Tag: اگست وفیات

  • کرکٹ: پاکستان کے مایہ ناز آل راؤنڈر وسیم حسن راجہ کی برسی

    کرکٹ: پاکستان کے مایہ ناز آل راؤنڈر وسیم حسن راجہ کی برسی

    آج وسیم حسن راجہ کا یومِ‌ وفات ہے جو کرکٹ کے مایہ ناز آل راؤنڈر تھے۔ وسیم حسن راجہ لندن میں ایک کلب میچ میں دورانِ فیلڈنگ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔

    23 اگست 2006ء کو میچ کے دوران انھوں نے اپنے ساتھی فیلڈروں کو بتایا کہ انھیں چکر آ رہے ہیں جس کے بعد انھیں میدان سے باہر لے جایا جارہا تھا کہ باؤنڈری لائن پر ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔

    وسیم راجہ پاکستان ٹیم کے کوچ بھی رہے اور آئی سی سی کے ریفری بھی۔ وہ 3 جولائی 1952ء کو ملتان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بھائی رمیز راجہ بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصّہ رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بہترین کھلاڑی اور ماہر کی حیثیت سے نام و مقام رکھتے ہیں۔

    وسیم راجہ نے 1973ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ سے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا اور مجموعی طور 57 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ انھوں نے مجموعی طور پر2821 رنز اسکور کیے جن میں 4 سنچریاں اور 18 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ 35.80 کی اوسط سے 51 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور 54 ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے۔ انھوں نے مجموعی طور پر 728 رنز اسکور کیے۔

    وسیم راجہ دائیں ہاتھ سے گیند کرنے والے لیگ سپن بالر تھے۔ وہ گگلی بھی پھینکتے تھے اور بائیں ہاتھ سے جارحانہ بیٹنگ کرنے والے مڈل آڈر بلے باز تھے۔

    انھوں نے پاکستان کی طرف سے آخری ٹیسٹ میچ نیوزی لینڈ کے خلاف 1985ء میں کھیلا تھا۔

  • صاحبِ طرز ادیب ملّا واحدی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب ملّا واحدی کی برسی

    آج اردو زبان کے صاحبِ طرز ادیب اور صحافی ملّا واحدی کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھیں دلّی سے متعلق اپنی تصنیف کی وجہ سے بہت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ ملّا واحدی نے 22 اگست 1976ء کو کراچی میں وفات پائی۔

    "میرے زمانہ کی دلّی” ملّا واحدی کی وہ یادگار تصنیف ہے جسے دہلی کے ایک دور کی مستند تاریخ قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں مصنّف نے وہ تمام حالات تحریر کیے ہیں جو انھوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔

    ان کا نام اصل نام محمد ارتضیٰ تھا، مگر مصوّرِ فطرت حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب نے انھیں ملّا واحدی کے نام سے یاد کیا جو اتنا مشہور ہوا کہ یہی ان کی شناخت بن گیا۔

    ملّا واحدی 17 مئی 1888ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں تعلیم پائی۔ ابتد اہی سے ادب اور صحافت کا شوق تھا۔ نوعمری میں قلم تھام لیا اور ملک کے مؤقر اخبارات اور جرائد میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا جن میں ماہ نامہ ’’زبان‘‘ دہلی، ماہنامہ ’’وکیل‘‘ امرتسر، ہفتہ وار ’’وطن‘‘ لاہور اور مشہور ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور شامل تھے۔ بعد میں خواجہ حسن نظامی کے ساتھ نظام المشائخ رسالہ نکالنے میں معاونت کی اور اسی عرصے میں اشاعتِ کتب اور تصنیف و تالیف کا کام شروع کردیا۔ انھوں نے چند اور رسالے بھی جاری کیے جن میں ہفتہ وار درویش، ہفتہ وار طبیب، ہفتہ وار خطیب، ہفتہ وار انقلاب اور روزنامہ رعیت شامل تھے، لیکن انھیں زیادہ عرصہ جاری نہ رکھ سکے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ملّا واحدی پاکستان چلے آئے اور پھر یہاں سے جنوری 1948ء میں کراچی سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا احیا کیا جو 1960ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں وہ دلّی اور دلّی کی شخصیات کا احوال و تذکرہ بھی رقم کرتے رہے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    ملّا واحدی کی تصانیف میں تین جلدوں میں حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات نامی کتابیں شامل ہیں۔

    اردو کے اس صاحبِ اسلوب ادیب کو کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یوری ایونری: فلسطینیوں کا ہم درد جسے ساری زندگی اسرائیلی انتہا پسند مطعون کرتے رہے

    یوری ایونری: فلسطینیوں کا ہم درد جسے ساری زندگی اسرائیلی انتہا پسند مطعون کرتے رہے

    فلسطینی عربوں اور اسرائیل کے امن پسند یہودیوں میں یوری ایونری کی مقبولیت اور پسندیدگی کی وجہ انسانی حقوق اور قیامِ امن کے لیے ان کی کوششیں ہیں۔ انھوں نے 2018ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    94 برس کی عمر میں وفات پانے والے ایونری جرمنی میں 10 ستمبر 1923ء کو پیدا ہوئے۔ اان کا اصل نام ہیلمٹ اوسٹر مین تھا۔ جرمنی میں ایڈولف ہٹلر کی قیادت میں نیشنل سوشلسٹ پارٹی کے اقتدار کے بعد ان کا خاندان 1933ء میں فلسطین ہجرت کر گیا۔ وہاں ایونری نے اسرائیلی مملکت کے لیے کام کیا، لیکن کم عمری ہی میں انھوں نے عربوں سے تعلقات بہتر بنانے اور امن کی خواہش کا اظہار شروع کردیا، اور جلد ہی انھیں یہ احساس ہوگیا کہ اسرائیلی انتہا پسندوں کی وجہ سے خطّے کے امن اور فلسطینیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ انھوں نے ایک صحافی کی حیثیت سے اپنے قلم کی طاقت کو اسرائیلی درندگی اور سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کیا۔

    بعد کے برسوں میں وہ مشرقِ‌ وسطیٰ میں تنازع کے حل اور انسانی حقوق کے ممتاز کارکن کے طور پر ابھرے اور فلسطینیوں کی توجہ حاصل کرلی۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی میں تنازع کے منصفانہ حل کے لیے جدوجہد میں گزاری اور اپنی امن کوششوں پر کئی ایوارڈز حاصل کیے۔

    وہ ایک صحافی اور ایسے مضمون نگار، کالم نویس تھے جنھوں نے نہ صرف قیامِ امن اور پائیدار حل کے حوالے سے تجاویز پیش کیں بلکہ اسرائیل کے ظلم و ستم اور عربوں کے خلاف سازشوں کو بھی بے نقاب کرتے رہے۔ وہ انتہائی دائیں اور یہودی انتہا پسندوں سے یکساں طور پر نفرت کرتے تھے۔

    ایونری 1948 میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کے دوران شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔ جون 1967 میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان چھے روزہ جنگ کے بعد وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن کے پُرجوش حامی بن گئے اور انھیں اسرائیلی قدامت پسندوں غدار کہنا شروع کردیا تھا۔

    ایونری نے 1965 سے اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے تین مدات تک خدمات انجام دیں اور فلسطینیوں کے ساتھ پائیدار اور منصفانہ امن کی ضرورت کا دفاع کرتے رہے۔

    یوری ایونری کو فلسطین کی اعزازی شہریت بھی دی گئی تھی۔ ان کے مضامین اور سیاسی رپورٹیں مختلف اخبارات میں شایع ہوتی رہی ہیں۔

  • پریت نگر اور پریت لڑی والے گور بخش سنگھ کا تذکرہ

    پریت نگر اور پریت لڑی والے گور بخش سنگھ کا تذکرہ

    سردار گور بخش سنگھ کا نام پنجابی ادب کے ایک نام وَر قلم کار کے طور پر لیا جاتا ہے جو 1977ء میں آج کے ہی دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیب تھے۔

    26 اپریل 1895ء کو پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے گور بخش سنگھ نے والد کے انتقال کے بعد مشکلات کا سامنا کیا، لیکن کسی طرح تعلیم کا سلسلہ ترک نہ کیا، انھوں نے میٹرک کے بعد ایف سی کالج، لاہور میں داخلہ لیا، معاشی مشکلات کی وجہ سے اسی زمانے میں ایک معمولی ملازمت بھی شروع کردی، بعد میں 1913ء میں تھامسن سول انجینئری کالج، روڑکی سے ڈپلوما حاصل کیا۔ فوج میں بھرتی ہوکر عراق اور ایران گئے، 1922ء امریکا میں مشی گن یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری لے کر واپس آئے اور ریلوے انجینئر کے طور پر عملی زندگی شروع کی۔

    انھوں نے پنجابی ادب کو اپنے افسانوں، سواںح و تذکروں، تراجم، ڈراموں سے مالا مال کیا اور اپنی الگ شناخت بنائی۔ 1933ء میں انھوں نے لاہور سے پنجابی اور اُردو زبان میں ایک ماہانہ میگزین ‘‘پریت لڑی’’ جاری کیا جو لوگوں میں اتنا مقبول ہوا کہ ان کا نام ہی ‘‘گور بخش سنگھ پریت لڑی ’’پڑ گیا۔

    یہی نہیں‌ اپنے وطن سے ان کی محبّت کا بھی عجیب عالم رہا اور انھوں نے 1936ء میں لاہور اور امرتسر کے درمیان ‘‘پریت نگر ’’ یعنی محبت کرنے والوں کا شہر آباد کیا جس میں شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ انسان دوست اور فن و ثقافت سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بسایا۔ وہ ہر سال یہاں ادبی اجتماع منعقد کرتے جس میں برصغیر کے کونے کونے سے ادیب، شاعر اور دانشور شریک ہوتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے وقت جب یہ شہر بھی فسادات سے محفوظ نہ رہا تو گور بخش سنگھ دل برداشتہ ہو کر دہلی چلے گئے تھے۔

    انھوں نے کہانی، ناول، ڈرامے، مضامین اور بچوں کے ادب پر پچاس سے زائد کتب شائع کروائیں۔ گور بخش سنگھ نے میکسم گورکی کے مشہور ناول ‘‘ماں ’’ کا پنجابی ترجمہ بھی کیا۔

  • شاعر، ناول نگار اور نقّاد ضیا حسین ضیا کی برسی

    شاعر، ناول نگار اور نقّاد ضیا حسین ضیا کی برسی

    2019ء میں‌ آج ہی کے روز شاعر، ناول نگار اور ناقد ضیا حسین ضیا وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ ادبی رسالے زر نگار کے مدیر بھی تھے۔

    ضیا حسین ضیا اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ ابتدائی تعلیم مختلف دینی مدارس سے حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے اردو، عربی اور علومِ اسلامیہ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کیں۔ فارسی ادب میں ایم اے اور پھر ایم فل کیا تھا۔
    انھیں ایک ایسے ادیب کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے ہمیشہ ادبی مجالس سے دور رہ کر اپنے فن اور کام کی تشہیر کے بجائے مطالعے اور غور وفکر کو ترجیح دی۔

    ضیا حسین ضیا کا ایک ناول مابین بہت پسند کیا گیا جب کہ ان کے تنقیدی اقوال اور شذرات پر مشتمل کتاب لوحِ غیر محفوظ نے انھیں خاصی شہرت عطا کی۔ ان کی نظموں کا مجموعہ دروازہ گل کے نام سے شایع ہوا اور سنجیدہ علمی و ادبی حلقوں میں ان کی پہچان کا سبب بنا۔

    علّامہ ضیا حسین ضیا کی ادبی خدمات میں رسالہ زر نگار اس لیے اہم ہے کہ اس کے ذریعے انھوں نے ادبی دنیا میں نئے تخلیق کاروں کو متعارف کرایا۔

  • تاریخی درس گاہ سندھ مدرستہُ الاسلام کے بانی حسن علی آفندی کی برسی

    تاریخی درس گاہ سندھ مدرستہُ الاسلام کے بانی حسن علی آفندی کی برسی

    آج سندھ مدرستہُ الاسلام کے بانی اور نام وَر مسلمان دانش وَر حسن علی آفندی کا یومِ‌ وفات ہے جن کا نام ان کے فلاحی کاموں اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے خدمات کی وجہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ حسن علی آفندی 20 اگست 1895ء میں دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    حسن علی آفندی 14 اگست 1830ء کو سندھ کے شہر حیدرآباد کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے، مگر اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل بنایا بلکہ سندھ کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی فکر کرتے ہوئے اس عظیم درس گاہ کے قیام کے اپنے خواب کو بھی پورا کیا جس سے پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے بھی تعلیم حاصل کی۔

    حسن علی آفندی نے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اس راستے میں جن مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، اسے دیکھ کر انھیں سندھ کے مسلمان نوجوانوں کے لیے تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ انھوں نے اس حوالے سے ابتدائی کوششوں کے بعد ہندوستان کی دیگر قابل اور نام ور شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور ان کی مدد اور تعاون حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ بالآخر 1885ء میں حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃُ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ایک اسکول تھا اور بعد میں اسے کالج کا درجہ دیا گیا۔ آج اسی تعلیمی ادارے کے بطن سے ایس ایم لا کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے نکلے اور ان میں مستقبل کی آب یاری کا عمل جاری ہے۔

    پاکستان کے بانی، محمد علی جناح، نے سندھ مدرسہ الاسلام سے ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ حسن علی آفندی کے فلاحی کارناموں کے اعتراف میں برطانوی سرکار نے انہیں خان بہادر کا خطاب دیا تھا۔

    حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ سے بھی منسلک رہے اور مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے رکن بھی تھے۔ 1934ء سے 1938ء تک وہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔

    انھیں انگریز سرکار نے تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے خان بہادر کے خطاب سے نوازا تھا۔ حسن علی آفندی نے اس اسکول کے قیام کے لیے کوششیں شروع کیں تو وہ سرسید احمد خان سے بھی ملے۔ وہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں نے اگر جدید تعلیم حاصل نہ کی تو وہ ہر لحاظ سے پیچھے رہ جائیں گے اور ہندوستان کی آزادی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔

    سندھ مدرسہ نے ثابت کیا کہ حسن علی آفندی اور ان کے ساتھیوں کا ایک جدید درس گاہ کے قیام کا فیصلہ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں تھا کیوں کہ بعد میں اسی ادارے سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ کئی ایسے مسلمان راہ نما نکلے جنھوں نے مسلمانوں کی اصلاح اور تحریک پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا۔

  • شاذ تمکنت: خود ہی عاشق اور معشوق بھی، زندہ دل اور زود رنج بھی

    شاذ تمکنت: خود ہی عاشق اور معشوق بھی، زندہ دل اور زود رنج بھی

    آج اردو کے معروف شاعر شاذ تمکنت کا یومَِ وفات ہے جن کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔

    ان کا اصل نام سید مصلح الدین تھا جو 31 جنوری 1933 کو پیدا ہوئے اور 18 اگست 1985ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے والد نظام دکن کے ہاں ملازم تھے۔

    شاذ تمکنت نے روایتی اور جدید شاعری کے درمیان جو پُل تعمیر کیا وہ خود میں ایک دَور کا آئینہ دار ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں جہاں ذاتی زندگی کے دکھ درد ظاہر ہیں، وہیں ان کا دکھ، زمانہ کے عمومی تجربہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔

    شاذ تمکنت ایک نظم گو شاعر کی حیثیت سے ابھرے لیکن غزل میں بھی اپنی منفرد شناخت بنائی۔ ان کی ابتدائی دور کی نظموں کی نمایاں خصوصیت مرصّع مرقع نگاری ہے۔ ان کی بیش تر نظموں میں تشبیہی اور وصفی مرکبات ان کے اظہار کا جزو لاینفک ہیں۔

    وفات کے وقت شاذ تمکنت جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو میں ریڈر کے عہدہ پر کام کررہے تھے۔

    شاذ تمکنت کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں تراشیدہ (1966)، بیاضِ شام (1973)، نیم خواب (1977) اور دستِ فرہاد شامل ہیں جو بعد از مرگ 1994 میں شایع ہوا۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا۔

    مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
    تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے

    ان کی مناجات "کب تک مرے مولا ” اور ایک نغمہ ” سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو” کو گلوکاروں نے گایا اور یہ کلام بہت مقبول ہوا۔

  • یومِ وفات: تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے گیت سرحد پار بھی مقبول ہوئے

    یومِ وفات: تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے گیت سرحد پار بھی مقبول ہوئے

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے کم عمری میں ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور شہرت حاصل کی۔ وہ 1982ء میں آج ہی کے دن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ آج تسلیم فاضلی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا تعلق دہلی کے علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔ یوں شعروسخن سے شروع ہی سے دل چسپی رہی اور وہ وقت بھی آیا جب تسلیم فاضلی خود شاعری کرنے لگے۔ ان کا
    اصل نام اظہار انور تھا اور وہ 1947ء میں پیدا ہوئے تھے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے اپنی شہرت کے عروج پر پاکستان کی معروف اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    تسلیم فاضلی نے سادہ اور عام فہم انداز میں‌ دل کو چھو لینے والے گیت تخلیق کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت کے لیے ان کی فلمی غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور اسی گیت کی شہرت نے اس شاعر پر جیسے فلموں کی برسات کردی تھی، لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا تھا۔ تسلیم فاضلی صفِ اوّل کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے۔ ان کے چند گیت کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
    ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
    ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
    مجھے دل سے نہ بھلانا
    کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی

    تسلیم فاضلی کے انتقال سے پاکستان فلم انڈسٹری ایک خوب صورت نغمہ نگار سے محروم ہوگئی مگر ان کے لکھے ہوئے نغمات آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں۔

  • آج مشہور قوّال اور موسیقار نصرت فتح علی خان کی برسی ہے

    آج مشہور قوّال اور موسیقار نصرت فتح علی خان کی برسی ہے

    مشہور پاکستانی قوال اور دنیا بھر میں موسیقی اور اپنی گائیکی سے پہچان بنانے والے نصرت فتح علی خان 2007ء میں‌ آج ہی کے دن اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    فیصل آباد میں پیدا ہونے والے نصرت فتح علی خان کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔ ان کا خاندان قیام پاکستان کے وقت ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے فیصل آباد آبسا تھا۔

    نصرت فتح علی خان نے فنِ قوالی، موسیقی اور گلوکاری کے اسرار و رموز سیکھے اور وہ عروج حاصل کیا کہ آج بھی دنیا بھر میں‌ انھیں ان کے فن کی بدولت نہایت عقیدت، محبت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    یہ نصرت فتح علی خان کا کارنامہ ہے کہ انھوں‌ نے قوالی کو مشرق و مغرب میں مقبول بنایا اور خاص طور پر صوفیائے کرام کے پیغام کو اپنی موسیقی اور گائیکی کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ انھوں‌ نے اپنے فن کے ذریعے دنیا کو امن، محبت اور پیار کا درس دیا اور پاکستان کا نام روشن کیا۔

    16 اگست 1997 کو پاکستان کے اس نام وَر موسیقار اور گلوکار کا لندن کے ایک اسپتال میں زندگی کا سفر تمام ہو گیا تھا۔

    کلاسیکی موسیقی اور بالخصوص قوالی کے میدان میں‌ ان کے والد اور تایا بڑا نام اور مقام رکھتے تھے اور انہی کے زیرِ سایہ نصرت فتح علی خان نے اس فن سے متعلق تمام تربیت مکمل کی تھی۔

    ابتدائی زمانے میں‌ پرفارمنس کے دوران ان کا انداز روایتی قوالوں کی طرح رہا، مگر جب انھوں‌ نے اس فن میں کلاسیکی موسیقی اور پاپ میوزک کے ملاپ کا تجربہ کیا تو ان کی شہرت کا آغاز ہوا اور پھر 1980 کی دہائی کے اواخر میں ایک غیرملکی فلم کا سائونڈ ٹریک تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تو شاید خود وہ بھی نہیں‌ جانتے تھے کہ وہ شہرت اور مقبولیت کی کن انتہاؤں‌ کو چھونے جارہے ہیں۔ 90 کی دہائی میں پاکستان اور ہندوستان میں ان کی موسیقی نے دھوم مچا دی اور انھوں نے فلمی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    “دم مست قلندر، آفریں آفریں، اکھیاں اڈیک دیاں، سانوں اک پل چین نہ آئے اورغم ہے یا خوشی ہے تُو” کی شہرت دور دور تک پھیل گئی جب کہ ان کی آواز میں‌ ایک حمد، “کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے” کو بھی بہت زیادہ سنا اور پسند کیا گیا۔

    نصرت فتح علی فیصل آباد میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • آج بابائے اردو مولوی عبدُالحق کی برسی ہے

    آج بابائے اردو مولوی عبدُالحق کی برسی ہے

    آج بابائے اردو مولوی عبدالحق کا یومِ وفات ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے اس نام وَر ماہرِ لسانیات، ادیب، محقّق اور معلّم نے 1961ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے آنکھیں موند لی تھیں۔

    بابائے اردو مولوی عبدالحق 20 اپریل 1870ء کو ہندوستان کے ضلع میرٹھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1894ء میں علی گڑھ کالج سے بی اے کیا۔ علی گڑھ میں حصولِ تعلیم کے دوران سر سیّد احمد خان کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا جن کے افکار اور نظریات کا مولوی عبدالحق پر بھی گہرا اثر ہوا۔

    1895ء میں حیدر آباد دکن میں ایک تعلیمی ادارے میں تدریس کا موقع ملا اور ملازمت کی غرض سے وہاں چلے گئے۔ ترقّی پاکر صدرِ مہتمم تعلیمات ہوئے اور اورنگ آباد منتقل ہوگئے۔ بعد میں یہ ملازمت چھوڑ کر عثمانیہ کالج اورنگ آباد کے پرنسپل ہوگئے اور 1930ء میں اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

    فارسی اور اُردو ادب، تاریخ و فلسفہ کے شوق نے مولوی عبدالحق کو مطالعہ کی طرف راغب کیا اور بعد میں اردو زبان کے ایک محسن اور مفکر کی حیثیت سے اپنی تمام زندگی اردو کے فروغ، ترویج، تدریس اور نشر و اشاعت کے لیے وقف کردی۔ غور و فکر اور مشاہدے کے ساتھ انھوں نے اردو زبان اور اصنافِ ادب کا تحقیقی اور تنقیدی پہلوؤں سے جائزہ لیا اور اس حوالے سے مضمون لکھے۔ انھوں نے اردو لغات کی ترتیب و تدوین، مختلف اصطلاحات وضع کرنے کا مشکل کام نہایت خوبی سے نبھایا۔ بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے یوں تو متعدد علمی اور ادبی کارنامے گنوائے جاسکتے ہیں، لیکن اردو زبان کے لیے ان کی تحقیقی اور لسانی کاوشوں کی وجہ سے انھیں‌ اردو کا عظیم محسن کہا جاتا ہے۔

    مولوی عبدالحق نے اردو میں تنقید و مقدمہ نگاری کے علاوہ مختلف تصانیف، تالیفات پر تبصرہ اور جائزہ لینے کے فن کو ایک نیا ڈھنگ عطا کیا۔

    مولوی عبدالحق کا ایک کارنامہ انجمن ترقیِ اردو ہے جسے انھوں‌ نے فعال ترین تنظیم اور علمی ادارہ بنایا اور اس انجمن کے تحت لسانیات اور جدید علوم سے متعلق کتابوں کی اشاعت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مولوی عبدالحق نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور یہاں اردو کالج کی بنیاد رکھی جہاں آج بھی آرٹس کے علاوہ سائنس اور قانون کی تعلیم دی جارہی ہے۔

    مولوی عبدالحق نے حیدرآباد دکن میں اسکول و کالج‌ میں تدریس کے علاوہ جامعہ عثمانیہ میں ملازمت کے دوران اردو زبان کے لیے خدمات انجام دیں، جامعہ عثمانیہ دکن کے آخری حکم ران اور علم و فنون، زبان و ادب کے عظیم سرپرست میر عثمان علی خان کی ذاتی دل چسپی سے قائم کردہ مشہور درس گاہ تھی جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ بابائے اردو نے لغت اور فنون و سائنس سے متعلق اصطلاحات کا اسی زمانے میں اردو ترجمہ کیا۔

    بابائے اردو کی تصانیف، تالیفات متعدد ہیں تاہم چند ہم عصر(خاکے)، مخزنِ شعرا، اردو صرف و نحو، افکارِ حالی، سر سید احمد خان، پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا مسئلہ بہت اہمیت کی حامل ہیں‌۔

    وہ وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی کے عبد الحق کیمپس کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔