Tag: ایبولا وائرس

  • افریقہ سے پھیلنے والے ‘خطرناک وائرس’ کا پاکستان میں داخل ہونے کا خطرہ

    افریقہ سے پھیلنے والے ‘خطرناک وائرس’ کا پاکستان میں داخل ہونے کا خطرہ

    اسلام آباد : افریقہ سے ایبولا وائرس کے پاکستان میں داخل ہونے کا خدشے کے پیش نظر انتباہی مراسلہ جاری کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق افریقی ملک یوگنڈا سے ایبولا وائرس کے پاکستان داخل ہونے کے خدشے کے پیش نظر قومی ادارہ صحت نے ایبولا وائرس بارے انتباہی مراسلہ جاری کر دیا۔

    جس میں قومی ادارہ صحت نے متعلقہ اداروں کو چوکنا رہنے کی ہدایت کی ہے۔

    ذرائع نے کہا ہے کہ قومی ادارہ صحت کی جانب سے وفاقی اداروں کو بھجوائے گئے انتباہی مراسلے کے مطابق گزشتہ ماہ یوگنڈا میں 36 ایبولا کیسز اور 23 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔

    ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ ایبولا انسانوں کو جینوس کے چار وائرس کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے، حالیہ دنوں میں ایبولا کے انسانوں میں حالیہ پھیلاو کی وجہ ایس یو ڈی وی وائرس ہے۔

    ایڈوائزری کے مطابق عالمی اور علاقائی سطح پر ایبولا کے پھیلاو کا خدشہ کم ظاہر کیا گیا ہے۔

    قومی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے یوگنڈا میں ایبولا کے پھیلاو کی کڑی مانیٹرنگ کے بعد یوگنڈ ا پر تجارتی اور سفری پابندیوں کی مخالفت کی ہے ۔

    قومی ادارہ صحت کی جانب سے ڈائریکٹوریٹ آف سنٹرل ہیلتھ اسٹیبلشمنٹ سمیت پاکستان کی تجارتی تنظیموں کو ایبولا کے حوالے سے چوکنا رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    ایڈوائزری میں فیڈرل سنٹرل ہیلتھ اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ یوگنڈا سے آنے والوں کی مانیٹرنگ کرے اور پاکستان داخل ہونے والے ایبولا کے مشتبہ کیس کی سنٹر فار ڈزیز کنٹرول کو فوری اطلاع دیں ۔

    قومی ادارہ صحت نے تاکید کی ہے کہ پاکستان داخل ہونے والے مشتبہ ایبولا کیس کو فوری قرنطینہ کیا جائے اور ٹیسٹنگ کیلئے مشتبہ مریض سے سیمپلز لیکر نیشنل گائیڈ لائنز کے تحت سی ڈی سی کو ارسال کئے جائیں۔

  • ایبولا وائرس دریافت کرنے والے ڈاکٹر نے دنیا کو وارننگ دے دی

    ایبولا وائرس دریافت کرنے والے ڈاکٹر نے دنیا کو وارننگ دے دی

    سنہ 1976 میں ایبولا وائرس کو دریافت کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ نئے وائرسز انسانیت کو اپنا نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں اور یہ ممکنہ طور پر کووڈ 19 سے کہیں زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر جین جیکس نے سنہ 1976 میں ایک پراسرار قسم کی بیماری کا شکار ہوجانے والے اولین افراد کے خون کے نمونے لیے تھے، اس بیماری کو بعد ازاں ایبولا وائرس کا نام دیا گیا تھا۔

    ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ دنیا لاتعداد وائرس کے نشانے پر ہے، افریقہ کے جنگلات سے نئے اور ممکنہ طور پر جان لیوا وائرسز ظاہر ہوسکتے ہیں اور یہ وائرس کووڈ 19 سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

    ادھر عوامی جمہوریہ کانگو میں ایک شخص کے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، ایک نئے قسم کے بخار کا شکار ہونے کی خبریں زیر گردش ہیں، ڈاکٹرز کے مطابق اس شخص کا ایبولا وائرس کا ٹیسٹ کیا گیا جو منفی آیا، جس کے بعد ڈاکٹرز نے اس پراسرار بیماری کو ڈیزیز ایکس کا نام دیا گیا جس کا مطلب کسی غیر متوقع بیماری کے ہیں۔

    ڈاکٹر جین کا کہنا ہے کہ ایسے لاتعداد وائرسز ہوسکتے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتے ہیں اور ان کی ہولناکی کہیں زیادہ ہوگی۔

    دنیا ابھی تک کئی ایسی بیماریوں سے واقف ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوجاتی ہیں، جیسے زرد بخار، ریبیز، انفلوئنزا وغیرہ۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں بیماریاں منتقل ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی قدرتی پناہ گاہوں یعنی جنگلات کا تیزی سے ختم ہونا اور ان کی تجارت ہے۔

    ماہرین کے مطابق جنگلات ختم ہونے سے بڑے جانوروں کو معدومی کا خدشہ ہوتا ہے تاہم چھوٹے جانور جیسے چوہا، چمگاڈر یا کیڑے مکوڑے سروائیو کر جاتے ہیں اور یہی وائرسز کو منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔

  • افریقی ملک نے دنیا کی دوسری مہلک ترین وبا سے چھٹکارا حاصل کرلیا

    افریقی ملک نے دنیا کی دوسری مہلک ترین وبا سے چھٹکارا حاصل کرلیا

    کنشاسا: افریقا کے وسطی ملک کانگو نے دو سال میں مہلک ترین وبا ایبولا وائرس سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کانگو کے حکام نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ انہوں نے دنیا کی دوسری مہلک ترین وبا کو بلآخر دو سال کے مختصر عرصے میں شکست دے دی۔

    وزیر صحت کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ کانگو میں گزشتہ دو سال کے دوران ایبولا سے 2 ہزار 277 اموات ہوئیں جو ملک کی 60 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ حکومتی اقدامات کے بعد گزشتہ 42 روز سے ایبولا کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا جبکہ متاثرہ مریض بھی تیزی سے صحت یاب ہورہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: جنوبی افریقہ سے ایبولاوائرس پاکستان منتقل ہونے کا خطرہ

    کانگو کے حکومتی ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ایبولا وائرس کو 1976 میں وبا قرار دیا گیا جس نے ملک کے شمال مغربی علاقوں میں تباہی مچائی اور سیکڑوں لوگ اس سے متاثر ہوئے۔

    جمہوریہ کانگو کی حکومت نے آج جمعرات کے روز خوش خبری سنائی کہ جس وبا نے صرف مغربی علاقے کے دو ہزار سے زائد انسانوں کی جان لی اُس کو ہم نے شکست دے دی ہے۔

    یاد رہے کہ افریقا کے مغربی ممالک میں 2013 سے 2016 کے درمیانی حصے میں ایبولا کی وجہ سے گیارہ ہزار تین سو سے زائد اموات ہوئیں۔

    ایبولا وائرس کیا ہے؟

    ایبولا ایک ایسا خطرناک وائرس ہے، جس میں مبتلا ستر فیصد مریضوں کی موت ہوجاتی ہیں۔

    ایبولا جسم میں کیسے داخل ہوتا ہے؟

     متاثرین کے خون میں تقریباً پانچ دن کے بعد اربوں کی تعداد میں ایبولا ذرات موجود ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان مریضوں کے خون یا ناک، منہ یا دیگر اعضاءسے خارج ہونے والی کسی بھی رطوبت کا شکار ہوجائے تو اس کے جسم میں بھی وائرس داخل ہوجاتا ہے۔

    وبا کا پھیلاؤ

    یہ وائرس خشک سطحوں جیسے کہ دروازے کا ہینڈل یا میز کی سطح پر بھی گھنٹوں زندہ رہ سکتا ہے اور تھوک، خون اور جنسی رطوبتوں میں بھی زندہ رہتا ہے لہٰذا جہاں بھی مریض کی یہ رطوبتیں موجود ہوں گی وہاں سے یہ دوسرے لوگوں میں منتقل ہوسکتا ہے، اہم بات یہ ہے کہ وائرس ہوا کے ذریعے نہیں پھیلتا۔

    ابتدائی علامات

    ایبولاوائرس کی ابتدائی علامات میں بخار ، گلے اور سر میں درد سرفہرست ہے، مریض متلی کے ساتھ ہاضمے کی خرابی میں مبتلا ہوجاتا ہے،جس کے بعد جوڑوں اور پٹھوں میں درد، خارش، اور بھوک میں کمی کے علاوہ جگر اور گردوں کی کارکردگی متاثرہو تی ہے۔

    احتیاطی تدابیر

    طبی ماہرین کے مطابق ایبولا سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر کے طور پر ہاتھ صابن سے دھوکر صاف ستھرے کپڑے سے خشک کرنا چاہئیں، بازار کے بنے مرغوب کھانے کھانے سے اجتناب کریں، گھر کے کونے صوفہ اور ببڈ کے نیچے وقفے وقفے سے جراثیم کُش ادویات کا اسپرے کریں، کمروں کی کھڑکیاں دروازے کھول کر سورج کی روشنی کا مناسب بندوبست کریں کیونکہ ایبولا کا جرثومہ جراثیم کش ادویات، گرمی، سورج کی براہ راست روشنی، صابن اور ڈٹرجنٹس کی موجودگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔

    بچاؤ کے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟

    اگر گھر میں کوئی جانور مر گیا ہے تواس کو فوراً گھر سے باہر منتقل کردیں کیوں کہ مردہ جانوروں کی لاشوں سے بھی یہ مرض پھیل سکتا ہے، پالتو جانوروں کی صحت کا خیال رکھیں اور گھر سے چوہوں کا خاتمہ ممکن بنائیں۔

    ایبولا سے موت کیسے ہوتی ہے؟

    ایبولا وائرس جسم میں داخل ہوکر مدافعتی نظام کو خبردار کرنے والے خلیوں پر بھاری پروٹین کی تہہ جما دیتا ہے جس کے باعث مدافعتی نظام تباہ ہوجاتا ہے اور  پھر یہ وائرس جسم میں تیزی سے افزائش کرتا ہے، نتیجتاً جسم کے اندرونی خلیے اور خون کی شریانیں تباہ ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور جگہ جگہ سے خون رسنے کے باعث مریض ہلاک ہوجاتا ہے۔

  • ایبولا وائرس کی روک تھام، چین کا 15 لاکھ ڈالر کا عطیہ

    ایبولا وائرس کی روک تھام، چین کا 15 لاکھ ڈالر کا عطیہ

    جوبا: چین کی حکومت نے جنوبی سوڈان میں پھیلنے والے ایبولا وائرس کو قابو کرنے کے لیے 15 لاکھ امریکی ڈالر کی امداد عطیہ کردی۔

    تفصیلات کے مطابق چینی حکام کی سوڈان کے دارالحکومت میں حکومتی نمائندوں سے ملاقات ہوئی جس میں جنوبی سوڈان میں پھیلنے والی بیماری (ایبولا) وائرس سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

    جنوبی سوڈان میں پھیلنے والے ایبولا وائرس کی وجہ سے اب تک بچوں اور خواتین سمیت سیکڑوں سوڈانی شہری ہلاک ہوچکے جبکہ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد اس بیماری سے متاثر ہورہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: سعودی عرب کی سوڈان کے لیے خصوصی امداد خرطوم پہنچادی گئی

    سوڈان کے وزیر صحت ریک گئی کوک کا کہنا تھا کہ ’چین کی حکومت نے 1.5 ملین ڈالر کی امداد کر کے پڑوسی ہونے کا حق ادا کردیا‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’چینی وفد نے جمعرات کے روز جنوبی علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرہ افراد سے ملاقات بھی کی‘۔

    وزیرصحت کا کہنا تھا کہ ’چین کی طرف سے ملنے والی امداد سے ایمبولینسس خریدی جائیں گی اس کے علاوہ جدید طبی مراکز بھی قائم کیے جائیں گے تاکہ شہریوں کو بروقت علاج و معالجے کی سہولیات فراہم کی جاسکیں‘۔

    یہ بھی پڑھیں: ماہرین نے ایبولا وائرس کی تشخیص 15 منٹ میں ممکن بنا دی

    اُن کا کہنا تھا کہ ’سوڈانی حکومت اور عوام مشکل کی اس گھڑی میں چین کی جانب سے دی جانے والی امداد پر اُن کا نہ صرف شکریہ ادا کرتی ہے بلکہ اسے بہت بڑا احسان بھی سمجھتی ہے‘۔

    کوک کا مزید کہنا تھا کہ ’چین نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر اُس وقت ہماری مدد کی جب سوڈان کے شہری بے یارومددگار ہیں۔

    اس موقع پر چینی وفد کا کہنا تھا کہ ’جنوبی سوڈان میں پھیلنے والی مہلک بیماری ہم سب کے لیے باعث تشویش ہے، آئندہ بھی صحت کے شعبے کے لیے چین کی طرف سے امداد دی جائے گی تاکہ انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جاسکے‘۔

    اسے بھی پڑھیں: جنوبی سوڈان قحط زدہ ملک قرار

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق سوڈان کا جنوبی علاقہ دنیا کے اُن چار خطرناک ترین علاقوں میں سے ایک ہے جہاں ایبولا وائرس کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد میں اموات ہورہی ہیں‘۔

    ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق رواں برس صرف اگست کے مہینے میں 120 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جنہیں اگر بروقت طبی امداد دی جاتیں تو شاید اُن کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکتا تھا۔

  • ماہرین نے ایبولا وائرس کی تشخیص 15 منٹ میں ممکن بنا دی

    ماہرین نے ایبولا وائرس کی تشخیص 15 منٹ میں ممکن بنا دی

    گنی: افریقی ملک گنی میں ایبولا وائرس کی تشخیص کے لیے ایک نئے ٹیسٹ کا تجربہ کیا جا رہا ہے ،جس میں تھوک اور خون کے نمونوں سے اس کا پتہ چلایا جا سکے گا، شمسی توانائی کے استعمال سے چلنے والی نئی لیبارٹری سے مغربی افریقہ میں جس طریقے سے اس وقت ایبولا کی تشخیص کی جا رہی ہے، اس سے چھ گنا کم وقت میں ایبولا کی تشخیص ممکن ہوسکے گی۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس کی کم سے کم وقت میں تشخیص سے اس کے مریضوں کے بچنے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور اس وائرس کے پھیلنے کے امکانات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

    یہ نیا ٹیسٹ گنی کے شہر کوناکری کے ایبولا کے علاج کے مرکز میں تجرباتی طور پر کیا جائے گا، روایتی طریقے سے ایبولا کے جراثیم کا پتہ مریض کے خون میں موجود ایبولا وائرس کے جنیاتی اجزاء کو ڈھونڈ کر کیا جاتا ہے۔

    تحقیق کاروں نے اس بات کو مدِ نظر رکھا کہ کس طرح دور دراز کے ہسپتالوں میں جہاں طبی سہولیات کی اکثر کمی رہتی ہے، وہاں ایبولا کا ٹیسٹ کسی طرح کرایا جائے لیکن اس کے لیے مخصوص لیبارٹریوں کی ضرورت پڑتی ہے، جہاں ٹیسٹ کے اجزاء کو انتہائی کم درجۂ حرارت پر رکھا جا سکے۔

    کوناکری میں تجرباتی مرحلے میں ان مریضوں کا نئے طریقہ سے ٹیسٹ کیا جائے گا، جن کے بارے میں پہلے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ایبولا سے متاثر ہیں، شمسی توانائی سے چلنے والی ایک سوٹ کیس کے سائز کی اس نئی لیبارٹری کو ہر جگہ لے جایا جاسکتا ہے اور اسے سینیگال کے شہر ڈاکار میں پاسچر انسٹی ٹیوٹ کی رہنمائی میں چلایا جارہا ہے، یہ لیبارٹری کمرے کے درجۂ حرارت پر بھی کام کر سکتی ہے۔

    اس منصوبے کے لیے سرمایہ برطانیہ کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے اور ویلکم ٹرسٹ میڈیکل کا خیراتی ادارہ فراہم کر رہے ہیں، ویلکم ٹرسٹ کے ڈاکٹر وال سیون نے کہا کہ 15 منٹ میں ایک قابلِ اعتبار ٹیسٹ سے ایبولا کی وباء کو کنٹرول کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے، جس سے مریضوں کی نشاندہی انھیں الگ کرنے اور ان کا علاج کرنا ممکن ہو سکے گا۔

    اس سے مریضوں کے صحت یاب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے اور ایبولا کا وائرس دوسرے لوگوں تک منتقل ہونے سے روکا جا سکے گا۔

  • کراچی: نائیجرین مسافر کو ایبولا وائرس کے شبے میں ایئرپورٹ پر روک لیا گیا

    کراچی: نائیجرین مسافر کو ایبولا وائرس کے شبے میں ایئرپورٹ پر روک لیا گیا

    کراچی: نائیجریا سے آنے والے مسافر کو ایبولا وائرس کے شبے میں کراچی ایئرپورٹ پر محکمہ صحت کے حکام نے روک لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مسافر محمد ہارون کو ایئرپورٹ پر موجود ڈاکٹروں نے چیک کیا اور اسے جناح اسپتال منتقل کردیا گیا۔ ایئرپورٹ حکام کے مطابق 45 سالہ محمد ہارون نائیجریا سے کراچی ایئرپورٹ پہنچے تھے جہاں انہین تیز بخار کے باعث ابتدائی معائنے کے بعد جناح اسپتال کے آئسولیشن وارڈ منتقل کردیا گیا ہے۔

    ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق حتمی طور پر ایبولا وائرس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے، متاثرہ شخص کے ٹیسٹ کیے جائیں گے جس کے بعد حتمی رپورٹ سامنے آئے گی۔

    انہوں نے بتایا کہ صوبہ سندھ سمیت ملک بھر میں ابیولا وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

  • ایبولا وائرس کی علامات اور بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر

    ایبولا وائرس کی علامات اور بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر

    ایبولاوائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے بچاؤ کیلئے کیا احتیاطی تدبیر اختیار کرنا چاہئے۔

    ایبولا ایک ایسا خطرناک وائرس ہے، جس میں مبتلا ستر فیصد مریضوں کی موت ہوجاتی ہیں، ایبولاوائرس کی ابتدائی علامات میں بخار ، گلے اور سر میں درد سرفہرست ہے، مریض متلی کے ساتھ ہاضمے کی خرابی میں مبتلا ہوجاتا ہے،جس کے بعد جوڑوں اور پٹھوں میں درد، خارش، اور بھوک میں کمی کے علاوہ جگر اور گردوں کی کارکردگی متاثرہو جاتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ایبولا سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر کے طور پر ہاتھ صابن سے دھوکر صاف ستھرے کپڑے سے خشک کرنا چاہئیں، بازار کے بنے مرغوب کھانے کھانے سے اجتناب کریں، گھر کے کونے صوفہ اور ببڈ کے نیچے وقفے وقفے سے جراثیم کُش ادویات کا اسپرے کریں، کمروں کی کھڑکیاں دروازے کھول کر سورج کی روشنی کا مناسب بندوبست کریں کیونکہ ایبولا کا جرثومہ جراثیم کش ادویات، گرمی، سورج کی براہ راست روشنی، صابن اور ڈٹرجنٹس کی موجودگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔

    اگر گھر میں کوئی جانور مر گیا ہے تواس کو فوراً گھر سے باہر منتقل کردیں کیوں کہ مردہ جانوروں کی لاشوں سے بھی یہ مرض پھیل سکتا ہے، پالتو جانوروں کی صحت کا خیال رکھیں اور گھر سے چوہوں کا خاتمہ ممکن بنائیں۔

  • افریقا سے آنے والے چنیوٹ کے شہری میں ایبولا وائرس ہونے کا خدشہ

    افریقا سے آنے والے چنیوٹ کے شہری میں ایبولا وائرس ہونے کا خدشہ

    چنیوٹ : ایک شخص میں ایبولاوائرس کا خدشہ ظاہرکیا جارہا ہے، ذوالفقارنامی شخص کے خون کے نمونے ٹیسٹ کیلئے اسلام آباد بھجوا دیئے گئے۔

    پاکستانی پولیو،خسرہ اورڈینگی جیسے امراض نمٹ نہیں پائے کہ ایبولانے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ افریقا سے آئے ہوئےچنیوٹ کےشہری میں ایبولاوائرس کاخدشہ ظاہرکیاجارہاہے،ایک ماہ پہلے وطن لوٹنے والے ذوالفقار کے خون کے نمونے تشخیص کیلئے اسلام آباد بھجوا دیئے گئے ہیں ۔

    ایم ایس الائیڈاسپتال کاکہناہےذوالفقار ایبولاوائرس کا شکار نہیں، فیصل آباد کے اسپتال میں زیرعلاج ذوالفقار کو آئی سولیشن وارڈ میں منتقل کردیاگیاہے،محکمہ صحت پنجاب نے ابیولا وائرس کے مبینہ مریض کی خبرپرنوٹس لیتے خصوصی احتیاط برتنےکی ہدایت کردی۔

    ایبولاوائرس سے بچاؤ کے اقدامات کاجائزہ لینے کیلئے عالمی ادارہ صحت کی پانچ رکنی ٹیم بھی تین روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئی ہے۔ جو آج چنیوٹ جائےگی اور مبینہ طورپرمتاثرہ شخص اور اہلخانہ کاٹیسٹ کریں گے، ایبولاوائرس سےجنوبی افریقا سمیت کئی ممالک میں پانچ ہزار سے زائد افراد جان گنواچکے ہیں۔

  • اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت صوبوں کا معاملہ ہے، سائرہ افضل تارڑ

    اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت صوبوں کا معاملہ ہے، سائرہ افضل تارڑ

    اسلام آباد: وزیر مملکت قومی صحت سائرہ افضل تارڑنے کہا ہے اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت صوبوں کا معاملہ ہے، تھر کا مسئلہ راتوں رات حل نہیں ہو سکتا ۔

    اسلام آباد میں تھر کے حوالے سے جائزہ اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس کے دوران سائرہ افضل تارڑ کا کہنا تھا تھر کا مسئلہ راتوں رات حل ہونے والا نہیں ہے تھر کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پانچ سالہ جامع منصوبہ بنانا ہو گا، وزیر اعظم نے تھر کے حوالے سے جامع رپورٹ طلب کی ہے ۔

    ان کا کہنا تھا تھر کے مسئلے پر پاک فوج سے نہیں بلکہ این ڈی ایم اے سے تعاون لیں گے، ان کا کہنا تھا اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت کا معاملہ صوبوں کا ہے لیکن وفاق تھر کے معاملے پر سندھ کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

  • ایبولا وائرس، چاکلیٹ کی سپلائی کے لئے خطرہ پیدا ہوگیا ہے

    ایبولا وائرس، چاکلیٹ کی سپلائی کے لئے خطرہ پیدا ہوگیا ہے

    جوہانسبرگ : ایبولا وائرس آنے سے دنیا بھر میں چاکلیٹ کی سپلائی کے لئے خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

    آ ئیوری کوسٹ جو دنیا میں سب سے بڑا کوکا پیدا کرنے والا ملک ہے ، لائبیریا اور گِنی کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کرلی ہیں، مغربی افریقی قوم جو تقریباً بیس ملین کے لگ بھگ ہے، پہلے ہی اس بات سے آگاہ ہے کہ اب تک صرف ایبولا وائرس کا ایک ہی کیس سامنے آیا ہے جبکہ اس کی وباء سے پہلے ہی اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

    دنیا بھر کے چاکلیٹ بنانے والوں نے اس امر کا نوٹس لے لیا ہے، اس ضمن میں ورلڈ کوکا فاونڈیشن اب نیسلے، مارس اور دیگر ممبران سے اس کی کوکا انڈسٹری کے لئے فنڈ اکٹھا کر رہی ہے تاکہ ایبولا کے خلاف پہلا قدم اٹھایا جاسکے، جس کو عوامی سطح پر بے نقاب کر دیا گیا ہے۔

    اس سلسلے میں  ایبولا وائرس سے متاثرہ افراد کی حدود اور اس کے پھیلاکی روک تھام کے بارے میں ڈبلیو ایف سی نے اپنی سالانہ میٹنگ میں اپنی تفصیلات کا اعلان کرے گی ، ڈبلیو ایف سی کا ممبر ہونے کے ناطے اس صنعت کو ایبولا کی روک تھام کے سلسلے میں اکٹھے کام کرتے دیکھ کر مارس کمپنی نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔