Tag: اگست وفات

  • نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    مخدوم ایک نئی دنیا اور نئے آدم کے متمنّی رہے ہیں۔ ان کی انقلابی اور اشتراکی رنگ کی نظمیں انہی مرکزی خیال کے گرد گھومتی ہیں۔ آج اس عظیم شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 25 اگست 1969ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    1908ء میں ابو سعید محمد مخدوم محی الدّین حذری نے ہندوستان کی ایک متموّل ریاست حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی۔ مخدوم نے اس دور کے رواج کے مطابق قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم گھر پر مکمل کی۔ وہ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1936ء میں سٹی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اور چند سال بعد مستعفی ہوگئے۔

    ان کا ادبی اور تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور اس زمانے میں ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں اور سیاسی ہنگامہ آرائیاں جاری تھیں، اسی ماحول میں‌ ادب میں ترقی پسند رجحانات کو فروغ ملا اور مخدوم 1940ء میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری منتخب ہوگئے۔ جولائی 1943ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی باقاعدہ تشکیل مخدوم کی راہ نمائی میں ہوئی۔

    ان کی سیاسی مصروفیات بڑھ گئی تھیں اور وہ ہندوستان میں برطانوی راج کے عام انتخابات میں آندھراپردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ اس عرصے میں انھوں نے اپنی رومانوی اور انقلابی شاعری سے ہندوستان بھر میں شہرت پائی اور اصنافِ سخن میں پابند و آزاد نظموں کے علاوہ اپنے قطعات، رباعیوں اور غزلوں کے لیے مشہور ہوئے۔ ان کی مشہور تصانیف ’سرخ سویرا‘، ’گلِ تر‘ اور ’بساطِ رقص‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    مخدوم انسان دوست اور اشتراکیت کے حامی تھے۔ انھوں نے مشرق کی زبوں حالی، معاشی ابتذال، غریبوں اور محنت کشوں کا استحصال، بھوک، افلاس، غربت کے خلاف اپنے اشعار میں‌ آواز بلند کی۔ مخدوم روس کے سرخ انقلاب سے بے حد متاثر ہوئے تھے اور اسی سے ذہنی وابستگی تادمِ آخر برقرار رکھی۔

    مخدوم کی قومی نظموں میں آزادئ وطن، جنگ آزادی، مسافر، بنگال، اور چاند تاروں کا بن قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی نظموں میں علامات، اشاروں، استعاروں اور کنایوں میں ملک اور ہندوستان بھر کے سیاسی حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ فطرت اور مناظرِ قدرت کے بڑے دلدادہ رہے ہیں۔ ان کی مناظرِ قدرت پر لکھی ہوئی نظمیں بلیغ اشارے رکھتی ہیں جن میں وہ فلسفہ اور انقلاب کی رنگ آمیزی بھی کرتے ہیں اور بے لطف نہیں ہونے دیتے۔ مخدوم کی مشہور نظموں میں شاعر، سناٹا، قلندر، لختِ جگر، نہرو، رات کے بارہ بجے، گھر، اقبال، اور ‘اقبال کی رحلت’ شامل ہیں۔

    اس انقلابی شاعر نے دہلی میں وفات پائی۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
    چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

    اس اہم ترقّی پسند شاعر کی چند غزلیں اور نظمیں بھارت کی مشہور اور مقبول فلموں ’بازار‘ اور ’ گمن‘ کے لیے نام ور گائیکوں کی آواز میں ریکارڈ کروا کے شامل کی گئی تھیں۔

  • یومِ وفات: موٹر مکینک سے انقلابی ایجاد تک جیمز واٹ کا سفر ایک نظر میں!

    یومِ وفات: موٹر مکینک سے انقلابی ایجاد تک جیمز واٹ کا سفر ایک نظر میں!

    جیمز واٹ کو لوگ ایک موٹر مکینک، چند مخصوص مشینوں کو مختلف اوزاروں سے کھولنے، بند کرنے اور ان کی خرابی دور کرنے میں مشّاق سمجھتے تھے اور بس۔

    اس وقت کون جانتا تھا اور خود جیمز کو بھی نہیں‌ معلوم تھا کہ وہ مستقبل میں‌ ایک ایسا کار ہائے نمایاں انجام دے گا جس کے بعد دنیا اسے ایک موجد کی حیثیت سے یاد رکھے گی۔ اس نے بھاپ کا انجن تیّار کیا تھا جو صنعت و مواصلات کے شعبے میں انقلاب لایا۔ جیمز واٹ 1819ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ آج اس کا یومَ وفات ہے۔

    1736ء کو اسکاٹ لینڈ، برطانیہ میں‌ آنکھ کھولنے والے جیمز واٹ نے ابتدائی عمر میں مشینوں‌ اور اوزاروں‌ میں دل چسپی لینا شروع کردی تھی۔ تھوڑا بڑا ہوا تو اس زمانے کی مختلف موٹروں اور مشینوں‌ کی خرابی کو سمجھنے اور انھیں‌ کھولنے بند کرنے کے دوران اس نے ان کی سائنس کو سمجھا اور کام میں ماہر ہوتا چلا گیا۔ اس وقت بھاپ کے انجن کا خیال یا خود انجن کوئی انوکھی چیز نہ تھی بلکہ ایسی مشینیں بن چکی تھیں جن کی مدد سے کوئلے کی کانوں سے پانی باہر نکالا جاتا تھا۔ یہ مشینیں‌ بھاپ سے چلتی تھیں، لیکن اس میں مزید تبدیلیاں اور اس انجینیئرنگ میں ترقّی کا امکان موجود تھا۔

    ایک مرتبہ ایسی ہی مشین میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی اور اسے درست کرنے کے لیے جیمز واٹ سے رابطہ کیا گیا۔ واٹ کو مشین درست کرنے میں کوئی مشکل تو پیش نہ آئی، لیکن اس دوران اُس کے دماغ میں بھاپ کا انجن تیار کرنے کا وہ خیال تازہ ہو گیا جو اسے تین سال سے ستا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ایسی مشینوں‌ کو حرکت دینے کے لیے بہت زیادہ بھاپ خرچ ہوتی ہے، اور یہ خاصا منہگا پڑتا ہے۔ اس کا ذہن اس مسئلے کا حل تلاش کرتا رہا تاکہ ایسے کسی انجن کو چلانے پر کم خرچ آئے۔

    ایک روز اس پر حقیقت منکشف ہوئی کہ جو انجن اب تک بنائے گئے ہیں ان میں سلنڈر کے ذریعے ایک مشکل ترین کام انجام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نے جان لیا تھا کہ جمع شدہ بھاپ کا درجہ حرارت بہ حالتِ عمل کم ہونا چاہیے۔ البتہ سلنڈر کو اتنا ہی گرم ہونا چاہیے، جتنی اس میں داخل ہونے والی بھاپ گرم ہوتی ہے۔ غرض غور و فکر کے بعد اس کے ذہن نے ایک نئی چیز تیار کی، جسے آلہ تکثیف (کنڈنسر) کہا جاتا ہے۔ بعد میں عملی تجربہ کرتے ہوئے اس نے جو انجن بنایا وہ اس کی ذہنی اختراع کے مطابق کام انجام دینے لگا۔

    اس کا سادہ اصول یہ تھا کہ پانی کو ٹھنڈا رکھتے ہوئے سلنڈر کو بدستور گرم رہنے دیا جائے جس میں پہلے کے انجن کے مقابلے میں ایک چوتھائی یا اس بھی کم بھاپ خرچ ہوتی تھی۔

    اس ابتدائی ایجاد کے بعد حوصلہ ہوا تو جیمز واٹ نے اپنے انجن میں‌ مزید تبدیلیاں کیں اور اس دور کے بھاپ کے انجنوں اور دوسری مشینوں کے مقابلے میں‌ زیادہ بہتر اور توانائی خرچ کرنے کے اعتبار سے ایک مختلف ایجاد سامنے لانے میں‌ کام یاب رہا۔ اسی کے بیان کردہ اصول اور تیار کردہ انجن کے ڈیزائن کو سامنے رکھ کر آگلے برسوں میں ذرایع نقل و حمل اور توانائی پیدا کرنے کے حوالے سے مشینوں‌ میں‌ جدّت اور صنعتی میدان میں‌ ترقی میں‌ مدد ملی۔

    آج اس انجینئر اور بھاپ کے نئے انجن کے موجد کے مجمسے دنیا کی مختلف درس گاہوں اور میوزیم میں‌ موجود ہیں جو اس کی ایجاد اور اس کے سائنسی کارناموں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

  • عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    حسن و عشق کے قصّے ہوں یا ساغر و بادہ میں ڈوبے ہوئے صبح و شام کا تذکرہ، واعظ سے الجھنا اور اس پر طنز کرنا ہو یا محبوب سے بگڑنے کے بعد طعنہ زنی اور دشنام طرازی کا معاملہ ہو فراز نے سخن وَری میں کمال کردیا، اور رومانوی شاعر کے طور ہر عمر اور طبقے میں مقبول ہوئے، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جس نے ناانصافی، جبر اور آزادیِ اظہار پر پابندیوں کے خلاف انقلابی ترانے لکھ کر باشعور اور سنجیدہ حلقوں کو متوجہ کیا اور اردو ادب میں ممتاز ہوئے۔ آج احمد فراز کی برسی ہے۔

    سن ساٹھ کی دہائی میں پہلے شعری مجموعے سے اردو ادب کے افق پر جگمگانے والا یہ ستارہ 2008ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا، لیکن اس کی روشنی آج بھی باقی ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سیّد احمد شاہ تھا۔ وہ 14 جنوری 1931ء کو صوبۂ سرحد کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ پشاور میں ایڈورڈ کالج اور پشاور یونیورسٹی سے تعلیم حاصلی کی، دورانِ طالبِ علمی ہی ان کی شاعری اور شہرت کا آغاز ہوچکا تھا اور جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘تنہا تنہا’ شایع ہوا تو وہ بی اے کے طالبِ علم تھے۔

    احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔

    جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں انھوں نے آمریت کے خلاف لب کشائی کی اور اپنے کلام کے ذریعے جبر کو مسترد کیا تو اس کی پاداش میں کئی برس بیرونِ ملک جلا وطنی کاٹنے پر مجبور کردیے گئے۔

    احمد فراز کو ادبی خدمات پر ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا، لیکن انھوں نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات پر احتجاجاً یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔

    احمد فراز کو ان کے ادبی سفر کے دوران شہرت اور دنیا بھر میں محبت کے ساتھ ساتھ متعدد ممالک میں سرکاری سطح پر جب کہ امن و فلاح و بہبودِ انسانی کی مختلف تنظیموں اور ادبی پلیٹ فارمز سے کئی اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کا کلام برِصغیر کے مشہور غزل گائیکوں نے گایا اور خوب صورت آوازوں نے ان کی شاعری کو سامعین میں مزید مقبول بنایا۔

    مہدی حسن نے فراز کی کئی غزلوں کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا جس میں ‘رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ’ بہت پسند کی گئی اور آج بھی اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ ملکۂ ترنم میڈم نور جہاں نے فراز کی غزل ‘سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے’ گا کر شائقینِ غزل کے دل جیتے۔

    پڑوسی ملک ہندوستان میں لتا منگیشکر نے ان کی کئی غزلیں اور گیت گائے۔ ان کے علاوہ جگجیت سنگھ نے بھی فراز کی کئی غزلیں گائی ہیں۔

    فراز کے شعری مجموعوں میں سب آوازیں میری ہیں، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، خوابِ گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں شامل ہیں۔ فراز کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے جو امید و جستجو کا استعارہ بن گئے اور ان میں ہمارے لیے خوب صورت پیغام موجود ہے۔ ایک ایسا ہی شعر ملاحظہ کیجیے۔

    شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے معروف مزاحیہ اداکار جمشید انصاری کی برسی

    ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے معروف مزاحیہ اداکار جمشید انصاری کی برسی

    آج ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اسٹیج کے معروف فن کار جمشید انصاری کی برسی ہے جو ڈراموں میں اپنے مزاحیہ کرداروں کی وجہ سے ملک بھر میں مقبول ہوئے۔ وہ 24 اگست 2005ء کو طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    جمشید انصاری 31 دسمبر 1942ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر سہارن پور میں پیدا ہوئے، تقسیمِ ہند کے موقع پر ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا جہاں جمشید انصاری نے تمام عمر گزار دی۔

    انھوں نے تقریباً 200 ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کا فنی کیریئر 40 برسوں پر محیط ہے جن میں جمشید انصاری نے ’انکل عرفی‘، ’گھوڑا گھاس کھاتا ہے‘، ’تنہائیاں’، ’اَن کہی‘ جیسے مشہور ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور خوب شہرت حاصل کی۔ ’ جھروکے‘، ’دوسری عورت‘، ’زیر زبر پیش‘، ’منزلیں‘، ’بے وفائی‘ بھی ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ یس سر نو سر، برگر فیملی، رات ریت اور ہوا، زہے نصیب، ماہِ نیم شب میں انھوں نے مزاحیہ کردار ادا کیے تھے۔

    ایک زمانہ تھا جب ملک بھر میں لوگوں کی تفریح اور معلومات کا واحد اور مقبول ترین ذریعہ ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ پاکستان میں ریڈیو پروگرام اور ڈراموں میں کئی آرٹسٹوں نے اپنی آواز اور صدا کاری کے فن کو آزمایا اور خوب شہرت حاصل کی جن میں جمشید انصاری بھی شامل تھے۔

    مرحوم نے ریڈیو پر طویل ترین عرصے تک چلنے والے مقبول ترین پروگرام ’حامد میاں کے ہاں‘ میں صفدر کا یادگار کردار ادا کیا تھا۔ اس کھیل میں ان کے ادا کیے ہوئے مکالمے زبان ردِ عام ہوئے۔

    پی ٹی وی کے ڈراموں کی بات کی جائے تو ’چکو ہے میرے پاس‘، ’قطعی نہیں!‘، اور ڈرامے میں بات بات پر ان یہ کہنا، ’افشاں تم سمجھ نہیں رہی ہو‘ اور ’زور کس پر ہوا‘ ناظرین کو مسکرانے پر مجبور کر دیتا تھا۔

    جمشید انصاری نے مشہور اسٹیج ڈرامے ’بکرا قسطوں پر‘ میں بھی کردار ادا کیا تھا۔

    2005ء میں انھیں برین ٹیومر تشخیص ہوا تھا جو بہت زیادہ پھیل چکا تھا اور اسی مرض نے انھیں ہمیشہ کے لیے اپنے پرستاروں سے دور کردیا۔ لیکن ان کی یاد آج بھی دلوں میں زندہ ہے۔

  • کرکٹ: پاکستان کے مایہ ناز آل راؤنڈر وسیم حسن راجہ کی برسی

    کرکٹ: پاکستان کے مایہ ناز آل راؤنڈر وسیم حسن راجہ کی برسی

    آج وسیم حسن راجہ کا یومِ‌ وفات ہے جو کرکٹ کے مایہ ناز آل راؤنڈر تھے۔ وسیم حسن راجہ لندن میں ایک کلب میچ میں دورانِ فیلڈنگ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔

    23 اگست 2006ء کو میچ کے دوران انھوں نے اپنے ساتھی فیلڈروں کو بتایا کہ انھیں چکر آ رہے ہیں جس کے بعد انھیں میدان سے باہر لے جایا جارہا تھا کہ باؤنڈری لائن پر ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔

    وسیم راجہ پاکستان ٹیم کے کوچ بھی رہے اور آئی سی سی کے ریفری بھی۔ وہ 3 جولائی 1952ء کو ملتان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بھائی رمیز راجہ بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصّہ رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بہترین کھلاڑی اور ماہر کی حیثیت سے نام و مقام رکھتے ہیں۔

    وسیم راجہ نے 1973ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ سے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا اور مجموعی طور 57 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ انھوں نے مجموعی طور پر2821 رنز اسکور کیے جن میں 4 سنچریاں اور 18 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ 35.80 کی اوسط سے 51 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور 54 ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے۔ انھوں نے مجموعی طور پر 728 رنز اسکور کیے۔

    وسیم راجہ دائیں ہاتھ سے گیند کرنے والے لیگ سپن بالر تھے۔ وہ گگلی بھی پھینکتے تھے اور بائیں ہاتھ سے جارحانہ بیٹنگ کرنے والے مڈل آڈر بلے باز تھے۔

    انھوں نے پاکستان کی طرف سے آخری ٹیسٹ میچ نیوزی لینڈ کے خلاف 1985ء میں کھیلا تھا۔

  • صاحبِ طرز ادیب ملّا واحدی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب ملّا واحدی کی برسی

    آج اردو زبان کے صاحبِ طرز ادیب اور صحافی ملّا واحدی کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھیں دلّی سے متعلق اپنی تصنیف کی وجہ سے بہت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ ملّا واحدی نے 22 اگست 1976ء کو کراچی میں وفات پائی۔

    "میرے زمانہ کی دلّی” ملّا واحدی کی وہ یادگار تصنیف ہے جسے دہلی کے ایک دور کی مستند تاریخ قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں مصنّف نے وہ تمام حالات تحریر کیے ہیں جو انھوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔

    ان کا نام اصل نام محمد ارتضیٰ تھا، مگر مصوّرِ فطرت حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب نے انھیں ملّا واحدی کے نام سے یاد کیا جو اتنا مشہور ہوا کہ یہی ان کی شناخت بن گیا۔

    ملّا واحدی 17 مئی 1888ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں تعلیم پائی۔ ابتد اہی سے ادب اور صحافت کا شوق تھا۔ نوعمری میں قلم تھام لیا اور ملک کے مؤقر اخبارات اور جرائد میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا جن میں ماہ نامہ ’’زبان‘‘ دہلی، ماہنامہ ’’وکیل‘‘ امرتسر، ہفتہ وار ’’وطن‘‘ لاہور اور مشہور ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور شامل تھے۔ بعد میں خواجہ حسن نظامی کے ساتھ نظام المشائخ رسالہ نکالنے میں معاونت کی اور اسی عرصے میں اشاعتِ کتب اور تصنیف و تالیف کا کام شروع کردیا۔ انھوں نے چند اور رسالے بھی جاری کیے جن میں ہفتہ وار درویش، ہفتہ وار طبیب، ہفتہ وار خطیب، ہفتہ وار انقلاب اور روزنامہ رعیت شامل تھے، لیکن انھیں زیادہ عرصہ جاری نہ رکھ سکے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ملّا واحدی پاکستان چلے آئے اور پھر یہاں سے جنوری 1948ء میں کراچی سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا احیا کیا جو 1960ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں وہ دلّی اور دلّی کی شخصیات کا احوال و تذکرہ بھی رقم کرتے رہے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    ملّا واحدی کی تصانیف میں تین جلدوں میں حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات نامی کتابیں شامل ہیں۔

    اردو کے اس صاحبِ اسلوب ادیب کو کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یوری ایونری: فلسطینیوں کا ہم درد جسے ساری زندگی اسرائیلی انتہا پسند مطعون کرتے رہے

    یوری ایونری: فلسطینیوں کا ہم درد جسے ساری زندگی اسرائیلی انتہا پسند مطعون کرتے رہے

    فلسطینی عربوں اور اسرائیل کے امن پسند یہودیوں میں یوری ایونری کی مقبولیت اور پسندیدگی کی وجہ انسانی حقوق اور قیامِ امن کے لیے ان کی کوششیں ہیں۔ انھوں نے 2018ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    94 برس کی عمر میں وفات پانے والے ایونری جرمنی میں 10 ستمبر 1923ء کو پیدا ہوئے۔ اان کا اصل نام ہیلمٹ اوسٹر مین تھا۔ جرمنی میں ایڈولف ہٹلر کی قیادت میں نیشنل سوشلسٹ پارٹی کے اقتدار کے بعد ان کا خاندان 1933ء میں فلسطین ہجرت کر گیا۔ وہاں ایونری نے اسرائیلی مملکت کے لیے کام کیا، لیکن کم عمری ہی میں انھوں نے عربوں سے تعلقات بہتر بنانے اور امن کی خواہش کا اظہار شروع کردیا، اور جلد ہی انھیں یہ احساس ہوگیا کہ اسرائیلی انتہا پسندوں کی وجہ سے خطّے کے امن اور فلسطینیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ انھوں نے ایک صحافی کی حیثیت سے اپنے قلم کی طاقت کو اسرائیلی درندگی اور سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کیا۔

    بعد کے برسوں میں وہ مشرقِ‌ وسطیٰ میں تنازع کے حل اور انسانی حقوق کے ممتاز کارکن کے طور پر ابھرے اور فلسطینیوں کی توجہ حاصل کرلی۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی میں تنازع کے منصفانہ حل کے لیے جدوجہد میں گزاری اور اپنی امن کوششوں پر کئی ایوارڈز حاصل کیے۔

    وہ ایک صحافی اور ایسے مضمون نگار، کالم نویس تھے جنھوں نے نہ صرف قیامِ امن اور پائیدار حل کے حوالے سے تجاویز پیش کیں بلکہ اسرائیل کے ظلم و ستم اور عربوں کے خلاف سازشوں کو بھی بے نقاب کرتے رہے۔ وہ انتہائی دائیں اور یہودی انتہا پسندوں سے یکساں طور پر نفرت کرتے تھے۔

    ایونری 1948 میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کے دوران شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔ جون 1967 میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان چھے روزہ جنگ کے بعد وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن کے پُرجوش حامی بن گئے اور انھیں اسرائیلی قدامت پسندوں غدار کہنا شروع کردیا تھا۔

    ایونری نے 1965 سے اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے تین مدات تک خدمات انجام دیں اور فلسطینیوں کے ساتھ پائیدار اور منصفانہ امن کی ضرورت کا دفاع کرتے رہے۔

    یوری ایونری کو فلسطین کی اعزازی شہریت بھی دی گئی تھی۔ ان کے مضامین اور سیاسی رپورٹیں مختلف اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں۔

  • پریت نگر اور پریت لڑی والے گور بخش سنگھ کا تذکرہ

    پریت نگر اور پریت لڑی والے گور بخش سنگھ کا تذکرہ

    سردار گور بخش سنگھ کا نام پنجابی ادب کے ایک نام وَر قلم کار کے طور پر لیا جاتا ہے جو 1977ء میں آج کے ہی دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیب تھے۔

    26 اپریل 1895ء کو پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے گور بخش سنگھ نے والد کے انتقال کے بعد مشکلات کا سامنا کیا، لیکن کسی طرح تعلیم کا سلسلہ ترک نہ کیا، انھوں نے میٹرک کے بعد ایف سی کالج، لاہور میں داخلہ لیا، معاشی مشکلات کی وجہ سے اسی زمانے میں ایک معمولی ملازمت بھی شروع کردی، بعد میں 1913ء میں تھامسن سول انجینئری کالج، روڑکی سے ڈپلوما حاصل کیا۔ فوج میں بھرتی ہوکر عراق اور ایران گئے، 1922ء امریکا میں مشی گن یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری لے کر واپس آئے اور ریلوے انجینئر کے طور پر عملی زندگی شروع کی۔

    انھوں نے پنجابی ادب کو اپنے افسانوں، سواںح و تذکروں، تراجم، ڈراموں سے مالا مال کیا اور اپنی الگ شناخت بنائی۔ 1933ء میں انھوں نے لاہور سے پنجابی اور اُردو زبان میں ایک ماہانہ میگزین ‘‘پریت لڑی’’ جاری کیا جو لوگوں میں اتنا مقبول ہوا کہ ان کا نام ہی ‘‘گور بخش سنگھ پریت لڑی ’’پڑ گیا۔

    یہی نہیں‌ اپنے وطن سے ان کی محبّت کا بھی عجیب عالم رہا اور انھوں نے 1936ء میں لاہور اور امرتسر کے درمیان ‘‘پریت نگر ’’ یعنی محبت کرنے والوں کا شہر آباد کیا جس میں شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ انسان دوست اور فن و ثقافت سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بسایا۔ وہ ہر سال یہاں ادبی اجتماع منعقد کرتے جس میں برصغیر کے کونے کونے سے ادیب، شاعر اور دانشور شریک ہوتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے وقت جب یہ شہر بھی فسادات سے محفوظ نہ رہا تو گور بخش سنگھ دل برداشتہ ہو کر دہلی چلے گئے تھے۔

    انھوں نے کہانی، ناول، ڈرامے، مضامین اور بچوں کے ادب پر پچاس سے زائد کتب شائع کروائیں۔ گور بخش سنگھ نے میکسم گورکی کے مشہور ناول ‘‘ماں ’’ کا پنجابی ترجمہ بھی کیا۔

  • یومِ‌ وفات: یاقوتُ الحموی کی کتاب معجمُ البلدان کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا

    یومِ‌ وفات: یاقوتُ الحموی کی کتاب معجمُ البلدان کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا

    یاقوت الحموی ایک مسلمان جغرافیہ دان تھے جنھوں نے متعدد علمی و سائنسی موضوعات پر کتب تصنیف کیں جن میں مشہور ترین کتاب معجمُ البلدان ہے جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا۔ ان کا سنِ وفات 20 اگست 1229ء ہے۔

    تاریخ کے اوراق میں اس مسلمان عالم کے ولادت اور خاندانی حالات کا تذکرہ نہیں ملتا، لیکن ان کا اصل اور مکمل نام “الشیخ الامام شہابُ الدّین ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی الرومی البغدادی” بتایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک غلام تھے جنھیں روم سے قیدی بنا کر بغداد لایا گیا تھا۔ یہاں انھیں ایک تاجر “عسکر الحموی” نے خریدا تھا اور اسی نسبت وہ یاقوتُ الحموی کہلائے۔

    یاقوت الحموی کو جغرافیہ اور حساب کتاب سے خصوصی شغف تھا۔ انھوں نے جغرافیہ کے عنوان پر ایک معجم ترتیب دی جس کے مقدمے میں دیگر فنون کے علاوہ فنِ جغرافیہ پر خصوصی گفتگو کی۔ انھوں نے صرف و نحو اور لغت کے دوسرے قاعدے سیکھے اور تجارت کی غرض سے دور دراز کا سفر کیا، جس کے بعد انھیں مالک نے آزاد کردیا تھا۔ اپنے اسفار اور مختلف مقامات پر قیام کے دوران انھوں نے جغرافیائی معلومات اکٹھی کیں اور کتابی شکل میں انھیں محفوظ کیا۔

    ان کی اہم اور مشہور ترین کتاب معجم البلدان میں دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ زمین کے بارے میں تصورات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

  • شاعر، ناول نگار اور نقّاد ضیا حسین ضیا کی برسی

    شاعر، ناول نگار اور نقّاد ضیا حسین ضیا کی برسی

    2019ء میں‌ آج ہی کے روز شاعر، ناول نگار اور ناقد ضیا حسین ضیا وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ ادبی رسالے زر نگار کے مدیر بھی تھے۔

    ضیا حسین ضیا اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ ابتدائی تعلیم مختلف دینی مدارس سے حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے اردو، عربی اور علومِ اسلامیہ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کیں۔ فارسی ادب میں ایم اے اور پھر ایم فل کیا تھا۔
    انھیں ایک ایسے ادیب کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے ہمیشہ ادبی مجالس سے دور رہ کر اپنے فن اور کام کی تشہیر کے بجائے مطالعے اور غور وفکر کو ترجیح دی۔

    ضیا حسین ضیا کا ایک ناول مابین بہت پسند کیا گیا جب کہ ان کے تنقیدی اقوال اور شذرات پر مشتمل کتاب لوحِ غیر محفوظ نے انھیں خاصی شہرت عطا کی۔ ان کی نظموں کا مجموعہ دروازہ گل کے نام سے شایع ہوا اور سنجیدہ علمی و ادبی حلقوں میں ان کی پہچان کا سبب بنا۔

    علّامہ ضیا حسین ضیا کی ادبی خدمات میں رسالہ زر نگار اس لیے اہم ہے کہ اس کے ذریعے انھوں نے ادبی دنیا میں نئے تخلیق کاروں کو متعارف کرایا۔