Tag: ایدھی

  • چینی قونصل جنرل کا ایدھی ہیڈ آفس کا دورہ

    چینی قونصل جنرل کا ایدھی ہیڈ آفس کا دورہ

    کراچی: چینی قونصل جنرل وانگ یو نے ایدھی میٹھادر ہیڈ آفس کا دورہ کیا، دورے میں ان کے ساتھ وائس قونصل جنرل بھی تھے۔

    تفصیلات کے مطابق چینی قونصل جنرل اور وائس قونصل جنرل نے ایدھی آفس کے دورے کے دوران ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی سے ملاقات کی۔

    چینی قونصل جنرل نے بچوں کے ایدھی ہوم کا دورہ کرتے ہوئے ایدھی فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں اور اقدامات کو سراہا، وانگ یو کا کہنا تھا کہ انسانی خدمت کی یہ سرگرمیاں قابل تعریف ہیں۔

    یاد رہے کہ رواں سال فروری میں چینی قونصل خانے نے امن فاؤنڈیشن کے ساتھ شراکت داری کی ہے جس کا مقصد جان بچانے والی ایمبولینس پروگرام کی معاونت تھی۔

    اس شراکت داری کا اعلان امن فاؤنڈیشن کے ہیڈ آفس میں خواتین کو خود مختار بنانے کا پروگرام لانچ کرتے وقت کیا گیا تھا جس میں چینی قونصل جنرل وانگ یو اور وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے بھی شرکت کی۔

    لندن کے ٹرافلگر اسکوائر پر عبدالستارایدھی کا فن پارا تیار


    چینی قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ چین پاکستان میں ترقی کے عمل میں اپنی خدمات پیش کرنے پر بہت زیادہ توجہ دیتا ہے، اسی سلسلے میں پاکستان میں چین کی معاونت سے سی پیک کے تحت متعدد ٹرانسپورٹ اور توانائی کے منصوبوں کی تکمیل عمل میں آئی۔

    وانگ یو کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے چینی صنعت کا پاکستان کے اندر نفوذ بڑھتا ہے تو چینی کاروبار کے لیے زیادہ ضروری ہوتا جائے گا کہ وہ مقامی آبادیوں کی بہبود کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • لاوارث بچوں کی مسکان میں تاقیامت زندہ رہنے والا ایدھی

    لاوارث بچوں کی مسکان میں تاقیامت زندہ رہنے والا ایدھی

    انسانیت سے محبت کرنے والے عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کو آج دنیا سے رخصت ہوئے ایک برس بیت گیا۔ مذہب، رنگ، نسل اور فرقے کی تفریق کے بغیر بے سہارا لوگوں کی خدمت و مدد کرنے کا جو چراغ انہوں نے روشن کیا تھا وہ آج بھی انسانیت سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

    ایدھی کی زندگی کا مقصد دکھ میں مبتلا افراد کی مدد کرنا تھا، انہیں اس پر فخر تھا اور وہ ساری زندگی یہ کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

    ایک بار ان سے کسی نے پوچھا تھا، کہ آپ ہندؤوں اور عیسائیوں کی میتیں کیوں اٹھاتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا، ’کیونکہ میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے‘۔

    وہ ساری زندگی اس عقیدے پر کاربند رہے کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔ ان کی ایمبولینس بغیر کسی تفریق کے ملک کے ہر کونے میں زخمیوں کو اٹھانے پہنچ جاتی تھی۔ چاہے زخمی کوئی ہندو ہو، کوئی عیسائی، کوئی شیعہ، کوئی سنی یا کسی اور مسلک کا پیروکار، ایدھی کی ایمبولینس کسی کو اٹھانے یا دفنانے سے پہلے اس کا مذہب نہیں پوچھتی تھی۔

    ایدھی نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ کہتے تھے، ’دنیا کے غم میرے استاد اور دانائی و حکمت کا ذریعہ ہیں‘۔

    رسمی تعلیم ان کے لیے یوں بھی غیر اہم تھی کیونکہ وہ مانتے تھے کہ لوگ پڑھ کر تعلیم یافتہ تو بن گئے، لیکن ابھی تک انسان نہیں بن سکے۔

    ایدھی کو مولانا کہلوانا سخت ناپسند تھا۔ البتہ وہ یہ ضرور چاہتے تھے کہ لوگ انہیں ڈاکٹر کہیں۔ ان کی یہ خواہش یوں پوری ہوئی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے انہیں ڈاکٹری کی اعزازی سند دی۔

    قائد اعظم نے ہمیں 69 سال پہلے کام، کام اور صرف کام کا درس دیا۔ اس سبق پر اگر کسی نے صحیح معنوں میں عمل کیا تو وہ ایدھی ہی تھے۔ وہ طویل عرصہ تک بغیر چھٹی کیے کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ ریکارڈ بننے کے بعد بھی وہ آخری وقت تک جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، کام کرتے رہے۔

    وہ کہتے تھے، ’میری زندگی کے 4 اصول ہیں، سادگی، وقت کی پابندی، محنت اور دانائی‘۔

    ایدھی فاؤنڈیشن میں ایک بھارتی لڑکی گیتا نے بھی پرورش پائی۔ گیتا بچپن میں اپنے خاندان سے بچھڑ کر غلطی سے سرحد پار کرکے پاکستان آئی اور یہاں ایدھی کے وسیع دامن نے اسے پناہ دی۔

    بولنے اور سننے سے معذور اس لڑکی کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کی عمارت میں خصوصی طور پر مندر بنایا گیا تھا۔ بلقیس ایدھی اسے اپنی بیٹی بلاتیں اور آنے جانے والوں کو مندر میں جوتوں سمیت جانے سے سختی سے منع کرتیں۔

    ایدھی نے ایک بار کہا تھا، ’خدا نے جو بھی جاندار پیدا کیا ہمیں ان سب کا خیال رکھنا چاہیئے۔ میرا مقصد ہر اس شخص کی مدد کرنا ہے جو مشکل میں ہے‘۔

    وہ اسی مذہب کے پیروکار تھے جس کی تبلیغ دنیا میں آنے والے ہر پیغمبر اور ہر ولی نے کی۔ وہ کہتے تھے، ’میرا مذہب انسانیت ہے اور یہ دنیا کے ہر مذہب کی بنیاد ہے‘۔

    ایدھی کو نوبیل انعام دلوانے کی مہم کئی بار چلائی گئی۔ ان کے انتقال سے ایک برس قبل نوبیل انعام حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی نے بھی انہیں نوبیل کے لیے تجویز کیا، لیکن ایدھی کو نوبیل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ’مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، بس پوری دنیا میں انسانیت سے محبت چاہیئے‘۔

    انہیں کئی بار تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان پر کئی بے بنیاد الزامات بھی لگے، لیکن ایدھی نے کسی کو جواب دینے کے بجائے خاموشی سے اپنا کام جاری رکھا، کیونکہ وہ سوچتے تھے، ’محبت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی، میری انسانیت کی خدمت ہی میری ان سے محبت کا اظہار ہے اور تمہیں اسے قبول کرنا ہوگا‘۔

    ایدھی خواتین کی خودمختاری کے بھی قائل تھے۔ وہ کہتے تھے، ’لڑکیوں کو گھر میں بند مت کرو، انہیں باہر جانے دو اور کسی قابل بننے دو تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں‘۔

    ایدھی فاؤنڈیشن نے پاکستان کے علاوہ افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا میں بھی کام کیا۔ 2004 کے سونامی میں ایدھی نے انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا میں بھی اپنی بے لوث خدمات فراہم کیں۔

    وہ مانتے تھے کہ اچھے کام ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ ’لوگ آج بھی یاد رکھتے ہیں کہ 40 سال قبل میں نے ان کی والدہ کو دفنایا، یا ہڑتال اور کرفیو میں ان کے والد کی لاش کو غسل دے کر کفن پہنایا‘۔

    کروڑوں روپے کی جائیداد رکھنے والے ایدھی اسے اپنانے سے انکاری تھے۔ وہ اسے عوام کی دولت مانتے تھے اور ساری زندگی انہوں نے دو جوڑوں میں گزاری۔ ان کے پاس ایک ہی جوتا تھا جسے وہ پچھلے 20 سال سے استعمال کر رہے تھے۔

    ان کا کہنا تھا، ’اگر دولت کو اپنے اوپر خرچ کیا جائے تو یہ انسان کو اس کے اپنوں سے بھی دور کردیتی ہے۔ تکبر، خود غرضی اور برتری دولت کے منفی اثرات ہیں‘۔

    زندگی کے بارے میں بھی ایدھی ایک واضح نظریہ رکھتے تھے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا میں کچھ ناممکن نہیں۔ وہ کہتے تھے، ’اگر تم صحت مند ہو، تو ’کیوں‘ اور ’کیسے‘جیسے الفاظ کبھی تمہاری رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں‘۔

    مرنے سے قبل ایدھی نے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کردیں۔ جاتے جاتے وہ اپنے جسم کا ہر اعضا عطیہ کرنا چاہتے تھے لیکن ذیابیطس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تھا۔ مرنے سے قبل انہوں نے یہ بھی وصیت کردی تھی، کہ میرے جنازے سے عام آدمی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، نہ کسی کا راستہ بند ہو، نہ کسی کو اپنا کام چھوڑنا پڑے۔

    انہوں نے ایک بار کہا تھا، ’لوگ مرجاتے ہیں تو صرف ایک ہی جگہ جاتے ہیں، آسمان میں۔ چاہے آپ کہیں بھی انہیں دفنا دیں وہ اسی جگہ جائیں گے، آسمان میں‘۔۔

    آج ایدھی بھی آسمانوں کی طرف جا چکے ہیں، لیکن وہ دنیا میں لاوارث لڑکیوں اور ان بچوں کی مسکراہٹ میں زندہ ہیں جنہیں ایدھی ہوم نے پناہ دی، اس شخص کی آنکھوں کی روشنی میں زندہ ہیں جسے ان کی عطیہ کی گئی آنکھیں لگائی گئیں، اور اگر ہم بھی انسانیت کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو یقین مانیں کہ ایدھی زندہ ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • معروف سماجی رہنما’ایدھی‘ کی زندگی پر فلم بنےگی

    معروف سماجی رہنما’ایدھی‘ کی زندگی پر فلم بنےگی

    لاہور: پاکستانی فلم پروڈیوسر حامد سلمان ڈاکٹر عبدالستار ایدھی پر فلم بنائیں گے جس میں بالی ووڈ اداکار نصیرالدین شاہ ایدھی کا کردار نبھائیں گے.

    تفصیلات کے  پروڈیوسر حامد سلمان کا لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ معروف فلاحی رہنما اور ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹرعبدالستار ایدھی کی زندگی پروہ فلم بنائیں گے اور اس فلم میں ایدھی کا کردار نامور ادکار نصیرالدین شاہ کریں گے.

    2 (2)

    ان کا کہنا تھا کہ عبدالستار ایدھی مرحوم نےامن ،محبت،انسانیت اور بھائی چارے کے ذریعے عالمی سطح پر ملک وقوم کا نام روشن کیا،یہ فلم ان کو خراج عقید ت پیش کرنے کی ایک کوشش ہے.

    2
    5

    انہوں نے بتایا کہ یہ فلم ’’آئی ایم ایدھی‘‘ کے نام سے بنائی جائےگی،انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو ایسی ہی معیاری فلموں کی ضرورت ہے جس کے لیے ذریعے ہم اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرسکتے ہیں.

    6 (2)

    6

    واضح رہے کہ فلم پرڈیوسر حامدسلمان کہنا ہے کہ فلم کی آمدنی کا دس فیصد ایدھی فاونڈیشن کو دیا جائے گا تاہم فلم کرنے یا نا کرنے سے متعلق نصیر الدین شاہ کی جانب سے کسی قسم کی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی ہے۔

  • پولیس اہلکاروں کا احمد ایدھی پر مبینہ تشدد، آئی جی سندھ کا نوٹس 3 اہلکار معطل

    پولیس اہلکاروں کا احمد ایدھی پر مبینہ تشدد، آئی جی سندھ کا نوٹس 3 اہلکار معطل

    کراچی : معروف سماجی رہنما ڈاکٹرعبدالستار ایدھی مرحوم کے نواسے احمد ایدھی پر سرسید ٹاؤن کے پولیس اہلکاروں کا مبینہ تشدد، آئی جی سندھ پولیس نے نوٹس لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق احمد ایدھی کو گھر واپس آتے ہوئے ناظم آباد پر کھڑی پولیس موبائل نے رُکنے کااشارہ کیا مگر گاڑی تیز رفتاری کے باعث کچھ آگے نکل گئی تھی، تاہم واپس آنے پر وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جس سے اُن کی شرٹ کے بٹن ٹوٹ گئے۔

    فیصل ایدھی نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حوالے سے پولیس کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کیا جس پر آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی ویسٹ سے رابطہ کر کے تحقیقات کے بعد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔

    فیصل ایدھی نے مزید کہا کہ ’’ڈی آئی جی ویسٹ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے میں ملوث 3 پولیس اہلکاروں کو معطل کردیا ہے، تاہم ایس ایچ او کی جانب سے واقعے پر معافی مانگی گئی ہے‘‘۔

    دوسری جانب ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے موقف ظاہر کیا ہے کہ ’’احمد ایدھی کو ہراساں یا تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا ، بلکہ اُن کو سرسید ٹاؤن تھانے کی حدود میں واقعے ایک پارک کے قریب روکا گیا اور شناخت کے بعد انہیں جانے کی اجازت دے دی‘‘۔

    فیصل ایدھی نے پولیس کی جانب سے فوی اقدامات کرنے کا شکریہ ادا کیا ہے اور کہا کہ معافی اور یقین دہانی کے بعد معاملے کو رفع دفع کردیا ہے۔

     

  • اے آئی وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کا ایدھی کی یوم وفات کو چیرٹی ڈے قرارد ینے کی تجویز

    اے آئی وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کا ایدھی کی یوم وفات کو چیرٹی ڈے قرارد ینے کی تجویز

    کراچی: اے آر وائی کاعبدالستار ایدھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے،یوم وفات کوچیرٹی ڈے قراردینے کی تجویز پیش کردی۔

    عبد الستار ایدھی نے 1951 ء میں پہلے کلینک کی بنیاد رکھی،یہ کلینک کراچی کے علاقے کھارادر میں کھولا گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کئی رفاحی کلینک کا جال پورے ملک میں پھیلا دیا۔

    اپنی سوانح حیات ‘اے میرر ٹو دی بلائنڈ’ میں ایدھی صاحب نے لکھا، ‘معاشرے کی خدمت میری صلاحیت تھی، جسے مجھے سامنے لانا تھا۔

    ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینسس بد سے بد ترین حالت میں بھی زخمیوں اور لاشوں کو اُٹھانے سب سے پہلے پہنچ جاتی ہیں،میتوں کے سرد خانے اور غسل و تدفین کا ذمہ بھی اس محسن انسانیت نے اُٹھایا اور تعفن زدہ لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دینا شروع کیا۔

    گزشتہ سالوں میں ایدھی اور ان کی ٹیم نے میٹرنٹی وارڈز، مردہ خانے، یتیم خانے، شیلٹر ہومز اور اولڈ ہومز بھی بنائے، جس کا مقصد ان لوگوں کی مدد کرنا تھا جو اپنی مدد آپ نہیں کرسکتے۔

    اس ادارے کا سب سے ممتاز حصہ اس کی 1500 ایمبولینس ہیں جو ملک میں دہشت گردی کے حملوں کے دوران بھی غیر معمولی طریقے سے اپنا کام کرتی نظر آتی ہیں۔

    اپنے کام کے آغاز میں ایدھی صاحب جب اپنی ایمبولینس میں شہر کا دورہ کرتے تو انہیں کثیر تعداد میں نومولود بچوں کی لاشیں ملتی تھیں، جنہیں لاوارث چھوڑ دیا گیا تھا، جس کے بعد اس ادارے نے ہر سینڑ کے باہر ایک جھولا لگا دیا ہے جس پر درج ہے ’معصوم بچوں کو قل نہ کریں، انہیں ہمارے جھولے میں ڈال دیں‘۔

    فخر پاکستان، بابائے خدمت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اور عبدالستارایدھی کی یاد میں اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک نے 8 جولائی کو نیشنل چیریٹی ڈے منانے کی تجویز پیش کی تاکہ پورے معاشرے میں انسانیت کی خدمت کا جزبہ پیدا ہوسکے، اگر آپ بھی ہم سے متفق ہیں تو آئیں اور اس مہم میں اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کا حصہ بنیں۔

    اپنی پٹیشن دائر کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

    https://www.gopetition.com/petitions/july-08-as-national-charity-day.html

  • عبدالستار ایدھی کے نام پر یونیورسٹی تعمیر کی جائے، سراج الحق

    عبدالستار ایدھی کے نام پر یونیورسٹی تعمیر کی جائے، سراج الحق

    کراچی : امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ عبدالستار ایدھی کی موت نے ثابت کردیا کہ جو لوگ عوام کے دلوں میں زندہ ہوں وہ کبھی مرتے نہیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے میٹھا در سینٹر میں فیصل ایدھی سے تعزیت کی اور عبدالستار ایدھی کی مغفرت ، درجات کی بلندی کے لیے قرآن و فاتحہ خوانی کی گئی۔

    اس موقع پر سراج الحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت کو چاہیے کہ عبد الستار ایدھی صاحب کی زندگی کو عملی نمونہ بنائے، ایدھی صاحب نےعوام کا پیسہ عوام پر خرچ کیا جبکہ پاکستان کا حکمراں طبقہ عوام کا پیسہ اکٹھا کر کے بیرون ملک لے جاتے ہیں‘‘۔Siraj1

    انہوں نے مزید کہا کہ’’ کراچی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا شہر ہے، یہاں ایماندار افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی کے عوام نے عبدالستار ایدھی کو اُن کی فاؤنڈیشن کے لیے دل کھول کر امداد دی‘‘۔

    سراج الحق نے کہا کہ ’’پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے بلکہ غیر منصانہ تقسیم کی وجہ سے مسائل کا انبار پیدا ہورہا ہے،پاکستان کے اٹھانوے فیصد وسائل پر مراعاتی یافتہ طبقے نے قبضہ کیا ہوا ہے ، اسی وجہ سے سرکاری اداروں میں آسانی سے کرپشن کا سلسلہ جاری ہے جس کے باعث عوام کو اب ان اداروں پر بھروسہ نہیں رہا‘‘۔

    Siraj4

    امیر جماعت اسلامی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عبدالستار ایدھی کے نام پر یونیورسٹی قائم کی جائے جہاں خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والوں کو داخلہ دیا جائے۔

    Siraj2

    بعد ازاں جماعت اسلامی کے سربراہ نے شہید قوال امجد صابری کے اہل خانہ سے ملاقات کر کے تعزیت کی اور اُن کی درجات کی بلندی کے لیے دعائے مغفرت بھی کی۔

  • کراچی: بیچ ایونیو روڈ عبدالستار ایدھی کے نام سے منسوب

    کراچی: بیچ ایونیو روڈ عبدالستار ایدھی کے نام سے منسوب

    کراچی: ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی نے بیچ ایونیو روڈ کو عبدالستار ایدھی کے نام سے منسوب کردیا۔

    ڈی ایچ اے نے یہ قدم عبدالستار ایدھی کے انتقال کے بعد ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اٹھایا۔ ایک روز قبل وزیر اعظم نواز شریف نے بھی گورنر اسٹیٹ بینک اشرف وتھرا کو عبدالستار ایدھی کی یاد میں خصوصی سکہ جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    اس سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی لاہور میں ایک سڑک ایدھی کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

    وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے بھی عبدالستار ایدھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے صوبے کے 3 اضلاع میں ایدھی فاؤنڈیشن کو مفت سرکاری اراضی دینے کا اعلان کیا تھا جبکہ لاہور میں پاکستان ہاکی فیڈریشن نے لاہور ہاکی اسٹیڈیم کا نام عبد الستار ایدھی سے منسوب کردیا۔

    واضح رہے کہ عبد الستار ایدھی ہفتے کے روز طویل علالت کے بعد 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ انہیں گردوں کا عارضہ لاحق تھا۔ انتقال سے قبل ایدھی نے اپنے جسم کا واحد صحت مند حصہ آنکھیں بھی عطیہ کردی تھیں۔

    وزیر اعظم نے ایدھی کے انتقال پر ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا جبکہ عبد الستار ایدھی کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔

    ایدھی دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس چلا رہے تھے جس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل تھا۔

    عبدالستار ایدھی کی وفات نے گیتا کو بھی رلا دیا *

    حکومت نے عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے اشیا کی درآمد پر عبدالستار ایدھی کے صاحبزادے فیصل ایدھی اور کبریٰ ایدھی کو ڈیوٹی فری سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے اختیارات بھی دے دیے ہیں جس کے تحت عبدالستار ایدھی فاؤنڈیشن اور بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے آنے والے سامان کی ڈیوٹی فری کلیئرنس ہوسکے گی۔

    مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، انسانیت سے محبت چاہیئے *

    اس سے قبل ڈیوٹی فری کلیئرنس صرف عبدالستار ایدھی کے جاری کردہ سرٹیفکیٹ سے مشروط تھی۔

  • ملک بھرمیں عبدالستارایدھی کی غائبانہ نمازہ جنازہ ادا

    ملک بھرمیں عبدالستارایدھی کی غائبانہ نمازہ جنازہ ادا

    کراچی : سڑکوں پر بیٹھ کر عوام کے لیے عوام سے بھیک مانگنے والے،انسانیت کے مسیحا اور لاوارثوں کے وارث عبدالستارایدھی کی ملک بھرمیں غائبانہ نمازہ جنازہ ادا کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے منصورہ میں غائبانہ نمازجنازہ پڑھائی، امیرجماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ عبدالستار ایدھی ایک شخصیت کا نہیں تحریک کا نام ہے۔

    فیصل آباد کے شہریوں نے چوک گھنٹہ گھر میں عبدالستار ایدھی کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھی، نمازہ جنازہ کے بعد فیصل آباد کے تاجروں نے لنگر تقسیم کیا۔

    ملک بھر کی طرح نواب شاہ میں بھی شہری تاجر اتحاد کی جانب سے معروف سماجی شخصیت فخر پاکستان مرحوم عبدالستار ایدھی کی غائبانہ نماز جنازہ گھنٹہ گھر گول چکرہ بازار میں ادا کی گئی۔

    لاہور میں‌ وکلا تنظیموں نے پیر کو یوم سوگ کا اعلان کیا ہے، لاہور بار ایسوسی ایشن غائبانہ نماز جنازہ ادا کرے گی جبکہ راولپنڈی میں خادم انسانیت کی غائبانہ نمازہ جنازہ میں شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

    ملتان، پشاور سمیت دیگر شہروں میں بھی غائبانہ نماز جنازہ کے اجتماعات ہوئے جہاں عبدالستار ایدھی کے ایصال ثواب کے لیے ایدھی ہاؤس میں قرآن خوانی کی گئی تو شہریوں نے مرحوم انسانی خدمت گار کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شمعیں روشن کیں۔

    رنگ و نسل مذہب و فرقے سے بالاتر ہوکر خالصتاً انسانیت کی بھلائی او ر خیرخواہی کےلیے کام کرنے والے عبدالستار ایدھی اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے، عبدالستار ایدھی دنیا کی ان عظیم سماجی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا حصہ سفر میں گزارا،ان کی سماجی خدمات کا سفر ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکا۔

  • ایدھی کے انتقال پر فنکار بھی سوگوار

    ایدھی کے انتقال پر فنکار بھی سوگوار

    کراچی: عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی موت نے فنکاروں کو بھی سوگوار کردیا۔ مختلف فنکاروں نے ایدھی کے انتقال پر اپنے دکھ کا اظہار کیا۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایتکارہ شرمین عبید چنائے نے ایک عظیم انسانی کارکن کے بچھڑنے پر دکھ کا اظہار کیا۔

    مشہور اداکار و ہدایت کار شان نے ایدھی کا مشہور قول ٹوئٹ کیا۔

      پاکستانی نژاد امریکی ریپر بوہیمیا نے بھی ایدھی کو خراج عقیدت پیش کیا۔

    معروف گلوکار علی ظفر نے اپنی تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایدھی کو خراج عقیدت پیش کیا۔  

    ماہرہ خان نے ایدھی کے بلندی درجات کی دعا کی۔

    معروف گلوکار شہزاد رائے نے ٹوئٹر پر اپنے ایک گانے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایدھی سے اپنے گانے میں شامل ہونے کے لیے کہا تو ایدھی صاحب نے کہا تھا، ’ہیرو میں تیرے سے اچھا گاتا ہوں‘۔

    گلوکارہ حدیقہ کیانی نے 8 جولائی کو ’یوم ایدھی‘ کے طور پر منانے کا مطالبہ کیا۔

      معروف اداکار فواد خان نے ایدھی صاحب کو سب کے لیے ایک روشن مثال قرار دیا۔

      ٹی وی اداکار حمزہ علی عباسی نے ایدھی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔

    مارننگ پروگرام کی میزبان صنم بلوچ نے ایدھی کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔  

      ہمایوں سعید نے اپنی کیفیات کا اظہار کرتے ہوئے الفاظ کو ان کی بڑائی کے لیے ناکافی قرار دیا گیا۔

    معروف گلوکار عدنان سمیع نے ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایدھی کو ’صوفی فقیر‘ قرار دیا۔

    اداکارہ عمیمہ ملک نے ایدھی کی آنکھیں عطیہ کرنے کی خواہش کو ان کی عظمت کی نشانی قرار دیا۔

    میشا شفیع نے ایدھی کی یاد میں امن پھیلانے اور انسانیت کی خدمت کرنے کا پیغام دیا۔  

  • ‘مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، انسانیت سے محبت چاہیئے’

    ‘مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، انسانیت سے محبت چاہیئے’

    انسانیت کے عظیم محسن عبدالستار ایدھی رخصت ہوگئے۔ ان کی عمر 88 برس تھی اور 2013 سے وہ گردوں کے عارضہ میں مبتلا تھے۔

    ایدھی کی زندگی کا مقصد دکھ میں مبتلا افراد کی مدد کرنا تھا، انہیں اس پر فخر تھا اور وہ ساری زندگی یہ کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

    ایک بار ان سے کسی نے پوچھا تھا، کہ آپ ہندؤوں اور عیسائیوں کی میتیں کیوں اٹھاتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا، ’کیونکہ میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے‘۔

    7

    وہ ساری زندگی اس عقیدے پر کاربند رہے کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔ ان کی ایمبولینس بغیر کسی تفریق کے ملک کے ہر کونے میں زخمیوں کو اٹھانے پہنچ جاتی تھی۔ چاہے زخمی کوئی ہندو ہو، کوئی عیسائی، کوئی شیعہ، کوئی سنی یا کسی اور مسلک کا پیروکار، ایدھی کی ایمبولینس کسی کو اٹھانے یا دفنانے سے پہلے اس کا مذہب نہیں پوچھتی تھی۔

    ایدھی نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ کہتے تھے، ’دنیا کے غم میرے استاد اور دانائی و حکمت کا ذریعہ ہیں‘۔

    رسمی تعلیم ان کے لیے یوں بھی غیر اہم تھی کیونکہ وہ مانتے تھے کہ لوگ پڑھ کر تعلیم یافتہ تو بن گئے، لیکن ابھی تک انسان نہیں بن سکے۔

    1

    ایدھی کو مولانا کہلوانا سخت ناپسند تھا۔ البتہ وہ یہ ضرور چاہتے تھے کہ لوگ انہیں ڈاکٹر کہیں۔ ان کی یہ خواہش یوں پوری ہوئی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے انہیں ڈاکٹری کی اعزازی سند دی۔

    قائد اعظم نے ہمیں 69 سال پہلے کام، کام اور صرف کام کا درس دیا۔ اس سبق پر اگر کسی نے صحیح معنوں میں عمل کیا تو وہ ایدھی ہی تھے۔ وہ طویل عرصہ تک بغیر چھٹی کیے کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ ریکارڈ بننے کے بعد بھی وہ آخری وقت تک جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، کام کرتے رہے۔

    9

    وہ کہتے تھے، ’میری زندگی کے 4 اصول ہیں، سادگی، وقت کی پابندی، محنت اور دانائی‘۔

    ایدھی فاؤنڈیشن میں ایک بھارتی لڑکی گیتا نے بھی پرورش پائی۔ گیتا بچپن میں اپنے خاندان سے بچھڑ کر غلطی سے سرحد پار کرکے پاکستان آئی اور یہاں ایدھی کے وسیع دامن نے اسے پناہ دی۔

    2

    بولنے اور سننے سے معذور اس لڑکی کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کی عمارت میں خصوصی طور پر مندر بنایا گیا تھا۔ بلقیس ایدھی اسے اپنی بیٹی بلاتیں اور آنے جانے والوں کو مندر میں جوتوں سمیت جانے سے سختی سے منع کرتیں۔

    ایدھی نے ایک بار کہا تھا، ’خدا نے جو بھی جاندار پیدا کیا ہمیں ان سب کا خیال رکھنا چاہیئے۔ میرا مقصد ہر اس شخص کی مدد کرنا ہے جو مشکل میں ہے‘۔

    ایدھی اسی مذہب کے پیروکار تھے جس کی تبلیغ دنیا میں آنے والے ہر پیغمبر اور ہر ولی نے کی۔ وہ کہتے تھے، ’میرا مذہب انسانیت ہے اور یہ دنیا کے ہر مذہب کی بنیاد ہے‘۔

    2

    انہیں نوبیل انعام دلوانے کی مہم کئی بار چلائی گئی۔ گزشتہ برس نوبیل انعام حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی نے بھی انہیں نوبیل کے لیے نامزد کیا، لیکن ایدھی کو نوبیل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ’مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، بس پوری دنیا میں انسانیت سے محبت چاہیئے‘۔

    ایدھی کو کئی بار تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان پر کئی بے بنیاد الزامات بھی لگے، لیکن ایدھی نے کسی کو جواب دینے کے بجائے خاموشی سے اپنا کام جاری رکھا، کیونکہ وہ سوچتے تھے، ’محبت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی، میری انسانیت کی خدمت ہی میری ان سے محبت کا اظہار ہے اور تمہیں اسے قبول کرنا ہوگا‘۔

    11

    ایدھی خواتین کی خودمختاری کے بھی قائل تھے۔ وہ کہتے تھے، ’لڑکیوں کو گھر میں بند مت کرو، انہیں باہر جانے دو اور کسی قابل بننے دو تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں‘۔

    5

    ایدھی فاؤنڈیشن نے پاکستان کے علاوہ افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا میں بھی کام کیا۔ 2004 کے سونامی میں ایدھی نے انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا میں بھی اپنی بے لوث خدمات فراہم کیں۔

    وہ مانتے تھے کہ اچھے کام ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ ’لوگ آج بھی یاد رکھتے ہیں کہ 40 سال قبل میں نے ان کی والدہ کو دفنایا، یا ہڑتال اور کرفیو میں ان کے والد کی لاش کو غسل دے کر کفن پہنایا‘۔

    کروڑوں روپے کی جائیداد رکھنے والے ایدھی اسے اپنانے سے انکاری تھے۔ وہ اسے عوام کی دولت مانتے تھے اور ساری زندگی انہوں نے دو جوڑوں میں گزاری۔ ان کے پاس ایک ہی جوتا تھا جسے وہ پچھلے 20 سال سے استعمال کر رہے تھے۔

    6

    ان کا کہنا تھا، ’اگر دولت کو اپنے اوپر خرچ کیا جائے تو یہ انسان کو اس کے اپنوں سے بھی دور کردیتی ہے۔ تکبر، خود غرضی اور برتری دولت کے منفی اثرات ہیں‘۔

    زندگی کے بارے میں بھی ایدھی ایک واضح نظریہ رکھتے تھے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا میں کچھ ناممکن نہیں۔ وہ کہتے تھے، ’اگر تم صحت مند ہو، تو ’کیوں‘ اور ’کیسے‘جیسے الفاظ کبھی تمہاری رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں‘۔

    مرنے سے قبل ایدھی نے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کردیں۔ جاتے جاتے وہ اپنے جسم کا ہر اعضا عطیہ کرنا چاہتے تھے لیکن ذیابیطس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تھا۔ مرنے سے قبل انہوں نے یہ بھی وصیت کردی تھی، کہ میرے جنازے سے عام آدمی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، نہ کسی کا راستہ بند ہو، نہ کسی کو اپنا کام چھوڑنا پڑے۔

    7

    انہوں نے ایک بار کہا تھا، ‘لوگ مرجاتے ہیں تو صرف ایک ہی جگہ جاتے ہیں، آسمان میں۔ چاہے آپ کہیں بھی انہیں دفنا دیں وہ اسی جگہ جائیں گے، آسمان میں‘۔۔

    آج جبکہ ان کی تدفین ایدھی ویلج میں کی جارہی ہے اور کچھ لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پہلو میں دفنایا جائے، تو شاید یہ معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہ پہلے ہی آسمانوں کی طرف جا چکے ہیں، اور دنیا میں لاوارث لڑکیوں اور ان بچوں کی مسکراہٹ میں زندہ ہیں جنہیں ایدھی ہوم نے پناہ دی، اس شخص کی آنکھوں کی روشنی میں زندہ ہیں جسے ان کی عطیہ کی گئی آنکھیں لگائی گئیں، اور اگر ہم بھی انسانیت کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو یقین مانیئے کہ ایدھی زندہ ہے۔