Tag: اگست وفات

  • بہاولپور کے شہاب دہلوی کا تذکرہ

    بہاولپور کے شہاب دہلوی کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب میں شہاب دہلوی ایک مؤرخ، محقق، مصنّف اور شاعر کی حیثیت سے پہچانے گئے۔ مشہور جریدے الزبیر کے مدیر نے پاکستان کے مشہور شہر بہاول پور کی تہذیب و ثقافت اور یہاں کے دینی اور روحانی ماحول کو خاص طور پر اپنی تحریروں کا موضوع بنایا اور وقیع علمی و ادبی کام کیا۔

    آج شہاب دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 29 اگست 1990 کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کا اصل نام سید مسعود حسن رضوی تھا جن کے بزرگ خاندان قیامِ پاکستان سے عشروں پہلے دہلی سے بہاولپور آکر یہاں ریاستی عہدوں پر فائز ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد شہاب دہلوی بھی پاکستان آگئے اور بہاولپور میں سکونت اختیار کی۔

    وہ دہلی کے ایک علمی خانوادے میں 20 اکتوبر 1922 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد اور تایا بھی شاعر اور ادیب تھے۔ دہلی میں‌ مطبع رضوی کے نام سے ان کا اشاعتی ادارہ بھی قائم تھا۔ شہاب دہلوی نے بھی اپنی عملی زندگی کا آغاز دہلی سے ماہنامہ الہام کے اجرا سے کیا۔ بہاول پور آنے کے بعد انھوں نے نہ صرف الہام کا دوبارہ اجرا کیا بلکہ یہاں کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لینے لگے۔ شعر و ادب سے متعلق سرگرمیوں کے ساتھ وہ علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے تحقیقی کام کرتے رہے۔

    شہاب دہلوی نے اس علاقے کے دینی و روحانی تشخص کو بھی اُجاگر کیا اور اس خطّے اور علاقے سے متعلق مختلف موضوعات پر درجنوں کتب لکھیں۔ ان میں مشاہیر بہاولپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری اور وادیٔ جمنا سے وادیٔ ہاکڑہ تک شامل ہیں۔

    ان کے شعری مجموعے نقوش شہاب، گل و سنگ، اور موجِ نور کے نام سے شائع ہوئے۔

    شہاب دہلوی بہاولپور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں…کلیم عثمانی کا تذکرہ

    خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں…کلیم عثمانی کا تذکرہ

    کلیم عثمانی معروف گیت نگار اور غزل گو شاعر تھے جن کی وجہِ شہرت ان کے ملّی نغمات بھی ہیں۔ وہ 28 اگست 2000 کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

    کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا، ان کا تعلق ضلع سہارن پور، دیو بند سے تھا جہاں وہ 28 فروری 1928 کو پیدا ہوئے۔ والد فضل الٰہی بیگل بھی شاعر تھے اور یوں گھر کے علمی و ادبی ماحول نے کلیم عثمانی کو بھی شاعری کی طرف راغب کیا۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا اور یہاں لاہور میں سکونت اختیار کی۔

    کلیم عثمانی نے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ مشاعروں میں‌ کلیم عثمانی کا ترنم مشہور تھا اور وہ خوب داد سمیٹا کرتے تھے۔ انھوں نے غزل گوئی کے ساتھ جب فلموں کے لیے گیت نگاری شروع کی تو کام یاب رہے۔ فلم بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں وہ فلمیں‌ تھیں جن کے گیتوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور کلیم عثمانی کی فلم انڈسٹری میں مصروفیت بڑھ گئی۔

    آپ نے فلم راز کا یہ نغمہ ضرور سنا ہو گا جس کے بول تھے: میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا….. یہ اپنے وقت کا ایک مقبول گیت تھا جسے سرحد پار بھی پسند گیا۔ جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب اور نازنین نامی فلموں میں بھی کلیم عثمانی کے تحریر کردہ نغمات کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا اور بعد میں‌ ریڈیو‌ کے ذریعے یہ گیت ہر زبان پر جاری ہوگئے۔

    1973 میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبول عام گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” کے لیے نگار ایوارڈ دیا گیا۔

    ملّی نغمات کی بات کی جائے تو کلیم عثمانی کی شاعری نے انھیں ملک بھر میں‌ عوامی سطح پر پہچان دی۔ "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور "یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” کلیم عثمانی کے وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔

    کلیم عثمانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ باذوق قارئین نے ان کی یہ مشہور غزل ضرور سنی ہوگی۔

    رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
    چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

    خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
    شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

    پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی
    پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح

    بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
    میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح

  • فلم ایکٹریس جس کی لاش ٹھیلے پر اسپتال سے لے جائی گئی

    فلم ایکٹریس جس کی لاش ٹھیلے پر اسپتال سے لے جائی گئی

    زندگی کیسے کیسے روپ بدلتی ہے۔ واقعات کس عجب طور رونما ہوتے ہیں اور گردشِ زمانہ انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے، یہ سب ہمارے سامنے ہے۔ یہ تذکرہ ہے تقدیر کے مذاق کا نشانہ بننے والی ویمی کا جس نے پردۂ سیمیں پر بطور اداکارہ اپنا سفر شروع کیا اور پھر عبرت کا نشان بن کر رہ گئی۔

    ساحر لدھیانوی کا یہ فلمی گیت کئی سماعتوں میں‌ محفوظ ہو گا۔

    تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو
    میں یوں ہی مست نغمے لٹاتا رہوں

    یہ نغمہ بھی اسی شاعرِ بے بدل کے قلم سے نکلا تھا۔

    کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے
    پرستش کی تمنا ہے عبادت کا ارادہ ہے

    1967ء میں‌ ہندوستانی فلم ہمراز ریلیز ہوئی جس کے نغمات بہت مقبول ہوئے۔ اس فلم نے باکس آفس پر دھوم مچا دی۔ اس کا مرکزی کردار ویمی نے نبھایا تھا اور یہ گیت اسی اداکارہ پر فلمائے گئے تھے۔

    وہ 1943ء میں پیدا ہوئی تھی۔ سکھ خاندان سے تعلق رکھنے والی ویمی نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔ اسے شروع ہی سے گلوکاری کا شوق تھا اور اداکاری میں بھی دل چسپی رکھتی تھی۔ یہی شوق اسے ممبئی میں ہونے والے ثقافتی پروگراموں میوزک شوز میں لیے جاتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کی ملاقات میوزک ڈائریکٹر روی سے ہوئی جنھوں نے اس لڑکی کو بی آر چوپڑا کے بینر تلے بننے والی فلم میں‌ کام دلوا دیا۔ یوں‌ ویمی کو بڑے پردے پر اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا موقع مل گیا۔

    ہمراز وہ فلم تھی جس نے راتوں رات ویمی کو اسٹار بنا دیا اور اپنے اسٹائل کی وجہ سے بھی اسے خاصی شہرت ملی۔ اس کے بعد وہ فلم آبرو میں‌ نظر آئی اور اپنی اداکاری سے شائقین کو محفوظ کیا۔ ویمی کی تصاویر اس وقت کے ہر مقبول فلمی رسالے کی زینت بننے لگی تھیں۔ وہ اپنے وقت کے کام یاب بزنس مین شیو اگروال سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئی اور شاید یہی اس کی زندگی کا بدترین فیصلہ تھا۔

    22 اگست 1977ء کو ویمی نے ایک اسپتال میں دم توڑ دیا۔ بے بسی اور نہایت غربت کے عالم میں انتقال کرنے والی ویمی کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئیں، ان کے مطابق وہ شوہر کی طرف سے جسمانی تشدد اور مسلسل زیادتی کا نشانہ بنتی رہی اور تب یہ رشتہ ختم ہوگیا تھا۔ علیحدگی کے بعد ویمی نے کلکتہ میں ٹیکسٹائل کا کاروبار شروع کیا لیکن اس میں‌ بری طرح ناکام رہی۔ اسے فلمی زندگی سے بھی دور ہونا پڑ گیا تھا اور وہ شہرت اور دولت جو اس نے حاصل کی تھی، اس کے ہاتھوں سے نکل رہی تھی۔ ویمی نے ان ناکامیوں کے بعد مایوس ہو کر شراب نوشی شروع کردی۔ اس نے جو کچھ کمایا تھا، وہ اس کے اخراجات اور شراب خریدنے پر اٹھتا جارہا تھا۔ حال یہ ہوا کہ وہ مفلس ہوگئی اور اس نے شراب خریدنے کے لیے جسم فروشی شروع کر دی۔

    اس کے اچھے دنوں کے ساتھی اور فلمی دنیا کے لوگ جانے کہاں رہ گئے تھے۔ ویمی نے آخری سانس ایک اسپتال کے جنرل وارڈ میں لی جہاں‌ وہ ایک غریب اور بدحال عورت کے طور پر جگر کی بیماری کی وجہ سے پہنچی تھی۔ اسے کیا نام دیجیے کہ کل تک جو لڑکی فلم، فیشن اور اسٹائل کی دنیا میں نمبر ون کی دوڑ میں شامل ہورہی تھی، اس کی لاش کو آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ایک ٹھیلے پر ڈال کر لے جایا گیا۔

  • نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگنے والے کا تذکرہ

    نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگنے والے کا تذکرہ

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور جیّد صحافی ملا واحدی کی زندگی کا سفر 22 اگست 1976ء کو کراچی میں تمام ہوا۔ مصورِ فطرت خواجہ حسن نظامی نے انھیں ملا واحدی کا نام دیا تھا اور وہ اسی نام سے پہچانے گئے۔

    ملا واحدی 17 مئی 1888ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تعلیم بھی اسی شہر سے مکمل کی۔ ادب اور صحافت کا شوق نوعمری میں ہی ہوگیا تھا اور 15 برس کے تھے جب مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مؤقر اخبارات کی زینت بنے۔ ان میں ماہنامہ ’’زبان‘‘، ’’وکیل‘‘ ہفتہ وار ’’وطن‘‘ اور روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ جیسے رسائل اور جرائد شامل تھے۔ 1909ء میں خواجہ حسن نظامی نے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا تو ملا واحدی کو نائب مدیر کی حیثیت سے ان کے ساتھ کا کرنے کا موقع ملا اور بعد میں ملا واحدی نے ہی یہ رسالہ سنبھالا اور کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کردیا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی چلے آئے تھے۔

    ملا واحدی دہلوی اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’شبیر قوّال کا نام آپ نے ممکن ہے سُنا ہو، وہ میرا ہم محلّہ تھا۔ بچپن سے اسے گانے کا شوق تھا۔ آواز پھٹی پھٹی سی تھی لیکن گائے جاتا تھا۔ آخر گاتے گاتے کلانوت ہوگیا۔ ریڈیو والے اسے بلانے لگے اور ریکارڈ بھرنے لگے۔ دلّی میں اُس نے خاصی شہرت حاصل کرلی تھی۔ کراچی میں اس کی چوکی کا خاصا ڈنکا بجا۔ میں بھی شبیر مرحوم کی طرح لکھتے لکھتے کچھ کچھ لکھ لینے کے قابل ہوا ہوں۔ میرے والد صاحب کو شکایت تھی کہ میری اردو کم زور ہے، لیکن خدا کی شان، والدِ ماجد کے رحلت فرماتے ہی میری توجہ نصاب کی کتابوں سے زیادہ اُردو کی طرف ہوگئی۔ ڈپٹی نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی کی کتابیں پڑھنے لگا۔ علومِ جدید کی ڈگری اور علومِ دین کی دستارِ فضیلت سے تو محروم رہا مگر چوراسی سال کی عمر تک طالب علم ہوں۔ اخباروں، رسالوں میں سن 1903ء سے لکھ رہا ہوں۔ میں ادیب یا انشا پرداز کہلانے کا مستحق اپنے تئیں نہیں سمجھتا۔ قلم کار کا لفظ بھی بہ تامل استعمال کیا ہے۔ قلم گھسائی لکھنا چاہیے تھا۔ البتہ سڑسٹھ سال قلم گھسائی میرے زمانے میں اور کسی نے نہیں کی، اور مجھے فخر ہے کہ میرا کوئی مضمون اوّل دن سے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا گیا۔‘‘

    وہ مزید لکھتے ہیں، ’’1934ء سے 1946ء تک میونسپل کمیٹی کی ممبری چمٹی رہی۔ مسلسل بارہ برس میونسپلٹی میں بھاڑ جھونکا۔ قصہ مختصر 1947 کے اکتوبر میں دلّی سے بھاگا تو نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگا تھا۔ دہلوی سے کراچوی بنا تو ساٹھ باسٹھ برس کا بوڑھا تھا۔‘‘

    کراچی آنے کے بعد انھوں نے علمی اور ادبی مشاغل کا آغاز کیا اور یہاں سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا ازسرنو اجرا عمل میں لائے، یہ رسالہ 1960ء تک شایع ہوتا رہا۔ ملا واحدی ان ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے دلّی شہر کے باسیوں کی باتوں اور یادوں کو خاص طور پر رقم کیا ہے۔ ان کی تحریریں ملک کے مؤقر اخبارات اور معروف جرائد کی زینت بنیں۔ ان کی تصانیف میں تین جلدوں پر مشتمل حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات شامل ہیں۔

    ملا واحدی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے بیزار بلھے شاہ

    مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے بیزار بلھے شاہ

    پنجابی کلچر میں اصل ناموں سے عرفیت بنانا ایک عام سی بات ہے۔ بلھے شاہ نے یہ نام اپنے لیے خود تجویز کیا تھا یا ان کے جاننے والوں نے یہ نام رکھا تھا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

    اگر حضرت بلھّے شاہ نے اپنی شاعری میں اسے ایک تخلص کے طور پر استعمال کیا، اس کی ایک اور صوفیانہ تاویل کی جاسکتی ہے۔ بُھلا سے مراد بھولا ہوا بھی ہے، یعنی وہ اپنی ذات کو بھول چکا ہے۔ بلھے شاہ کا نِک نیم اتنا مشہور ہوا کہ لوگ ان کے اصل نام سید عبداللہ شاہ کو بھول گئے ہیں۔

    سترھویں اور اٹھارویں صدی عیسوی میں مغلیہ دور میں بالخصوص پنجاب اور سندھ میں چند ایسی شخصیات نے جنم لیا جنھیں ایک باکرامت درویش، مفکر اور صوفی کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی اور مقامی زبان میں‌ ان کی شاعری اور داستانیں‌ بھی ان کی وجہِ‌ شہرت ہیں۔ بلھے شاہ انہی میں سے ایک تھے۔ وہ اس دور کے ہم عصر مفکر شاعروں میں سے ایک تھے جن کی آواز شمالی ہندوستان کے ہر کونے میں اور ہر لہجے میں گونجی۔ ان کی کافیاں اور دوہڑے پنجاب ہی میں نہیں سندھ، راجستھان اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بھی عوام کے دل کی آواز بنے۔

    بابا بلھے شاہ کی زندگی اور ان کی شخصیت کے بارے میں بہت کم معلومات کو مصدقہ کہا جاسکتا ہے اور بیش تَر تذکرے روایات پر مبنی ہیں جن سے ان کا ایک خاکہ بنایا جاسکتا ہے اور ان کے بارے میں‌ ایک تاثر قائم جاسکتا ہے۔ پرانے تذکروں میں خزینۃُ الاصفیا، نافع السّالکین میں حضرت بلھے شاہ کے بارے میں چند ایک معلومات ملتی ہیں لیکن ان میں بھی تضاد ہے۔

    کچھ کا خیال ہے کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھی جب کہ چند محققین کا اصرار ہے کہ وہ پانڈو کے میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ حضرت بلھے شاہ کے مرشد حضرت شاہ عنایت نے ایک کتاب نافعُ السّالکین مرتب کی تھی جس میں بلھے شاہ کے بارے میں ایک حاشیہ ملتا ہے جس کے مطابق وہ اچ گیلانیاں میں پیدا ہوئے تھے۔ حضرت عنایت شاہ سے حضرت بلھے شاہ کا تعلق بہت قریبی تھا اس لیے اس بات کو قبول کرنے میں کوئی تعرض نہیں ہونا چاہیے۔

    اسی قسم کا ابہام حضرت بلھے شاہ کے سنِ پیدائش میں‌ بھی ہے۔ خزینۃُ الاصفیا اس پر خاموش ہے لیکن اس کتاب میں‌ ان کا سنہ وفات 1750ء بتایا ہے جب کہ ایک انگریز سی ایف آسبورن نے بلھے شاہ کی زندگی اور شاعری پر اپنے مقالے میں سنِ پیدائش 1680ء اور وفات کا سال 1753ء لکھا ہے۔ روایات کے مطابق وہ 22 اگست کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے تھے۔

    مشہور ہے کہ حضرت بلھے شاہ سخی درویش کے ہاں پیدا ہوئے جن کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ ان کے والد اچ شریف چھوڑ کر ملک وال ضلع ساہیوال چلے گئے تھے جہاں بلھے شاہ نے جنم لیا۔ لیکن چند مہینوں بعد وہ پنڈ پانڈو، ضلع لاہور چلے گئے جہاں ایک مسجد میں‌ امامت پر مامور ہوئے اور مدرسہ پڑھانے لگے۔ بلھے شاہ کا بچپن اسی گاؤں میں مویشی چراتے گزرا۔ اسی جگہ ان سے پہلی کرامت بھی صادر ہوئی جس کا ذکر روایات میں مختلف طرح‌ سے کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ عبداللہ نامی اس نوعمر پر یہ الزام لگا کہ اس نے اپنے مویشیوں کو چراتے ہوئے، ان کی نگرانی میں‌ کوتاہی کی اور انھوں نے گاؤں کے زمین دار کی فصل اجاڑ دی۔ اس پر بلھے شاہ نے اجڑی ہوئی فصل کو پھر سے ہرا بھرا کر دیا۔ یہ ان سے منسوب ایک افسانوی داستان ہے یا اسے گھڑا گیا ہے، اس بارے میں‌ کچھ نہیں‌ کہا جاسکتا۔ لیکن بلھے شاہ نے قصور کے مشہور معلّم حافظ غلام مرتضیٰ کے مدرسے سے قرآن، حدیث و فقہ اور منطق کا علم حاصل کیا۔ اور انہی علوم کی تدریس بھی کی۔

    ان کی مجذوبیت نے جب کوتوال کی گرفت میں آکر انھیں شیخ فاضل الدین کے پاس پہنچایا تو یہاں سے بلھے شاہ کو علم اور معرفت کے اس راستے کا پتا ملا جس نے ان کی زندگی کو یکسر بدل ڈالا۔ شیخ فاضل الدّین نے انھیں شاہ عنایت کے دربار میں‌ جانے کو کہا، اور پھر شاہ عنایت سے ان کی عقیدت اور تعلق اٹوٹ ثابت ہوئی۔

    بلھے شاہ نے اہلِ طریقت کے ساتھ رہ کر معرفت کے مراحل طے کیے اور اس عرصہ میں‌ انھوں‌ نے اس وقت کے بادشاہ اورنگزیب کی مذہب پرستی کو دیکھا، قصور کے حاکم حسین خان خویشگی اور اس کے مذہبی منصب دار شہباز خان کی چیرہ دستیاں کو جھیلا۔ انھوں نے شہر آشوب دیکھا، اپنے افکار اور شاعری میں‌ مجذوبانہ اپنی فکر کے اظہار پر سختیاں پڑنے پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے اور شہر در شہر گھومتے ہوئے زندگی گزاری۔ وہ کہتے ہیں:

    الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھید سجن دے پائے
    کاں لگڑنوں مارن لگے، چڑیاں جرے ڈھائے
    پیو پتراں اتفاق نہ کائی، دھیاں نال نہ مائے

    (ترجمہ و مفہوم: یہ عجیب زمانہ ہے اور اسی سے ہم نے زندگی کا بھید پایا ہے۔ زمانے ایسے بدلے کہ کوّے الٹا شکاری پرندوں کو مار رہے ہیں اور چڑیوں نے شہبازوں کو زیر کر لیا ہے۔ باپ بیٹے میں اتفاق نہیں ہے اور مائیں بیٹیوں کا ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔)

    یہ مشہورِ زمانہ کلام تو آپ نے بھی سنا ہو گا

    تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا
    تیرے عشق نے ڈیرا میرے اندر کیتا
    بھر کے زہر پیالہ، میں تاں آپے پیتا

    بلھے شاہ نے کس عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کا روحانی سفر کس طرح شروع ہوا، اس بارے میں‌ بھی مستند حقائق اور مصدقہ معلومات دست یاب نہیں ہیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنی شاعری میں بھی اپنے بارے میں کوئی اشارہ نہیں‌ دیا ہے اور اپنی زندگی کے کسی واقعے کو بیان نہیں‌ کیا ہے۔ یوں پنجاب کی سرزمین میں مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی شاعری میں روحانیت اور وجدان پر زور دینے والے بابا بلھے شاہ کی اصل سوانح کبھی سامنے نہیں آسکی اور چند حقائق اور ان کی بنیاد پر قیاس ہی کیا جاسکتا ہے۔ تاہم انھیں اپنے دور کی باکرامت روحانی شخصیت، ایک حکیم شاعر مانا جاتا ہے اور ان کی شاعری کی بھی اسی نقطۂ نظر سے وضاحت کی جاتی ہے۔

    سید محمد عبداللہ المعروف بابا بلھے شاہ کا مزار قصور میں واقع ہے۔

  • شاہ نور اسٹوڈیو کے احاطے میں مدفون سیّد شوکت حسین رضوی کا تذکرہ

    شاہ نور اسٹوڈیو کے احاطے میں مدفون سیّد شوکت حسین رضوی کا تذکرہ

    سیّد شوکت حسین رضوی لاہور میں شاہ نور اسٹوڈیو کے احاطے میں مدفون ہیں۔ وہ 1998ء میں آج ہی کے دن کے وفات پاگئے تھے۔ وہ پاکستان کے صف اوّل کے ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں میں‌ شمار کیے جاتے ہیں۔

    وہ متحدہ ہندوستان میں اتر پردیش کے شہر اعظم گڑھ میں 1913ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ شوکت رضوی نے کلکتہ کے مشہور تھیٹر سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور بحیثیت تدوین کار اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔ اس زمانے کے ایک مشہور فلم ساز سیٹھ دل سکھ پنچولی نے شوکت حسین کو کلکتہ سے لاہور آنے کی دعوت دی اور یہاں آکر انھوں نے گل بکاؤلی اور خزانچی جیسی فلموں کے لیے بحیثیت تدوین کار کام کیا۔ سیٹھ پنچولی نے انھیں اپنی پہلی فلم ’’خاندان‘‘ کے ہدایت کار کے طور پر مزید آگے بڑھنے کا موقع دیا تو شوکت رضوی نے بھی انھیں‌ مایوس نہیں کیا۔ اس فلم کو بہت پذیررائی ملی۔

    نور جہاں پہلی مرتبہ اسی فلم میں بطور ہیروئن جلوہ گر ہوئی تھیں۔ اسی فلم نے شوکت حسین رضوی اور نور جہاں کو قریب کردیا اور انھوں نے شادی کرلی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سید شوکت حسین رضوی کی پہلی فلم ’’چن وے‘‘ تھی جس کے بعد گلنار، جان بہار، عاشق اور بہو رانی و دیگر فلمیں‌ بطور ہدایت کار ان کی کام یابی کا سبب بنیں۔

    فلم انڈسٹری میں تدوین کار کی حیثیت سے ان کی فلموں یملا جٹ اور دوست کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ فلمیں تھیں جس نے دل سکھ پنچولی کو ان کی جانب متوجہ کیا تھا اور ان کی فلم خاندان کام یاب رہی تھی۔ نور جہاں سے شادی کر کے شوکت رضوی ان کے ساتھ ممبئی چلے گئے اور تقسیم ہند کے بعد یہ جوڑا اپنے تین بچّوں سمیت پاکستان آیا۔ یہاں شوکت حسین رضوی نے ملتان روڈ پر شاہ نور اسٹوڈیو قائم کیا اور اسی عرصہ میں جب نور جہاں سے اختلافات اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی تو شوکت حسین نے معروف اداکارہ یاسمین سے شادی کرلی جن کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ اس کے بعد وہ صرف تین اردو فلمیں بناسکے جن میں سے ایک دلہن رانی تھی جو فلاپ فلم ثابت ہوئی اور اس کے بعد شوکت حسین رضوی نے فلم نگری سے دوری اختیار کرلی تھی۔

    شوکت حسین رضوی نے 85 سال کی عمر میں اس دارِ فانی کو خیرباد کہا۔

  • عہدِ سیاہ میں حق و صداقت کا پرچار کرنے والے خالد علیگ کا تذکرہ

    عہدِ سیاہ میں حق و صداقت کا پرچار کرنے والے خالد علیگ کا تذکرہ

    حق گوئی اور جرأتِ اظہار کے ساتھ جہدِ مسلسل خالد علیگ کی پہچان رہی۔ سماج کے پسے ہوئے طبقات کے لیے انھوں‌ نے اپنی آواز بلند کی اور ہر دور میں ناانصافی اور جبر کے خلاف اپنے قلم کو متحرک رکھا۔ آج خالد علیگ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کے فعال رکن تھے۔ سینئر صحافی اور مزاحمتی شاعری کے لیے ملک بھر کے روشن خیال اور دانش ور طبقے میں عزّت اور احترام سے یاد کیے جانے والے خالد علیگ 2007ء میں‌ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ وہ طویل عرصے سے پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا تھے۔

    خالد علیگ 1925ء میں متحدہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کی سند حاصل کی تھی۔ تقسیمِ ہند کے وقت ہی ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آگیا، جہاں وہ صوبۂ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور بعد میں‌ لاہور میں‌ ٹھہرے۔ اس کے بعد صوبۂ سندھ میں میرپورخاص، خیر پور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔

    خالد علیگ نے ہندوستان میں‌ سیاسی اور سماجی تحریکوں کے علاوہ اس زمانے میں مختلف فلسفہ ہائے حیات اور نظریات کو پروان چڑھتے دیکھا اور نوجوانی میں کمیونسٹ نظریات سے متاثر ہوگئے۔ انھوں نے صحافت کا آغاز بھی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے ‘منشور’ سے کیا۔ اس کے بعد روزنامہ حریت سے وابستہ ہوگئے اور بعد میں روزنامہ مساوات کے نیوز ایڈیٹر بنے اور 1978ء میں اخبار کی بندش تک اسی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

    ملک میں سیاسی آمریت کے دور میں روزنامہ مساوات سے وابستہ صحافیوں اور اخباری کارکنوں‌ کی آزمائش شروع ہوگئی۔ خالد علیگ ایوب خان کے دور میں‌ بھی اپنی آواز جمہوریت اور عوام کے حق میں بلند کرنے والوں‌ میں‌ شامل رہے تھے اور ضیا کے دور میں جب صحافیوں، انسانی حقوق کے علم برداروں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور ان کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا تو خالد علیگ صحافیوں کی تحریک کے سرکردہ راہ نما تھے۔ مساوات کو پیپلز پارٹی کا ترجمان اخبار کہا جاتا تھا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوام بالخصوص محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرتا تھا، لیکن خالد علیگ نے کبھی پیپلز پارٹی یا سرکاری امداد بھی قبول کرنا گوارہ نہیں‌ کیا۔ وہ ترقی پسند مصنفین کی صف میں‌ رہتے ہوئے اپنے نظریات اور اپنے قلم سے ملک میں جمہوریت اور عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے کام کرتے رہے۔

    بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں اپنے دورِ حکومت میں مالی امداد کے لیے چیک بھجوایا، مگر خالد علیگ نے قبول نہیں کیا۔ شدید علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل ہوئے تو صوبائی حکومت نے سرکاری خرچ پر علاج کرانے کا اعلان کیا جس پر وہ اسپتال سے گھر منتقل ہوگئے تھے۔

    خالد علیگ نے اپنی شاعری کو جبر اور استحصال کے خلاف مزاحمتی آواز بنا کر پیش کیا اور ایک مجموعہ ’غزالِ دشت سگاں‘ یادگار چھوڑا۔ وہ مالی مسائل کا شکار بھی رہے اور کراچی کے علاقے لانڈھی میں‌ 80 گز کے مکان میں ساری عمر گزار دی۔ ان کا مجموعۂ کلام ان کے دوستوں اور شاگردوں نے شائع کروایا تھا۔

    ان کے معاصرین اور جونیئرز انھیں خالد بھائی کہتے تھے جس نے تمام عمر انھیں اپنے قول و فعل سے خود داری، راست گوئی اور حق و صداقت کا پرچم بلند رکھنے کا درس دیا ان کی شاعری کا غالب حصّہ انقلابی اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے، لیکن خالد علیگ کا وصف یہ ہے کہ انھوں نے غزل اور نظم کی جمالیات کا خیال رکھا ہے۔ یہاں ہم ان کی ایک خوب صورت غزل نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں

    مرے جسم و جاں پہ اسی کے سارے عذاب سارے ثواب ہیں
    وہی ایک حرفِ خود آگہی کہ ابھی جو میں نے کہا نہیں

    نہ وہ حرف و لفظ کی داوری نہ وہ ذکر و فکرِ قلندری
    جو مرے لہو سے لکھی تھی یہ وہ قراردادِ وفا نہیں

    ابھی حسن و عشق میں فاصلے عدم اعتماد کے ہیں وہی
    انہیں اعتبارِ وفا نہیں مجھے اعتبارِ جفا نہیں

    وہ جو ایک بات تھی گفتنی وہی ایک بات شنیدنی
    جسے میں نے تم سے کہا نہیں جسے تم نے مجھ سے سنا نہیں

    میں صلیبِ وقت پہ کب سے ہوں، مجھے اب تو اس سے اتار لو
    کہ سزا بھی کاٹ چکا ہوں میں، مرا فیصلہ بھی ہوا نہیں

    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

  • خوش مزاجی اور زندہ دلی دردانہ بٹ کی پہچان تھی

    خوش مزاجی اور زندہ دلی دردانہ بٹ کی پہچان تھی

    سینئر اداکارہ دردانہ بٹ نے اپنے کیریئر کے دوران اسٹیج، ٹیلی وژن اور فلمی پردے پر کئی سنجیدہ اور مزاحیہ کردار نبھائے۔ ان کی پہچان اور مقبولیت کا سبب خاص طور پر ٹیلی وژن ڈراموں کے کامیڈی کردار ہیں۔ کینسر کے مرض میں مبتلا دردانہ بٹ پچھلے سال 12 اگست کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    دردانہ بٹ 9 مئی 1938ء کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم برطانیہ میں‌ حاصل کی جہاں ان کے والد پاکستان کے سفارت خانے میں تعلیمی اتاشی تھے۔ وہ گیارہ سال کی تھیں جب والد کا پاکستان تبادلہ ہوگیا اور یہاں لاہور میں‌ سکونت اختیار کرنے کے بعد دردانہ بٹ کو ان کے والد نے مری کے مشنری اسکول میں داخل کروا دیا۔ اس کے بعد ان کا کانووینٹ لاہور میں داخلہ ہوا۔

    1967ء میں دردانہ بٹ کی شادی سعید احمد خان سے ہوئی جو ان کے ننھیالی عزیز بھی تھے، لیکن ڈیڑھ سال کے بعد ان کے شوہر کی وفات ہوگئی۔ انھوں نے مزید پڑھنے کا فیصلہ کیا اور کالج سے گریجویشن کرنے کے دوران وہاں اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لینے لگیں۔ اس کے بعد وہ فرانس چلی گئیں جہاں فرینچ میں ڈپلوما حاصل کیا اور واپس آکر ایک نجی اسکول میں پی ٹی ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔

    دردانہ بٹ نے بطور کمرشل پائلٹ کچھ عرصہ ہوا بازی بھی کی، لیکن نظر کم زور ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں۔ وہ جوڈو کراٹے اور آتشیں اسلحے کا استعمال بھی جانتی تھیں۔

    تھیٹر اور اسٹیج سے اداکاری نے انھیں پی ٹی وی تک پہنچا دیا اور یہاں دردانہ بٹ کو منور ظریف اور معین اختر جیسے بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ مزاحیہ خاکوں پر مشتمل پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ میں نظر آئیں اور ناظرین میں‌ پہچان بنائی۔ پی ٹی وی پر انھوں نے معین اختر کے ساتھ نوکر چاکر، آنگن ٹیڑھا جیسے ڈراموں میں‌ کردار نبھائے اور تنہائیاں میں بی بی کے روپ میں زبردست پذیرائی اور شہرت حاصل کی، بعد میں پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں بھی مختلف ڈراموں میں‌ کردار نبھانے کا موقع ملا۔

    دردانہ بٹ نے 2019 میں آخری مرتبہ ڈرامہ رسوائی میں اپنا کردار نبھایا تھا۔

  • ماسٹر رام چندر: ریاضی کا ماہر اور کائنات کا کھوجی جس سے گھر والوں نے قطع تعلق کرلیا

    ماسٹر رام چندر: ریاضی کا ماہر اور کائنات کا کھوجی جس سے گھر والوں نے قطع تعلق کرلیا

    ماسٹر رام چندر برطانوی راج میں ایک ریاضی داں، معلّم اور محقق کی حیثیت سے معروف تھے۔ انھوں نے الجبرا اور علمِ مثلث پر وقیع مضامین سپردِ قلم کیے اور علمی و تحقیقی مقالے ان کی وجہِ شہرت بنے۔

    رام چندر کی دو تصنیفات کا برطانیہ میں بھی چرچا ہوا اور حکومت نے ان کی گراں قدر علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان تھا۔ انھوں نے اس سے متعلق اپنے ایک مضمون میں چند سوالات اٹھائے تھے اور بعد میں اپنی تحقیق اور قیاس کی بنیاد پر اس کی وضاحت بھی کی جو ایک رسالے میں شایع ہوئی۔ ہم یہاں ان کا وہ مضمون قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں، لیکن اس سے پہلے رام چندر کے حالاتِ زندگی اور ان کی علمی کاوشوں کا مختصر احوال جان لیجیے۔

    وہ ہریانہ کے مشہور علاقہ پانی پت کے ایک ہندو گھرانے میں‌ 1821ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ 11 اگست 1880ء کو رام چندر نے وفات پائی۔ وہ شروع ہی سے سائنس اور علمی موضوعات میں‌ دل چسپی رکھتے تھے۔ 1945ء میں رام چندر نے اخبار فوائد النّاظرین اور 1847ء میں ایک علمی اور ادبی ماہ نامہ محبِّ ہند بھی جاری کیا۔ وہ ایک خوب صورت طرزِ نگارش کے حامل صحافی بھی تھے۔ رام چندر کا شمار متحدہ ہندوستان کی ان شخصیات میں‌ ہوتا ہے جو تعلیمِ نسواں کے بڑے حامی تھے جب کہ گونگوں اور بہروں کو بھی تعلیم دینے کی حمایت کرتے تھے۔ ان کے والد رائے سندر لال ماتھر محکمۂ مالیات میں ملازم تھے۔ بارہ برس کی عمر میں انگریزی مدرسے میں داخل ہوئے، بعد میں دہلی کالج میں داخلہ لیا اور وہاں اپنی قابلیت کی وجہ سے وظیفہ پایا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد رام چندر اسی کالج میں مدرس ہو گئے اور اردو میں الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں۔ 1854ء کی بات ہے جب انھوں نے ہندو مذہب ترک کیا اور عیسائی مذہب کو اپنا لیا جس پر ان کے خاندان اور دوسروں لوگوں نے ان سے سماجی تعلق قطع کر دیا تھا۔

    کائنات سے متعلق رام چندر کے سوالات اور ان کی فکر ملاحظہ کیجیے۔

    "اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”

    "واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔

    پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔

    چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کر کے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔

    پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک ما بین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔

    یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔

    واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”

  • ‘وہ آؤٹ ہوگئے تو سمجھو کھیل ہی ختم’ ٹیسٹ کرکٹر حنیف محمد کا تذکرہ

    ‘وہ آؤٹ ہوگئے تو سمجھو کھیل ہی ختم’ ٹیسٹ کرکٹر حنیف محمد کا تذکرہ

    کرکٹ کمنٹیٹر جمشید مارکر کہتے تھے، ’حنیف محمد جب بیٹنگ کرنے جاتے تھے تو ہم کانپتے تھے، دل کو دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں وہ آؤٹ نہ ہوجائیں، پھر سمجھو کھیل ہی ختم ہو جائے گا۔‘

    یہ تذکرہ ہے لٹل ماسٹر کے نام سے مشہور ہونے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان کا جو کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور طویل علالت کے بعد 2016 میں آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔

    حنیف محمد نے کئی شان دار اننگز کھلیں اور کرکٹ کے میدان میں ریکارڈ بنائے۔ ان کی 499 رنز کی اننگز 35 سال تک فرسٹ کلاس کرکٹ میں سب سے طویل انفرادی کام یابی کا عالمی ریکارڈ رہی جسے برائن لارا نے 1994 میں 501 رنز بنا کر توڑا تھا۔ 23 جنوری 1958 کو ویسٹ انڈیز کے خلاف بارباڈوس میں حنیف محمد نے 337 رنز کی اننگز کھیل کر ایک اور کارنامہ انجام دیا۔ ان کے وکٹ پر رہنے کا دورانیہ اس اننگز میں 970 منٹ تھا جو اس کھیل کی ریکارڈ بک کا حصّہ بن گیا۔

    کرکٹ کے کھیل میں پاکستان کی فتح کو یقینی بنانے اور اپنی ٹیم کے لیے فخر کا باعث بننے والے لٹل ماسٹر نے 21 دسمبر 1934ء کو جونا گڑھ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ وہ پاکستان کی اس پہلی کرکٹ ٹیم کے رکن تھے جس نے اکتوبر 1952ء میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلی۔ حنیف محمد 1969ء تک ٹیسٹ کرکٹر کے طور پر فعال رہے اور اس عرصے میں 55 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 12 سنچریوں کی مدد سے مجموعی طور پر 3915 رنز اسکور کرنے والے کھلاڑی بنے۔

    حنیف محمد کے تین بھائی وزیر محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد نے بھی ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی، البتہ ایک بھائی رئیس محمد ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیل سکے۔ حنیف محمد کے صاحبزادے شعیب محمد کو بھی ٹیسٹ کرکٹر کے طور پر پاکستان میں یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حنیف محمد کا خاندان کراچی آگیا تھا جہاں والد کے سائے سے محروم ان بھائیوں نے بڑے مشکل حالات کا سامنا کیا۔ بعد میں دو بھائیوں کو بینک میں ملازمت ملی تو ان کے مالی حالات بتدریج بہتر ہوتے چلے گئے۔

    قابلِ‌ ذکر بات یہ ہے کہ حنیف محمد اور ان کے بھائیوں‌ کا کھیلوں بالخصوص کرکٹ سے لگاؤ کی وجہ ان کے والدین تھے۔ ان کی والدہ خود بھی دو کھیلوں کی چیمپئین تھیں اور والد شیخ اسماعیل بھی بہت اچھے کلب کرکٹر رہے تھے۔ لٹل ماسٹر حنیف محمد پلیئنگ فار پاکستان کے نام سے ایک کتاب کے مصنّف بھی ہیں۔