Tag: ایجادات

  • الیس ہووے: سلائی مشین کا موجد جسے خواب میں اپنی ایک مشکل کا حل ملا

    الیس ہووے: سلائی مشین کا موجد جسے خواب میں اپنی ایک مشکل کا حل ملا

    جدید دنیا میں ہم نے کئی ایسی شخصیات کا تذکرہ پڑھا ہے جو علم و ادب، ہنر و فنون میں اپنے کام اور کار ہائے نمایاں‌ کی بدولت مشہور ہوئے۔ گزشتہ چند صدیوں کے دوران اور خاص طور پر انیسویں صدی میں انسان نے بے پناہ ترقی کی اور کئی ایجادات انقلاب آفریں ثابت ہوئیں۔ سلائی مشین بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    آج اگرچہ کپڑے سینے کی اس مشین کو دیکھ ہم نہ تو حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور نہ ہی یہ ہمارے لیے بظاہر کوئی اہمیت رکھتی ہے، مگر لگ بھگ دو صدی قبل جب دنیا اس سے متعارف ہوئی تھی تو یہ ایک بڑی ایجاد اور قابلِ‌ ذکر مشین تھی۔ یہاں ہم معروف بھارتی مصنّف، دانش ور اور عالمِ دین مولانا وحید الدین کی زبانی اس مشین کے موجد الیس ہووے (Elias Howe) کے بارے میں جانیں گے۔ مولانا کی یہ مختصر تحریر دل چسپ انداز میں ہمیں انسانی سوچ اور عقل کے استعمال سے آگاہ کرتے ہوئے ایک ایسا سبق دیتی ہے جس میں ہماری ترقی پوشیدہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:‌

    الیس ہووے امریکا کے مشہور شہر مساچوچسٹ کا ایک معمولی کا ریگر تھا۔ وہ 1819 میں پیدا ہو ااور صرف 48 سال کی عمر میں 1867 میں اس کا انتقال ہوگیا۔ مگر اس نے دنیا کو ایک ایسی چیز دی جس نے کپڑے کی تیاری میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ یہ سلائی کی مشین تھی جو اس نے 1845 میں ایجاد کی۔

    الیس ہووے نے جو مشین بنائی اس کی سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے لیے ابتداً سوئی کی جڑ کی طرف چھید ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے۔ ہزاروں برس سے انسان سوئی کی جڑ میں چھید کرتا آرہا تھا۔ اس لیے الیس ہووے نے جب سلائی مشین تیار کی تو اس میں بھی عام رواج کے مطابق اس نے جڑ کی طرف چھید بنایا۔ اس کی وجہ سے اس کی مشین ٹھیک کام نہیں کرتی۔ شروع میں وہ اپنی مشین سے صرف جوتا سی سکتا تھا۔ کپڑے کی سلائی اس مشین پر ممکن نہ تھی۔

    الیس ہووے ایک عرصہ تک اسی ادھیڑ بن میں رہا مگر اس کی سمجھ میں اس کا کوئی حل نہ آتا تھا۔ آخر کار اس نے ایک خواب دیکھا، اس خواب نے اس کا مسئلہ حل کردیا۔

    اس نے خواب میں دیکھا کہ کسی وحشی قبیلہ کے آدمیوں نے اس کو پکڑلیا ہے اور اس کو حکم دیا ہے کہ وہ 24 گھنٹہ کے اندر سلائی کی مشین بنا کر تیار کرے۔ ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اس نے کوشش کی مگر مقررہ مدت میں وہ مشین تیار نہ کر سکا۔ جب وقت پورا ہوگیا تو قبیلہ کے لوگ اس کو مارنے کے لیے دوڑ پڑے۔ ان کے ہاتھ میں برچھا تھا— ہووے نے غور سے دیکھا تو ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ تھا یہی دیکھتے ہوئے اس کی نیند کھل گئی۔

    ہووے کو آغاز مل گیا۔ اس نے برچھے کی طرح اپنی سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بنایا اور اس میں دھاگا ڈالا۔ اب مسئلہ حل تھا۔ دھاگے کا چھید اوپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر رہی تھی وہ نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی۔

    ہووے کی مشکل یہ تھی کہ وہ رواجی ذہن سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جو چیز ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے، وہ صحیح ہے۔ جب اس کے لاشعور نے اس کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا اس وقت وہ معاملہ کو سمجھا اور فوراً حل کرلیا۔ جب آدمی اپنے آپ کو ہمہ تن کسی کام میں لگا دے۔ تو وہ اسی طرح اس کے رازوں کو پا لیتا ہے جس طرح مذکورہ شخص نے پالیا۔

  • سائنس کا ایک کرشمہ

    کلیم الدّین احمد اردو زبان و ادب کی ایک مشہور مگر مشاہیر اور ہم عصروں میں متنازع بھی تھے جنھوں نے تنقید لکھی، شاعری کی اور مختلف موضوعات اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اردو کی ہر چیز کو انگریزی کے مخصوص چشمے سے دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں‌ اردو ادب میں کوئی چیز کام کی نظر نہیں آتی۔ کبھی وہ غزل جیسی مقبول اور ہر دور میں‌ لائقِ ستائش اور معتبر صنف کو نیم وحشی کہہ کر مسترد کرتے ہیں تو کبھی لکھتے ہیں کہ اردو میں‌ تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔ الغرض کلیم الدّین احمد اپنے خیالات اور نظریات کی وجہ سے ہمیشہ متنازع رہے۔ انھوں نے فنونِ لطیفہ، ثقافت اور اصنافِ‌ ادب کو جس طرح دیکھا اور سمجھا، اسے رقم کر دیا اور اپنی مخالفت کی پروا نہ کی۔

    کلیم الدّین احمد 1908ء میں‌ پیدا ہوئے تھے اور اسّی کی دہائی کے آغاز تک بقیدِ‌ حیات رہے۔ انھوں نے وہ دور دیکھا جب ہندوستان میں‌ ریڈیو تیزی سے مقبول ہوا اور معلومات کی فراہمی اور تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا گیا۔ آج کے دور میں‌ ریڈیو سیٹ تو گھروں‌ میں‌ رہا ہی نہیں اور ٹیلی ویژن کی اہمیت بھی موبائل فون اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر دن گھٹ رہی ہے، لیکن دہائیوں‌ پہلے لوگ ریڈیو کو کیسی جادوئی اور نہایت اثرانگیز ایجاد تصور کرتے تھے اور ہندوستان میں اس کی کیا اہمیت تھی، یہ بتانے کے لیے کلیم الدّین احمد کے مضمون سے چند پارے حاضرِ‌ خدمت ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ریڈیو بھی سائنس کا ایک کرشمہ ہے اور دوسری سائنٹفک ایجادوں کی طرح ہم اس کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں اور غیرناقدانہ طور پر اس کی تعریف میں رطبُ اللّسان ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس چیزوں کی ایجاد کرتا ہے، لیکن ان چیزوں سے کام لینا ہمارا کام ہے۔”

    "سائنس نے بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں۔ جن چیزوں کا ہمیں کبھی وہم و گمان بھی نہ تھا وہ واقعہ بنی ہوئی ہیں۔ جو باتیں ہم خیالی داستانوں میں پڑھا یا سنا کرتے تھے وہ اب خیالی نہیں رہیں، زندہ حقیقت کی طرح چلتی پھرتی نظرآتی ہیں۔”

    "داستانوں میں ہم جادو کے گھوڑے پر بیٹھ کر ہوا میں اڑتے پھرتے تھے، آج نئے نئے قسم کے ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر ہم دور دراز کا سفر قلیل مدت میں طے کر سکتے ہیں۔ زمین اور سمندر میں سفر کر سکتے ہیں۔ دور کی خبریں سن سکتے ہیں۔ دور کی چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ غرض بہت سے ایسے کام کر سکتے ہیں جن کے تصور سے پہلے ہمارے دل کی تسکین ہوتی تھی۔ یہ چیزیں اچھی بھی ہیں اور بری بھی۔ اور ان کی اچھائی اور برائی استعمال پر منحصر ہے۔”

    "ہوائی جہاز کو لیجیے۔ اس سے کتنی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ خط کتابت اور سفر کی آسانی ہے۔ اسی سے مسٹر چرچل کی بیماری میں ضروری دوائیں جلد سے جلد پہنچائی جا سکتی ہیں، لیکن آج یہی ایک ایسے وسیع پیمانہ پر، جس کے تصور سے دل دھڑکنے لگتا ہے، قتل و خون، تباہی و بربادی، انسان کی خوف ناک مصیبتوں کا آلہ بنا ہوا ہے۔ سائنس نے ہوائی جہاز تو ایجاد کر دیا لیکن اس سے اچھا یا برا کام لینا تو انسان پر منحصر ہے۔ سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتا اور نہ بتاسکتا ہے کہ ہم اس ایجاد سے کیا مصرف لیں۔ سائنس کو انسانی قدروں سے کوئی خاص سروکار نہیں۔ اس کی ایجادوں کی مدد سے انسانیت ترقی کر سکتی ہے اور انہی سے انسانیت تباہ و برباد بھی ہو سکتی ہے۔”

    "آج کے خونیں مناظر کے تصور سے دل بے اختیار ہو کر کہہ اٹھتا ہے کاش سائنس نے یہ ترقیاں نہ کی ہوتیں۔ پھر انسانیت کو اس خون کے غسل سے سابقہ نہ پڑتا۔ سائنس کی ترقی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ پہلے سالہا سال کی جنگ میں جتنی جانیں تلف ہوتی تھیں اس قدر آج ایک روز میں ضائع ہو سکتی ہیں۔ توپیں، بم کے گولے، ٹینک، آبدوز کشتیاں، زہریلی گیس، مہلک امراض کے جراثیم، غرض ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت خودکشی پر آمادہ ہے اور اس جرم میں سائنس اس کا معین و مددگار ہے۔”

    "ظاہر ہے کہ کسی چیز کی صرف اس لیے کہ وہ سائنس کی حیرت انگیز ایجاد ہے، ہم بے سوچے سمجھے تعریف نہیں کر سکتے۔ اس قسم کی تعریف ہماری بے صبری کی دلیل ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ سائنس کی کسی ایجاد سے ناجائز مصرف لینے کا ذمہ دار انسان ہے سائنس نہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس تو ہمیں قتل و غارت کی تلقین نہیں کرتا، انسان کو خود کشی پر نہیں ابھارتا، اس لیے سائنس موردِ الزام نہیں۔ یہ بات ایک حد تک صحیح ہے لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ سائنس پر سماجی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ انسانی بہبود کے لیے عالمِ وجود میں آیا اور اسے مقصد کو کبھی نہ بھولنا چاہیے۔ سائنس تباہی و بربادی کے سامان مہیا کر کے علیحدگی اختیار نہیں کرسکتا اور یہ کہہ کر الزام سے بری نہیں ہو سکتا کہ چیزیں تو ایجاد ہو گئیں، اب ان سے کام لینا میرا کام نہیں۔ سائنس اور سائنس داں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ایجاد کی ہوئی چیزوں کو انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بننے دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سائنس کو اپنے مقام سے واقف ہونا چاہیے۔ اگر یہ اپنے حد سے نہ بڑھے، اپنی خامیوں اور حدود سے واقف ہو اور خدائی کا دعویٰ نہ کرے تو بہت سے الزام جو اس پر عائد ہوتے ہیں ان سے محفوظ رہے گا۔”

    "غرض ریڈیو یا سائنس کی کوئی دوسری ایجاد اپنی جگہ پر اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ اس ریڈیو سے بہت سے اچھے کام لیے جا سکتے ہیں۔ جلد ضروری خبریں بھیجی جاسکتی ہیں۔ ضرورت کے وقت مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ ایسی جگہوں میں جو ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر واقع ہوئی ہیں، براہ راست ربط قائم رکھا جا سکتا ہے۔ دوری کا مسئلہ ریڈیو اور ہوائی جہاز کی وجہ سے حل ہو گیا ہے، دنیا مختصر اور سمٹی ہوئی ہو گئی ہے۔ سماجی اور بین الاقوامی تعلقات میں آسانیاں ہیں اور مختلف کلچر ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ سب آپس میں مل رہے ہیں اور مل کر ایک اعلیٰ انسانیت کا نمونہ قائم کر سکتے ہیں۔ یہ سب سہی لیکن اسی ریڈیو سے ناجائز مصرف لیا جا سکتا ہے۔ غلط خبریں نشر کی جا سکتی ہیں۔ جنگ میں اس سے اسی قدر مہلک کام لیا جا سکتا ہے جتنا بری و بحری اور ہوائی فوجوں سے۔ اسی سے انسان کے ذہن کوغلام بنایا جا سکتا ہے، اس کی روح کو جراثیم کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم ان باتوں پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے اور جو چیز رائج ہو جاتی ہے اسے قبول کر لیتے ہیں۔”

    "ریڈیو کا رواج مغربی ملکوں میں عام ہے اور اب ہندوستان میں بھی عام ہو چکا ہے۔ مختلف ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے ہیں اور صبح سے رات تک پروگرام جاری رہتا ہے جیسے سنیما کا رواج عام ہے اور اسے عموماً زندگی کی ضروریات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سنیما کی اچھائی برائی کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں۔ اسے تفریح کا ایک اچھا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ سنیما اور کلچر میں کیا تعلق ہے، اس مسئلہ پر ہم سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح اخباروں کا مسئلہ ہے۔ اخباری اشتہاروں کا مسئلہ ہے۔ بازاری رسالوں، افسانوں اور ناولوں کا مسئلہ ہے۔ غرض ایسے کتنے مسائل ہیں جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ یہ چیزیں انسانیت کی ذہنی خودکشی کا ذریعہ نہ بن جائیں۔ ہم ہیں کہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔”

    "ہاں تو ریڈیو کا مسئلہ کوئی الگ مسئلہ نہیں لیکن اتنی فرصت نہیں کہ ان سب مسئلوں پر ایک نظر ڈالی جائے اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ ریڈیو نے اخباروں، اشتہاروں، تصویروں، بازاری رسالوں اور افسانوں کو گویا اپنی وسیع آغوش میں لے لیا ہے۔ اس لیے جو کچھ ریڈیو کے بارے میں کہا جائے وہ اور چیزوں پر بھی منطبق ہوگا۔”

  • لومڑی اور کتّے کی مدد سے”ٹائپنگ” میں مہارت حاصل کیجیے!

    لومڑی اور کتّے کی مدد سے”ٹائپنگ” میں مہارت حاصل کیجیے!

    The quick brown fox jumps over the lazy dog

    یہ جملہ نہ تو بھوری رنگت والی پھرتیلی لومڑی کی تعریف میں لکھا گیا ہے اور نہ ہی اس سے کسی کتے کی سستی بیان کرنا مقصود ہے۔

    یہ وہ جملہ ہے جو "ٹائپ رائٹر” یا "کی بورڈ” پر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو انگریزی حروف سے متعلق پہچان کے ابتدائی اسباق کی تکمیل کے بعد ٹائپ کرنے کو دیا جاتا ہے۔

    یہی وہ جملہ ہے جس کی مسلسل مشق سے ٹائپنگ سیکھنے والا "کی بورڈ” پر گویا مکمل "کمانڈ” حاصل کرسکتا ہے۔

    غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ مذکورہ جملے میں انگریزی زبان کے تمام حروف موجود ہیں جن سے آپ کی انگلیاں خوب واقف ہو جائیں تو تیز رفتاری سے ٹائپنگ کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔

    کی بورڈ کی مقبول ترتیب جو ہم معتدد مواقعوں میں استعمال کرتے ہیں کیورٹی کہلاتی ہے جو کہ پہلے پانچ حروف کو کی بورڈ کے اوپر والے بائیں کونے میں جوڑ کر بنائی گئی ہے۔

    "کی بورڈ” سے جڑے اس جملے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی باقاعدہ سوچ کا نتیجہ نہیں بلکہ ٹائپ رائٹر مشین پر ابتدائی تجربات کے بعد کی جانے والی اختراع ہے جو نہایت مفید اور کارآمد ثابت ہوئی۔

  • اب ڈپریشن اور عمر رسیدگی کے باعث کھو جانے والی یادداشت کی بحالی ممکن

    اب ڈپریشن اور عمر رسیدگی کے باعث کھو جانے والی یادداشت کی بحالی ممکن

    سان فرانسسکو: سائنس دان ایسا مالیکیول ایجاد کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں جو ڈپریشن اور زیادہ عمر کے باعث یادداشت کھو دینے والے مریضوں کی میموری واپس لے آتا ہے۔

    سائنسی جریدے مالیکیولر نیورو سائیکیٹری میں شائع ہونے والے مقالے میں مرکز برائے نشے کے عادی اور ذہنی صحت کینیڈا کے سائنس دانوں نے ایک نیا دافع مرض مالیکیول ایجاد کرنے کا انکشاف کیا ہے۔

    [bs-quote quote=”یہ مالیکیول دوا کی صورت میں 2022 یا 2023 تک مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    یہ تھیراپیوٹک مالیکیول نہ صرف مرض کی علامات کو نمایاں طور پر ختم کرتا ہے بلکہ دماغ کی اندرونی تہہ میں ہونے والی توڑ پھوڑ کی بھی مرمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    ریسرچ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ڈپریشن یا عمر زیادہ ہو جانے کے باعث یادداشت کھو جانے کی صورت میں یادداشت کی بحالی کے لیے کوئی کارگر دوا موجود نہیں تھی، تاہم حالیہ ریسرچ نے یادداشت کھو جانے کے علاج میں ٹھوس امید دلائی ہے۔

    طبی تحقیق کے مطابق گابا نیورو ٹرانسمیٹرز نظام کے دماغ کے خلیات میں توڑ پھوڑ یادداشت کھو جانے کے ذمہ دار ہیں۔

    نیا مالیکیول نہ صرف گابا نیورو ٹرانسمیٹر کے ریسیپٹر تک جا کر دماغ کے اُن خلیات کی توڑ پھوڑ کو روکتا ہے بلکہ دماغ کے خلیوں کی تعمیرِ نو میں بھی کردار ادا کرتا ہے جس سے یادداشت کی بحالی ممکن ہو جاتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  یادداشت کی خرابی سے بچنا چاہتے ہیں تو گھر کے کام کریں

    طبی ماہرین نے بتایا کہ خلیوں کی تعمیرِ نو سے یادداشت واپس آنے کے بھی امکانات روشن ہیں۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چند ضروری اقدامات کے بعد یہ مالیکیول دوا کی صورت میں 2022 یا 2023 تک مارکیٹ میں دستیاب ہوگی اور دماغی امراض میں ایک انقلابی حیثیت حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائے گی۔

  • آلودگی سے بچانے والی نئی ایجادات پر اقوام متحدہ پاکستانی ںوجوانوں کا معترف

    آلودگی سے بچانے والی نئی ایجادات پر اقوام متحدہ پاکستانی ںوجوانوں کا معترف

    اسلام آباد : اقوام متحدہ کی تنظیم برائے صنعتی ترقی (UNIDO) نے صفائی اور توانائی کے بچاؤ سے متعلق نئی مشینریاں ایجاد کرنے پر 5 پاکستانی کمپنیوں کو نوازا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ ایوارڈز گلوبل کلین ٹیک انوویشن پروگرام (GCIP) کے تحت ایک پُر وقار تقریب میں دیے گئے جس کا انعقاد دارالحکومت اسلام آباد میں کیا گیا تھا جس میں وفاقی سیکرٹری برائے ماحولیات نے بہ طور مہمان خصوصی شرکت کی۔

    گلوبل کلین ٹیک انوویشن پروگرام کے تحت 5 مختلف پاکستانی کمپنیوں کو ماحولیاتی صفائی اور توانائی کے بچاؤ سے متعلق نئ ایجادات متعارف کرانے پر دیے گئے ہیں۔

    پہلا انعام پاکستانی کمپنی کو کم قیمت ’ قدرتی توانائی کو موثر طریقے سے استعمال کرنے والے مکانات‘ ( Energy Efficient Houses) کا ماڈل پیش کرنے پر دیا گیا جس کےذریعے انسولیشن کے ذریعے قدرتی روشنی، ہوا اور درجہ حرارت کو موثر طور پر استعمال کر کے توانائی کی مد میں استعمال ہونے والے اخراجات سے بچا جا سکتا ہے۔

    دوسرا انعام ایک ایسی کمپنی کو دیا گیا جس نے بجلی سے چلنے والی پانی کی موٹرز اور فلور ملز کو چلانے کے لیے شمسی توانائی کے استعمال کے لیے ایسا نظام ایجاد کیا جو دور دراز دیہاتوں میں نہایت کار آمد ہوگا اور نہایت ارزاں قیمت پر دستیاب ہوگا۔

    تقریب کی سب سے امید افزاء بات اسلام آباد چیمبر آف کامرس کی خواتین پر مشتل ٹیم کا انعام جیتنا تھا جنہوں نے شمسی توانائی سے آراستہ گاڑیاں یا ٹھیلے متعارف کرائے جس سے دور دراز علاقوں یا سڑکوں کے کنارے پہنچایا جا سکے گا اور یوں چلتی پھرتی اور روشنی پھیلاتی ایجاد کافی کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔

    دوسری جانب سے اس سال دو نئے ایوارڈز کا آغاز بھی کیا گیا جس میں سے ایک صنعتوں میں پیدا ہونے والے فالٹس کا پتہ چلانے والا خود کار سسٹم متعارف کرانے والی کمپنی اور دوسرا ایوارڈ پرانی بیٹریوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے پروجیکٹ تیار کرنے والی کمپنی کو دیا گیا۔

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری برائے ماحولیات سید ابو احمد عاکف نے کلین ٹیکنالوجی کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فطری توانائی آرٹیفیشل توانائی کی وجہ سے ماحول کو درپیش خطرات کو کم کرنے میں کارگرت ثابت ہو سکتی ہے اس لیے اس ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

  • زندگی بدل دینے والی 17 حیران کن ایجادات

    زندگی بدل دینے والی 17 حیران کن ایجادات

    سائنس زندگی بدل دینے کا نام ہے، سائنس کی نت نئی ایجادات اور تحقیق نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کردیا ہے۔

    آج ہماری زندگی میں موجود ایک ایک شے سائنس کی مرہون منت ہے۔ ہم ان سائنسی اشیا کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ ان کے بغیر زندگی کا ایک لمحہ بھی گزارنا نا ممکن لگتا ہے۔

    تاہم کچھ ایجادات ایسی ہیں جو حقیقتاً ہماری زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے اور ہماری زندگی آسان بنانے میں معاون ثابت ہوئی ہیں۔

    آج سائنس کے عالمی دن کے موقع پر ہم آپ کو ایسی ہی کچھ ایجادات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان میں سے بہت سی ایجادات آپ کے زیر استعمال نہ ہوں، لیکن ان کے بارے میں جاننا آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔


    الارم کلاک میٹ۔ پایہ دان یا فٹ میٹ میں نصب الارم جسے بند کرنے کے لیے آپ کا بستر سے اٹھ کر اس پر کھڑا ہونا ضروری ہے۔


    پھلوں کی صفائی کرنے والا فروٹ کلینر۔


    ویڈیو ریکارڈنگ کانٹیکٹ لینس۔ یہ لینس آپ کو سامنے کا منظر دکھانے کے ساتھ ساتھ اسے ریکارڈ بھی کرتا جائے گا۔


    استری کے لیے دہرا بورڈ جس کی پشت پر آئینہ نصب ہے۔


    شمسی توانائی سے چلنے والا آرام دہ اسٹینڈ جو رات میں آپ کو روشنی بھی فراہم کرے گا۔


    نیل پالش کو سنبھالے رکھنے والا ہولڈر۔


    کھیرے کو کاٹنے والا سلائسر۔


    بستر کے ساتھ رکھی جانے والی سائیڈ ٹیبل جس پر کھانے کی ٹرے بھی نصب ہے۔


    واشنگ مشین میں جوتوں کو خشک کرنے کے لیے نصب جالی۔


    ورزش کروانے والی کرسی۔


    دیوار پر رنگ و روغن کرنے کے لیے نرم رولر۔


    صفائی کے لیے جیلی دار ’کپڑا‘ جو مشکل جگہوں کی صفائی کرسکتا ہے۔


    یو ایس بی پورٹ کے ذریعے چارج ہونے والے بیٹری سیل۔


    خود بخود گرم ہونے والی چھری جو باآسانی جمے ہوئے مکھن کو کاٹ سکتی ہے۔


    سوٹ کیس میں تبدیل ہونے والا اسکوٹر۔


    سائیکل سواروں کے لیے حفاظتی بیگ پیک جو پیچھے آنے والوں کو ان کی سمت سے آگاہ کرتا ہے۔


    سورج کی روشنی سے چلنے والا پلگ ساکٹ۔

    مضمون و تصاویر بشکریہ: برائٹ سائیڈ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔