Tag: اگست وفیات

  • اردو کے نام وَر نقّاد، ادیب اور غالب شناس ڈاکٹر معین الرحمٰن کی برسی

    اردو کے نام وَر نقّاد، ادیب اور غالب شناس ڈاکٹر معین الرحمٰن کی برسی

    ڈاکٹر سیّد معین الرحمٰن اردو کے نام وَر نقّاد، ادیب اور محقّق تھے جو 2005ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ وہ غالب پر اپنی تحقیق کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے تھے۔

    سیّد معین الرّحمٰن 5 نومبر 1942ء کو بھٹنڈہ، ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ بہاول کالج بہاولنگر سے انٹرمیڈیٹ کیا اور تقسیم کے بعد 1961ء میں اردو کالج کراچی سے بی اے، اردو لا کالج سے ایل ایل بی اور 1964ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے اردو کی سند لی۔

    انھوں نے 1972ء میں جامعہ سندھ سے پی ایچ ڈی کیا اور گورنمنٹ کالج بہاولنگر میں شعبہ اردو میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور، ایف سی کالج لاہور، گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں‌ اور 1981ء سے 2002ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر و صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے منصب سے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوئے۔

    ڈاکٹر معین الرحمٰن کثیر التّصانیف تھے۔ غالب اور اقبال پر ان کی تحقیقی کتب کے علاوہ بابائے اُردو احوال و آثار (1962ء)، نقدِ عبدالحق (1968ء)، قائد اعظم اور لائل پور (1972ء)، اُردو تحقیق یونیورسٹیوں میں (1989ء)، آپ بیتی رشید احمد صدیقی (ترتیب)، مطالعۂ یلدرم، فورٹ ولیم کالج و دیگر شایع ہوئیں۔ یہ کتابیں اردو زبان و ادب کا سرمایہ اور مستند حوالہ ہیں۔

    ڈاکٹر معین الرحمٰن کی آخری آرام گاہ قبرستان میانی صاحب، لاہور میں ہے۔

  • یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    آج اردو کے نام وَر ترقّی پسند شاعر اور صحافی خالد علیگ کا یومِ وفات ہے۔ زندگی کی 83 بہاریں دیکھنے والے خالد علیگ نے 2007ء میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا شمار پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ قلم کاروں میں ہوتا تھا۔

    خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ سمیت پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور میں قیام کیا، بعد سندھ کے شہروں میرپور خاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی آگئے جہاں تمام زندگی گزاری۔

    خالد علیگ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حرّیت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے جن کے انتقال کے بعد انھیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور 1978ء میں اس اخبار کی بندش تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

    خالد علیگ ہمیشہ ترقّی پسند مصنّفین کی تحریک میں سرگرم رہے۔ ایوب خان اور جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں آمریت اور فردِ‌ واحد کے فیصلوں کے خلاف انھوں نے صحافیوں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خالد علیگ کی شاعری میں ظلم و جبر سے نفرت، آمریت کی مخالفت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی شاعری جراتِ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔

    وہ ایک ایسے شاعر اور صحافی تھے جس نے کسی بھی موقع پر سرکاری امداد قبول نہیں کی اور اپنے قلم کو آزاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز سنی اور وہی لکھا جو حق اور سچ تھا۔ وہ خود دار تھے اور ہمیشہ خود کو اپنے ضمیر کا قیدی رکھا۔ خالد علیگ نے محنت کش طبقے اور عوام کے حق کے لیے شاعری اور صحافت کے ذریعے ہمیشہ آواز بلند کی اور بہت نام و مقام، عزّت اور احترام پایا۔ ساری زندگی کراچی شہر کی ایک بستی لانڈھی میں اپنے چھوٹے سے گھر میں گزار دی اور ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی جھیلی مگر خود داری اور اپنی آزادی کو برقرار رکھا۔

    خالد علیگ کو 1988ء میں مالی امداد کا حکومتی چیک بھجوایا گیا جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ شدید علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل تھے تو معلوم ہوا کہ حکومت کی جانب سے ان کا علاج سرکاری خرچ پر کروانے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ جان کر وہ اسپتال سے فوری گھر منتقل ہو گئے۔

    ان کی شاعری کا ایک مجموعہ ’غزال دشت سگاں‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو ان کے دوستوں اور شاگردوں نے شائع کروایا تھا۔

    ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں

    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

  • فلورنس نائٹ انگیل: صحّتِ‌ عامّہ کے شعبے اور جدید نرسنگ کی بانی کا تذکرہ

    فلورنس نائٹ انگیل: صحّتِ‌ عامّہ کے شعبے اور جدید نرسنگ کی بانی کا تذکرہ

    فلورنس نائٹ انگیل صحّتِ عامّہ اور علاج معالجے کے حوالے سے اپنی خدمات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ وہ جدید نرسنگ کی بانی تھیں اور اس شعبے میں انھوں نے انقلابی کام کیا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    فلورنس نے اٹلی کے مالی طور پر نہایت آسودہ اور خوش حال گھرانے میں جنم لیا۔ وہ 1820ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد زمین دار اور والدہ معروف سیاسی اور سماجی شخصیت تھیں۔ والدین نے ان کا نام فلورنس نائٹ انگیل رکھا۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق گھر پر فلورنس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان کے والدین رحم دل اور خدا ترس تھے، وہ سماج کے کم زور اور کم تر طبقے کی مدد اور ان سے تعاون کرتے تھے اور دوسروں کو بھی یہی درس دیتے تھے۔ اسی ماحول نے فلورنس کو بھی ایک ایسا انسان بننے پر آمادہ کیا جو ایک بامقصد اور تعمیری زندگی بسر کرتا ہے۔

    انسانوں کی خدمت اور مدد کا جذبہ فلورنس کے اندر بھی پروان چڑھا اور وہ ایک مصلح، ماہرِ شماریات اور نرس کی حیثیت سے پہچانی گئیں۔

    فلورنس نے دنیائے طب میں نرسنگ کے شعبے کا چناؤ کرتے ہوئے مریضوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور دُکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔

    انھوں نے جنگوں اور عام حالات میں اسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال اور خدمت کا کام کیا اور اپنے علم، مشاہدات اور تجربات کو تحریر میں لائیں۔ انھوں نے امراض اور حفظانِ صحّت کے حوالے سے لوگوں کی راہ نمائی کی اور ہاتھ منہ دھونے سمیت گھروں اور دیگر مقامات پر صفائی ستھرائی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
    انیسویں صدی میں زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال اور نرسوں کی تربیت کے بارے میں ان کے طرزِ عمل نے ان گنت جانیں بچائیں اور بے شمار زندگیوں کو اپنے طبّی مشوروں کی بدولت امراض سے محفوظ بنایا۔ انسانوں کو صحّت مند رہنے کے بارے میں انھوں نے کئی راہ نما اصول بتائے جن پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے۔

    نائٹ انگیل نے عوام کو سختی سے مشورہ دیا کہ زیادہ سے زیادہ روشنی کے حصول اور ہوا کے گزر کے لیے گھروں میں کھڑکیاں بنائیں اور جامد اور آلودہ ہوا کو باہر نکالنے کا بندوبست کریں۔ انھوں نے ہیضے اور ٹائیفائیڈ جیسی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے نکاسیِ آب کے نظام کو بہتر بنانے کا بھی مشورہ دیا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب اٹلی میں بھی عورتوں کا کام کرنا اور ان کے گھروں سے باہر رہنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ فلورنس کو بھی خاندان کی مخالفت سہنا پڑی لیکن انھیں والدین کا بھرپور اعتماد حاصل تھا جس نے انھیں مایوسی سے بچایا۔

    چوں کہ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کی تعلیم یافتہ خاتون تھیں تو اس وقت انھیں یوں کام کرتا دیکھ کر اور عام اور غریب لوگوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے معاشرے کے مخصوص طبقات کی جانب سے طعنے اور طنزیہ باتیں سننے کو ملتیں مگر فلورنس نائٹ انگیل نے ہر قسم کی مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انھوں نے نرسنگ کے شعبے کو باعزت اور قابلِ احترام بنایا۔

    وہ اسپتالوں اور مریضوں سے متعلق معلومات جمع کرکے باقاعدہ نوٹس تیار کرتیں اور ان کا جائزہ لے کر صحتِ عامّہ کے مسائل کو اجاگر کرتی رہیں جو اس وقت ایک بڑا کام تھا۔

    لندن میں 1910ء میں آج ہی کے دن وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں، مگر ان کا انسانوں سے محبّت اور ہم دردی کا درس انھیں آج بھی دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔

  • اردو اور ہندکو زبان کے مزاح گو شاعر نیاز سواتی کی برسی

    اردو اور ہندکو زبان کے مزاح گو شاعر نیاز سواتی کی برسی

    اردو اور ہندکو کے ممتاز مزاحیہ شاعر اور ادیب نیاز سواتی 13 اگست 1995ء کو ایک ٹریفک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر تھے جس نے معاشرتی اور اخلاقی کم زوریوں اور برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے طنز و مزاح کے نشتر چلائے اور شہرت حاصل کی۔

    نیاز سواتی ضلع مانسہرہ کے ایک گاؤں میں 29 اپریل 1941ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام نیاز محمد خان تھا۔ ڈگری کالج ایبٹ آباد سے بی اے کے بعد انھوں نے لا کالج پشاور سے ایل ایل بی کیا اور بعد میں ایبٹ آباد میں بطور سینئر پاپولیشن پلاننگ افسر عملی زندگی کا آغاز کیا۔ شگفتہ مزاجی اور نکتہ رسی و مشاہدہ کی عادت نے انھیں شعروسخن کی دنیا میں بھی ممتاز کیا۔ نیاز سواتی تحریف کے ماہر تھے اور انھوں نے کئی مشہور شعرا کے کلام کی پیروڈیاں لکھیں۔

    نیاز سواتی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں طنز کا عنصر اس وقت نہایت کاٹ دار اور قابلِ توجہ ہوجاتا ہے جب وہ معاشرے میں مغربی تہذیب کی تقلید اور اپنوں کو غیروں کی پیروی کرتا دیکھتے۔ ان کی حساس طبیعت نے انھیں معاشرتی و اخلاقی برائیوں پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے قلم کی طاقت اور اپنے فنِ شاعری کو آزمانے پر آمادہ کیا اور انھوں نے اس سے خوب کام لیا۔

    ان کی دو کتابیں بے باکیاں اور کلّیاتِ نیاز کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔ وہ مانسہرہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے

    ورنہ مجھے بھی جھوٹا سمجھتے تمام لوگ
    صد شکر اپنے حلقے کا ممبر نہیں ہوں میں
    دولت کی ریل پیل ہے اب گھر میں اس لیے
    کسٹم کا اک کلرک ہوں، ٹیچر نہیں ہوں میں

  • ممتاز ادیب، شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم سجّاد باقر رضوی کی برسی

    ممتاز ادیب، شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم سجّاد باقر رضوی کی برسی

    اردو زبان و ادب میں سجّاد باقر رضوی شاعر، ادیب، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ سجّاد باقر رضوی 1992ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    سجّاد باقر رضوی کا تعلق اعظم گڑھ، یو پی سے تھا جہاں‌ انھوں نے 4 اکتوبر 1928ء کو آنکھ کھولی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے اور یہاں‌ جامعہ کراچی سے اپنی تعلیم کا سلسلہ مکمل کیا، بعد ازاں وہ لاہور چلے گئے اور اسلامیہ کالج سول لائنز اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونے کے بعد انھوں نے ادب کے ساتھ تعلیم کے شعبے کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    سجّاد باقر رضوی کا تنقیدی کام نہایت وقیع اور اہمیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی کتب مغرب کے تنقیدی اصول اور تہذیب و تخلیق اردو تنقید میں اہم شمار کی جاتی ہیں۔

    ان کے دو شعری مجموعے ’’تیشۂ لفظ‘‘ اور ’’جوئے معانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئے جب کہ تراجم میں داستانِ مغلیہ، افتاد گانِ خاک، حضرت بلال اور بدلتی دنیا کے تقاضے کے نام سے کتابیں‌ علم و ادب کا سرمایہ اور ان کی یادگار ہیں۔

    لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر سجّاد باقر رضوی ماڈل ٹائون کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ممتاز ڈرامہ نگار اور اسٹیج ہدایت کار علی احمد کی برسی

    ممتاز ڈرامہ نگار اور اسٹیج ہدایت کار علی احمد کی برسی

    ممتاز ڈرامہ نگار اور اسٹیج ہدایت کار علی احمد 1996ء میں آج ہی کے روز ایک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کے تحریر کردہ کئی اسٹیج ڈراموں بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں میں مختلف کردار بھی نبھائے اور بامقصد اور معیاری کام کیا۔

    علی احمد 2 فروری 1927ء کو کان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور آگرہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر انڈین پیپلز تھیٹر اکیڈمی سے منسلک ہوگئے۔ انھوں نے موسیقی، رقص، اداکاری اور تھیٹر کی ترویج کے لیے بہت کام کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور میں سکونت اختیار کرنے والے علی احمد نے وہاں ایک تھیٹر آرٹ گروپ قائم کیا جس کے بینر تلے معیاری اسٹیج ڈرامے پیش کیے گئے۔ 1957ء میں انھوں نے کراچی کا رخ کیا اور یہاں پہلے ایک تھیٹر اور بعد میں نیشنل اکیڈمی فار تھیٹر اینڈ آرٹس (ناٹک) کی بنیاد ڈالی۔

    علی احمد کے تحریر کردہ مشہور ڈراموں میں ذاتِ شریف، صبح ہونے تک، آدھی روٹی ایک لنگوٹی، شیشے کے آدمی، شامتِ اعمال، قصہ جاگتے سوتے کا، سونے کی دیواریں، نیا بخار اور خوابوں کی کرچیاں شامل ہیں۔

  • یومِ وفات: طفیل احمد جمالی نے اپنی فکاہیہ تحریروں میں سیاست اور سماج کی برائیوں کی نشان دہی کی

    یومِ وفات: طفیل احمد جمالی نے اپنی فکاہیہ تحریروں میں سیاست اور سماج کی برائیوں کی نشان دہی کی

    آج معروف ادیب، شاعر اور اردو ممتاز صحافی طفیل احمد جمالی کی برسی ہے۔ وہ 12 اگست 1974ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ ایک مزاح نگار کی حیثیت سے خاصے مقبول تھے۔ ان کے فکاہیے بہت پسند کیے گئے۔

    طفیل احمد جمالی 1919ء میں بنارس میں پیدا ہوئے تھے۔ گریجویشن کے بعد منشور دہلی سے منسلک ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے جہاں مختلف مؤقر روزناموں سے منسلک رہے۔ طفیل جمالی نے انجام، نگار، لیل و نہار اور نمکدان کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔

    انھوں نے ملکی حالات اور سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی برائیوں پر فکاہیہ کالم لکھ کر شہرت حاصل کی۔ طفیل احمد جمالی نے چند فلموں کے لیے گیت اور مکالمے بھی تحریر کیے تھے۔

    وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • مشہور فلمی موسیقار رحمٰن ورما کی برسی

    مشہور فلمی موسیقار رحمٰن ورما کی برسی

    پاکستان کے معروف موسیقار رحمٰن ورما 11 اگست 2007ء کو وفات پاگئے تھے آج ان کی برسی ہے وہ مشہور فلمی موسیقار جی اے چشتی کے شاگرد اور موسیقار کمال احمد کے استاد تھے۔

    رحمٰن ورما کی پہلی فلم باغی (1956) تھی۔ اس کے بعد انھیں ایک اور فلم ملی اور ان دونوں کی کام یابی نے رحمٰن ورما کو ایکشن اور کاسٹیوم فلموں کے لیے بہترین موسیقار سمجھا جانے لگا۔

    رحمٰن ورما کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا۔ وہ 1927ء میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے انھوں نے موسیقار کی حیثیت سے فلموں کے لیے کام کرنا شروع کردیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان آگئے۔

    پاکستان میں 1955ء میں رحمٰن ورما نے دیار حبیب کے لیے ایک نعت ریکارڈ کروائی جو بہت مقبول ہوئی اور یوں یہاں ان کا فلمی سفر شروع ہوا۔ بطور سولو موسیقار ان کی پہلی فلم ’’باغی‘‘ تھی اور آخری فلم ’’دارا‘‘ 1976ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ انھوں نے مجموعی طور پر 32 فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی، جن میں دربار، آخری نشان، عالم آرا، ایک تھی ماں، بیٹا، کالا پانی، خاندان، نبیلہ، غدار، سسی پنہوں، سرِفہرست ہیں۔

  • ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی کرّار نوری کی برسی

    ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی کرّار نوری کی برسی

    آج اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی کرّار نوری کا یومِ وفات ہے وہ 1990ء میں آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔

    کرّار نوری کا اصل نام سیّد کرار میرزا تھا۔ وہ اپنے وقت کے عظیم شاعر مرزا غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پَر پوتے تھے۔ جے پور، دہلی کرار نوری کا وطن تھا جہاں انھوں نے 30 جون 1916ء کو آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے راولپنڈی میں‌ سکونت اختیار کرلی۔ بعد ازاں کراچی چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔

    کرّار نوری کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ انھوں نے نعتیہ شاعری بھی کی اور ’’میزانِ حق‘‘ کے نام سے نعتیہ کلام ان کی وفات کے بعد سامنے آیا۔

    کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ کرار نوری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے
    لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے

    ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا
    کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے

    کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے
    محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے

    حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح
    تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے

    نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں
    ہم دامنِ حیات پکڑ کر مچل گئے

  • یومِ وفات: ٹونی موریسن امریکا کی پہلی سیاہ فام نوبیل انعام یافتہ ادیب تھیں

    یومِ وفات: ٹونی موریسن امریکا کی پہلی سیاہ فام نوبیل انعام یافتہ ادیب تھیں

    نوبیل انعام یافتہ ادیب ٹونی موریسن 5 اگست 2019ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ وہ امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف تھیں جنھوں نے ادب کا معتبر ترین ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    ٹونی موریسن امریکا کے سیاہ فام ادیبوں میں منفرد اور بلند مقام و مرتبے کی حامل تھیں۔ انھیں افریقی نژاد امریکی مصنّفین کی نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔

    وہ اوہائیو کے ایک علاقے میں 1931ء میں پیدا ہوئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جہاں اپنے تخیل اور قلم کا سہارا لے کر شہرت اور مقبولیت کا سفر شروع کیا، وہیں درس و تدریس ان کے معاش کا ذریعہ کا شعبہ بنا۔ اس دوران وہ ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتی رہیں اور تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ انھوں نے ناول نگاری کے میدان میں اپنے اسلوب اور منفرد کہانیوں کی بدولت قارئین کی بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی ان کے مداح تھے۔

    ٹونی موریسن کو 1993ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا اور اس موقع پر سویڈش اکیڈیمی کی جانب سے ان کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور مصنّف کی بصیرت کو خاص طور پر سراہا گیا تھا۔

    ٹونی موریسن کو ان کے ناول ‘محبوب‘ (Beloved) نے شہرت بھی دی اور یہ ناول 1988ء میں فکشن کے پلٹزر پرائز کا بھی حق دار قرار پایا۔ یہ ایک درد ناک کہانی تھی جس میں انھوں نے ایسی ماں کو پیش کیا تھا جو اپنی بیٹی کو غلامی کی زندگی سے بچانے کے لیے اسے قتل کر دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ان کی دیگر اہم ترین تصنیفات میں ‘چشمِ نیلگوں(Bluest Eye)‘، ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon)، شامل ہیں۔ مؤخر الذّکر ناول بہت مقبول ہوا اور ٹونی موریسن کو امریکا میں زبردست پذیرائی ملی۔

    باراک اوباما کے دورِ صدرات میں انھیں امریکا کا ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔

    نیویارک میں مقیم ٹونی موریسن مختصر علالت کے بعد 88 سال کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔