Tag: اگست وفات

  • شاذ تمکنت: اردو شاعری کا ایک معتبر نام

    شاذ تمکنت: اردو شاعری کا ایک معتبر نام

    حیدر آباد دکن وہ ریاست تھی جس کے سلطان میر عثمان علی خان نے برصغیر میں اردو کی تعلیم اور علم و ادب کو پروان چڑھانے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اور اس زبان کی ترقی اور ادیب و شعراء کے لیے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی۔ اسی مرفّہ الحال ریاست میں شاذ تمکنت نے اس دنیا کے لوگوں‌ سے اپنا ناتا جوڑا تھا اور پھر حسبِ دستور رفتگاں میں ان کا نام شامل ہوگیا۔ 1985ء میں آج ہی کے روز اردو کے اس ممتاز شاعر کا انتقال ہو گیا تھا۔

    شاذ تمکنت کا اصل نام سیّد مصلح الدّین تھا۔ وہ 31 جنوری 1933ء کو دکن کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نظامِ دکن کے ہاں ملازم تھے۔ افتادِ دوراں نے والدین کو زندگی بسر کرنے کی زیادہ مہلت نہ دی۔ شاذ تمکنت نے ابتدائی تعلیم و تربیت کے ساتھ زندگی سے بہت کچھ سیکھا اور کم عمری میں‌ شاعری کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اس دور میں‌ ہندوستان میں کئی سیاسی تحریکیں چل رہی تھیں‌ اور معاشرہ بھی طرح‌ طرح‌ کی تبدیلیو‌ں سے گزر رہا تھا جب کہ اردو ادب ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر تھا جو بڑی حد تک کم بھی ہو رہا تھا۔ افسانہ و مختصر کہانیوں کا سلسلہ نئے موضوعات کے ساتھ جاری تھا، انقلاب آفریں شاعری اور تنقید کے میدان میں مختلف رجحانات زور پکڑ رہے تھے۔ ایسے میں‌ شاذ تمکنت نے روایتی اور جدید شاعری کے درمیان جو پُل تعمیر کیا وہ بجائے خود ایک دَور کا آئینہ دار ہے۔

    ان کی غزلوں اور نظموں میں جہاں ذاتی زندگی کے دکھ درد ملتے ہیں، وہیں ان کا دکھ، زمانہ کے عمومی تجربہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ شاذ تمکنت نے جب شعر کہنا شروع کیا، ترقی پسند تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین نے عوامی مصنفین کا چولا بدلا تھا۔ شاذ تمکنت بھی اسی سے وابستہ ہوئے لیکن ترقی پسند تحریک کی ادعائیت سے خود کو دور رکھا۔ اردو کی کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ کرنے والے شاذ تمکنت نے اپنے دور کے دو بڑے شاعروں جوش اور فراق سے اکتسابِ ہنر کیا اور بہت جلد اپنا طرزِ اظہار الگ کر لیا۔ وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام کے پیش لفظ میں اپنا نظریۂ فن یوں بیان کرتے ہیں: میں غمِ ذات اور غمِ کائنات کو علاحدہ علاحدہ خانوں میں نہیں بانٹتا بلکہ میری دانست میں غمِ ذات عبارت ہوتا ہے، غمِ کائنات سے۔ ایک فرد کا غم اس کا ا پنا ہوتے ہوئے بھی درپردہ افراد کے دکھ سکھ کی ترجمانی کرتا ہے۔ کائنات کے خارجی موضوعات بھی اس وقت تک کام یاب شعر کا جامہ نہیں پہن پاتے جب تک کہ اس میں شخصیت کا غم ذات کا پُٹ نہ ہو۔ میں شعر کسی پیغام کی خاطر یا درس دینے کے لیے نہیں کہتا۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ شعر ہو یا افسانہ، اوّل اوّل فن کار اپنی تسکین کے لیے، اپنی انا کو سکون بخشنے کی خاطر تخلیق کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ متاعِ ہنر آخر آخر اتنی دل پذیر ہو جائے کہ شاعر اپنے پر اہلِ دہر کا قیاس کرے۔

    نظم اور غزل کے علاوہ شاذ تمکنت نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ انہوں نے غالب اور اقبال کی غزلوں کی تضمینیں لکھیں۔ یہ تضمینیں اصل غزلوں سے اتنی مربوط اور ہم آہنگ ہیں کہ کہیں پیوند کاری کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ان کے علاوہ شاذ تمکنت کے ذخیرۂ کلام میں قطعات، گیت، نعت، اور مناجات بھی شامل ہیں۔

    شاذ تمکنت ایک نظم گو شاعر کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں‌، لیکن غزل میں بھی ان کی منفرد شناخت ہے۔ ان کی ابتدائی نظموں کا نمایاں وصف مرصّع مرقع نگاری ہے۔ ان کی بیش تر نظموں میں تشبیہی اور وصفی مرکبات ان کے اظہار کا جزوِ لاینفک ہیں۔ مرحوم کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں تراشیدہ (1966)، بیاضِ شام (1973)، نیم خواب (1977) اور دستِ فرہاد شامل ہیں۔ آخری مجموعۂ کلام بعد از مرگ 1994 میں شایع ہوا تھا۔ شاذ تمکنت کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
    تُو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے

    شاعر نے متعدد مناجات بھی لکھی ہیں جن میں‌ سے ایک "کب تک مرے مولا ” کو ہندوستان کے معروف گلوکاروں نے گایا ہے۔ یہ ان کی مقبول مناجات میں شامل ہے۔ شاذ تمکنت کا ایک گیت ”سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو” بھی پاک و ہند کے معروف گلوکاروں کی آواز میں بہت مقبول تھا۔

  • امام بخش ناسخ کا دبستانِ لکھنؤ اور اصلاحِ زبان

    امام بخش ناسخ کا دبستانِ لکھنؤ اور اصلاحِ زبان

    اردو ادب میں لکھنؤ کے ناسخ کو کلاسیکی دور میں اپنی شاعری کے سبب امتیاز بھی حاصل ہے اور وہ رجحان ساز بھی کہلائے۔ اصلاحِ زبان کے لیے ناسخ کو یاد رکھا جائے گا اور دبستانِ لکھنؤ کے لیے بھی ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج استاد امام بخش ناسخ کا یومِ وفات ہے۔

    امام بخش ناسخ نے اپنے زمانے میں نہ اردو صرف و نحو پر کام کیا بلکہ روز مرّہ اور محاورات کی چھان پھٹک کی اور اس کے قاعدے بھی مقرر کیے۔ ناسخ نے اردو شاعری کو سنگلاخ زمینوں اور الفاظ کا اسیر ضرور بنایا، لیکن دبستانِ لکھنؤ بھی انہی کے دَم سے قائم ہوا اور اصلاحِ زبان کے ضمن میں ان کے وضع کردہ کئی اصول اور اہم تبدیلیاں ایسی ہیں کہ لکھنؤ میں ناسخ کی زبان کسوٹی بن گئی۔

    شیخ امام بخش ناسخ اردو شاعری میں ایک عہد ساز شخصیت کا نام ہے۔ ان کو شاعری کے دبستانِ لکھنؤ کا بانی کہا جاتا ہے۔ غزل میں ناسخ سے پہلے لکھنؤ بھی دلّی ہی کا معترف تھا لیکن بعد میں سیاسی اثرات ایسے پڑے کہ لکھنؤ والوں میں، زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی جداگانہ شناخت کی طلب جاگ اٹھی۔ دلّی کا برائے نام راج رہ گیا تھا اور آئے روز بگڑتے ہوئے حالات اور انگریزوں کی وجہ سے منظر نامہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اس زمانے میں جب ناسخ نے دلّی کا لب و لہجہ اور لفظیات چھوڑ کر شاعری کی تو لکھنؤ میں ان کا چرچا ہونے لگا اور سبھی ان کے اسلوب کو اپنانے لگے۔ ناسخ نے جو بنیاد رکھی تھی، ان کے شاگردوں نے اس کی عمارت کو بلند کیا اور باقاعدہ دبستانِ لکھنؤ وجود میں آ گیا اور اردو شاعری پر چھا گیا۔ نازک خیالی، پُرشکوہ اور بلند آہنگ الفاظ کا استعمال اور داخلیت سے زیادہ خارجیت پر اس دور کے شعراء زور دینے لگے۔

    امام بخش ناسخ کا بچپن والد کے سائے سے محروم تھا۔ امام بخش ناسخ کا سنہ پیدائش 1772ء ہے اور وفات 16 اگست 1838ء کو ہوئی تھی۔ وہ فیض آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ والد کے بعد ان کو لکھنؤ کے ایک تاجر نے گود لیا اور وہیں پروان چڑھے۔ مال دار گھرانے میں‌ رہنے کے سبب ان کی اچھی پرورش ہوئی اور اعلیٰ تعلیم دلائی گئی۔ بعد میں وہ اسی تاجر کی جائیداد کے وارث بھی بنے۔ یوں ناسخ خوش حال اور فارغ البال تھے۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی۔ اردو کے اس ممتاز شاعر کا ایک حوالہ پہلوانی بھی ہے۔ ناسخ خوب تن و توش کے تھے۔ ورزش کا شوق تھا۔ بدن کسرتی اور پھرتیلا تھا۔جیسا کہ ہم نے بتایا وہ ایک مال دار گھرانے کے فرد تھے اور ان کے محمد حسین آزاد کے بقول ناسخ کے تین شوق تھے۔ اوّل کھانا، دوسرا ورزش کرنا اور تیسرا شوق شاعری کا تھا۔ انھیں حاسد طنزاً پہلوانِ سخن بھی کہتے تھے۔

    ناسخ اپنی شاعری میں لفظوں کے نئے نئے تلازمے تلاش کر کے ان کے لئے نئے استعارے وضع کرتے ہیں، ناسخ لفظوں کے پرستار تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے معنیٰ ثانوی اہمیت رکھتے تھے۔ یہ کہنا درست ہے کہ ان کا کلام عربی کے ثقیل اور نہایت بھاری الفاظ کے علاوہ اکثر بے مزہ اور بہت سے اشعار کا مضمون رکیک بھی ہے۔ لیکن بعض اشعار ایسے ہیں جن میں‌ نزاکتِ خیال اور معنی آفرینی انتہا کی ہے۔ نقّادوں کا خیال ہے کہ ناسخ تصویر تو بہت خوب بناتے تھے لیکن اس میں روح پھونکنے سے عاجز رہے۔

  • ’’کنگ آف راک‘‘ ایلوس پریسلے کا تذکرہ

    ’’کنگ آف راک‘‘ ایلوس پریسلے کا تذکرہ

    آج بھی دنیا بھر سے ایلوس پریسلے کے پرستار ان کی میمفس میں ان کی جائے سکونت گریس لینڈ وِلا کی طرف جاتے ہیں اور وہاں کھڑے ہو کر اپنے محبوب گلوکار کو یاد کرتے ہیں۔ یہ تعداد سالانہ چھے لاکھ تک پہنچتی ہے۔ ایلوس پریسلے کے گیتوں کے ریکارڈ آج بھی بڑی تعداد میں‌ خریدے جاتے ہیں جس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    شہرۂ آفاق گلوکار ایلوس پریسلے کی شخصیت کا سحر اب بھی برقرار ہے اور ’’کنگ آف راک‘‘ کہلانے والے ایلوس پریسلے کے فن و شخصیت پر بھی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ 1977ء میں وہ اپنی شہرت کے بامِ عروج پر تھے جب دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ 16 اگست کو وفات پانے والے ایلوس پریسلے 42 سال جیے۔ آج بھی پاپ میوزک کی دنیا میں ان کا نام زندہ ہے اور وہ ایسے فن کار بھی ہیں‌ جن کی مقبولیت موت کے بعد بھی کم نہیں‌ ہوئی ہے۔

    ایلوس آرون پریسلے ان کا پورا نام تھا اور وہ 8 جنوری 1935ء کو ایک غریب امریکی خاندان میں پیدا ہوئے۔ پریسلے کے والدین کا ہاتھ ہمیشہ تنگ رہتا تھا۔ وہ مسی سپی کے چھوٹے سے شہر ٹوپیلو کے میں پلا بڑھا۔ والدین اپنے بیٹے کو باقاعدگی سے چرچ لے جاتے تھے جہاں ایلوس کو موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوا۔ موسیقی سے ننھّے ایلوس کی انسیت وقت کے ساتھ بڑھتی رہی اور وہ وقت بھی آیا جب ’’ہارٹ بریک ہوٹل‘‘ نامی ایک گیت نے نوجوان گلوکار کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ گیت ایلوس پریسلے نے 1956ء میں گایا تھا۔ اس زمانے میں نوجوان نسل نے ایک نئی اور منفرد آواز سنی تھی جس میں‌ فن کار اپنے گٹار کے ساتھ جھومتا ہوا سیدھا ان کے دلوں‌ میں اتر گیا۔ سبھی اُس کے دیوانے ہوگئے۔

    امریکی نوجوانوں پر اپنا جادو چلانے والے ایلوس پریسلے نے موسیقی کے میدان میں وہ کام یابیاں سمیٹیں کہ جلد ہی پوری دنیا میں پہچانے جانے لگے۔ اُن کے گیتوں کے ریکارڈ بڑی تعداد میں فروخت ہوئے۔ ایلوس پریسلے نے کئی شان دار کنسرٹس کیے۔ لیکن شہرت اور مقبولیت کے زینے طے کرتے ہوئے وہ کثرتِ شراب نوشی اور منشیات کا استعمال بھی کرنے لگے تھے اور بالآخر گریس لینڈ میں ان کی زندگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

    اس بے مثال فن کار نے اپنے کیریئر کے دوران 800 سے زیادہ گیت گائے اور 33 فلموں میں بطور ہیرو بھی جلوہ گر ہوئے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت پاپ میوزک ہے۔

    ایلوس کی بیٹی لیزا میری پریسلے کی شادی 1994ء میں پاپ میوزک کے بے تاج بادشاہ مائیکل جیکسن کے ساتھ ہوئی تھی جو دو سال سے بھی کم عرصہ تک برقرار رہ سکی۔ وہ بھی گلوکارہ اور نغمہ نگار کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔ رواں برس جنوری میں لیزا بھی اچانک انتقال کرگئی تھیں اور ان کی موت کا سبب فربہی سے نجات پانے کے لیے کروائی گئی سرجری بتائی گئی تھی۔

  • مولوی عبدالحق اور فلم ”ہماری زبان”

    مولوی عبدالحق اور فلم ”ہماری زبان”

    مولوی عبدالحق کی خدمات کے بارے میں ممتاز فکشن نگار کرشن چندر نے کہا تھاکہ "جو کام مہاتما گاندھی نے ہندوستان کے لیے اور قائدِ اعظم نے پاکستان کے لیے کیا وہی کام مولوی عبدالحق نے اردو کے لیے کیا ہے۔” مولوی عبدالحق ماہرِ لسانیات، محقق اور ادیب تھے جنھیں بابائے اردو بھی کہتے ہیں۔ آج مولوی عبدالحق کی برسی منائی جارہی ہے۔

    بابائے اردو کے لقب سے مشہور مولوی عبدالحق نے 20 اپریل 1870 کو متحدہ ہندوستان کے ایک ضلع میرٹھ کے قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی اور 1894 میں عبدالحق نے علی گڑھ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی۔ یہ وہی علی گڑھ تھا جس میں انھیں سَر سید احمد خان جیسے عالی مرتبت کا قرب نصیب ہوا اور مولوی عبدالحق نے اُن کے افکار اور نظریات کا گہرا اثر لیا۔ علم و ادب میں مولوی صاحب کی دل چسپی اور انہماک اس قدر بڑھا کہ جس کے باعث مرفہ الحال ریاست دکن کے فرماں روا میر عثمان علی خان نے اردو کی تعلیم و فروغ، زبان و ادب کی ترویج اور اشاعت سے متعلق ذمہ داریاں سونپتے ہوئے خطیر رقم بھی ان علمی و ادبی کاموں کے لیے ان کو دی۔

    1895ء میں مولوی صاحب کو حیدرآباد دکن میں ایک اسکول میں ملازمت ملی اور وہ استاد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور بعد میں صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد بھیج دیے گئے۔ اس ملازمت کو ترک کرکے عثمانیہ کالج، اورنگ آباد کے پرنسپل ہوئے اور 1930ء میں اس عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

    فارسی اور اُردو ادب کے علاوہ انھیں تاریخ و فلسفہ میں گہری دل چسپی نے مطالعہ کی طرف راغب کیا اور عبدالحق کی کتابوں سے گہری دوستی ہوگئی جس نے وقت کے ساتھ انھیں غور و فکر کا عادی بنایا اور وہ نثر و نظم کو بحیثیت نقاد اور محقق پرکھنے لگے۔
    اس کے ساتھ مولوی صاحب نے خود بھی لکھنا شروع کردیا اور انھیں املا انشاء اور زبان و بیان پر عبور کی بدولت ماہرِ لسانیات کے طور پر پہچان ملی۔ بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے یوں تو متعدد علمی اور ادبی کارنامے گنوائے جاسکتے ہیں، لیکن اردو زبان کے لیے ان کی علمی اور تحقیقی کاوشوں کی وجہ سے انھیں‌ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    ان کے ایک مضمون سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے جس میں وہ مطالعہ اور مفید اور معلوماتی کتب کے بارے میں لکھتے ہیں، پڑھنے کی عادت بہت اچھی ہے، لیکن پڑھنے پڑھنے میں فرق ہے اور کتاب کتاب میں فرق ہے۔

    اس تحریر میں آگے چل کر وہ لکھتے ہیں، بغیر کسی مقصد کے پڑھنا فضول ہی نہیں مضر بھی ہے۔ جس قدر ہم بغیر کسی مقصد کے پڑھتے ہیں اسی قدر ہم ایک بامعنیٰ مطالعہ سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ ملٹن نے ایک جگہ کہا ہے ’’اچھی کتاب کا گلا گھونٹنا ایسا ہی ہے جیسا کسی انسان کا گلا گھوٹنا۔‘‘ جس سے اس کی مراد یہ ہے کہ فضول اور معمولی کتابوں کے پڑھنے میں عزیز وقت ضائع کرنا اچھی کتابوں کا گلا گھوٹنا ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں وہ ہمارے لیے مردہ ہے۔

    مولوی عبدالحق نے اردو میں تنقید و مقدمہ نگاری کے علاوہ مختلف تصانیف، تالیفات پر تبصرہ اور جائزہ لینے کے فن کو ایک نیا ڈھنگ عطا کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بابائے اردو نے انجمن ترقیِ اردو کی بنیاد رکھتے ہوئے اسے ایک فعال ترین تنظیم اور علمی ادارہ بنایا اور اس انجمن کے تحت لسانیات اور جدید علوم سے متعلق کتابوں کی اشاعت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اسی انجمن کی تحریک اور کوششوں کی بدولت اردو آرٹس کالج، اردو سائنس کالج، اردو کامرس کالج اور اردو لا کالج قائم کیے گئے۔

    مولوی عبدالحق نے نظام میر عثمان علی خان کی ذاتی دل چسپی سے قائم کردہ جامعہ عثمانیہ جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا، کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں اور اردو لغت، فنون و سائنسی اصطلاحات کے اردو تراجم کا ایک بڑا اثاثہ ہمارے لیے چھوڑ گئے۔

    یہاں ہم ایک دل چسپ بات اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ مولومی صاحب نے ایک فلم میں اداکاری بھی کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کراچی میں بننے والی پہلی فلم تھی۔ اس فلم کا نام ”ہماری زبان” تھا۔ اس میں چند مناظر بہ طور اداکار مولوی عبدالحق نے بھی عکس بند کروائے تھے۔ اس وقت بھی ان کا نام زبان و ادب کے حوالے سے نہایت معتبر اور مشہور تھا۔ لوگ ان کی بڑی عزّت کرتے تھے اور اس موضوعاتی فلم کے تشہیری بورڈ پر بطور اداکار ان کا نام شامل ہونا عام لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔ یہ ڈاکیومینٹری طرز کی فلم تھی جو یہ فلم 10 جون 1955ء کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس فلم میں‌ اردو سے متعلق یہ نغمہ شامل تھا:

    ہماری زبان اردو، قومی زبان اردو
    اونچا رہے گا ہر دَم نام و نشان اردو

    بابائے اردو کی تصانیف، تالیف کردہ کتب میں چند ہم عصر(شخصی خاکے)، مخزنِ شعرا، اردو صرف و نحو، افکارِ حالی، سر سید احمد خان، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ بہت اہم ہیں‌۔

    16 اگست 1961 کو کراچی میں وفات پانے والے مولوی عبدالحق کو وفاقی اردو یونیورسٹی کے عبد الحق کیمپس کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • رحمٰن ورما: ایک بھولا بسرا موسیقار

    رحمٰن ورما: ایک بھولا بسرا موسیقار

    پاکستان میں فلمی دنیا کا ایک نام رحمٰن ورما ہے جنھیں باصلاحیت موسیقار کی حیثیت سے پہچان ملی لیکن آج بہت کم لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہیں۔ 11 اگست 2007ء کو موسیقار رحمٰن ورما وفات پاگئے تھے۔

    رحمٰن ورما اپنے وقت کے نام وَر موسیقار جی اے چشتی کے شاگرد تھے۔ بطور موسیقار رحمٰن ورما کی پہلی فلم باغی (1956) تھی جو کام یاب رہی۔ اس فلم کے بعد ان کی ایک اور فلم کام یاب ہوئی اور رحمٰن ورما کو ایکشن اور کاسٹیوم فلموں کا بہترین موسیقار سمجھا جانے لگا۔ وہ انڈسٹری میں ورما جی کے نام سے مشہور تھے۔

    موسیقار رحمٰن ورما کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا۔ وہ 1927ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی انھوں نے موسیقار کی حیثیت سے فلموں کے لیے کام کیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد رحمٰن ورما پاکستان آگئے۔

    پاکستان میں 1955ء میں رحمٰن ورما نے دیارِ حبیب کے لیے ایک نعت ریکارڈ کروائی جو بہت مقبول ہوئی اور یہاں اپنا فلمی سفر شروع کیا۔ رحمٰن ورما نے اردو اور پنجابی گیتوں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ بطور سولو موسیقار ان کی پہلی فلم ’’باغی‘‘ جب کہ آخری فلم ’’دارا‘‘ تھی جو 1976ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ موسیقار رحمٰن ورما نے مجموعی طور پر 32 فلموں کی موسیقی ترتیب دی، جن میں دربار، آخری نشان، عالم آرا، ایک تھی ماں، بیٹا، کالا پانی، خاندان، نبیلہ، غدار، سسی پنہوں، سرِفہرست ہیں۔

  • کرار نوری:‌ ایک شاعر، صحافی اور مترجم

    کرار نوری:‌ ایک شاعر، صحافی اور مترجم

    کرار نوری کے نام اور علم و ادب کی دنیا میں ان کے مقام سے نئی نسل کی اکثریت ناواقف ہوگی، لیکن ان کا مستند حوالہ شاعری ہے جب کہ ریڈیو پاکستان ان کی پہچان ہے۔ ایک ادیب، مترجم اور صحافی کی حیثیت سے بھی کرار نوری نے اپنی شناخت بنائی اور 1990ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔

    کرار نوری کا اصل نام سیّد کرار میرزا تھا۔ وہ اپنے وقت کے عظیم شاعر مرزا غالب کے ایک شاگرد آگاہ دہلوی کے پَر پوتے تھے۔ ان کا وطن جے پور، دہلی تھا۔ کرار نوری 30 جون 1916ء کو پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے پنجاب کے شہر راولپنڈی چلے آئے اور وہاں‌ کچھ عرصہ قیام کے بعد کراچی کا رخ کیا اور یہاں‌ آکر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو پاکستان میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کرار نوری نے ادبی سفر بھی جاری رکھا۔ وہ متعدد اخبار و جرائد سے بھی منسلک رہے۔

    کرار نوری نے شہرِ قائد کے علمی و ادبی حلقوں‌ میں اپنی شاعری کے ذریعے پہچان بنائی تھی۔ ان کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ کرار نوری کا نعتیہ کلام بھی ’’میزانِ حق‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آیا۔ انھیں کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

    کرار نوری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے
    لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے

    ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا
    کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے

    کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے
    محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے

    حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح
    تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے

    نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں
    ہم دامنِ حیات پکڑ کر مچل گئے

  • فلمی گیتوں‌ کی شوخ اور چنچل دھنیں ترتیب دینے والے مصلح الدّین

    فلمی گیتوں‌ کی شوخ اور چنچل دھنیں ترتیب دینے والے مصلح الدّین

    مصلح الدّین ایک باصلاحیت موسیقار تھے جنھوں نے پاکستان میں فلمی صنعت کے لیے کئی دھنیں ترتیب دیں اور ان کے گیت پاکستانی گلوکاروں کی آواز میں بہت مقبول ہوئے۔ آج مصلح الدّین کی برسی منائی جارہی ہے۔

    موسیقار مصلح الدّین کی پہلی فلم آدمی تھی جو 1958 میں ریلیز ہوئی جب کہ ایک فلمی میگزین کے مطابق آوارہ وہ فلم تھی جس کے لیے انھوں نے 1968 میں موسیقی ترتیب دی تھی۔ مصلح الدّین نے ناہید نیازی سے شادی کی تھی جو پاکستان کی ایک نہایت مشہور گلوکارہ ہیں اور اپنے زمانے میں کئی فلموں کے لیے ان کی آواز میں ریکارڈ ہونے والے گیت مقبول ہوئے۔ اس جوڑی نے پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی موسیقی کا پروگرام کیا تھا جو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ مصلح الدّین کا تعارف فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کے بعد ہی ناہید نیازی سے ہوا تھا اور بعد میں وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے تھے۔ ناہید نیازی وہ گلوکارہ تھیں‌ جنھوں نے پاکستان میں‌ فلمی صنعت کے لیے کام کے دوران 1960 سے لے کر 1970 تک بے انتہا عروج دیکھا۔

    موسیقار مصلح الدّین 7 اگست 2003 کو برطانیہ میں وفات پاگئے تھے۔ پاکستان کی تقسیم کے بعد وہ اپنے کنبے کے ساتھ برطانیہ چلے گئے تھے۔ مصلح الدّین بنگال پریذیڈنسی (بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے تھے اور 1956ء میں پاکستان آئے تھے۔ ان کا سنہ پیدائش 1932 ہے۔ مصلح الدّین ایک تعلیم یافتہ شخص تھے اور ڈھاکا یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد پاکستان میں انھوں لاہور کو اپنا مستقر ٹھیرایا تھا۔ یہاں وہ فلمی صنعت سے بطور موسیقار وابستہ ہوئے۔ چند سال بعد پاکستان دو لخت ہوگیا اور انھوں نے بنگلہ دیش یا پاکستان میں رہنے کے بجائے برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا۔ لاہور میں مصلح الدّین کی ملاقات ہدایت کار لقمان سے ہوئی اور مصلح الدّین کی بنائی ہوئی دھنیں سن کر انھوں نے اپنی فلم ’’آدمی‘‘ کی موسیقی ترتیب دینے کی پیشکش کردی۔ یوں مصلح الدّین کا فلم انڈسٹری میں بطور موسیقار یہ پہلا قدم تھا۔ یہ فلم کام یاب رہی اور مصلح الدّین نے دیگر فلم سازوں کو بھی اپنے کام کی وجہ سے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اس کے بعد انھیں فلم راہ گزر، ہم سفر، زمانہ کیا کہے گا، دال میں کالا، دل نے تجھے مان لیا، جوکر، جوش، جان پہچان کی موسیقی ترتیب دینے کا موقع ملا اور ان کی کام یابی کا سفر جاری رہا۔

    ہم سفر وہ فلم تھی جس کے لیے مصلح الدّین نے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ مصلح الدّین ایک باصلاحیت فن کار تھے اور ایسے موسیقار جس نے اپنے شعبے میں تجربات اور غیرملکی موسیقی کی آمیزش کرکے اسے زیادہ پُراثر بنانے کی کوشش کی۔انھوں نے مغربی اور عربی موسیقی سے خوب استفادہ کیا، لیکن ان میں بنگالی طرز کی چاشنی شامل کر کے اسے زیادہ منفرد اور سحر انگیز بنایا۔ اسے ماہر موسیقار اور ناقدین مصلح الدّین کی مہارت اور اپنے فن میں‌ ان کا کمال کہتے ہیں۔

    پاکستانی موسیقار مصلح الدّین کی موسیقی میں جو گیت مقبول ہوئے ان میں ایک گیت کے بول ہیں، زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ، اس جہاں میں کاش کوئی دل لگائے نہ….، اس طرح بل کھاتی ہوئی، لہراتی ہوئی، چلی رے چلی رے، دل چھین کے… بھی مشہور گیت ہے۔ مصلح الدّین، عام طور شوخ اور چنچل دھنوں کو پسند کرتے تھے۔ دو معروف بھارتی گلوکاروں آشا بھونسلے اور ہیمنت کمار سے بھی انھوں نے اپنے گیت گوائے تھے۔

  • علی سردار جعفری: ممتاز ترقی پسند شاعر

    علی سردار جعفری: ممتاز ترقی پسند شاعر

    علی سردار جعفری کا شمار ترقی پسند تحریک سے وابستہ ممتاز شعرا میں ہوتا ہے جن کی شخصیت ہمہ جہت پہلوؤں کی حامل تھی۔ وہ شاعر بھی تھے، نقّاد بھی اور نثر میں‌ ادبی موضوعات پر انھوں نے توصیفی اور تنقیدی مضامین، افسانے و ڈرامے اور اپنی یادداشتوں اور ادبی تذکروں پر مبنی تحریریں‌ یادگار چھوڑی ہیں۔

    علی سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے پلیٹ فارم سے اپنے افکار و نظریات کی ترویج و تبلیغ تمام عمر کرتے رہے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے عالمی سطح پر امن و آشتی، بھائی چارے اور انسان دوستی کا پرچار کیا۔ وہ فرد کی آزادی اور ترقی و خوش حالی کے لیے نظمیں لکھتے رہے اور ہر خاص و عام نے ان کے کلام کو سراہا۔ آج علی سردار جعفری کا یومِ وفات ہے۔

    بنیادی طور پر علی سردار جعفری نظم کے شاعر تھے لیکن انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں اور گیت نگاری بھی کی ہے جن کا خاصہ یہ ہے کہ وہ مسلسل اور مربوط ہیں اور ایک جذباتی رو اُن میں پائی جاتی ہے۔ ان کے کلام ایک ایسا صوتی آہنگ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ علی سردار جعفری ایک درد مند انسان تھے جس نے قوم اور فرد کی آزادی اور ترقی کا خواب دیکھا اور اپنی شاعری میں سجا کر اہلِ ادب اور عوام کے سامنے پیش کیا۔

    بلرام پور (ضلع گونڈہ، اودھ) میں 29 نومبر 1913ء کو پیدا ہونے والے علی سردار جعفری ممبئی میں یکم اگست 2000ء کو وفات پاگئے تھے۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر نے ایک موقع پر اپنے حالاتِ زندگی، تعلیم و تربیت اور اپنے ادبی سفر کا احوال یوں بتایا تھا: میرا نام اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ آج تک اس نام کا دوسرا آدمی نہیں ملا۔ ہاں سردار علی نام کسی قدر عام ہے۔ حافظ شیرازی کے ایک قصیدے میں علی سردار اس طرح استعمال ہوا ہے کہ میرے نام کا سجع بن جاتا ہے۔

    انھوں‌ نے اپنی تعلیم اور مشاغل و معمولاتِ نوعمری سے متعلق بتایا، سب سے پہلے گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے سلطان المدارس لکھنؤ بھیج دیا گیا، وہاں جی نہیں لگا۔ ایک مولوی صاحب کے گھر قیام تھا۔ وہاں بھی جی نہیں لگا اور میں فرار ہو کر بلرام پور واپس چلا گیا۔ بلرام پور کے انگریزی اسکول لائل کالجیٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ کھلی فضا تھی، اچھے استاد تھے، ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں تھیں۔ صبح ناشتہ کر کے گھر سے اسکول جانا اور شام کو چار بجے پھر واپس آکر ناشتہ کرنا، اور میل ڈیڑھ میل دور ایک پریڈ گراؤنڈ میں پیدل جا کر دو گھنٹے کرکٹ، ہاکی کھیلنا روز کا معمول تھا۔

    علی سردار جعفری کے مطابق، اسی زمانے میں انیسؔ کے زیرِ اثر شاعر شروع کی۔ 1933ء میں بیس سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ (ابتدائی تعلیم کے چند سال ضائع ہوگئے تھے)

    یہ ایک طوفانی زمانہ تھا جب تحریکِ آزادی اپنے شباپ پر تھی۔ اس عہد کے علی گڑھ نے اردو زبان کو اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، منٹو، مجاز، جاں نثار اختر، جذبی، خواجہ احمد عباس، جلیل قدوائی، اختر انصاری، شکیل بدایونی، عصمت چغتائی اور 1940ء کے آس پاس اخترالایمان کا تحفہ دیا۔ وہاں خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر رشید جہاں، ڈاکٹر محمد اشرف وغیرہ سے تعارف ہوا اور جن کی صحبت اور فیض نے ذوقِ ادب اور آزادی کے جذبے کو جلا عطا کی۔

    ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا اور دہلی جا کر اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ یہ وہ تاریخی کالج تھا جو دہلی کالج کے نام سے ایک بڑا تعلیمی کردار ادا کرچکا تھا۔ وہاں داخلہ دلوانے میں جلیل قدوائی اور اختر انصاری نے مدد کی۔ اس واقعہ کے پچاس سال بعد 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ (D.Litt.) کی اعزازی ڈگری سے عزت افزائی کی۔ یہ میرے لیے اس اعتبار سے بہت بڑا اعزاز تھا کہ مجھ سے پہلے اعزازی ڈگری شعراء کی فہرست میں علامہ اقبال، مسز سروجنی نائیڈو اور حضرت جگر مراد آبادی کو عطا کی گئی تھی۔

    وقت گزرا تو جہاں انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مقام بنایا اور ترقی پسند دانش ور اور مصنّف کے طور پر مشہور ہوئے، وہیں آزادی کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد کا زمانہ بھی یہی تھا اور علی سردار جعفری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے متحرک اور فعال رکن بھی بن چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں، جواہر لال نہرو سے اسی زمانے میں ملاقات ہوئی اور ملاقات کا یہ شرف آخر دن تک قائم رہا۔ ان کے انتقال سے دو ماہ قبل تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی نے ایک چھوٹا سا مشاعرہ پنڈت جی کی تفریح طبع کے لیے کیا تھا، جس میں فراقؔ، سکندر علی وجدؔ اور مخدوم محی الدّین بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی نظم “میرا سفر” فرمائش پر سنائی تھی۔

    علی سردار جعفری کا تعلمی سفر درجہ بہ درجہ جاری تھا اور اسی دوران وہ شاعری اور کمیونسٹ پارٹی کے بینر تلے اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی مگن تھے، وہ اس بارے میں وہ لکھتے ہیں، دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں لکھنؤ آ گیا۔ پہلے مجازؔ کے ساتھ قانون کی تعلیم کے لیے ایل۔ ایل۔ بی میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد اس کو چھوڑ کر انگریزی ادب کی تعلیم کے لیے ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ لیکن آخری سال کے امتحان سے پہلے جنگ کی مخالفت اور انقلابی شاعری کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل اور بنارس سنٹرل جیل میں تقریباً آٹھ ماہ قید رہا اور پھر بلرام پور اپنے وطن میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی دسمبر 1941ء میں ختم ہوئی۔

    لکھنؤ میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر احمد وغیرہ کی صحبت رہی۔ وہیں پہلی بار ڈاکٹر ملک راج آنند سے ملاقات ہوئی۔ 1938ء میں کلکتہ میں ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شانتی نکیتن جا کر ٹیگور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں بلراج ساہنی سے ملاقات ہوئی جو ہندی پڑھاتے تھے۔

    1943ء میں بمبئی آنا ہوا۔ سجاد ظہیر کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار ’قومی جنگ‘ میں صحافتی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس محفل میں بعد کو سبط حسن، مجازؔ، کیفیؔ، محمد مہدیؔ وغیرہ شامل ہوئے۔ آہستہ آہستہ بمبئی اردو ادب کا مرکز بن گیا۔ 1949ء کے بعد بمبئی میں جوشؔ، ساغر نظامی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، میرا جی، اخترالایمان، سجاد ظہیر، ساحرؔ، کیفیؔ، مجروحؔ، حمید اختر اور بہت سارے سربرآوردہ ادیب جمع ہوگئے۔ اس زمانے کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی اجلاس نے پوری اردو دنیا میں ایک دھوم مچا رکھی تھی۔ باہر سے آنے والے ادیب ان اجلاسوں میں بڑی مسرت سے شریک ہوتے تھے۔

    1949ء میں جو ہندوستانی سیاست کا ہیجانی دور تھا اور کمیونسٹ پارٹی کی انتہا پسندی اپنے شباب پر تھی، حکومت ہند کی طرف سے پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ میں بمبئی میں دو بار گرفتار کیا گیا۔ پہلی بار پندرہ دن کے لیے۔ دوسری بار ڈیڑھ سال کے لیے۔ یہ زمانہ بمبئی کے آرتھر روڈ جیل اور ناسک کی سنٹرل جیل میں گزرا۔ 1950ء میں یکایک رہا کر دیا گیا۔ وہ عید کی شام تھی۔ دوسرے دن صبح ہی صبح بمبئی آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ عید کا دن تھا۔

    علی سردار جعفری کی ادبی تخلیقات میں ان کی نظموں کے مجموعہ پرواز (1943)، نئی دنیا کو سلام (طویل تمثیلی نظم، 1948)، امن کا ستارہ (دو طویل نظمیں 1950ء)، ایک مجموعہ پتھر کی دیوار (1953ء) اور لہو پکارتا ہے (1968ء) میں شایع ہوئے جب کہ افسانوں کی کتاب منزل (1938ء)، ڈراموں کا مجموعہ یہ خون کس کا ہے (1943ء) اور کتاب لکھنؤ کی پانچ راتیں (1965ء) جب کہ اقبال شناسی (1969ء) میں شایع ہوئی۔ فلم کے لیے بھی انھوں نے گیت نگاری کی اور مصنّف بھی رہے جب کہ ادبی خدمات کی بنیاد پر علی سردار جعفری کو بھارت میں پدم شری ایوارڈ، جب کہ اقبال میڈل (تمغائے امتیاز) حکومتِ پاکستان نے 1978ء میں دیا تھا، اسی طرح خصوصی تمغہ ماسکو (ستّر سالہ جشن پیدائش پر) 1984ء میں عطا کیا گیا۔ 1997ء میں وہ گیان پیٹھ ایوارڈ کے حقدار بنے۔ کئی دوسرے ادبی انعامات اور اعزازات بھی علی سردار جعفری کو دیے گئے تھے۔

    علی سردار جعفری نے شاعری کے علاوہ ڈرامے بھی لکھے اور افسانہ نگاری بھی کی۔ وہ ممبئ سے چھپنے والے سہ ماہی "نیا ادب” کے مدیر تھے۔ انھوں نے شیکسپئر کی چند تحریروں کا اردو میں ترجمہ کیا اور کچھ دوسرے تراجم بھی کیے۔

  • ‘ہیومن کامیڈی’ سے شہرت پانے والے بالزاک کا تذکرہ

    ‘ہیومن کامیڈی’ سے شہرت پانے والے بالزاک کا تذکرہ

    بالزاک شاید دنیا کا واحد مصنّف ہے جس نے اپنے ناولوں میں کئی کردار روشناس کرائے۔ وہ لکھنا چاہتا تھا اور اپنا نام ان لوگوں میں شامل کروانے کا خواہش مند تھا جنھیں ان کے کام کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ بالزاک اس مقصد میں کام یاب رہا۔ اس کا نام فرانسیسی زبان کے مقبول ناول نگاروں‌ میں شامل ہے۔

    اونورے بالزاک 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ بالزاک نے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازم ہوگیا۔ لیکن اس دوران لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وہ پبلشنگ اور پرنٹنگ کی طرف بھی گیا، لیکن مالی آسودگی نصیب نہ ہوئی اور پھر ادب تخلیق کرنا ہی اس کا مشغلہ ٹھیرا۔ بالزاک نے متعدد شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، جن میں اس کے ناولوں کی تعداد 97 ہے۔ بوڑھا گوریو اس کا ایک مقبول ناول ہے جس کا اردو ترجمہ قارئین نے بے حد پسند کیا۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی کو کزن سے محبت ہو جاتی ہے۔ فرانسیسی ناول نگار ہنری ڈی بالزاک کی یہ تخلیق انقلابِ فرانس کے بعد فرانسیسی معاشرے میں‌ جنم لیتے نئے رحجانات کے پس منظر میں ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے اور جزئیات نگاری بھی کمال کی ہے۔

    اونورے بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک واقعہ بھی نہایت دل چسپ ہے اور یہ وہ موقع تھا جب اس گھر میں اس کی بہن کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں، بالزاک کے تمام رشتے دار ایک کمرے میں موجود تھے جہاں مصنّف نے اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ انھیں پڑھ کر سنانا شروع کردیا۔ جب وہ خاموش ہوا اور منتظر تھا کہ اب یہ سب اس کی تعریف کریں گے تو بالزاک کو شدید مایوسی ہوئی۔ سب نے کہا "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان مصنّف نے اس بات کو مسئلہ نہیں بنایا۔ وہ مسلسل لکھتا رہا اور ایک دن ایسا آیا جب فرانس میں اس کا چرچا ہوا اور بعد میں‌ دنیا بھر میں بالزاک کو مصنّف اور ناول نگار کے طور پر شہرت ملی۔ بالزاک نوٹ بک اور پنسل ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فرانس کی تاریخ کو ناولوں میں بیان کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے وہ جہاں بھی جاتا تھا، بالخصوص وہاں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا تھا اور بعد میں ان پر اپنے کرداروں کے ساتھ کہانیاں تخلیق کرتا تھا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا اور کسی ناول میں انہی درختوں کے درمیان یا گرد و نواح میں اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقی اور سچّی کہانی معلوم ہوتی۔ بالزاک چاہتا تھا کہ وہ ہر سال دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے لکھے اور اس نے ایسا ہی کیا۔

    بالزاک لمبے فقرے لکھتا ہے اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل ہوتی ہے۔ بالزاک کو اس کے طرزِ تحریر سے زیادہ اس لیے ایک بڑا ادیب کہتے ہیں کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور یہ کہتا تھاکہ میں‌ قلم سے ایسا کام لوں گا کہ لوگ فراموش نہیں کرسکیں گے۔ اونورے بالزاک نے اپنی یہ بات پوری کر دکھائی اور فرانسیسی معاشرے میں انسانوں‌ کا گویا پوسٹ مارٹم کردیا۔ اس نے جو کردار تخلیق کیے، آج بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور یہی نہیں‌ بلکہ وہ ایسے کردار تھے جو ہمیں اپنے معاشرے میں بھی ملیں گے۔

    اس کی وجہِ شہرت ہیومن کامیڈین کے عنوان کے تحت اس کی تخلیقات کی اشاعت بنا اور قارئین پر کھلا کہ اونورے بالزاک نے واقعی معاشرے کے ہر شعبے سے کردار، ہر گلی کوچے سے واقعات سمیٹے تھے جن سے سبھی واقف تھے، لیکن بالزاک نے انھیں بہت خوبی سے بیان کیا، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کو بیان کرتے ہیں۔

    بالزاک 18 اگست 1850ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا، لیکن آج بھی اس کا نام فرانس کے مقبول ناول نگاروں‌ میں‌ شامل ہے اور اس کی تخلیقات بڑے ذوق شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

  • پرویز حسن سے پرویز مہدی تک شہرت اور مقبولیت کے سفر کی کہانی

    پرویز حسن سے پرویز مہدی تک شہرت اور مقبولیت کے سفر کی کہانی

    پرویز حسن نے فنِ گائیکی میں اپنے استاد مہدی حسن سے گہری عقیدت کی بنا پر خود کو پرویز مہدی کہلوانا پسند کیا اور انہی کا اندازِ گائیکی اپنایا۔ پرویز مہدی بنیادی طور پر غزل گائیک تھے، لیکن کئی نغمات اور متعدد لوک گیت بھی ان کی آواز میں مقبول ہوئے۔

    معروف گلوکار پرویز مہدی 2005ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 57 سال جب کہ موسیقی کی دنیا میں‌ ان کا سفر لگ بھگ تیس برس جاری رہا۔ نام ور شعرا کی غزلیں اور کئی گیت ریکارڈ کروانے والے پرویز مہدی کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے ملک بھر میں‌ پہچان ملی۔

    70ء کی دہائی میں جب ریڈیو اسٹیشن لاہور سے ’میں جانا پردیس’ نشر ہوا تو لوگ پرویز مہدی کی آواز سے آشنا ہوئے اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    پرویز مہدی نے 14 اگست 1947ء کو لاہور میں ریڈیو کے ایک مشہور گلوکار بشیر حسین راہی کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ موسیقی اور سازوں سے بچپن ہی سے قریب ہوگئے تھے اور انھیں گانے کا شوق بھی شروع ہی سے تھا۔ پرویز مہدی نے جے اے فاروق سے موسیقی کی ابتدائی تربیت حاصل کی تھی اور بعد میں مہدی حسن کے پہلے اعلانیہ شاگرد بنے۔

    ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے پرویز مہدی لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔