Tag: ایجاد

  • دنیا کو بچانے کا مشن: سائنسدانوں نے انوکھی گائے ایجاد کر لی!

    دنیا کو بچانے کا مشن: سائنسدانوں نے انوکھی گائے ایجاد کر لی!

    دنیا کو بچانے کے لیے سائنسدانوں نے حیرت انگیز کارنامہ انجام دیتے ہوئے ماحول دوست منفرد گائے تیار کر لی ہے۔

    دنیا کو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی سے خطرات لاحق ہیں اور سائنسدان زندگی رکھنے والے اس واحد کرہ ارض کو بچانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش میں سائنسدانوں نے منفرد ماحول دوست گائے تیار کی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں سائنسدانوں کے ایک گروپ نے ایسی خاص گائے تیار کی ہے جو گیس کا اخراج نہیں کرتی اور سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ماحول دوست گائے دنیا کو بچانے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔

    اس خاص گائے کو کول گائے (Cool Cow) کا نام دیا گیا ہے اور ماہرین نے اس گائے کو IVF نامی خصوصی زرخیزی سے تیار کیا ہے۔ سائنس دانوں نے اس کے لیے ایک خاص تیکنیک کا استعمال کیا اور مادہ ہلڈا گائے کے جینز کو لیبارٹری میں فرٹیلائز کیا۔

    سائنسدانوں کے گائے کی افزائش کے لیے آئی وی ایف (IVF) کے اس کامیاب تجربے میں ریوڑ کی اگلی نسل 8 ماہ قبل تیار ہو جاتی ہے۔ یہ نسل ڈیری انڈسٹری کو اپنے ماحولیاتی خدشات کو کم کرنے میں مدد دے سکے گی۔

    پروفیسر رچرڈ ڈیوہرسٹ نے کہا کہ اس خاص گائے کی پیدائش ممکنہ طور پر برطانیہ کی ڈیری انڈسٹری کے لیے ایک انتہائی اہم لمحہ قرار دیا ہے۔

  • جب میں دیکھتا ہوں تو۔۔۔۔۔ موبائل فون ایجاد کرنے والا انجینئر آج خود ہی پریشان

    جب میں دیکھتا ہوں تو۔۔۔۔۔ موبائل فون ایجاد کرنے والا انجینئر آج خود ہی پریشان

    آجکل جسے دیکھو اس کے ہاتھ میں موبائل فون ہے اور وہ اس کی دنیا میں گُم ہے۔ ایسالگتاہے موبائل فون ہمارے جسم کا ایک حصہ ہے اور ہماری عادتوں میں شامل ہے، بہت سے لوگوں کیلئے یہ کسی علت سے کم نہیں۔

     سوتے، جاگتے، کھاتے، پیتے، اٹھتے، بیٹھتے، یہاں تک کہ واش روم میں بھی موبائل فون کا استعمال اس قد رعام ہے کہ ایسا لگتاہے جیسے آپ موبائل فون استعمال نہیں کررہے بلکہ موبائل فون آپ کو استعمال کررہاہے جسے دیکھ کر موبائل فون کے بانی بھی پریشان ہوگئے۔

    غیرملکی میڈیا کے مطابق 50 سال پہلے موبائل فون ایجاد کرنے والے 94 سالہ مارٹن کوپر نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ موبائل فون کی اسکرین کو بہت زیادہ دیکھتے ہیں۔

    خبردار! موبائل فونز بیچتے وقت یہ اقدامات ضرور کرلیں

    کیلیفورنیا میں اپنے دفتر میں غیرملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی انجینئر ’ موبائل فون کے بانی‘ مارٹن کوپر نے کہا کہ ہم سب کی جیبوں میں جو صاف ستھرا آلہ ہے اس میں تقریباً لامحدود صلاحیت موجود ہے مجھے لگتا ہے یہ ایک دن بیماریوں پر قابو پانے کے لیے بھی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔

    ’ لیکن لوگ اسے ایک جنون کی طرح استعمال کررہے ہیں، انہون نے ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ جب میں کسی کو سڑک پار کرتے ہوئے جب میں موبائل فون استعمال کرتے دیکھتا ہوں تو میں حیران رہ جاتا ہوں، ایسے لوگوں کا دماغ خراب ہے ایسے لوگوں پر جب گاڑی چڑھ دوڑے گی پھر انہیں پتا چلے گا۔

    مارٹن کوپر کہتے ہیں سیل فون کو اس طرح استعمال کرنا میں کبھی نہیں سمجھ سکوں گا جس طرح میرے پوتے اور نواسے کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ دنیا کا پہلا موبائل فون موٹرولا کا ڈینا ٹیک 8000 ایکس تھا جسے 1983 میں اس کمپنی کے ایک سنیئر عہدیدار مارٹن کوپر نے تیار کیا تھا اس فون میں صرف 30 نمبروں کو اسٹور کیا جاسکتا تھا جبکہ اس کا وزن 1.1 کلو گرام جس سے 30 منٹ تک بات کی جاسکتی ہے۔

  • فالج کے مریضوں کے لیے امید کی کرن

    فالج کے مریضوں کے لیے امید کی کرن

    امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلا نے ایسی ڈیوائس بنا لی جو فالج کے مریضوں کے لیے امید کی کرن ثابت ہوسکتی ہے، اس ڈیوائس کا جلد انسانوں پر تجربہ کیا جائے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ٹیسلا کے بانی ایلن مسک کی کمپنی نیورا لنک نے فالج کے مریضوں کے لیے ایک مددگار ایجاد کی ہے، یہ نئی ٹیکنالوجی دماغ کے لیے بلو ٹوتھ سے آراستہ ایک چپ ہے جسے دماغ کے دونوں جانب نصب کیا جاتا ہے۔

    ایلن مسک کی ٹیکنالوجی کمپنی کی جانب سے ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں بندر کو دماغ کا استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر گیم پونگ کھیلتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو میں 9 سالہ مکاؤ بندر کمپیوٹر میں گیم کھیلتے دیکھا جاسکتا ہے، کمپنی کے مطابق بندر کے دماغ کے دونوں اطراف ڈیوائسز لگائی گئیں۔

    نیورا لنک نے مختصر ریسیور کے ذریعے کمپیوٹر سے ابلاغ کرنے والی اور دماغ میں نصب کی جانے والی چپ متعارف کروائی ہے جو اس سے قبل بھی جانوروں میں متعارف کروائی جاچکی ہے۔

    ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ جانور نے نلکی کے ذریعے بنانا اسموتھی کے لیے کمپیوٹر چلانا سیکھ لیا، ویڈیو میں بندر کو جوائے اسٹک کے ذریعے آن اسکرین کرسر چلاتے بھی دکھایا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق نیورا لنک ڈیوائسز بندر کے برین موٹر کارٹیکس میں نصب کیے گئے 2000 الیکٹروڈ کے ذریعے دماغ کی نقل و حرکت کا ریکارڈ رکھتے ہوئے بازو کو منظم کرتا ہے۔

    ایلن مسک کا کہنا ہے کہ جلد انسانوں میں بھی اس کے تجربات کا اعلان کیا جائے گا، کامیاب تجربات کے بعد ایسی پروڈکٹ بھی جلد لائی جائیں گی جو فالج سے متاثرہ افراد کے لیے اسمارٹ فون استعمال کرنا ممکن بناسکیں گی۔

  • سعودی طلبا کا اہم کارنامہ

    سعودی طلبا کا اہم کارنامہ

    ریاض: سعودی عرب میں طلبا نے کرونا وائرس کی مانیٹرنگ کا آلہ تیار کرلیا، آلے کی مدد سے کسی مقام پر آنے والے افراد کو اسکین کیا جاسکتا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی طلبا کے ایک گروپ نے ایسا آلہ تیار کیا ہے جو پبلک مقامات جیسے کلینک وغیرہ پر مریضوں کے پہنچتے ہی انہیں سکین کرتا ہے اور اگر ان کا ٹمپریچر غیر معمولی ہو تو فوراً عملے کو الرٹ کر دیتا ہے۔

    یہ ڈیوائس درجہ حرارت معلوم کرنے کے فوراً بعد اسے سینی ٹائزنگ کے عمل سے جوڑتی ہے جس میں موجود الٹرا وائلٹ شعاعیں والٹ اور موبائل فون جیسی اشیا کو سینی ٹائز کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

    صنعتی الیکڑانکس اور انجینئرنگ کی تعلیم سے وابستہ طالب علم عادل التوبیتی کا کہنا ہے کہ ٹیم وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد کرنے کی خواہش کی وجہ سے اس پر کام کرنا چاہتی تھی۔

    ٹیلی کام اینڈ الیکڑانکس کالج کے طلبا نے یہ آلہ گریجویشن پروجیکٹ کے طور پر تیار کیا ہے، طلبا کے پروفیسر السوریہی کا کہنا ہے کہ ہم کسی ایسی چیز پر کام کرنا چاہتے تھے جو لوگوں کی خدمت کے لیے کارآمد ثابت ہو سکے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ صحت کے عام اصولوں کو یقینی بنانا اب بے حد ضروری ہوگیا ہے، ذاتی طور پر جانچ کرنے کے روایتی طریقوں کی جگہ کچھ ایسی چیزوں کا استعمال کرنا چاہیئے جو زیادہ مناسب ہو۔

    ٹیم کے مطابق اس منصوبے کو 2 ماہ میں مکمل کیا گیا ہے اور اب یہ مارکیٹنگ اور فروخت کے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔

  • سائنس کا عالمی دن: ایجادات کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن میں بہتری

    سائنس کا عالمی دن: ایجادات کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن میں بہتری

    دنیا بھر میں آج سائنس (سائنس برائے امن و ترقی) کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان گلوبل انوویشن انڈیکس کی فہرست میں 113 سے 107 ویں نمبر پر جا پہنچا ہے تاہم اب بھی ملک میں سائنسی سوچ اور تعلیم کے فروغ کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے اس دن کو منانے کا مقصد سائنس کے فیوض و برکات کا اعتراف کرنا اور دنیا بھر کو اس کے مثبت اثرات سے آگاہی دینا ہے، رواں برس اس دن کا مرکزی خیال عالمی وبا (کرونا وائرس) کے تناظر میں سائنس کی اہمیت کا اعتراف کرنا ہے۔

    آج کیسویں صدی میں ایسے افراد موجود ہیں جو سائنس کو برا کہتے ہیں اور اس ضمن میں سب سے پہلا نام اسلحے اور جان لیوا ایجادت جیسے جنگی ہتھیاروں کا لیتے ہیں۔

    سائنس دراصل بذات خود بری یا اچھی شے نہیں۔ یہ اس کے استعمال کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اسے نسل انسانی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کریں یا دنیا کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیلنے کے لیے۔

    دنیا کو فائدہ پہنچانے والی سائنسی ایجادات کرنے والے سائنس دان انسایت کے محسن کہلائے۔ جیسے جان لیوا امراض سے بچاؤ کی دوائیں یا ایسی ایجادات جس سے انسان تکلیف اور جہالت سے گزر کر آسانی اور روشنی میں آپہنچا۔

    پاکستان ان بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں سائنسی تعلیم کا رجحان بہت کم ہے اور یہ دنیا میں سب سے کم سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔

    گلوبل انوویشن انڈیکس کی سنہ 2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کی سب سے کم سائنسی ایجادات تخلیق کی جاتی ہیں اور اس ضمن میں 131 ممالک میں پاکستان کا نمبر 107 واں ہے۔

    اس فہرست میں سب سے پہلا نمبر سوئٹزر لینڈ کا ہے جہاں دنیا کی سب سے ایجادات اور سائنسی تحقیقات کی جاتی ہیں۔

    سنہ 2017 میں پاکستان کی پوزیشن 113 تھی جو اب 107 ہوچکی ہے تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ملک میں سائنسی تعلیم کا منظر نامہ آئیڈیل ہوچکا ہے۔

    پاکستان سائنس کے شعبہ میں ایک قابل فخر نام پیدا کرنے کا اعزاز ضرور رکھتا ہے جن کی ذہانت کا اعتراف دنیا بھر نے کیا۔ فزکس کے شعبہ میں اہم تحقیق کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی ہیں جن کی خدمات کے اعتراف میں انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

    ایک اور نام پاکستانی نژاد نرگس ماولہ والا کا ہے جو اب دنیا کی صف اول کی درسگاہ میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی ڈین بن چکی ہیں۔

    اس وقت ملک کے طول و عرض میں بے شمار ایسے طالبعلم ہیں جو سائنس کے میدان میں جھنڈے گاڑ رہے ہیں، اگر انہیں جدید تعلیم، درست رہنمائی اور دیگر سہولیات دی جائیں تو بلا شبہ وہ بھی ڈاکٹر عبدالسلام کی طرح دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔

  • حادثاتی طور پر ایجاد ہونے والا آلہ جس نے لاکھوں افراد کی جانیں بچائیں

    حادثاتی طور پر ایجاد ہونے والا آلہ جس نے لاکھوں افراد کی جانیں بچائیں

    پیس میکر ایک ایسا آلہ ہے جو برقی طور پر دل کی دھڑکن اور رفتار کو کنٹرول کرتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں اس پیس میکر کی ایجاد حادثاتی طور پر ہوئی اور یہ ایجاد دراصل ایک اور ایجاد میں کی جانے والی غلطی کا نتیجہ تھی؟

    سنہ 1958 میں ایک امریکی انجینیئر ولسن گریٹ بیچ انسانی دل کی دھڑکن کو سننا اور ریکارڈ کرنا چاہتا تھا جس کے لیے اس نے ایک مشین بنائی۔

    لیکن ولسن نے اس مشین میں ایک پرزے ریززٹر کا غلط سائز نصب کردیا، جب یہ مشین کام کرنا شروع ہوئی تو یہ دل کی دھڑکن کو ریکارڈ کرنے کے بجائے الٹا اسے ایک برقی دھڑکن (توانائی کی ایک لہر) دینے لگی۔

    تب ہی ولسن پر انکشاف ہوا کہ وہ غلطی سے ایسی مشین ایجاد کر بیٹھا ہے جو ان افراد کو مصنوعی دھڑکن دے سکتی ہے جو امراض قلب کا شکار ہوں۔

    ولسن نے اس مشین کی صلاحیت کو مزید جانچنے کے لیے کئی کتوں پر آزمایا اور ہر بار مشین نے کامیابی سے کام کیا۔

    پیس میکر کیسے کام کرتا ہے؟

    ہمارا دل ایک پمپ کی طرح کام کرتا ہے جو خون کو جسم کی طرف دھکیلتا ہے۔ دل کی دھڑکن کی رفتار میں توازن قائم رکھنے کے لیے دل کا قدرتی برقی نظام کام کرتا ہے۔

    دل کے اوپر کے حصے سے جسے سائنوٹریل نوڈ کہا جاتا ہے، ایک برقی تحریک شروع ہوتی ہے۔ اس برقی تحریک سے دل کے مختلف حصے ایک کے بعد ایک حرکت کرتے ہیں اور یوں پورے جسم میں خون کی روانی جاری رہتی ہے۔

    تاہم بعض اوقات سائنوٹریل نوڈ خرابی کا شکار ہوجاتا ہے جس کے بعد دل کو مصنوعی طور پر تحریک دی جاتی ہے اور یہ کام پیس میکر انجام دیتا ہے۔

    پیس میکر کی حادثاتی ایجاد سے لے کر اب تک 6 دہائیوں میں اس مشین کی وجہ سے لاکھوں افراد کی جانیں بچ چکی ہیں۔

  • قصہ ایک کامیاب ایجاد کا ۔ اور اس کے ناکام موجد کا

    قصہ ایک کامیاب ایجاد کا ۔ اور اس کے ناکام موجد کا

    انسانی زندگیوں میں تبدیلی لانے والی سائنسی ایجادات اپنے موجد کو رہتی دنیا تک امر کر جاتی ہیں اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد انہیں اپنا آئیڈیل بنائے رکھتے ہیں، تاہم کچھ موجد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ایجاد تو نہایت دھماکہ خیز ہوتی ہے لیکن انہیں وہ پہچان نہیں مل پاتی جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک موجد ڈگلس اینگلبرٹ بھی تھا، بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ وہ ہمارے آج کل کے کمپیوٹرز کا اہم حصہ، یعنی ماؤس کا موجد تھا۔

    ڈگلس اینگلبرٹ سنہ 1960 میں امریکا کے اسٹینڈ فورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ منسلک تھا، اس وقت تک کمپیوٹر کو جوائے اسٹک اور کی بورڈ کے ذریعے استعمال کیا جاتا تھا، تاہم ڈگلس کو یہ آلات ناپسند تھے۔

    اس نے سوچ بچار کے بعد ایک ایسی ڈیوائس ایجاد کی جو اسکرین پر کرسر کے ذریعے کام کرتی تھی، اس کا نام دا بگ رکھا گیا۔ یہ کمپیوٹر ماؤس کی ابتدائی شکل تھی۔

    اس ایجاد پرمثبت ردعمل سامنے آتا رہا، سنہ 1966 میں امریکی خلائی ادارے ناسا نے اسے استعمال کیا تو انہوں نے اسے ایک بہترین ٹیکنالوجی قرار دیا۔

    2 سال بعد ڈگلس نے اپنے ایک ساتھی بل انگلش کے ساتھ اسے سان فرانسسکو کے سائنسی میلے میں 1 ہزار افراد کے سامنے پیش کیا۔ اس وقت اس کے ڈیمو کو تمام ڈیموز کی ماں قرار دیا گیا۔

    یہ طے تھا کہ آنے والے وقت میں دا بگ ایک اہم شے بننے والا تھا۔

    5 سال بعد ڈگلس اسٹینڈ فورڈ ریسرچ سینٹر چھوڑ کر ایک امریکی ڈیجیٹل کمپنی زیروکس کے ساتھ منسلک ہوگیا۔

    سنہ 1979 میں ایک شخص نے زیروکس کو اپنی کمپنی میں شیئرز لگانے کی پیشکش کی اور بدلے میں زیروکس کے ریسرچ سینٹر تک رسائی چاہی، یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ اسٹیو جابز تھا اور اس کی کمپنی ایپل تھی۔

    زیروکس کے ریسرچ سینٹر میں جابز کو ماؤس کا آئیڈیا بے حد پسند آیا اور اس کے وژن نے لمحے میں بھانپ لیا کہ یہ آنے والے وقتوں کی اہم ایجاد ثابت ہوسکتی ہے۔

    جابز نے اپنی کمپنی کے انجینیئرز کو تمام کام روک دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ اس ڈیوائس کو نئے سرے سے بنا کر، اسے اپ گریڈ کر کے، ایپل کی پروڈکٹ کی حیثیت سے ری لانچ کیا جائے۔

    اس وقت تک اس پروڈکٹ (ماؤس) کا پیٹنٹ یعنی جملہ حقوق اسٹینڈ فورڈ ریسرچ سینٹر کے پاس تھے، اسٹیو جابز اسے اپنی کمپنی کی پروڈکٹ کی حیثیت سے لانچ کرنے جارہا تھا اور اس کا اصل موجد یعنی ڈگلس اینگلبرٹ دم سادھے یہ ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔

    ایپل کا ری لانچ کیا ہوا ماؤس

    یہ یقینی تھا کہ تہلکہ مچا دینے والی اس ایجاد کا مستقبل میں ڈگلس کو کوئی منافع نہیں ملنے والا تھا۔

    ڈگلس غریب کا آئیڈیا تو بے حد شاندار تھا، تاہم وہ اس آئیڈیے کو وہ وسعت پرواز نہیں دے سکا جو اسے ملنی چاہیئے تھی۔ یوں کہیئے کہ یہ بڑی ایجاد اس کے چھوٹے خوابوں سے کہیں آگے کی چیز تھی۔

    اسے نصیب کا ہیر پھیر کہیئے یا وژن کی محرومی، ڈگلس اپنی ایجاد کی اہمیت کا ادراک نہیں کرسکا، اور بلند حوصلہ، پرجوش اور آنے والے وقتوں کی بصارت رکھنے والا وژنری اسٹیو جابز اس ایجاد کو اپنے نام کر گیا۔

  • چار مویشیوں‌ کی وجہ سے ایجاد ہونے والا انگریزی زبان کا ایک لفظ

    چار مویشیوں‌ کی وجہ سے ایجاد ہونے والا انگریزی زبان کا ایک لفظ

    ٹیکساس ایک وسیع و عریض ریاست ہے جس نے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال قبل ریاست ہائے متحدہ سے ناتا جوڑا تھا اور اب یہ امریکا کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔

    وسیع سبزہ زاروں پر مشتمل اس علاقے کی زمین انتہائی زرخیز تھی۔ اپنی اسی خصوصیت کی وجہ سے یہ چراگاہوں کے لیے بھی نہایت موزوں علاقہ تھا۔ تاریخ نویسوں کے مطابق انیسویں صدی کے آغاز میں ریاست ورجینیا سے یہاں آنے والے سیموئل آگسٹس میورک کو یہاں کے حسین نظاروں، صاف ستھری آب و ہوا نے اتنا متأثر کیا کہ وہ یہیں آباد ہو گیا۔

    اس نے یہاں زمین کا ایک ٹکڑا خریدا اور اس پر گھر بنایا جب کہ باقی کو معاش اور گزر بسر کے لیے آباد کرلیا۔
    قسمت نے اس کا ساتھ دیا اور اپنی محنت سے تھوڑے ہی عرصے میں وہ علاقے کا بڑا زمیں دار بن گیا۔

    کہتے ہیں ایک روز کوئی اجنبی اس سے ملنے آیا اور ایک عجیب بات کہی۔ اس اجنبی کا کہنا تھا کہ برسوں پہلےاس نے میورک سے کچھ رقم ادھار لی تھی اور اس اب اپنے سَر سے یہ بوجھ اتارنا چاہتا ہے۔ اجنبی نے کہا کہ وہ میورک کو قرض کی رقم کی جگہ دو گائے اور دو بیل دینا چاہتا ہے۔

    میورک مویشی نہیں پالنا چاہتا تھا، مگر اس شخص کے صرار پر وہ چوپائے قبول کرلیے اور انھیں اپنی زمینوں پر آزاد چھوڑ دیا۔

    میورک کو یہ جاننے میں کوئی دل چسپی نہ تھی کہ وہ چوپائے کیسے ہیں اور کوئی انھیں چُرا کر تو نہیں لے گیا۔ وہ گائے اور بیل کھلی فضا اور سر سبز چراگاہوں میں خوب مزے سے گھومتے پھرتے اور خوب کھا پی کر موٹے تازے ہو گئے تھے۔

    اس دوران جانور افزائشِ نسل بھی کرتے رہے اور ان کی تعداد بڑھتی رہی۔ میورک کو ان کی کوئی پروا نہ تھی، مگر علاقے کے دوسرے زمیں داروں نے مشورہ دیا کہ یہ تمھارے جانور ہیں، ان کی کھال پر کوئی نشان داغ دو تاکہ نشانی رہے۔

    یہ ایک عام طریقہ تھا اور آج بھی رائج ہے کہ مالک اپنے مویشیوں کی کھال پر لوہے کی سلاخ کی مدد سے یا آہنی مہر کو گرم کر کے جسم داغ دیتا اور وہ مخصوص علامت یا نشان اس پر ظاہر ہو جاتا، لیکن میورک نے اس مشورے کے جواب میں بھی کمال بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔ اس نے کہا چوں کہ علاقے کے ہر مویشی کی پُشت پر مالک کی کوئی نشان داغ رکھا ہے اس لیے جو جانور بغیر نشان کا ہو گا، سمجھو وہ میرا ہے۔

    اس پر سب چُپ ہو گئے۔ سبزہ زاروں میں بغیر نشان کے گائے بیل نظر آتے تو مقامی لوگ یہی مانتے کہ وہ میورک کا ہو گا۔ رفتہ رفتہ بغیر نشان کے جانوروں‌ کے لیے وہاں‌ لوگوں‌ نے صرف میورک بولنا شروع کر دیا اور یوں ایک لفظ ایجاد ہوا جو بعد میں لغت کا حصّہ بنا اور بول چال میں داخل ہو گیا۔

    ابتدا میں تو اس لفظ کو ایسے جانوروں کے لیے برتا گیا جو آزاد پھرتے ہوں یا انھیں آوارہ اور بھٹکا ہوا خیال کیا جائے، مگر بعد میں اس لفظ نے نئے معنیٰ پہنے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ جانور کی تخصیص نہ رہی اور یہ عمومی اسمِ صفت بن گیا۔ یعنی یہ ہر اُس شخص کے لیے برتا جانے لگا جو کوئی نئی طرز ایجاد کرے۔ اسے انوکھے پن یا جداگانہ طرز اور منفرد رویے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔

  • کمسن تخلیق کاروں کی دنیا بدل دینے والی ایجادات

    کمسن تخلیق کاروں کی دنیا بدل دینے والی ایجادات

    دنیا سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ خلا کی تسخیر سے لے کر انسانی زندگی بچانے تک مختلف ایجادات کی جارہی ہیں جن میں ایسی ایجادات بھی شامل ہیں جو روز مرہ کے معمولات کو کم سے کم وقت میں انجام دینے میں مدد دے سکیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں سائنس کی تعلیم کو اولین ترجیح دینے سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب ہر عمر کا شخص اپنی ذہانت کے مطابق سائنس کو اپنے اور اپنے ارد گرد کے افراد کے لیے فائدہ مند بنانے کے متعلق سوچتا ہے۔

    مزید پڑھیں: زندگی بدل دینے والی 17 حیران کن ایجادات

    آج ہم آپ کو 5 ایسے نوجوان سائنسدانوں کی ایجادات کے بارے میں بتارہے ہیں جو انہوں نے اپنے روز مرہ کے معمول اور ارد گرد کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کی اور اس میں خاصے کامیاب رہے۔


    جراثیم سے پاک ہینڈل

    بعض صفائی پسند افراد دروازوں کے ہینڈل کو کسی کپڑے کی مدد سے پکڑتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس طرح وہ ہینڈل پر لگے جراثیموں سے محفوظ رہتے ہیں۔

    یہ بات سائنسی تحقیق سے بھی ثابت ہوچکی ہے کہ دروازوں کے ہینڈل بھانت بھانت کے لوگوں کے استعمال کے باعث نہایت جراثیم آلود ہوتے ہیں اور بے شمار بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

    اسی مسئلے کے حل کے لیے ہانگ کانگ کے 18 سالہ کنگ پو نے ایسا ہینڈل بنایا ہے جو خود اپنے اوپر سے جراثیم کو ختم کرسکتا ہے۔

    ایل ای ڈی لائٹ اور ٹائٹینیم آکسائیڈ کے ذریعے کام کرنے والا یہ ہینڈل 99 فیصد جراثیم کو مار ڈالتا ہے۔


    سائیکل جیسی واشنگ مشین

    بھارت کے کئی پسماندہ علاقوں میں آج بھی خواتین کپڑوں کا ڈھیر کمر پر لاد کر قریبی دریا پر لے جا کر دھوتی ہیں۔ اس کام کو آسان بنانے کے لیے بھارت کی ایک 14 سالہ طالبہ نے حیرت انگیز ایجاد کرڈالی۔

    بھارت کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھنے والی رمیا اپنی والدہ کے ساتھ قریبی دریا پر کپڑے دھونے جاتی تھی۔ ایک بار والدہ کے بیمار ہونے پر اسے اکیلے بھی یہ کام کرنا پڑا۔

    تب ہی اسے خیال آیا کہ کیوں نہ وہ کوئی ایسی شے بنائے جس سے اسے اور اس کی ماں کو اس مشقت سے نجات مل جائے، اور تب ہی اسے سائیکل جیسی واشنگ مشین بنانے کا خیال آیا۔

    پرانی بائیسکل کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنائی جانے والی یہ مشین بجلی کے استعمال سے بھی آزاد ہے اور ان مقامات پر بھی استعمال کی جاسکتی ہے جہاں بجلی نہیں ہے۔


    زراعت بڑھانے کا طریقہ

    شمالی اوقیانوس میں واقع جزیرہ آئر لینڈ سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ 3 بہنوں نے ایسا طریقہ کار وضع کر ڈالا جس سے بنیادی غذائی ضروریات پوری کرنے والی فصلوں جیسے گندم میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے مختلف پھلیوں کی فصل میں پائے جانے والے ایک بیکٹریا کی گندم کی فصلوں میں آمیزش کی جس کے بعد اس فصل کی مقدار میں دوگنا اضافہ ہوگیا۔

    یاد رہے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موجودہ زرعی رقبہ ناکافی ہے اور جیسے جیسے دنیاکی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے زراعت میں اضافہ کی بھی ضرورت ہے۔


    نابیناؤں کا ساتھی

    امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک 12 سالہ بھارتی نژاد طالب علم شبھم بنرجی نے لیگو کے کھلونوں کے ٹکڑوں کی مدد سے ایسا آلہ تیار کیا ہے جو جزوی طور پر نابینا افراد کو بہتر طور پر دیکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔

    یہ طالبعلم ابھی صرف ہائی اسکول میں ہے لیکن وہ اپنی ایجاد سے متعلق اپنی ذاتی کمپنی بھی قائم کرچکا ہے۔


    پانی کو صاف کرنے اور توانائی پیدا کرنے والا آلہ

    آسٹریلیا کی 17 سالہ سنتھیا سن نے ایچ 2 پرو نامی ایک ایسا آلہ بنایا ہے جو بیک وقت پانی کو صاف کرسکتا ہے اور ماحول دوست بجلی بھی پیدا کرسکتا ہے۔

  • لیمپ کی طرح روشنی دینے والی کتاب

    لیمپ کی طرح روشنی دینے والی کتاب

    مطالعے کے شوقین افراد جانتے ہیں کہ ان کے لیے لیمپ کس قدر ضروری ہے خاص طور پر اگر وہ رات کے وقت مطالعہ کریں اور اہلخانہ کی نیند نہ خراب کرنا چاہیں۔

    ایسے میں یہ کتاب ان کے لیے نہایت موزوں ہوسکتی ہے جو بذات خود ایک لیمپ ہے۔

    لومیو نامی لیمپ یا کتاب کھلتے ہی اپنے قرب و جوار کو روشنی سے منور کردیتا ہے۔

    360 ڈگری زاویے پر مڑ جانے والی یہ کتاب آپ کا موبائل فون بھی چارج کرسکتی ہے۔ جبکہ خود یہ 8 گھنٹے روشنی دینے کے بعد صرف 3 گھنٹے میں چارج ہوجاتی ہے۔

    آپ اپنے کمرے یا ڈرائنگ روم کی کلر اسکیم کے حساب سے اس کا سرورق بھی بدل سکتے ہیں۔

    کیا آپ کو بھی ایسے ہی لیمپ کی ضرورت ہے؟