Tag: ایبولا

  • ایبولا وائرس کے بارے میں خوفناک انکشاف

    ایبولا وائرس کے بارے میں خوفناک انکشاف

    کچھ عرصہ قبل افریقہ میں سامنے آنے والے ایبولا وائرس کے بارے میں ایک پریشان کن انکشاف ہوا ہے جس کی تصدیق دوبارہ اس کے کیسز سامنے آنے کے بعد ہوگئی ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ ایبولا وائرس علاج کے بعد بھی دماغ کے کسی گوشے میں کئی برس تک چھپ کر بیٹھا رہتا ہے اور غالب امکان ہے کہ مریض کو دوبارہ متاثر کر سکتا ہے۔

    سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن کی تحقیق کےمطابق ایبولا وائرس ایک جان لیوا مرض کی وجہ بنتا ہے۔ مونوکلونل اینٹی باڈیز سے اس کا علاج کیا جاتا ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ علاج کے بعد بھی یہ دماغ میں کہیں موجود رہتا ہے۔

    حال ہی میں افریقہ میں ایبولا کے بعض کیسز سامنے آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا خیال اسی جانب گیا ہے، کیونکہ پہلے یہ تمام افراد ایبولا سے شفایاب ہوچکے تھے۔ یہ تحقیق امریکی آرمی کے تحقیقی مرکز برائے انفیکشن امراض کے سائنسدانوں نے کی ہے۔

    ان کے مطابق افریقی ملک گنی میں ٹھیک پانچ برس بعد 2021 کے اختتام پر ایبولا کے کئی کیسز سامنے آئے ہیں اور پہلے شفایاب ہونے والے مریض دوسری مرتبہ اس کے شکار بنے ہیں۔

    بندروں کے دماغ پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ وینٹریکل سسٹم میں ایبولا وائرس چھپا بیٹھا تھا، اس سے بندروں کو شدید دماغی سوزش کا سامنا بھی تھا۔

    اسی طرح افریقہ میں لوگوں کی خدمت کرنے والی ایک برطانوی نرس بھی شفایابی کے بعد دوبارہ ایبولا کی شکار بنی تھی جس کی تصدیق حالیہ تجربات سے ہوچکی ہے۔

  • افریقی ملک نے دنیا کی دوسری مہلک ترین وبا سے چھٹکارا حاصل کرلیا

    افریقی ملک نے دنیا کی دوسری مہلک ترین وبا سے چھٹکارا حاصل کرلیا

    کنشاسا: افریقا کے وسطی ملک کانگو نے دو سال میں مہلک ترین وبا ایبولا وائرس سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کانگو کے حکام نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ انہوں نے دنیا کی دوسری مہلک ترین وبا کو بلآخر دو سال کے مختصر عرصے میں شکست دے دی۔

    وزیر صحت کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ کانگو میں گزشتہ دو سال کے دوران ایبولا سے 2 ہزار 277 اموات ہوئیں جو ملک کی 60 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ حکومتی اقدامات کے بعد گزشتہ 42 روز سے ایبولا کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا جبکہ متاثرہ مریض بھی تیزی سے صحت یاب ہورہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: جنوبی افریقہ سے ایبولاوائرس پاکستان منتقل ہونے کا خطرہ

    کانگو کے حکومتی ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ایبولا وائرس کو 1976 میں وبا قرار دیا گیا جس نے ملک کے شمال مغربی علاقوں میں تباہی مچائی اور سیکڑوں لوگ اس سے متاثر ہوئے۔

    جمہوریہ کانگو کی حکومت نے آج جمعرات کے روز خوش خبری سنائی کہ جس وبا نے صرف مغربی علاقے کے دو ہزار سے زائد انسانوں کی جان لی اُس کو ہم نے شکست دے دی ہے۔

    یاد رہے کہ افریقا کے مغربی ممالک میں 2013 سے 2016 کے درمیانی حصے میں ایبولا کی وجہ سے گیارہ ہزار تین سو سے زائد اموات ہوئیں۔

    ایبولا وائرس کیا ہے؟

    ایبولا ایک ایسا خطرناک وائرس ہے، جس میں مبتلا ستر فیصد مریضوں کی موت ہوجاتی ہیں۔

    ایبولا جسم میں کیسے داخل ہوتا ہے؟

     متاثرین کے خون میں تقریباً پانچ دن کے بعد اربوں کی تعداد میں ایبولا ذرات موجود ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان مریضوں کے خون یا ناک، منہ یا دیگر اعضاءسے خارج ہونے والی کسی بھی رطوبت کا شکار ہوجائے تو اس کے جسم میں بھی وائرس داخل ہوجاتا ہے۔

    وبا کا پھیلاؤ

    یہ وائرس خشک سطحوں جیسے کہ دروازے کا ہینڈل یا میز کی سطح پر بھی گھنٹوں زندہ رہ سکتا ہے اور تھوک، خون اور جنسی رطوبتوں میں بھی زندہ رہتا ہے لہٰذا جہاں بھی مریض کی یہ رطوبتیں موجود ہوں گی وہاں سے یہ دوسرے لوگوں میں منتقل ہوسکتا ہے، اہم بات یہ ہے کہ وائرس ہوا کے ذریعے نہیں پھیلتا۔

    ابتدائی علامات

    ایبولاوائرس کی ابتدائی علامات میں بخار ، گلے اور سر میں درد سرفہرست ہے، مریض متلی کے ساتھ ہاضمے کی خرابی میں مبتلا ہوجاتا ہے،جس کے بعد جوڑوں اور پٹھوں میں درد، خارش، اور بھوک میں کمی کے علاوہ جگر اور گردوں کی کارکردگی متاثرہو تی ہے۔

    احتیاطی تدابیر

    طبی ماہرین کے مطابق ایبولا سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر کے طور پر ہاتھ صابن سے دھوکر صاف ستھرے کپڑے سے خشک کرنا چاہئیں، بازار کے بنے مرغوب کھانے کھانے سے اجتناب کریں، گھر کے کونے صوفہ اور ببڈ کے نیچے وقفے وقفے سے جراثیم کُش ادویات کا اسپرے کریں، کمروں کی کھڑکیاں دروازے کھول کر سورج کی روشنی کا مناسب بندوبست کریں کیونکہ ایبولا کا جرثومہ جراثیم کش ادویات، گرمی، سورج کی براہ راست روشنی، صابن اور ڈٹرجنٹس کی موجودگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔

    بچاؤ کے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟

    اگر گھر میں کوئی جانور مر گیا ہے تواس کو فوراً گھر سے باہر منتقل کردیں کیوں کہ مردہ جانوروں کی لاشوں سے بھی یہ مرض پھیل سکتا ہے، پالتو جانوروں کی صحت کا خیال رکھیں اور گھر سے چوہوں کا خاتمہ ممکن بنائیں۔

    ایبولا سے موت کیسے ہوتی ہے؟

    ایبولا وائرس جسم میں داخل ہوکر مدافعتی نظام کو خبردار کرنے والے خلیوں پر بھاری پروٹین کی تہہ جما دیتا ہے جس کے باعث مدافعتی نظام تباہ ہوجاتا ہے اور  پھر یہ وائرس جسم میں تیزی سے افزائش کرتا ہے، نتیجتاً جسم کے اندرونی خلیے اور خون کی شریانیں تباہ ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور جگہ جگہ سے خون رسنے کے باعث مریض ہلاک ہوجاتا ہے۔

  • کلائمٹ چینج کی بدولت خطرناک امراض کی پہلے سے پیشگوئی ممکن

    کلائمٹ چینج کی بدولت خطرناک امراض کی پہلے سے پیشگوئی ممکن

    لندن: سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا ماڈل تیار کیا ہے جس کی مدد سے وہ موسم میں تغیر یا کلائمٹ چینج کو مدنظر رکھتے ہوئے خطرناک وبائی امراض کی پہلے سے پیشگوئی کر سکتے ہیں۔

    ان امراض میں ایبولا اور زیکا وائرس جیسے امراض شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ماڈل بیماریوں کے پھوٹنے سے قبل انہیں سمجھنے، اور حکومتوں کو ان کے مطابق طبی پالیسیاں بنانے میں مدد دے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ بیماریاں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ چمگاڈر خاص طور پر ایسی جاندار ہیں جو کئی چھوت کی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں۔

    ایبولا وائرس کی علامات اور بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر *

    واضح رہے کہ ایبولا اور زیکا وائرس جیسے جان لیوا امراض بھی جانوروں سے انسانوں میں پھیلے۔

    سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لیے مغربی افریقہ کے ان حصوں کا انتخاب کیا جہاں 1967 سے 2012 کے دوران ’لاسا بخار‘ پھیلا تھا۔ ماہرین نے اس جگہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں، فصلوں کی پیدوار میں تبدیلی، درجہ حرارت اور بارشوں کے سائیکل کا مطالعہ کیا۔

    کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر *

    ماہرین نے اس بخار کا سبب بننے والے چوہوں اور ان کے جسمانی ساخت پر اثر انداز ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھی مطالعہ کیا۔

    اس تحقیق میں مستقبل میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی پیش گوئیوں، آبادی، اور زمین کے استعمال میں تبدیلی کے بارے میں معلومات کو بھی شامل کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق انہوں نے تحقیق میں ان عوامل کو بھی شامل رکھا جن کے باعث انسان جانوروں سے رابطے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم *

    ماڈل کے ابتدائی نتائج کے مابق ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لاسا بخار 2070 تک شدت اختیار کرلے گا اور اس کے متاثرین کی تعداد دو گنا بڑھ جائے گی۔