Tag: ایران

  • ایران ٹرمپ کو ایک کھرب ڈالر کی پیشکش کیوں کرنے والا تھا؟ عراقچی کی تقریر کیوں منسوخ ہوئی؟ سنسنی خیز انکشاف

    ایران ٹرمپ کو ایک کھرب ڈالر کی پیشکش کیوں کرنے والا تھا؟ عراقچی کی تقریر کیوں منسوخ ہوئی؟ سنسنی خیز انکشاف

    تہران: نیوز ویک نے انکشاف کیا ہے کہ ایران نے ایک منسوخ تقریر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی جوہری شعبے کی بحالی میں مدد کرنے کی ایک بڑی پیشکش کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ایٹمی صنعت کی بحالی کے لیے ایران کی جانب سے ٹرمپ کو مجوزہ پیشکش کا انکشاف ہوا ہے، نیوز ویک نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے منسوخ شدہ تقریر میں، امریکی جوہری صنعت کو زندہ کرنے میں مدد کے لیے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو دسیوں ارب ڈالر کے معاہدوں کے ساتھ للچانے کی کوشش کی۔

    دراصل ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی پیر کو ’کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘ کی نیوکلیئر پالیسی کانفرنس میں ایک ورچوئل تقریر کرنے والے تھے، تاہم منتظمین نے شرط رکھی تھی کہ عراقچی سوالات کا موقع فراہم کریں اور اس شرط کی بنا پر عراقچی کی ٹیم نے تقریر ہی منسوخ کر دی۔


    امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں لگا دیں، مذاکرات کا تیسرا دور ملتوی


    بعد ازاں، اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے نیوز ویک کو تقریر کا وہ متن فراہم کیا، جس میں واشنگٹن کے ساتھ نئے جوہری معاہدے کے نتیجے میں سرمایہ کاری کی زبردست پیشکش شامل کی گئی تھی۔

    متن کے مطابق عباس عراقچی کو کہنا تھا کہ ایران کبھی بھی امریکا کے ساتھ اقتصادی اور سائنسی تعاون کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنا، بلکہ پچھلی امریکی حکومتیں رکاوٹ بنتی رہی ہیں، جو مخصوص گروپس کے زیر اثر کام کرتی رہیں، اور جیسا کہ میں نے حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ کی تحریر میں واضح کیا ہے، ہماری معیشت کی جانب سے امریکی کاروباری اداروں کے لیے ایک کھرب ڈالر کا موقع اب بھی دستیاب ہے۔

    عراقچی کے بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ اس میں وہ کمپنیاں شامل ہیں جو غیر ہائیڈرو کاربن ذرائع سے صاف بجلی پیدا کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں، ایران اس وقت بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ میں ایک ری ایکٹر چلا رہا ہے، ہمارا طویل مدتی منصوبہ کم از کم 19 اضافی ری ایکٹر بنانے کا ہے، یعنی دسیوں ارب ڈالر کے ممکنہ معاہدے دستیاب ہیں، اکیلے ایرانی مارکیٹ اتنی بڑی ہے کہ امریکی ایٹمی صنعت کو بحال کر سکے۔

    واضح رہے کہ گہرے عدم اعتماد اور فوجی بیان بازی کے باوجود امریکا اور ایران نے بالواسطہ بات چیت کے دو ادوار کیے ہیں، اس بات چیت کا مقصد ایک ایسے معاہدے تک پہنچنا ہے جو پابندیوں میں نرمی کے بدلے ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو محدود کر دے گا۔ ٹرمپ نے اس صورت میں ایران کی ’’خوش حالی‘‘ کی خواہش کا اظہار کیا ہے جب تک وہ جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کرنے کی سعی نہیں چھوڑتا۔

  • امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں لگا دیں، مذاکرات کا تیسرا دور ملتوی

    امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں لگا دیں، مذاکرات کا تیسرا دور ملتوی

    تہران: مذاکرات کے باوجود امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایران نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ تکنیکی جوہری اجلاس ہفتے تک ملتوی کر دیا گیا ہے، امریکا ایران مذاکرات کا تیسرا دور بدھ کو ہونے والا تھا۔

    تیسرا دور ری شیڈول کرنے کا فیصلہ عمان کی تجویز اور وفود کے معاہدے کے بعد کیا گیا ہے، دوسری جانب مذاکرات کے باوجود امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

    روئٹرز کے مطابق تہران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر جاری بات چیت کے درمیان امریکی محکمہ خزانہ نے کہا ہے کہ اس نے منگل کو ایرانی مائع پیٹرولیم گیس میگنیٹ سید اسد اللہ امام جومہ اور ان کے کارپوریٹ نیٹ ورک کو نشانہ بناتے ہوئے نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔


    ’’چین کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آؤں گا‘‘ ٹرمپ کا مؤقف تبدیل ہو گیا


    محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ امام جومہ کے نیٹ ورک نے سیکڑوں ملین ڈالر مالیت کی ایرانی ایل پی جی اور خام تیل بیرونی منڈیوں میں بھیجا، دونوں مصنوعات ایران کے لیے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، جو نہ صرف اس کے جوہری اور جدید روایتی ہتھیاروں کے پروگراموں کو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ علاقائی پراکسی گروپس بشمول حزب اللہ، یمن کے حوثی اور فلسطینی حماس گروپ کو فنڈ دینے میں مدد کرتی ہیں۔

    سیکریٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ امام جومہ اور اس کے نیٹ ورک نے امریکی پابندیوں سے بچتے ہوئے ایران کے لیے آمدنی پیدا کرنے کے لیے ایل پی جی کی ہزاروں کھیپیں برآمد کرنے کی کوشش کی۔

    واضح رہے کہ ایران اور امریکا نے ہفتے کے روز ممکنہ جوہری معاہدے کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنا شروع کرنے پر اتفاق کیا، اعلیٰ مذاکرات کاروں نے ہفتے کے روز عمان میں دوبارہ ملاقات کا منصوبہ بنایا ہے۔

  • ایران امریکی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے جوہری پروگرام پر لچک دکھانے پر آمادہ ہو گیا، امریکی میڈیا

    ایران امریکی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے جوہری پروگرام پر لچک دکھانے پر آمادہ ہو گیا، امریکی میڈیا

    واشنگٹن: امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران امریکی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے جوہری پروگرام پر لچک دکھانے پر آمادہ ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام پر مذاکرات کا دوسرا دور مثبت پیش رفت پر ختم ہو گیا ہے، امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران امریکا جوہری مذاکرات کا دوسرا دور مثبت رہا، مذاکرات میں امریکی وفد کی سربراہی صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندہ اسٹیو وٹکوف نے کی جب کہ ایران کے وفد کی سربراہی ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کی۔

    ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ ایران امریکا مذاکرات کا دورانیہ 4 گھنٹے جاری رہا، اور مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے، ایرانی وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہم مذاکرات میں کچھ اصولوں اور اہداف پر بہتر تفہیم اور معاہدے تک پہنچ گئے، مذاکرات میں مزید بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔


    امریکی سپریم کورٹ کا ایک اور فیصلہ، ٹرمپ انتطامیہ کو بڑا جھٹکا


    تہران میں تین سفارتی ذرائع نے ایران انٹرنیشنل کو بتایا کہ ایران نے ہفتے کے روز روم میں ہونے والی بات چیت کے دوران امریکی وفد کو تین مرحلوں پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا ہے، جس میں امریکی پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں یورینیم کی افزودگی کی حد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

    یہ منصوبہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بات چیت کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو تحریری طور پر پیش کیا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق تہران نے تجویز پیش کی کہ پہلے مرحلے میں، وہ اپنی یورینیم کی افزودگی کی سطح کو عارضی طور پر 3.67 فی صد تک کم کر دے گا، جس کے بدلے میں امریکا کے منجمد مالیاتی اثاثوں تک رسائی اور اسے تیل برآمد کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

    ذرائع نے مزید کہا کہ دوسرے مرحلے میں، اگر امریکا ایران پر سے مزید پابندیاں ہٹاتا ہے اور برطانیہ، جرمنی اور فرانس کو تہران پر اقوام متحدہ کی نام نہاد پابندیوں کے نام نہاد اسنیپ بیک کو متحرک کرنے سے باز رہنے پر راضی کرتا ہے، تو ایران اعلیٰ سطحی افزودگی کو مستقل طور پر ختم کر دے گا اور اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے معائنہ کو بحال کر دے گا۔

    دریں اثنا، مذاکرات سے قبل جمعہ کو امریکی نمائندے نے اسرائیلی خصوصی نمائندے سے بھی ملاقات کی، پیرس میں ہوئی ملاقات میں اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بارنیا بھی موجود تھے۔ دوسری طرف مذاکرات سے پہلے ایرانی وزیر خارجہ نے ماسکو میں صدر پیوٹن اور روسی وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ایران امریکا کے ساتھ کسی بھی معاہدے میں روس کا امدادی کردار دیکھ رہا ہے، ایران نے واضح کیا ہے کہ جوہری پروگرام ہتھیار بنانے کے لیے نہیں، سویلین استعمال کے لیے ہے۔ واضح رہے کہ مذاکرات سے پہلے سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے ایران کا اہم دورہ بھی کیا تھا۔

    ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور آئندہ ہفتے مسقط میں ہوگا۔

    بات چیت کے بعد، عراقچی نے ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ مذاکرات ’’تعمیری ماحول میں منعقد ہوئے‘‘ اور ’’آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا ’’زیادہ پر امید ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم واقعی پر امید ہیں، ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے، لیکن زیادہ مایوسی کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘

  • ایران میں مسلح افواج کے دن فوجی پریڈ، جدید میزائل سسٹم کی رونمائی

    ایران میں مسلح افواج کے دن فوجی پریڈ، جدید میزائل سسٹم کی رونمائی

    ایران میں مسلح افواج کا دن بھرپور جوش و خروش سے منایا گیا، اس دن کی مناسبت سے فوجی پریڈ کا اہتمام کیا گیا، پریڈ میں نئے ڈرونز اور جدید میزائل سسٹم کی رونمائی کی گئی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق تہران میں مسلح افواج کے دن فوجی پریڈ کے موقع پر ایرانی صدر مسعود پزشکیان سمیت ایران کے عسکری و سیاسی حکام بھی موجود تھے۔

    ایرانی صدر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ قومی سلامتی اور سکون ایک مضبوط اور چوکس فوج کی موجودگی سے ممکن ہے۔

    ایرانی صدر نے کہا کہ ہماری فوج نے ملک کو درکار تمام فوجی اور دفاعی آلات تیار کرنے میں ناقابل بیان ترقی کرلی ہے۔ بہادر اور دلیر فوج کی موجودگی نے دشمنوں کی نیندیں اڑادی ہیں۔ ایران میں ہر سال 18 اپریل کو مسلح افواج کا قومی دن منایا جاتا ہے۔

    واضح رہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان جوہری معاہدے پر مذاکرات کا دوسرا دور آج روم میں ہوگا۔

    عرب میڈیا کے مطابق ایران نے امریکا سے جوہری مذاکرات پر مشروط رضا مندی ظاہر کر دی ہے، گزشتہ روز ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ اگر امریکا حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے تو جوہری معاہدہ ہو سکتا ہے، امریکا کو غیر حقیقی مطالبات سے گریز کرنا ہوگا۔

    اس سے پہلے امریکی صدر ٹرمپ معاہدہ نہ کرنے پر ایران کو حملے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ تاہم دوسری طرف الجزیرہ نے کہا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واشنگٹن کے ساتھ جوہری مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہونے سے ایک روز قبل امریکا کے ارادوں پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔

    ایک ہفتہ قبل دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کے مذاکرات ہوئے تھے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے 3 سال بعد 2018 میں یک طرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد سے ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر تمام حدود کو ختم کیا، اور یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کر لیا ہے، جب کہ ہتھیار بنانے کے درجے تک پہنچنے کے لیے 90 فی صد تک افزودگی درکار ہے۔

    عراقچی نے جمعہ کے روز ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا ”اگرچہ ہمیں امریکی فریق کے ارادوں اور محرکات پر شدید شکوک و شبہات ہیں، تاہم ہم کل ہونے والے مذاکرات میں شرکت کریں گے۔“

    عباس عراقچی ہفتے کے روز عمان کی ثالثی میں امریکا کے مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹکوف کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور کے لیے روم روانہ ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے پرامن حل کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

    جوہری مذاکرات پر ایران کا امریکا پر شکوک کا اظہار

    دریں اثنا، لاوروف نے کہا کہ ماسکو ”کوئی بھی ایسا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے جو ایران کے نقطہ نظر سے مفید ہو اور جو امریکا کے لیے بھی قابل قبول ہو۔“

  • ایران کی امریکا سے جوہری مذاکرات پر مشروط رضا مندی

    ایران کی امریکا سے جوہری مذاکرات پر مشروط رضا مندی

    واشنگٹن: ایران اور امریکا کے درمیان جوہری معاہدے پر مذاکرات کا دوسرا دور آج روم میں ہوگا۔

    عرب میڈیا کے مطابق ایران نے امریکا سے جوہری مذاکرات پر مشروط رضا مندی ظاہر کر دی ہے، گزشتہ روز ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ اگر امریکا حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے تو جوہری معاہدہ ہو سکتا ہے، امریکا کو غیر حقیقی مطالبات سے گریز کرنا ہوگا۔

    اس سے پہلے امریکی صدر ٹرمپ معاہدہ نہ کرنے پر ایران کو حملے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ تاہم دوسری طرف الجزیرہ نے کہا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واشنگٹن کے ساتھ جوہری مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہونے سے ایک روز قبل امریکا کے ارادوں پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔


    ٹرمپ انتظامیہ کے لیے گرفتار شخص کی غلط ڈیپورٹیشن درد سر بن گئی


    ایک ہفتہ قبل دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کے مذاکرات ہوئے تھے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے 3 سال بعد 2018 میں یک طرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد سے ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر تمام حدود کو ختم کیا، اور یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کر لیا ہے، جب کہ ہتھیار بنانے کے درجے تک پہنچنے کے لیے 90 فی صد تک افزودگی درکار ہے۔

    عراقچی نے جمعہ کے روز ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا ’’اگرچہ ہمیں امریکی فریق کے ارادوں اور محرکات پر شدید شکوک و شبہات ہیں، تاہم ہم کل ہونے والے مذاکرات میں شرکت کریں گے۔‘‘

    عباس عراقچی ہفتے کے روز عمان کی ثالثی میں امریکا کے مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹکوف کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور کے لیے روم روانہ ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے پرامن حل کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

    دریں اثنا، لاوروف نے کہا کہ ماسکو ’’کوئی بھی ایسا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے جو ایران کے نقطہ نظر سے مفید ہو اور جو امریکا کے لیے بھی قابل قبول ہو۔‘‘

  • سعودی وزیر دفاع سرکاری دورے پر ایران پہنچ گئے

    سعودی وزیر دفاع سرکاری دورے پر ایران پہنچ گئے

    سعودی عرب کے وزیرِ دفاع شہزادہ خالد بن سلمان بن عبد العزیز اعلیٰ قیادت کی ہدایت پر سرکاری دورے پر تہران پہنچ گئے۔

    سعودی پریس ایجنسی کے مطابق سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان جمعرات کو سرکاری دورے پر ایرانی دارالحکومت تہران پہنچے جہاں وہ ایران کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کریں گے۔

    دورے کے دوران شہزادہ خالد متعدد ملاقاتیں کریں گے جس میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ باہمی تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

     رپورٹ کے مطابق پیر کو سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے ایرانی ہم منصب عباس عراقچی سے فون پر بات کی تھی جس کے دوران انہوں نے علاقائی پیش رفت اور ان سے نمٹنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

  • ٹرمپ کا بڑا قدم، ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی منسوخ کر دی

    ٹرمپ کا بڑا قدم، ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی منسوخ کر دی

    واشنگٹن: ٹرمپ نے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی منسوخ کر دی۔

    نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کے مجوزہ حملے کو روک دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ ایران کے ساتھ جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے پر بات چیت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ اسرائیل نے مئی میں ایران کے جوہری مقامات پر حملے کا منصوبہ تیار کیا تھا، جس کا مقصد ایران کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک پیچھے دھکیلنا تھا۔

    امریکی B-2 سٹیلتھ بمبار طیارہ، جو بنکر تباہ کرنے والے 30 ہزار پاؤنڈ کے بموں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے

    نیویارک ٹائمز نے کہا کہ امریکی مدد کی ضرورت صرف اسرائیل کو ایرانی جوابی کارروائی سے بچانے کے لیے ہی نہیں، بلکہ اس حملے کے کامیاب ہونے کو یقینی بنانے کے لیے بھی ہے۔


    امریکا نے ایرانی تیل کی کمپنیوں، آئل ٹینکرز پر پابندیاں لگادیں


    اخبار کے مطابق ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ میں تقسیم کے سامنے آنے کے بعد اسرائیلی حملے کو روکا۔ اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے منصوبے بنائے، اور اس کے لیے اسے امریکی مدد کی ضرورت تھی، تاہم امریکی انتظامیہ کے کچھ افسران کو اس سلسلے میں کئی شکوک لاحق تھے۔ اندرونی سطح پر کئی مہینوں کی بحث کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے فوجی کارروائی کی حمایت کرنے کی بجائے ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔

    واضح رہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کا دوسرا دور روم میں ہوگا، ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے تصدیق کی ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کی دوسری نشست ہفتے کے روز اٹلی کے دارالحکومت روم میں ہوگی۔

    ایرانی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ملاقات کے مقام سے قطع نظر، عمانی وزیر خارجہ مذاکرات کے سہولت کار اور ثالث ہیں۔ پہلی نشست گزشتہ ہفتے مسقط میں ہوئی تھی جہاں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی جب کہ امریکی وفد کی قیادت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے کی تھی۔ پہلی میٹنگ کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’بات چیت مثبت اور تعمیری‘ رہی۔

  • ایران میں قتل کیے گئے 8 پاکستانی  اپنے آبائی علاقوں میں سپردِ خاک

    ایران میں قتل کیے گئے 8 پاکستانی اپنے آبائی علاقوں میں سپردِ خاک

    بہاولپور: ایران کے صوبے سیستان میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے آٹھ پاکستانیوں کو آبائی علاقوں میں سپرد خاک کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایران کے صوبے سیستان میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کی میتیں ان کے آبائی گھروں میں پہنچائی گئیں۔

    میتیں گھروں میں پہنچتے ہی کہرام برپا ہوگیا مقتولین کے ورثاء اہل علاقہ سمیت ہر ایک آنکھ اشکبار اور ہر فرد سوگ کے عالم میں تھا۔

    خانقاہ شریف سے تعلق رکھنے والے ایک ہی فیملی کے پانچ افراد دلشاد، دانش، عامر، جعفر، عامر اور نعیم کی مماز جنازہ خانقاہ شریف میں اداکی گئی، جس میں اراکین اسمبلی اورضلعی انتظامیہ کےافسران سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

    ناصر کی نمازجنازہ مسافر خانہ اور خالد اور جمشید کی نماز جنازہ احمد پور شرقیہ میں اداکی گئی۔

    نماز جنازہ میں انتظامیہ پولیس اور شہریوں کی کثیر تعداد میں شرکت کی تاہم ان کی تدفین ان کے آبائی قبرستان رنگ پور میں کر دی گئی ہے۔

    مزید پڑھیں : ایران میں قتل 8 پاکستانیوں کی میتیں بہاولپور پہنچا دی گئیں

    مقتول محمد جمشید کا تعلق بستی رب نواز آرائیں سے ہے جبکہ محمد خالد کا تعلق محراب والا سے ہے۔

    یاد رہے تمام مقتولین کی میتوں کو آج صبح تین بجے خصوصی پرواز کے زریعے بھاولپور ائرپورٹ لایا گیا اور وہاں سے میتوں کو ان کے ورثاء کے حوالے کرکے ان کے آبائی علاقوں میں بھیجا گیا تھا۔

    یاد رہے چار روز قبل چھبیس اور ستائیس جنوری کی درمیانی شب ایران کے صوبہ سیستان میں نامعلوم افراد نے 8 پاکستانیوں کو فائرنگ کرکےقتل کر دیا تھا۔

    یہ پاکستانی باشندے گزشتہ کئی سال سے ایران میں کار ورکشاپ میں کام کر رہے تھے۔

    بعد ازاں پاکستان نے ایران میں پاکستانی شہریوں کے قتل کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ہولناک اور قابل نفرت واقعہ قرار دیا تھا۔

    پاکستان نے واقعے کی تحقیقات اور گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کا محاسبہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

  • ایران نے امریکا کا مطالبہ مسترد کردیا

    ایران نے امریکا کا مطالبہ مسترد کردیا

    ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی نمائندے کے بیان پراپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے جوہری افزودگی کے حق پر کسی قسم کی بات نہیں ہوسکتی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ اسٹیو وٹکوف کی جانب سے متضاد بیان سننے کو ملا ہے، حقیقی موقف مذاکرات کی میز پر ہی واضح ہوگا۔

    انہوں نے واضح کیا کہ جوہری افزودگی پر ممکنہ خدشات دور کرسکتے ہیں، لیکن افزودگی کے حق پر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔

    قبل ازیں مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے اسٹیو وٹکوف نے کہا تھا کہ امریکا کے ساتھ معاہدے پر پہنچنے کے لیے ایران کو جوہری افزودگی روکنی، ختم کرنی ہوگی۔

    واضح رہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب نے امریکا کے ساتھ جوہری پروگرام پر مذاکرات کے دوسرے دور سے قبل واضح کر دیا تھا کہ فوجی صلاحیتوں پر کوئی بات چیت یا مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

    ترجمان ایرانی پاسداران انقلاب علی محمد نینی نے ایرانی نشریاتی ادارے IRIB کو بتایا کہ قومی سلامتی، دفاع اور فوجی طاقت ایران کی سرخ لکیروں میں سے ہیں جن پر کسی صورت بات چیت یا مذاکرات ممکن نہیں۔

    ایران اور امریکا ہفتے کے روز مسقط میں مذاکرات کا ایک اور دور شروع کرنے والے ہیں۔ یہ پیشرفت 2015 کے جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد اعلیٰ سطحی بات چیت کیلیے عمانی دارالحکومت میں اعلیٰ حکام کی ملاقات کے بعد سامنے آئی۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں واشنگٹن کو معاہدے سے الگ کر دیا تھا جبکہ رواں سال جنوری میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے وہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم چلا رہے ہیں۔

    مارچ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط ارسال کیا جس میں جوہری مذاکرات کا مطالبہ اور انکار کی صورت میں ممکنہ فوجی کارروائی کا انتباہ دیا گیا۔

    امریکی صدر نے ایران کے حوالے سے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس مسئلے کو حل کروں گا، یہ تقریباً ایک آسان مسئلہ ہے۔

    ٹرمپ انتظامیہ کا محکمہ صحت کی فنڈنگ سے 40 ارب ڈالر کم کرنے کا فیصلہ

    انہوں نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی دھمکی بھی دی تھی اور ایرانی حکام کو بنیاد پرست قرار دیا۔ تہران نے بارہا ایٹم بم کے حصول کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کے لیے حیرت انگیز خواہش کا اظہار ’’چاہتا ہوں ایران ایک امیر اور عظیم قوم بنے لیکن‘‘

    ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کے لیے حیرت انگیز خواہش کا اظہار ’’چاہتا ہوں ایران ایک امیر اور عظیم قوم بنے لیکن‘‘

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے لیے حیرت انگیز خواہش کا اظہار کر دیا ہے، انھوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ’’ میں چاہتا ہوں ایران ایک امیر اور عظیم قوم بنے لیکن جوہری ہتھیاروں کا خواب دیکھنا چھوڑنا ہوگا۔‘‘

    روئٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ ایران جان بوجھ کر امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے میں تاخیر کر رہا ہے، ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی کسی بھی مہم کو ترک کرنا چاہیے ورنہ تہران کو جوہری تنصیبات پر ممکنہ فوجی حملے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی ہفتے کے روز عمان میں ایک سینیئر ایرانی اہلکار سے ملاقات کے بعد ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا ’’مجھے لگتا ہے کہ وہ ہمارا استعمال کر رہے ہیں۔‘‘

    ٹرمپ نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ وہ ایک امیر عظیم قوم بنیں، لیکن صرف ایک چیز ہے، بہت سادہ سی بات ہے، ان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتے، اور انھیں اس سلسلے میں تیزی سے آگے بڑھنا ہوگا، کیوں کہ وہ ایک ایٹمی ہتھیار بنانے کے کافی قریب ہیں۔‘‘

    امریکی صدر نے کہا ’’اگر ہمیں ایران کو روکنے کے لیے کچھ بہت سخت کرنا پڑا تو ہم کریں گے، اور یہ میں ہمارے لیے نہیں کر رہا ہوں، ہم یہ دنیا کے لوگوں کے لیے کر رہے ہیں۔‘‘

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ مسئلے کو بات چیت سے حل کیا جائے گا، لیکن ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قریب پہنچ رہا ہے، ایران کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دیں گے۔


    امریکی محکمہ خارجہ کی فنڈنگ نصف کرنے پر غور، ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کا ایک اور بڑا قدم


    انھوں نے کہا ایران ہم سے ڈیل کرنا چاہتا ہے لیکن وہ نہیں جانتے کیسے کی جائے، ایران کو جوہری ہتھیاروں کا خواب دیکھنا چھوڑنا ہوگا ورنہ سنگین رد عمل کے لیے تیار رہے، ایران جوہری ہتھیاروں کے بغیر عظیم ملک بن سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ جوہری پروگرام پر ایران امریکا مذاکرات کا دوسرا دور اٹلی کے دارالحکومت روم میں ہوگا، اطالوی وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے تصدیق کر دی ہے، فریقین اور ثالث عمان نے روم کو میزبانی کے لیے تجویز کیا ہے۔ بات چیت کا اگلا مرحلہ آئندہ ہفتے کو منعقد ہونے کا امکان ہے۔ مسقط میں پہلی بات چیت کی کامیابی کے بعد دونوں ملکوں میں مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا تھا۔