Tag: اگست وفات

  • خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    “اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور “یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔ حبُ الوطنی کے جذبات، عزم و ہمّت، دلیری اور شجاعت کے احساس کے ساتھ کلیم عثمانی کی یہ شاعری زبان و ادب میں ان کے فن اور مقام کا تعیّن بھی کرتی ہے۔

    جذبۂ حب الوطنی سے سرشار کلیم عثمانی کے کئی قومی اور ملّی نغمات ٹی وی اور ریڈیو سے نشر ہوئے اور انہی نغمات کی وجہ سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ پاکستان کے اس ممتاز شاعر اور نغمہ نگار نے 28 اگست 2000ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ 28 فروری 1928ء کو ضلع سہارن پور، دیو بند میں‌ پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھو‌ں نے پاکستان ہجرت کی اور لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔

    شعر و سخن کی دنیا میں‌ کلیم عثمانی نے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ انھوں نے فلم نگری کے لیے گیت نگاری کا آغاز کیا تو بڑا آدمی، راز، دھوپ چھائوں جیسی کام یاب فلموں‌ کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔

    آپ نے فلم راز کا یہ گیت ضرور سنا ہو گا جس کے بول تھے:
    میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا، یہ اپنے وقت کا مقبول ترین گیت تھا جسے کلیم عثمانی نے تحریر کیا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت میں انھوں نے جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین نامی فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے اور خوب شہرت پائی۔

    1973ء میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبول ترین گیت “تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ عطا کیا گیا تھا۔

    مرحوم لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • لارڈ ماؤنٹ بیٹن: آخری وائسرائے ہند جو بم دھماکے میں زندگی کی بازی ہار گئے

    لارڈ ماؤنٹ بیٹن: آخری وائسرائے ہند جو بم دھماکے میں زندگی کی بازی ہار گئے

    برصغیر کی تاریخ میں تقسیمِ ہند کے فیصلے نے آلام و مصائب کا ایک ایسا طوفان کھڑا کر دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ 1947ء میں بٹوارے کا اعلان ہوا تو بھارت اور پاکستان کے نام سے دو آزاد ممالک کو دنیا کے نقشے پر جگہ ملی جن کی سرحدوں کے اندر لاکھوں انسانوں کی لاشیں بے گور و کفن پڑی تھیں۔

    تقسیم کے اعلان ساتھ ہی ہندو مسلم فسادات کا جو سلسلہ شروع ہوا، اسے روکنے کے لیے کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ہندوستان اس وقت برطانیہ کی سب سے بڑی نوآبادی تھی جس کا آخری وائسرئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ تقسیمِ ہند کا اعلان عجلت میں کیا گیا اور ماؤنٹ بیٹن نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری نہیں کیں جب کہ اس کی جانب داری اور جھکاؤ کی وجہ سے کئی مسلم اکثریتی علاقے بھی بھارت میں شامل کردیے گئے تھے۔

    لارڈ ماؤنٹ بیٹن 1979ء میں آج ہی کے دن مغربی آئرلینڈ میں بم دھماکے کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔

    ماؤنٹ بیٹن 25 جون 1900ء کو ونڈسر برکشائر، انگلینڈ میں‌ پیدا ہوا۔ وہ برطانیہ کے شاہی خاندان کا فرد تھا۔ وہ ایک سیاست دان اور بحریہ کا اعلیٰ ترین عہدے دار تھا جس نے جنگِ عظیم، نوآبادیات سے لے ہندوستان میں بٹوارے تک تاجِ برطانیہ کے لیے خدمات انجام دیں۔

    ملکہ کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے ماؤنٹ بیٹن نے 24 مارچ 1947ء کو ہندوستان میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد تمام بااثر اور اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جس میں قائدِاعظم نے اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار پاکستان چاہتے ہیں۔ دوسری طرف کانگریسی لیڈروں نے وائسرائے ہند سے ملاقاتیں کیں اور وائسرائے پر واضح ہو گیا کہ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کیے بغیر یہاں سے واپسی مشکل ہوگی۔

    3 جون 1947ء کو آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ تاریخی مذاکرات کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے منصوبے کا اعلان کیا اور تقسیمِ ہند عمل میں آئی۔

    ماؤنٹ بیٹن کی موت کا واقعہ شمالی آئرلینڈ کے ہنگامہ خیز دنوں میں پیش آیا۔ وہاں شمالی آئر لینڈ کے برطانوی بادشاہت کے زیرِ نگیں رہنے یا خودمختار آئر لینڈ کا تنازع چل رہا تھا۔ برطانوی دستوں اور آزادی کے حامیوں میں تصادم کا سلسلہ جاری تھا اور ماؤنٹ بیٹن کے قتل کی ذمہ داری آئرش ری پبلکن آرمی نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہمارے ملک پر قبضے کی کوشش کے خلاف کیا گیا ہے۔

    ماؤنٹ بیٹن مغربی آئرلینڈ میں چھٹی کے روز سیر و تفریح اور شکار کی غرض سے موجود تھے۔ 79 سالہ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ ان کی بڑی بیٹی اور اس کا شوہر، نواسے اور خاندان کے چند دیگر افراد سمیت عملہ بھی موجود تھا۔ ماؤنٹ بیٹن اور اہلِ خانہ دریا کی سیر کے لیے لکڑی کی کشتی پر سوار تھے کہ اس میں خفیہ طور پر نصب کیا گیا بم پھٹ گیا۔ ماؤنٹ بیٹن کو پانی سے زندہ نکال لیا گیا تھا، لیکن کہا جاتا ہے کہ بارود کے سبب ان کی ٹانگیں بُری طرح زخمی ہوگئی تھیں اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

  • خاکسار تحریک کے بانی، ادیب، خطیب اور عالمِ دین علّامہ عنایتُ اللہ مشرقی کی برسی

    خاکسار تحریک کے بانی، ادیب، خطیب اور عالمِ دین علّامہ عنایتُ اللہ مشرقی کی برسی

    خاکسار تحریک کے بانی، ادیب، عالمِ دین اور ممتاز ریاضی دان علاّمہ عنایت اللہ مشرقی 1963ء آج ہی کے دن دارِ فانی سے عالمِ‌ جاودانی کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ان کا مدفن لاہور میں ہے۔

    علّامہ عنایت اللہ مشرقی 25 اگست 1883ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور شان دار تعلیمی ریکارڈ کی وجہ سے ہندوستان میں نمایاں ہوئے۔ کیمبرج یونیورسٹی انگلستان سے ریاضی اور طبیعیات کے شعبوں میں اعلیٰ امتیازات حاصل کیے۔ وہ اسلامی تعلیمات اور مشرقی ثقافت کے دل دادہ ایسے فرد تھے جس نے ہندوستان میں اپنی تحریر، تقریر اور قول و عمل سے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کے کارناموں اور اجداد کی میراث کی جانب متوجہ کیا۔

    1926ء میں مصر میں موتمر اسلامی کی کانفرنس میں‌ جہاں‌ دنیا بھر کے ہوش مند اور صاحبِ علم مسلمان راہ نماؤں نے شرکت کی وہیں علّامہ مشرقی بھی مدعو تھے۔ کانفرنس میں انھوں نے عربی زبان میں خطاب کیا جو ’’خطابِ مصر‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ انھوں نے 1931ء میں خاکسار تحریک کے نام سے ایک جماعت قائم کی، جس کا منشور نظم، ضبط، خدمت خلق اور اطاعتِ امیر تھا۔ اس پلیٹ فارم سے علامہ مشرقی کی آواز پر آزادی کی تڑپ رکھنے والے مسلمانوں نے اپنی قوّت کا مظاہرہ شروع کیا تھا۔

    1950ء میں علّامہ صاحب نے ’’انسانی مسئلہ‘‘ نامی مقالہ لکھ کر دنیا بھر میں‌ ہوش مند انسانوں کو چونکا دیا۔ اس مقالہ میں صاحبِ علم یعنی سائنس دانوں کو حکومت کرنے کا حق حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی تھی جو ان کے ذہن کی اختراع تھی۔ اس کے ساتھ ہی طبقاتی انتخاب میں غریب کی حکومت قائم کرنے کا قابل عمل تصور دیا گیا تھا۔ بیرونی دباؤ پر انگریز حکومت نے علّامہ مشرقی کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔

    ان کے علمی و دینی کارنامے اور ہندوستان میں انگریز راج کے خلاف ان کی سیاسی اور نظریاتی جدوجہد کئی ابواب کا تقاضا کرتی ہے دین ِاسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی آزادی کے لیے انتھک جدوجہد کرنے والا یہ عظیم انسان ایک بلند پایہ انشا پرداز، فلسفی اور مؤرخ بھی تھا۔ ان کی متعدد مذہبی اور دینی کتب اور علمی و ادبی تصنیف شایع ہوچکی ہیں۔

  • اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    قمر جمیل اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کرانے کے لیے مشہور ہوئے اور انھیں‌ نثری نظم کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کے معروف نقّاد، ادیب، شاعر اور مدیر تھے جن کی آج برسی ہے۔

    قمر جمیل نے حیدرآباد دکن میں 10 مئی 1927ء کو آنکھ کھولی۔ وہ تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے تھے۔ شروع ہی سے مطالعہ اور ادب کا شوق تھا جس نے انھیں خود بھی لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں‌ میں ادبی دنیا میں انھوں نے اپنی شناخت اور الگ پہچان بنائی۔

    وہ طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ قمر جمیل نے نثری نظم کی تحریک کا کراچی سے آغاز کیا تو ادیب اور شاعر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی اس تحریک نے تخلیق کے میدان میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا۔

    قمر جمیل کی زندگی میں ان کے دو شعری مجموعے خواب نما اور چہار خواب شائع ہوئے جب کہ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ جدید ادب کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا تھا۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی ادب سے بھی لگاؤ رکھتے تھے۔ عالمی ادب کا مطالعہ اور نئے افکار و رجحانات پر ان کی گہری نظر تھی۔

    دریافت کے نام سے قمر جمیل نے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔

    27 اگست سن 2000ء کو کراچی میں وفات پانے والے قمر جمیل کو عزیز آباد کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ایک پتھر جو دستِ یار میں ہے
    پھول بننے کے انتظار میں ہے

  • یومِ وفات: فانی بدایونی نے اپنی شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا

    یومِ وفات: فانی بدایونی نے اپنی شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا

    1941ء میں‌ آج ہی کے روز اس جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والے اردو کے نام وَر شاعر شوکت علی خان کا تخلّص بھی فانیؔ تھا۔ وہ اپنی حزنیہ شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا کلام ہجر کی وارداتوں، غمِ روزگار، رنج و الم کے موضوعات سے بھرا ہوا ہے۔

    کہتے ہیں کہ فانیؔ نے اردو شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ وہ 1879ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے شہر کی نسبت بدایونی کا لاحقہ استعمال کیا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور بعد میں مکتب گئے۔ 1892ء میں گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا اور انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ فانی نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔

    کالج کے زمانے میں شغل جاری رہا اور احباب و مختلف حلقوں میں‌ کلام سنانے لگے۔ بعد میں‌ وکالت پڑھ کر لکھنؤ میں پریکٹس کرنے لگے، لیکن پھر والد اور چند اعزّہ کے انتقال کے بعد ان کا ہر کام سے گویا دل اچاٹ ہوگیا اور معاش کے حوالے سے تنگی کا سامنا رہنے لگا جس نے انھیں یاسیت کی طرف دھکیل دیا۔ اسی عرصے میں غمِ جاناں نے بھی آ گھیرا اور ناکامی کے بعد بری طرح ٹوٹ گئے۔

    فانی نے شہر شہر کی خاک چھانی اور معاش کی خاطر جگہ جگہ قسمت آزماتے رہے۔ آخر فانی حیدر آباد دکن پہنچ گئے جہاں دربار سے اداروں تک عالم فاضل شخصیات کی قدر افزائی کی جاتی تھی اور نظام دکن کی جانب سے وظیفہ دیا جاتا تھا دکن میں فانی اچھے برے دن کاٹ کر دنیا سے چلے گئے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانیؔ
    زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

    یہ مقطع ان کی پیشِ نظر غزل کا حاصل ہے۔ اسی غزل میں ایک اور مقطع بھی شامل ہے جو بہت مشہور ہے، ملاحظہ ہو

    اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
    زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

    زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
    ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مَر جانے کا

    ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
    لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

    ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں
    کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا

    کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ
    آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا

  • نذیر کا تذکرہ جنھوں نے کلکتہ سے لاہور تک اپنے فلمی سفر میں‌ شان دار کام یابیاں سمیٹیں

    نذیر کا تذکرہ جنھوں نے کلکتہ سے لاہور تک اپنے فلمی سفر میں‌ شان دار کام یابیاں سمیٹیں

    پاکستان کے نام ور فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار نذیر نے 26 اگست 1983ء کو اس دارِ‌ فانی سے منزلِ جاودانی کی طرف کوچ کیا۔ انھوں نے 1935ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی فلم ’’چانکیہ‘‘ سے ہندوستان بھر میں بے مثال شہرت پائی تھی۔

    نذیر 1904ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز ایک خاموش فلم سے کیا تھا اور 1933ء میں کلکتہ چلے گئے جو اس زمانے کی فلم انڈسٹری ہونے کی وجہ سے ہر بڑے چھوٹے فن کار کا ٹھکانہ تھا۔ انھیں ان کے فلم ساز دوست کی مدد حاصل تھی اور نذیر کو ’’چانکیہ‘‘ میں‌ اداکاری کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے ثابت کردیا کہ وہ باصلاحیت اور نہایت باکمال فن کارہیں۔ اس فلم نے انھیں‌ شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی دور میں ان کی دیگر فلمیں چندر گپت، دہلی کا ٹھگ، پیاس اور اپنی نگریا وغیرہ نمائش پذیر ہوئیں۔

    اداکار نذیر نے 1939ء میں ہند پکچرز کے نام سے اپنا فلمی ادارہ بنا لیا اور سندیسہ، سوسائٹی، آبرو، سلمیٰ، لیلیٰ مجنوں اور وامق عذرا نامی فلموں میں نظر آئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے سورن لتا سے شادی کرلی جن کے ساتھ ان کی فلمی جوڑی بہت پسند کی گئی تھی۔

    قیام پاکستان کے بعد نذیر لاہور آگئے۔ یہاں انھوں نے ’’سچائی‘‘ کے نام سے اپنی پہلی فلم بنائی۔ اس کے بعد فلم ’’پھیرے‘‘ ریلیز ہوئی اور اس نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ اس کے بعد نذیر نے انوکھی داستان، خاتون، شہری بابو، ہیر، صابرہ، نورِ اسلام، عظمتِ اسلام جیسی کام یاب فلمیں‌ انڈسٹری کو دیں۔ انھوں نے اداکاری کے علاوہ فلم سازی میں خوب نام و مقام بنایا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ ہمہ جہت فن کار لاہور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔

  • ٹیلی ویژن ڈراموں کی مشہور اداکارہ خالدہ ریاست کا تذکرہ

    ٹیلی ویژن ڈراموں کی مشہور اداکارہ خالدہ ریاست کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کی مشہور اداکارہ خالدہ ریاست سرطان کے عارضے سے لڑتے ہوئے 26 اگست 1996ء کو وفات پاگئی تھیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے نام ور فن کاروں کے ساتھ ڈراموں‌ میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے اور ناظرین میں‌ مقبول ہوئیں۔

    پی ٹی وی کے ناظرین کو اپنی عمدہ پرفارمنس سے متاثر کرنے والی خالدہ ریاست یکم جنوری 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے اپنے فنی کریئر کا آغاز 70 کی دہائی میں ڈرامہ سیریل ‘نامدار‘ سے کیا، جس میں ان کے ساتھ نام ور اداکار شکیل نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ خالدہ ریاست کی مقبولیت کا آغاز حسینہ معین کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ‘بندش‘ سے ہوا۔ انھوں نے انور مقصود کے اسکرپٹ پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل ‘ہاف پلیٹ‘ میں بھی لیجنڈری اداکار معین اختر کے ساتھ اپنا کردار نبھایا تھا۔

    خالدہ ریاست کے دیگر مشہور ڈراموں میں لازوال، مانی، دو کنارے، ایک محبت سو افسانے، پڑوسی، کھویا ہوا آدمی، ٹائپسٹ شامل ہیں۔

    مرحوم خالدہ ریاست کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مائیکل فیراڈے کا تذکرہ جس نے زمین پر زندگی کے تصوّر کو بدل کر رکھ دیا

    مائیکل فیراڈے کا تذکرہ جس نے زمین پر زندگی کے تصوّر کو بدل کر رکھ دیا

    آج ہم مختلف شعبہ ہائے حیات اور علم و فنون میں جس تیز رفتاری سے ترقّی کررہے ہیں اور ایجادات و مصنوع کا جو حیرت انگیز اور محیّرالعقول سفر جاری ہے، اس میں بالخصوص انیسویں صدی کے سائنس دانوں کا بنیادی اور اہم کردار ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں‌ کرسکتی۔

    اُس دور کے سائنسی تجربات انقلاب آفریں ثابت ہوئے اور ایجادات کی ابتدائی شکلیں ہی آج جدید سانچے میں‌‌ ڈھل کر ہمارے لیے کارآمد بنی ہوئی ہیں۔ یہ تمہید دراصل عظیم سائنس داں مائیکل فیراڈے کے تذکرے کے لیے باندھی گئی ہے جس کے بارے میں کہا گیا:

    "جب ہم اس کی ایجادات اور سائنس اور صنعت پر ان کے اثرات دیکھتے ہیں تو کوئی اعزاز اتنا بڑا نظر نہیں آتا کہ فیراڈے کو دیا جاسکے، جو ہر زمانے کا عظیم ترین سائنس دان ہے۔”

    مائیکل فیراڈے کا وطن انگلستان تھا جہاں وہ 22 ستمبر 1791ء کو پیدا ہوا۔ اس عظیم سائنس دان نے زندگی کی 76 بہاریں دیکھیں۔ وہ 25 اگست 1867ء کو کیمیا اور برقیات کے میدان میں کئی انقلاب آفریں دریافتوں اور ایجادات کا خزانہ چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا۔

    فیراڈے کے ان سائنسی کارناموں نے زمین پر زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کا اصل میدان کیمیا تھا جس میں اس نے برقناطیسی قوّت اور برقناطیسی کیمیا پر بہت کام کیا۔

    مائیکل فیراڈے نے کیمیا کے میدان میں بہت سی اہم دریافتیں کیں۔ ان کی اہم ترین دریافت بینزین ہے جو ایک کیمیائی مادّہ ہے۔ کلورین گیس پر فیراڈے کی تحقیق نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم اس سائنس دان کی وجہِ شہرت بجلی اور مقناطیسیت پر ان کے تجربات اور تحقیق ہے۔

    آج بجلی گھروں میں موجود بڑی بڑی مشینوں یعنی جنریٹروں سے جو بجلی حاصل کی جاتی ہے، وہ فیراڈے کے اصول کے مطابق ہی پیدا کی جاتی ہے۔ یہی بجلی دورِ جدید میں زندگی کو رواں دواں اور کاموں کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔

    مائیکل فیراڈے کی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گاکہ ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ جب وہ عمر کے چودھویں سال میں تھا تو ایک جلد ساز کے پاس کام سیکھنے بیٹھ گیا۔ یہاں اکثر لوگ سائنس کے موضوع پر اپنی کتب اور رسائل بھی جلد بندی کے لیے دے جاتے تھے۔ فیراڈے نے ان میں دل چسپی لینا شروع کی اور یہ شوق اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ 1812ء میں لندن کے شاہی ادارے میں سائنسی لیکچر سننے کے لیے جانے لگا۔

    ایک مرتبہ فیراڈے کی ملاقات مشہور سائنس دان سرہمفری ڈیوی سے ہوگئی جنھوں نے اس کا شوق اور لگن دیکھتے ہوئے شاہی ادارے میں لیبارٹری اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے کی پیشکش کی اور یوں‌ فیراڈے ایک سائنس دان بن گیا۔

    فیراڈے 1823ء میں مایع کلورین گیس تیّار کرنے والا اوّلین سائنس دان بنا اور کام یابی کے اگلے ہی سال ایک کیمیائی مادّہ بینزین بھی دریافت کرلیا۔ فیراڈے کی ایک ایجاد وہ شیشہ بھی تھا جس میں سے حرارت نہیں گزر سکتی تھی۔

    1820ء میں ڈنمارک کے ایک سائنس دان نے ثابت کیا تھا کہ برقی رو سے مقناطیسی قوّت پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس پر غور کرتے ہوئے فیراڈے کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ بالکل اسی طرح مقناطیسی قوّت سے برقی رو بھی تو پیدا کی جا سکتی ہے اور اس نے اس پر تحقیقی کام شروع کر دیا۔ قبل ازیں فیراڈے نے بجلی اور مقناطیسیت کو استعمال کرکے بجلی سے حرکت پیدا کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ اسی طریقے پر 1830ء میں بجلی کی پہلی موٹر تیّار کرلی اور اگلے سال تجربات کے بعد یہ جانا کہ جب کسی مقناطیس کے قطبین کے درمیان کسی تار کو حرکت دی جائے تو برقی رو پیدا ہوتی ہے۔

    فیراڈے کی ان دریافتوں نے بڑے پیمانے پر برقی رو پیدا کرنے کا راستہ کھول دیا اور اسی بنیاد پر بجلی گھر میں بجلی پیدا کرنے والے بڑے بڑے جنریٹروں کی تیّاری اور تنصیب عمل میں لائی گئی۔ اس کے بعد فیراڈے ٹرانسفارمر بنانے میں لگ گئے۔ یہ وہی ٹرانسفارمر ہمارے گھر کے قریب کسی بجلی گھر کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ یہ بجلی کی تاروں میں موجود بہت زیادہ برقی توانائی کو گھروں کی ضرورت کے مطابق تبدیل کرکے گزرنے دیتا ہے۔

    برقی رو اور اس سے متعلق انقلاب برپا کردیننے والی مشینوں اور آلات کے ساتھ فیراڈے نے کیمیائی مادّوں پر بجلی کے اثرات کا بھی مطالعہ کیا۔

    آج ہم اسی سائنس دان کے طفیل اپنے تمام کام سہولت اور بڑی آسانی سے انجام دے رہے ہیں اور اس کے سائنسی کارناموں کی بدولت جو مختلف شعبوں میں‌ جو انقلاب برپا ہوا اسے تاریخ میں سب سے روشن اور شان دار باب بن کر محفوظ ہے۔

  • نام وَر ادیب اور افسانہ نگار محمود تیمور کی برسی

    نام وَر ادیب اور افسانہ نگار محمود تیمور کی برسی

    محمود تیمور مصر کے معروف ادیب اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے 1973ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ انھیں عربی ادب میں دورِ جدید میں افسانے اور مختصر کہانیوں کی بنیاد رکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    قلم کاروں نے انھیں عربی ادب کا موپاساں اور عرب کا شیکسپئیر بھی لکھا ہے۔ وہ 16 جولائی 1894ء کو مصر میں شہر قاہرہ کے ایک قدیم قصبے کے ایسے گھرانے میں‌ پیدا ہوئے جو علم و ادب کے حوالے سے معروف تھا۔ ان کے دادا ترک نژاد مصری رئیس اسماعیل پاشا تیمور اپنے شوقِ مطالعہ اور ذخیرہ کتب کے لیے مشہور تھے اور اسی ماحول میں‌ آنکھ کھولنے والے محمود تیمور کے والد ادیب بنے جن کا نام علاّمہ احمد توفیق تیمور پاشا تھا۔ یہی نہیں محمود تیمور کی پھوپھی بھی شاعرہ تھیں جب کہ ایک بھائی محمد تیمور معروف عربی ادیب تھے۔

    محمود تیمور کو بھی شروع ہی سے گھر میں کتابیں میسر آئیں اور مطالعہ کا شوق پروان چڑھا۔ انھوں نے زرعی اسکول میں تعلیم حاصل کی، لیکن ٹائیفائیڈ کا شکار ہونے کے باعث تعلیم مکمل نہ کرسکے اور کئی ماہ بستر پر گزارے۔ اس دوران گھر میں موجود کتابیں پڑھتے ہوئے خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ ان کے بھائی محمد تیمور نے اس مرحلے پر ان کی راہ نمائی کی اور گھر میں اپنی حوصلہ افزائی اور تعاون کے سبب باقاعدہ لکھاری بنے۔

    انھوں نے نوجوانی میں وزارتِ خارجہ میں ملازمت حاصل کی اور اس زمانے میں یورپ گئے جہاں قیام کے دوران مغربی ادب کا مطالعہ کیا۔ وہ موپاساں، چیخوف اور خلیل جبران کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور مصر لوٹنے کے بعد جدید عربی ادب کی بنیاد رکھی اور عربی افسانے کو بین الاقوامی معیار دیا۔

    محمود تیمور القصۃ نامی رسالے مدیر بھی رہے جس میں ان کی کئی مختصر کہانیاں شایع ہوئیں، 1925 ء میں ان کا مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ‘‘ما تراہ العيون’’ شایع ہوا اور بعد میں‌ مزید مجموعے سامنے آئے۔

    محمود تیمور نے عربی زبان میں کئی مقبول کہانیاں قارئین کو دیں جب کہ ان کے سات ناول بھی شایع ہوئے۔ انھوں نے سفر نامے بھی تحریر کیے اور ادبی مضامین لکھتے رہے۔ ان کے کئی افسانوں پر مصر میں ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں۔ محمود تیمور کی کئی کہانیوں کے تراجم بھی خاصے مقبول ہوئے۔

    عربی ادب کے اس نام وَر تخلیق کار نے بین الاقوامی ادبی کانفرنسوں میں شرکت کی اور ایک موقع پر پاکستان بھی آئے۔

    محمود تیمور نے 80 برس کی عمر میں سوئٹزر لینڈ کے شہر لوزان میں وفات پائی۔

  • چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کے چند اوراق

    چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کے چند اوراق

    نیل آرمسٹرانگ کا نام 20 جولائی سن 1969ء کو ہمیشہ کے لیے زمین کی تاریخ میں محفوظ کر لیا گیا تھا اور مستقبل میں اگر انسان چاند پر آباد ہوا تو وہاں بھی تاریخ کے اوّلین اوراق پر اسی خلا نورد کا نام جگمگا رہا ہو گا۔

    نظامِ شمسی کے سیّارے زمین کے گرد گھومنے والے چاند کی سطح پر پہلا انسانی قدم نیل آرمسٹرانگ کا تھا۔

    یہ امریکی خلا نورد 2012ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔

    امریکی خلائی مشن اپالو گیارہ کے کمانڈر کے طور پر خلا میں ان کا سفر اور چاند پر اترنا زمین کی تاریخ کے عظیم الشّان واقعات میں سے ایک ہے۔ اس موقع پر آرمسٹرانگ نے تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ یہ انسان کا چھوٹا سا قدم ہے، لیکن حقیقت میں انسانیت کی ایک بہت بڑی جَست ہے۔

    نیل آرمسٹرانگ نے دل کی بیماری کے سبب 82 برس کی عمر میں دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا تھا۔ وہ 1930ء میں امریکا میں‌ اوہائیو کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ انجینئر کے طور پر کام کرنے لگے اور امریکی بحریہ کے پائلٹ بھی رہے اور تعلیم اور تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ بعد میں‌ امریکا کے خلائی مشن کا حصّہ بنے۔

    چاند پر نیل آرمسٹرانگ اور ان کے ساتھی خلا نورد ایڈوِن ایلڈرن تقریباً تین گھنٹے چہل قدمی کے بعد کام یابی سے زمین پر لوٹ آئے تھے۔

    نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کا آخری خلائی مشن اپالو گیارہ تھا اور اس کے بعد ان کو ناسا کے ایڈوانس ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعینات کر دیا گیا تھا اور انھیں دفتری امور تفویض کر دیے گئے۔ اسی عہدے کے ساتھ، ان کو ناسا کا ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا تھا۔ اس تعیناتی کے ایک سال کے بعد ہی انھوں نے یہ عہدہ چھوڑ دیا اور سنسناٹی یونیورسٹی میں پروفیسر برائے انجینئرنگ کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔

    انھیں امریکا میں قومی سطح کے اعزازات اور دنیا بھر میں مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا۔ آرمسٹرانگ سنسناٹی میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مقیم تھے اور یہیں وفات پائی۔