Tag: اگست وفیات

  • یومِ وفات: فانی بدایونی نے اپنی شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا

    یومِ وفات: فانی بدایونی نے اپنی شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا

    1941ء میں‌ آج ہی کے روز اس جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والے اردو کے نام وَر شاعر شوکت علی خان کا تخلّص بھی فانیؔ تھا۔ وہ اپنی حزنیہ شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا کلام ہجر کی وارداتوں، غمِ روزگار، رنج و الم کے موضوعات سے بھرا ہوا ہے۔

    کہتے ہیں کہ فانیؔ نے اردو شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ وہ 1879ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے شہر کی نسبت بدایونی کا لاحقہ استعمال کیا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور بعد میں مکتب گئے۔ 1892ء میں گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا اور انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ فانی نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔

    کالج کے زمانے میں شغل جاری رہا اور احباب و مختلف حلقوں میں‌ کلام سنانے لگے۔ بعد میں‌ وکالت پڑھ کر لکھنؤ میں پریکٹس کرنے لگے، لیکن پھر والد اور چند اعزّہ کے انتقال کے بعد ان کا ہر کام سے گویا دل اچاٹ ہوگیا اور معاش کے حوالے سے تنگی کا سامنا رہنے لگا جس نے انھیں یاسیت کی طرف دھکیل دیا۔ اسی عرصے میں غمِ جاناں نے بھی آ گھیرا اور ناکامی کے بعد بری طرح ٹوٹ گئے۔

    فانی نے شہر شہر کی خاک چھانی اور معاش کی خاطر جگہ جگہ قسمت آزماتے رہے۔ آخر فانی حیدر آباد دکن پہنچ گئے جہاں دربار سے اداروں تک عالم فاضل شخصیات کی قدر افزائی کی جاتی تھی اور نظام دکن کی جانب سے وظیفہ دیا جاتا تھا دکن میں فانی اچھے برے دن کاٹ کر دنیا سے چلے گئے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانیؔ
    زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

    یہ مقطع ان کی پیشِ نظر غزل کا حاصل ہے۔ اسی غزل میں ایک اور مقطع بھی شامل ہے جو بہت مشہور ہے، ملاحظہ ہو

    اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
    زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

    زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
    ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مَر جانے کا

    ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
    لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

    ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں
    کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا

    کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ
    آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا

  • نذیر کا تذکرہ جنھوں نے کلکتہ سے لاہور تک اپنے فلمی سفر میں‌ شان دار کام یابیاں سمیٹیں

    نذیر کا تذکرہ جنھوں نے کلکتہ سے لاہور تک اپنے فلمی سفر میں‌ شان دار کام یابیاں سمیٹیں

    پاکستان کے نام ور فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار نذیر نے 26 اگست 1983ء کو اس دارِ‌ فانی سے منزلِ جاودانی کی طرف کوچ کیا۔ انھوں نے 1935ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی فلم ’’چانکیہ‘‘ سے ہندوستان بھر میں بے مثال شہرت پائی تھی۔

    نذیر 1904ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز ایک خاموش فلم سے کیا تھا اور 1933ء میں کلکتہ چلے گئے جو اس زمانے کی فلم انڈسٹری ہونے کی وجہ سے ہر بڑے چھوٹے فن کار کا ٹھکانہ تھا۔ انھیں ان کے فلم ساز دوست کی مدد حاصل تھی اور نذیر کو ’’چانکیہ‘‘ میں‌ اداکاری کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے ثابت کردیا کہ وہ باصلاحیت اور نہایت باکمال فن کارہیں۔ اس فلم نے انھیں‌ شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی دور میں ان کی دیگر فلمیں چندر گپت، دہلی کا ٹھگ، پیاس اور اپنی نگریا وغیرہ نمائش پذیر ہوئیں۔

    اداکار نذیر نے 1939ء میں ہند پکچرز کے نام سے اپنا فلمی ادارہ بنا لیا اور سندیسہ، سوسائٹی، آبرو، سلمیٰ، لیلیٰ مجنوں اور وامق عذرا نامی فلموں میں نظر آئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے سورن لتا سے شادی کرلی جن کے ساتھ ان کی فلمی جوڑی بہت پسند کی گئی تھی۔

    قیام پاکستان کے بعد نذیر لاہور آگئے۔ یہاں انھوں نے ’’سچائی‘‘ کے نام سے اپنی پہلی فلم بنائی۔ اس کے بعد فلم ’’پھیرے‘‘ ریلیز ہوئی اور اس نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ اس کے بعد نذیر نے انوکھی داستان، خاتون، شہری بابو، ہیر، صابرہ، نورِ اسلام، عظمتِ اسلام جیسی کام یاب فلمیں‌ انڈسٹری کو دیں۔ انھوں نے اداکاری کے علاوہ فلم سازی میں خوب نام و مقام بنایا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ ہمہ جہت فن کار لاہور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔

  • ٹیلی ویژن ڈراموں کی مشہور اداکارہ خالدہ ریاست کا تذکرہ

    ٹیلی ویژن ڈراموں کی مشہور اداکارہ خالدہ ریاست کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کی مشہور اداکارہ خالدہ ریاست سرطان کے عارضے سے لڑتے ہوئے 26 اگست 1996ء کو وفات پاگئی تھیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے نام ور فن کاروں کے ساتھ ڈراموں‌ میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے اور ناظرین میں‌ مقبول ہوئیں۔

    پی ٹی وی کے ناظرین کو اپنی عمدہ پرفارمنس سے متاثر کرنے والی خالدہ ریاست یکم جنوری 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے اپنے فنی کریئر کا آغاز 70 کی دہائی میں ڈرامہ سیریل ‘نامدار‘ سے کیا، جس میں ان کے ساتھ نام ور اداکار شکیل نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ خالدہ ریاست کی مقبولیت کا آغاز حسینہ معین کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ‘بندش‘ سے ہوا۔ انھوں نے انور مقصود کے اسکرپٹ پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل ‘ہاف پلیٹ‘ میں بھی لیجنڈری اداکار معین اختر کے ساتھ اپنا کردار نبھایا تھا۔

    خالدہ ریاست کے دیگر مشہور ڈراموں میں لازوال، مانی، دو کنارے، ایک محبت سو افسانے، پڑوسی، کھویا ہوا آدمی، ٹائپسٹ شامل ہیں۔

    مرحوم خالدہ ریاست کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مائیکل فیراڈے کا تذکرہ جس نے زمین پر زندگی کے تصوّر کو بدل کر رکھ دیا

    مائیکل فیراڈے کا تذکرہ جس نے زمین پر زندگی کے تصوّر کو بدل کر رکھ دیا

    آج ہم مختلف شعبہ ہائے حیات اور علم و فنون میں جس تیز رفتاری سے ترقّی کررہے ہیں اور ایجادات و مصنوع کا جو حیرت انگیز اور محیّرالعقول سفر جاری ہے، اس میں بالخصوص انیسویں صدی کے سائنس دانوں کا بنیادی اور اہم کردار ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں‌ کرسکتی۔

    اُس دور کے سائنسی تجربات انقلاب آفریں ثابت ہوئے اور ایجادات کی ابتدائی شکلیں ہی آج جدید سانچے میں‌‌ ڈھل کر ہمارے لیے کارآمد بنی ہوئی ہیں۔ یہ تمہید دراصل عظیم سائنس داں مائیکل فیراڈے کے تذکرے کے لیے باندھی گئی ہے جس کے بارے میں کہا گیا:

    "جب ہم اس کی ایجادات اور سائنس اور صنعت پر ان کے اثرات دیکھتے ہیں تو کوئی اعزاز اتنا بڑا نظر نہیں آتا کہ فیراڈے کو دیا جاسکے، جو ہر زمانے کا عظیم ترین سائنس دان ہے۔”

    مائیکل فیراڈے کا وطن انگلستان تھا جہاں وہ 22 ستمبر 1791ء کو پیدا ہوا۔ اس عظیم سائنس دان نے زندگی کی 76 بہاریں دیکھیں۔ وہ 25 اگست 1867ء کو کیمیا اور برقیات کے میدان میں کئی انقلاب آفریں دریافتوں اور ایجادات کا خزانہ چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا۔

    فیراڈے کے ان سائنسی کارناموں نے زمین پر زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کا اصل میدان کیمیا تھا جس میں اس نے برقناطیسی قوّت اور برقناطیسی کیمیا پر بہت کام کیا۔

    مائیکل فیراڈے نے کیمیا کے میدان میں بہت سی اہم دریافتیں کیں۔ ان کی اہم ترین دریافت بینزین ہے جو ایک کیمیائی مادّہ ہے۔ کلورین گیس پر فیراڈے کی تحقیق نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم اس سائنس دان کی وجہِ شہرت بجلی اور مقناطیسیت پر ان کے تجربات اور تحقیق ہے۔

    آج بجلی گھروں میں موجود بڑی بڑی مشینوں یعنی جنریٹروں سے جو بجلی حاصل کی جاتی ہے، وہ فیراڈے کے اصول کے مطابق ہی پیدا کی جاتی ہے۔ یہی بجلی دورِ جدید میں زندگی کو رواں دواں اور کاموں کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔

    مائیکل فیراڈے کی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گاکہ ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ جب وہ عمر کے چودھویں سال میں تھا تو ایک جلد ساز کے پاس کام سیکھنے بیٹھ گیا۔ یہاں اکثر لوگ سائنس کے موضوع پر اپنی کتب اور رسائل بھی جلد بندی کے لیے دے جاتے تھے۔ فیراڈے نے ان میں دل چسپی لینا شروع کی اور یہ شوق اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ 1812ء میں لندن کے شاہی ادارے میں سائنسی لیکچر سننے کے لیے جانے لگا۔

    ایک مرتبہ فیراڈے کی ملاقات مشہور سائنس دان سرہمفری ڈیوی سے ہوگئی جنھوں نے اس کا شوق اور لگن دیکھتے ہوئے شاہی ادارے میں لیبارٹری اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے کی پیشکش کی اور یوں‌ فیراڈے ایک سائنس دان بن گیا۔

    فیراڈے 1823ء میں مایع کلورین گیس تیّار کرنے والا اوّلین سائنس دان بنا اور کام یابی کے اگلے ہی سال ایک کیمیائی مادّہ بینزین بھی دریافت کرلیا۔ فیراڈے کی ایک ایجاد وہ شیشہ بھی تھا جس میں سے حرارت نہیں گزر سکتی تھی۔

    1820ء میں ڈنمارک کے ایک سائنس دان نے ثابت کیا تھا کہ برقی رو سے مقناطیسی قوّت پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس پر غور کرتے ہوئے فیراڈے کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ بالکل اسی طرح مقناطیسی قوّت سے برقی رو بھی تو پیدا کی جا سکتی ہے اور اس نے اس پر تحقیقی کام شروع کر دیا۔ قبل ازیں فیراڈے نے بجلی اور مقناطیسیت کو استعمال کرکے بجلی سے حرکت پیدا کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ اسی طریقے پر 1830ء میں بجلی کی پہلی موٹر تیّار کرلی اور اگلے سال تجربات کے بعد یہ جانا کہ جب کسی مقناطیس کے قطبین کے درمیان کسی تار کو حرکت دی جائے تو برقی رو پیدا ہوتی ہے۔

    فیراڈے کی ان دریافتوں نے بڑے پیمانے پر برقی رو پیدا کرنے کا راستہ کھول دیا اور اسی بنیاد پر بجلی گھر میں بجلی پیدا کرنے والے بڑے بڑے جنریٹروں کی تیّاری اور تنصیب عمل میں لائی گئی۔ اس کے بعد فیراڈے ٹرانسفارمر بنانے میں لگ گئے۔ یہ وہی ٹرانسفارمر ہمارے گھر کے قریب کسی بجلی گھر کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ یہ بجلی کی تاروں میں موجود بہت زیادہ برقی توانائی کو گھروں کی ضرورت کے مطابق تبدیل کرکے گزرنے دیتا ہے۔

    برقی رو اور اس سے متعلق انقلاب برپا کردیننے والی مشینوں اور آلات کے ساتھ فیراڈے نے کیمیائی مادّوں پر بجلی کے اثرات کا بھی مطالعہ کیا۔

    آج ہم اسی سائنس دان کے طفیل اپنے تمام کام سہولت اور بڑی آسانی سے انجام دے رہے ہیں اور اس کے سائنسی کارناموں کی بدولت جو مختلف شعبوں میں‌ جو انقلاب برپا ہوا اسے تاریخ میں سب سے روشن اور شان دار باب بن کر محفوظ ہے۔

  • نام وَر ادیب اور افسانہ نگار محمود تیمور کی برسی

    نام وَر ادیب اور افسانہ نگار محمود تیمور کی برسی

    محمود تیمور مصر کے معروف ادیب اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے 1973ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ انھیں عربی ادب میں دورِ جدید میں افسانے اور مختصر کہانیوں کی بنیاد رکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    قلم کاروں نے انھیں عربی ادب کا موپاساں اور عرب کا شیکسپئیر بھی لکھا ہے۔ وہ 16 جولائی 1894ء کو مصر میں شہر قاہرہ کے ایک قدیم قصبے کے ایسے گھرانے میں‌ پیدا ہوئے جو علم و ادب کے حوالے سے معروف تھا۔ ان کے دادا ترک نژاد مصری رئیس اسماعیل پاشا تیمور اپنے شوقِ مطالعہ اور ذخیرہ کتب کے لیے مشہور تھے اور اسی ماحول میں‌ آنکھ کھولنے والے محمود تیمور کے والد ادیب بنے جن کا نام علاّمہ احمد توفیق تیمور پاشا تھا۔ یہی نہیں محمود تیمور کی پھوپھی بھی شاعرہ تھیں جب کہ ایک بھائی محمد تیمور معروف عربی ادیب تھے۔

    محمود تیمور کو بھی شروع ہی سے گھر میں کتابیں میسر آئیں اور مطالعہ کا شوق پروان چڑھا۔ انھوں نے زرعی اسکول میں تعلیم حاصل کی، لیکن ٹائیفائیڈ کا شکار ہونے کے باعث تعلیم مکمل نہ کرسکے اور کئی ماہ بستر پر گزارے۔ اس دوران گھر میں موجود کتابیں پڑھتے ہوئے خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ ان کے بھائی محمد تیمور نے اس مرحلے پر ان کی راہ نمائی کی اور گھر میں اپنی حوصلہ افزائی اور تعاون کے سبب باقاعدہ لکھاری بنے۔

    انھوں نے نوجوانی میں وزارتِ خارجہ میں ملازمت حاصل کی اور اس زمانے میں یورپ گئے جہاں قیام کے دوران مغربی ادب کا مطالعہ کیا۔ وہ موپاساں، چیخوف اور خلیل جبران کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور مصر لوٹنے کے بعد جدید عربی ادب کی بنیاد رکھی اور عربی افسانے کو بین الاقوامی معیار دیا۔

    محمود تیمور القصۃ نامی رسالے مدیر بھی رہے جس میں ان کی کئی مختصر کہانیاں شایع ہوئیں، 1925 ء میں ان کا مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ‘‘ما تراہ العيون’’ شایع ہوا اور بعد میں‌ مزید مجموعے سامنے آئے۔

    محمود تیمور نے عربی زبان میں کئی مقبول کہانیاں قارئین کو دیں جب کہ ان کے سات ناول بھی شایع ہوئے۔ انھوں نے سفر نامے بھی تحریر کیے اور ادبی مضامین لکھتے رہے۔ ان کے کئی افسانوں پر مصر میں ڈرامے اور فلمیں بنائی گئیں۔ محمود تیمور کی کئی کہانیوں کے تراجم بھی خاصے مقبول ہوئے۔

    عربی ادب کے اس نام وَر تخلیق کار نے بین الاقوامی ادبی کانفرنسوں میں شرکت کی اور ایک موقع پر پاکستان بھی آئے۔

    محمود تیمور نے 80 برس کی عمر میں سوئٹزر لینڈ کے شہر لوزان میں وفات پائی۔

  • چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کے چند اوراق

    چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کے چند اوراق

    نیل آرمسٹرانگ کا نام 20 جولائی سن 1969ء کو ہمیشہ کے لیے زمین کی تاریخ میں محفوظ کر لیا گیا تھا اور مستقبل میں اگر انسان چاند پر آباد ہوا تو وہاں بھی تاریخ کے اوّلین اوراق پر اسی خلا نورد کا نام جگمگا رہا ہو گا۔

    نظامِ شمسی کے سیّارے زمین کے گرد گھومنے والے چاند کی سطح پر پہلا انسانی قدم نیل آرمسٹرانگ کا تھا۔

    یہ امریکی خلا نورد 2012ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔

    امریکی خلائی مشن اپالو گیارہ کے کمانڈر کے طور پر خلا میں ان کا سفر اور چاند پر اترنا زمین کی تاریخ کے عظیم الشّان واقعات میں سے ایک ہے۔ اس موقع پر آرمسٹرانگ نے تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ یہ انسان کا چھوٹا سا قدم ہے، لیکن حقیقت میں انسانیت کی ایک بہت بڑی جَست ہے۔

    نیل آرمسٹرانگ نے دل کی بیماری کے سبب 82 برس کی عمر میں دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا تھا۔ وہ 1930ء میں امریکا میں‌ اوہائیو کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ انجینئر کے طور پر کام کرنے لگے اور امریکی بحریہ کے پائلٹ بھی رہے اور تعلیم اور تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ بعد میں‌ امریکا کے خلائی مشن کا حصّہ بنے۔

    چاند پر نیل آرمسٹرانگ اور ان کے ساتھی خلا نورد ایڈوِن ایلڈرن تقریباً تین گھنٹے چہل قدمی کے بعد کام یابی سے زمین پر لوٹ آئے تھے۔

    نیل آرمسٹرانگ کی زندگی کا آخری خلائی مشن اپالو گیارہ تھا اور اس کے بعد ان کو ناسا کے ایڈوانس ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعینات کر دیا گیا تھا اور انھیں دفتری امور تفویض کر دیے گئے۔ اسی عہدے کے ساتھ، ان کو ناسا کا ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا تھا۔ اس تعیناتی کے ایک سال کے بعد ہی انھوں نے یہ عہدہ چھوڑ دیا اور سنسناٹی یونیورسٹی میں پروفیسر برائے انجینئرنگ کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔

    انھیں امریکا میں قومی سطح کے اعزازات اور دنیا بھر میں مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا۔ آرمسٹرانگ سنسناٹی میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مقیم تھے اور یہیں وفات پائی۔

  • نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    مخدوم ایک نئی دنیا اور نئے آدم کے متمنّی رہے ہیں۔ ان کی انقلابی اور اشتراکی رنگ کی نظمیں انہی مرکزی خیال کے گرد گھومتی ہیں۔ آج اس عظیم شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 25 اگست 1969ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    1908ء میں ابو سعید محمد مخدوم محی الدّین حذری نے ہندوستان کی ایک متموّل ریاست حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی۔ مخدوم نے اس دور کے رواج کے مطابق قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم گھر پر مکمل کی۔ وہ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1936ء میں سٹی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اور چند سال بعد مستعفی ہوگئے۔

    ان کا ادبی اور تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور اس زمانے میں ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں اور سیاسی ہنگامہ آرائیاں جاری تھیں، اسی ماحول میں‌ ادب میں ترقی پسند رجحانات کو فروغ ملا اور مخدوم 1940ء میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری منتخب ہوگئے۔ جولائی 1943ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی باقاعدہ تشکیل مخدوم کی راہ نمائی میں ہوئی۔

    ان کی سیاسی مصروفیات بڑھ گئی تھیں اور وہ ہندوستان میں برطانوی راج کے عام انتخابات میں آندھراپردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ اس عرصے میں انھوں نے اپنی رومانوی اور انقلابی شاعری سے ہندوستان بھر میں شہرت پائی اور اصنافِ سخن میں پابند و آزاد نظموں کے علاوہ اپنے قطعات، رباعیوں اور غزلوں کے لیے مشہور ہوئے۔ ان کی مشہور تصانیف ’سرخ سویرا‘، ’گلِ تر‘ اور ’بساطِ رقص‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    مخدوم انسان دوست اور اشتراکیت کے حامی تھے۔ انھوں نے مشرق کی زبوں حالی، معاشی ابتذال، غریبوں اور محنت کشوں کا استحصال، بھوک، افلاس، غربت کے خلاف اپنے اشعار میں‌ آواز بلند کی۔ مخدوم روس کے سرخ انقلاب سے بے حد متاثر ہوئے تھے اور اسی سے ذہنی وابستگی تادمِ آخر برقرار رکھی۔

    مخدوم کی قومی نظموں میں آزادئ وطن، جنگ آزادی، مسافر، بنگال، اور چاند تاروں کا بن قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی نظموں میں علامات، اشاروں، استعاروں اور کنایوں میں ملک اور ہندوستان بھر کے سیاسی حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ فطرت اور مناظرِ قدرت کے بڑے دلدادہ رہے ہیں۔ ان کی مناظرِ قدرت پر لکھی ہوئی نظمیں بلیغ اشارے رکھتی ہیں جن میں وہ فلسفہ اور انقلاب کی رنگ آمیزی بھی کرتے ہیں اور بے لطف نہیں ہونے دیتے۔ مخدوم کی مشہور نظموں میں شاعر، سناٹا، قلندر، لختِ جگر، نہرو، رات کے بارہ بجے، گھر، اقبال، اور ‘اقبال کی رحلت’ شامل ہیں۔

    اس انقلابی شاعر نے دہلی میں وفات پائی۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
    چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

    اس اہم ترقّی پسند شاعر کی چند غزلیں اور نظمیں بھارت کی مشہور اور مقبول فلموں ’بازار‘ اور ’ گمن‘ کے لیے نام ور گائیکوں کی آواز میں ریکارڈ کروا کے شامل کی گئی تھیں۔

  • یومِ وفات: موٹر مکینک سے انقلابی ایجاد تک جیمز واٹ کا سفر ایک نظر میں!

    یومِ وفات: موٹر مکینک سے انقلابی ایجاد تک جیمز واٹ کا سفر ایک نظر میں!

    جیمز واٹ کو لوگ ایک موٹر مکینک، چند مخصوص مشینوں کو مختلف اوزاروں سے کھولنے، بند کرنے اور ان کی خرابی دور کرنے میں مشّاق سمجھتے تھے اور بس۔

    اس وقت کون جانتا تھا اور خود جیمز کو بھی نہیں‌ معلوم تھا کہ وہ مستقبل میں‌ ایک ایسا کار ہائے نمایاں انجام دے گا جس کے بعد دنیا اسے ایک موجد کی حیثیت سے یاد رکھے گی۔ اس نے بھاپ کا انجن تیّار کیا تھا جو صنعت و مواصلات کے شعبے میں انقلاب لایا۔ جیمز واٹ 1819ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ آج اس کا یومَ وفات ہے۔

    1736ء کو اسکاٹ لینڈ، برطانیہ میں‌ آنکھ کھولنے والے جیمز واٹ نے ابتدائی عمر میں مشینوں‌ اور اوزاروں‌ میں دل چسپی لینا شروع کردی تھی۔ تھوڑا بڑا ہوا تو اس زمانے کی مختلف موٹروں اور مشینوں‌ کی خرابی کو سمجھنے اور انھیں‌ کھولنے بند کرنے کے دوران اس نے ان کی سائنس کو سمجھا اور کام میں ماہر ہوتا چلا گیا۔ اس وقت بھاپ کے انجن کا خیال یا خود انجن کوئی انوکھی چیز نہ تھی بلکہ ایسی مشینیں بن چکی تھیں جن کی مدد سے کوئلے کی کانوں سے پانی باہر نکالا جاتا تھا۔ یہ مشینیں‌ بھاپ سے چلتی تھیں، لیکن اس میں مزید تبدیلیاں اور اس انجینیئرنگ میں ترقّی کا امکان موجود تھا۔

    ایک مرتبہ ایسی ہی مشین میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی اور اسے درست کرنے کے لیے جیمز واٹ سے رابطہ کیا گیا۔ واٹ کو مشین درست کرنے میں کوئی مشکل تو پیش نہ آئی، لیکن اس دوران اُس کے دماغ میں بھاپ کا انجن تیار کرنے کا وہ خیال تازہ ہو گیا جو اسے تین سال سے ستا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ایسی مشینوں‌ کو حرکت دینے کے لیے بہت زیادہ بھاپ خرچ ہوتی ہے، اور یہ خاصا منہگا پڑتا ہے۔ اس کا ذہن اس مسئلے کا حل تلاش کرتا رہا تاکہ ایسے کسی انجن کو چلانے پر کم خرچ آئے۔

    ایک روز اس پر حقیقت منکشف ہوئی کہ جو انجن اب تک بنائے گئے ہیں ان میں سلنڈر کے ذریعے ایک مشکل ترین کام انجام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نے جان لیا تھا کہ جمع شدہ بھاپ کا درجہ حرارت بہ حالتِ عمل کم ہونا چاہیے۔ البتہ سلنڈر کو اتنا ہی گرم ہونا چاہیے، جتنی اس میں داخل ہونے والی بھاپ گرم ہوتی ہے۔ غرض غور و فکر کے بعد اس کے ذہن نے ایک نئی چیز تیار کی، جسے آلہ تکثیف (کنڈنسر) کہا جاتا ہے۔ بعد میں عملی تجربہ کرتے ہوئے اس نے جو انجن بنایا وہ اس کی ذہنی اختراع کے مطابق کام انجام دینے لگا۔

    اس کا سادہ اصول یہ تھا کہ پانی کو ٹھنڈا رکھتے ہوئے سلنڈر کو بدستور گرم رہنے دیا جائے جس میں پہلے کے انجن کے مقابلے میں ایک چوتھائی یا اس بھی کم بھاپ خرچ ہوتی تھی۔

    اس ابتدائی ایجاد کے بعد حوصلہ ہوا تو جیمز واٹ نے اپنے انجن میں‌ مزید تبدیلیاں کیں اور اس دور کے بھاپ کے انجنوں اور دوسری مشینوں کے مقابلے میں‌ زیادہ بہتر اور توانائی خرچ کرنے کے اعتبار سے ایک مختلف ایجاد سامنے لانے میں‌ کام یاب رہا۔ اسی کے بیان کردہ اصول اور تیار کردہ انجن کے ڈیزائن کو سامنے رکھ کر آگلے برسوں میں ذرایع نقل و حمل اور توانائی پیدا کرنے کے حوالے سے مشینوں‌ میں‌ جدّت اور صنعتی میدان میں‌ ترقی میں‌ مدد ملی۔

    آج اس انجینئر اور بھاپ کے نئے انجن کے موجد کے مجمسے دنیا کی مختلف درس گاہوں اور میوزیم میں‌ موجود ہیں جو اس کی ایجاد اور اس کے سائنسی کارناموں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

  • عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    حسن و عشق کے قصّے ہوں یا ساغر و بادہ میں ڈوبے ہوئے صبح و شام کا تذکرہ، واعظ سے الجھنا اور اس پر طنز کرنا ہو یا محبوب سے بگڑنے کے بعد طعنہ زنی اور دشنام طرازی کا معاملہ ہو فراز نے سخن وَری میں کمال کردیا، اور رومانوی شاعر کے طور ہر عمر اور طبقے میں مقبول ہوئے، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جس نے ناانصافی، جبر اور آزادیِ اظہار پر پابندیوں کے خلاف انقلابی ترانے لکھ کر باشعور اور سنجیدہ حلقوں کو متوجہ کیا اور اردو ادب میں ممتاز ہوئے۔ آج احمد فراز کی برسی ہے۔

    سن ساٹھ کی دہائی میں پہلے شعری مجموعے سے اردو ادب کے افق پر جگمگانے والا یہ ستارہ 2008ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا، لیکن اس کی روشنی آج بھی باقی ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سیّد احمد شاہ تھا۔ وہ 14 جنوری 1931ء کو صوبۂ سرحد کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ پشاور میں ایڈورڈ کالج اور پشاور یونیورسٹی سے تعلیم حاصلی کی، دورانِ طالبِ علمی ہی ان کی شاعری اور شہرت کا آغاز ہوچکا تھا اور جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘تنہا تنہا’ شایع ہوا تو وہ بی اے کے طالبِ علم تھے۔

    احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔

    جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں انھوں نے آمریت کے خلاف لب کشائی کی اور اپنے کلام کے ذریعے جبر کو مسترد کیا تو اس کی پاداش میں کئی برس بیرونِ ملک جلا وطنی کاٹنے پر مجبور کردیے گئے۔

    احمد فراز کو ادبی خدمات پر ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا، لیکن انھوں نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات پر احتجاجاً یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔

    احمد فراز کو ان کے ادبی سفر کے دوران شہرت اور دنیا بھر میں محبت کے ساتھ ساتھ متعدد ممالک میں سرکاری سطح پر جب کہ امن و فلاح و بہبودِ انسانی کی مختلف تنظیموں اور ادبی پلیٹ فارمز سے کئی اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کا کلام برِصغیر کے مشہور غزل گائیکوں نے گایا اور خوب صورت آوازوں نے ان کی شاعری کو سامعین میں مزید مقبول بنایا۔

    مہدی حسن نے فراز کی کئی غزلوں کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا جس میں ‘رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ’ بہت پسند کی گئی اور آج بھی اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ ملکۂ ترنم میڈم نور جہاں نے فراز کی غزل ‘سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے’ گا کر شائقینِ غزل کے دل جیتے۔

    پڑوسی ملک ہندوستان میں لتا منگیشکر نے ان کی کئی غزلیں اور گیت گائے۔ ان کے علاوہ جگجیت سنگھ نے بھی فراز کی کئی غزلیں گائی ہیں۔

    فراز کے شعری مجموعوں میں سب آوازیں میری ہیں، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، خوابِ گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں شامل ہیں۔ فراز کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے جو امید و جستجو کا استعارہ بن گئے اور ان میں ہمارے لیے خوب صورت پیغام موجود ہے۔ ایک ایسا ہی شعر ملاحظہ کیجیے۔

    شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے معروف مزاحیہ اداکار جمشید انصاری کی برسی

    ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے معروف مزاحیہ اداکار جمشید انصاری کی برسی

    آج ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اسٹیج کے معروف فن کار جمشید انصاری کی برسی ہے جو ڈراموں میں اپنے مزاحیہ کرداروں کی وجہ سے ملک بھر میں مقبول ہوئے۔ وہ 24 اگست 2005ء کو طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    جمشید انصاری 31 دسمبر 1942ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر سہارن پور میں پیدا ہوئے، تقسیمِ ہند کے موقع پر ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا جہاں جمشید انصاری نے تمام عمر گزار دی۔

    انھوں نے تقریباً 200 ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کا فنی کیریئر 40 برسوں پر محیط ہے جن میں جمشید انصاری نے ’انکل عرفی‘، ’گھوڑا گھاس کھاتا ہے‘، ’تنہائیاں’، ’اَن کہی‘ جیسے مشہور ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور خوب شہرت حاصل کی۔ ’ جھروکے‘، ’دوسری عورت‘، ’زیر زبر پیش‘، ’منزلیں‘، ’بے وفائی‘ بھی ان کے مشہور ڈرامے ہیں۔ یس سر نو سر، برگر فیملی، رات ریت اور ہوا، زہے نصیب، ماہِ نیم شب میں انھوں نے مزاحیہ کردار ادا کیے تھے۔

    ایک زمانہ تھا جب ملک بھر میں لوگوں کی تفریح اور معلومات کا واحد اور مقبول ترین ذریعہ ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ پاکستان میں ریڈیو پروگرام اور ڈراموں میں کئی آرٹسٹوں نے اپنی آواز اور صدا کاری کے فن کو آزمایا اور خوب شہرت حاصل کی جن میں جمشید انصاری بھی شامل تھے۔

    مرحوم نے ریڈیو پر طویل ترین عرصے تک چلنے والے مقبول ترین پروگرام ’حامد میاں کے ہاں‘ میں صفدر کا یادگار کردار ادا کیا تھا۔ اس کھیل میں ان کے ادا کیے ہوئے مکالمے زبان ردِ عام ہوئے۔

    پی ٹی وی کے ڈراموں کی بات کی جائے تو ’چکو ہے میرے پاس‘، ’قطعی نہیں!‘، اور ڈرامے میں بات بات پر ان یہ کہنا، ’افشاں تم سمجھ نہیں رہی ہو‘ اور ’زور کس پر ہوا‘ ناظرین کو مسکرانے پر مجبور کر دیتا تھا۔

    جمشید انصاری نے مشہور اسٹیج ڈرامے ’بکرا قسطوں پر‘ میں بھی کردار ادا کیا تھا۔

    2005ء میں انھیں برین ٹیومر تشخیص ہوا تھا جو بہت زیادہ پھیل چکا تھا اور اسی مرض نے انھیں ہمیشہ کے لیے اپنے پرستاروں سے دور کردیا۔ لیکن ان کی یاد آج بھی دلوں میں زندہ ہے۔