Tag: اگست وفیات

  • لیڈی ڈیانا: وہ مسکراتیں تو سب مسرور نظر آتے، غم زدہ ہوتیں تو ہر کوئی افسردہ ہوجاتا

    لیڈی ڈیانا: وہ مسکراتیں تو سب مسرور نظر آتے، غم زدہ ہوتیں تو ہر کوئی افسردہ ہوجاتا

    لیڈی ڈیانا نے 24 سال قبل اس دنیا سے اپنا ناتا توڑ لیا تھا، مگر وہ آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔

    کروڑوں دلوں کی فاتح شہزادی ڈیانا 1997ء میں آج ہی کے دن زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ فرانس کے دارُالحکومت پیرس میں ان کی کار کو حادثہ پیش آیا تھا۔

    شہزادی ڈیانا کی اچانک موت جہاں شاہی خاندان اور ان کے لواحقین کے لیے صدمہ تھی، وہیں دنیا بھر میں غم و افسوس کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈیانا کی آخری رسومات اور تدفین کے مناظر ٹیلی ویژن اسکرین پر دو ارب ناظرین نے دیکھے۔

    وہ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کی شریکِ حیات تھیں جن کے بطن سے ولیم اور ہیری نے جنم لیا۔ ڈیانا کی وفات کے وقت شہزادہ ولیم 15 اور شہزادہ ہیری 12 برس کے تھے۔

    برطانوی شاہی خاندان کی بہو، پرنسس آف ویلز ڈیانا یکم جولائی 1961ء کو انگلینڈ میں پیدا ہوئیں۔ ڈیانا فرانسس اسپنسر ان کا نام تھا جو بعد میں لیڈی ڈیانا مشہور ہوئیں۔

    وہ سحر انگیز شخصیت کی مالک تھیں جن کی جادو بھری دل کش مسکراہٹ ہر ایک کو ان کا گرویدہ بنا لیتی تھی۔ کہتے ہیں ڈیانا کی زندگی میں خوشیاں اور غم اس طرح مل گئے تھے کہ وہ مسکراتیں تو ہر چہرہ خوشی سے دمکنے لگتا اور جب وہ رو پڑتیں تو ہر آنکھ اشک بار ہوجاتی۔

    1980ء میں برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کے ساتھ ان کی دوستی کا چرچا ہوا اور 24 فروری 1981ء کو ان کی منگنی کی تقریب منعقد ہوئی۔اسی سال 29 جولائی کو وہ رشتہ ازدواج میں بندھ گئے اور اس جوڑے کے گھر دو بیٹوں نے جنم لیا۔

    وقت کے ساتھ ساتھ شاہی جوڑے کے تعلقات میں سرد مہری آتی گئی اور وہ ایک دوسرے پر بے وفائی کے الزامات لگاتے ہوئے دور ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔

    شہزادی ڈیانا نے خود کو فلاحی کاموں میں مصروف کرلیا اور دنیا بھر میں مختلف مسائل کبھی بارودی سرنگوں کے خطرے کی نشان دہی تو کبھی ایڈز جیسے بدترین مرض سے لڑنے کے لیے مہمّات میں‌ شریک رہیں، لیکن ازدواجی زندگی کی تلخیوں اور کرب سے نجات نہ حاصل کرسکیں۔ البتہ اسی کشمکش میں پریوں کی شہزادی اور اس جیسے کئی خوب صورت اور شایانِ شان القابات سے پکاری گئی ڈیانا کی روح جسم کے آزار سے ضرور نجات پاگئی۔

  • مقبول ترین ادیب اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی برسی

    مقبول ترین ادیب اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی برسی

    مصری ادب میں نجیب محفوظ کا نام مقبول ترین ادیب کے طور پر محفوط ہے جنھوں نے 2006ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    انھوں نے سترہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن ان کی پہلی تصنیف 38 سال کی عمر میں شایع ہوئی تھی۔ 1988ء میں وہ نوبل انعام کے لیے منتخب ہوئے اور یہ انعام ان کی اس تخلیق پر دیا گیا جو 30 برس قبل منظرِ عام پر آئی تھی۔

    50 کی دہائی میں وہ معروف ادیب بن چکے تھے اور اسی دہائی میں ان کے تین ناولوں پر مشتمل معروف ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ شائع ہوئی۔ اس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 پر مشتمل ہے۔

    نجیب محفوظ کا مکمل نام’’نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا‘‘ تھا۔ وہ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی ادبی تخلیقات میں 34 ناول، تین سو سے زائد کہانیاں اور فلم اور اسٹیج کے لیے اسکرپٹ کے علاوہ اخباری کالم شامل ہیں۔

    نجیب محفوظ کا خاندان قاہرہ کے پرانے علاقے میں غربت میں گھرا ہوا تھا۔ سخت مذہبی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی، لیکن وہ جدید نظریات اور افکار سے متاثر ہوکر روایتی معاشرت اور ثقافت سے باغی رہے۔

    1919ء میں برطانوی قبضے کے خلاف انقلاب نے بھی ان پر گہرے اثرات مرتب کیے اور یہیں سے ان کے ادیب بننے کا سفر شروع ہوا۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا اور سنا اسے اپنی کہانیوں میں اپنے فن کی گہرائی اور جذبات کی شدّت کے ساتھ سمو دیا۔

    1934ء میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کیا، مگر ماسٹرز نہ کرسکے۔ بطور صحافی بھی کیرئیر کو آگے بڑھایا، سول سروس میں بھی کام کیا، لیکن ادیب کے طورپر زندگی بھر مصروف اور کہانیاں لکھنے میں مشغول رہے۔ وہ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی ایک منفرد مثال تھے۔

  • یومِ وفات: شعری مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات احسن مارہروی کی شاہ کار تصنیف ہے

    یومِ وفات: شعری مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات احسن مارہروی کی شاہ کار تصنیف ہے

    آج اردو زبان کے مشہور شاعر اور متعدد نثری کتب کے مصنّف احسن مارہروی کا یومِ وفات ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شہر پٹنہ میں 1940ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام سید علی احسن تھا، عرفیت شاہ میاں جب کہ شعر گوئی کا آغاز کیا تو احسن تخلّص اختیار کیا۔ مارہرہ ضلع ایٹہ میں 9 نومبر 1876ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد 1895ء میں استاد داغ دہلوی کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا۔ 1921ء میں علی گڑھ میں اردو کے لیکچرر مقرر ہوئے اور بعد میں پروفیسر ہوگئے۔

    داغ کی شاگری اختیار کرنے بعد انھوں نے ماہنامہ گلدستہ ریاضِ سخن جاری کیا۔ 1898ء میں مارہرہ سے حیدر آباد دکن چلے گئے۔ 1904ء میں اس وقت کے متحدہ ہندوستان کے شہر لاہور آئے اور لالہ سری رام کے تذکرے کا مسوّدہ لکھا۔ بعد ازاں استاد داغ کی یاد میں رسالہ فصیحُ الملک جاری کیا۔

    انھوں نے شاعری کے مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات یادگار چھوڑا۔ نمونہ منثورات احسن مارہروی کی ایک شاہ کار کتاب ہے جس میں اردو کی ابتدا، نثر کے وہ تمام نمونے جن کا ریاست اور دفاتر سے تعلق ہے اور ایک زبان کو وقیع بنا سکتے ہیں، شامل ہیں۔ اردو زبان کی شعبہ وار تاریخی ترقی کے نقطۂ نظر سے ان کے یہ مضامین اور دستاویزی نمونے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے 1930ء میں شائع بھی ہوئے جن میں ریاستی دفاتر سے متعلق احکام و ہدایات اور کارگزاریوں اور اسی نوع کے نامے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ فاضل مرتّب نے دفتری اردو میں ہونے والی لسانی تبدیلیوں کو بیان کرتے ہوئے دفتری نظام کے ارتقا کا مفصّل جائزہ بھی لیا ہے۔

    ان کی کتب ’’جلوۂ داغ‘‘ (استاد داغ کی زندگی) ’’انشائے داغ‘‘(مکتوباتِ استاد داغ)، ’’تاریخ نثر اردو‘‘، اور تحفہ احسن‘‘، ’’احسن الانتخاب‘‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    احسن مارہروی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کیا ضرورت بے ضرورت دیکھنا
    تم نہ آئینے کی صورت دیکھنا

    پھر گئیں بیمارِ غم کو دیکھ کر
    اپنی آنکھوں کی مروت دیکھنا

    ہم کہاں، اے دل کہاں دیدارِ یار
    ہو گیا تیری بدولت دیکھنا

    ہے وہ جب دل میں تو کیسی جستجو
    ڈھونڈنے والوں کی غفلت دیکھنا

    سامنے تعریف پیچھے گالیاں
    ان کی منہ دیکھی محبت دیکھنا

    اور کچھ تم کو نہ آئے گا نظر
    دل میں رہ کر دل کی حسرت دیکھنا

    صبح اٹھ کر دیکھنا احسنؔ کا منہ
    ایسے ویسوں کی نہ صورت دیکھنا

  • یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    آج ہندوستان کی عظیم اور خوش حال ترین ریاست حیدر آباد دکن کے فرماں روا میر محبوب علی خان کا یومِ وفات ہے جنھوں نے اردو کو ریاست کی زبان کا درجہ دیا اور اس کی سرپرستی اور علم و ادب کے فروغ کے لیے اپنے وسائل اور دولت خرچ کی۔

    دکن کو گنگا جمنی تہذیب کا عملی نمونہ کہا جاتا تھا جس کا خزانہ معمور تھا اور جو تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تھی۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں بڑا طبقہ تیلگو دوسرا کنڑ بولتا تھا اور ایک علاقہ مراٹھی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھا۔ نظامِ دکن نے اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر ان سب کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔

    اردو زبان اور ہندوستان بھر کی عالم فاضل شخصیات، شعرا و ادیب، محقق، ماہرِ لسانیات، لغت نویس، مترجم، معلم الغرض ہر نادرِ روزگار، یکتا و یگانہ نے دربارِ دکن سے عزؑت و توقیر، انعام و اکرام اور وظائف پائے اور یہ سب میر محبوب علی خان کی اردو کی سرپرستی اور اسے سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کی بدولت ممکن ہوا تھا۔

    حیدر آباد دکن میں مختلف حکومتیں قائم رہیں۔ اس خطے نے قطب شاہی، بہمنی دور کے سلاطین کے بعد مغل حکم راں اورنگ زیب عالم گیر کا زمانہ دیکھا اور 1724ء میں یہاں آصفیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی اور بعد میں اس خاندان کے فرماں روا نظام دکن کے نام سے مشہور ہوئے۔

    میر محبوب علی خان اسی خاندان کے چھٹے حکم راں تھے۔ وہ 17 اگست 1866ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے عہد میں فارسی کی جگہ اردو کو قبول کیا اور اس کی سرپرستی کی۔ ان کا دور 50 سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے جس میں نظامِ دکن نے تعلیمی ادارے، مدرسے اور دارُالعلوم مع اقامت گاہ قائم کیے اور جدید و اسلامی علوم کی تعلیم کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    بدقسمتی کہیے یا کم علمی کہ آج ہندوستان کی ایک نہایت خوش حال اور مرفہ الحال ریاست کے اس فرماں روا کا ذکر کم ہی ہوتا ہے جس نے اردو کو اپنے دربارِ خاص میں جاودانی اور پائندگی دی تھی۔

    میر محبوب علی خان کے بعد ان کے بیٹے میر عثمان علی خان حیدرآباد کے آخری بادشاہ تھے اور ان کی تخت نشینی کے بعد دکن ہی نہیں برصغیر میں اردو نے عدیمُ النظیر ترقی کی اور فروغ پایا۔ علوم و فنون، دین و مذہب، تہذیب و ثقافت کا وہ کون سا آفتاب، کیسا گوہرِ آب دار تھا جسے حضور نظام کے دربار سے نوازا نہ گیا۔ میر عثمان علی خان نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کی منظوری دی اور اس کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے جس کا ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو زبان تھا۔

    میر محبوب علی خان 29 اگست 1911ء کو اس عالمِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

  • یومِ وفات: بہاولپور کی علمی، ادبی اور سیاسی تاریخ مرتّب کرنا شہاب دہلوی کا بڑا کارنامہ ہے

    یومِ وفات: بہاولپور کی علمی، ادبی اور سیاسی تاریخ مرتّب کرنا شہاب دہلوی کا بڑا کارنامہ ہے

    پاکستان میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ارتقا کے لیے اپنی کوششوں کے ساتھ ساتھ شہاب دہلوی کو ایک بلند پایہ محقّق، مؤرخ اور باکمال ادیب کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    ان کا اصل نام سیّد مسعود حسن رضوی تھا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد دہلی سے ہجرت کر کے بہاولپور چلے آئے اور یہیں 29 اگست 1990ء کو زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ بہاولپور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    انھوں نے 20 اکتوبر 1922ء کو دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد اور تایا شاعر و ادیب تھے اور ایک اخبار جاری کرنے کے ساتھ اشاعتی ادارہ بھی قائم کر رکھا تھا۔ شہاب دہلوی نے اسی ماحول کی بدولت اپنی عملی زندگی کا آغاز دہلی سے ماہنامہ الہام کے اجرا سے کیا۔

    بہاولپور آنے کے بعد شہاب دہلوی نے نہ صرف الہام کا دوبارہ اجرا کیا بلکہ شعر و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے تحقیقی کام میں جت گئے۔ اس حوالے سے ان کی کتب بہت مشہور ہیں۔ شہاب دہلوی نے دینی اور روحانی تشخص کو اُجاگر کرتے ہوئے علاقائی ادب کی تاریخ مرتّب کی۔ انھوں نے مشاہیرِ بہاولپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری، اوچ شریف اور وادی جمنا سے وادی ہاکڑہ تک، بہاولپور میں اردو جیسی کتابیں تصنیف کیں۔

    شہاب دہلوی شاعر بھی تھے اور ان کے شعری مجموعے نقوشِ شہاب، گل و سنگ، اور موجِ نور کے نام سے شائع ہوئے۔

    بطور محقّق شہاب دہلوی کی اہم کتب اور گراں قدر علمی و ادبی سرمائے کا مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بہاولپور کی تاریخ کے ایک مستند مؤرخ تھے۔ اردو اکیڈمی اور الزبیر نامی مشہور جریدہ ان کی یادگار ہیں۔

  • پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی کی برسی

    پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی کی برسی

    پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی 2005ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ 57 برس کی عمر میں وفات پاجانے والے پرویز مہدی کی آواز میں کئی غزلوں اور گیتوں کو گویا ایک رمق اور نئی زندگی ملی۔ وہ عظیم گلوکار مہدی حسن کے شاگرد تھے۔

    70ء کی دہائی میں ریڈیو اسٹیشن لاہور پر ’میں جانا پردیس’ کے بول پر مبنی ایک گیت ان کی آواز میں‌ گونجا جس کے ساتھ ہی ان کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوگیا۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے گائیک تھے۔

    پرویز مہدی اپنے استاد مہدی حسن کے رنگ میں گاتے تھے۔ ان کا اصل نام پرویز حسن تھا لیکن استاد سے عقیدت کی بنا پر انھوں نے خود کو پرویز مہدی کہلوانا پسند کیا اور اسی نام سے جانے گئے۔

    انھوں نے تیس سال تک گلوکاری کے اپنے سفر میں کئی شعرا کا کلام گایا اور ان کی شاعری کو مقبول و عام کیا۔ انھوں نے کئی لوک گیت بھی گائے جو بہت مشہور ہوئے۔

    14 اگست 1947ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے پرویز مہدی کے والد بشیر حسین راہی ریڈیو پاکستان کے مقبول گلوکار تھے۔

    پرویز مہدی نے ابتدا میں جے اے فاروق سے موسیقی کی تربیت حاصل کی اور بعد میں مہدی حسن کی شاگردی اختیار کرلی۔

    پاکستان کے اس معروف گلوکار کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں‌ ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ پرویز مہدی لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    خوب صورت ملّی نغمات اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کی برسی

    “اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور “یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔ حبُ الوطنی کے جذبات، عزم و ہمّت، دلیری اور شجاعت کے احساس کے ساتھ کلیم عثمانی کی یہ شاعری زبان و ادب میں ان کے فن اور مقام کا تعیّن بھی کرتی ہے۔

    جذبۂ حب الوطنی سے سرشار کلیم عثمانی کے کئی قومی اور ملّی نغمات ٹی وی اور ریڈیو سے نشر ہوئے اور انہی نغمات کی وجہ سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔ پاکستان کے اس ممتاز شاعر اور نغمہ نگار نے 28 اگست 2000ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ 28 فروری 1928ء کو ضلع سہارن پور، دیو بند میں‌ پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھو‌ں نے پاکستان ہجرت کی اور لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔

    شعر و سخن کی دنیا میں‌ کلیم عثمانی نے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لی۔ انھوں نے فلم نگری کے لیے گیت نگاری کا آغاز کیا تو بڑا آدمی، راز، دھوپ چھائوں جیسی کام یاب فلموں‌ کے لیے گیت لکھنے کا موقع ملا جو بہت مقبول ہوئے۔

    آپ نے فلم راز کا یہ گیت ضرور سنا ہو گا جس کے بول تھے:
    میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا، یہ اپنے وقت کا مقبول ترین گیت تھا جسے کلیم عثمانی نے تحریر کیا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت میں انھوں نے جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین نامی فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے اور خوب شہرت پائی۔

    1973ء میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبول ترین گیت “تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ عطا کیا گیا تھا۔

    مرحوم لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • لارڈ ماؤنٹ بیٹن: آخری وائسرائے ہند جو بم دھماکے میں زندگی کی بازی ہار گئے

    لارڈ ماؤنٹ بیٹن: آخری وائسرائے ہند جو بم دھماکے میں زندگی کی بازی ہار گئے

    برصغیر کی تاریخ میں تقسیمِ ہند کے فیصلے نے آلام و مصائب کا ایک ایسا طوفان کھڑا کر دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ 1947ء میں بٹوارے کا اعلان ہوا تو بھارت اور پاکستان کے نام سے دو آزاد ممالک کو دنیا کے نقشے پر جگہ ملی جن کی سرحدوں کے اندر لاکھوں انسانوں کی لاشیں بے گور و کفن پڑی تھیں۔

    تقسیم کے اعلان ساتھ ہی ہندو مسلم فسادات کا جو سلسلہ شروع ہوا، اسے روکنے کے لیے کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ہندوستان اس وقت برطانیہ کی سب سے بڑی نوآبادی تھی جس کا آخری وائسرئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ تقسیمِ ہند کا اعلان عجلت میں کیا گیا اور ماؤنٹ بیٹن نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری نہیں کیں جب کہ اس کی جانب داری اور جھکاؤ کی وجہ سے کئی مسلم اکثریتی علاقے بھی بھارت میں شامل کردیے گئے تھے۔

    لارڈ ماؤنٹ بیٹن 1979ء میں آج ہی کے دن مغربی آئرلینڈ میں بم دھماکے کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔

    ماؤنٹ بیٹن 25 جون 1900ء کو ونڈسر برکشائر، انگلینڈ میں‌ پیدا ہوا۔ وہ برطانیہ کے شاہی خاندان کا فرد تھا۔ وہ ایک سیاست دان اور بحریہ کا اعلیٰ ترین عہدے دار تھا جس نے جنگِ عظیم، نوآبادیات سے لے ہندوستان میں بٹوارے تک تاجِ برطانیہ کے لیے خدمات انجام دیں۔

    ملکہ کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے ماؤنٹ بیٹن نے 24 مارچ 1947ء کو ہندوستان میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد تمام بااثر اور اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جس میں قائدِاعظم نے اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار پاکستان چاہتے ہیں۔ دوسری طرف کانگریسی لیڈروں نے وائسرائے ہند سے ملاقاتیں کیں اور وائسرائے پر واضح ہو گیا کہ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کیے بغیر یہاں سے واپسی مشکل ہوگی۔

    3 جون 1947ء کو آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ تاریخی مذاکرات کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے منصوبے کا اعلان کیا اور تقسیمِ ہند عمل میں آئی۔

    ماؤنٹ بیٹن کی موت کا واقعہ شمالی آئرلینڈ کے ہنگامہ خیز دنوں میں پیش آیا۔ وہاں شمالی آئر لینڈ کے برطانوی بادشاہت کے زیرِ نگیں رہنے یا خودمختار آئر لینڈ کا تنازع چل رہا تھا۔ برطانوی دستوں اور آزادی کے حامیوں میں تصادم کا سلسلہ جاری تھا اور ماؤنٹ بیٹن کے قتل کی ذمہ داری آئرش ری پبلکن آرمی نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہمارے ملک پر قبضے کی کوشش کے خلاف کیا گیا ہے۔

    ماؤنٹ بیٹن مغربی آئرلینڈ میں چھٹی کے روز سیر و تفریح اور شکار کی غرض سے موجود تھے۔ 79 سالہ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ ان کی بڑی بیٹی اور اس کا شوہر، نواسے اور خاندان کے چند دیگر افراد سمیت عملہ بھی موجود تھا۔ ماؤنٹ بیٹن اور اہلِ خانہ دریا کی سیر کے لیے لکڑی کی کشتی پر سوار تھے کہ اس میں خفیہ طور پر نصب کیا گیا بم پھٹ گیا۔ ماؤنٹ بیٹن کو پانی سے زندہ نکال لیا گیا تھا، لیکن کہا جاتا ہے کہ بارود کے سبب ان کی ٹانگیں بُری طرح زخمی ہوگئی تھیں اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

  • خاکسار تحریک کے بانی، ادیب، خطیب اور عالمِ دین علّامہ عنایتُ اللہ مشرقی کی برسی

    خاکسار تحریک کے بانی، ادیب، خطیب اور عالمِ دین علّامہ عنایتُ اللہ مشرقی کی برسی

    خاکسار تحریک کے بانی، ادیب، عالمِ دین اور ممتاز ریاضی دان علاّمہ عنایت اللہ مشرقی 1963ء آج ہی کے دن دارِ فانی سے عالمِ‌ جاودانی کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ان کا مدفن لاہور میں ہے۔

    علّامہ عنایت اللہ مشرقی 25 اگست 1883ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور شان دار تعلیمی ریکارڈ کی وجہ سے ہندوستان میں نمایاں ہوئے۔ کیمبرج یونیورسٹی انگلستان سے ریاضی اور طبیعیات کے شعبوں میں اعلیٰ امتیازات حاصل کیے۔ وہ اسلامی تعلیمات اور مشرقی ثقافت کے دل دادہ ایسے فرد تھے جس نے ہندوستان میں اپنی تحریر، تقریر اور قول و عمل سے مسلمانوں کو ان کے اسلاف کے کارناموں اور اجداد کی میراث کی جانب متوجہ کیا۔

    1926ء میں مصر میں موتمر اسلامی کی کانفرنس میں‌ جہاں‌ دنیا بھر کے ہوش مند اور صاحبِ علم مسلمان راہ نماؤں نے شرکت کی وہیں علّامہ مشرقی بھی مدعو تھے۔ کانفرنس میں انھوں نے عربی زبان میں خطاب کیا جو ’’خطابِ مصر‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ انھوں نے 1931ء میں خاکسار تحریک کے نام سے ایک جماعت قائم کی، جس کا منشور نظم، ضبط، خدمت خلق اور اطاعتِ امیر تھا۔ اس پلیٹ فارم سے علامہ مشرقی کی آواز پر آزادی کی تڑپ رکھنے والے مسلمانوں نے اپنی قوّت کا مظاہرہ شروع کیا تھا۔

    1950ء میں علّامہ صاحب نے ’’انسانی مسئلہ‘‘ نامی مقالہ لکھ کر دنیا بھر میں‌ ہوش مند انسانوں کو چونکا دیا۔ اس مقالہ میں صاحبِ علم یعنی سائنس دانوں کو حکومت کرنے کا حق حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی تھی جو ان کے ذہن کی اختراع تھی۔ اس کے ساتھ ہی طبقاتی انتخاب میں غریب کی حکومت قائم کرنے کا قابل عمل تصور دیا گیا تھا۔ بیرونی دباؤ پر انگریز حکومت نے علّامہ مشرقی کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔

    ان کے علمی و دینی کارنامے اور ہندوستان میں انگریز راج کے خلاف ان کی سیاسی اور نظریاتی جدوجہد کئی ابواب کا تقاضا کرتی ہے دین ِاسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی آزادی کے لیے انتھک جدوجہد کرنے والا یہ عظیم انسان ایک بلند پایہ انشا پرداز، فلسفی اور مؤرخ بھی تھا۔ ان کی متعدد مذہبی اور دینی کتب اور علمی و ادبی تصنیف شایع ہوچکی ہیں۔

  • اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    قمر جمیل اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کرانے کے لیے مشہور ہوئے اور انھیں‌ نثری نظم کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کے معروف نقّاد، ادیب، شاعر اور مدیر تھے جن کی آج برسی ہے۔

    قمر جمیل نے حیدرآباد دکن میں 10 مئی 1927ء کو آنکھ کھولی۔ وہ تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے تھے۔ شروع ہی سے مطالعہ اور ادب کا شوق تھا جس نے انھیں خود بھی لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں‌ میں ادبی دنیا میں انھوں نے اپنی شناخت اور الگ پہچان بنائی۔

    وہ طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ قمر جمیل نے نثری نظم کی تحریک کا کراچی سے آغاز کیا تو ادیب اور شاعر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی اس تحریک نے تخلیق کے میدان میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا۔

    قمر جمیل کی زندگی میں ان کے دو شعری مجموعے خواب نما اور چہار خواب شائع ہوئے جب کہ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ جدید ادب کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا تھا۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی ادب سے بھی لگاؤ رکھتے تھے۔ عالمی ادب کا مطالعہ اور نئے افکار و رجحانات پر ان کی گہری نظر تھی۔

    دریافت کے نام سے قمر جمیل نے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔

    27 اگست سن 2000ء کو کراچی میں وفات پانے والے قمر جمیل کو عزیز آباد کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ایک پتھر جو دستِ یار میں ہے
    پھول بننے کے انتظار میں ہے