Tag: اگست وفات

  • تاریخی درس گاہ سندھ مدرستہُ الاسلام کے بانی حسن علی آفندی کی برسی

    تاریخی درس گاہ سندھ مدرستہُ الاسلام کے بانی حسن علی آفندی کی برسی

    آج سندھ مدرستہُ الاسلام کے بانی اور نام وَر مسلمان دانش وَر حسن علی آفندی کا یومِ‌ وفات ہے جن کا نام ان کے فلاحی کاموں اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے خدمات کی وجہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ حسن علی آفندی 20 اگست 1895ء میں دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    حسن علی آفندی 14 اگست 1830ء کو سندھ کے شہر حیدرآباد کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے، مگر اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل بنایا بلکہ سندھ کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی فکر کرتے ہوئے اس عظیم درس گاہ کے قیام کے اپنے خواب کو بھی پورا کیا جس سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے بھی تعلیم حاصل کی۔

    حسن علی آفندی نے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اس راستے میں جن مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، اسے دیکھ کر انھیں سندھ کے مسلمان نوجوانوں کے لیے تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ انھوں نے اس حوالے سے ابتدائی کوششوں کے بعد ہندوستان کی دیگر قابل اور نام ور شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور ان کی مدد اور تعاون حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ بالآخر 1885ء میں حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃُ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ایک اسکول تھا اور بعد میں اسے کالج کا درجہ دیا گیا۔ آج اسی تعلیمی ادارے کے بطن سے ایس ایم لا کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے نکلے اور ان میں مستقبل کی آب یاری کا عمل جاری ہے۔

    پاکستان کے بانی، محمد علی جناح، نے سندھ مدرسہ الاسلام سے ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ حسن علی آفندی کے فلاحی کارناموں کے اعتراف میں برطانوی سرکار نے انہیں خان بہادر کا خطاب دیا تھا۔

    حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ سے بھی منسلک رہے اور مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے رکن بھی تھے۔ 1934ء سے 1938ء تک وہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔

    انھیں انگریز سرکار نے تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے خان بہادر کے خطاب سے نوازا تھا۔ حسن علی آفندی نے اس اسکول کے قیام کے لیے کوششیں شروع کیں تو وہ سرسید احمد خان سے بھی ملے۔ وہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں نے اگر جدید تعلیم حاصل نہ کی تو وہ ہر لحاظ سے پیچھے رہ جائیں گے اور ہندوستان کی آزادی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔

    سندھ مدرسہ نے ثابت کیا کہ حسن علی آفندی اور ان کے ساتھیوں کا ایک جدید درس گاہ کے قیام کا فیصلہ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں تھا کیوں کہ بعد میں اسی ادارے سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ کئی ایسے مسلمان راہ نما نکلے جنھوں نے مسلمانوں کی اصلاح اور تحریک پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا۔

  • یومِ وفات: تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے گیت سرحد پار بھی مقبول ہوئے

    یومِ وفات: تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے گیت سرحد پار بھی مقبول ہوئے

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے کم عمری میں ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور شہرت حاصل کی۔ وہ 1982ء میں آج ہی کے دن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ آج تسلیم فاضلی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا تعلق دہلی کے علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔ یوں شعروسخن سے شروع ہی سے دل چسپی رہی اور وہ وقت بھی آیا جب تسلیم فاضلی خود شاعری کرنے لگے۔ ان کا
    اصل نام اظہار انور تھا اور وہ 1947ء میں پیدا ہوئے تھے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے اپنی شہرت کے عروج پر پاکستان کی معروف اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    تسلیم فاضلی نے سادہ اور عام فہم انداز میں‌ دل کو چھو لینے والے گیت تخلیق کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت کے لیے ان کی فلمی غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور اسی گیت کی شہرت نے اس شاعر پر جیسے فلموں کی برسات کردی تھی، لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا تھا۔ تسلیم فاضلی صفِ اوّل کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے چند گیت کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
    ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
    ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
    مجھے دل سے نہ بھلانا
    کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی

    تسلیم فاضلی کے انتقال سے پاکستان فلم انڈسٹری ایک خوب صورت نغمہ نگار سے محروم ہوگئی مگر ان کے لکھے ہوئے نغمات آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں۔

  • آج مشہور قوّال اور موسیقار نصرت فتح علی خان کی برسی ہے

    آج مشہور قوّال اور موسیقار نصرت فتح علی خان کی برسی ہے

    مشہور پاکستانی قوال اور دنیا بھر میں موسیقی اور اپنی گائیکی سے پہچان بنانے والے نصرت فتح علی خان 2007ء میں‌ آج ہی کے دن اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    فیصل آباد میں پیدا ہونے والے نصرت فتح علی خان کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔ ان کا خاندان قیام پاکستان کے وقت ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے فیصل آباد آبسا تھا۔

    نصرت فتح علی خان نے فنِ قوالی، موسیقی اور گلوکاری کے اسرار و رموز سیکھے اور وہ عروج حاصل کیا کہ آج بھی دنیا بھر میں‌ انھیں ان کے فن کی بدولت نہایت عقیدت، محبت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    یہ نصرت فتح علی خان کا کارنامہ ہے کہ انھوں‌ نے قوالی کو مشرق و مغرب میں مقبول بنایا اور خاص طور پر صوفیائے کرام کے پیغام کو اپنی موسیقی اور گائیکی کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ انھوں‌ نے اپنے فن کے ذریعے دنیا کو امن، محبت اور پیار کا درس دیا اور پاکستان کا نام روشن کیا۔

    16 اگست 1997 کو پاکستان کے اس نام وَر موسیقار اور گلوکار کا لندن کے ایک اسپتال میں زندگی کا سفر تمام ہو گیا تھا۔

    کلاسیکی موسیقی اور بالخصوص قوالی کے میدان میں‌ ان کے والد اور تایا بڑا نام اور مقام رکھتے تھے اور انہی کے زیرِ سایہ نصرت فتح علی خان نے اس فن سے متعلق تمام تربیت مکمل کی تھی۔

    ابتدائی زمانے میں‌ پرفارمنس کے دوران ان کا انداز روایتی قوالوں کی طرح رہا، مگر جب انھوں‌ نے اس فن میں کلاسیکی موسیقی اور پاپ میوزک کے ملاپ کا تجربہ کیا تو ان کی شہرت کا آغاز ہوا اور پھر 1980 کی دہائی کے اواخر میں ایک غیرملکی فلم کا سائونڈ ٹریک تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تو شاید خود وہ بھی نہیں‌ جانتے تھے کہ وہ شہرت اور مقبولیت کی کن انتہاؤں‌ کو چھونے جارہے ہیں۔ 90 کی دہائی میں پاکستان اور ہندوستان میں ان کی موسیقی نے دھوم مچا دی اور انھوں نے فلمی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    “دم مست قلندر، آفریں آفریں، اکھیاں اڈیک دیاں، سانوں اک پل چین نہ آئے اورغم ہے یا خوشی ہے تُو” کی شہرت دور دور تک پھیل گئی جب کہ ان کی آواز میں‌ ایک حمد، “کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے” کو بھی بہت زیادہ سنا اور پسند کیا گیا۔

    نصرت فتح علی فیصل آباد میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • آج بابائے اردو مولوی عبدُالحق کی برسی ہے

    آج بابائے اردو مولوی عبدُالحق کی برسی ہے

    آج بابائے اردو مولوی عبدالحق کا یومِ وفات ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے اس نام وَر ماہرِ لسانیات، ادیب، محقّق اور معلّم نے 1961ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے آنکھیں موند لی تھیں۔

    بابائے اردو مولوی عبدالحق 20 اپریل 1870ء کو ہندوستان کے ضلع میرٹھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1894ء میں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا۔ علی گڑھ میں حصولِ تعلیم کے دوران سر سیّد احمد خان کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا جن کے افکار اور نظریات کا مولوی عبدالحق پر بھی گہرا اثر ہوا۔

    1895ء میں حیدر آباد دکن میں ایک تعلیمی ادارے میں تدریس کا موقع ملا اور ملازمت کی غرض سے وہاں چلے گئے۔ ترقّی پاکر صدرِ مہتمم تعلیمات ہوئے اور اورنگ آباد منتقل ہوگئے۔ بعد میں یہ ملازمت چھوڑ کر عثمانیہ کالج اورنگ آباد کے پرنسپل ہوگئے اور 1930ء میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

    فارسی اور اُردو ادب، تاریخ و فلسفہ کے شوق نے مولوی عبدالحق کو مطالعہ کی طرف راغب کیا اور بعد میں اردو زبان کے ایک محسن اور مفکر کی حیثیت سے اپنی تمام زندگی اردو کے فروغ، ترویج، تدریس اور نشر و اشاعت کے لیے وقف کردی۔ غور و فکر اور مشاہدے کے ساتھ انھوں نے اردو زبان اور اصنافِ ادب کا تحقیقی اور تنقیدی پہلوؤں سے جائزہ لیا اور اس حوالے سے مضمون لکھے۔ انھوں نے اردو لغات کی ترتیب و تدوین، مختلف اصطلاحات وضع کرنے کا مشکل کام نہایت خوبی سے نبھایا۔ بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے یوں تو متعدد علمی اور ادبی کارنامے گنوائے جاسکتے ہیں، لیکن اردو زبان کے لیے ان کی تحقیقی اور لسانی کاوشوں کی وجہ سے انھیں‌ اردو کا عظیم محسن کہا جاتا ہے۔

    مولوی عبدالحق نے اردو میں تنقید و مقدمہ نگاری کے علاوہ مختلف تصانیف، تالیفات پر تبصرہ اور جائزہ لینے کے فن کو ایک نیا ڈھنگ عطا کیا۔

    مولوی عبدالحق کا ایک کارنامہ انجمن ترقیِ اردو ہے جسے انھوں‌ نے فعال ترین تنظیم اور علمی ادارہ بنایا اور اس انجمن کے تحت لسانیات اور جدید علوم سے متعلق کتابوں کی اشاعت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مولوی عبدالحق نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور یہاں اردو کالج کی بنیاد رکھی جہاں آج بھی آرٹس کے علاوہ سائنس اور قانون کی تعلیم دی جارہی ہے۔

    مولوی عبدالحق نے حیدرآباد دکن میں اسکول و کالج‌ میں تدریس کے علاوہ جامعہ عثمانیہ میں ملازمت کے دوران اردو زبان کے لیے خدمات انجام دیں، جامعہ عثمانیہ دکن کے آخری حکم ران اور علم و فنون، زبان و ادب کے عظیم سرپرست میر عثمان علی خان کی ذاتی دل چسپی سے قائم کردہ مشہور درس گاہ تھی جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ بابائے اردو نے لغت اور فنون و سائنس سے متعلق اصطلاحات کا اسی زمانے میں اردو ترجمہ کیا۔

    بابائے اردو کی تصانیف، تالیفات متعدد ہیں تاہم چند ہم عصر(خاکے)، مخزنِ شعرا، اردو صرف و نحو، افکارِ حالی، سر سید احمد خان، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ بہت اہمیت کی حامل ہیں‌۔

    وہ وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے عبد الحق کیمپس کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اردو کے نام وَر نقّاد، ادیب اور غالب شناس ڈاکٹر معین الرحمٰن کی برسی

    اردو کے نام وَر نقّاد، ادیب اور غالب شناس ڈاکٹر معین الرحمٰن کی برسی

    ڈاکٹر سیّد معین الرحمٰن اردو کے نام وَر نقّاد، ادیب اور محقّق تھے جو 2005ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ وہ غالب پر اپنی تحقیق کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے تھے۔

    سیّد معین الرّحمٰن 5 نومبر 1942ء کو بھٹنڈہ، ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ بہاول کالج بہاولنگر سے انٹرمیڈیٹ کیا اور تقسیم کے بعد 1961ء میں اردو کالج کراچی سے بی اے، اردو لا کالج سے ایل ایل بی اور 1964ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے اردو کی سند لی۔

    انھوں نے 1972ء میں جامعہ سندھ سے پی ایچ ڈی کیا اور گورنمنٹ کالج بہاولنگر میں شعبہ اردو میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور، ایف سی کالج لاہور، گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں‌ اور 1981ء سے 2002ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر و صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے منصب سے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوئے۔

    ڈاکٹر معین الرحمٰن کثیر التّصانیف تھے۔ غالب اور اقبال پر ان کی تحقیقی کتب کے علاوہ بابائے اُردو احوال و آثار (1962ء)، نقدِ عبدالحق (1968ء)، قائد اعظم اور لائل پور (1972ء)، اُردو تحقیق یونیورسٹیوں میں (1989ء)، آپ بیتی رشید احمد صدیقی (ترتیب)، مطالعۂ یلدرم، فورٹ ولیم کالج و دیگر شایع ہوئیں۔ یہ کتابیں اردو زبان و ادب کا سرمایہ اور مستند حوالہ ہیں۔

    ڈاکٹر معین الرحمٰن کی آخری آرام گاہ قبرستان میانی صاحب، لاہور میں ہے۔

  • یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    آج اردو کے نام وَر ترقّی پسند شاعر اور صحافی خالد علیگ کا یومِ وفات ہے۔ زندگی کی 83 بہاریں دیکھنے والے خالد علیگ نے 2007ء میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا شمار پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ قلم کاروں میں ہوتا تھا۔

    خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ سمیت پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور میں قیام کیا، بعد سندھ کے شہروں میرپور خاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی آگئے جہاں تمام زندگی گزاری۔

    خالد علیگ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حرّیت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے جن کے انتقال کے بعد انھیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور 1978ء میں اس اخبار کی بندش تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

    خالد علیگ ہمیشہ ترقّی پسند مصنّفین کی تحریک میں سرگرم رہے۔ ایوب خان اور جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں آمریت اور فردِ‌ واحد کے فیصلوں کے خلاف انھوں نے صحافیوں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خالد علیگ کی شاعری میں ظلم و جبر سے نفرت، آمریت کی مخالفت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی شاعری جراتِ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔

    وہ ایک ایسے شاعر اور صحافی تھے جس نے کسی بھی موقع پر سرکاری امداد قبول نہیں کی اور اپنے قلم کو آزاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز سنی اور وہی لکھا جو حق اور سچ تھا۔ وہ خود دار تھے اور ہمیشہ خود کو اپنے ضمیر کا قیدی رکھا۔ خالد علیگ نے محنت کش طبقے اور عوام کے حق کے لیے شاعری اور صحافت کے ذریعے ہمیشہ آواز بلند کی اور بہت نام و مقام، عزّت اور احترام پایا۔ ساری زندگی کراچی شہر کی ایک بستی لانڈھی میں اپنے چھوٹے سے گھر میں گزار دی اور ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی جھیلی مگر خود داری اور اپنی آزادی کو برقرار رکھا۔

    خالد علیگ کو 1988ء میں مالی امداد کا حکومتی چیک بھجوایا گیا جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ شدید علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل تھے تو معلوم ہوا کہ حکومت کی جانب سے ان کا علاج سرکاری خرچ پر کروانے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ جان کر وہ اسپتال سے فوری گھر منتقل ہو گئے۔

    ان کی شاعری کا ایک مجموعہ ’غزال دشت سگاں‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو ان کے دوستوں اور شاگردوں نے شائع کروایا تھا۔

    ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں

    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

  • فلورنس نائٹ انگیل: صحّتِ‌ عامّہ کے شعبے اور جدید نرسنگ کی بانی کا تذکرہ

    فلورنس نائٹ انگیل: صحّتِ‌ عامّہ کے شعبے اور جدید نرسنگ کی بانی کا تذکرہ

    فلورنس نائٹ انگیل صحّتِ عامّہ اور علاج معالجے کے حوالے سے اپنی خدمات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ وہ جدید نرسنگ کی بانی تھیں اور اس شعبے میں انھوں نے انقلابی کام کیا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    فلورنس نے اٹلی کے مالی طور پر نہایت آسودہ اور خوش حال گھرانے میں جنم لیا۔ وہ 1820ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد زمین دار اور والدہ معروف سیاسی اور سماجی شخصیت تھیں۔ والدین نے ان کا نام فلورنس نائٹ انگیل رکھا۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق گھر پر فلورنس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان کے والدین رحم دل اور خدا ترس تھے، وہ سماج کے کم زور اور کم تر طبقے کی مدد اور ان سے تعاون کرتے تھے اور دوسروں کو بھی یہی درس دیتے تھے۔ اسی ماحول نے فلورنس کو بھی ایک ایسا انسان بننے پر آمادہ کیا جو ایک بامقصد اور تعمیری زندگی بسر کرتا ہے۔

    انسانوں کی خدمت اور مدد کا جذبہ فلورنس کے اندر بھی پروان چڑھا اور وہ ایک مصلح، ماہرِ شماریات اور نرس کی حیثیت سے پہچانی گئیں۔

    فلورنس نے دنیائے طب میں نرسنگ کے شعبے کا چناؤ کرتے ہوئے مریضوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور دُکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔

    انھوں نے جنگوں اور عام حالات میں اسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال اور خدمت کا کام کیا اور اپنے علم، مشاہدات اور تجربات کو تحریر میں لائیں۔ انھوں نے امراض اور حفظانِ صحّت کے حوالے سے لوگوں کی راہ نمائی کی اور ہاتھ منہ دھونے سمیت گھروں اور دیگر مقامات پر صفائی ستھرائی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
    انیسویں صدی میں زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال اور نرسوں کی تربیت کے بارے میں ان کے طرزِ عمل نے ان گنت جانیں بچائیں اور بے شمار زندگیوں کو اپنے طبّی مشوروں کی بدولت امراض سے محفوظ بنایا۔ انسانوں کو صحّت مند رہنے کے بارے میں انھوں نے کئی راہ نما اصول بتائے جن پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے۔

    نائٹ انگیل نے عوام کو سختی سے مشورہ دیا کہ زیادہ سے زیادہ روشنی کے حصول اور ہوا کے گزر کے لیے گھروں میں کھڑکیاں بنائیں اور جامد اور آلودہ ہوا کو باہر نکالنے کا بندوبست کریں۔ انھوں نے ہیضے اور ٹائیفائیڈ جیسی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے نکاسیِ آب کے نظام کو بہتر بنانے کا بھی مشورہ دیا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب اٹلی میں بھی عورتوں کا کام کرنا اور ان کے گھروں سے باہر رہنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ فلورنس کو بھی خاندان کی مخالفت سہنا پڑی لیکن انھیں والدین کا بھرپور اعتماد حاصل تھا جس نے انھیں مایوسی سے بچایا۔

    چوں کہ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کی تعلیم یافتہ خاتون تھیں تو اس وقت انھیں یوں کام کرتا دیکھ کر اور عام اور غریب لوگوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے معاشرے کے مخصوص طبقات کی جانب سے طعنے اور طنزیہ باتیں سننے کو ملتیں مگر فلورنس نائٹ انگیل نے ہر قسم کی مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انھوں نے نرسنگ کے شعبے کو باعزت اور قابلِ احترام بنایا۔

    وہ اسپتالوں اور مریضوں سے متعلق معلومات جمع کرکے باقاعدہ نوٹس تیار کرتیں اور ان کا جائزہ لے کر صحتِ عامّہ کے مسائل کو اجاگر کرتی رہیں جو اس وقت ایک بڑا کام تھا۔

    لندن میں 1910ء میں آج ہی کے دن وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں، مگر ان کا انسانوں سے محبّت اور ہم دردی کا درس انھیں آج بھی دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔

  • اردو اور ہندکو زبان کے مزاح گو شاعر نیاز سواتی کی برسی

    اردو اور ہندکو زبان کے مزاح گو شاعر نیاز سواتی کی برسی

    اردو اور ہندکو کے ممتاز مزاحیہ شاعر اور ادیب نیاز سواتی 13 اگست 1995ء کو ایک ٹریفک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر تھے جس نے معاشرتی اور اخلاقی کم زوریوں اور برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے طنز و مزاح کے نشتر چلائے اور شہرت حاصل کی۔

    نیاز سواتی ضلع مانسہرہ کے ایک گاؤں میں 29 اپریل 1941ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام نیاز محمد خان تھا۔ ڈگری کالج ایبٹ آباد سے بی اے کے بعد انھوں نے لا کالج پشاور سے ایل ایل بی کیا اور بعد میں ایبٹ آباد میں بطور سینئر پاپولیشن پلاننگ افسر عملی زندگی کا آغاز کیا۔ شگفتہ مزاجی اور نکتہ رسی و مشاہدہ کی عادت نے انھیں شعروسخن کی دنیا میں بھی ممتاز کیا۔ نیاز سواتی تحریف کے ماہر تھے اور انھوں نے کئی مشہور شعرا کے کلام کی پیروڈیاں لکھیں۔

    نیاز سواتی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں طنز کا عنصر اس وقت نہایت کاٹ دار اور قابلِ توجہ ہوجاتا ہے جب وہ معاشرے میں مغربی تہذیب کی تقلید اور اپنوں کو غیروں کی پیروی کرتا دیکھتے۔ ان کی حساس طبیعت نے انھیں معاشرتی و اخلاقی برائیوں پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے قلم کی طاقت اور اپنے فنِ شاعری کو آزمانے پر آمادہ کیا اور انھوں نے اس سے خوب کام لیا۔

    ان کی دو کتابیں بے باکیاں اور کلّیاتِ نیاز کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔ وہ مانسہرہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے

    ورنہ مجھے بھی جھوٹا سمجھتے تمام لوگ
    صد شکر اپنے حلقے کا ممبر نہیں ہوں میں
    دولت کی ریل پیل ہے اب گھر میں اس لیے
    کسٹم کا اک کلرک ہوں، ٹیچر نہیں ہوں میں

  • ممتاز ادیب، شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم سجّاد باقر رضوی کی برسی

    ممتاز ادیب، شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم سجّاد باقر رضوی کی برسی

    اردو زبان و ادب میں سجّاد باقر رضوی شاعر، ادیب، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ سجّاد باقر رضوی 1992ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    سجّاد باقر رضوی کا تعلق اعظم گڑھ، یو پی سے تھا جہاں‌ انھوں نے 4 اکتوبر 1928ء کو آنکھ کھولی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے اور یہاں‌ جامعہ کراچی سے اپنی تعلیم کا سلسلہ مکمل کیا، بعد ازاں وہ لاہور چلے گئے اور اسلامیہ کالج سول لائنز اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونے کے بعد انھوں نے ادب کے ساتھ تعلیم کے شعبے کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    سجّاد باقر رضوی کا تنقیدی کام نہایت وقیع اور اہمیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی کتب مغرب کے تنقیدی اصول اور تہذیب و تخلیق اردو تنقید میں اہم شمار کی جاتی ہیں۔

    ان کے دو شعری مجموعے ’’تیشۂ لفظ‘‘ اور ’’جوئے معانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئے جب کہ تراجم میں داستانِ مغلیہ، افتاد گانِ خاک، حضرت بلال اور بدلتی دنیا کے تقاضے کے نام سے کتابیں‌ علم و ادب کا سرمایہ اور ان کی یادگار ہیں۔

    لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر سجّاد باقر رضوی ماڈل ٹائون کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ممتاز ڈرامہ نگار اور اسٹیج ہدایت کار علی احمد کی برسی

    ممتاز ڈرامہ نگار اور اسٹیج ہدایت کار علی احمد کی برسی

    ممتاز ڈرامہ نگار اور اسٹیج ہدایت کار علی احمد 1996ء میں آج ہی کے روز ایک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کے تحریر کردہ کئی اسٹیج ڈراموں بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں میں مختلف کردار بھی نبھائے اور بامقصد اور معیاری کام کیا۔

    علی احمد 2 فروری 1927ء کو کان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور آگرہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر انڈین پیپلز تھیٹر اکیڈمی سے منسلک ہوگئے۔ انھوں نے موسیقی، رقص، اداکاری اور تھیٹر کی ترویج کے لیے بہت کام کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور میں سکونت اختیار کرنے والے علی احمد نے وہاں ایک تھیٹر آرٹ گروپ قائم کیا جس کے بینر تلے معیاری اسٹیج ڈرامے پیش کیے گئے۔ 1957ء میں انھوں نے کراچی کا رخ کیا اور یہاں پہلے ایک تھیٹر اور بعد میں نیشنل اکیڈمی فار تھیٹر اینڈ آرٹس (ناٹک) کی بنیاد ڈالی۔

    علی احمد کے تحریر کردہ مشہور ڈراموں میں ذاتِ شریف، صبح ہونے تک، آدھی روٹی ایک لنگوٹی، شیشے کے آدمی، شامتِ اعمال، قصہ جاگتے سوتے کا، سونے کی دیواریں، نیا بخار اور خوابوں کی کرچیاں شامل ہیں۔