Tag: ایجوکیشن

  • مقصد کا تعین، منزل تک رسائی، مگر کیسے؟

    مقصد کا تعین، منزل تک رسائی، مگر کیسے؟

    فلاسفر مقصد یا منزل کا تعین کرتا ہے اور ماہرِ تعلیم نفسیات اور عملی تجربہ کی مدد سے اس منزل تک پہنچنے کے لیے تعلیمی طریقے ایجاد کرتا ہے۔

    ان طریقوں کی بچوں کی تعلیم کے میدان میں زیادہ ضرورت ہے، کیوں کہ اسی پر سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ چائلڈ ایجوکیشن سے میری مراد بارہ سال تک کے بچے کی تعلیم ہے۔

    اس سلسلے میں ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ علامہ اقبال کی صورت میں ہمیں ایک بہت بڑے فلاسفر ملے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان کا فلسفہ انسانی خودی اور اس کی نشوونما کا فلسفہ ہے بلکہ یہ جملہ انسانی شخصیت کا فلسفہ ہے یا دوسرے الفاظ میں ان کا فلسفہ وہ فلسفہ ہے جو انسانی شخصیت کی کلیت پر محیط ہے جس کا مغرب کے فلاسفر اور ماہرینِ نفسیات میں فقدان ہے۔

    ان کا پیغام آفاقی ہے۔ یوں تو کوئی قوم بھی آپ کے پیغام پر عمل پیرا ہو کر ترقی کی منزلیں طے کرسکتی ہے، لیکن بالخصوص اسلامی دنیا میں اس پیغام کی خاص اہمیت ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے چائلڈ ایجوکیشن میں کوئی طریقۂ تعلیم ایجاد کرنا تو در کنار کسی مروجہ طریقہ کا ہی انتخاب نہیں کیا جسے اپنا کر بچوں کی تعلیم اور شخصیت کو اقبال کے فلسفہ کے مطابق صحیح بنیادوں پر استوار کرسکتے۔

    جہاں تک میرا خیال ہے مونٹیسوری طریقۂ تعلیم اگر صحیح معنوں میں اپنایا جائے تو بچے کی شخصیت میں اکثر و بیش تر وہ خصوصیات پیدا ہوسکیں گی جو کہ اقبال کے نزدیک بجا طور پر ارفع و اعلیٰ ہیں۔ یا دوسرے الفاظ میں اگر اقبال کے خیالات کو چائلڈ ایجوکیشن کے میدان میں عملی جامہ پہنانا ہو تو مونٹیسوری طریقۂ تعلیم اپنانا چاہیے۔

    مجھے اقبال کی اس بات میں بہت سچائی نظر آتی ہے کہ قدرت وقت کی ضرورت کو وجدانی طور پر ادراک کرتی ہے۔

    (ڈاکٹر نذیر قیصر کے علمی و تحقیقی مضمون سے انتخاب)

  • موجودہ دور میں‌ بی۔ اے کی ڈگری کارآمد تعویذ!

    موجودہ دور میں‌ بی۔ اے کی ڈگری کارآمد تعویذ!

    آپ چاہیں مانیں یا نہ مانیں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں، مگر موجودہ دورِ جمہوریت کا یہ ایک اٹل اور متفقہ فیصلہ ہے کہ علم و ادب کے تمام مدارج طے کر لینے کے بعد بھی سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو گریجویٹ نہیں۔

    اپنی جملہ جہالتو ں کے باوجود سب سے بڑا عالمِ وقت وہ ہے جس نے کسی یونیورسٹی سے بی۔ اے کی سند حاصل کی ہے۔

    بات یہ ہے کہ اب سے چالیس برس قبل بی۔ اے کی ڈگری ایک ایسا کارآمد تعویذ اور ایک ایسی جادو کی پڑیا ثابت ہو چکی ہے کہ آپ نے ادھر اس کو استعمال کیا، اُدھر کھل جا سم سم کی آواز کے ساتھ ملازمت کے دروازے کھل گئے اور آپ نے مٹھیاں بھر بھر کر اپنے دامنِ افلاس کو رشوتوں اور مقررہ تنخواہوں سے پُر کرنا شروع کردیا۔

    بی۔ اے کی ڈگری معیارِ علم، معیارِ قابلیت اور معیارِ ذہانت تصور کی جاتی تھی۔ یہی ڈگری گھر والوں اور بزرگوں سے ہر معاملہ میں مشورہ طلب کرواتی تھی اور اسی پر سوسائٹی میں عزت و ذلت کا دار و مدار تھا۔

    والدین نے صاحبزادے کے ہاتھ میں بی۔ اے کی ڈگری دیکھی اور سمجھ گئے کہ صاحبزادے اپنی جملہ جہالتوں کے باوجود قابل ہوگئے۔ اس کے بعد اگر خاندان میں کوئی کٹھن سے کٹھن مرحلہ درپیش ہو تو سب نے آنکھ بند کر کے مشورہ دیا کہ شفاءُ الملک حکیم بی۔ اے صاحب سے رجوع کیجیے۔ اس معاملے میں صحیح مشورہ وہی دے سکتے ہیں، کیوں کہ وہ بی۔ اے پاس ہیں۔ چناں چہ ان کو بلا کر سب سے پہلے ان کی بی۔ اے پاس رائے دریافت کی جاتی تھی۔ وہ باوجود گھریلو اور شادی بیاہ کے معاملے نا تجربہ کار اور ناواقف ہونے کے معاملے کو آنکھیں بند کر کے اس طرح سنتے گویا سمجھ بھی رہے ہیں۔

    ان کی رائے کو ایک فلسفی، ایک مفکر اور ایک نجومی کی رائے سمجھ کر قبول کر لیا جاتا اور ہر شخص واہ وا اور سبحان اللہ کی آوازیں بلند کرتا۔ رفتارِ زمانہ نے اس چیز کو ایک رسم کی شکل دے دی اور اب اس دورِ جہالت میں بھی وہ جوں کی توں سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہے۔

    اور آج کل بھی بی۔ اے پاس صاحبزادے کی دستار بندی اس پرانی وضع پر ہوتی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ بی۔ اے پاس لڑکیاں اور لڑکے اپنے آپ کو افلاطونِ وقت اور سقراطِ دوراں سمجھتے ہیں۔“
    (فرقت کاکوری کے قلم سے)

  • بچے کو ذہین بنانے کے لیے اچھے اسکول اور پیسوں کی ضرورت نہیں، تحقیق

    بچے کو ذہین بنانے کے لیے اچھے اسکول اور پیسوں کی ضرورت نہیں، تحقیق

    نیویارک: امریکا میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات ثابت ہوئی کہ اساتذہ والدین اور طالب علموں کا باہمی رشتہ بچوں کی قابلیت کو بڑھاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اوہیو یونیوسٹی میں ہونے والے تحقیقاتی مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ بچوں کی اچھی تعلیم اور قابلیت کے لیے معاشی طور پر مستحکم ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

    تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اساتذہ کا طالب علموں کے ساتھ سماجی تعلق اور والدین کا برتاؤ بچوں کی قابلیت اور اُن کو ذہین بنانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

    مطالعے میں پرائمری اسکول کے اُن بچوں میں میتھس اور پڑھنے کی صلاحیت میں خود اعتمادی دیکھی گئی جن کے اساتذہ اور والدین کے باہمی رابطے تھے اور ٹیچر کا طلب علم کے ساتھ سماجی رشتہ بھی تھا۔

    مزید پڑھیں: آن لائن گیمز بچوں کی تعلیمی استعداد بڑھانے میں معاون

    ماہرین کا ماننا ہے کہ اساتذہ اگر پڑھانے کے علاوہ طالب علموں کے ساتھ سماجی کاموں جیسے کھیل کود یا دیگر کاموں میں حصہ لیں تو اس کے ذریعے بچوں کا حوصلہ اور خود اعتمادی میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور یہی چیز اُن کی تعلیمی قابلیت میں‌ اضافہ بھی کرتی ہے۔

    عام طور پر والدین کا ماننا ہے کہ بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی کے ذریعے بڑے اسکولوں میں ایڈمیشن یا اُس کے اخراجات ممکن ہیں۔

    ماہرین کے مطابق معاشرے میں رائج تاثر تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد بالکل ہی غلط ثابت ہوا کیونکہ ٹیچرز، والدین اور بچوں کا آپسی تعلق ایک بڑا سرمایہ ہے جو معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتاہے۔

    اوہیو یونیورسٹی کے پروفیسر روجر گودرد کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق کے نتائج جنرل ایجوکیشن میں شائع ہوئے۔ مطالعے میں 5 ہزار سے زائد 78 تعلیمی اداروں کے بچوں کو شامل کیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں: بچوں کی تعلیم کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا، یونیسکو

    تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ والدین کی طرف سے بچوں کی حوصلہ افزائی اور معاونت بھی اُن کی قابلیت اور ذہانت میں اضافہ کرتی ہے جبکہ اساتذہ اُن کے اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں جو معاشرے کو اچھی باتوں کی طرف راغب کرتے ہیں۔

    پروفیسر روجر کا کہنا ہے کہ ’مطالعے میں طالب علموں سے مختلف سوالات کیے گئے جن کا انہوں نے خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا جبکہ متعدد بچے ایسے بھی تھے جو آسان جوابات نہیں دے سکے’۔

    ماہرین نے چوتھے گریڈ تک کے بچوں کو مطالعے میں شامل کیا جن سے میتھس اور دیگر مضامین کا ٹیسٹ لیا گیا، نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ جو بچے سماجی سرمایہ رکھتے ہیں وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوئے جبکہ دیگر طالب علم اچھے نتائج حاصل نہ کرسکے۔

  • اساتذہ کا عالمی دن:پاکستان میں علم کی شمع جلاتے پانچ غیرمعمولی اساتذہ

    اساتذہ کا عالمی دن:پاکستان میں علم کی شمع جلاتے پانچ غیرمعمولی اساتذہ

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’اساتذہ کا عالمی دن‘ منایا جارہا ہے، اس موقع پر ہم آپ کی ملاقات کرا رہے ہیں پانچ ایسے اساتذہ سے جو تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں

    اساتذہ کا عالمی دن ہر سال 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے جس کی ابتداء 1994 سے ہوئی تھی۔ یونیسکو، یونیسف اور تعلیم سے منسلک دیگر اداروں کی جانب سے اس دن جہاں اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے وہاں ان مسائل کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے جو انہیں درپیش ہیں۔

    استاد ایک اچھے تعلیمی نظام کا بنیادی عنصر، اس کی روح ہیں اور جب تک اساتذہ کو معاشرے میں عزت نفس نہیں ملتی، وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ مستحق ہیں، وہ اپنے فرائض کو بخوبی انجام نہیں دے سکتے۔

    پاکستان میں تعلیم کا شعبہ سنگین مسائل سے دوچار ہے ، اور یہاں ہنگامی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے قیامِ پاکستان سے آج تک کسی بھی حکومت نے ملک میں تعلیمی اصلاحات کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے بجٹ نافذ نہیں کیا ، جس کے سبب اساتذہ قلیل تنخواہ میں بنا کسی مناسب تربیت کے پڑھانے پر اور طالب علم بغیر سہولیات اور جدید ٹیکنالوجی کے پڑھنے پر مجبور ہیں۔

    ایسے حبس کے ماحول میں پاکستان میں بہت سے ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں ، جو حالات کو الزام دینے کے بجائے اپنی بساط سے بڑھ کر تعلیم کی شمع کو مسلسل روشن رکھے ہوئے ہیں ، ان بے شمار عظیم کرداروں میں سے چند سے ہم آپ کا تعارف کرارہے ہیں۔

    ماسٹرایوب


    محمد ایوب نامی یہ استاد ایک طویل عرصے سے دارالحکومت کی سڑک پر غریب و نادار بچوں کی تعلیم کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اسکول میں طلبا صاف ستھری سڑک پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

    ماسٹر ایوب دراصل فائر فائٹر تھے، اب اس کام سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ نادار بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔انہیں 2017 میں ویبی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا

    world teachers day 2018

    فریدہ پروین


    فریدہ پروین ایک مقامی اسکول میں معلمہ کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ لیکن ٹہریئے، بات اتنی سادہ نہیں جتنی نظر آرہی ہے، فریدہ ہر روز اپنے گھر سے اسکول پہنچنے کے لیے 35 کلو میٹر کا سفر طے کرتی ہیں، اور یہ سفر وہ موٹر سائیکل پر طے کرتی ہیں۔

    پاکستان میں جہاں بڑے شہروں میں کبھی کبھار خواتین بائیک چلاتی نظر آجاتی ہیں، وہاں ایک چھوٹے سے شہر میں خاتون کا بائیک چلانا ایک نہایت حیرت انگیز اور معیوب بات ہے ۔

    world teachers day 2018

    پاکپتن کے نواح میں واقع ان کے گاؤں بہاول میں موجود اسکول صرف پرائمری تک تھا لیکن اس کو جواز بنا کر فریدہ نے اپنی تعلیم کو خیرباد نہیں کہا۔ انہوں نے اپنے والد کی بائیک پر گاؤں سے دور ہائی اسکول جانا شروع کردیا اور اپنی تعلیم مکمل کی۔فریدہ سنہ 2014 سے گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول رام پور میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

    سلیمہ بیگم


    سنہ 2017 میں دبئی کے گلوبل ایجوکیشن اینڈ اسکل فورم میں سلیمہ بیگم کو نامزد کیا گیا، وارکیو فاونڈیشن نے دنیا بھر سے بیس ہزار ٹیچرز کو چناتھا ،اور ان اساتذہ میں گلگت کی ٹیچر سلیمہ بیگم بھی شامل ہیں، سلیمہ بیگم کو دس لاکھ ڈالر کے ایوارڈ نامزد کیا گیا تھا۔

    سلیمہ بیگم کا تعلق گلگت کے مضافاتی گاؤں اوشکھنداس سے ہیں،انہوں نے ایلمنٹر ی کالج ویمن گلگت میں پاکستان بھرسے پندرہ ہزار خواتین کو تربیت دی ہے۔

    اساتذہ کا عالمی دن

    عقیلہ آصفی


    گلوبل ٹیچرزپرائز 2016 کے لیے جن اساتذہ کا انتخاب کیا گیا تھا ان میں پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے کوشاں ’عقیلہ آصفی‘ بھی شامل تھیں۔عقیلہ کی نامزدگی کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے افغانستان میں طالبان کی قید سے فراراختیارکرکے مہاجرکیمپ میں ایک ٹینٹ مانگ کر لڑکیوں کی تعلیم کا اہتمام کیا تھا۔

    اساتذہ کا عالمی دن

    مہاجر کیمپ میں مقیم افغان اور پاکستانی لڑکیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کا یہ پہلا موقع تھا اورآج عقیلہ کے اسکول سے ہزاروں لڑکیاں فارغ التحصیل ہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

    روحیل ورنڈ


    روحیل ورنڈ کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور تعلیم کے فروغ کے لیے ان کا سولر نائٹ اسکول کا آئیڈیا تیزی سے ترویج پارہاہے اور اسے دنیا بھر میں سراہا گیا ہے ، پاکستان میں نائٹ اسکولز کا تصور تو طویل عرصے سے موجود ہے لیکن یہ وہیں ممکن تھا جہاں روشنی کا انتظام ممکن ہو ،تعلیم کی راہ کی اس سب سے بڑی رکاوٹ کو روحیل نے سولر بیگز استعمال کرکے دور کیا ہے۔

    اساتذہ کا عالمی دن

    ان کے دونوں اسکولوں میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے تو آراستہ کیا ہی جارہا ہے تاہم ان کی معاشی حیثیت کے سبب ہم ان کے لیے کپڑے ، جوتے ، گھر کا راشن ، اسکول میں موجودگی کے دوران کھانے کی اشیا، اسکول بیگ ، کتابیں اور اسٹیشنری کا انتظام بھی کرتے ہیں تاکہ ان پر سے گھر کی معاشی ذمہ داریوں کو بوجھ کم ہو۔ روحیل کی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم دس لاکھ بچوں کی تعلیم کا انتظام کرسکیں۔