Tag: اگست وفات

  • شہاب حسن دہلوی: بہاولپور کا ایک دہلوی مؤرخ

    شہاب حسن دہلوی: بہاولپور کا ایک دہلوی مؤرخ

    اردو ادب میں شہاب دہلوی کو ایک شاعر، مؤرخ، محقق اور متعدد کتابوں کے مصنّف کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو مشہور جریدے الزبیر کے مدیر تھے۔ شہاب دہلوی تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے مشہور شہر بہاولپور آبسے تھے اور اس شہر سے ان کی محبّت تادمِ آخر قائم رہی۔ اسی محبت نے شہاب دہلوی کو بہاولپور کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر تحقیقی کام پر مجبور کیا اور انھوں نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں۔

    شہاب دہلوی 29 اگست 1990 کو انتقال کرگئے تھے او آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام سید مسعود حسن رضوی تھا۔ ان کے خاندان کے بزرگ قیامِ پاکستان سے عشروں پہلے دہلی سے بہاولپور آئے تھے اور یہاں ریاستی عہدوں پر فائز رہے تھے۔ شہاب دہلوی 20 اکتوبر 1922 کو پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش دہلی کی تھی۔ ان کے والد اور تایا بھی نہ صرف شاعر اور ادیب تھے بلکہ علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ دہلی شہر میں اشاعتی ادارہ بنام مطبع رضوی قائم کر رکھا تھا۔ شہاب دہلوی نے آنکھ کھولی تو گھر میں کتابیں دیکھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو سنتے رہے۔ یوں ان میں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور مطالعہ نے ان کے ذہن کو سیراب کیا۔ بڑے ہوئے تو عملی زندگی کا آغاز دہلی کے ایک ماہنامہ الہام کے اجرا سے کیا۔ بہاولپور آنے کے بعد شہاب دہلوی نے نہ صرف الہام کا دوبارہ اجرا کیا بلکہ یہاں کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ یہ وہ شہر تھا جہاں ان کے بزرگوں کے نقشِ قدم موجود تھے۔ لوگ اس خاندان سے واقف تھے اور یوں شہاب دہلوی کو بہاولپور سے اپنی محبّت کا جواز مل گیا۔ انھوں نے شعر و ادب کے ساتھ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ شہاب دہلوی نے تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے بہاول پور اور اس خطّے پر نظر ڈالتے ہوئے یہاں کی دینی اور روحانی شخصیات کا خاص طور پر تذکرہ کیا ہے اور روحانی فضا کو اپنی کتابوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کتابوں میں مشاہیر بہاولپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری اور وادیٔ جمنا سے وادیٔ ہاکڑہ تک شامل ہیں۔ بطور محقّق شہاب دہلوی کا گراں قدر کام ان کو بہاولپور کی تاریخ و ثقافت کا مستند مؤرخ ثابت کرتا ہے۔

    شہاب حسن دہلوی کا کلام نقوش شہاب، گل و سنگ، اور موجِ نور کے نام سے شائع ہوا۔

  • یادِ رفتگاں: مجاہدِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی

    یادِ رفتگاں: مجاہدِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی

    فضل حق خیر آبادی ہندوستان میں 1857ء کی جنگ آزادی کے روح رواں تھے جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا۔ فضل حق کا نام آج تاریخ کے صفحات تک محدود ہے جن کی عملی جدوجہد، سیرت و کردار کا اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل ان سے واقف ہو اور اپنے اجداد پر فخر کرسکے۔ وہ ایک فلسفی، شاعر اور مذہبی عالم تھے، لیکن ان کی وجہِ شہرت انگریزوں کے ہندوستان پر قبضہ کے خلاف جہاد کا فتوٰی بنا۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی 1797ء میں علامہ فضل امام فاروق خیرآبادی صدر الصدور دہلی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے والد فضل امام اور حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی و حضرت عبد العزیز محدث دہلوی سے تعلیم وتربیت حاصل کی۔

    1809ء میں جب آپ کی عمر تیرہ سال کی تھی اس وقت تک تمام علوم نقلیہ اور عقلیہ کی تکمیل کر لی۔ ایک مدت تک درس و تدریس میں مصروف رہے اور 1815ء میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوگئے۔ نواب فیض محمد خاں والی جھجھر (ہریانہ) نے بعد میں انھیں‌ اپنے یہاں بلایا اور پانچ سو روپے نذرانہ پیش کرتے رہے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی جھجھر کے لیے روانہ ہورہے تھے، اس وقت بہادر شاہ ظفر نے اپنا دوشالہ اتار کر آپ کو اوڑھا دیا اور نم آنکھوں سے گویا ہوئے: "چوں کہ آپ جانے کو تیار ہیں، میرے لیے بجز اس کے کوئی چارۂ کار نہیں کہ میں بھی اس کو منظور کر لوں لیکن خدا جانتا ہے کہ لفظ وداع زبان پر لانا دشوار ہے۔”

    جھجھر کے بعد آپ مہاراجہ الور کی دعوت پر ریاست الور، پھر نواب ٹونک اس کے بعد نواب رام پور میں ملازمت کی، رام پور کے بعد لکھنؤ کے صدرالصدور اور "حضورتحصیل” کے مہتمم بنائے گئے۔ سہارن پور میں بھی دو سال تک کسی بڑے عہدے پر فائز رہے۔ ایک عرصہ تک دہلی کے سر رشتہ دار بھی رہے۔ مرزا غالب سے علامہ کے پرخلوص اور گہرے تعلقات تھے، کیوں کہ دونوں بالکل ہم سن تھے، دونوں 1797ء میں پیدا ہوئے تھے۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی 1857ء میں لکھ چھوڑ کر ریاست الور چلے گئے۔ اس دوران آپ نے انقلاب کی آہٹ محسوس کر لی تھی۔ مہاراجہ الورکو آپ نے اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔ علامہ، الور سے مئی 1857ء میں دہلی پہنچے۔ اسی وقت میرٹھ اور دوسری فوجی چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا قضیہ زور پکڑ چکا تھا۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے ہندو مسلم فوج ناراض ہو گئی۔ چپاتی اور کمبل کی تقسیم کی خاص اسکیم کے تحت گاؤں گاؤں پہلے سے ہو ہی چکی تھی۔

    10 مئی 1857ء کو میرٹھ کی چھاؤنی میں اچانک فوجیوں نے بغاوت کر دی، باغی فوجیں 11/ مئی 1857ء کو دہلی پہنچ گئیں، بادشاہ دہلی سرگرمیوں کا مرکز بنے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی بھی شریک مشورہ رہے۔ آپ سے جنرل بخت خاں ملاقات کے لیے پہنچے۔ مشورہ کے بعد علامہ نے اپنے ترکش سے آخری تیر نکالا۔

    بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی) میں علماکے سامنے تقریر کی۔ استفتاء پیش کیا۔ مفتی صدر الدین خاں آزردہ صدر الصدور دہلی ، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ دہلوی ، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبر آبادی ، سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔ اس فتوی کے منظر عام پرآتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔ دہلی میں نوے ہزار سپاہی جمع ہو گئے تھے۔ بہادر شاہ نے جب مولوی صاحب کو حکم دیا کہ اپنی فوج کو لڑانے کے لیے لے جاؤ اور انگریزوں کے خلاف لڑائی کرو، تو انھوں نے کہا: "افسوس تو اسی بات کا ہے سپاہی ان کا کہا نہیں مانتے جو ان کی تنخواہ دینے کے ذمہ دار نہیں۔” (بحوالہ: غدر کی صبح شام، ص: 220)

    مولانا فضل حق خیرآبادی بہت بڑے سیاست داں مفکر اور مد بربھی تھے۔ بہادری اور شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غدر کے بعد نہ جانے کتنے سورما ایسے تھے جو گوشۂ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ، لیکن مولانافضل حق خیر آبادی ان لوگوں میں تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیماں نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس میدان میں قدم رکھا تھا اوراپنے اقدام عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے وہ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔ سراسیمگی، دہشت اور خوف جیسی چیزوں سے مولا نا بالکل ناواقف تھے۔

    بغاوت وسط مئی 1857ء میں شروع ہوئی ، جوں ہی اس کی اطلاع ملی علامہ اہلِ خانہ کو الور چھوڑ کر دہلی آ گئے اور سرگرمی سے بغاوت کی رہنمائی کی، ساتھ ہی حکومت کے دستور عمل کی ترتیب شروع کر دی۔ جولائی میں جنرل بخت خاں کے دہلی آنے پرفتوائے جہاد مرتب کر کے علماکے دستخط کرائے۔ اسی دوران راجہ الوربنے سنگھ کی خبر ارتحال پر الور چلے گئے۔ پھر ایک ماہ بعد واپس دہلی آ گئے۔

    15 دن دہلی میں قیام کر کے الور آئے اور اپنے اہل وعیال کو لے کر اوائل ستمبر میں دہلی آگئے۔ وسط ستمبر میں دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ان کے تمام امرا و متعلقین بھی اپنے اہل و عیال کو لے کر گھروں میں مال و متاع چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان سب کے شہر چھوڑ کر چلے جانے سے شہریوں پر سراسیمگی طاری ہوگئی، وہ بھی مکان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر گئے۔ جب شہر خالی ہو گیا تو انگریز فوجیں ان کے مکانوں میں داخل ہوئیں اور جو بھی مال و متاع تھا لوٹ لیا۔ باغی سپاہی موقع غنیمت جان کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

    اس وقت دہلی میں مولوی عبدالحق اور ان کی والدہ وغیرہ موجود تھیں۔ وہ ان سے ملے، کوئی لشکر اور شہری باقی نہ رہا۔ انگریزوں کا پوری طرح شہر پر تسلط قائم ہو گیا۔ دشمنوں نے غلہ اور پانی پر قبضہ جما لیا تھا۔ پانچ روز تک اسی طرح بھوکے پیاسے گزار کر اپنی عزیز ترین متاع کتابیں، مال و اسباب چھوڑ کر اللہ پر بھروسہ کر کے اہل وعیال کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ علامہ اپنے وطن خیر آباد ، اودھ کی طرف چلے جا رہے تھے، راستہ خوف ناک اور دشوار تھا۔ انگریز اور اس کا لشکر دن رات علامہ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ جاٹوں نے سارے ناکے بند کر دیے تھے۔ کسی گھاٹ پر کوئی کشتی نہ چھوڑی تھی۔ الله تعالی نے علامہ اور ان کے متعلقین کو محفوظ رکھ کر پل اور کشتی کی مدد کے بغیر دریاؤں کو عبور کرا دیا۔ اور اللہ کے بے پایاں رحم وکرم کے سائے میں وہ اپنے وطن میں احباب و رشتہ دار تک پہنچ گئے۔

    اودھ میں بیگم حضرت محل فرنگیوں کے خلاف نبرد آزما تھیں۔ ان کے لشکر کے ساتھ بھی علامہ فضل حق خیرآبادی جنگ میں شریک ہوئے، لیکن قسمت فرنگیوں کے ساتھ تھی، پے در پے انھیں فتح نصیب ہوتی گئی۔ بیگم حضرت محل اس تباہی و بربادی کے بعد بچے ہوئے تھوڑے سے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑ کی چوٹیوں کو عبور کر کے نیپال کی سرحد میں داخل ہو گئیں۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی مسافرت، غربت اور مصیبت کی زندگی گزار رہے تھے لیکن اپنے گھر، اہل وعیال تک پہنچنے کے لیے قدم بڑھتے چلے جارہے تھے کہ امن و امان کا وہ پروانہ جسے ملکہ وکٹوریہ نے جاری کیا تھا اور قسموں سے مؤکد کیا گیا تھا، نظر پڑا۔ اس پروانہ پر بھروسہ کر کے وہ اہل وطن میں پہنچ گئے۔ انھیں بالکل خیال نہ رہا کہ بے ایمان کے عہد و پیان پر بھروسہ اور بے دین کے قسم و یمین پر اعتماد کسی حالت میں درست نہیں۔ تھوڑے دن بعد ہی ایک انگریز حاکم علامہ کو مکان سے بلا کر قید کر دیا اور دارالسلطنت لکھنؤ بھیج دیا۔ ان کا معاملہ ایسے ظالم حاکم کے سپرد کیا جو مظلوم پر رحم کرنا ہی نہ جانتا تھا اور آپ کی چغلی ایسے دو مرتد افراد نے کھائی جو آپ سے قرآن کی محکم آیت میں مجادلہ کرتے تھے۔

    انگریزوں نے علامہ کو قید کرنے کے بعد ایک قید خانے سے دوسرے میں منتقل کرنا شروع کیا۔ ان کا جوتا اتار لیا، لباس اتار کر موٹے اور سخت کپڑے پہنا دیے۔ زم اور بہتر بستر چھین کر خراب ، سخت اور تکلیف دہ بچھونا حوالہ کر دیا۔ نہ پلیٹ، نہ لوٹا اور نہ کوئی برتن ان کو دیا۔ ماش کی دال گرم پانی کے ساتھ کھلایا جاتا۔ اس طرح جزیرہ انڈمان کے کنارے ایک اونچے پہاڑ پر پہنچا دیا گیا، جہاں کی آب و ہوا ناموافق تھی۔ سورج ہمیشہ سر پر رہتا، پانی زہر ہلاہل۔

    علامہ متعدد سخت امراض میں مبتلا ہو گئے۔ صبح و شام اس طرح بسر ہوتی کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی بن چکا تھا۔ اور 19 اگست 1861ء میں اس عظیم مجاہد آزادی کی روح قفس عنصری سے آزاد ہو گئی۔

    علامہ کی قبر انڈمان کے ساؤتھ پوائنٹ (جسے عرف عام میں نمک بھٹہ کہتے ہیں) کی ایک بستی میں ہے جس کا ایک سمندری کنارہ Ross جزیرہ سے قریب ہے۔ یہ وہ جزیرہ ہے جہاں علما وغیرہ کو جہاز سے اتارا جاتا تھا۔

    (ماخوذ از: ذرا یاد کرو قربانی)

  • فرمان فتح پوری: اردو کے بلند پایہ نقّاد اور محقق

    فرمان فتح پوری: اردو کے بلند پایہ نقّاد اور محقق

    اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے، وہ بہت کم اہلِ قلم کو نصیب ہوتا ہے وہ ایک بلند پایہ نقّاد، معتبر محقق اور ماہرِ لسانیات تھے۔ فرمان فتح پوری کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ ان کے مضامین و مقالات اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔

    وہ غیرمنقسم ہندوستان میں فتح پور شہر میں 26 جنوری 1926ء کو پیدا ہوئے فرمان فتح پوری کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر والد اور چچا سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں، قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ مصدرنامہ، گلستان بوستان بھی گھر ہی پر پڑھیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ‌ علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کیا۔

    فرمان فتح پوری کا میدان تنقید اور تحقیق تھا اور وہ زبان و بیان کی باریکیوں کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات کے بڑے نکتہ بیں تھے۔ انھیں ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ ان کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب کا گراں‌ قدر سرمایہ ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور ناقد ان کی ادبی خدمات اور کارناموں کے معترف رہے اور انھیں پائے کا نقّاد تسلیم کیا جن کے ہاں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ نظم و نثر اور ادب کی جملہ اصناف اور متعدد اسالیب پر اپنی مدلّل اور جامع رائے اور تنقید کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر موضوعات پر خوب کام کیا۔ وہ تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ فرمان فتح پوری کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ جہاں ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ نہایت مستند مانی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری 2013ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ حکومتِ‌ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • ماچسؔ لکھنوی: اردو کے ایک مزاحیہ شاعر کا تذکرہ

    ماچسؔ لکھنوی: اردو کے ایک مزاحیہ شاعر کا تذکرہ

    ماچسؔ لکھنوی سے آج شاذ ہی کوئی واقف ہوگا۔ یہ نام اور اس شخصیت کا تذکرہ ہمارے قارئین کی اکثریت کے لیے نیا بھی ہوگا اور انوکھا بھی۔ ماچس لکھنوی ایک مشہور مزاحیہ شاعر گزرے ہیں جن کا اصل نام مرزا محمد اقبال تھا۔ لیکن مزاحیہ ادب میں انھیں ماچسؔ لکھنوی کے قلمی نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔

    ادب تخلیق کرنے والا کوئی بھی فرد اپنے تمام دماغی اوصاف، اور حواس کو برروئے کار لاتا ہے۔ شوخیٔ مزاج اور شگفتہ طبیعت بھی اس میں‌ اہمیت رکھتی ہے اور ہنسی مذاق انسان کی وہ عادت یا خصوصیت ہے جس کی ادب میں بھی ناگزیر حیثیت ہے۔ ایک شاعر کی بات کی جائے تو وہ ہنستے گاتے آگے بڑھنے اور زندگی کی تلخیوں کو قہقہے میں اڑانے کی سکت بھی رکھتا ہے۔ اس کی شاعری میں مزاح کے ساتھ زندگی کی ناہمواریوں اور انسانوں کے غلط رویوں پر طنز بھی ملتا ہے جس کا مقصد اصلاح ہوتا ہے۔ ماچس لکھنوی نے زندگی کے تمسخر انگیز پہلوؤں کو اپنی شاعری میں سمویا ہے۔

    ماچس لکھنؤی کو اکثر ایم ایم اقبال کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ وہ 1918ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی اور شاعری پر اردو کے سب سے مشہور تذکرہ نویس مالک رام نے ایک باب باندھا ہے اور اس میں ماچس لکھنوی کا سنہ پیدائش 1913ء لکھا ہے۔ ان کے مطابق وہ اَوَدھ کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے والد میرزا فرخندہ بخت کے پوتے تھے جن کا نام میرزا مہدی حسین تھا۔ ماچس لکھنوی کی عمر ابھی تیرہ چودہ سال کی تھی کہ شاعری کی جانب میلان بڑھنے لگا۔ شاعری میں وہ انور حسین آزردہ لکھنؤی کے ایک شاگرد سے اصلاح لینے لگے اور اُن کی وفات کے بعد آزردہ لکھنؤی جب لکھنؤ آئے تو اُن سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔ ماچس لکھنوی پہلے پہل انجمن بہارِ ادب لکھنؤ کے رکن بنے اور ادبی حلقوں میں پہچانے گئے۔ ان کا اندازِ سخن مزاح کی جانب زیادہ رہا اور اُن کی وجہ شہرت بھی مزاح نگاری بنی۔ ماچس کا کوئی مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا۔ کہتے ہیں ان کی یادداشت بہترین تھی۔ ماچس کی نظمیں اودھ پنچ اخبار اور شوکت تھانوی کے اخبار ’’سرپنچ‘‘ میں شائع ہوتی رہیں۔ شوکت تھانوی نے ماچس لکھنوی کو ’’ظریفُ الملک‘‘ کا لقب دیا تھا۔

    ماچس کے والد میرزا مہدی حسین 1949ء میں وفات پاگئے تھے۔ مالی حالات ایسے تھے کہ ماچس مدرسہ میں مڈل سے آگے نہ بڑھ سکے۔ کچھ تعلیم گھر پر حاصل کی لیکن یہ سلسلہ اس سے زیادہ نہ بڑھ سکا۔

    ماچس لکھنؤی کینسر کے مرض کے سبب 26 اگست 1970ء کو وفات پاگئے تھے۔ لکھنؤ ہی میں‌ انھیں سپردِ‌‌ خاک کیا گیا۔ ماچس لکھنوی کا کلام ملاحظہ کیجیے۔

    آرزوئیں ہوں جس قدر اے دل
    سب ہیں بے کار اس سوال کے بعد
    عشق پر آئے گی بہار اب تو
    ان کے والد کے انتقال کے بعد

    ایک نمکین غزل کے تین اشعار دیکھیے

    نظر پر میری اس بت کی نظر یوں چھائی جاتی ہے
    کہ جیسے ٹوکری پر ٹوکری اوندھائی جاتی ہے

    پلٹتی ہے مری آہ رسا یوں ان کے گھر جا کر
    کوئی جادو کی ہانڈی جس طرح پلٹائی جاتی ہے

    حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں
    تو ہفتوں کیا مہینوں کھوپڑی سہلائی جاتی ہے

  • پاکستانی فلم انڈسڑی کے باصلاحیت موسیقار رحمٰن ورما کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسڑی کے باصلاحیت موسیقار رحمٰن ورما کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں کئی موسیقار ایسے بھی ہیں جن کی موسیقی میں مقبول ہونے والے فلمی گیتوں کی بدولت فلموں نے ریکارڈ بزنس کیا۔ ان گیتوں کو پاکستان ہی نہیں انڈیا میں بھی پسند کیا گیا۔ ان باکمال اور صف اوّل کے موسیقاروں کے علاوہ چند ایسے باکمال فن کار بھی انڈسٹری کا حصّہ بنے جن کو وہ پذیرائی اور قدرومنزلت نہیں ملی جس کے حق دار وہ تھے، مگر فلم بینوں نے ان کے گیتوں کو سراہا۔ رحمٰن ورما ایسا ہی ایک نام ہے جو خاموش طبع اور خود دار انسان بھی تھے۔ 11 اگست 2007ء کو رحمٰن ورما لاہور میں وفات پا گئے تھے۔

    رحمٰن ورما ایک باصلاحیت فلمی موسیقار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں پہچانے تو گئے، لیکن بڑے بڑے فن کاروں کے درمیان خود کو منوانا ان کے لیے آسان نہیں‌ تھا۔ رحمٰن ورما اپنے وقت کے نام وَر موسیقار جی اے چشتی کے شاگرد تھے۔ بطور موسیقار رحمٰن ورما کی پہلی فلم باغی (1956) تھی جو کام یاب ثابت ہوئی۔ اس فلم کے بعد ایک اور فلم کی کام یابی نے رحمٰن ورما کو ایکشن اور کاسٹیوم فلموں کے لیے بہترین موسیقار ثابت کردیا۔ ورما جی کے نام سے مشہور اس کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا۔ وہ 1927ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی انھوں نے موسیقار کی حیثیت سے فلموں کے لیے کام کیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد رحمٰن ورما پاکستان آگئے۔ پاکستان میں 1955ء میں رحمٰن ورما نے دیارِ حبیب کے لیے ایک نعت ریکارڈ کروائی جو بہت مقبول ہوئی اور یہاں اپنا فلمی سفر شروع کیا۔ رحمٰن ورما نے اردو اور پنجابی گیتوں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ بطور سولو موسیقار ان کی پہلی فلم ’’باغی‘‘ جب کہ آخری فلم ’’دارا‘‘ تھی جو 1976ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ موسیقار رحمٰن ورما نے مجموعی طور پر 32 فلموں کی موسیقی ترتیب دی، جن میں دربار، آخری نشان، عالم آرا، ایک تھی ماں، بیٹا، کالا پانی، خاندان، نبیلہ، غدار، سسی پنہوں، سرِفہرست ہیں۔

    مشہور شاعر ساغر صدیقی کا ایک فلمی گیت رحمٰن ورما کی موسیقی میں بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے، ”ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا تمہی تو ہو‘‘ فلم ”آخری نشان‘‘ کے یہ نغمات ‘ہم بھی آوارہ پنچھی تم بھی آوارہ‘‘ ”کوئی دور بجائے بانسری‘‘ ”تو ہے بے وفا اور نہ میں بے وفا‘‘ناہید نیازی نے گائے تھے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔ ان کے موسیقار رحمٰن ورما ہی تھے۔ اس کے علاوہ ”آج کی شب جانے پھر آئے کہ نہ آئے‘‘ اور ”حال کیسا ہے جناب کا‘‘ بھی اپنے وقت کے مشہور فلمی گیت تھے جن کے موسیقار رحمٰن ورما ہیں۔

  • ڈیوڈ فراسٹ: واٹر گیٹ اسکینڈل پر سوالات اُن کی وجہِ شہرت بنے

    ڈیوڈ فراسٹ: واٹر گیٹ اسکینڈل پر سوالات اُن کی وجہِ شہرت بنے

    سَر ڈیوڈ فراسٹ کی وجہِ شہرت وہ انٹرویوز ہیں جو ایک صحافی اور ٹیلی ویژن پر بطور میزبان انھوں نے مختلف ممالک کے سربراہوں، سیاست دانوں اور دوسری نام وَر شخصیات سے کیے۔ ان انٹرویوز کی ‌مقبولیت میں ڈیوڈ فراسٹ کا طنز اور شخصیات سے چبھتے ہوئے سوالات کا بڑا دخل تھا۔

    اشاعتی اور نشریاتی اداروں سے بطور صحافی منسلک رہنے والے ڈیوڈ فراسٹ ایک کامیڈی رائٹر بھی تھے۔ 74 برس کے ڈیوڈ فراسٹ 2013ء میں آج ہی کے دن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ وہ کوئین الزبتھ بحری جہاز پر ایک پروگرام میں‌ مقرر کی حیثیت سے مدعو تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    ڈیوڈ فراسٹ نے اپنے کیریئر میں دنیا کے بڑے بڑے راہ نماؤں کے انٹرویو کیے جن میں ایک مشہور انٹرویو امریکی صدر رچرڈ نکسن کا تھا۔

    اپریل 1939ء میں برطانیہ میں پیدا ہونے والے ڈیوڈ فراسٹ نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گریجویشن کیا اور اسی زمانے میں وہ کالج کی سطح پر نکلنے والے تعلیمی اور ادبی دو جرائد کے مدیر بنے۔ ساتھ ہی ایک ڈرامہ سوسائٹی کے عہدے دار کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ڈیوڈ فراسٹ نے بطور کامیڈین اداکاری بھی کی اور فن و ثقافت سے متعلق سرگرمیوں میں‌ یہی دل چسپی انھیں لکھنے کی طرف لے گئی۔ انھوں نے ایک رائٹر کے طور پر بھی خود کو آزمایا اور پھر ٹیلی ویژن سے وابستہ ہوگئے۔ ڈیوڈ فراسٹ ایک ایسے صحافی اور انٹرویو نگار تھے جو مںتخب قیادتوں کے کم زور فیصلوں یا غیرجمہوری اقدامات، آمروں پر طنز کے علاوہ اسکینڈل پر بات کرنے سے گریز نہیں‌ کرتے تھے۔

    ڈیوڈ فراسٹ کی نشریاتی زندگی کا سب سے مشہور کارنامہ 1977ء میں واٹر گیٹ اسیکنڈل کے حوالے سے صدر رچرڈ نکسن کا بارہ قسطوں پر مشتمل انٹرویو تھا۔ اس انٹرویو نے ڈیوڈ فراسٹ کو ان کے شعبے کا ایک ”لیجنڈ“ اور دنیا کا مشہور میزبان بنا دیا۔ رچرڈ نکسن کو 1974ء میں واٹر گیٹ اسکینڈل کے بعد مواخذے کے خوف سے بے آبرو ہو کر وائٹ ہاؤس سے نکلنا پڑا تھا۔ فراسٹ نے اس انٹرویو کے دوران اپنے تیکھے انداز اور چبھتے ہوئے سوالوں سے رچرڈ نکسن کو پچھاڑ دیا تھا۔ ڈیوڈ فراسٹ ایسے براڈ کاسٹر تھے جن کی حاضر دماغی، ظرافت اور طنز متاثر کن تھا۔ ان بارہ انٹرویوز نے نشریاتی دنیا میں مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ وسیع مطالعہ ان کی سب سے بڑی خوبی اور اہلیت تھی۔ ڈیوڈ فراسٹ اپنی معلومات کو استعمال کرنے کا شعور رکھتے تھے اور کسی بھی شخصیت کا انٹرویو کرتے ہوئے اپنی حاضر دماغی سے حقائق تک پہنچنے یا کسی راز کو اگلوانے کے لیے مشہور تھے۔

    ڈیوڈ فراسٹ نے شہرۂ آفاق گلوکار جان لینن، باکسر محمد علی کلے، امریکہ اور برطانیہ کے مختلف وزرائے اعظم، شہنشاہِ ایران، یاسر عرفات کے علاوہ محترمہ بینظیر بھٹو، پرویز مشرف، عمران خان کے بھی انٹرویو کیے تھے۔ برطانوی براڈ کاسٹر نے متعدد ٹی وی پروگرام پیش کیے اور کئی ایوارڈز اور اعزازات اپنے نام کیے۔

  • یومِ وفات:‌ منفرد طرزِ‌ گائیکی اور لوک گیت پرویز مہدی کی پہچان ہیں

    یومِ وفات:‌ منفرد طرزِ‌ گائیکی اور لوک گیت پرویز مہدی کی پہچان ہیں

    پرویز مہدی وہ پاکستانی گلوکار تھے جو اپنے منفرد طرزِ گائیکی اور بالخصوص لوگ گیتوں کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ وہ عظیم گلوکار مہدی حسن کے پہلے اعلانیہ شاگرد ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے اور انہی کے نام کی نسبت سے خود کو پرویز مہدی کہلوانا پسند کیا۔ پرویز مہدی کی گائیکی پر اُن کے استاد کا رنگ اس قدر غالب تھا کہ اکثر سننے والے یہ گمان کرتے کہ وہ خان صاحب کو سن رہے ہیں۔

    پرویز مہدی نے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور ان کے گائے ہوئے لوک گیتوں کو خاص طور پر مقبولیت ملی۔ پرویز مہدی 2005ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 57 برس تھی۔

    عظیم گلوکار مہدی حسن کے اس شاگرد نے 70ء کی دہائی میں ریڈیو اسٹیشن لاہور پر ایک گیت ’میں جانا پردیس’ گایا تھا اور اسی گیت سے ان کی ملک گیر پہچان کا آغاز ہوا تھا۔ بنیادی طور پر پرویز مہدی غزل کے گائیک تھے۔ وہ اپنے استاد مہدی حسن کے رنگ میں گاتے تھے اور یہ بھی ان کی مقبولیت کا ایک سبب تھا۔ پرویز مہدی کا اصل نام پرویز حسن تھا لیکن انھوں نے استاد سے عقیدت کی بنا پر اپنے نام کے ساتھ مہدی کا اضافہ کرلیا اور اسے وہ اپنے لیے سب سے بڑا اعزاز گرادنتے تھے۔

    پرویز مہدی کا سفر تیس سال پر محیط تھا جس میں انھوں نے کئی شعرا کے کلام کو اپنی آواز دی اور وہ سب مشہور ہوئے۔ گلوکار پرویز مہدی نے کئی لوک گیتوں کو بھی خوب صورتی سے گایا جو بہت مقبول ہوئے۔

    14 اگست 1947ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے پرویز مہدی کے والد بشیر حسین راہی ریڈیو پاکستان کے ایک مقبول گلوکار تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں‌ کہ فنِ گائیکی انھیں ورثے میں‌ ملا تھا۔ پرویز مہدی نے ابتدا میں جے اے فاروق سے موسیقی کی تربیت حاصل کی لیکن پھر مہدی حسن کی شاگرد بن گئے۔

    گلوکار پرویز مہدی کو حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ پرویز مہدی کی آخری آرام گاہ لاہور میں ہے۔

  • فانی بدایونی:‌ اردو کا حزنیہ شاعر

    فانی بدایونی:‌ اردو کا حزنیہ شاعر

    1941ء میں‌ آج ہی کے روز اردو کے نام وَر شاعر شوکت علی خان جو فانیؔ بدایونی کے نام سے مشہور ہیں، یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ فانی بدایونی اپنی حزنیہ شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا کلام ہجر کی وارداتوں، غمِ روزگار، رنج و الم کے موضوعات سے بھرا ہوا ہے۔

    کہتے ہیں کہ فانیؔ نے اردو شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ وہ 1879ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے شہر کی نسبت بدایونی کا لاحقہ استعمال کیا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور بعد میں مکتب گئے۔ 1892ء میں گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا اور انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ فانی نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔

    کالج کے زمانے میں شغل جاری رہا اور احباب و مختلف حلقوں میں‌ کلام سنانے لگے۔ بعد میں‌ وکالت پڑھ کر لکھنؤ میں پریکٹس کرنے لگے، لیکن پھر والد اور چند اعزّہ کے انتقال کے بعد ان کا ہر کام سے گویا دل اچاٹ ہوگیا اور معاش کے حوالے سے تنگی کا سامنا رہنے لگا جس نے انھیں یاسیت کی طرف دھکیل دیا۔ اسی عرصے میں غمِ جاناں نے بھی آ گھیرا اور ناکامی کے بعد بری طرح ٹوٹ گئے۔

    فانی نے شہر شہر کی خاک چھانی اور معاش کی خاطر جگہ جگہ قسمت آزماتے رہے۔ آخر فانی حیدر آباد دکن پہنچ گئے جہاں دربار سے اداروں تک عالم فاضل شخصیات کی قدر افزائی کی جاتی تھی اور نظام دکن کی جانب سے وظیفہ دیا جاتا تھا دکن میں فانی اچھے برے دن کاٹ کر دنیا سے چلے گئے۔

    ممتاز نقاد اور ادیب آل احمد سرور ان کے بارے میں‌ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

    "فانیؔ کے والد بڑے سخت گیر تھے۔ فانی کو اپنے پہلے عشق میں ناکامی ہوئی۔ ملازمت انہیں راس نہ آئی۔”

    "ان کے والد ان کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہیں کچھ آزادی بریلی کالج میں ملی، مگر دراصل ان کی ادبی شخصیت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بنی جب وہ حسرت اور ان کی اردوئے معلیٰ سے قریب آئے۔ انہوں نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی جس طرح اقبالؔ نے دی۔ اقبالؔ کو بھی اپنا پیشہ پسند نہ تھا، مگر وہ فانیؔ سے زیادہ لطافت کی خاطر کثافت کو گوارا کر سکتے تھے۔ فانیؔ اچھے وکیل ہو سکتے تھے کیوں کہ وہ ذہین آدمی تھے، مگر ان کی شاعرانہ شخصیت ان پر اتنی حاوی ہو گئی تھی کہ وہ وکالت کے پیشے کی پستی اور زمانہ سازی گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ایک شاہانہ انداز سے زندگی گزارنے میں انہیں لطف آتا تھا۔”

    "کلکتے اور بمبئی کے سفر، لکھنؤ میں کچھ دن کے ٹھاٹھ، حیدرآباد میں شروع میں ان کی فضول خرچیاں، فانیؔ کے مزاج کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔”

    "فانیؔ کو ادبی شہرت جلد حاصل ہو گئی اور آخر تک وہ معاصرین میں ممتاز رہے۔ لکھنؤ، اٹاوے، مین پوری علی گڑھ اور آگرے میں مشاعروں میں ان کی غزلیں حاصلِ مشاعرہ سمجھی جاتی تھیں جب کہ ان میں یگانہ، جگر جیسے قابلِ قدر شاعر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی ادبی شہرت 1920ء سے شروع ہوئی اور 1930ء میں عروج کو پہنچ گئی۔”

    "فانیؔ پُر گو نہ تھے۔ ماہر القادری کا بیان ہے کہ ان کی غزل کئی کئی دن میں مکمل ہوتی تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے بیان کیا ہے کہ ان پر ایک استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ان کی مایوسیوں اور ناکامیوں، تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔”

    "فانیؔ بہت پریشاں رہے مگر انہوں نے کبھی کسی سے ان پریشانیوں کا اظہار نہ کیا۔ جب وہ بدایوں میں اپنے ایک وسیع اور کشادہ مکان کو رہن رکھ رہے تھے تو ان کے ایک ملنے والے آگئے اور انہوں نے تازہ کلام کی فرمائش کی۔ فانیؔ نے انہیں اپنا ایک شعر یہ کہہ کر سنایا کہ آج ہی موزوں ہوا ہے۔”

    اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یارب
    درو دیوار دیے اب انہیں ویرانی دے

    "وہ اگرچہ ہنگامے سے گھبراتے تھے اور نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے مگر دوستوں کی محفل میں ہنستے بولتے بھی تھے۔ گو کسی نے انہیں قہقہہ لگاتے نہیں سنا۔ دوسروں کے کلام کی تعریف کرتے تھے مگر ان اشعار کی، جو انہیں پسند آتے تھے۔ جب ماہرُ القادری نے ان کی اس غزل کی تعریف کی جس کا مطلع ہے۔”

    پھر فریبِ سادگی ہے رہ نمائے کوئے دوست
    مٹنے والی آرزو ہی لے چلیں پھر سوئے دوست

    تو کہنے لگے لیکن آتشؔ کے اس مصرع کا جواب کہاں

    دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

    "ماہر القادری نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ پڑوس میں ریڈیو تھا۔ کہیں سے کوئی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا مشاعرہ تو ابھی جاری ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہو چکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہر بین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں تو تعجب کی بات نہ ہو گی۔”

    "1922ء میں علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی کو غزل کی فرمائش پر لکھا ہے، ’’میری بکواس نہ پڑھنے کے لائق ہے نہ سننے کے قابل۔ دامنِ اردو پر ایک بدنما داغ کے سوا کچھ نہیں۔ کوشش کیجیے کہ مٹ جائے۔ یہ آپ کا پہلا فرض ہے۔ میگزین کے بیش بہا صفحات پر میری غزل کا وجود باعثِ ننگ ہے۔ زبان اردو کے نادان دوست نہ بنیے۔’‘ یہ انکسار اس زمانے میں شرفاء کا دستور تھا۔ غالباً اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ اپنی تعریف آپ کرنا معیوب ہے۔ ہاں دوسرے تعریف کریں تو اور بات ہے۔”

    فانی بدایونی کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانیؔ
    زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

    یہ مقطع ان کی پیشِ نظر غزل کا حاصل ہے۔ اسی غزل میں ایک اور مقطع بھی شامل ہے جو بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے

    اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
    زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

    زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
    ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مَر جانے کا

    ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
    لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

    ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں
    کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا

    کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ
    آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا

  • یاقوتُ الحموی: مشہور مسلمان جغرافیہ داں

    یاقوتُ الحموی: مشہور مسلمان جغرافیہ داں

    دنیا جب ہمارے اہلِ‌ علم اور ان کے کار ہائے نمایاں‌ کا تذکرہ کرتی ہے تو ہم اس پر فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ ہم نے علم اور عمل کو ترک کردیا ہے اور آج جستجو و سعیٔ مقدور سے دور ہوچکے ہیں۔ یاقوتُ الحموی ایک ایسا ہی نام ہے جن کو عالمِ اسلام کی ایک قابل و باصلاحیت شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ایک مؤرخ اور ماہرِ جغرافیہ تھے۔ آج یاقوت الحموی کی برسی ہے۔

    اس مؤرخ اور ماہرِ‌ جغرافیہ کی مشہور کتاب معجمُ البلدان ہے جس کا بشمول اردو کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔ جغرافیہ داں یاقوتُ الحموی کی علمی و سائنسی موضوعات پر دیگر کتب بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔

    اگرچہ اس مسلمان جغرافیہ کے خاندان اور حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں تاہم محققین نے ان کا سنہ وفات 20 اگست 1229ء بتایا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ان کی پیدائش کا سنہ موجود نہیں‌ ہے یا اس پر اختلاف ہے۔ محققین کے مطابق ان کا اصل اور مکمل نام “شہابُ الدّین ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی الرّومی البغدادی” تھا۔ خیال ہے کہ وہ ایک غلام تھے جن کو روم سے قیدی بنا کر بغداد لایا گیا تھا۔ یہاں انھیں ایک تاجر “عسکرُ الحموی” نے خرید لیا اور اسی نسبت سے یاقوتُ الحموی پکارے گئے۔ ان کے مالک نے انھیں اس غرض سے تعلیم دلوائی کہ وہ ان کے مالِ تجارت اور نفع نقصان کا حساب کتاب کرسکیں۔یاقوت نے اس دور کے نظامِ تعلیم کے مطابق صرف و نحو اور لغت کے دوسرے قاعدے بھی سیکھے اور جب وہ اپنے آقا کے ساتھ تجارت کی غرض سے کہیں‌ جاتے تو اس علاقہ اور شہر کے بارے میں جاننے کی سعی کرتے، اس کے جغرافیہ، تاریخ اور تمدن کو سمجھتے اور یہ شوق اور دل چسپی ان کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ انھیں ایک روز آقا نے آزاد کر دیا جس کے بعد یاقوت نے علمی میدان کو وسیلۂ روزگار بنایا۔ کچھ عرصہ بعد وہ اپنے سابق آقا کے پاس لوٹ آئے اور تجارتی اسفار میں بطور نگران ان کی معاونت کرنے لگے۔اس دوران یاقوت الحموی نے کئی منفرد جغرافیائی معلومات اکٹھی کیں، پھر وہ حلب چلے گئے اور وہاں سے خوارزم پہنچے اور وہیں‌ قیام کیا۔ بعد میں دوبارہ حلب آئے اور وہیں وفات پائی۔

    یاقوت الحموی کو جغرافیہ اور حساب کتاب سے خصوصی شغف تھا۔ انھوں نے جغرافیہ کے عنوان پر ایک معجم ترتیب دی جس کے مقدمے میں دیگر فنون کے علاوہ فنِ جغرافیہ پر انھوں نے خصوصی باب رقم کیے ہیں۔ یاقوت الحموی نے دور دراز کے اسفار کے دوران جن مختلف مقامات پر قیام کیا اور جو شہر اور قصبات دیکھے، وہاں‌ کے لوگوں کی مدد سے ان کی تفصیل لکھی اور اپنی جغرافیہ کی مہارت سے معلومات کو اس کے ساتھ درج کرکے کتابی شکل میں معجمُ البلدان میں محفوظ کردیا۔ اس مشہور کتاب میں انھوں‌ نے دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ زمین کے بارے میں بھی سائنسی تصورات کو بیان کیا ہے۔

  • بالزاک:‌ وہ ادیب جس کے قلم کی نوک معاشرے کے لیے نشتر ثابت ہوئی

    بالزاک:‌ وہ ادیب جس کے قلم کی نوک معاشرے کے لیے نشتر ثابت ہوئی

    بالزاک شاید دنیا کا وہ واحد مصنّف ہے جس نے اپنے ناولوں میں کئی کردار روشناس کرائے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا نام اپنے کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے۔ اس کی یہ خواہش پوری ہوئی اور اُسے فرانسیسی ادب کے مقبول ناول نگاروں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج بالزاک کا یومِ وفات ہے۔

    اپنی زندگی کے تجربات، سماجی رویّوں اور تبدیلیوں کا گہرا مشاہدہ کرتے ہوئے بالزاک کے اندر لکھنے کا شوق پیدا ہوا جو وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا اور بالزاک نے ایک حقیقت نگار کے طور پر قلم تھام لیا۔ وہ اُن اہلِ قلم میں سے ایک تھا جنھوں‌ نے یورپی ادب میں حقیقت پسندی کو رواج دیا اور اسی وصف کی بناء پر بالزاک کو فرانس میں بہت پسند کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر اس کے زورِ‌ قلم نے اپنے وقت کے مشاہیر کو اپنی جانب متوجہ کیا جن میں چارلس ڈکنز، ایملی زولا، گستاف فلابیر، ہینری جیمس کے نام شامل ہیں جب کہ فرانس کے عظیم فلم ساز فرانسوا تروفو اور فلم ڈائریکٹر و ناقد ژاک ریوت بالزاک سے بہت متأثر تھے۔ بالزاک کی تخلیقات کو فلمی پردے کے لیے ڈھالا گیا اور اس کی بدولت ادب اور فلم کی دنیا میں بالزاک کے پیش رو بھی اس سے بہت متأثر نظر آئے۔

    ہنری ڈی بالزاک نے 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد بالزاک نے پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازمت اختیار کرلی۔ بالزاک شروع ہی سے صحّت کے مسائل سے دوچار رہا اور ممکن ہے اسی باعث وہ حساس اور مضطرب ہوگیا اور اپنے انہی مسائل کے ساتھ وہ مطالعے کا عادی بنا اور پھر لکھنے کا آغاز کر دیا۔ بالزاک نے کہانیاں، ناول اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے جنھیں قارئین نے بے حد سراہا۔

    وکیل کے پاس اپنی ملازمت کے دوران بالزاک مسلسل لکھتا رہا۔ معاش کی فکر اور روزگار کی تلاش اسے پبلشنگ اور پرنٹنگ کے کام کی طرف بھی لے گئی، لیکن مالی آسودگی بالزاک کا مقدر نہیں‌ بنی۔ تب، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قلم کی مزدوری کرے گا اور نام و مقام بنائے گا۔ اس نے یہی کیا اور قسمت نے بالزاک کا ساتھ نبھایا۔

    یہاں ہم بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک نہایت دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو مختلف ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ بالزاک کی بہن کی شادی تھی اور ایک روز جب تمام رشتے دار گھر میں موجود تھے، بالزاک نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ پڑھ کر سنانے لگا۔ پورا ڈرامہ سنانے کے بعد بالزاک نے جب داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا، "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کے اس تبصرے کو اہمیت نہ دی اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر وہ دن دن بھی آیا جب فرانس اور بعد میں‌ بالزاک کو دنیا بھر میں ایک ناول نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر شہرت ملی۔

    اس فرانسیسی مصنّف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نوٹ بک اور پنسل اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ فرانس کی تاریخ، اور مقامی سطح پر ہونے والی ہر قسم کی اہم سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کو قلم بند کرنا چاہتا تھا اور جہاں بھی جاتا، بالخصوص فرانس کے مختلف علاقوں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا رہتا تھا، فرصت ملنے پر وہ ان مشاہدات کے مطابق کردار اور ان پر کہانیاں تخلیق کرتا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا تھا اور اپنے ناول یا ڈرامے میں انہی درختوں کے درمیان اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتیں۔

    بالزاک نے ٹھان لی تھی کہ ہر سال کم از کم دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے ضرور لکھے گا اور اس نے یہ کیا بھی۔ فرانس کے مصنّف نے کئی شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، اور 97 ناول لکھے۔ بوڑھا گوریو بالزاک کا وہ مقبول ناول ہے جس کا اردو زبان میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی اپنے کزن کی محبّت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ہنری ڈی بالزاک نے یہ ناول انقلابِ فرانس کے بعد اس معاشرے میں‌ جنم لینے والے نئے رحجانات کے پس منظر میں تخلیق کیا ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے جب کہ جزئیات نگاری کی وجہ سے بھی اسے بہت سراہا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب بالزاک کی ایک انفرادیت اس کے لمبے فقرے ہیں اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل موجود ہوتی ہے۔ بالزاک کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور اپنے احباب سے کہتا تھاکہ میں‌ قلم سے وہ کام لوں گا کہ لوگ مجھے فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بلاشبہ بالزاک نے اپنے زورِ قلم کو منوایا اور فرانسیسی معاشرے کا گویا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔ اس تخلیق کردہ کردار آج بھی فرانس ہی نہیں ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

    بالزاک کا ایک ادبی کارنامہ اور وجہِ شہرت وہ تخلیقات ہیں‌ جو بعنوان ہیومن کامیڈین شایع ہوئیں۔ اس میں بالزاک نے فرانس کے ہر شعبہ ہائے حیات اور ہر مقام سے کردار منتخب کرکے کہانیاں تخلیق کیں، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کی مؤثر ترجمانی کرتے ہیں۔

    بالزاک نے 18 اگست 1850ء کو پیرس میں وفات پائی، اسے دنیا سے گزرے ایک صدی اور کئی دہائیاں بیت چکی ہیں، لیکن ایک حقیقت نگار کے طور پر آج بھی اس کا نام زندہ ہے۔