Tag: اگست وفیات

  • نذیر: پاکستانی فلمی دنیا کا ایک قابل و باصلاحیت فن کار

    نذیر: پاکستانی فلمی دنیا کا ایک قابل و باصلاحیت فن کار

    پاکستانی فلمی صنعت میں اداکار نذیر کو ایک قابل و باصلاحیت فن کار کے طور پر پہچانا جاتا ہے جنھوں نے فلم سازی اور ہدایت کاری کے شعبہ میں بھی نام کمایا۔ نذیر 26 اگست 1983ء کو وفات پاگئے تھے۔ بطور اداکار نذیر کی وجہِ شہرت 1935ء میں ریلیز کردہ فلم ’’چانکیہ‘‘ تھی۔

    نذیر 1904ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام نذیر احمد خان تھا۔ نذیر نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز ایک خاموش فلم سے کیا اور اداکاری کے شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کے لیے 1933ء میں کلکتہ چلے گئے۔ یہ شہر اس دور میں فلم انڈسٹری کی وجہ سے ہر بڑے چھوٹے فن کار کا ٹھکانہ تھا۔ نذیر کو ان کے فلم ساز دوست کا تعاون حاصل تھا اور وہاں انھیں فلم ’’چانکیہ‘‘ میں‌ کام مل گیا۔ اداکار نذیر نے اس فلم میں اپنی پرفارمنس سے خود کو باکمال فن کار ثابت کیا۔ یہ ایک کام یاب فلم تھی جس نے نذیر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان کی دیگر فلمیں چندر گپت، دہلی کا ٹھگ، پیاس اور اپنی نگریا وغیرہ بھی اسی دور میں ریلیز ہوئیں۔

    1939ء میں اداکار نذیر نے اپنا فلمی ادارہ بنایا اور سندیسہ، سوسائٹی، آبرو، سلمیٰ، لیلیٰ مجنوں اور وامق عذرا نامی فلموں میں بطور اداکار نظر آئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے سورن لتا سے شادی کر لی۔ وہ اپنے وقت کی ایک کام یاب اور مقبول فن کار تھیں جن کے ساتھ نذیر کو فلمی جوڑی کے طور پر بہت پسند کیا گیا۔

    قیام پاکستان کے بعد نذیر لاہور آگئے۔ یہاں انھوں نے ’’سچائی‘‘ کے نام سے اپنی پہلی فلم بنائی۔ اس کے بعد فلم ’’پھیرے‘‘ ریلیز ہوئی اور اس نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ ان کے بعد نذیر نے انوکھی داستان، خاتون، شہری بابو، ہیر، صابرہ، نورِ اسلام، عظمتِ اسلام جیسی کام یاب فلمیں‌ انڈسٹری کو دیں۔ فلمی ناقدین کے مطابق اداکاری کے ساتھ نذیر نے فلم سازی کے شعبہ میں بھی خوب کام کیا۔

    فلمی دنیا کے اس باکمال فن کار کو لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • بالزاک:‌ فرانسیسی سماج کا "سیکریٹری جنرل”

    بالزاک:‌ فرانسیسی سماج کا "سیکریٹری جنرل”

    اونورے بالزاک (Honoré de Balzac) شاید دنیا کا واحد مصنّف ہے جس کے ناولوں میں کئی کردار ملتے ہیں۔ بالزاک کی خواہش تھی کہ اس کا نام اس کے کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے اور یہ خواہش پوری ہوئی۔ اسے فرانسیسی زبان کے مقبول ناول نگاروں‌ میں شمار کیا جاتا ہے۔

    اونورے بالزاک 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ بالزاک نے تعلیمی مدارج طے کیے اور پیرس میں ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازم ہوگیا۔ اس وقت تک وہ قلم تھام چکا تھا۔ وکیل کے پاس کام کرتے ہوئے اس نے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر مکمل یکسوئی سے ادب تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ بالزاک نے ابتداً بطور مصنّف لوگوں کی توجہ حاصل کی اور بعد کے برسوں میں اس کے قلم سے متعدد شاہکار کہانیاں نکلیں جن میں صرف اس کے ناولوں کی تعداد 97 ہے۔ بوڑھا گوریو اس کا ایک مقبول ناول ہے جس کا بشمول اردو متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک بے مثال داستان کے طور پر پڑھا گیا جس میں ایک لڑکی کو اس کے کزن سے محبت ہو جاتی ہے۔ فرانسیسی ناول نگار بالزاک کی یہ تخلیق انقلابِ فرانس کے بعد فرانسیسی معاشرے میں‌ جنم لیتے نئے رحجانات کے پس منظر میں ہے۔ اس کے ناولوں میں کردار نگاری اور جزئیات نگاری کمال کی ہے۔

    بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ بھی مشہور ہے کہ اس کی بہن کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں، بالزاک کے تمام رشتے دار ایک کمرے میں موجود تھے جہاں مصنّف نے اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ انھیں پڑھ کر سنانا شروع کردیا۔ جب وہ خاموش ہوا اور منتظر تھا کہ اب یہ سب اس کی تعریف کریں گے تو بالزاک کو شدید مایوسی ہوئی۔ سب نے کہا "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کی اس حوصلہ شکنی پر اپنا راستہ نہیں بدلا۔ وہ مسلسل لکھتا رہا اور وہ دن آیا جب فرانس میں وہ مقبول ہوا اور بعد میں دنیا بھر میں شہرت ملی۔

    کہتے ہیں کہ وہ نوٹ بک اور پنسل ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فرانس کی تاریخ کو ناولوں میں بیان کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے وہ جہاں بھی جاتا تھا، بالخصوص وہاں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا تھا اور بعد میں ان پر اپنے کرداروں کے ساتھ کہانیاں تخلیق کرتا تھا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا اور کسی ناول میں انہی درختوں کے درمیان یا گرد و نواح میں اپنے کرداروں جمع کرکے اپنی کہانی آگے بڑھاتا جاتا۔ بالزاک چاہتا تھا کہ وہ ہر سال دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے لکھے اور اس نے ایسا ہی کیا۔

    بالزاک لمبے فقرے لکھتا ہے اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل ہوتی ہے۔ بالزاک کو اس کے طرزِ تحریر سے زیادہ اس لیے سراہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل رہا تھا اور کہتا تھا کہ لوگ اس کی تخلیقات کو فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بالزاک نے اپنی یہ بات پوری کر دکھائی اور فرانسیسی معاشرے میں انسانوں‌ کا گویا پوسٹ مارٹم کرتا چلا گیا۔ اسی وصف نے بالزاک کو مقبول فرانسیسی ناول نگار بنایا۔ اس نے جو کردار تخلیق کیے، آج بھی وہ فرانس ہی نہں ہمیں اپنے معاشرے میں بھی مل جاتے ہیں۔

    اس کی وجہِ شہرت ہیومن کامیڈین کے عنوان کے اس کی تخلیقات کا مجموعہ بنا اور قارئین پر کھلا کہ بالزاک نے واقعی معاشرے کے ہر شعبے سے کردار، ہر گلی کوچے سے واقعات سمیٹے ہیں اور وہ سب ان سے واقف ہیں، مگر بالزاک کے قلم نے ان کی جو لفظی تصویر پیش کی ہے، وہ بہت منفرد ہے، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کو سامنے لاتے ہیں اور بالزاک ایک حقیقت نگار کے طور پر ابھرتا ہے۔

    ممتاز نقاد اور ادیب محمد حسن عسکری نے اس کے ایک ناول کے اردو ترجمہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب بالزاک نے سستے رومانی اور سنسنی خیز ناول لکھنے کے بجائے سنجیدگی سے ادب کی طرف توجہ کی تو اس زمانے میں سائنس اور خصوصاً حیاتیات کا چرچا شروع ہوگیا تھا اور یہ رحجان پیدا ہو چلا تھا کہ انسانی زندگی پر بھی حیاتیاتی اصول عائد کیے جائیں کیونکہ انسان بھی تو بنیادی اعتبار سے جانور ہی ہے۔

    چنانچہ بالزاک کے دل میں بھی سب بڑی خواہش یہ تھی کہ میں اپنے سماج کا مطالعہ ٹھیٹ علمی طریقے سے کروں اور انسانی زندگی کے ایسے اصول دریافت کروں جو حیاتیات کے اصولوں کی طرح درست اور بے لاگ ہوں۔ چنانچہ اسے فخر تھا کہ میں نہ تو رومانی ناول نگاروں کی طرح جذبات کی رو میں بہتا ہوں نہ کوئی بات اپنی طرف سے گھڑ کے کہتا ہوں بلکہ میرا ایک ایک لفظ حقیقت کے دلیرانہ مشاہدے پر مبنی ہے۔ اُسے دعویٰ تھا کہ نہ میں نے کوئی بات بڑھائی ہے، نہ گھٹائی ہے بلکہ جو کچھ دیکھا ہے اسے ہوبہو نقل کرتا چلا گیا ہوں۔ اور میرے ناول میں پورے فرانسیسی سماج کی سچی تصویر ملتی ہے۔ اسی لئے وہ اپنے آپ کو سماج کا سیکریٹری جنرل کا کہتا تھا۔

    بالزاک 18 اگست 1850ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا، لیکن آج بھی اس کی تخلیقات بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

  • سَمیرہ موسیٰ: پُراسرار موت کا شکار ہونے والی مسلمان جوہری سائنس داں

    سَمیرہ موسیٰ: پُراسرار موت کا شکار ہونے والی مسلمان جوہری سائنس داں

    سَمیرہ موسیٰ………. یہ نام آپ نے سنا ہے؟ شاید آپ میں سے کچھ لوگ ہی اس شخصیت سے واقف ہوں گے، وہ بھی بھولی بسری کہانی کے طور پر اور ان کے ذہنوں میں اس نام کے ساتھ ہی کچھ حوالے بجلی کی طرح کوند گئے ہوں گے…….. جوہری سائنس داں……..حادثے میں موت…….موساد۔

    امت مسلمہ کی اس عظیم خاتون کی داستان ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے کافی ہے جو سرخ چہرے کے ساتھ کف اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کو سائنس میں کچھ نہ کرنے کا طعنہ دے کر مسلمان نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ کہانی ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشوں کے وجود سے انکاری ہیں۔

    سمیرہ موسیٰ مصر سے تعلق رکھنے والی جوہری سائنس داں تھیں۔ وہ جوہری سائنس کے پُرامن مقاصد، خاص طور پر بیماریوں کے تدارک، کے لیے استعمال کے لیے کوشاں تھیں۔ وہ ”خطرہ” تب بنیں جب انھوں نے سستی دھاتوں کے ایٹم توڑ کر کم خرچ جوہری بم بنانے کی مساوات وضع کی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ جاننے سے پہلے سمیری موسیٰ کی مختصر سی زندگی کے نشیب وفراز کا قصہ پڑھیے۔

    سَمِیرہ موسیٰ نے 3 مارچ 1917کو مصر کے شمالی علاقے غربیا میں جنم لیا۔ ان کے والد علاقے کے مشہور سیاسی کارکن تھے، جب کہ والدہ اپنی بیٹی کے عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی سرطان کے باعث دنیا چھوڑ گئیں۔ سمیرہ کمسن ہی تھیں کہ ان کے والد انھیں لے کر مصر کے دارالحکومت قاہرہ منتقل ہوگئے، جہاں انھوں نے اپنی جمع پونجی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں لگا کر یافت کا بندوبست کیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس ذہین لڑکی نے سیکنڈری ایجوکیشن میں اعلیٰ ترین نمبر حاصل کرکے خود کو انجنیئرنگ کی تعلیم کا حق دار بنالیا تھا، مگر اس نے آگے پڑھنے کے لیے قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبۂ سائنس کا انتخاب کیا۔

    1939میں سمیرہ نے شان دار کام یابی کے ساتھ بی ایس سی ریڈیالوجی کی تکمیل کی، جس کے بعد انھوں نے ایکسرے کی تابکاری کے اثرات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنالیا۔ کلیہ سائنس کے سربراہ علی مصطفیٰ مشرفۃ کو اپنی فطین طالبہ سے توقع تھی کہ وہ تدریس کے پیشہ اپنا کر اور فیکلٹی سے بہ طور استاد وابستہ ہوکر ذہنوں کی آبیاری میں ان کی مدد کرے گی۔ سمیرہ اپنے شفیق استاد کی امید پر پوری اتریں۔ وہ قاہرہ یونیورسٹی کے کلیہ سائنس کی پہلی خاتون اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئیں، یہ اس جامعہ میں تدریس کے منصب پر بھی کسی عورت کی پہلی تقرری تھی۔ اولیت کا یہ سلسلہ اس وقت معراج کو پہنچ گیا جب وہ جوہری تابکاری کے مضمون میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے اس شعبے میں پہلی خاتون سائنس داں قرار پائیں۔

    سمیرہ موسیٰ جوہری طاقت کے پُرامن مقاصد کے استعمال پر یقین رکھتی تھیں اور اس نظریے کی پرچارک تھیں۔ ان کا کہنا تھا، ”میری خواہش ہے کہ سرطان کے لیے جوہری علاج دست یاب ہو اور اتنا سستا ہو جیسے اسپرین (ٹیبلیٹ)۔” ان کے اس قول نے بڑی شہرت حاصل کی، اور شاید یہ سوچ بھی ان کی موت کا سبب بنی۔ اپنے اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے سخت محنت کی اور ان کی تحقیقی سرگرمیوں کا محور یہی سوچ بنی رہی۔ یہ خیال ہی کیا کم قیامت خیز تھا کہ سمیرہ موسیٰ کی اس مساوات نے تو ہلچل ہی مچادی جس کی مدد سے سستی دھاتوں کے جوہر توڑ کر ایک سستا جوہری بم بنانا ممکن ہوجاتا۔ یہ استحصال زدہ تیسری دنیا کی اقوام خاص طور پر مسلم ممالک کو ایٹمی حملے کے خوف سے نجات دلانے کا تیر بہ ہدف نسخہ تھا، تو دوسری طرف ایٹم بم اور دیگر بڑے پیمانے پر ہلاکت پھیلانے والے ہتھیاروں کے بل پر دنیا میں من مانی کرنے والے ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی۔

    سمیرہ موسیٰ نے ”جوہری توانائی برائے امن کانفرنس” کا انعقاد کیا، جس میں بہت سے ممتاز سائنس داں مدعو کیے گئے تھے۔ اس پلیٹ فارم سے اس زیرک اور انسانیت دوست سائنس داں نے ”جوہر برائے امن” کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی۔ سمیرہ موسیٰ کی کوششوں سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں جوہری توانائی کے خطرات سے بچاؤ کے لیے بہت سی سفارشات مرتب کی گئیں اور کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے لیے سمیرہ موسیٰ پیش پیش رہیں۔

    سرطان کے مرض سے جنگ سمیرہ کی سرگرمیوں میں اہم ترین رہی، جس کا سبب ان کی والدہ کا اس موذی مرض کا شکار ہوکر دنیا سے چلے جانا تھا۔ وہ مختلف اسپتالوں میں جاکر رضاکارانہ طور پر سرطان کے مریضوں کی ان کے علاج میں مدد کرتی تھیں۔

    اس باصلاحیت سائنس داں اور محقق کی شہرت مصر کی سرحدیں پار کر کے دور دور تک پہنچ چکی تھی۔ جوہری سائنس میں بے مثال کام یابیوں کی بنا پر سمیرہ موسیٰ کو 1950میں امریکا کی فل برائٹ (Fulbright) اسکالر شپ ملی اور انھیں امریکی ریاست میسوری کی سینٹ لوئس یونیورسٹی میں تحقیقی سرگرمیوں کے لیے مدعو کیا گیا۔ ساتھ ہی امریکا پہنچنے پر انھیں امریکی شہریت کی بھی پیشکش کی گئی، مگر سمیرہ نے پیروں میں پڑی اس امریکی شہریت کو لات مار دی جس کی خاطر لوگ امریکیوں کے پیروں میں پڑ جاتے ہیں۔ انھوں نے یہ پیشکش رد کرتے ہوئے کہا،”میرا مُلک میرا انتظار کر رہا ہے۔”

    امریکا میں قیام کے بعد وہ وطن واپسی کی تیاری کر رہی تھیں کہ انھیں کیلیفورنیا کی کچھ جوہری تجربہ گاہوں کے دورے کی دعوت دی گئی۔ وہ پہلی غیرملکی ہوتیں جو امریکا کے ان حساس مقامات تک براہ راست رسائی حاصل کرپاتیں۔ اس دعوت پر امریکا میں نسل پرستانہ اور منفی ردعمل سامنے آیا۔

    بتایا جاتا ہے کہ 5 اگست 1952 کو وہ کیلیفورنیا کے لیے روانہ ہوئیں۔ راستے میں ایک وادی سے کچھ پہلے ان کی کار کسی پُراسرار حادثے کا شکار ہو کر چالیس فٹ گہرائی میں جا گری اور وہ فوری طور پر جاں بہ حق ہو گئیں، مگر کار کے ڈرائیور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کار کے گرنے سے پہلے اس نے چھلانگ لگا دی تھی اور زندہ بچ گیا لیکن کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا! سمیرہ کو مدعو کرنے والی فیکلٹی کا کہنا تھا کہ انھیں لانے کے لیے کوئی کار نہیں بھیجی گئی تھی، جب کہ ڈرائیور کی شناخت بھی جعلی تھی۔

    اس سانحے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔ ڈرائیور کا لاپتا ہونا صاف بتا رہا تھا کہ سمیرہ حادثے کا شکار نہیں ہوئیں انھیں باقاعدہ سازش کے تحت قتل کیا گیا ہے، مگر جس سائنس داں کی امریکا میں اتنی آؤ بھگت کی گئی اور جسے امریکی اپنی شہریت دینے کے لیے بے تاب تھے اس کی پُراسرار موت کا معاملہ دبا دیا گیا۔ اس شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سمیرہ موسیٰ کو قتل کیا گیا اور یہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی کارستانی تھی۔ ایک ممتاز عرب اور مسلم سائنس داں ہونے کی حیثیت سے اور سستے جوہری بم کے تصور کے باعث سمیرہ اسرائیل کا ہدف تھیں۔

    (سمیرہ موسیٰ کے حالاتِ زندگی پر محمد عثمان جامعی کے مضمون سے اقتباس)

  • رشی دا: وہ فلم بینوں کو ہنسانے اور رلانے کا ہنر جانتے تھے!

    رشی دا: وہ فلم بینوں کو ہنسانے اور رلانے کا ہنر جانتے تھے!

    رشی دا کو انڈین فلمی صنعت کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ ان کی فلمیں انڈیا ہی نہیں پاکستان میں بھی دیکھی گئیں اور یادگار ثابت ہوئیں۔ ان میں اصلی نقلی، اناڑی، اور نمک حرام کے نام شامل ہیں۔

    رشی کیش مکھرجی المعروف رشی دا 83 سال کی عمر میں 2006ء میں چل بسے تھے۔ ستمبر 1922ء کو رشی کیش مغربی بنگال کے مشہور شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اسی شہر کی جامعہ سے گریجویشن کے بعد کچھ عرصہ تدریس کے فرائض انجام دیے، بعد میں فلم ایڈٹنگ سیکھی۔ اس زمانے میں کلکتہ بھی فلم کا ایک بڑا مرکز ہوتا تھا۔لیکن بعد میں سب نے بمبئی کا رخ کرلیا تھا۔ 1951ء میں رشی دا نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ پہلی مرتبہ انھوں نے نامور فلم ساز بمل رائے کے ساتھ کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ فلم مسافر میں بمل رائے کے معاون ڈائریکٹر رہے۔ یہ فلم تو کام یاب نہیں ہوسکی لیکن مشہور اداکار اور فلم ساز راج کپور رشی کیش مکھرجی کے کام سے بہت متاثر ہوئے اور 1959ء میں اپنی فلم ’اناڑی‘ کے لیے ہدایات کار منتخب کرلیا۔ اس فلم میں اداکار راج کپور کے ساتھ اس دور کی مشہور اداکارہ نوتن کام کررہی تھیں۔ یہ فلم نہایت کام یاب ثابت ہوئی اور رشی دا کے کیریئر کو خوب اجالا۔ رشی دا نے کم مگر نہایت معیاری فلمیں بنائیں اور شان دار کام کیا۔ وہ 46 فلموں کے ہدایت کار تھے جنھوں نے پندرہ فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ رشی دا بھی بامقصد تفریح کے قائل تھے اور وہ سماجی موضوعات پر فلم بنانا پسند کرتے تھے۔

    ہدایت کار رشی دا نے گھریلو فلمیں اور سیدھی سادی کہانیاں سنیما بینوں کو دیں۔ وہ اپنی فلموں میں جس طرح انسان کی فطرت اور اس کے جذبات کی عکاسی کرتے تھے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ رشی دا کی اکثر فلمیں یا تو رونے پر مجبور کردیتی ہیں یا لوگ قہقہے لگانے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ رشی دا کی فلموں کے نغمات بھی بہت مقبول ہوئے۔ فلم آشیرواد، ابھیمان، گڈی، گول مال اور خوبصورت وہ فلمیں ہیں جو رشی دا کی شہرت کی وجہ اور کام یابیوں کی مثال ہیں۔

    فلمی ناقدین کے مطابق رشی دا کا کمال یہ تھا کہ وہ تشدد اور عریانیت کا سہارا لیے بغیر اپنی فلموں میں جان ڈالنا جانتے تھے۔ انھوں نے گھریلو اور عام موضوعات کے ساتھ متوسط طبقہ کے مسائل کو اجاگر کیااچھی طرح استعمال کرتے تھے۔ رشی دا فلم کو ایک طاقت ور میڈیم کے طور پر اصلاح اور پیغام رسانی کا ذریعہ خیال کرتے تھے اور اس سے یہی کام لیا۔ ان کا کمال وہ ہلکی پھلکی کامیڈی فلمیں بھی ہیں جو چپکے چپکے، نرم گرم، جھوٹ بولے کوا کاٹے
    اور آنند کے نام سے بہت مقبول ہوئیں۔ رشی دا کی یادگار فلم ’آنند‘ میں اداکار راجیش کھنہ کو کینسر کے مرض کی آخری اسٹیج پر دکھایا ہے اور یہ شخص اس مشکل وقت میں بھی اپنے ساتھیوں کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ ابھیمان میں رشی دا نے میاں بیوی کے رشتے کو بہت خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔

    رشی کیش مکھرجی کو 1999ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا جب کہ 1960ء میں ان کو اپنی فلم انورادھا پر صدر جمہوریہ میڈل دیا گیا تھا۔ فلمی دنیا میں رِشی دا کو ایک سلجھا ہوا انسان سمجھا جاتا تھا جن کا طنز و مزاح اور پرجوش انداز بھی مشہور تھا۔

  • خیّام: لازوال دھنوں کے خالق کا تذکرہ

    خیّام: لازوال دھنوں کے خالق کا تذکرہ

    ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں.. اور اے دلِ ناداں، آرزو کیا ہے، جستجو کیا ہے… جیسے لازوال گیتوں کی دھنیں تخلیق کرنے والے موسیقار خیّام کو ہندوستانی سنیما کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ لیکن ان کے گیت بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی بے حد مقبول ہوئے اور آج بھی ان کا سحر برقرار ہے۔

    محمد ظہور خیام ان کا پورا نام تھا۔ فلمی دنیا میں خیّام مشہور ہوئے۔ مایہ ناز موسیقار کو بولی وڈ میں صفِ اوّل کا میوزک ڈائریکٹر مانا جاتا ہے۔ طویل علالت کے بعد خیّام 19 اگست 2019ء کو انتقال کرگئے تھے۔ ان کی عمر 93 سال تھی۔

    ہندی فلموں‌ کے مقبول ترین نغمات آجا رے او میرے دلبر آجا، دل کی پیاس بجھا جا رے، کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے، دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجے…کو بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی دہائیوں‌ تک نہایت ذوق و شوق سے سنا گیا اور آج بھی ان کا سحر برقرار ہے۔ یہی سدا بہار گیت خیّام کو ہم عصر موسیقاروں‌ سے جداگانہ شناخت دیتے ہیں۔

    محمد ظہور خیّام 18 فروری 1927ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست پنجاب کے ضلع جالندھر کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بھارتی موسیقار نے سنہ 1953 میں فلم فٹ پاتھ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ خیّام کی بطور میوزک ڈائریکٹر مشہور فلموں میں پھر صبح ہوگی، لالہ رخ، کبھی کبھی، نوری، تھوڑی سی بے وفائی، دل نادان، بازار، رضیہ سلطان وغیرہ شامل ہیں۔ خیّام کو تین مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    خیام نے موسیقی کی تعلیم معروف موسیقار بابا جی اے چشتی سے لاہور میں حاصل کی۔ بولی وڈ میں فلم ‘امراؤ جان’ نے خیام کو راتوں رات کام یابی اور شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچایا۔ فلم ‘پھر صبح ہوگی’ کی موسیقی نے بھی خیام کو بڑا عروج دیا۔ کہتے ہیں اس فلم کے ہر گیت نے بھارت میں دھوم مچا دی۔ یہ گیت ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے اور اس کی تمام دھنیں خوب ثابت ہوئی تھیں، خیام کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمیٰ، مجروح سلطان پوری اور ندا فاضلی جیسے شاعروں کی تخلیقات کو اپنی دھنوں سے سجانے کا موقع ملا جو خیام کو انڈسٹری میں‌ نام و مقام اور اپنے فن میں‌ یگانہ بناتی چلی گئیں۔ انھوں نے جگجیت کور سے شادی کی تھی جو ایک نام ور گلوکارہ تھیں۔

    مایہ ناز موسیقار خیّام کو بھارت میں‌ نیشنل ایوارڈ کے علاوہ 2010ء میں لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • بالزاک:‌ یورپ میں حقیقت پسندی کو رواج دینے والا ناول نگار

    بالزاک:‌ یورپ میں حقیقت پسندی کو رواج دینے والا ناول نگار

    بالزاک کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سو پچھتّر سال ہونے کو آئے ہیں‌، لیکن عالمی ادب میں اس کا نام آج بھی ایک حقیقت نگار کے طور پر زندہ ہے۔ ناول نگار اور مقبول ترین مختصر کہانیوں‌ کے خالق بالزاک نے اپنی کہانیوں میں بیک وقت کئی کردار پیش کرکے انفرادیت کا ثبوت بھی دیا۔

    بالزاک کو شروع ہی سے شہرت پسند تھی۔ وہ ایک ادیب کے طور پر ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا تھا۔ بالزاک کی یہ خواہش پوری ہوئی اور وہ فرانس کا مقبول ناول نگار بنا۔ بعد میں دنیا بھر میں اسے پذیرائی ملی اور آج بھی ناول نگاری میں اس کی انفرادیت کا چرچا ہوتا ہے۔ آج بالزاک کا یومِ وفات ہے۔ 1850ء میں بالزاک آج ہی کے دن چل بسا تھا۔

    فرانسیسی ادیب بالزاک نے اپنی زندگی کے تجربات، سماجی رویّوں اور تبدیلیوں کا گہرا مشاہدہ کیا تھا۔ انہی تجربات اور مشاہدات نے بالزاک کو لکھنے پر آمادہ کیا اور وہ ایک حقیقت نگار کے طور پر سامنے آیا۔ اسے یورپی ادب میں حقیقت پسندی کو رواج دینے والا ناول نگار کہا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر بالزاک کے زورِ‌ قلم نے اپنے وقت کے مشاہیر کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا جن میں چارلس ڈکنز، ایملی زولا، گستاف فلابیر، ہینری جیمس کے نام شامل ہیں۔ ان کے علاوہ عظیم فرانسیسی فلم ساز فرانسوا تروفو اور فلم ڈائریکٹر و ناقد ژاک ریوت بھی بالزاک سے بہت متأثر تھے۔ بالزاک کی تخلیقات کو فلمی پردے کے لیے ڈھالا گیا اور قارئین کے بعد بڑی تعداد میں فلم بین بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

    ہنری ڈی بالزاک نے 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد بالزاک نے پیرس کا رخ کیا اور وہاں‌ ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازمت اختیار کرلی۔ بالزاک شروع ہی سے صحّت کے مسائل سے دوچار رہا اور ممکن ہے اسی باعث وہ حساس ہوگیا تھا اور مضطرب رہتا تھا۔ اپنے انہی جسمانی مسائل اور طبی پیچیدگیوں کے دوران وہ مطالعے کا عادی بن گیا اور پھر لکھنے کا آغاز کیا۔ بالزاک نے کہانیاں، ناول اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے جنھیں بے حد سراہا گیا۔

    وکیل کے پاس اپنی ملازمت کے دوران بالزاک مسلسل لکھتا رہا۔ معاش کی فکر اور روزگار کی تلاش اسے پبلشنگ اور پرنٹنگ کے کام کی طرف بھی لے گئی، لیکن مالی آسودگی بالزاک کا مقدر نہیں‌ بنی۔ تب، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قلم کی مزدوری کرے گا اور نام و مقام بنائے گا۔ اس نے یہی کیا اور قسمت نے بالزاک کا ساتھ نبھایا۔

    یہاں ہم بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک نہایت دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو مختلف ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ بالزاک کی بہن کی شادی تھی اور ایک روز جب تمام رشتے دار گھر میں موجود تھے، بالزاک نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ پڑھ کر سنانے لگا۔ پورا ڈرامہ سنانے کے بعد بالزاک نے جب داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا، "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کے اس تبصرے کو اہمیت نہ دی اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر وہ دن دن بھی آیا جب فرانس اور بعد میں‌ بالزاک کو دنیا بھر میں ایک ناول نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر شہرت ملی۔

    اس فرانسیسی مصنّف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نوٹ بک اور پنسل اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ فرانس کی تاریخ، اور مقامی سطح پر ہونے والی ہر قسم کی اہم سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کو قلم بند کرنا چاہتا تھا اور جہاں بھی جاتا، بالخصوص فرانس کے مختلف علاقوں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا رہتا تھا، فرصت ملنے پر وہ ان مشاہدات کے مطابق کردار اور ان پر کہانیاں تخلیق کرتا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں‌ درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا تھا اور اپنے ناول یا ڈرامے میں انہی درختوں کے درمیان اپنے کردار دکھاتا جس سے وہ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتیں۔

    بالزاک نے ٹھان لی تھی کہ ہر سال کم از کم دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے ضرور لکھے گا اور اس نے یہ کیا بھی۔ فرانس کے مصنّف نے کئی شاہکار کہانیاں تخلیق کیں، اور 97 ناول لکھے۔ بوڑھا گوریو بالزاک کا وہ مقبول ناول ہے جس کا اردو زبان میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک لازوال داستان ہے جس میں ایک لڑکی اپنے کزن کی محبّت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ ہنری ڈی بالزاک نے یہ ناول انقلابِ فرانس کے بعد اس معاشرے میں‌ جنم لینے والے نئے رحجانات کے پس منظر میں تخلیق کیا ہے۔ ”تاریک راہوں کے مسافر“ میں بالزاک کی کردار نگاری عروج پر ہے جب کہ جزئیات نگاری کی وجہ سے بھی اسے بہت سراہا جاتا ہے۔

    فرانسیسی ادیب بالزاک کے طرزِ‌ نگارش کا ایک وصف طویل فقرے ہیں اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل موجود ہوتی ہے۔ بالزاک کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل تھا اور اپنے احباب سے کہتا تھا کہ میں‌ قلم سے وہ کام لوں گا کہ لوگ مجھے فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بلاشبہ بالزاک نے اپنے زورِ قلم کو منوایا اور فرانسیسی معاشرے کا گویا پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیا۔ اس تخلیق کردہ کردار آج بھی فرانس ہی نہیں ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

    بالزاک کا ایک ادبی کارنامہ اور وجہِ شہرت وہ تخلیقات ہیں‌ جو بعنوان ہیومن کامیڈین شایع ہوئیں۔ اس میں بالزاک نے فرانس کے ہر شعبہ ہائے حیات اور ہر مقام سے کردار منتخب کرکے کہانیاں تخلیق کیں، اس کے ناول فرانس میں‌ تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں‌ کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کی مؤثر ترجمانی کرتے ہیں۔

    بالزاک کے بارے میں‌ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ وہ طبی مسائل اور کئی پیچیدگیوں میں‌ مبتلا ہو گیا تھا اور غالباً اسی سبب وہ حساس طبع ہونے کے علاوہ کچھ شخصی کم زوریوں اور تضادات کا شکار بھی رہا۔ یہ کم زرویاں اس کی وہ خامیاں بن گئیں جن کی وجہ سے اکثر اسے ناپسند کیا جاتا تھا۔ عقیل احمد روبی اس حوالے سے لکھتے ہیں: لین دین کے سلسلے میں بالزاک بڑا ناقابل اعتماد آدمی تھا۔ اس کا بائیو گرافر آندرے بلی کہتا ہے کہ بالزاک شرمناک حد تک واہیات نادہندہ تھا۔ بہنوں، دوستوں، واقف کاروں، پبلشروں کے ساتھ اس نے کبھی کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا حتیٰ کہ اس نے اس سلسلے میں اپنی ماں تک کو ناکوں چنے چبوا دیے۔آندرے بلی نے بالزاک کے نام اس کی ماں کا ایک خط بالزاک کی بائیو گرافی میں دیا ہے۔ چند جملے دیکھیے۔’’تمہارا آخری خط مجھے نومبر 1834ء میں ملا تھا۔ جس میں تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم اپریل 1835ء سے مجھے ہر تین ماہ کے بعد دو سو فرانک خرچہ دیا کرو گے۔ اب اپریل 1837ء آ گیا ہے تم نے مجھے ایک فرانک تک نہیں بھیجا۔ بالزاک تم سوچ نہیں سکتے یہ وقت میں نے کیسے گزارا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ میں دونوں ہاتھ پھیلا کر کہوں ’’خدارا مجھے روٹی دو‘‘۔ اب تک میں جو کچھ کھاتی رہی وہ میرے داماد نے مجھے دیا۔ یہ کب تک چلے گا۔ میرے بچے تم فرنیچر پر، لباس پر، جیولری پر اور عیاشی پر خرچہ کرتے ہو اپنی ماں کے بارے میں بھی سوچو۔‘‘بالزاک نے خط پڑھ کر ماں کو اس خط کا جواب دیا جو ایک جملے پر مبنی تھا اور وہ جملہ یہ تھا۔’’میرا خیال ہے تم پیرس آ کر مجھ سے ایک گھنٹہ بات کرو۔‘‘

  • خالد علیگ: جس نے جبر کے آگے سَر نہیں جھکایا، اور جو بِکا نہیں!

    خالد علیگ: جس نے جبر کے آگے سَر نہیں جھکایا، اور جو بِکا نہیں!

    خالد علیگ کا شمار پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ ترقّی پسند شاعر اور سینئر صحافی خالد علیگ 2007ء میں‌ آج ہی کے روز کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ انھیں راست گوئی، اصول پرستی اور ان کے اجلے کردار کی وجہ سے صحافت کی دنیا میں بہت عزّت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ سمیت پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور میں قیام کیا، بعد سندھ کے شہروں میرپور خاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی آگئے جہاں تمام زندگی گزاری۔

    خالد علیگ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حرّیت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے جن کے انتقال کے بعد انھیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور 1978ء میں اس اخبار کی بندش تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

    خالد علیگ نے ترقّی پسند مصنّفین کی تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔ ایوب خان اور جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں آمریت اور فردِ‌ واحد کے فیصلوں کے خلاف انھوں نے صحافیوں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خالد علیگ کی شاعری میں ظلم و جبر سے نفرت، آمریت کی مخالفت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی شاعری جراتِ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔ وہ ایک خود دار انسان تھے جس نے کسی بھی موقع پر سرکاری امداد قبول نہیں کی اور اپنے قلم کو اپنے ضمیر کی آواز پر متحرک رکھا۔ خالد علیگ نے وہی لکھا جو حق اور سچ تھا۔ خالد علیگ نے محنت کش طبقے اور عوام کے لیے شاعری کی اور ساری عمر جدوجہد کرتے ہوئے گزاری۔ وہ کراچی شہر کی ایک بستی لانڈھی میں چھوٹے سے گھر میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے۔ خالد علیگ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اپنی عوامی جدوجہد کے دوران انھوں نے بہت سی تکالیف اور پریشانیاں بھی اٹھائیں مگر اپنی خود داری پر آنچ نہ آنے دی۔ 1988ء میں انھیں حکومت کی جانب سے مالی امداد کے لیے رقم کا چیک بھجوایا گیا تھا، لیکن خالد علیگ نے اسے قبول نہ کیا۔ ایک مرتبہ وہ شدید علالت کے سبب بغرضِ علاج مقامی اسپتال میں داخل تھے اور حکومت نے سرکاری خرچ پر ان کے علاج کا اعلان کیا تو خالد علیگ فوراً اسپتال سے اپنے گھر منتقل ہو گئے۔

    خالد علیگ کو پی ڈبلیو ڈی میں بحیثیت سول انجینئر اپنی ملازمت کے دوران سندھ کے مختلف علاقوں میں رہنے کا موقع ملا لیکن 1960ء میں انھوں نے ملازمت ترک کردی اور کراچی منتقل ہوگئے تھے۔ ملازمت ترک کرنے کا سبب طبقۂ اقتدار کے خلاف اُن کا مزاحمتی اور باغیانہ اظہار اور محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد تھا۔ مارشل لا کے دور میں خالد علیگ کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن اُن کے لہجے اور آہنگ میں بدترین آمریت کے ادوار میں بھی کبھی دھیما پن نہیں آیا۔ اُن کی شاعری میں بھی یہی عنصر ہمیشہ غالب رہا۔ خالد علیگ کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں
    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

  • رازؔ سے مل کے آپ خوش ہوں‌ گے!

    رازؔ سے مل کے آپ خوش ہوں‌ گے!

    ابوالفاضل رازؔ چاند پوری کا اصل نام محمد صادق اور تخلص رازؔ تھا۔ اپنے بڑے بیٹے محمد فاضل کی عالمِ طفلی میں وفات کے بعد اس مناسبت سے ابوالفاضل کنّیت اختیار کر لی۔

    رازؔ چاند پوری 25 مارچ 1892ء کو قصبہ چاند پور ضلع بجنور (یو۔ پی) کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گھر میں تعلیم و تعلم اور علم و حکمت کے چرچے تھے، اس لیے رازؔ کی تعلیم و تربیت کی جانب خصوصی توجہ دی گئی۔ دستور کے مطابق رازؔ چاند پوری نے اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز مکتب سے کیا اور پوری توجہ کے ساتھ تعلیم حاصل کی، چنانچہ اپنی ذاتی دل چسپی اور فطری ذہانت کے سبب اردو اور فارسی کی مروجہ تعلیم سے بہت جلد فراغت حاصل کرلی۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول مراد آباد سے اردو اور انگریزی کی تعلیم حاصل کی، مگر 1911ء میں گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ اور معاشی تنگی کے سبب تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ لیکن ادبی ذوق اور مطالعے کا شوق برابر قائم رہا۔ یہی وجہ تھی کہ اردو اور انگریزی کے ساتھ عربی اور ہندی میں بھی کافی استعدا د پیدا کر لی تھی۔
    دورانِ تعلیم ہی طبعی رجحان شاعری کی جانب ہو چکا تھا۔ بہت جلد شعر موزوں بھی کرنے لگے۔ چوں کہ والد صاحب خود ایک اچھے شاعر اور اردو اور فارسی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے، جب اپنے صاحبزادے کی موزونیٔ طبع کا علم ہوا، تو اُن کی حوصلہ افزائی کی، بلکہ اُن کے ذوقِ شعری کو اُبھارنے اور معیار کو نکھارنے میں بھی کافی مدد کی۔ ملازمت کے سلسلے میں جب آگرہ میں مقیم ہوئے تو علّامہ سیمابؔ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور زانوئے ادب تہ کیا۔ رازؔ چاند پوری نے فطری ذوق کے سبب بہت کم عرصے میں شعر گوئی میں اعلیٰ صلاحیت اور فنی پختگی حاصل کر لی۔ وہ اپنی ایک غزل میں فرماتے ہیں؎

    سیکھی ہے رازؔ میں نے سیمابؔ نکتہ داں سے
    یہ رمزِ شعر گوئی، یہ طرزِ خوش نوائی

    رازؔ چاند پوری کا علامہ سیمابؔ کے ساتھ بے حد قریبی تعلق رہا، دونوں کے درمیان برابر ملاقات کا سلسلہ بھی قائم رہا۔ پھر رفتہ رفتہ استاد اور شاگرد کے توسط سے قائم ہونے والا یہ رشتہ ایک مضبوط یارانہ تعلقات تک جا پہنچا جو آخر عمر تک قائم رہا۔ جس کی مناسبت سے رازؔ چاند پوری لکھتے ہیں: ’’جب تک میں آگرہ میں رہا، ہر ہفتہ سیمابؔ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور وہ بھی کبھی کبھی غریب خانے پر تشریف لاتے رہے۔ رفتہ رفتہ تعلقات بڑھ کر دوستی کی حد تک پہنچ گئے اور سیمابؔ صاحب کی زندگی کے آخر دن تک قائم رہے۔‘‘

    رازؔ چاند پوری کی زندگی کے بیشتر ایّام مصائب و آلام میں گزرے۔ ایک طرف روزگار کا غم تھا تو دوسری جانب تین بچّوں کی موت نے انھیں اور ہی زیادہ مغموم کر دیا تھا۔ پھر رفیقۂ حیات کی مسلسل کی علالت اور 1955ء میں داغِ مفارقت دے جانے کے باعث اُنھیں کبھی سکون میسر نہ ہو سکا۔ انھیں ملازمت کے سلسلے میں کئی بار نقل مکانی بھی کرنی پڑی مگر اِن تمام مشکلات کے باوجود وہ جہاں بھی رہے، خود کو شعر و ادب سے وابستہ رکھا۔

    رازؔ چاند پوری نے اپنے تجربات و محسوسات کی روشنی میں اپنے خیالات کو جس فن کارانہ خوبی کے ساتھ پیش کیا، اس سے اُن کے فکر و فن اور شاعرانہ برتری کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے شاعری کے ذریعہ زندگی کے عام مسائل کو جس خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے اس سے ادب کا عام قاری بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

    ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے باوجود وہ خاصی حد تک گوشہ نشیں ہی رہے۔ وہ کہتے ہیں۔ ؎

    مشکل نہیں کہ گرمیِ محفل نہ بن سکوں
    لیکن میں اپنے رنگِ طبیعت کو کیا کروں

    اور یہ شعر دیکھیے۔

    گم نام ہوں، گم نام سہی بزمِ ادب میں
    اے رازؔ یہ کیا کم ہے کہ بدنام نہیں ہوں

    ایک ادیب اور شاعر کی حیثیت سے رازؔ چاندپوری نے کئی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصانیف اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔ اُن کی مطبوعہ کتابوں میں ’زرّیں افسانے، ’دنیائے راز، ’نوائے زارؔ، ’داستانِ چند (یادداشتیں اور سوانح علامہ سیمابؔ اکبرآبادی) وغیرہ شامل ہیں۔ رازؔ چاند پوری کی شعری و نثری کتابیں ادب میں ایک اضافہ ضرور تھیں، مگر اس دنیا میں انھیں وہ مقام و مرتبہ حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ سزاوار تھے۔ 1955ء کے بعد وہ شعر و ادب سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور چودہ سال گوشہ نشینی میں گزار کر 25 اگست 1969ء کو دنیا سے رخصت ہوئے۔

    رازؔ چاند پوری بنیادی طور پر غزل گو شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن انھوں نے بے شمار نظمیں بھی کہی ہیں۔ اُنھوں نے زندگی کے مختلف مسائل و موضوعات پر قلم اٹھایا، اور نظموں میں ہیئت اور بیان کے نئے تجربے بھی کیے، مگر اُن کے یہاں عام طرزِ شاعری سے ہٹ کر زیادہ تر داخلی رنگ کی جلوہ گری دیکھنے کو ملتی ہے۔

    رازؔ کی ایک بڑی شاعرانہ خصوصیت یہ ہے کہ اُن کی بیشتر تخلیقات موسیقیت اور غنائیت سے بھرپور ہوتی ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو عام مقبولیت حاصل ہوئی۔

    (حوالہ جات: رازؔ چاند پوری، داستانِ عہد گل، نوائے رازؔ، عبدالقادر سروری، جدید اردو شاعری)

  • نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ نے سترہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور جب وہ اڑتیس برس کے تھے تو ان کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی۔ اسی طرح ان کے ناول کو اشاعت کے تیس سال بعد نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    مصری ادب کو اپنی کہانیوں سے مالا مال کرنے والے نجیب محفوظ نے 2006ء میں وفات پائی تھی۔ انھیں 1988ء میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911 کو پیدا ہونے والے نجیب محفوظ نے اپنے ادبی سفر میں تیس سے زائد ناول اور 350 کہانیاں تخلیق کیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے اسکرپٹ، اسٹیج پلے بھی لکھے جب کہ مؤقر جرائد اور اخبارات میں‌ ان کے مضامین اور کالم بھی شائع ہوتے تھے۔ وہ ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے اپنی تخلیقات کے سبب مصر میں مقبول ہوئے اور بعد میں دنیا بھر میں انھیں پہچانا گیا۔

    نجیب محفوظ نے غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے ابتدائی عمر گزاری اور ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ اس کے باوجود وہ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہوئے اور روایت سے بغاوت کرتے ہوئے ان موضوعات کو بھی زیرِ نوکِ قلم لائے جس نے قدامت پرستوں کے درمیان انھیں متنازع بنا دیا۔

    مصر پر برطانوی قبضے اور انقلابی تحریکوں نے نجیب محفوظ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ اس فکر کو پروان چڑھایا جس میں انھیں تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کا موقع ملا۔

    نجیب محفوظ نے 1934 میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز کے لیے داخلہ لیا، لیکن اس مضمون میں اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکے اور لکھنے لکھانے میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے مصر کے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ میں اجاگر کیا اور کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے اور اسّی دہائی میں ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ شائع ہوئی۔ یہ تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 کا احاطہ کرتا ہے۔ نجیب محفوظ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی ایک مثال تھے۔

  • مایہ ناز موسیقار اور سدا بہار دھنوں کے خالق خیام کی برسی

    مایہ ناز موسیقار اور سدا بہار دھنوں کے خالق خیام کی برسی

    ظہور خیام ایک مایہ ناز موسیقار تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ کئی فلمی نغمات کی مسحور کن دھنیں ترتیب دینے والے خیّام کو صفِ اوّل کا میوزک ڈائریکٹر تسلیم مانا جاتا ہے۔ 2019ء میں‌ آج ہی کے دن خّیام انتقال کرگئے تھے۔

    آجا رے او میرے دلبر آجا، دل کی پیاس بجھا جا رے، کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے، دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجے وہ مشہور فلمی گیت ہیں جنھیں‌ دہائیوں پہلے بھارت اور پاکستان میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ وہ لازوال اور سدا بہار نغمات ہیں‌ جو خیام کو ان کے معاصر موسیقاروں‌ میں ممتاز کرتے ہیں۔

    خیام کا اصل نام محمد ظہور ہاشمی تھا۔ وہ 18 فروری 1927ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست پنجاب کے ضلع جالندھر کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بھارت سے تھا، جہاں وہ فلم انڈسٹری میں‌ خیام کے نام سے پہچانے گئے۔ سنہ 1953 میں فلم فٹ پاتھ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے خیام کی مشہور فلموں میں پھر صبح ہوگی، لالہ رخ، کبھی کبھی، نوری، تھوڑی سی بے وفائی، دل نادان، بازار، رضیہ سلطان وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی اہلیہ جگجیت کور بھی نام ور گلوکارہ تھیں۔ بھارتی موسیقار خیام کو تین مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    خیام نے موسیقی کی تعلیم معروف موسیقار بابا جی اے چشتی سے لاہور میں حاصل کی۔ بولی وڈ میں فلم ‘امراؤ جان’ نے خیام کو راتوں رات کام یابی اور شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچایا۔ فلم ‘پھر صبح ہوگی’ کی موسیقی نے بھی خیام کو بڑا عروج دیا۔ کہتے ہیں اس فلم کے ہر گیت نے بھارت میں دھوم مچا دی۔ یہ گیت ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے اور اس کی تمام دھنیں خوب ثابت ہوئی تھیں، خیام کی خوش قسمتی تھی کہ انھیں ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمیٰ، مجروح سلطان پوری اور ندا فاضلی جیسے شاعروں کی تخلیقات کو اپنی دھنوں سے سجانے کا موقع ملا جو خیام کو انڈسٹری میں‌ نام و مقام اور اپنے فن میں‌ یگانہ بناتی چلی گئیں۔

    موسیقار خیام کو بھارت میں‌ نیشنل ایوارڈ کے علاوہ 2010ء میں لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔