Tag: اگست وفیات

  • بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور کام یاب ہدایت کار شمیم آرا کی برسی

    بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور کام یاب ہدایت کار شمیم آرا کی برسی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ شمیم آرا کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2016ٰء میں آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی تھیں۔ شمیم آرا بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور 1950ء سے 1970ء کی دہائی تک صفِ اوّل کی اداکارہ رہیں۔ انھوں نے فلم نگری میں ہدایت کارہ کے طور پر بھی خود کو آزمایا اور کام یاب فلمیں بنائیں۔

    22 مارچ 1938ء کو بھارتی ریاست اتر پردیش کے مشہور شہر علی گڑھ میں پیدا ہونے والی شمیم آرا کا خاندانی نام ’پتلی بائی‘ تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد جب انھوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا تو شمیم آرا کے نام سے متعارف ہوئیں۔

    انھوں نے نجم نقوی کی فلم ’کنواری بیوہ‘ سے اداکاری کا سفر شروع کیا تھا جس میں انھیں خاص کام یابی تو نہیں ملی، لیکن وہ نازک اندام اور خوب صورت تھیں اور سنیما بینوں کو ان کا معصومانہ اندازِ بیان بہت پسند آیا اور اس طرح 1958ء میں انھیں فلموں میں کاسٹ کیا جانے لگا، لیکن اگلے دس سال تک ناکامیوں نے شمیم آرا کا راستہ روکے رکھا۔ تاہم 1960ء میں فلم’ سہیلی‘ نے ان کا نصیب کھول دیا۔ یہ فلم ہٹ ہوگئی اور اس میں شمیم آرا کی کردار نگاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    1962ء میں اُن کی فلم’ قیدی‘ آئی جس میں فیض احمد فیض کی غزل ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ شمیم آرا پر فلمائی گئی تھی۔ یہ فلم کام یاب ترین فلم قرار پائی اور اداکارہ کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی سال ان کی کئی فلمیں کام یاب رہیں جن میں آنچل، محبوب، میرا کیا قصور، قیدی اور اِنقلاب شامل ہیں۔ 1963ء میں ’دلہن، اِک تیرا سہارا، غزالہ، کالا پانی، سازش، سیما، ٹانگے والا جیسی فلموں نے دھوم مچا دی اور شمیم آرا صفِ اوّل کی اداکارہ کہلائیں۔

    شمیم آرا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے پاکستان کی پہلی رنگین فلم ’نائلہ‘ میں اداکاری کی۔

    1970ء کی دہائی میں انھوں نے ہدایت کاری کا آغاز کیا اور پلے بوائے، مس استنبول، منڈا بگڑا جائے، ہاتھی میرے ساتھی جیسی کام یاب ترین فلمیں بنائیں۔

    2011ء میں دماغ کی شریان پھٹ جانے کے باعث ان کا آپریشن کیا گیا تھا جس کے بعد وہ کوما میں چلی گئی تھیں اور بعد میں انھیں علاج کے لیے لندن لے جایا گیا تھا اور وہاں تقریباً 6 سال علالت کے بعد وفات پاگئیں۔ ان کی عمر 78 برس تھی۔

  • معروف گلوکار اخلاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

    معروف گلوکار اخلاق احمد کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

    4 اگست 1999ء کو پاکستان کے نام وَر گلوکار اخلاق احمد نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ اخلاق احمد کی آواز میں کئی فلمی گیت مقبول ہوئے اور آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔

    اخلاق احمد 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسٹیج پروگراموں میں شوقیہ گلوکاری کرنے لگے۔ 1971ء میں انھوں نے کراچی میں بننے والی فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ کے لیے ایک گانا ریکارڈ کروایا تھا اور یہیں سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ اور ’’پازیب‘‘ میں بھی اخلاق احمد کے گیت شامل ہوئے، لیکن ان کے ذریعے وہ مقبولیت انھیں نہیں ملی جو بعد میں ان کے حصّے میں آئی۔

    1974ء میں اداکار ندیم نے اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ میں اخلاق احمد کے آواز میں ایک نغمہ شامل کیا اور موسیقار روبن گھوش نے لاہور میں اخلاق احمد کی آواز میں اپنی فلم ’’چاہت‘‘ کا ایک نغمہ ’’ساون آئے، ساون جائے‘‘ ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ اخلاق احمد کے فلمی سفر کا مقبول ترین نغمہ ثابت ہوا۔ اس گیت پر انھیں خصوصی نگار ایوارڈ بھی عطا ہوا۔

    اسی عرصے میں اخلاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے پروگراموں میں گلوکاری کا آغاز کیا اور ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ فلم نگری میں انھوں نے شرافت، دو ساتھی، پہچان، دلربا، امنگ، زبیدہ، انسان اور فرشتہ، انسانیت، مسافر، دوریاں، بسیرا جیسی کام یاب ترین فلموں کے لیے گیت گائے جو بہت پسند کیے گئے۔ اخلاق احمد کا شمار پاکستان میں مقبولیت کے اعتبار سے صفِ اوّل کے گلوکاروں میں ہوتا ہے۔

    خلاق احمد نے آٹھ نگار ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ 1985ء میں انھیں خون کا سرطان تشخیص ہوا تھا اور وفات کے وقت علاج کی غرض سے لندن میں مقیم تھے۔ انھیں کراچی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    یومِ وفات: ہانز کرسچن اینڈرسن کی کہانیاں بچّے ہی نہیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے ہیں

    ہانز کرسچن اینڈرسن کو دنیا بچّوں کے مقبول ترین ادیب کی حیثیت سے جانتی ہے۔ آپ نے بھی اپنے بچپن میں تھمبلینا، اسنو کوئن، اگلی ڈکلنگ اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری کی کہانیاں پڑھی ہوں گی۔ یہ سبق آموز اور پُرلطف کہانیاں اسی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    ہانز کرسچن اینڈرسن 1875ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    اس عظیم لکھاری کا وطن ڈنمارک ہے جہاں اس نے دو اپریل 1805ء کو ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آج بھی ڈنمارک کے دارُالحکومت کوپن ہیگن میں اس کا مجسمہ نصب ہے جس کے ساتھ وہاں جانے والے تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔ بچّوں کے اس محبوب مصنّف کی کہانیوں پر کئی فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس کی کہانیاں سچّائی اور ہمّت کا سبق دیتی ہیں۔

    ابتدا میں ہانز نے ایک اوپرا میں کام کیا مگر وہاں مایوسی اس کا مقدّر بنی اور پھر وہ شاعری اور افسانہ نویسی کی طرف مائل ہوگیا۔ تاہم ایک بڑے ادیب نے تخلیقی صلاحیتوں کو بھانپ کر ہانز کو بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا مشورہ دیا۔ اس نے کہانیاں لکھنا شروع کیں تو بچّوں ہی نہیں بڑوں میں بھی مقبول ہوتا چلا گیا۔ اس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835ء میں چھپا۔

    ہانز کے والد لوگوں کی جوتیاں گانٹھ کر اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل بھر پاتے تھے۔ غربت اور تنگ دستی کے انہی دنوں میں وہ والد کے سائے سے بھی محروم ہوگیا اور دس سال کی عمر میں معاش کی خاطر اسے گھر سے نکلنا پڑا۔

    ہانز اینڈرسن نے اسکول میں چند ہی جماعتیں پڑھی تھیں، لیکن وہ مطالعے کا شوق رکھتا تھا اور کام کے دوران جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، بہت توجہ اور انہماک سے پڑھتا اور اسی اشتیاق، ذوق و شوق اور لگن نے اسے دنیا بھر میں عزت اور پہچان دی۔

    بچّوں کے لیے مستقل مزاجی سے لکھنے کے ساتھ ہانز نے بڑوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ اس کی کہانیوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس لکھاری نے پریوں، بھوت پریت اور انجانی دنیا کو نہایت خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں پیش کیا اور یہ کہانیاں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    ہانز کے قلم کی طاقت اور جادوئی اثر رکھنے والی کہانیوں نے اسے وہ شہرت اور مقبولیت دی جس کا دنیا نے یوں اعتراف کیا کہ اب اس ادیب کے یومِ پیدائش پر بچّوں کی کتب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

  • یومِ وفات: محمود صدیقی نے دیواریں اور جنگل جیسے مقبول ترین ڈراموں میں اداکاری کی

    یومِ وفات: محمود صدیقی نے دیواریں اور جنگل جیسے مقبول ترین ڈراموں میں اداکاری کی

    آج پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو کے معروف فن کار محمود صدیقی کی برسی ہے۔ وہ سن 2000ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور شہرت حاصل کی۔

    محمود صدیقی نے 1944ء میں سندھ کے مشہور شہر سکھر کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے میں آنکھ کھولی۔ قانون کی تعلیم حاصل کی اور نام ور ادیب اور شاعر شیخ ایاز کے جونیئر کے طور پر وکالت کے میدان میں قدم رکھا۔ وہ شروع ہی سے انسانی حقوق، مختلف سیاسی اور سماجی امور کے حوالے سے نظریاتی اور عملی سرگرمیوں میں دل چسپی لیتے رہے اور سیاست کا شوق ہوا تو سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے جڑ گئے۔ اس پلیٹ فارم سے سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    محمود صدیقی نے مختصر وقت کے لیے ریڈیو پاکستان میں بطور اناؤنسر اور کچھ عرصہ روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ میں بھی کام کیا۔

    1973ء میں محمود صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن کے سندھی ڈرامہ بدمعاش سے اداکاری کا آغاز کیا اور زینت، گلن وار چوکری، تلاش اور رانی جی کہانی سے خاصے مقبول ہوئے۔

    اردو زبان میں پی ٹی وی کا ڈرامہ ’’دیواریں‘‘ ان کی ملک گیر شہرت کا آغاز ثابت ہوا جس کے بعد جنگل، قربتوں کی تلاش، دنیا دیوانی اور کارواں نے ان کی شہرت کو مزید استحکام بخشا۔ ڈرامہ کارواں کے لیے بہترین اداکاری پر انھیں پی ٹی وی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    محمود صدیقی نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے نہلے پہ دہلا کے نام سے ایک سیریل بنائی تھی جسے بہت پسند کیا گیا۔

    محمود صدیقی کراچی میں ڈالمیا کے نزدیک ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔

  • نام وَر محقق، نقّاد اور مصنّف ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی برسی

    نام وَر محقق، نقّاد اور مصنّف ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی برسی

    ماہرِ لسانیات، نام وَر محقّق، نقاد اور مشہور ادبی جریدے نگار کے مدیر ڈاکٹر فرمان فتح پوری 3 اگست 2013ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنّف تھے جو اردو زبان و ادب کا سرمایہ ہیں۔

    وہ 26 جنوری 1926ء کو ہندوستان کے شہر فتح پور میں پیدا ہوئے اور اسی شہر کی نسبت ان کے نام سے جڑی رہی۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی، انھوں نے یہاں جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں جامعہ کراچی ہی میں اردو ادب کی تدریس سے منسلک ہو گئے۔

    تنقید اور تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر فتح پوری انتہائی قدآور شخیصت تھے اور ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے انھیں‌ اردو زبان کا پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔

    انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں، جن میں تحقیق و تنقید، اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط شامل ہیں جو اردو زبان و ادب کا نہایت معتبر اور مستند حوالہ ہیں۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری تقریباً تین دہائیاں اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ اس موضوع پر مستند حوالہ ہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ کی لغت میں سے کئی جلدیں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی نگرانی میں مکمل کی گئی تھیں۔

    مشہور ہے کہ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا تھا۔ ان کے تحریر کردہ مضامین دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو حکومتِ پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل نے آج کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں

    ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل نے آج کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں

    1922ء میں آج ہی کے دن الیگزینڈر گراہم بیل نے دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ ان کی ایک ایجاد کی بدولت انسان فاصلے سے براہِ راست آواز کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے قابل ہوا تھا۔ ان کی اس ایجاد کو ہم ٹیلی فون کہتے ہیں۔

    اسکاٹ لینڈ ان کا وطن تھا جو بعد میں امریکا منتقل ہوگئے، وہ ایک انجینئر اور اختراع ساز تھے جنھوں نے 2 جون 1875ء کو ٹیلی فون ایجاد کیا جو دنیا بھر میں انسانوں کے درمیان رابطے اور بات چیت کا وسیلہ بنا۔ آج ہم وائر لیس ٹیکنالوجی اور اسمارٹ فونز کے دور میں زندہ ہیں، لیکن 1885ء میں جب گراہم بیل نے ٹیلی فون کمپنی کی بنیاد رکھی تو مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا ہوگیا۔

    الیگزینڈر گراہم بیل نے اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈن برگ میں 3 مارچ 1847ء کو ایک پروفیسر اور ماہرِ لسانیات کے گھر میں آنکھ کھولی۔ ان کی والدہ قوّتِ سماعت سے محروم تھیں۔ کہتے ہیں گراہم بیل کو ان کی والدہ کی اسی محرومی نے سائنس اور نشریاتی رابطوں کے تجربات پر آمادہ کیا تھا۔ گراہم بیل شاعری، آرٹ اور موسیقی کا شوق رکھتے تھے اور پیانو بھی بجانا جانتے تھے۔

    انھوں نے 14 برس کی عمر میں گندم صاف کرنے والی ایک مشین بنائی تھی جو ان کی پہلی ایجاد تھی۔ تعلیم کا سلسلہ ایڈن برگ کے رائل ہائی اسکول اور ایڈن برگ یونیورسٹی اور یونیورسٹی کالج آف لندن سے مکمل کیا۔

    گراہم بیل 23 برس کی عمر میں تپِ دق کے عارضے میں مبتلا ہوئے تو والدین انھیں کینیڈا کے ایک صحت افزا مقام پر لے گئے جہاں بیل ایسے ٹیلی گراف کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیے کام کرتے رہے، جو ایک ساتھ کئی پیغامات وصول کر سکے۔ اس ضمن میں مزید کام اور عملی تجربات نے انھیں کام یابی دی اور انھوں نے فلاڈیلفیا میں ٹیلی فون کی نمائش اور اس کے کام کا عملی مظاہرہ کیا۔

    الیگزینڈر گراہم بیل کو حکومت کی جانب سے انعام و میڈلز کے علاوہ کئی کالجوں اور یونیورسٹیوں نے اعزازی ڈگریاں دیں۔

    75 برس کی عمر میں ذیابیطس کے مرض سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور طبّی مسائل نے انھیں علیل کردیا تھا اور اسی باعث ان کا انتقال ہوگیا۔

  • یومِ وفات: شہزاد احمد کی شاعری جدید طرزِ احساس کی حامل ہے

    یومِ وفات: شہزاد احمد کی شاعری جدید طرزِ احساس کی حامل ہے

    شہزاد احمد کا شمار پاکستان کے ان تخلیق کاروں میں‌ ہوتا ہے جنھوں نے جدید طرزِ احساس کو اپنی شاعری کی بنیاد بنایا۔ 60ء کی دہائی میں پہچان بنانے والے اس شاعر کی زندگی کا سفر یکم اگست 2012ء کو تمام ہوگیا آج شہزاد احمد کی برسی منائی جارہی ہے۔

    شہزاد احمد 16 اپریل 1932ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آ گئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے نفسیات اور فلسفے میں ایم اے کیا۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ نفسیات کے موضوع پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔ 90ء کی دہائی میں شہزاد احمد کو تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    ان کے شعری مجموعے ’’صدف، جلتی بجھتی آنکھیں، ٹوٹا ہوا پَل، اترے مری خاک پہ ستارے، بچھڑ جانے کی رُت‘‘ کو بہت پذیرائی ملی۔

    شہزاد احمد کالج کے زمانے ہی سے مشاعروں میں اپنا کلام سنانے لگے تھے۔ انھیں غزل میں اپنی انفرادیت اور طرزِ احساس کے باعث بڑی توجہ ملی۔ شہزاد احمد کی غزل کا رومانوی لہجہ متاثر کن اور نکتہ آفریں ہے۔ ان کا کلام سادہ اور ندرتِ خیال کے اعتبار سے بلند ہے۔ وہ شعریت اور ابلاغ کے قائل تھے اور یہی وجہ ہے مشکل تراکیب اور پیچیدہ یا غیرعام فہم مضامین کو اپنے شعروں میں جگہ نہ دی۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے:

    یار ہوتے تو مجھے منہ پہ برا کہہ دیتے
    بزم میں میرا گِلہ سب نے کیا میرے بعد

    انھوں نے کئی کتابوں کے اردو زبان میں ترجمے بھی کیے جن میں سے کچھ شاعری پر مشتمل ہیں۔ شہزاد احمد کئی بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ وہ مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ انھوں نے 80 سال کی عمر میں وفات پائی۔

  • انقلاب آفریں نظموں کے خالق علی سردار جعفری کی برسی

    انقلاب آفریں نظموں کے خالق علی سردار جعفری کی برسی

    اردو کے ممتاز ترقّی پسند شاعر، نثر نگار اور نقّاد، اشتراکی دانش وَر اور انسان دوست علی سردار جعفری یکم اگست 2000ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھیں ان کے سیاسی اور سماجی نظریات اور حقوق کے لیے جدوجہد کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    سردار جعفری نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں اپنی تخلیقات کے سبب پہچان بنائی۔ وہ نظم کے میدان میں حالاتِ حاضرہ اور زندگی کے روزمرّہ واقعات کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے رہے جب کہ ان کے قلم نے نثر کے عمدہ نمونے بھی اردو کو دیے اور فکری و ادبی رنگ لیے ان کے مضامین کو پسند کیا گیا۔

    سردار جعفری کی کتاب "ترقی پسند ادب” ان کی ناقدانہ بصیرت کا ثبوت ہے۔ انھوں نے افسانہ اور ڈراما بھی لکھا۔ انھوں نے شعر گوئی کے سفر میں اختراعات اور جدّت کا ثبوت دیا۔ ان کے اشعار میں عوامی نعرے اور محاورے پڑھنے کو ملتے ہیں جو ان کی شاعری کی مقبولیت کا سبب تھے۔ وہ زمانہ طالب علمی ہی میں اپنے نظریات اور رجحانات کے ساتھ پیش کی گئی شاعری کی وجہ سے نوجوانوں‌ میں مقبول ہوچکے تھے۔

    علی سردار جعفری 26 نومبر 1913ء کو اتر پردیش میں ضلع گونڈہ کے شہر بلرام پور میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا سفر شروع ہوا تو پندرہ سولہ سال کی عمر میں انھوں نے مرثیے لکھنے شروع کر دیے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر اور بعد میں انگریزی اسکول میں ہوئی، بعد میں اینگلو عربک کالج سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایل ایل بی اور ایم۔ اے انگلش میں داخلہ لیا۔ وہ دہلی اور لکھنؤ میں اس وقت کے گرم سیاسی ماحول میں اپنے وقت کے نام ور ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ رہے جن میں سجاد ظہیر، سبط حسن، اسرار الحق مجاز و دیگر شامل ہیں۔ سردار جعفری بھی سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہو گئے اور گرفتار بھی ہوئے، جیل میں بھی رہے۔ بعد میں ادبی پرچے نکالے اور کمیونسٹ پارٹی کے پرچم تلے سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔

    1960 کے عشرہ میں انھوں نے پارٹی کی عملی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور صحافتی و ادبی سرگرمیوں میں دل چسپی لینے لگے۔ ان کی شعری تخلیقات کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں کیے گئے اور ان کی ادبی خدمات پر بھارت میں انھیں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں گیان پیٹھ نمایاں ہے۔ حکومت نے انھیں پدم شری کے خطاب سے نوازا تھا۔

    سردار علی جعفری دل کے عارضے کے سبب ممبئی میں وفات پاگئے تھے۔

  • یومِ وفات: جرأت مند اور راست گو جمشید نسروانجی کو بابائے کراچی کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: جرأت مند اور راست گو جمشید نسروانجی کو بابائے کراچی کہا جاتا ہے

    جمشید نسروانجی جنھیں بابائے کراچی کہا جاتا تھا، 1952ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ پارسی برادری کے نسروانجی اپنی جرات، راست گوئی اور عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کے لیے مشہور تھے۔

    وہ ایک ایسے درد مند اور باشعور شخص تھے جنھوں نے انسانوں ہی نہیں‌ جانوروں کے حقوق کے لیے بھی کام کیا اور اپنے خلوص اور پیار و محبت سے لوگوں کے دل جیتے اور ان کے لیے مثال بنے۔

    انھوں نے 1886ء میں کراچی میں آنکھ کھولی۔ ان کا پورا نام جمشید نسروانجی رستم جی مہتا تھا۔ انھوں نے اپنی عوامی خدمات کا آغاز 1915ء سے کیا۔ ان کے سماجی کاموں کا سلسلہ گلی محلّے سے شروع ہوا اور پھروہ شہر بھر کے عوام کے مسائل، تکالیف اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی شخصیت بن گئے۔ انھوں نے اپنے دور میں سیاست میں بھی حصّہ لیا۔

    گل حسن کلمتی اپنی کتاب "سندھ جا لافانی کردار” میں لکھتے ہیں کہ 1919ء میں جب انفلوائنزا کی بیماری نے کراچی میں وبائی شکل اختیار کی تو جمشید نسروانجی نے دن رات عوام کی خدمت کی اور بے حد مقبول ہوئے۔ انھیں 1922ء میں کراچی میونسپلٹی کا صدر منتخب کرلیا گیا۔ وہ 1932 تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ سندھ کے مشہور سیاست داں جی ایم سید نے اپنی کتاب میں جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھا ہے کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔

    جمشید نسروانجی سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد 1937ء میں ضلع دادو سے سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور آزاد حیثیت میں رکن رہے، لیکن ایک موقع پر سیاسی دباؤ کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب انھوں نے محسوس کیا کہ غیر مسلم اور ایمان دار کارکنوں کے لیے ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔

    جمشید نسروانجی صحت عامّہ کے حوالے سے خاص طور پر متحرک رہے اور عوام میں حفظانِ صحّت کے اصولوں اور امراض سے متعلق شعور و بیداری کے لیے کام کیا۔ انھوں نے اپنی والدہ کے نام سے صدر میں ایک میٹرنیٹی ہوم بھی قائم کیا تھا۔

    کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔

    معروف ادیب، محقق اور تذکرہ نگار علی محمد راشدی نے اس حوالے سے ایک واقعہ اپنی کتاب میں رقم کیا جو جمشید نسروانجی کے بیدار مغز اور مثالی شخصیت ہونے کا ثبوت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    1930 کے آس پاس مَیں بندر روڈ سے گزر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتا پیدل ایک زخمی گدھے کو لے کر اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر، ان کا ڈرائیور پیچھے پیچھے چلاتا آ رہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔

    جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹّی کرائی اور ڈاکٹر سے بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کرے تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے، اور دانے گھاس کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔

    دوسری طرف گدھے کے مالک سے بھی کہا کہ جب تک گدھے کا علاج پورا نہ ہو جائے اور وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو جائے، تب تک وہ اپنی مزدوری کا حساب اُن سے لے لیا کرے، اور یہ کہتے ہوے کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

    یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی نظر میں انسان ہی نہیں جانور بھی جو ہمارے کام آتے ہیں اور بہت مددگار ہیں، ان کے بھی کچھ حقوق ہیں اور ان کے ساتھ ہم دردی اور انصاف سے پیش آنا چاہیے۔

    جمشید نسروانجی نے اپنے دور میں شہر کے لیے صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ بنا کر اس پرعمل درآمد کروایا، کشادہ سڑکیں تعمیر کراوائیں اور مختلف شفا خانے، راستوں اور حقوق و سہولیات کے حوالے سے متحرک اور فعال کردار ادا کیا۔

    آج شہرِ قائد کی جو حالت ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سڑکیں، بجلی و پانی کی فراہمی کا نظام، برساتی نالے، صفائی ستھرائی، تجاوزات غرض عوام کو سہولیات تو کیا بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں یا برائے نام ہیں۔ شہرِ قائد کو آج پھر کسی بے غرض، پُرخلوص اور درد مند کی تلاش ہے جو جمشید نسروانجی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شہر اور اس کے باسیوں کو ان کا حق دلوا سکے اور اسے صاف ستھرا اور مثالی شہر بنا سکے۔