Tag: اہرام مصر

  • مصر: ملکہ اور عام عورت زندگی

    مصر: ملکہ اور عام عورت زندگی

    مصری تہذیب اور اس کے قدیم ادوار اور وہاں دریافتوں‌ کا جو سلسلہ جاری ہے، اس نے دنیا کو حیران کر رکھا ہے اور لوگ قدیم مصر اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں جاننے میں‌ گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اہرامِ مصر کے بعد وہاں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرتی حالات یقیناً اہلِ علم ہی نہیں عام لوگوں‌ کے لیے بھی دل چسپ موضوع ہے۔

    قدیم مصر میں عورت کا کردار اور مقام بھی اہم موضوع ہے اور محققین نے اس حوالے سے بعض تاریخی دستاویزات، مخطوطوں اور دریافت شدہ دیگر اشیاء کی مدد سے یہ جانا ہے کہ اس دور میں عورت کو معاشرے میں کس طرح دیکھا جاتا تھا۔ یہاں‌ ہم مختلف خطّوں کے محققین کی مستند کتب کے اردو تراجم سے یہ پارے نقل کررہے ہیں‌ جن میں قدیم مصر میں عورتوں کا مقام واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    تاریخی دستاویزات کے مطابق ایک دور میں عورتوں کو مرد سے کم تر درجہ میں رکھا گیا تھا جب کہ اس کے اگلے دور میں ان کو مرد کے برابر کے حقوق دے دیے گئے تھے۔ کچھ عورتیں تو باقاعدہ ریاستوں کی ملکہ تک بنائی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کو کاروبار کرنے کی بھی اجازت تھی۔ شاہی خاندان کی عورتوں کو شادی کے لیے اپنے بڑوں سے اجازت لینی پڑتی تھی جب کہ عام عورتیں اپنی مرضی سے شادی کر لیا کرتی تھیں۔ قدیم مصری عورتوں کی سماجی درجہ بندی اور ان کے حالات کچھ اس طرح تھے:

    شاہی خاندان کی عورتیں
    شاہی خاندان کی عورتوں کی قدیم مصری معاشرے میں بہت اہمیت تھی۔ ان کی طاقت فراعین مصر کے برابر تو نہیں تھی لیکن شاہی عورتوں کا سرکاری نظام میں بہت اثر و رسوخ تھا۔ یہ عورتیں یا تو فرعون کی بیویاں ہوتیں یا اس کی باندیاں۔ ایک وقت میں فرعون بہت ساری بیویاں اور باندیاں رکھا کرتے تھے۔ ان عورتوں میں سے فراعین ایک عورت کو اپنا خاص مشیر بنا لیا کرتے تھے۔ اکثر یہ خاص عورت فرعون کی بہن یا سوتیلی بہن ہوتی تھی جس سے وہ نکاح کر لیا کرتے تھے۔ ان کے مطابق اس طرح‌ شاہی خون پاک رہتا اور حکومت بھی ان کے پاس رہتی تھی۔

    یہ خاص عورتیں فرعون کے ساتھ مل کر تمام شاہی کاموں میں اس کی معاونت کرتی تھیں۔ سفارتی معاملات میں ان کا اہم کردار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان عورتوں کے درمیان اقتدار حاصل کرنے کی جنگ اندرونِ خانہ چلتی رہتی تھی اور اکثر یہ خواتین محل میں فساد برپا کرتی رہتی تھیں۔ بعض عورتیں تو اتنی طاقتور ہوگئی تھیں کہ انہوں نے پورے مصر کی حکومت تک سنبھال لی تھی لیکن ایسے واقعات شاذ و نادر ہی رونما ہوئے تھے۔

    حرم کی عورتیں
    مصر کا ہر فرعون اپنے لیے خاص عورتوں کا ایک حرم قائم رکھتا تھا جو فرعون کو سکون و عیاشی کی سہولیات میسر کرنے کے لیے مختص تھا۔ ان عورتوں کی اکثریت ان خواتین پر مشتمل ہوتی جو غیر ملکی ہوتیں اور جنگ کے بعد غلام بنا کر یا پھر کسی غلام منڈی سے خرید کر یا فرعون کی منشا کے مطابق کسی کے بھی گھر سے اٹھا کر لائی جاتی تھیں۔ یہ عورتیں ناچنے، گانے، اور دیگر حرم کے مشاغل میں ماہر ہوا کرتی تھیں۔ ان کے فرائض میں یہ بات شامل تھی کہ بادشاہ کو دربار میں بھی محظوظ کریں۔ بادشاہ کے حرم میں صرف کنیزیں اور قیدی عورتیں ہی نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان میں شرفا کی بیٹیاں اور وہ عورتیں بھی شامل تھیں جو بطور تحفہ بادشاہ کے پاس بھیجی جاتی تھیں۔

    چونکہ حرم میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہوا کرتی تھی اس لیے ایک عورت کو فرعون کے ساتھ سال میں ایک یا دو بار ہی رات گزارنے کا موقع ملتا تھا۔ اگر کوئی باندی فرعون کو پسند آجاتی تو پھر فرعون اس کو اپنے آس پاس رکھتا تھا۔ اگر فرعون کی بیوی اس کو لڑکا جن کر نہ دے پاتی تو فرعون اپنی من پسند باندی کے ساتھ تعلق قائم کر کے اس سے اولاد حاصل کرتا اور یہ لڑکا شہزادہ کہلاتا اور اسے بعد میں تخت پر بٹھایا جاتا۔

    عورتوں کی ذمہ داریاں
    اکثر عورتوں کا کام گھر سنبھالنا اور اولاد کی پرورش کرنا تھا۔ دیگر عورتیں یا تو دائی بن جاتیں، یا کپڑے بنانے والے کارخانوں میں کام کرتیں یا پھر گریہ کرنے والی، حاتھور دیوتا کی کاہنہ یا پجارن، یا پھر جسم فروشوں کے بازار میں کام کرنے لگ جاتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عورت کو اس کی جنس کے مطابق کام دیا جاتا تھا اور یہ کام وقتا ًفوقتاً تبدیل بھی کر دیا جاتا تھا۔ ان کو کاروبار کرنے کی بھی اجازت تھی۔ طبیب بھی بننے دیا جاتا اور جب ضرورت نہیں ہوتی تو پھر ان کو صرف بچوں کی دیکھ بھال، ناچنے، گانے اور مردوں کا دل بہلانے کے کام میں لگا دیا جاتا تھا۔

    غلام کی مالکن
    قدیم مصر میں عام رواج تھا کہ عورتیں غلام کے طور پر صرف عورتوں کو ہی رکھتی تھیں لیکن بعض کو مرد غلام رکھنے کی بھی اجازت تھی۔ یہ مرد غلام عموماً ان کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے رکھے جاتے اور اگر وہ غلام ایسا نہ کرتے یا کسی اور عورت کے ساتھ ناجائز تعلق بناتے تو ان کو مارا پیٹا جاتا اور سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔

    شادی
    زرخیزی چاہے انسانوں میں ہو یا جانوروں میں یا فصل کی پیداوار میں، قدیم مصریوں کے نزدیک اس کی بہت اہمیت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مصری لوگ جلد سے جلد شادی کر کے بچّے پیدا کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ مصریوں کے ہاں محرمات سے شادی کی اجازت تھی اور شاہی خاندان تو اکثر اسی رسم کو اپنایا کرتے تھے۔ اس دور میں‌ بہن بھائی کے درمیان شادی کا عام رواج تھا۔ اس کے علاوہ فرعون اپنی سلطنت کو اپنے ہی خاندان میں رکھنے کے لیے اپنی ماں، بیٹی اور دیگر محرمات کو بھی اس تعلق میں اپنا لیتے تھے۔

    شادی کے لیے کوئی مذہبی یا قانونی رسوم ادا نہیں کی جاتی تھیں۔ اکثر نکاح والدین کی باہم رضامندی سے مقرر ہوتے اور سارے معاملات پہلے طے کر لیے جاتے تھے۔ کچھ مقامات پر محبت کی شادیاں بھی ہوئیں لیکن ایسا شاذ ہی ہوتا تھا۔ جب لڑکا پندرہ سے بیس سال کا ہوتا اور لڑکی بارہ سے چودہ سال کی ہوجاتی تو ان کی شادی کردی جاتی تھی۔ بادشاہ ایک سے زائد شادیاں کر سکتا تھا لیکن عام لوگ صرف ایک ہی شادی کرتےتھے۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کو اجازت تھی کہ وہ ایک محبوبہ یا باندی رکھ لیں جس سے خواہش کے مطابق تسکین پوری کرسکیں۔

    علیحدگی
    شادی کے وقت دولھا دلھن یہ گمان کرتے کہ ان کا ساتھ مرتے دم تک قائم رہے گا لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہو پاتا تھا۔ ان میں سے کچھ جوڑوں کے درمیان طلاق بھی واقع ہو جاتی تھی۔ طلاق کے بعد مرد اور عورت الگ الگ رہا کرتے۔ طلاق قانونی طریقہ سے ہوتی تھی جس کے بعد مرد اور عورت کو دوسری شادی کی اجازت تھی۔ اگر مرد عورت کو طلاق دیتا تو اس پر واجب تھا کہ وہ عورت کا تمام جہیز واپس لوٹا دے بلکہ کچھ معاملات میں تو اس کا دگنا بھی لوٹانے کا کہا جاتا تھا۔ اگر عورت طلاق دیتی تو اس پر واجب تھا کہ جو اسے شادی کے وقت مرد کی طرف سے تحفہ ملا ہو، اس کی آدھی مقدار واپس کرے۔ طلاق کے بعد بھی مرد پر واجب تھا کہ وہ عورت کو نان نفقہ دیتا رہے جب تک وہ دوسری شادی نہ کرلے۔

    لباس
    مصری لباس میں زمانہ کےساتھ تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ قدیم سلطنت کے دور میں عورتیں اور مرد نیم برہنہ رہتے تھے۔ جسم کا بالائی حصہ بالعموم کھلا رہتا تھا۔ پروہتوں کو بھی مجسموں میں نیم برہنہ دکھایا گیا ہے۔ سلطنت وسطی اور سلطنت جدید میں کُرتے، تہبند اور دستار کا اضافہ ہوا تھا۔ عورتوں کے لباس میں کُرتے اور تہبند کےعلاوہ ایک لمبا چوڑا دوپٹہ بھی شامل کیا گیا تھا جو شانے اور سینے پر پھیلا ہوتا مگر کھلا رہتا تھا۔ اونچے طبقے کی عورتیں ایک قسم کا تاج پہنتی تھیں۔ لباس پر گاڑھے اور زردوزی کا کام ہوتا تھا۔ بالوں کو تراشنے اور مانگ نکالنے کے بھی مختلف طریقے رائج تھے۔ رؤسا کے کپڑے بالعموم باریک دھاگے کے ہوتے تھے جن پر زر کا کام کیا جاتا تھا۔ منقش اور چھپے ہوئے کپڑوں کا استعمال بھی عام تھا۔ مرد و عورت دونوں مصنوعی بال کی ٹوپیاں پہنتے تھے۔ اونچے طبقے میں چپلوں کا رواج تھا۔غرض مصری زندگی میں نفاست اور خوش سلیقگی کے ساتھ ساتھ نزاکت اور عریانیت بھی آگئی تھی۔

    (ماخذ: مختلف محققین کی کتب کے اردو تراجم)

  • اہرام مصر کے اوپر پراسرار معاملہ کیا ہے؟ راز فاش ہوگیا!

    اہرام مصر کے اوپر پراسرار معاملہ کیا ہے؟ راز فاش ہوگیا!

    قاہرہ : چینی سائنسدانوں نے سب سے بڑی پلازما ببلز کا پتہ لگانے کا اعلان کیا ہے، جو دنیا کے مختلف علاقوں جیسے مصری اہرام اور مڈوے آئی لینڈز تک پھیلی ہوئی ہیں۔

    یہ پلازما ببلز سیٹلائٹ مواصلات اور جی پی ایس کو متاثر کرتی ہیں اور ان کا پتہ چائنا اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف جیولوجی اینڈ جیو فزکس کے ذریعے تیار کردہ ایک نئے ریڈار سسٹم، لو لیٹیٹیوڈ لانگ رینج آئنوسفیرک ریڈار کے ذریعے لگایا گیا ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق یہ ببلز نومبر میں ہونے والے سورج کے طوفان کے نتیجے میں وجود میں آئے اور ان کا پھیلاؤ شمالی افریقہ سے لے کر وسطی بحر الکاہل تک تھا۔

    اہرام مصر

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمینی کرہِ ہوا کی ایک سطح میں گیس کی بڑی مقدار جمع ہو رہی ہے جس کے سبب مصنوعی سیاروں اور ان کے ساتھ منسلک آلات کے بیچ رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔

    ادھر مصر میں قومی فلکیاتی اور جغرافیائی تحقیقاتی ادارے میں شمسی اور فضائی تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر محمد صمیدہ الشاہد نے واضح کیا ہے کہ یہ مظہر زمین کی سطح پر کسی جگہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔ اس کی وجہ شمسی طوفانوں کے نتیجے میں چارج شدہ ذرات کا کرہ ہوا کی آئیونواسفیئر سطح میں داخل ہونا ہے۔

    اہرام مصر ٹو

    ڈاکٹر الشاہد نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو میں بتایا کہ یہ صورت حال بلبلوں کی شکل میں جنم لیتی ہے۔ یہ نیوی گییشن اور سیٹلائٹس کے حوالے سے محدود خلل پیدا کرنے میں نمایاں طور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

    یاد رہے کہ مصر میں سو سے زیادہ قدیم اہرام پائے جاتے ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور اور سب سے بڑے الجیزہ صوبے میں ہیں۔ یہ دار الحکومت قاہرہ سے 15 کلو میٹر دور دریائے نیل کے مغربی کنارے پر واقع ہیں۔

  • اہرام مصر کیلئے بھاری پتھر کیسے لائے گئے ؟ ہوشربا انکشاف

    اہرام مصر کیلئے بھاری پتھر کیسے لائے گئے ؟ ہوشربا انکشاف

    اہرام مصر دنیا بھر کے بڑ ے عجائبات میں سب سے بڑا عجوبہ ہے، اس کی تعمیر ہو یا تاریخ اس لحاظ سے بے شمار راز ایسے ہیں جو اب تک محققین سے پوشیدہ تھے لیکن وقت کے ساتھ ان رازوں سے پردہ اٹھتا جارہا ہے۔

    ویسے تو محققین صدیوں سے یہ راز جاننے کے لیے کوشاں رہے ہیں کہ اہرام مصر کی تعمیر کیلئے استعمال ہونے والے انتہائی بھاری اور دیوہیکل پتھر صحرا تک کیسے پہنچائے گئے؟

    یہ وہ سوال ہے جو زمانہ قدیم سے سائنسدانوں کے لیے معمہ بنا ہوا ہے اور یہ کہ ہزاروں سال قبل کس طرح قدیم مصر میں اتنے بڑے اہرام تعمیر کیے گئے مگر اب اس کا ممکنہ جواب سامنے آگیا ہے۔

    egypt

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین آثار قدیمہ نے صحرا کے نیچے دبی دریائے نیل کی ایسی شاخ دریافت کی ہے جو ہزاروں سال قبل 30 سے زائد اہرام کے اطراف بہتی تھی۔

    ماہرین اس دریافت سے یہ معمہ حل ہوتا ہے کہ کس طرح قدیم مصریوں نے اہرام تعمیر کرنے کے لیے بہت وزنی پتھر وہاں تک پہنچائے۔

    A map of the water course of the ancient Ahramat Branch.

    40میل لمبی دریا کی یہ شاخ نامعلوم عرصے قبل گیزہ کے عظیم ہرم اور دیگر اہرام کے گرد بہتی تھی اور ہزاروں سال قبل صحرا اور زرعی زمین کے نیچے چھپ گئی۔

    ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ دریا کی موجودگی سے وضاحت ہوتی ہے کہ کیسے 4700 سے 3700برسوں قبل 31 اہرام اس وادی میں تعمیر ہوئے جو اب ویران صحرائی پٹی میں بدل چکی ہے۔

    Pyramid

    یہ وادی مصر کے قدیم دارالحکومت ممفس کے قریب موجود ہے اور یہاں گیزہ کا عظیم ہرم بھی موجود ہے جو دنیا کے قدیم 7 عجائب میں شامل واحد ایسا عجوبہ ہے جو اب بھی موجود ہے۔

    جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ایک تحقیق میں دریا کی اس شاخ کو دریافت کیا گیا ہے، سائنس دانوں نے ابو الہول کے مجسمے کا صدیوں پرانا راز جان لیا۔

    History

    خیال رہے کہ ماہرین آثار قدیمہ کافی عرصے سے یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ قدیم مصر میں دریا کو ہی اہرام کی تعمیر کے لیے استعمال کیا گیا تھا مگر اب تک کسی کو قدیم زمانے میں بہنے والے دریا کے مقام، ساخت یا حجم کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔

    تحقیقی ٹیم نے ریڈار سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے دریا کی اس خفیہ شاخ کو دریافت کیا۔اس مقام کے سرویز اور نمونوں کی جانچ پڑتال سے دریا کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی۔

    محققین کے مطابق کسی زمانے میں یہ دریا بہت طاقتور ہوگا مگر ممکنہ طور پر 4200 سال قبل قحط سالی کے باعث وہ ریت میں چھپنا شروع ہوگیا، گیزہ کا عظیم ہرم اس چھپے ہوئے دریا کے کنارے سے محض ایک کلومیٹر کی دوری پر موجود ہے۔

    Nile river

    اس ہرم کی تعمیر کے لیے 23 لاکھ بلاکس استعمال ہوئے تھے اور ہر بلاک کا وزن ڈھائی سے 15 ٹن کے درمیان تھا۔ محققین کے مطابق بیشتر اہرام بھی دریا کے اردگرد ہی واقع محسوس ہوتے ہیں اور یہ عندیہ ملتا ہے کہ اس دریا کو تعمیراتی سامان پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ دریا سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ اہرام مختلف مقامات پر کیوں تعمیر کیے گئے۔انہوں نے بتایا کہ دریا کا راستہ اور بہاؤ وقت کے ساتھ بدلتا رہا اور اسی وجہ سے مصری شہنشاؤں نے مختلف مقامات پر اہرام تعمیر کیے۔

  • اہرام مصر کا ایک اور راز دریافت!

    اہرام مصر کا ایک اور راز دریافت!

    دنیا کے عجائبات میں شامل اہرام مصر کے سب سے بڑے ہرم گیزہ میں نئی دریافت ہوئی ہے جس سے اس ہرم کے بارے میں مزید جاننے کا راستہ کھل گیا۔

    صدیوں پرانے اہرام مصر ہمیشہ سے لوگوں اور سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے، ہزاروں سال پرانے اہرام مصر کے بارے میں ابھی بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے اور اس کو جاننے کے لیے مسلسل تحقیقی کام ہوتا رہتا ہے۔

    گیزہ کا عظیم ہرم عرصے سے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے اور دہائیوں سے ماہرین اس کے اندر کھوج کرتے رہے ہیں۔

    اب مصر کے محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے گیزہ کے عظیم ہرم میں ایک حیرت انگیز دریافت کا اعلان کیا گیا ہے، حکام کے مطابق ہرم کے مرکزی داخلی راستے کے پیچھے چھپی 9 میٹر طویل راہداری کو دریافت کیا گیا ہے۔

    مصری حکام نے بتایا کہ اس دریافت سے گیزہ کے عظیم ہرم کے بارے میں مزید جاننے کا راستہ کھل جائے گا۔

    یہ دریافت سکین پیرامڈز نامی سائنسی پراجیکٹ کے دوران ہوئی جس کے لیے 2015 سے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ہرم کے اندرونی حصوں کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔

    مصری حکام نے بتایا کہ یہ نامکمل راہداری ممکنہ طور پر مرکزی داخلی راستے پر ہرم کے اسٹرکچر کے وزن کا دباؤ کم کرنے کے لیے تعمیر ہوئی یا یہ کسی ایسے چیمبر کی جانب جاتی ہوگی جو اب تک دریافت نہیں ہوسکا۔

    خیال رہے کہ گیزہ کا عظیم ہرم زمانہ قدیم کے 7 عجائبات میں شامل واحد عجوبہ ہے جو اب بھی دنیا میں موجود ہے اور اسے نئے 7 عجائبات عالم کا حصہ بھی بنایا گیا ہے۔

    اسے 2560 قبل میسح میں فرعون خوفو کے عہد میں تعمیر کیا گیا تھا۔

  • مصر: آثارِ قدیمہ میں کوئی شہر اس کی ہمسری نہیں کرسکتا

    مولانا شبلی نعمانی نے روم، مصر و شام كے سفر سے ہندوستان واپس آكر وہاں کے تمدن اور حسنِ معاشرت کو بیان کرنے کے علاوہ اپنے سفرنامے میں‌ قابلِ دید مقامات، اور قدیم عمارات کے بارے میں‌ بھی تفصیل رقم کی تھی جس میں مصر کی قدیم یادگاریں کے عنوان سے ایک باب بھی شامل ہے۔ اس میں اہرامِ مصر سے متعلق معلوماتی مضمون میں‌ وہ لکھتے ہیں:

    آثارِ قدیمہ کے لحاظ سے کوئی شہر اس شہر کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ سچ یہ ہے کہ یہاں کی ایک ایک ٹھیکری قدامت کی تاریخ ہے۔

    سوادِ شہر کے ویرانوں میں اس وقت تک سیکڑوں خزف ریزے ملتے ہیں جن پر کئی کئی ہزار سال قبل کے حروف و نقوش کندہ ہیں۔ مجھ کو اتنا وقت بلکہ سچ ہے کہ اتنی ہمّت کہاں تھی کہ تمام قدیم یادگاروں کی سیر کرتا۔ البتہ چند مشہور مقامات دیکھے اور انہی کے حال کے لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

    اہرام، یہ وہ قدیم مینار ہیں جن کی نسبت عام روایت ہے کہ طوفاں نوحؑ سے پہلے موجود تھے۔ اور اس قدر تو قطعی طور سے ثابت ہے کہ یونان کی علمی ترقی سے ان کی عمر زیادہ ہے، کیوں کہ جالینوس نے اپنی تصنیف میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ مینار نہایت کثرت سے تھے۔ یعنی دو دن کی مسافت میں پھیلے ہوئے تھے۔ صلاح الدین کے زمانہ میں اکثر ڈھا دیے گئے۔ ان میں سے جو باقی رہ گئے ہیں۔ اور جن پر خاص طور پر اہرام کا اطلاق ہوتا ہے۔ صرف تین ہیں، جو سب سے بڑا ہے۔ اس کی لمبائی چار سو اسّی فٹ یعنی قطب صاحب کی لاٹ سے دگنی ہے۔ نیچے کے چبوترہ کا ہر ضلع سات سو چونسٹھ فٹ ہے۔ مینار کا مکعب آٹھ کروڑ نوے لاکھ فٹ ہے۔ اور وزن اڑسٹھ لاکھ چالیس ہزار ٹن۔

    اس کی تعمیر میں ایک لاکھ آدمی بیس برس تک کام کرتے رہے۔ جڑ میں تیس تیس فٹ لمبی اور پانچ پانچ فٹ چوڑی پتھر کی چٹانیں ہیں اور چوٹی پر جو چھوٹی سے چھوٹی ہیں آٹھ فٹ کی ہیں۔

    اس کی شکل یہ ہے کہ ایک نہایت وسیع مربع چبوترہ ہے۔ اس پر ہر طرف سے کسی قدر سطح چھوڑ کر دوسرا چبوترہ ہے۔ اس طرح چوٹی تک اوپر تلے چبوترے ہیں۔ اور ان چبوتروں کے بتدریج چھوٹے ہوتے جانے سے زینوں کی شکل پیدا ہو گئی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ پتھروں کو اس طرح وصل کیا ہے کہ جوڑ یا درز کا معلوم ہونا تو ایک طرف۔ چونا یا مسالے کا بھی اثر نہیں معلوم ہوتا۔ اس پر استحکام کا یہ حال ہے کہ کئی ہزار برس ہو چکے اور جوڑوں میں بال برابر فصل نہیں پیدا ہوا ہے۔

    ان میناروں کو دیکھ کر خوا مخواہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جَرِّ ثَقِیل کا فن قدیم زمانہ میں موجود تھا۔ کیوں کہ اس قدر بڑے بڑے پتھر اتنی بلندی پر جَرِّ ثَقِیل کے بغیر چڑھائے نہیں جا سکتے۔ اور اگر اس ایجاد کو زمانۂ حال کے ساتھ مخصوص سمجھیں تو جرِّ ثقیل سے بھی بڑھ کر عجیب صنعت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔

    ان میناروں میں سے ایک جو سب سے چھوٹا ہے۔ کسی قدر خراب ہو گیا ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ 593 ہجری میں ملک العزیز (پسر سلطان صلاح الدّین) نے بعض احمقوں کی ترغیب سے اس کو ڈھانا چاہا۔ چنانچہ دربار کے چند معزز افسر اور بہت سے نقب زن اور سنگ تراش اور مزدور اس کام پر مامور ہوئے۔ آٹھ مہینے تک برابر کام جاری رہا اور نہایت سخت کوششیں عمل میں آئیں۔ ہزاروں لاکھوں روپے برباد کر دیے گئے۔ لیکن بجز اس کے کہ اوپر کی استر کاری خراب ہوئی۔ یا کہیں کہیں سے ایک آدھ پتھر اکھڑ گیا اور کچھ نتیجہ نہیں ہوا۔ مجبور ہو کر ملک العزیز نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔

    اہرام کے قریب ایک بہت بڑا بت ہے جس کو یہاں کے لوگ ابوالہول کہتے ہیں۔ اس کا سارا دھڑ زمین کے اندر ہے۔ گردن اور سَر اور دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ چہرہ پر کسی قسم کا سرخ روغن ملا ہے۔ جس کی آب اِس وقت تک قائم ہے۔ ان اعضا کی مناسبت سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ پورا قد ساٹھ ستّر گز سے کم نہ ہو گا۔ باوجود اس غیر معمولی درازی کے تمام اعضا ناک کان وغیرہ اس ترتیب اور مناسبت سے بنائے ہیں کہ اعضا کے باہمی تناسب میں بال برابر کا فرق نہیں۔

    عبداللّطیف بغدادی سے کسی شخص نے پوچھا تھا کہ آپ نے دنیا میں سب سے عجیب تر کیا چیز دیکھی؟ اس نے کہا کہ ابوالہول کے اعضا کا تناسب۔ کیوں کہ عالمِ قدرت میں جس چیز کا نمونہ موجود نہیں، اس میں ایسا تناسب قائم رکھنا آدمی کا کام نہیں۔

  • اہرام کا میر محاسب

    اہرام کا میر محاسب

    ممتاز افسانہ نگار نیّر مسعود افسانہ اور رمز سے بھری ہوئی کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی یہ کہانی ایک صاحبِ اقتدار شخص کی طاقت اور غرور کے انجام کو بیان کرتی ہے جو قدیم دور کے اہرام کو ایک چیلنج سمجھ کر توڑنے کے لیے مزدور اکٹھا کرتا ہے، مگر ناکام ہونے کے بعد اپنا شہر چھوڑ کر اسی ویرانے میں چلا جاتا ہے جہاں وہ اہرام موجود ہے۔

    بڑے اہرام کی دیواروں پر فرعون کا نام اور اس کی تعریفیں کندہ ہیں۔

    اس سے یہ بدیہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس عمارت کو فرعون نے بنوایا ہے۔ لیکن اس سے ایک بدیہی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ فرعون کا نام اور اس کی تعریفیں کندہ ہونے سے پہلے اہرام کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔ مگر کتنے پہلے؟ چند ماہ؟ یا چند سال؟ یا چند صدیاں؟ یا چند ہزار سال؟ اگر کوئی دعویٰ کرے کہ اہرام کی عمارت فرعون سے بیس ہزار سال پہلے بھی موجود تھی تو اس دعوے کی تردید اس کے سوا کوئی دلیل نہ ہوگی کہ اہرام پر فرعون کا نام کندہ ہے، لیکن یہی دلیل اس کا ثبوت ہوگی کہ نام کندہ ہوتے وقت یہ عمارت بنی ہوئی موجود تھی۔

    کب سے بنی ہوئی موجود تھی؟ اس سوال کا جواب دینے سے مؤرخ بھی قاصر ہیں اور تعمیرات کے ماہر بھی۔ مؤرخ اس لئے کہ ان کے پاس اہرام کی تعمیر کی دستاویزیں نہیں ہیں، اور ماہر اس لئے کہ ان کے پاس اہرام کی عمر کا پتا لگانے والے آلات نہیں ہیں۔ ان کے ترقی یافتہ آلات نہ یہ بتا سکے ہیں کہ اہرام اپنی کتنی عمر گزار چکا ہے اور نہ یہ بتا سکے ہیں کہ ابھی اہرام کی کتنی عمر باقی ہے۔ البتہ یہ آلات ماضی اور مستقبل دونوں سمتوں میں اہرام کے بہت طویل سفر کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    تعمیرات کے ماہروں نے یہ تخمینہ ضرور لگا لیا ہے کہ اہرام کے اطراف کی زمینوں اور خود اہرام کی عمارت کے رقبے کے لحاظ سے اس کے بنانے میں زیادہ سے زیادہ کتنے آدمی ایک ساتھ لگ سکتے تھے، اور زیادہ سے زیادہ آدمی کم سے کم کتنی مدت میں اہرام کو مکمل کر سکتے تھے، اور یہ کم سے کم مدت کئی سو سال کو پہنچتی ہے۔ لیکن خلیفہ کے وقت میں اہرام کی ایک سل پر یہ عبارت کندہ پائی گئی۔

    ’’ہم نے اسے چھ مہینے میں بنایا ہے، کوئی اسے چھ مہینے میں توڑ کر تو دکھا دے۔‘‘

    خلیفہ کو غصہ آنا ہی تھا۔ مزدور بھرتی ہوئے اوراہرام پر ایک طرف سے کدالیں چلنا شروع ہوئیں۔ مگر ہوا صرف یہ کہ کدالوں کی نوکیں ٹوٹ گئیں اورپتھروں سے چنگاریاں سی اڑ کر رہ گئیں۔ خلیفہ کو اورغصہ آیا۔ اس نے اہرام کے پتھروں کو آگے سے گرم کرایا۔ جب پتھرخوب تپنے لگے تو ان پر ٹھنڈا ٹھنڈا سرکہ پھینکا گیا۔ چٹ چٹ کی آواز اور پتھروں میں پتلی پتلی لکیریں کھل گئیں۔ ان لکیروں پر نئی کدالیں پڑنا شروع ہوئیں اور پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے الگ ہونے لگے۔ خلیفہ کو تسلّی ہوئی اوروہ دارُالخلافہ کو لوٹ گیا۔ اس کے پیچھے یہ حکم رہ گیا کہ چھ مہینے تک دن رات میں کسی بھی وقت کام روکا نہ جائے۔

    چھٹا مہینہ ختم ہوتے ہوتے خلیفہ پھر اپنے امیروں کے ساتھ اہرام کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اتنے دن میں اہرام سے صرف ایک چھوٹی دیوار بھر پتھر الگ کئے جا سکے تھے۔ ان پتھروں کے پیچھے ایک طاق نمودار ہوا تھا جس میں پتھر کا تراشا ہوا ایک مرتبان رکھا تھا۔ مرتبان خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور خلیفہ نے اسے خالی کرایا تو اس میں سے پرانی وضعوں کے سونے کے زیور اور قیمتی پتھر نکلے۔ پھر دیکھا گیا کہ پتھر کے مرتبان پر بھی ایک عبارت کندہ ہے اور خلیفہ کے حکم سے یہ عبارت پڑھی گئی:

    ’’تو تم اسے نہیں توڑ سکے۔ اپنے کام کی اجرت لو اور واپس جاؤ۔‘‘

    اس وقت خلیفہ طاق کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے پیچھے اہرام کا مخروطی سایہ بیابان میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ خلیفہ مڑا اورآہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں تک پہنچ گیا جہاں اہرام کا سایہ ختم ہو رہا تھا۔ خلیفہ تھوڑا اور آگے بڑھ کر رکا۔ اب زمین پر اس کا بھی سایہ نظر آنے لگا۔ بیابان کی دھوپ میں صرف سائے کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خلیفہ اہرام کی چوٹی پر کھڑا ہے۔ لیکن اہرام کی چوٹی پر کوئی نہیں تھا۔ خلیفہ واپس آ کر پھر طاق کے سامنے کھڑا ہوا اور اب اس نے حکم لکھوایا کہ چھ مہینے کی اس مہم کے اخراجات کا مکمل حساب پیش کیا جائے۔ اس نے ایک اور حکم لکھوایا کہ مرتبان سے نکلنے والے خزانے کی قیمت کا صحیح تخمینہ لگایا جائے۔

    مشہور ہے کہ خزانے کی قیمت ٹھیک اس رقم کے برابر نکلی جو اہرام کا طاق کھولنے کی مہم پر لگی تھی اور اس میں ایسی بات مشہور ہو جانے میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اس پر بھی تعجب نہ ہونا چاہئے کہ یہ بات حسابات مکمل ہونے سے پہلے ہی مشہور ہوگئی تھی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں وہ میر محاسب فراموش کر دیا گیا جس کے ذمے یہ دونوں حساب کتاب تھے۔

    اس کے بارے میں مشہور تھا کہ خلیفہ کی مملکت میں ریت کے ذرّوں تک کا شمار رکھتا ہے۔ حساب کی فردوں کے پلندے اس کے آگے رکھے جاتے اور وہ ایک نظر میں ان کے میزان کا اندازہ کر لیتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جمع تفریق کی غلطیاں اپنے آپ کاغذ پر اچھل کر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ اس لئے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت سے لوگ خلیفہ سے زیادہ اس کے میر محاسب سے خوف زدہ رہتے تھے۔ دارُالخلافہ کے لوگ ایک دوسرے کو کبھی ہنسانے کے لئے، کبھی ڈرانے کے لئے بتاتے تھے کہ میر محاسب کے دل میں جذبوں کی جگہ اور اس کے دماغ میں خیالوں کی جگہ اعداد بھرے ہوئے ہیں۔ اور یہ بات بلکہ وہ بات جس کی طرف یہ بات اشارہ کرتی ہے، کچھ بہت غلط بھی نہیں تھی، کم سے کم اس حساب کی رات تک۔

    اس رات اس کے سامنے دونوں حسابوں کی فردیں کھلی رکھی تھیں اور اس نے ایک نظر میں اندازہ کر لیا تھا کہ دونوں حساب قریب قریب برابر ہیں۔ تاہم اس نے ضروری سمجھا کہ دونوں فردوں کی ایک ایک مد کو غور سے دیکھ لے۔ اس کے مستعد ماتحتوں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اندراجات کئے تھے۔ کسی بھی مد کی رقم میں کوئی کمی بیشی نہیں تھی۔ حاصل جمع نکالنے کے لئے اس نے مرتبان والے خزانے کی فرد پہلے اٹھائی۔ لیکن جب وہ حاصل جمع لکھنے لگا تو اس کا قلم رکا اور اسے محسوس ہوا کہ اس نے جوڑنے میں کہیں غلطی کر دی ہے۔ اس نے پھر حساب جوڑا اور دیکھا کہ اب حاصل جمع کچھ اور ہے، لیکن اس کو پھر غلطی کر جانے کا احساس ہوا اور اس نے پھر حساب جوڑا اور حاصل جمع کو کچھ اور ہی پایا۔ آخر اس فرد کو ایک طر ف رکھ کر اس نے طاق کھولنے کی مہم والی فرد اٹھائی، مگر یوں جیسے اپنے کسی شبہے کی تصدیق چاہتا ہو، اور واقعی اس فرد کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ اس کے سامنے دو فردیں اورچھ سات یا اورزیادہ حاصل جمع تھے۔ الجھے ہوئے دماغ کے ساتھ فردوں کو یوں ہی چھوڑ کر وہ باہر نکل آیا۔ کوئی سوال اس کو پریشان کررہا تھا۔ کوئی سوال اس تک پہنچنا چاہتا تھا لیکن اعداد کے ہجوم میں اسے راستہ نہیں مل رہا تھا۔

    باہر چاندنی میں کھڑے کھڑے جب اس کے پاؤں شل ہونے لگے اورہتھیلیوں میں خون اتر آیا تب اسے احساس ہوا کہ اعداد کا ہجوم اس سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ دور ہوتے ہوئے اعداد اسے انسانوں کی ٹولیوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ اس نے دیکھا کہ دو اور دو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلے جا رہے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے ان کا حاصل جمع ہے، جسے وہ پہچان نہیں پایا کہ چار ہے یا کچھ اور۔ اس آخری ٹولی کے گزر جانے کے بعد وہ اندر واپس آیا۔ اس نے دونوں فردوں کو تلے اوپر رکھ دیا اور سوچنے لگا کہ ان کا حاصل جمع ایک نکلے گا یا الگ الگ؟ پھر سوچنے لگا کہ خود وہ دونوں کو ایک چاہتا ہے یا الگ الگ؟ اور پھر یہ کہ خلیفہ کیا چاہتا ہے؟ تب اچانک اس کو پتا چلا کہ یہی وہ سوال ہے جو اعداد کے ہجوم میں راستہ ڈھونڈ رہا تھا، خلیفہ کیا چاہتا ہے؟

    باقی ماندہ رات اس نے یہی سوچتے ہوئے گزار دی کہ خلیفہ کیا چاہتا ہے۔ صبح ہوتے اسے نیند آگئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ خلیفہ اور فرعون ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اہرام کی پرچھائیں کے سرے کی طرف جارہے ہیں اور اہرام کی چوٹی پر کوئی نہیں ہے۔ اس نے سوتے ہی میں سمجھ لیا کہ خواب دیکھ رہا ہے، اور اپنی آنکھ کھل جانے دی۔

    دن ڈھل رہا تھا جب اس نے دونوں فردوں کو جلا کر راکھ کیا، اپنے ایک غلام کا خچر کسا، غلام ہی کی پوشاک پہنی اور باہر نکلا۔ بازاروں میں بے فکر ے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، ٹولیاں بنائےگشت کر رہے تھے۔ اس دن شہر میں گفتگو کا ایک ہی موضوع تھا، سب ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ طاق کھولنے کی مہم پر صرف ہونے والی رقم اور مرتبان کے خزانے کی قیمت میں ایک جو کا فرق بھی نہیں نکلا ہے اور یہ کہ یہ حساب میر محاسب کا نکالا ہوا ہے جو خلیفہ کی مملکت میں ریت کے ذرّوں کا شمار رکھتا ہے۔

    وہ واپس لوٹنے کے لئے گھر سے نہیں نکلا تھا۔ اس نے خچر کو ایڑ لگائی، بازاروں کو پیچھے چھوڑا اور خود کو اس بیابان میں گم کر دیا جہاں ہوا میں ریت کے ذرّے چنگاریوں کی طرح اڑتے ہیں اور زمین پر اہرام اپنا مخروطی سایہ ڈالتا ہے۔

  • حضرت موسیٰ، فرعون اور اردو ادب

    حضرت موسیٰ، فرعون اور اردو ادب

    امریکہ کا مشہور انشاء پرداز آسبورن لکھتا ہے، ”تلمیحات کیا ہیں؟ ہماری قوم کے قدموں کے نشان ہیں جن پر پیچھے ہٹ کر ہم اپنے باپ دادا کے خیالات، مزعومات، اوہام، رسم و رواج اور واقعات وحالات کے سراغ لگا سکتے ہیں۔”

    اردو ادب میں‌ تلمیحات دیو مالائی، مذہبی قصوں، عقائد، تاریخی واقعات کے علاوہ عام کہانیوں اور افسانوں سے ماخوذ ہیں۔ یہ انبیاء کے واقعات، فرشتوں کے تذکرے، جنّت اور دوزخ کے قصّوں اور مشاہیر کی زندگی سے اخذ کی گئی ہیں۔ یہاں‌ ہم حضرت موسیٰ اور ان کی پیغمبری کے واقعات اور فرعون کے تذکرے پر مبنی سیّد وحید الدّین سلیم کی ایک تحریر نقل کررہے ہیں جو معلومات افزا بھی ہے اور دل چسپ بھی۔

    حضرت موسیٰ بھی نہایت جلیلُ القدر پیغمبر تھے۔ ان پر توریت نازل ہوئی۔ ان کا لقب کلیمُ اللہ ہے۔ ان کے زمانہ میں جو فرعون مصر پر حکم راں تھا، وہ نہایت سرکش اور مغرور تھا اور خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔ کاہنوں اور نجومیوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ اس کو ہلاک کرنے والا بنی اسرائیل میں پیدا ہوگا۔ بنی اسرائیل کی حالت اس زمانہ میں نہایت زبوں تھی۔ وہ مصر میں غلامی اور مزدوری کی خدمتیں انجام دیتے تھے۔ فرعون نے پیش گوئی سن کر بنی اسرائیل کے بچّوں کو ہلاک کرنا شروع کیا۔

    حضرت موسیٰ جب پیدا ہوئے تو ان کی والدہ نے ان کو ایک گہوراہ میں ڈال کر دریا کی نذر کر دیا۔ یہ گہوارہ بہتے بہتے فرعون کے محل تک پہنچا۔ فرعون کی بیوی نے اس کو دریا سے نکلوایا۔ بچّے کی شکل دیکھ کر رحم آیا۔ پالنے کا عزم مصمم کر لیا۔ فرعون کو اس بچّے پر اپنے قاتل کا شبہ ہوا۔ چاہا کہ ہلاک کر ڈالے مگر فرعون کی بیوی حائل ہوئی۔

    فرعون نے اس بچّے کا امتحان عجیب طریقے سے کیا۔ ایک طشت لعلوں سے اور ایک طشت انگاروں سے بھرا سامنے لایا گیا۔ فرعون کا خیال تھا کہ اگر یہ بچّہ وہی ہے جو میرا قاتل ہو گا تو انگاروں پر ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ جب بچّے نے ہاتھ لپکایا، تو قریب تھا کہ لعلوں کے طشت پر پڑے مگر فرشتے نے ہاتھ کھینچ کر انگاروں کے طشت پر رکھ دیا۔ ایک انگار اٹھایا اور جھپ سے منھ میں رکھ لیا۔ ہاتھ کی ہتھیلی اور زبان دونوں جل گئیں۔ ہاتھ کا سفید داغ بعد میں یدِ بیضا کے معجزہ سے تبدیل کر دیا گیا۔ مگر زبان میں لکنت ساری عمر باقی رہی۔ حضرت موسیٰ کے لیے دودھ پلانے والی عورت کی تلاش ہوئی، تو ان کی والدہ ہی کو یہ موقع ملا اور انہوں نے ماں ہی کے دودھ سے پرورش پائی۔

    ہوش سنبھالنے پر حضرت موسیٰ نے شہزادوں کی طرح تعلیم پائی۔ مصری کاہنوں نے اپنے تمام علوم ان کو سکھائے۔ ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ دراصل فرعون کے بیٹے نہیں ہیں اور نہ قبطی ہیں، بلکہ اسرائیلی نسل کے ہیں۔ ان کو اپنی قوم سے ہمدردی اور قبطی قوم سے نفرت ہو گئی۔ ایک دن ایک قبطی ایک اسرائیلی پر ظلم کر رہا تھا۔ یہ واقعہ دیکھ کر انہیں غصہ آیا اور قبطی کو جان سے مار ڈالا۔ پھر مصر سے نکل کھڑے ہوئے۔ عرب کی سرحد پر پہنچے، تو مدین کے ایک کنویں پر چند نوجوان عورتوں کو انہوں نے پانی بھرتے دیکھا۔ پیاس شدت کی تھی۔ پانی مانگا۔ جواب ملا کہ ہم اپنے مویشیوں کو سیراب کر لیں تو تمہاری خبر لیں۔ حضرت موسیٰ نے کہا تم مجھے پانی پلا دو، میں تمہارے مویشیوں کو پانی کھینچ کر پلا دوں گا۔ انہوں نے اس شرط کو منظور کر لیا۔

    یہ نوجوان لڑکیاں مدین کے پیغمبر شعیب کی بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے اپنے والد بزرگوار سے اس نوجوان کا تذکرہ کیا۔ حضرت شعیب نے بلا کر کہا کہ اگر تم بارہ برس تک ہمارے قبیلے کی بکریاں چراؤ تو ہم اپنی لڑکی سے شادی کر دیں گے۔ حضرت موسیٰ نے منظور کر لیا۔ بارہ برس کی خدمت کے بعد شادی ہو گئی، اپنی بیوی کو ساتھ لے کر چلے۔

    راستہ میں وادی ایمن ملی، جو کوہِ طور کے دامن میں ہے۔ بیوی حمل سے تھیں۔ رات وہیں بسر کی، اسی وقت وضعِ حمل ہوا۔ آگ کی ضرورت تھی۔ سامنے پہاڑ پر روشنی دکھائی دی۔ آگ لینے اس طرف بڑھے۔ دیکھا ایک درخت سر تا پا روشن ہے، مگر آگ کا نام نہیں۔

    درخت میں سے آواز آئی: میں تیرا خدا ہوں۔ تو وادیٔ مقدس میں ہے۔ اپنی جوتیاں اتار دے۔ موسیٰ نے کہا ربّ ارنی یعنی اے خدا تو اپنا دیدار مجھے دکھا۔ جواب ملا: لن ترانی، یعنی تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ پھر جب تجلّیِ ربّانی کا ظہور ہوا، تو موسیٰ غش کھا کر گر پڑے، پہاڑ لرز گیا، بلکہ جل کر سرمہ ہو گیا۔

    اس واقعہ کی طرف حسبِ ذیل تلمیحات میں اشارہ کیا گیا ہے: تجلّیِ طور، شعلۂ طور، نخلِ طور، شمعِ طور، شجرِ طور، نخلِ موسیٰ، جلوۂ طور، نخلِ ایمن، شمعِ ایمن۔ وادیٔ ایمن، نورِ سینا۔ وادیٔ سینا، شعلۂ سینا، طورِ سینا۔ سرمۂ طور۔ ربّ ارنی۔ لن ترانی۔ خر موسیٰ۔ ( یعنی موسیٰ غش کھا کر گر پڑے) ہوش میں آئے تو حضرت موسیٰ کو حکم ہوا، تم اور تمہارے بھائی ہارون دونوں مل کر فرعون کو میرا پیغام پہنچاؤ۔ اسی وقت حضرت موسیٰ کو دو معجزے عطا ہوئے۔ ایک یہ کہ جب وہ اپنے عصا کو زمین پر ڈال دیتے تھے تو وہ اژدہا بن جاتا تھا۔ دوسرا یہ کہ جب وہ اپنا ہاتھ گریبان میں سے نکال لیتے تھے، تو آفتاب کی طرح چمکنے لگتا تھا۔ پہلے معجزے کی طرف عصائے موسیٰ اور عصائے کلیم کے الفاظ سے اور دوسرے معجزے کی طرف دستِ کلیم، دستِ موسیٰ اور یدِ بیضا کے الفاظ سے اشارہ کیا جاتا ہے۔

    کوہِ طور سے چل کر حضرت موسیٰ حضرت ہارون کے ساتھ مصر میں آئے۔ فرعون نے اپنے جادوگروں کو مقابلے کے لیے پیش کیا، مگر حضرت موسیٰ اپنے عصا اور یدِ بیضا کی مدد سے غالب آئے۔ بڑی دقتوں اور مقابلوں کے بعد انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد کرایا اور ان کو ساتھ لے کر دریا کے کنارے پہنچے۔ عصا کی ایک جنبش سے دریا پھٹ گیا اور پایاب ہو گیا۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے ساتھ پار اتر گئے۔ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کے تعاقب میں عین اس وقت پہنچا جب کہ دریا پایاب تھا اور بنی اسرائیل پار ہو چکے تھے۔ وہ بھی اپنے لشکر کو ہمراہ لے کر دریا میں اتر گیا، مگر جب بیچ میں پہنچا تو جو پانی سمٹ گیا تھا، پھر پھیل گیا اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا۔ شاعروں نے اس دریا کا نام نیل بتایا ہے، گو کہ وہ مؤرخین کے نزدیک بحرِ قلزم تھا۔

    دریا سے پار ہونے کے بعد حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو ہمراہ لیے اس جنگل میں پہنچے جس کو تیہ بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ یہاں چالیس برس تک رہے۔ ہر چند بنی اسرائیل کو اکسایا کہ فلسطین پر حملہ کرو اور فرعون کے گورنروں کو نکال کر خود اپنے وطن پر قابض ہو، مگر مدتِ دراز تک غلامی کی زندگی بسر کرنے کے سبب ان کی ہمّتوں اور جرأتوں نے جواب دے دیا تھا۔ اس جنگل میں بنی اسرائیل کی گزران جس چیز پر تھی، اس کا نام من و سلویٰ بتایا گیا ہے۔ عام خیال ہے کہ یہی بہشتی نعمتوں کا خوان تھا، جو ہر روز فرشتوں کے ذریعہ بھیجا جاتا تھا اور اسی عام خیال پر شاعری کا مدار ہے۔

    حضرت موسیٰ اکثر کوہِ طور پر جاتے اور خدا سے ہم کلام ہوا کرتے تھے۔ اسی مقدس پہاڑ پر ان کو توریت کے صحیفے عطا ہوئے۔ ایک دفعہ جب وہ کوہِ طور پر گئے ہوئے تھے، ایک شخص نے جس کا نام سامری تھا، سونے کا ایک بچھڑا بنایا، جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ حضرت موسیٰ کی قوم نے اس کو پوجنا شروع کر دیا۔ حضرت موسیٰ جب واپس آئے تو غضب ناک ہوئے اور بچھڑے کو جو شعرا کی زبان میں گوسالۂ سامری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جلا کر خاک کر ڈالا۔

  • مصر میں قدیم قبرستان سے دریافت ہونے والے تابوت نمائش کے لیے رکھ دیے گئے

    مصر میں قدیم قبرستان سے دریافت ہونے والے تابوت نمائش کے لیے رکھ دیے گئے

    قاہرہ: مصر میں قدیم قبرستان سے دریافت ہونے والے ڈھائی ہزار سال پرانے تابوتوں کی نمائش کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق مصری دارالحکومت قاہرہ کے جنوب میں 100 قدیم تابوت اور 40 سونے سے ملمع کیے مجسمے دریافت ہوئے ہیں۔

    ہفتے کو مصری حکام نے بتایا کہ مصر کے شہر سقارہ میں دریافت شدہ تابوتوں میں کچھ رنگا رنگ اور مہر بند سارکوفِگیڈی (پتھریلا تابوت) شامل ہیں، جنھیں تقریباً 2500 سال سے زیادہ عرصہ قبل دفن کیا گیا تھا، اور ان میں کپڑوں میں لپٹی ممیاں موجود ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ممیاں قدیم مصری بادشاہوں، پطلیموسی سلسلہ سلاطین سے تعلق رکھتی ہیں، جنھوں نے مصر پر اندازاً 320 سے 30 قبل مسیح تک اور 664 اور 332 قبل مسیح کے درمیان حکومت کی تھی، جنھیں اب سقارہ میں قدیم فرعون جوزر کے مقبرے کے قریب نمائش کے لیے رکھا گیا ہے.

    ممی کی اندرونی ساخت دیکھنے کے لیے ایکسرے کیا جا رہا ہے

    مصری وزیر سیاحت و نوادرات خالد العنانی نے میڈیا کو بتایا کہ ان نوادرات کو قاہرہ کے نئے گرانڈ میوزیم سمیت تین میوزیمز میں منتقل کیا جائے گا۔ انھوں نے یہ سنسنی خیز خبر بھی دی کہ رواں برس کے آخر میں وہ ایک اور بڑی دریافت کی خبر بھی دینے والے ہیں۔

    واضح رہے کہ مذکورہ علاقے سے ستمبر کے بعد سے 140 پتھریلے تابوت دریافت ہو چکے ہیں، جن میں ممیاں بھی موجود تھیں۔

    سقارہ سائٹ مصر کے قدیم دارالحکومت ممفس میں واقع بڑے قبرستان کا ایک حصہ ہے جس میں مشہور گیزا اہرام اور دیگر چھوٹے اہرام موجود ہیں۔ ممفس کے کھنڈرات کو 1970 کی دہائی میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی حیثیت دی گئی تھی۔

    حالیہ دریافت میں ماہرین آثار قدیمہ نے ایک تابوت کھولا تو اس میں ایک اچھی طرح سے محفوظ ممی موجود تھی اور جس کو کپڑوں میں لپیٹا گیا تھا، ماہرین نے اس قدیم ممی کی ساخت کو دیکھنے کے لیے ایکس رے مشین کا بھی استعمال کیا، جس سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ انسانی بدن کو کس طرح محفوظ بنایا گیا تھا۔

  • شہری نے اہرام مصر سے کود کر خودکشی کرلی

    شہری نے اہرام مصر سے کود کر خودکشی کرلی

    قاہرہ: اہرام مصر دنیا بھر کے لیے ایک شاندار سیاحتی مقام ہے جہاں سیاحت و تاریخ کے شوقین افراد انہیں دیکھنے آتے ہیں، انہی اہرام پر گزشتہ روز افسوسناک واقعہ پیش آگیا۔

    مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ گیزہ میں فرعون خفرے کے اہرام سے ایک شخص نے کود کر خودکشی کرلی ہے۔ یہ اہرام زمین سے 706 فٹ بلند ہے۔

    پولیس کے مطابق واقعہ اتوار کی صبح پیش آیا، ابھی تک غیر واضح ہے کہ اس شخص نے خودکشی کے لیے اس تاریخی مقام کا ہی انتخاب کیوں کیا۔

    فرعون خفرے کا یہ ہرم، اہرام مصر میں دوسرا بڑا ور طویل ترین ہرم ہے۔ یہاں پر فراعین مصر کے چوتھے خاندان کے افراد دفن ہیں۔

    اہرام کے اوپر خوبصورت پتھر نصب ہیں جو نیچے نصب پتھروں سے مختلف ہیں۔

    خیال رہے کہ اہرام مصر، مصر کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہیں اور ملکی معیشت میں اس کا بڑا کردار ہے۔

  • ڈھائی ہزار سال قدیم پراسرار ماسک جسے موت کا ماسک قرار دیا گیا

    ڈھائی ہزار سال قدیم پراسرار ماسک جسے موت کا ماسک قرار دیا گیا

    قاہرہ: مصر میں لاشوں کو حنوط کرنے والی ڈھائی ہزار سال پرانی ورکشاپ میں سے جانوروں کی ممیوں کے ساتھ ایک پراسرار ماسک بھی دریافت ہوا تھا، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کی دوسری دریافت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ برس سقارہ کے قدیم قبرستان کے نواح میں ایک ورکشاپ دریافت ہوا تھا جس میں کتے، بلیاں، مگرمچھ اور شیر سمیت متعدد حشرات الارض کو بھی حنوط کیا گیا تھا، دریافت ہونے والی یہ ممیاں ڈھائی ہزار سال قدیم قرار دی گئی تھیں۔

    ورکشاپ سے 70 سے زائد لکڑی اور تانبے کی ممیاں بھی درست حالت میں ملیں، ماہرین آثار قدیمہ نے ان ممیوں کو دنیا کی سب سے زیادہ حنوط شدہ جانوروں کی باقیات قرار دیا۔ یہ ورکشاپ قدیم زمانے کے فرعونوں اور امرا کی لاشوں کو حنوط کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی جو عجائبات عالم میں شمار ہونے والے اہرام مصر کے قریب ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نئی معلومات کے لیے ایک خزانے سے کم نہیں ہے۔

    زیر زمین بنائی جانے والی ورکشاپ میں لاشوں کو حنوط کر کے کئی چھوٹے چھوٹے کمروں کی طرح کی قبروں میں دفنایا جاتا تھا، آرکیالوجی کے ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ اس دریافت سے ہزاروں سال قبل کے حالات سے متعلق زیادہ تفصیل سے جان کاری مل سکے گی۔

    جرمن اور مصری ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دارالتحنط میں 2500 سال پہلے انسانی لاشوں کا تحنط بھی ہوتا تھا اور تدفین بھی ہوتی تھی۔ ماہرین کو یہاں سے حنوط شدہ لاشیں، لکڑی کے تابوت اور پتھر پر کھدائی کر کے بنائے گئے وہ بڑے بڑے چوکور چیمبر بھی ملے ہیں، جن میں سے ہر ایک میں کوئی حنوط شدہ لاش یا ’ممی‘ رکھی جاتی تھی۔

    زمانۂ قدیم کے مصری باشندے لاشوں کو ہزاروں سال تک محفوظ رکھنے کے لیے ان پر کس کس طرح کے تیل یا دیگر مادوں کی مالش کرتے تھے، ماہرین کو اس سلسلے میں نئی معلومات ملنے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ ورکشاپ سے سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے مجمسے، مرتبان اور دیگر برتن بھی ملے ہیں، جو زیر زمین چیمبرز میں لاش کو حنوط کرنے کے عمل میں استعمال ہوتے تھے۔

    ورکشاپ سے چاندی سے بنا ہوا ایک ماسک بھی ملا، یہ اپنی نوعیت کی دوسری بڑی دریافت ہے، کیا اس ماسک سے کوئی پراسراریت  جڑی ہے، اس سلسلے میں ماہرین نے کا کہ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ماسک کو ماہرین نے ڈیتھ ماسک کہا ہے۔