Tag: ایجاد

  • بدقسمت موجد جو اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے

    بدقسمت موجد جو اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے

    ایجادات اور تخلیق قدرت کی جانب سے عطا کی گئی ذہانت کے ساتھ ساتھ انتھک محنت، ریاضت اور بے شمار جاگتی راتوں اور بے آرام دنوں کے بعد سامنے آتی ہیں۔

    اگر یہ ایجاد نسل انسانی کے لیے فائدہ مند ہو تو نہ صرف اپنے موجد بلکہ دنیا کے ہر شخص کی زندگی بدل سکتی ہے۔ تاہم تخلیق کا یہ عمل کچھ لوگوں کے لیے موت کا پیغام بھی ثابت ہوتا ہے۔

    ایک تخلیق کار کو، چاہے وہ سائنس دان ہو، شاعر ہو، مصور یا مصنف، اپنی تخلیق بہت عزیز ہوتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے بدقسمت موجد بھی گزرے ہیں جو اپنی ہی تخلیق کردہ ایجاد کے ہاتھوں موت سے ہمکنار ہوگئے۔


    ریڈیم

    ریڈیم میری کیوری نامی خاتون کی دریافت ہے جنہوں نے طویل عرصے تک اس پر تحقیق کی اور اس دریافت پر 2 بار نوبیل انعام کی حقدار ٹہریں۔

    تاہم سنہ 1934 میں وہ طویل عرصے تک تابکار شعاعوں کی زد میں رہنے کے باعث لیو کیمیا (ہڈیوں کے گودے کے کینسر) کا شکار ہو کر انتقال کر گئی تھیں۔


    ایرو ویگن

    ایرو ویگن نامی گاڑی کا موجد ویلیرین اباکووسکی سنہ 1921 میں اپنی ایجاد کردہ گاڑی کی پہلی آزمائش کے دوران ہلاک ہوگیا۔

    ایئر کرافٹ کے انجن پر چلنے والی یہ گاڑی پہلے تجربے کے دوران اس وقت الٹ گئی تھی جب وہ نہایت برق رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔


    پیراشوٹ سوٹ

    ایک آسٹریلوی نزاد فرانسیسی موجد فرنز ریچلٹ نے سنہ 1912 میں پیرا شوٹ سوٹ ایجاد کیا تھا۔ اس کا مقصد ان پائلٹوں کی جان بچانا تھی جو طیارے کے کسی حادثے کا شکار ہونے کے بعد طیارے سے چھلانگ لگانا چاہتے ہوں۔

    پیراشوٹ سوٹ مکمل ہونے کے بعد اس کی آزمائش کے لیے ایفل ٹاور کا انتخاب کیا گیا۔ اس موقع پر میڈیا کو بھی دعوت دی گئی۔

    تاہم بدقسمتی سے پہلی آزمائشی اڑان ہی بری طرح ناکامی سے دو چار ہوئی اور سوٹ کا موجد اپنے بنائے ہوئے سوٹ میں پھنس کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔


    ٹائی ٹینک

    سنہ 1912 میں گلیشیئر سے ٹکرا کر ایک خوفناک حادثے کا شکار ہونے والے جہاز ٹائی ٹینک کا موجد بھی اس حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔

    جہاز کا چیف ڈیزائنر تھامس اینڈریوز جونیئر اس وقت پانی میں ڈوب گیا جب وہ لائف بوٹ میں بیٹھنے کے لیے لوگوں کی مدد کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: کیا ٹائی ٹینک واقعی برفانی تودے سے ٹکرایا تھا؟


    جدید پرنٹنگ مشین

    جدید پرنٹنگ کا بانی ولیم بلاک سنہ 1867 میں اپنی ہی بنائی ہوئی پرنٹنگ مشین میں آ کر اپنی ٹانگ کٹوا بیٹھا۔

    روٹری پرنٹنگ پریس نامی اس مشین میں تصاویر کو گردش کرتے سلنڈر کے ذریعے پرنٹ کیا جاتا ہے۔

    حادثے کے وقت ولیم نے چرخی کو چلانے کے لیے اس پر اپنی ٹانگ سے زور آزمائی کی جس پر اچانک مشین چل پڑی اور ولیم کی ٹانگ برق رفتاری سے گھومتی چرخی میں آکر کٹ گئی۔

    نو دن تک اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد اس کی ٹانگ کا انفیکشن پورے جسم میں پھیل گیا جس کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔


    پانچ تکلیفیں ۔ موت کا طریقہ

    ایک چینی شخص لی سی کی جانب سے قیدیوں کو سزا دینے کے لیے ایجاد کیا جانے والا یہ طریقہ انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک تھا۔

    اس طریقے میں مجرم کے جسم کو گودا جاتا، اس کی ناک اور دونوں پاؤں کاٹ دیے جاتے، بعد ازاں اسے جنسی اعضا سے بھی محروم کردیا جاتا جس کے بعد مجرم اذیت ناک تکالیف کی تاب نہ لا کر خود ہی ہلاک ہوجاتا۔

    تاہم 208 قبل مسیح میں اس وقت کے قن خانوادے کے ایک بادشاہ کی حکم عدولی کے جرم میں موجد کو بھی اسی کے ایجاد کردہ طریقے کا حقدار قرار دیا گیا اور ہزاروں لوگوں کی اذیت ناک موت کا سبب بننے والا یہ شخص خود بھی اسی طریقے سے موت کا شکار ہوگیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دس سالہ بچے کی حیرت انگیز ایجاد

    دس سالہ بچے کی حیرت انگیز ایجاد

    کیا آپ جانتے ہیں کسی بند گاڑی میں چھوٹے بچے یا جانور کو چھوڑ دینا ایک نہایت خطرناک عمل ہے جو اس بچے یا جانور کی جان بھی لے سکتا ہے؟

    یہ رجحان زیادہ تر مغربی ممالک میں پایا جاتا ہے جہاں اکیلے رہنے والے افراد شاپنگ یا دیگر ضروری کاموں کے لیے نکلتے ہوئے مجبوراً چھوٹے بچے یا پالتو جانور کو بھی ساتھ لے لیتے ہیں، اور کام سے جاتے ہوئے انہیں لاکڈ گاڑی میں ہی چھوڑ جاتے ہیں۔

    لیکن جب وہ واپس لوٹتے ہیں تب تک گاڑی کا درجہ حرارت اس قدر گرم ہوچکا ہوتا ہے کہ اندر موجود بچہ یا جانور ہیٹ اسٹروک کا شکار ہو کر ہلاک ہوچکا ہوتا ہے۔

    سنہ 1998 سے لے کر اب تک صرف امریکا میں اس قسم کے واقعات میں 712 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔

    تاہم اب ایک 10 سالہ بچے نے اس درد ناک حادثے سے بچوں اور والدین کو بچانے کے لیے ایک انوکھی ایجاد کرلی ہے۔

    امریکی ریاست ٹیکسس سے تعلق رکھنے والے بچے بشپ کیوری نے اپنی اس ایجاد کو اوسس یعنی نخلستان کا نام دیا ہے۔

    اس کا بنایا ہوا یہ ننھا سا گیجٹ کار کے اندر کے درجہ حرات کو مانیٹر کرتا ہے۔

    جب درجہ حرارت اس حد سے بڑھ جائے جو اندر موجود بچے کے لیے مکنہ طور پر جان لیوا ثابت ہوسکتا ہو تو یہ آلہ معمولی مقدار میں ٹھنڈی ہوا کا اخراج شروع کردیتا ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک اینٹینا کے ذریعے والدین کو بھی خبردار کرتا ہے۔

    بشپ کو اس ایجاد کا خیال اس وقت آیا جب اس کے پڑوس میں ایک 6 ماہ کا بچہ اسی نوعیت کے حادثے میں ہلاک ہوگیا۔

    فی الحال بشپ کے پاس اس ایجاد کا چکنی مٹی سے بنایا گیا تھری ڈی ماڈل موجود ہے، اور اس کے والد اس ڈیوائس کی باقاعدہ تیاری کے لیے متعلقہ کمپنیوں سے رابطے میں ہیں۔

    بشپ کو امید ہے کہ اس کی ایجاد کئی معصوم بچوں اور جانوروں کی جانیں بچانے میں معاون ثابت ہوگی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستانی انجینئرزکا کارنامہ، مشکوک باؤلنگ ایکشن پکڑنے والا آلہ تیار

    پاکستانی انجینئرزکا کارنامہ، مشکوک باؤلنگ ایکشن پکڑنے والا آلہ تیار

    گزشتہ ایک دہائی سے باؤلرز کو جو مسائل درپیش ہیں اس میں مشکوک باؤلنگ ایکشن سب سے اہم ہے جس سے مرلی دھرن سے سعید اجمل تک کے لیجنڈز اسپینرز کو گزرنا پڑا جب کہ ایسے باؤلرز کی فہرست طویل ہے جنہیں عالمی مقابلوں میں مشکوک قرار دے کر نئے سرے سے اکیڈمی میں بولنگ ایکشن کو درست کرنا پڑا۔

    باؤلرز کے مشکوک ایکشن کی بین الاقوامی مقابلوں میں پکڑ دراصل ڈومیسٹک کرکٹ کی انتظامی اور کوچنگ کی سطح پر بنیادی غلطیوں کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ایک باؤلر اسکول لیول سے ہوتا ہوا بین الاقوامی ٹیم میں جگہ بنالیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی کامیابی کی منازل بھی طے کرلیتا لیکن اچانک پتا چلتا ہے کی اس کے باؤلنگ ایکشن میں جھول ہے جسے دور کیے بغیر اس کی کرکٹ میں واپسی ممکن نہیں ہو گی۔

    کرکٹ میں نئے قوانین کے بعد اسکول، کالج یا ڈومیسٹک لیول پر ہی باؤلرز کے ایکشن کو جانچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیوں کہ ایمپائر کی نگاہ 15 ڈگری کا زاویہ ناپنے میں اکثر ناکام نظر آتی ہے اور ڈومیسٹک لیول پر ایسی کوئی ٹیکنالوجی دستیاب نہیں جو اس مسئلے کو جانچ سکے۔

    cricflex2

    تاہم پاکستانی انجینئرز کی ٹیم نے ایک ایسی ٹیکنالوجی متعارف کرادی ہے جس سے باؤلنگ کے وقت بازو کا زاویہ مقررہ وقت کے دوران درست طریقے سے جانچا جاسکتا ہے اسے آستین کی طرح بازو پر پہنا جا سکتا ہے جس میں نہایت مختصر بایو میٹرک ڈیٹیکٹو لگے ہوتے ہیں جو کہنی کی حرکت سے سگنل کو موصول کر کے موبائل ایپ یا کمپیوٹر کی اسکرین پر ڈگری کی شکل میں واضح کر دیتی ہے۔

    کرکٹ فلیکس کے نام سے کی گئی اس ایجاد کو باؤلر دستانوں کی طرح کہنی تک بآسانی پہن لیتا ہے اور پھر کھلاڑی کی کہنی کو تین مختلف زاویوں پر رکھنے کا کہا جاتا ہے جسے آلہ ریکارڈ کر لیتا ہے اور باؤلنگ کے دوران جیسے ہی باؤلر بال پھینکتا ہے آلہ کہنی سے موصول سنگنل کو ریکارڈ کردہ زاویے سے پرکھ کر فوری نتیجہ دے دیتا ہے۔

    cricflex1

    پاکستانی انجینئرز نے اس پراڈکٹ کو 2015 میں ایم ٹی اے میں پیش کیا تھا جب کہ امریکا میں بھی اس پراڈکٹ کو متعارف کرایا جاچکا ہے تاہم ابھی اس آلے کے نتائج کی صحت کو مزید پرکھنے اور جانچنے کے لیے لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنس کی لیب میں ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ لیب پی سی بی کی جانب سے قائم کی گئی ہے۔

    پاکستانی نوجوانوں کو امید ہے کہ پی سی بی کی لیب سے منظوری کے بعد یہ پراڈکٹ ڈومیسٹک سطح پر ہی باؤلرز کے ایکشن کی جانچ پڑتال کی جا سکے گی یہ پراڈکٹ مختلف کرکٹ اکیڈمیز کو بھی بھیجی گئی ہے جو نوجوان باؤلرز کے لیے کافی مفید رہے گی اور پاکستانی باؤلرز کو ایکشن کے حوالے سے درپیش شکوک و شبہات اور بار بار کے تجربوں سے نجات ملے گی۔

    cricflex3

    واضح رہے کہ جیسے جیسے کرکٹ میں تیزی، مقبولیت اور جدت آتی جا رہی ہے ویسے ویسے نئے مسائل بھی سامنے آ رہے ہیں جس کے لیے نئے قوانین مرتب کیے جارہے ہیں، وہ قوانین چاہے ایک اوور میں ایک باؤنسر کرانے کی حد ہو یا بلے باز کے کندھے سے اونچی بال کروانے کا معاملہ ہو یا پھر پاور پلے ہو سارے قوانین کا تعلق باؤلرز سے ہوتا ہے جس کے باعث بلے باز بآسانی رنزز کے ڈھیر لگا لیتے ہیں جس کے باعث 50 اوورز کے میچ میں 300 سے زائد رنز بنانا عام ہو گیا۔