھے لیکن انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں اور گیت نگاری بھی کی جن میں خاص طور پر ایک جذباتی رو پائی جاتی ہے۔ ان کے کلام ایک ایسا صوتی آہنگ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ علی سردار جعفری درد مند اور انسان دوست مشہور تھے اور ان اہلِ قلم میں سے ایک تھے جنھوں نے قوم اور فرد کی آزادی اور ترقی کا خواب دیکھا اور عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔

    علی سردار جعفری بلرام پور (ضلع گونڈہ، اودھ) میں 29 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے اور یکم اگست 2000ء کو ممبئی میں انتقال کیا۔

    ممتاز شاعر علی سردار جعفری نے ایک انٹرویو میں اپنے حالاتِ زندگی، تعلیم و تربیت اور اپنے ادبی سفر کا احوال یوں بتایا تھا: میرا نام اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ آج تک اس نام کا دوسرا آدمی نہیں ملا۔ ہاں سردار علی نام کسی قدر عام ہے۔ حافظ شیرازی کے ایک قصیدے میں علی سردار اس طرح استعمال ہوا ہے کہ میرے نام کا سجع بن جاتا ہے۔

    انھوں‌ نے اپنی تعلیم اور مشاغل و معمولاتِ نوعمری سے متعلق بتایا، سب سے پہلے گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے سلطان المدارس لکھنؤ بھیج دیا گیا، وہاں جی نہیں لگا۔ ایک مولوی صاحب کے گھر قیام تھا۔ وہاں بھی جی نہیں لگا اور میں فرار ہو کر بلرام پور واپس چلا گیا۔ بلرام پور کے انگریزی اسکول لائل کالجیٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ کھلی فضا تھی، اچھے استاد تھے، ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں تھیں۔ صبح ناشتہ کر کے گھر سے اسکول جانا اور شام کو چار بجے پھر واپس آکر ناشتہ کرنا، اور میل ڈیڑھ میل دور ایک پریڈ گراؤنڈ میں پیدل جا کر دو گھنٹے کرکٹ، ہاکی کھیلنا روز کا معمول تھا۔

    علی سردار جعفری کے مطابق، اسی زمانے میں انیسؔ کے زیرِ اثر شاعر شروع کی۔ 1933ء میں بیس سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ (ابتدائی تعلیم کے چند سال ضائع ہوگئے تھے)

    یہ ایک طوفانی زمانہ تھا جب تحریکِ آزادی اپنے شباپ پر تھی۔ اس عہد کے علی گڑھ نے اردو زبان کو اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، منٹو، مجاز، جاں نثار اختر، جذبی، خواجہ احمد عباس، جلیل قدوائی، اختر انصاری، شکیل بدایونی، عصمت چغتائی اور 1940ء کے آس پاس اخترالایمان کا تحفہ دیا۔ وہاں خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر رشید جہاں، ڈاکٹر محمد اشرف وغیرہ سے تعارف ہوا اور جن کی صحبت اور فیض نے ذوقِ ادب اور آزادی کے جذبے کو جلا عطا کی۔

    ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا اور دہلی جا کر اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ یہ وہ تاریخی کالج تھا جو دہلی کالج کے نام سے ایک بڑا تعلیمی کردار ادا کرچکا تھا۔ وہاں داخلہ دلوانے میں جلیل قدوائی اور اختر انصاری نے مدد کی۔ اس واقعہ کے پچاس سال بعد 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ (D.Litt.) کی اعزازی ڈگری سے عزت افزائی کی۔ یہ میرے لیے اس اعتبار سے بہت بڑا اعزاز تھا کہ مجھ سے پہلے اعزازی ڈگری شعراء کی فہرست میں علامہ اقبال، مسز سروجنی نائیڈو اور حضرت جگر مراد آبادی کو عطا کی گئی تھی۔

    وقت گزرا تو جہاں انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مقام بنایا اور ترقی پسند دانش ور اور مصنّف کے طور پر مشہور ہوئے، وہیں آزادی کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد کا زمانہ بھی یہی تھا اور علی سردار جعفری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے متحرک اور فعال رکن بھی بن چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں، جواہر لال نہرو سے اسی زمانے میں ملاقات ہوئی اور ملاقات کا یہ شرف آخر دن تک قائم رہا۔ ان کے انتقال سے دو ماہ قبل تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی نے ایک چھوٹا سا مشاعرہ پنڈت جی کی تفریح طبع کے لیے کیا تھا، جس میں فراقؔ، سکندر علی وجدؔ اور مخدوم محی الدّین بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی نظم “میرا سفر” فرمائش پر سنائی تھی۔

    علی سردار جعفری کا تعلمی سفر درجہ بہ درجہ جاری تھا اور اسی دوران وہ شاعری اور کمیونسٹ پارٹی کے بینر تلے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی مگن تھے، وہ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں، دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں لکھنؤ آ گیا۔ پہلے مجازؔ کے ساتھ قانون کی تعلیم کے لیے ایل۔ ایل۔ بی میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد اس کو چھوڑ کر انگریزی ادب کی تعلیم کے لیے ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ لیکن آخری سال کے امتحان سے پہلے جنگ کی مخالفت اور انقلابی شاعری کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل اور بنارس سنٹرل جیل میں تقریباً آٹھ ماہ قید رہا اور پھر بلرام پور اپنے وطن میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی دسمبر 1941ء میں ختم ہوئی۔

    لکھنؤ میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر احمد وغیرہ کی صحبت رہی۔ وہیں پہلی بار ڈاکٹر ملک راج آنند سے ملاقات ہوئی۔ 1938ء میں کلکتہ میں ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شانتی نکیتن جا کر ٹیگور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں بلراج ساہنی سے ملاقات ہوئی جو ہندی پڑھاتے تھے۔

    1943ء میں بمبئی آنا ہوا۔ سجاد ظہیر کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار ’قومی جنگ‘ میں صحافتی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس محفل میں بعد کو سبط حسن، مجازؔ، کیفیؔ، محمد مہدیؔ وغیرہ شامل ہوئے۔ آہستہ آہستہ بمبئی اردو ادب کا مرکز بن گیا۔ 1949ء کے بعد بمبئی میں جوشؔ، ساغر نظامی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، میرا جی، اخترالایمان، سجاد ظہیر، ساحرؔ، کیفیؔ، مجروحؔ، حمید اختر اور بہت سارے سربرآوردہ ادیب جمع ہوگئے۔ اس زمانے کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی اجلاس نے پوری اردو دنیا میں ایک دھوم مچا رکھی تھی۔ باہر سے آنے والے ادیب ان اجلاسوں میں بڑی مسرت سے شریک ہوتے تھے۔

    1949ء میں جو ہندوستانی سیاست کا ہیجانی دور تھا اور کمیونسٹ پارٹی کی انتہا پسندی اپنے شباب پر تھی، حکومت ہند کی طرف سے پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ میں بمبئی میں دو بار گرفتار کیا گیا۔ پہلی بار پندرہ دن کے لیے۔ دوسری بار ڈیڑھ سال کے لیے۔ یہ زمانہ بمبئی کے آرتھر روڈ جیل اور ناسک کی سنٹرل جیل میں گزرا۔ 1950ء میں یکایک رہا کر دیا گیا۔ وہ عید کی شام تھی۔ دوسرے دن صبح ہی صبح بمبئی آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ عید کا دن تھا۔

    ان کے تحریر کردہ ڈرامے اور افسانے بھی مختلف ادبی پرچوں کی زینت بنتے تھے جب کہ ممبئ سے چھپنے والا سہ ماہی "نیا ادب” ان کے زیرِ ادارت شایع ہوتا تھا۔ علی سردار جعفری ایک بہترین مترجم بھی تھے اور شیکسپئر کی چند تحریروں کے علاوہ دوسرے قلم کاروں کی تخلیقات کے تراجم بھی کیے۔ علی سردار جعفری کی ادبی تخلیقات پر مشتمل کتابوں‌ میں ان کی نظموں کے مجموعہ پرواز (1943)، نئی دنیا کو سلام (طویل تمثیلی نظم، 1948)، امن کا ستارہ (دو طویل نظمیں 1950ء)، ایک مجموعہ پتھر کی دیوار (1953ء) اور لہو پکارتا ہے (1968ء) میں شایع ہوئے جب کہ افسانوں کی کتاب منزل (1938ء)، ڈراموں کا مجموعہ یہ خون کس کا ہے (1943ء) شایع ہوئی۔ اس کے علاوہ کتاب بعنوان لکھنؤ کی پانچ راتیں (1965ء)، اقبال شناسی (1969ء) میں منظر عام پر آئی۔ انھوں نے فلمی گیت بھی لکھے اور فلم کی دنیا میں بطور مصنّف بھی جگہ بنائی۔

    بھارت میں علی سردار جعفری کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے پدم شری ایوارڈ جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے 1978ء میں اقبال میڈل (تمغائے امتیاز) دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ علی سردار جعفری کو خصوصی تمغائے ماسکو (ستّر سالہ جشنِ پیدائش پر) 1984ء میں عطا کیا گیا تھا۔ 1997ء میں بھارت نے انھیں گیان پیٹھ ایوارڈ بھی دیا تھا۔

  • نجیب محفوظ: پہلا عرب نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نجیب محفوظ: پہلا عرب نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نجیب محفوظ عرب دنیا کے پہلے مصنّف تھے جنھیں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔

    نجیب محفوظ 17 سال کے تھے جب انھوں نے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، لیکن ان کی پہلی تصنیف اُس وقت منظرِ عام پر آئی جب نجیب محفوظ 38 برس کے ہوچکے تھے۔ جب کہ اُن کے ناول کو بھی اشاعت کے 30 سال بعد ادبی انعام سے نوازا گیا تھا۔

    مصر کے اس ادیب کی نوبیل انعام یافتہ تصنیف اُن کے ملک میں متنازع رہی ہے اور اسی بناء پر اُن پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا جس میں زخمی ہوئے تھے۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ 30 اگست 2006ء میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کا تعلق مصر سے تھا۔

    مصری ادب کو اپنی کہانیوں سے مالا مال کرنے والے نجیب محفوظ کو 1988ء میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ مصر کے مشہور شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911ء میں پیدا ہونے والے نجیب محفوظ نے تیس سے زائد ناول اور تین سو سے زائد کہانیاں لکھیں۔ وہ فلم کے لیے اسکرپٹ اور اسٹیج ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ مؤقر روزناموں‌ کے لیے مضامین اور کالم بھی لکھتے رہے۔ نجیب محفوظ کو مصر میں ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے مقبولیت حاصل تھی اور اپنے ناولوں کی وجہ سے انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی۔

    نجیب محفوظ کا بچپن غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے گزرا جب کہ ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہونے والے نجیب محفوظ روایت شکن ثابت ہوئے اور اپنے معاشرے کے اُن موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جنھوں نے قدامت پسندوں کی نظر میں‌ نجیب محفوظ کو معاشرے اور مذہب کا باغی ٹھیرایا۔ نجیب محفوظ نے جس عہد میں سانس لی، وہ مصر پر برطانیہ کے قبضے اور انقلابی تحریکوں کا عہد تھا اور اسی کے زیرِ اثر نجیب محفوظ کی تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔

    مصری ادیب نجیب محفوظ نے 1934 میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز میں داخلہ لیا، لیکن تعلیم مکمل نہ کرسکے اور لکھنے میں منہمک ہوگئے۔ اپنے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ کا حصّہ بناتے ہوئے انھوں‌ نے کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے جب کہ ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ 80 کی دہائی میں‌ شائع ہوئی۔ یہ ان کی تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 پر مبنی ہے۔ اس کتاب نے مصری قارئین میں ان کی مقبولیت کو بڑھایا جب کہ دنیا بھر میں‌ نجیب محفوظ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی وجہ سے پہچانے گئے۔

  • بے مثال ملّی نغمات اور لازوال فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کا تذکرہ

    بے مثال ملّی نغمات اور لازوال فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کا تذکرہ

    کلیم عثمانی کا نام پاکستان کے مقبول ملّی نغمات کے خالق کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ گیت نگار ہی نہیں غزل گو شاعر کی حیثیت سے بھی اردو شاعری میں مقام رکھتے ہیں۔ 28 اگست 2000ء کو کلیم عثمانی وفات پاگئے تھے۔ آج کلیم عثمانی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ ضلع سہارن پور، دیو بند میں 28 فروری 1928 کو پیدا ہوئے۔ والد فضل الٰہی بیگل بھی شاعر تھے اور اس علمی و ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والے احتشام الٰہی نے بھی یہی مشغلہ اپنایا۔ وہ شاعری کے میدان میں کلیم عثمانی کے نام سے پہچانے گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آگیا تھا جہاں بطور شاعر انھوں نے شہرت پائی۔

    کلیم عثمانی اپنے وقت کے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لیتے رہے تھے۔ لاہور اور پاکستان بھر میں مشاعروں میں‌ انھیں مدعو کیا جاتا تو وہ ترنم سے کلام پیش کرکے داد سمیٹا کرتے۔ کلیم عثمانی نے غزل گوئی سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا تھا اور بعد میں‌ فلموں کے لیے گیت نگاری شروع کی اور ان کے لکھے ہوئے گیت مقبول ہوئے۔ فلم بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے گیتوں کی بدولت کلیم عثمانی کو فلم انڈسٹری میں خاصا کام ملا۔

    فلم راز کا یہ ایک مقبول گیت تھا، میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا….. جو کلیم عثمانی نے لکھا تھا اور اس گیت کو سرحد پار بھی پسند کیا گیا۔ جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب اور نازنین نامی فلموں میں بھی کلیم عثمانی کے تحریر کردہ نغمات کو پسند کیا گیا اور یہی نغمات جب ریڈیو‌ پر پیش کیے گئے تو پاکستان بھر میں‌ ہر ایک کی زبان پر جاری ہوگئے۔

    1973 میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبولِ عام گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی طرح ان کے لکھے ہوئے ملّی نغمات نے دھوم مچا دی اور آج بھی یہ گیت اس قوم کے جذبات کی ترجمان ہیں اور ہماری آزادی اور پاکستان کی پہچان اجاگر کرنے کا ذریعہ ہیں۔ "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور "یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” کلیم عثمانی کے وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔

    کلیم عثمانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ اردو زبان و ادب کے رسیا قارئین نے ان کی یہ مشہور غزل ضرور سنی ہوگی۔

    رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
    چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

    خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
    شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

    پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی
    پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح

    بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
    میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح

  • ویمی: اداکاری، فیشن اور اسٹائل کی دنیا کا وہ نام جو عبرت کی مثال بن گیا

    ویمی: اداکاری، فیشن اور اسٹائل کی دنیا کا وہ نام جو عبرت کی مثال بن گیا

    زندگی کیسے کیسے روپ بدلتی ہے۔ واقعات کس عجب طور رونما ہوتے ہیں اور حالات انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں، اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان میں سے کچھ حیرت انگیز اور خوش گوار مثالیں ہیں اور کئی عبرت ناک ہیں۔ ویمی وہ اداکارہ تھیں جو وقت اور حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر عبرت کا نشان بن گئیں۔ آج اداکارہ ویمی کی برسی ہے۔

    ہندوستان کے نام وَر اداکار سنیل دت کی فلم ہمراز سے ویمی نے اپنے اداکاری کے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور فلم کی کام یابی کے بعد اسٹار بن گئی تھیں۔ مگر بولی وڈ کی یہ اداکارہ کام یابیوں کے اس سفر میں مقروض ہوتی چلی گئی اور ازدواجی زندگی تلخیوں کی وجہ سے اس کا کیریئر خراب ہوتا چلا گیا۔ وہ جگر کے مرض میں مبتلا تھیں اور 22 اگست 1977 کو جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ یہ بات شاید کئی قارئین کے لیے تعجب کا باعث ہو کہ اداکارہ ویمی کی لاش کو ٹھیلے پر رکھ کر‌ آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے لے جانا پڑا۔

    مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کا یہ فلمی گیت شاید آپ نے بھی سنا ہو۔

    تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو
    میں یوں ہی مست نغمے لٹاتا رہوں

    اور یہ نغمہ بھی اسی شاعرِ کے قلم سے نکلا تھا اور اپنے وقت کا مقبول گیت تھا۔

    کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے
    پرستش کی تمنا ہے عبادت کا ارادہ ہے

    1967ء میں‌ فلم ہمراز ریلیز ہوئی تھی اور اس کے یہ نغمات بہت مقبول ہوئے تھے۔ فلم نے باکس آفس پر دھوم مچا دی تھی۔ یہی وہ فلم تھی جس میں ویمی نے مرکزی کردار نبھایا تھا اور یہ گیت انہی پر فلمائے گئے تھے۔

    اداکارہ ویمی کا سنہ پیدائش 1943ء تھا۔ وہ سکھ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ انھوں نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ ویمی کو شروع ہی سے گلوکاری کا شوق تھا۔ وہ فنِ اداکاری میں بھی دل چسپی رکھتی تھیں۔ اسی شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ ممبئی میں منعقدہ میوزک شوز اور ثقافتی پروگراموں میں شرکت کے لیے جایا کرتی تھیں۔ وہاں ان کی ملاقات میوزک ڈائریکٹر روی سے ہوئی اور انھوں نے ویمی کو بی آر چوپڑا کے بینر تلے بننے والی فلم میں‌ کام دلوا دیا۔ یوں‌ بڑے پردے پر ویمی کا سفر شروع ہوا۔

    فلم ہمراز نے ویمی کو راتوں رات اسٹار بنا دیا جس کے بعد وہ فلم آبرو میں‌ نظر آئیں اور شائقین نے انھیں اس فلم میں بھی پسند کیا۔ ویمی کا ہیئر اسٹائل بھی اس زمانے میں بہت مقبول ہوا۔ ان کی تصاویر ہر مقبول فلمی رسالے کی زینت بننے لگی تھیں۔ اس شہرت کے ساتھ انھوں نے اپنے وقت کے کام یاب بزنس مین شیو اگروال سے شادی کرلی، لیکن یہ ان کی زندگی کا بدترین فیصلہ ثابت ہوا۔

    شادی کے کچھ عرصہ بعد ویمی کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کے شوہر انھیں جسمانی تشدد اور ظلم کا نشانہ بناتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے یہ تعلق ختم کر لیا۔ علیحدگی کے بعد ویمی نے کلکتہ میں ٹیکسٹائل کا کاروبار شروع کیا لیکن اس میں‌ بری طرح ناکام رہیں۔ وہ فلمی دنیا سے بھی دور ہوچکی تھیں‌ اور وہ شہرت اور دولت جو انھوں نے اپنے مختصر کیریئر کے دوران حاصل کی تھی، اب ان کے ہاتھوں سے نکل رہی تھی۔ ازدواجی زندگی کی تلخیوں اور علیحدگی کے ساتھ کاروبار میں ناکامی اور مالی نقصانات نے ویمی کو شراب نوشی پر آمادہ کرلیا۔ ان کے پاس جو رقم تھی وہ ان کے عام اخراجات، شراب خریدنے پر لگ جاتی تھی اور پھر وہ اپنی شراب خریدنے کے لیے جسم فروشی کرنے لگیں۔

    اداکارہ ویمی کے اچھے دنوں کے ساتھی اور فلمی دنیا کے لوگ اُن سے دور ہوچکے تھے۔ فلم نگری کی اس اسٹار نے ایک اسپتال کے جنرل وارڈ میں اپنی زندگی کی آخری سانسیں‌ لیں جہاں انھیں ایک غریب اور بدحال عورت کے طور پر لایا گیا تھا۔ کثرتِ شراب نوشی نے ویمی کو جگر کے عارضے میں مبتلا کر دیا تھا۔ بعد میں لوگوں کو معلوم ہوا کہ جو لڑکی کل تک فلم، فیشن اور اسٹائل کی دنیا میں پہچان رکھتی تھی، اس حال میں اپنے انجام کو پہنچی اور یہی نہیں‌ بلکہ ویمی کی کی لاش کو بھی ایک ٹھیلے پر ڈال کر لے جایا گیا ہے۔

  • یاقوتُ الحموی: مشہور مسلمان جغرافیہ داں

    یاقوتُ الحموی: مشہور مسلمان جغرافیہ داں

    دنیا جب ہمارے اہلِ‌ علم اور ان کے کار ہائے نمایاں‌ کا تذکرہ کرتی ہے تو ہم اس پر فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ ہم نے علم اور عمل کو ترک کردیا ہے اور آج جستجو و سعیٔ مقدور سے دور ہوچکے ہیں۔ یاقوتُ الحموی ایک ایسا ہی نام ہے جن کو عالمِ اسلام کی ایک قابل و باصلاحیت شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ایک مؤرخ اور ماہرِ جغرافیہ تھے۔ آج یاقوت الحموی کی برسی ہے۔

    اس مؤرخ اور ماہرِ‌ جغرافیہ کی مشہور کتاب معجمُ البلدان ہے جس کا بشمول اردو کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ جغرافیہ داں یاقوتُ الحموی کی علمی و سائنسی موضوعات پر دیگر کتب بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔

    اگرچہ اس مسلمان جغرافیہ کے خاندان اور حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں تاہم محققین نے ان کا سنہ وفات 20 اگست 1229ء بتایا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ان کی پیدائش کا سنہ موجود نہیں‌ ہے یا اس پر اختلاف ہے۔ محققین کے مطابق ان کا اصل اور مکمل نام “شہابُ الدّین ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی الرّومی البغدادی” تھا۔ خیال ہے کہ وہ ایک غلام تھے جن کو روم سے قیدی بنا کر بغداد لایا گیا تھا۔ یہاں انھیں ایک تاجر “عسکرُ الحموی” نے خرید لیا اور اسی نسبت سے یاقوتُ الحموی پکارے گئے۔ ان کے مالک نے انھیں اس غرض سے تعلیم دلوائی کہ وہ ان کے مالِ تجارت اور نفع نقصان کا حساب کتاب کرسکیں۔یاقوت نے اس دور کے نظامِ تعلیم کے مطابق صرف و نحو اور لغت کے دوسرے قاعدے بھی سیکھے اور جب وہ اپنے آقا کے ساتھ تجارت کی غرض سے کہیں‌ جاتے تو اس علاقہ اور شہر کے بارے میں جاننے کی سعی کرتے، اس کے جغرافیہ، تاریخ اور تمدن کو سمجھتے اور یہ شوق اور دل چسپی ان کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ انھیں ایک روز آقا نے آزاد کر دیا جس کے بعد یاقوت نے علمی میدان کو وسیلۂ روزگار بنایا۔ کچھ عرصہ بعد وہ اپنے سابق آقا کے پاس لوٹ آئے اور تجارتی اسفار میں بطور نگران ان کی معاونت کرنے لگے۔اس دوران یاقوت الحموی نے کئی منفرد جغرافیائی معلومات اکٹھی کیں، پھر وہ حلب چلے گئے اور وہاں سے خوارزم پہنچے اور وہیں‌ قیام کیا۔ بعد میں دوبارہ حلب آئے اور وہیں وفات پائی۔

    یاقوت الحموی کو جغرافیہ اور حساب کتاب سے خصوصی شغف تھا۔ انھوں نے جغرافیہ کے عنوان پر ایک معجم ترتیب دی جس کے مقدمے میں دیگر فنون کے علاوہ فنِ جغرافیہ پر انھوں نے خصوصی باب رقم کیے ہیں۔ یاقوت الحموی نے دور دراز کے اسفار کے دوران جن مختلف مقامات پر قیام کیا اور جو شہر اور قصبات دیکھے، وہاں‌ کے لوگوں کی مدد سے ان کی تفصیل لکھی اور اپنی جغرافیہ کی مہارت سے معلومات کو اس کے ساتھ درج کرکے کتابی شکل میں معجمُ البلدان میں محفوظ کردیا۔ اس مشہور کتاب میں انھوں‌ نے دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ زمین کے بارے میں بھی سائنسی تصورات کو بیان کیا ہے۔