Tag: اگست وفات

  • الحاجب المنصور: عالمِ اسلام اور اندلس کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش کردار

    الحاجب المنصور: عالمِ اسلام اور اندلس کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش کردار

    محمد بن ابی عامر نے اندلس کی حکم رانی کا خواب اُس عمر میں دیکھا تھا جس میں ان کے ساتھی گپ شپ اور تفریحی مشاغل میں مصروف رہتے تھے۔ ماہ و سال کی گردش نے جب ان کے خواب کو حقیقت میں بدلا تو وہ محمد بن ابی عامر الحاجب المنصور کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ اندلس کے بہترین منتظم جب کہ عالمِ اسلام کے بہادر اور فاتح سپاہ سالار بنے۔

    اندلس کی تاریخ کے اس فرماں روا کے بارے میں کم ہی پڑھنے کو ملتا ہے، لیکن کئی معتبر مؤرخین اور تذکرہ نویسوں کے علاوہ مشہور سیاحوں نے ان کے عہد کا مختصر احوال رقم کیا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ محمد بن ابی عامر المنصور کے حالاتِ زندگی اور تخت سے فتوحات تک تفصیل میں جائیں تو ہمیں کئی روایات اور ان سے منسوب قصائص پڑھنے کو ملیں گے جن سے ان کی سیرت و کردار اور عہدِ حکم رانی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ آئیے حالاتِ زندگی سے انھیں جاننے کا آغاز کرتے ہیں۔

    ان کا آبائی وطن جنوبی اسپین بتایا جاتا ہے جہاں انھوں نے ایک ساحلی شہر الخضرا کے متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ مؤرخین کی اکثریت متفق ہے کہ ان کا سنِ پیدائش 937ء رہا ہوگا۔ ابن ابی عامر کے جدامجد کا نام عبدالمالک المعفری تھا جو اندلس کی پہلی فتح کے زمانے میں طارق بن زیاد کے سپاہیوں میں سے ایک تھا اور یہاں الخضرا کے قریب آباد ہوا تھا۔ اسی سپاہی کی آٹھویں نسل میں محمد بن ابی عامر پیدا ہوئے۔

    ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں اس دور کے دستور کے مطابق مکمل کرکے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے قرطبہ آنے والے محمد بن ابی عامر کو دورانِ تعلیم بڑا آدمی بننے کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے حاجبُ السّلطنت (وزیر اعظم) بننے کا خواب دیکھنا شروع کردیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ سنجیدگی سے اس کے لیے منصوبہ بندی کرنے لگے کہ اس منصب پر فائز ہوکر کیسے ملکی معاملات کو سدھار سکتے ہیں۔ جب وہ یہ باتیں اپنے دوستوں سے کرتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے اور انھیں بے وقوف اور دیوانہ کہتے، لیکن ان کی یہ خواہش اور جستجو ختم نہ ہوئی۔ اس حوالے سے ایک روایت مختلف انداز سے بیان کی جاتی ہے جس میں سے ایک کچھ یوں ہے: قرطبہ کی مسجد میں محمد بن ابی عامر اور ان کے ساتھی اپنے اپنے مستقبل کے بارے میں‌ بات کررہے تھے۔ ابن ابی عامر نے خود کو مستقبل میں سلطنت کا وزیرِاعظم بتایا تو دوست بے ساختہ ہنسنے لگے۔ ایک شوخ لڑکے نے طنزیہ شعر بھی چُست کر دیا۔ محمد بن ابی عامر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ انھوں نے کہا: ’’یہ تو ہو کر ہی رہے گا۔ ابھی وقت ہے، اپنے لیے جو مانگنا ہے، مانگ لو‘‘۔ یہ سن کر ایک دوست نے استہزائیہ انداز میں کہا: ’’اے ابن ابی عامر! مجھے قاضی بننے کا شوق ہے، تم مجھے میرے آبائی شہر مالقہ کا قاضی بنا دینا۔‘‘ دوسرے نے پولیس کا اعلیٰ کا عہدہ مانگا۔ تیسرے نے کہا کہ مجھے شہر کے تمام باغات کا نگران بنا دینا۔ جس لڑکے نے طنزیہ شعر پڑھا تھا، اس نے حقارت سے کہا: ’’تمہاری اگلی سات نسلوں میں بھی کوئی وزیرِ اعظم بن گیا تو میرا منہ کالا کر کے گدھے پر شہر میں گشت کرانا۔‘‘ اور پھر لڑکا پچھتایا۔

    ابن عامر نے قرطبہ سے قانون اور ادب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی شہر کی کچہری میں بطور عرضی نویس کام شروع کر دیا۔ اپنی سنجیدگی، دل جمعی، قابلیت اور نکتہ سنجی کے باعث وہ شاہی حکام کی نظروں میں آئے اور ان کے توسط سے شاہی خاندان کے ساتھ تعلق قائم ہو گیا۔ بعض تذکروں میں‌‌ آیا ہے کہ خلیفۂ وقت کو اپنے دونوں شہزادوں کے لیے اتالیق اور جائیداد کا حساب رکھنے کے لیے محرّر چاہیے تھا اور محمد بن ابی عامر اس کے لیے منتخب ہوگئے۔ قسمت ان کے خواب اور عزم و ارادے کے ساتھ تھی اور وقت نے کچھ اس تیزی سے کروٹ بدلی کہ ابنِ عامر وہ شخص بن گئے جس کے تعاون اور مدد سے خلیفہ ہشام اوّل کے انتقال کے بعد بارہ سالہ ولی عہد ہشام دوم مسندِ خلافت تک پہنچے۔ اور پھر اسی نو عمر خلیفہ نے اپنے محسن کو حاجب جیسے اہم ترین عہدے پر فائز کیا۔ ابنِ عامر کا یہ عہد چھتیس سال تک رہا جس میں انھوں نے عیسائی لشکروں سے باون جنگیں لڑیں اور ہر بار میدان سے فاتح بن کر لوٹے۔ وہ المنصور کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اس سے قبل وہ قاضی کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے

    مشہور برطانوی مؤرخ اور ماہرِ آثارِ قدیمہ اسٹینلے لین پول نے المنصور کے بارے میں لکھا: ’’عبدالرحمٰن سوئم نے جس عظیم اندلس کا خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر المنصور کے عہد میں ہوئی‘‘۔ ابنِ ابی عامر المنصور نے اندلس میں اعلیٰ پائے کا انتظام رائج کیا اور ہر شعبے میں‌ قاعدہ مقرر کیا۔ اس عہد میں رشوت اور بدعنوانی کی سختی سے بیخ کنی کی گئی جب کہ اہلِ علم و ادب کی بڑی قدر افزائی اور ان کے لیے وظیفے مقرر کیے۔

    مشہور ہے کہ ابنِ ابی عامر نے اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل اپنے وزرا کو بتایا: ’’میں زمانۂ طالبِ علمی سے سوچتا تھا کہ اگر تقدیر مجھے اندلس کا طاقتور ترین شخص بنا دے تو میں اس سلطنت کو عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچا دوں گا کہ یہاں کے شہری ہونے پر سب فخر کریں گے۔‘‘ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ان کے عہد میں عوام خود کو بہت محفوظ خیال کرتے تھے۔ دوسری طرف وہ اسلام کے ایک بہادر سپاہی اور اپنے دین کے محافظ بھی تھے جس نے میدانِ جنگ میں عیسائیوں کو بدترین شکست دی تھی جس کی بنا پر وہ المنصور سے سخت نفرت کرتے تھے، لیکن بعد کے ادوار میں عیسائی مؤرخین نے بھی لکھا کہ اس مسلمان منتظم کے دور میں‌ اندلس کو جو عروج نصیب ہوا، وہ دوبارہ نہ مل سکا۔ انھوں نے کئی علاقوں کو فتح کے بعد مرکز کے صوبے کے طور پر اپنی سلطنت سے جوڑا اور خراج وصول کرکے اسے مالی طور پر مستحکم کیا۔

    ابنِ ابی عامر اندلس اور مسلم تاریخ کا ایک ایسا جگمگاتا کردار ہے، جس کی آب و تاب کئی سو سال گزرنے جانے کے بعد بھی ماند نہیں پڑی۔ تاریخ کی کتب میں آیا ہے کہ وہ الحاجب المنصور کے نام سے یاد کیے جاتے تھے جس میں‌ حاجب ان کا عہدہ اور المنصور ان کی غیرمعمولی فتوحات کے لیے دیا گیا نام تھا۔ 10 اگست 1002ء کو وفات پانے والے اس مشہور مسلمان منتظم اور جرنیل کی یادگار کے طور پر وسطی اسپین میں ایک پہاڑ کی سب سے بلند چوٹی کو ان سے موسوم ہے۔ اسپین میں کئی مقامات پر ان کے مجسمے نصب ہیں اور آج بھی دسویں صدی کے اس نام ور مسلمان جرنیل کی بہادری اور شان دار عہد کی یاد دلاتے ہیں۔

  • لاڑکانہ کی بیگم اشرف عباسی کا تذکرہ جو قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر تھیں

    لاڑکانہ کی بیگم اشرف عباسی کا تذکرہ جو قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر تھیں

    بیگم اشرف عباسی کا نام پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں‌ قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر کے طور پر درج ہے۔ ان کی وابستگی پیپلز پارٹی سے رہی اور ذوالفقار علی بھٹو انھیں سیاست کے میدان میں لائے تھے۔

    ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی کا تعلق لاڑکانہ سے تھا۔ وہ 1925 میں حکیم محمد سعید خان عباسی کے گھر پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم لاڑکانہ سے حاصل مکمل کرنے کے بعد دہلی اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم رہیں۔ یہ تعلیمی سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رہا اور وہ دو بچّوں‌ کی ماں تھیں جب ڈاؤ کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔

    بے نظیر بھٹو لاڑکانہ کے اس عباسی خاندان پر بہت اعتماد کرتی تھیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک پر عملی سیاست میں قدم رکھنے والی اشرف عباسی 1962ء میں صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور 1973 میں قومی اسمبلی میں‌ پہنچیں جس کے بعد انھیں قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ اس کمیٹی کی بھی رکن رہیں جس نے 1973 کا آئین مرتب کیا تھا۔ 1977 کے انتخابات ہوئے تو بیگم اشرف عباسی کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر کام یابی کے بعد محکمۂ بلدیات کا قلمدان سونپا گیا تھا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے قریبی مراسم ہونے کی وجہ سے جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں سیاسی اور عوامی جدوجہد کرنے والے راہ نماؤں اور کارکنوں‌ کے ساتھ انھوں نے بھی متعدد مرتبہ نظر بندی اور قید جھیلی۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد اور مختلف مواقع پر احتجاج کی قیادت کے دوران انھوں نے بھی لاٹھی چارج اور دوسری مشکلات کا سامنا کیا اور ثابت قدم رہیں۔

    سندھ میں بحالیٔ جمہوریت کی تحریک شروع ہوئی تو بیگم اشرف عباسی بھی اگلی صفوں‌ میں رہیں اور اسی پاداش میں 14 ماہ جیل میں بھی گزارنے پڑے۔

    1988ء کے عام انتخابات میں وہ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ عملی سیاست سے دور ہوجانے کے بعد بیگم اشرف عباسی کئی جامعات کی سینڈیکیٹ ممبر اور ’شہید ذوالفقار بھٹو انسٹیٹیوٹ‘ لاڑکانہ کی چیئرپرسن بھی رہیں۔ انھوں نے ایک ٹرسٹ قائم کیا تھا اور اس پلیٹ فارم سے مستحق اور نادار خواتین کی امداد کی جاتی تھی۔

    بیگم اشرف عباسی نے اپنی سیاسی زندگی اور ذاتی حالات اور واقعات پر مشتمل ایک کتاب سندھی زبان میں ’جیکی ھلن اکیلیوں‘ کے عنوان سے تحریر کی جس کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا۔ بیگم اشرف عباسی نے 2014ء میں‌ آج ہی کے دن 89 برس کی عمر میں‌ وفات پائی۔

  • یومِ‌ وفات: کئی فلمی نغمات اخلاق احمد کی آواز میں امر ہوگئے

    یومِ‌ وفات: کئی فلمی نغمات اخلاق احمد کی آواز میں امر ہوگئے

    پاکستان فلم انڈسٹری میں‌ پسِ پردہ گائیکی کے لیے معروف اخلاق احمد 1999ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ کئی فلمی گیتوں کو اپنی آواز دینے والے اخلاق احمد شوقیہ گلوکار تھے، اور خود بھی نہیں جانتے تھے کہ ایک دن انھیں پاکستان بھر میں پہچان اور بطور گلوکار شہرت ملے گی۔

    1952ء میں کراچی میں پیدا ہونے والے اخلاق احمد نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسٹیج پروگراموں کے لیے شوقیہ گلوکاری کا سلسلہ شروع کیا اور اسی شوق ے دوران موقع ملا تو 1971ء میں ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ نامی فلم کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروا دیا یہ فلم کراچی میں بنائی جارہی تھی، یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن انھیں خاص توجہ نہ ملی۔ مگر بعد کے برسوں‌ میں وہ ملک میں مقبول ترین گلوکاروں‌ کی صف میں‌ شامل ہوئے۔

    1974ء میں اداکار ندیم نے اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ میں اخلاق احمد کے آواز میں ایک نغمہ شامل کیا اور موسیقار روبن گھوش نے لاہور میں ان کی آواز میں اپنی فلم ’’چاہت‘‘ کا ایک نغمہ ’’ساون آئے، ساون جائے…‘‘ ریکارڈ کیا۔ اس نغمے کو بہت زیادہ پسند کیا گیا اور یہ فلمی دنیا کا ایک مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔ بعد میں اخلاق احمد کو اسی گیت پر خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    اس گلوکار کو پاکستان ٹیلی وژن کے پروگراموں میں مدعو کیا جانے لگا اور ان کے کئی گیت پی ٹی وی پر نشر ہوئے جس نے اخلاق احمد کو ملک بھر میں‌ عزت اور نام و مقام دیا۔ وہ ہر خاص و عام میں‌ مقبول تھے۔

    اخلاق احمد نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کام یاب فلموں کے لیے گیت گائے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    اخلاق احمد کو آٹھ نگار ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ کو چھونے والے اس فن کار کو 1985ء میں خون کے سرطان کی تشخیص کے بعد علاج کی غرض سے لندن جانا پڑا جہاں وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔

    اخلاق احمد کراچی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • بلند پایہ محقق، نقّاد اور معلّم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا تذکرہ

    بلند پایہ محقق، نقّاد اور معلّم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا تذکرہ

    ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری کا نام اردو زبان و ادب میں نہایت معتبر اور انھیں ایک قد آور شخصیت تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ مشہور ادبی جریدے نگار کے مدیر تھے۔ جہانِ علم و ادب میں‌ انھیں ایک ماہرِ لسانیات، محقّق اور بلند پایہ نقّاد کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

    فرمان فتح پوری 3 اگست 2013ء کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جو ہمارا علمی و ادبی سرمایہ ہیں۔

    اردو کے اس نام وَر کی زندگی کے اوراق الٹیں‌ تو تاریخِ پیدائش 26 جنوری 1926ء اور متحدہ ہندوستان میں‌ ان کا آبائی علاقہ فتح پور بتایا جاتا تھا۔ اسی شہر کی نسبت ان کے نام سے ہمیشہ جڑی رہی۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ‌علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کردیا۔

    تنقید اور تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر فتح پوری نے بڑا نام و مقام پایا۔ ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے انھیں‌ اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کرنے والے فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر عنوانات سے اپنا کام سامنے رکھا۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ اس موضوع پر نہایت مستند مانی جاتی ہے۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔

    مشہور ہے کہ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ ان کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں اور بیش بہا خزانہ ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • کیا فرینگ گلِ کی اخلاقی بددیانتی نے گراہم بیل کو ٹیلی فون کا موجد ‘بنایا’ تھا؟

    کیا فرینگ گلِ کی اخلاقی بددیانتی نے گراہم بیل کو ٹیلی فون کا موجد ‘بنایا’ تھا؟

    آج اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوگا کہ وہ ایجاد جس نے ہوا کے دوش پر ہماری زندگیوں اور مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، اس کے موجد گراہم بیل نہیں‌ تھے، جی ہاں‌، ہم بات کررہے ہیں‌ ٹیلی فون کی جس کی جدید اور ترقی یافتہ شکل اسمارٹ فونز کی صورت میں‌ اب ہمارے ہاتھوں‌ میں ہے۔

    دہائیوں قبل کئی میل دور بیٹھے دو افراد ٹیلی فون کے ذریعے ایک دوسرے کی آواز سنتے اور آپس میں بات چیت کرتے تھے اور یہ مواصلاتی رابطہ ٹیلی فون سیٹ کے ذریعے قائم ہوتا تھا۔ اس نظام اور آلے کے موجد گراہم بیل مشہور ہوئے جو ایک اسکاٹش انجینئر اور اختراع ساز تھے۔ 2 جون 1875ء کو انھوں نے مواصلاتی نظام کی وضاحت کرتے ہوئے ٹیلی فون جیسی حیرت انگیز سہولت کی ایجاد کا مژدہ سنایا۔

    1887ء میں اس ایجاد کی عملی صورت برلن میں‌ سامنے آئی اور اوّلین ٹیلی فون لائن کے ساتھ سیٹ کو منسلک کیا گیا۔ بعد میں‌ دنیا بھر میں‌ اس نظام کے تحت تاریں اور ٹیلی فون سیٹ نظر آنے لگے۔ مگر ایک صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے بعد لندن میں قائم سائنس میوزیم میں محفوظ فائلوں کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایک جرمن سائنس دان نے گراہم بیل سے 15 سال پہلے ٹیلی فون ایجاد کر لیا تھا۔

    یہ فائل جو سب کی نظروں سے اوجھل تھی، سائنس میوزیم کے اُس وقت کے مہتمم جان لفن کے ہاتھ لگی تو اس کا مطالعہ کرنے کے بعد شواہد کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا جو سائنس کی دنیا میں گراہم بیل کی شہرت کو مشکوک بناتا ہے۔

    میوزیم میں موجود کاغذات کی بدولت دو نام سامنے آئے جن میں ایک جرمن سائنس دان فلپ ریئس کا تھا اور اس فائل کے مطالعے کے بعد کہا گیا کہ اس نے 1863ء میں‌ موصلاتی نظام کی مدد سے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون سیٹ پر وصول کرنے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ اسی فائل میں دوسرا نام اُس برطانوی بزنس مین کا ہے جس پر فلپ ریئس کے اس کارنامے کو دنیا کی نظروں‌ سے مخفی رکھنے کا الزام ہے۔ اس شخص کو مواصلاتی سائنس اور کاروبار کی تاریخ میں‌ سَر فرینک گِل کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    ان کاغذات کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ اسی کاروباری شخصیت نے گراہم بیل کی شہرت کو برقرار رکھنے کے لیے جرمن سائنس دان کے آلے اور تجربات کے شواہد اور تفصیلات کو عام نہیں ہونے دیا۔ سَر فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی نے اسی جرمن سائنس داں کے تیّار کردہ آلے پر کئی برس بعد تجربات کیے تھے، لیکن اس زمانے میں فرینک گِل کی مواصلاتی کمپنی کاروبار کے لیے ایک ایسا معاہدہ کرنے والی تھی جس کا تعلق بیل کمپنی کی ایک شاخ سے تھا۔ اگر اس وقت جرمن سائنس داں کے ایجاد کردہ آلے کے کام یاب تجربات منظرِ عام پر لائے جاتے تو معاہدے کی توثیق کے امکانات محدود ہوسکتے تھے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اس سے پہلے بھی کئی محققین ٹیلی فون کی ایجاد کا سہرا جرمن سائنس داں کے سَر باندھنے کی بات کرچکے ہیں اور ان کے دعوؤں کو میوزیم میں موجود فائل سے تقویت ملتی ہے۔

    آج ٹیلی فون کے شہرت یافتہ موجد الیگزینڈر گراہم بیل کا یومِ وفات ہے۔ وہ
    ذیابیطس کے مرض کے باعث جسمانی پیچیدگیوں کے سبب سخت علیل ہوگئے تھے اور 1922ء میں انتقال کرگئے۔

    گراہم بیل کا وطن اسکاٹ لینڈ تھا اور بعد میں انھوں نے امریکا ہجرت کی تھی۔ 3 مارچ 1847ء کو گراہم بیل نے دنیا میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد ماہرِ لسانیات تھے اور پروفیسر کی حیثیت سے اپنے شعبے میں‌ فعال تھے۔ گراہم بیل کی والدہ قوّتِ سماعت سے محروم تھیں۔ مشہور ہے کہ اس سائنس داں کو والدہ کی اسی محرومی نے مواصلاتی نظام کے تحت ایک آلے کی ایجاد پر آمادہ کیا تھا۔ گراہم بیل ادب اور فنونِ‌ لطیفہ کے بھی بڑے شیدائی تھے اور پیانو بجانے میں انھیں کمال حاصل تھا۔

    گراہم بیل کی ایجاد سے متعلق تنازع یا کسی بھی بحث کو چھوڑ کر بات کی جائے تو وہ ایک باصلاحیت اور قابل طالبِ علم تھے انھیں لڑکپن ہی سے نت نئی چیزیں بنانے کا شوق ہوگیا تھا۔ اس دنیا میں ان کے استاد اور راہ نما ان کے والد تھے۔ گراہم بیل نے محض 14 سال کی عمر میں گندم صاف کرنے والی ایک سادہ مشین بناکر خود کو انجینیئر اور موجد ثابت کیا۔ وہ ایڈن برگ کے رائل ہائی اسکول اور بعد میں ایڈن برگ یونیورسٹی اور یونیورسٹی کالج آف لندن میں‌ داخل ہوئے اور اپنی تعلیم مکمل کی۔

    گراہم بیل 23 برس کے تھے جب معالج کی تشخیص نے انھیں تپِ دق کا مریض بتایا اور معالج کے مشورے پر والدین انھیں کینیڈا کے ایک صحّت افزا مقام پر لے گئے، اور وہاں بھی گراہم بیل سائنسی تجربات میں‌ مگن رہے۔ اس وقت انھوں نے بالخصوص ٹیلی گراف کے تصوّر کو عملی شکل دینے کے لیے کام کیا اور کام یاب ہوئے۔

    متعدد اہم اور نمایاں سائنسی ایجادات کے ساتھ الیگزینڈر گراہم بیل نے 1881ء میں میٹل ڈیٹیکٹر کی ابتدائی شکل متعارف کروائی۔ 1898ء میں ٹیٹرا ہیڈرل باکس کائٹس اور بعد میں‌ سلور ڈاٹ طیارہ بنایا، جس کی آزمائش 1909ء میں کی گئی اور یہ پرواز کام یاب رہی۔ اسی طرح‌ کئی مشینیں اور کام یاب سائنسی تجربات پر انھیں اس زمانے میں جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں اور ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

    عالمی شہرت یافتہ گراہم بیل جذبۂ خدمت سے سرشار رہے اور تاعمر سماعت سے محروم افراد کی مدد اور ان کے معمولاتِ زندگی کو اپنی ایجادات کی مدد سے آسان بنانے کے لیے کام کرتے رہے۔ انھوں نے ایسے اسکول قائم کیے جہاں سماعت سے محروم بچّوں کو تعلیم دی جاتی تھی جب کہ اساتذہ کی تربیت کا بھی اہتمام کیا اور ہر قسم کی اعانت کا سلسلہ آخری دم تک جاری رکھا۔ یہاں‌ یہ بات بھی قابلِ‌ ذکر ہے کہ اس سائنس داں نے اپنی شریکِ‌ سفر جس خاتون کو بنایا، وہ قوّتِ گویائی سے محروم تھیں۔

  • لیڈی ڈیانا: وہ مسکراتیں تو سب مسرور نظر آتے، غم زدہ ہوتیں تو ہر کوئی افسردہ ہوجاتا

    لیڈی ڈیانا: وہ مسکراتیں تو سب مسرور نظر آتے، غم زدہ ہوتیں تو ہر کوئی افسردہ ہوجاتا

    لیڈی ڈیانا نے 24 سال قبل اس دنیا سے اپنا ناتا توڑ لیا تھا، مگر وہ آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔

    کروڑوں دلوں کی فاتح شہزادی ڈیانا 1997ء میں آج ہی کے دن زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ فرانس کے دارُالحکومت پیرس میں ان کی کار کو حادثہ پیش آیا تھا۔

    شہزادی ڈیانا کی اچانک موت جہاں شاہی خاندان اور ان کے لواحقین کے لیے صدمہ تھی، وہیں دنیا بھر میں غم و افسوس کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈیانا کی آخری رسومات اور تدفین کے مناظر ٹیلی ویژن اسکرین پر دو ارب ناظرین نے دیکھے۔

    وہ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کی شریکِ حیات تھیں جن کے بطن سے ولیم اور ہیری نے جنم لیا۔ ڈیانا کی وفات کے وقت شہزادہ ولیم 15 اور شہزادہ ہیری 12 برس کے تھے۔

    برطانوی شاہی خاندان کی بہو، پرنسس آف ویلز ڈیانا یکم جولائی 1961ء کو انگلینڈ میں پیدا ہوئیں۔ ڈیانا فرانسس اسپنسر ان کا نام تھا جو بعد میں لیڈی ڈیانا مشہور ہوئیں۔

    وہ سحر انگیز شخصیت کی مالک تھیں جن کی جادو بھری دل کش مسکراہٹ ہر ایک کو ان کا گرویدہ بنا لیتی تھی۔ کہتے ہیں ڈیانا کی زندگی میں خوشیاں اور غم اس طرح مل گئے تھے کہ وہ مسکراتیں تو ہر چہرہ خوشی سے دمکنے لگتا اور جب وہ رو پڑتیں تو ہر آنکھ اشک بار ہوجاتی۔

    1980ء میں برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کے ساتھ ان کی دوستی کا چرچا ہوا اور 24 فروری 1981ء کو ان کی منگنی کی تقریب منعقد ہوئی۔اسی سال 29 جولائی کو وہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے اور اس جوڑے کے گھر دو بیٹوں نے جنم لیا۔

    وقت کے ساتھ ساتھ شاہی جوڑے کے تعلقات میں سرد مہری آتی گئی اور وہ ایک دوسرے پر بے وفائی کے الزامات لگاتے ہوئے دور ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔

    شہزادی ڈیانا نے خود کو فلاحی کاموں میں مصروف کرلیا اور دنیا بھر میں مختلف مسائل کبھی بارودی سرنگوں کے خطرے کی نشان دہی تو کبھی ایڈز جیسے بدترین مرض سے لڑنے کے لیے مہمّات میں‌ شریک رہیں، لیکن ازدواجی زندگی کی تلخیوں اور کرب سے نجات نہ حاصل کرسکیں۔ البتہ اسی کشمکش میں پریوں کی شہزادی اور اس جیسے کئی خوب صورت اور شایانِ شان القابات سے پکاری گئی ڈیانا کی روح جسم کے آزار سے ضرور نجات پاگئی۔

  • مقبول ترین ادیب اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی برسی

    مقبول ترین ادیب اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی برسی

    مصری ادب میں نجیب محفوظ کا نام مقبول ترین ادیب کے طور پر محفوط ہے جنھوں نے 2006ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    انھوں نے سترہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن ان کی پہلی تصنیف 38 سال کی عمر میں شایع ہوئی تھی۔ 1988ء میں وہ نوبل انعام کے لیے منتخب ہوئے اور یہ انعام ان کی اس تخلیق پر دیا گیا جو 30 برس قبل منظرِ عام پر آئی تھی۔

    50 کی دہائی میں وہ معروف ادیب بن چکے تھے اور اسی دہائی میں ان کے تین ناولوں پر مشتمل معروف ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ شائع ہوئی۔ اس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 پر مشتمل ہے۔

    نجیب محفوظ کا مکمل نام’’نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا‘‘ تھا۔ وہ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی ادبی تخلیقات میں 34 ناول، تین سو سے زائد کہانیاں اور فلم اور اسٹیج کے لیے اسکرپٹ کے علاوہ اخباری کالم شامل ہیں۔

    نجیب محفوظ کا خاندان قاہرہ کے پرانے علاقے میں غربت میں گھرا ہوا تھا۔ سخت مذہبی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی، لیکن وہ جدید نظریات اور افکار سے متاثر ہوکر روایتی معاشرت اور ثقافت سے باغی رہے۔

    1919ء میں برطانوی قبضے کے خلاف انقلاب نے بھی ان پر گہرے اثرات مرتب کیے اور یہیں سے ان کے ادیب بننے کا سفر شروع ہوا۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا اور سنا اسے اپنی کہانیوں میں اپنے فن کی گہرائی اور جذبات کی شدّت کے ساتھ سمو دیا۔

    1934ء میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کیا، مگر ماسٹرز نہ کرسکے۔ بطور صحافی بھی کیرئیر کو آگے بڑھایا، سول سروس میں بھی کام کیا، لیکن ادیب کے طورپر زندگی بھر مصروف اور کہانیاں لکھنے میں مشغول رہے۔ وہ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی ایک منفرد مثال تھے۔

  • یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    آج ہندوستان کی عظیم اور خوش حال ترین ریاست حیدر آباد دکن کے فرماں روا میر محبوب علی خان کا یومِ وفات ہے جنھوں نے اردو کو ریاست کی زبان کا درجہ دیا اور اس کی سرپرستی اور علم و ادب کے فروغ کے لیے اپنے وسائل اور دولت خرچ کی۔

    دکن کو گنگا جمنی تہذیب کا عملی نمونہ کہا جاتا تھا جس کا خزانہ معمور تھا اور جو تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تھی۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں بڑا طبقہ تیلگو دوسرا کنڑ بولتا تھا اور ایک علاقہ مراٹھی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھا۔ نظامِ دکن نے اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر ان سب کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔

    اردو زبان اور ہندوستان بھر کی عالم فاضل شخصیات، شعرا و ادیب، محقق، ماہرِ لسانیات، لغت نویس، مترجم، معلم الغرض ہر نادرِ روزگار، یکتا و یگانہ نے دربارِ دکن سے عزؑت و توقیر، انعام و اکرام اور وظائف پائے اور یہ سب میر محبوب علی خان کی اردو کی سرپرستی اور اسے سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کی بدولت ممکن ہوا تھا۔

    حیدر آباد دکن میں مختلف حکومتیں قائم رہیں۔ اس خطے نے قطب شاہی، بہمنی دور کے سلاطین کے بعد مغل حکم راں اورنگ زیب عالم گیر کا زمانہ دیکھا اور 1724ء میں یہاں آصفیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی اور بعد میں اس خاندان کے فرماں روا نظام دکن کے نام سے مشہور ہوئے۔

    میر محبوب علی خان اسی خاندان کے چھٹے حکم راں تھے۔ وہ 17 اگست 1866ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے عہد میں فارسی کی جگہ اردو کو قبول کیا اور اس کی سرپرستی کی۔ ان کا دور 50 سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے جس میں نظامِ دکن نے تعلیمی ادارے، مدرسے اور دارُالعلوم مع اقامت گاہ قائم کیے اور جدید و اسلامی علوم کی تعلیم کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    بدقسمتی کہیے یا کم علمی کہ آج ہندوستان کی ایک نہایت خوش حال اور مرفہ الحال ریاست کے اس فرماں روا کا ذکر کم ہی ہوتا ہے جس نے اردو کو اپنے دربارِ خاص میں جاودانی اور پائندگی دی تھی۔

    میر محبوب علی خان کے بعد ان کے بیٹے میر عثمان علی خان حیدرآباد کے آخری بادشاہ تھے اور ان کی تخت نشینی کے بعد دکن ہی نہیں برصغیر میں اردو نے عدیمُ النظیر ترقی کی اور فروغ پایا۔ علوم و فنون، دین و مذہب، تہذیب و ثقافت کا وہ کون سا آفتاب، کیسا گوہرِ آب دار تھا جسے حضور نظام کے دربار سے نوازا نہ گیا۔ میر عثمان علی خان نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کی منظوری دی اور اس کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے جس کا ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو زبان تھا۔

    میر محبوب علی خان 29 اگست 1911ء کو اس عالمِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

  • یومِ وفات: بہاولپور کی علمی، ادبی اور سیاسی تاریخ مرتّب کرنا شہاب دہلوی کا بڑا کارنامہ ہے

    یومِ وفات: بہاولپور کی علمی، ادبی اور سیاسی تاریخ مرتّب کرنا شہاب دہلوی کا بڑا کارنامہ ہے

    پاکستان میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ارتقا کے لیے اپنی کوششوں کے ساتھ ساتھ شہاب دہلوی کو ایک بلند پایہ محقّق، مؤرخ اور باکمال ادیب کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    ان کا اصل نام سیّد مسعود حسن رضوی تھا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد دہلی سے ہجرت کر کے بہاولپور چلے آئے اور یہیں 29 اگست 1990ء کو زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ بہاولپور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    انھوں نے 20 اکتوبر 1922ء کو دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد اور تایا شاعر و ادیب تھے اور ایک اخبار جاری کرنے کے ساتھ اشاعتی ادارہ بھی قائم کر رکھا تھا۔ شہاب دہلوی نے اسی ماحول کی بدولت اپنی عملی زندگی کا آغاز دہلی سے ماہنامہ الہام کے اجرا سے کیا۔

    بہاولپور آنے کے بعد شہاب دہلوی نے نہ صرف الہام کا دوبارہ اجرا کیا بلکہ شعر و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے تحقیقی کام میں جت گئے۔ اس حوالے سے ان کی کتب بہت مشہور ہیں۔ شہاب دہلوی نے دینی اور روحانی تشخص کو اُجاگر کرتے ہوئے علاقائی ادب کی تاریخ مرتّب کی۔ انھوں نے مشاہیرِ بہاولپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری، اوچ شریف اور وادی جمنا سے وادی ہاکڑہ تک، بہاولپور میں اردو جیسی کتابیں تصنیف کیں۔

    شہاب دہلوی شاعر بھی تھے اور ان کے شعری مجموعے نقوشِ شہاب، گل و سنگ، اور موجِ نور کے نام سے شائع ہوئے۔

    بطور محقّق شہاب دہلوی کی اہم کتب اور گراں قدر علمی و ادبی سرمائے کا مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بہاولپور کی تاریخ کے ایک مستند مؤرخ تھے۔ اردو اکیڈمی اور الزبیر نامی مشہور جریدہ ان کی یادگار ہیں۔

  • پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی کی برسی

    پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی کی برسی

    پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی 2005ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ 57 برس کی عمر میں وفات پاجانے والے پرویز مہدی کی آواز میں کئی غزلوں اور گیتوں کو گویا ایک رمق اور نئی زندگی ملی۔ وہ عظیم گلوکار مہدی حسن کے شاگرد تھے۔

    70ء کی دہائی میں ریڈیو اسٹیشن لاہور پر ’میں جانا پردیس’ کے بول پر مبنی ایک گیت ان کی آواز میں‌ گونجا جس کے ساتھ ہی ان کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوگیا۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے گائیک تھے۔

    پرویز مہدی اپنے استاد مہدی حسن کے رنگ میں گاتے تھے۔ ان کا اصل نام پرویز حسن تھا لیکن استاد سے عقیدت کی بنا پر انھوں نے خود کو پرویز مہدی کہلوانا پسند کیا اور اسی نام سے جانے گئے۔

    انھوں نے تیس سال تک گلوکاری کے اپنے سفر میں کئی شعرا کا کلام گایا اور ان کی شاعری کو مقبول و عام کیا۔ انھوں نے کئی لوک گیت بھی گائے جو بہت مشہور ہوئے۔

    14 اگست 1947ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے پرویز مہدی کے والد بشیر حسین راہی ریڈیو پاکستان کے مقبول گلوکار تھے۔

    پرویز مہدی نے ابتدا میں جے اے فاروق سے موسیقی کی تربیت حاصل کی اور بعد میں مہدی حسن کی شاگردی اختیار کرلی۔

    پاکستان کے اس معروف گلوکار کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں‌ ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ پرویز مہدی لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔