Tag: ایران

  • ایران کا طویل فاصلے پر مار کرنے والے کروز میزائل کا کامیاب تجربہ

    ایران کا طویل فاصلے پر مار کرنے والے کروز میزائل کا کامیاب تجربہ

    تہران: ایران نے انقلاب کے 40 سال مکمل ہونے پر جدید ٹیکنالوجی سے لیس طویل فاصلے پر مار کرنے والے کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

    ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق ایران نے انقلاب کے 40 سال مکمل ہونے پر جدید ٹیکنالوجی سے لیس طویل فاصلے پر مار کرنے والے کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے، میزائل 1300 کلو میٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بناسکتا ہے۔

    ایرانی وزیر دفاع کے مطابق کروز میزائل 1200 کلو میٹر دور اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بناسکتا ہے۔

    ایرانی وزیر دفاع عامر ہتامی کے مطابق ایران میں انقلاب کے 40 برس مکمل ہونے پر دس روزہ جشن منایا جارہا ہے، 1300 کلو میٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے والا کروز میزائل کم اونچائی پر بھی پرواز کرسکتا ہے۔

    مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے طویل فاصلے پر بیلسٹک میزائل کے بارے میں خدشات موجود ہیں۔

    یہ پڑھیں: امریکا کی علیحدگی کے باوجود ایران جوہری معاہدے پر عمل پیرا ہے: سی آئی اے

    واضح رہے کہ ایران کی جانب سے 7 سال قبل بحری مشقوں کے آخری روز آبنائے ہرمز میں کروز اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو کامیاب تجربہ کیا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی سربراہ جینا ہیسپل کا کہنا تھا کہ امریکا کے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے باوجود ایران اس ڈیل پر عمل پیرا ہے۔

    جینا ہیسپل کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی حکام ایسی تیاریاں کر رہے ہیں جس سے ان کے لیے اس معاہدے سے الگ ہونے کی صورت میں آسانیاں پیدا ہوں۔

  • ایران سے تجارت کیلئے برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے نیا میکانزم تیار کرلیا

    ایران سے تجارت کیلئے برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے نیا میکانزم تیار کرلیا

    برلن : جرمنی، فرانس اور برطانیہ جدید میکانزم تیار کررہے ہیں جس کے ذریعے یورپی ممالک امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت کرسکیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تینوں ممالک نے سنہ 2015 میں طے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی پر امریکا کی مخالفت کی تھی، جس کے ذریعے ایران پر عائد عالمی پابندیاں ختم کی گئیں تھی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں کے باعث یورپی بینکوں کو برائے راست ایران کو ادائیگی کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے، امریکا کا کہنا ہے کہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو خطرناک نتائج کا سامنا کرے پڑے گا۔

    مقامی خبر رساں ادارے ادائیگی کرنے کا نیا میکانزم پیرس سے کام کرے گا جس کا نظام جرمن بینکر سنبھالیں گے، برطانیہ، فرانس اور جرمنی اس میکانزم کے ذریعے اپنی کمپنیوں کو ایران کے ساتھ تجارت جاری رکھنے کی سہولت دیں گے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ادائیگیوں کے دیگر اداروں کا تعلق امریکا سے ہے، جس کے باعث ایران کو ادائیگی کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔

    برطانیہ وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کا کہنا ہے کہ ادائیگی کا نئے میکانزم صرف خوراک، دوائیں اور طبی ساز و سامان کی ادائیگیوں پر لاگو ہوگا جبکہ ایران کی اہم تجارتی صعنت تیل کی ہے لیکن یہ میکانزم اس کی لاگو نہیں ہوگا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ مذکورہ میکانزم کا مقصد ایران کے ساتھ تجارتی لین ڈالر کے بجائے یورو وغیرہ میں ہوگا تا کہ امریکا کی جانب سے عائد پابندیوں سے بچا جا سکے۔

    جرمنی میں قائم امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا ہے کہ جو ادارے اور ممالک ایران کے ساتھ پابندی کے زمرے میں آنے والی سرگرمیوں میں شریک ہوں گے انہیں خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ "ہم یہ توقع نہیں رکھتے کہ مذکورہ میکانزم کا ہماری اس مہم پر کوئی اثر پڑے گا جو ایران کے خلاف انتہائی دباؤ کے واسطے جاری رہے”۔

  • جرمنی نے ایران کی ایئرلائن ماہان ایئر پر پابندی عائد کردی

    جرمنی نے ایران کی ایئرلائن ماہان ایئر پر پابندی عائد کردی

    برلن: جرمنی نے ایران کی دوسری بڑی ایئرلائن ماہان ایئر پر پابندی عائد کردی ہے اور امریکا کی جانب سے اس کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اس فیصلے کی وجہ سلامتی سے متعلق تحفظات کے علاوہ ایسے خدشات بھی ہیں کہ اس ایئرلائن کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

    ماہان ایئر لائن 2011 سے امریکی پابندیوں کی فہرست میں پر ہے اور یورپی یونین کے متعدد ممالک ایران پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ یورپی براعظم پر حملوں کے لیے جاسوسی کے عمل میں مصروف ہے۔

    امریکی کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے جرمنی کی جانب سے ماہان ایئر پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کو سراہا ہے۔

    جرمنی میں امریکا کے سفیر رچرڈ گرینل نے کہا کہ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جرمنی سے ماہان ایئر کو اپنے ملک میں پروازوں کی اجازت کیوں دی تھی میں اس سے قبل بھی یہ سوالات اٹھا رہا ہوں۔

    واضح رہے ماہان ایئر ایران کی دوسری بڑی ایئرلائن ہے اور اس کی ہفتے میں چار پروازیں تہران اور جرمن شہروں ڈوسلڈروف اور میونخ کے درمیان چلتی ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سال مئی میں امریکی محکمہ خزانہ نے ایران کی دو فضائی کمپنیوں ماہان ایئر اور معراج ایئر سے وابستہ اداروں کے علاوہ دو ایرانیوں اور ایک ترکی کمپنی پر بھی پابندی عائد کی تھی۔

    نیوکلیئر ڈیل کے خاتمے کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ امریکا ایران پر سخت ترین پابندیاں عائد کرے گا جس سے ایران کی معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔

  • ایران کی القدس بریگیڈ کو نشانہ بنارہے ہیں، اسرائیلی فورسز

    ایران کی القدس بریگیڈ کو نشانہ بنارہے ہیں، اسرائیلی فورسز

    دمشق : اسرائیلی فورسز نے شام میں موجود ایرانی فورسز کے ٹھکانوں کو فضائی حملے شروع کردئیے۔

    تفصیلات کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام میں موجود ایرانی سپاہ پاسداران کے ٹھکانوں پر غاصب صیہونی فورسز نے فضائی حملے شروع کردئیے۔

    شامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ شام کے فضائی دفاعی نظام نے پیر کی صبح اسرائیلی فورسز کے ایک حملے کا ناکام بنایا ہے۔

    اسرائیلی فورسز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شام میں کیا جانے والا آپریشن ایران کی سپاہ پاسداران کی القدس بریگیڈ کے خلاف ہے۔

    اسرائیلی فورسز نے اتوار کے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کے ذریعے آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    دوسری جانب برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کا کہنا ہے کہ اسرائیلی میزائل دمشق کے اطراف کو نشانہ بنا رہے ہیں جس سے شہریوں کی جان کو خطرہ ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ شام دمشق میں اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ تاحال نہیں لگایا جاسکتا تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اتوار کی رات سے دمشق میں دھماکوں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔

    اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے دورہ چاڈ کے موقع پر کہا تھا کہ ’ہم شام میں ایرانی ٹھکانوں کو نشانی بنائیں گے۔

  • سابق اسرائیلی وزیرنے ایران کے لیے جاسوسی کا اعتراف کرلیا

    سابق اسرائیلی وزیرنے ایران کے لیے جاسوسی کا اعتراف کرلیا

    تل ابیب: سابق اسرائیلی وزیرگونن سگیو نے ایران کے لیے جاسوسی کا اعتراف کرلیا، انہیں 11 سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسرائیلی وزیرانصاف کا کہنا ہے کہ سابق اسرائیلی وزیر گونن سگیو نے ایران کے لیے جاسوسی کرنے کا جرم قبول کرلیا۔

    سابق وزیرگونن سگیو کے اعتراف جرم کے بعد انہیں گیارہ برس قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

    گونن سگیو90 کی دہائی میں وزیربرائے توانائی تھے اور مبینہ طور ایرانی انٹیلیجنس ایجنسی نے انہیں اس وقت ریکروٹ کیا جب وہ نائجیریا میں تھے۔

    سابق اسرائیلی وزیرکو مئی میں استوائی گنی کے دورے کے دوران حراست میں لیا گیا تھا اور اسرائیلی پولیس کی جانب سے درخواست پران کو اسرائیل بھیجا گیا۔

    گونن سگیو جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹرہیں، انہیں 2005ء میں منشیات کی اسمگلنگ اور جعلی سفارتی پاسپورٹ رکھنے کے جرم میں پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی۔

    ایران کےلیےجاسوسی کےالزام میں سابق اسرائیلی وزیرگرفتار

    یاد رہے کہ گزشتہ سال جون میں یروشلم کی عدالت نے گونن سگیو پرحالت جنگ میں دشمن کی معاونت کرنے اور اسرائیل کے خلاف جاسوسی کرنے پرفرد جرم عائد کی تھی۔

  • تہران میں پراسرار بدبو کا معمہ حل ہو گیا؟

    تہران میں پراسرار بدبو کا معمہ حل ہو گیا؟

    تہران: ایرانی حکام چار دن بعد بھی دار الحکومت میں پراسرار بد بو کا معمہ حل نہیں کر سکے ہیں، بد بو نے کئی دن سے شہریوں کو اپنی لپیٹ میں رکھا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ چار دن سے ایرانی شہر تہران ایک پر اسرار بد بو کی لپیٹ میں ہے، حکام بد بو کا ماخذ ڈھونڈنے میں سرگرداں ہیں، عوام سے بھی مدد کی اپیل کی گئی۔

    [bs-quote quote=”بدبو پلاسکو بلڈنگ کے سیپٹک ٹینک سے آ رہی ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”منیجر کا دعویٰ”][/bs-quote]

    تاہم گزشتہ روز ایک بلڈنگ پروجیکٹ کے منیجر نے دعویٰ کر دیا ہے کہ بد بو کی وجہ یہ عمارت ہے جو اس کی زیرِ نگرانی ہے۔

    منیجر کے مطابق تہران میں واقع پلاسکو بلڈنگ کا ایک پرانا سیپٹک ٹینک پھٹ گیا ہے، جس کے باعث بدھ سے شہر بد بو کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔

    یہ عمارت 2017 میں پراسرا آتش زدگی کی وجہ سے جل کر منہدم ہو گئی تھی، منیجر کا کہنا ہے کہ تعمیراتی ٹیم نئی تعمیر کے سلسلے میں زمین میں سوراخ کر رہی تھی جب برسوں قبل بند کیے گئے ایک ڈسپوزل سیپٹک سسٹم کو انھوں نے توڑ دیا۔

    خیال رہے کہ پلاسکو بلڈنگ تہران اسکائی لائن کا ایک اہم ترین حصہ تھا اور سترہ منزلہ یہ عمارت 1960 کی دہائی میں تعمیر ہوئی تو ایران کی سب سے بلند عمارت تھی۔


    یہ بھی پڑھیں:  ترکی : خاتون کی ہیرے کی انگوٹھی نگل کر چوری کی کوشش ناکام


    یہ عمارت ایک ایرانی یہودی تاجر نے تعمیر کرائی تھی جسے 1979 میں انقلاب ایران کے بعد اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں پھانسی دی گئی۔

    قبل ازیں تہران میں پراسرار بدبو نے شہریوں کو شدید پریشانی میں مبتلا کیے رکھا، حکام تا حال بدبو دور کرنے کے لیے اقدامات نہیں کر سکے ہیں، حکام کی جانب سے بیان جاری کیا گیا تھا کہ تشویش کی کوئی بات نہیں جس پر شہریوں نے شدید برہمی کا اظہا کیا۔

  • ایران کو عالمی امن خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے، مائیک پومپیو

    ایران کو عالمی امن خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے، مائیک پومپیو

    واشنگٹن: امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ایران بین البراعظمی بیلسٹک میزائل چھوڑنے کی تیاری کررہا ہے، ایران کو عالمی امن خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ امریکا کو ایران کے بین البراعظمی میزائل سسٹم پر تشویش ہے۔

    امریکی سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران کی اسپیس لانچ وہیکل ٹیکنالوجی بیلسٹک میزائل کے برابر ہے، اس منصوبے سے ایران اپنے میزائل پروگرام کو مزید مضبوط کرے گا۔

    مائیک پومپیو کے مطابق ایران کا اقدام امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ نے سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کے خلاف قرار دے دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ایران کو کسی صورت میں جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے: مائیک پومپیو

    واضح رہے کہ گزشتہ سال سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ایران کو کسی صورت جوہری ہتھیار حاصل کرنے نہیں دیں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ امریکا ایران کو من مانی نہیں کرنے دے گا، تہران اس امریکی عزم سے اچھی طرح با خبر ہے، امریکا یورینیم افزودگی کی ایرانی رپورٹس کا جائزہ لے رہا ہے۔

    یاد رہے کہ ایرانی وزیرِ خارجہ بہرام قاسمی کا کہنا تھا کہ امریکا ایران کو دھمکیوں کے ذریعے مذاکرات کے لیے مجبور نہیں کرسکتا۔

  • امریکی فوج کی موجودگی سے شام میں عدم استحکام کی صورت حال رونما ہوئی، ایران

    امریکی فوج کی موجودگی سے شام میں عدم استحکام کی صورت حال رونما ہوئی، ایران

    تہران: ایران نے کہا ہے کہ شام میں امریکی فوج کی موجودگی ایک سنگین غلطی تھی جس کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام کی صورت حال رونما ہوئی۔

    بین الاقوامی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر کے شام سے فوج واپس بلانے پر ایران نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں امریکی فوج کی موجودگی نہ صرف غلطی تھی بلکہ یہ نظریاتی کشیدگی کا باعث بھی بنی۔

    ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایران شام میں امریکی فوج کے داخلے کی پہلے روز سے مخالفت کرتا آیا ہے۔

    ترجمان ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ شام میں امریکی فوج کی موجودگی کو کسی طرح بھی درست اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کی وجہ سے سارا علاقہ عدم استحکام کا شکار ہوا۔

    مزید پڑھیں: شام سے امریکی افواج کی واپسی کا عمل شروع ہوگیا: وائٹ ہاؤس کا اعلان

    دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شام سے امریکی فوج کا انخلاء روس، ایران، شام سمیت کئی ممالک کے لیے خوشی کا باعث نہیں ہے لیکن مجھے وہ اقدام کرنے ہیں جو امریکا کے لیے فائدہ مند ہوں۔

    واضح رہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا تھا کہ شام میں امریکی فوج کی موجودگی غیرقانونی ہے، شام میں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

    روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ امریکا نے شام سے انخلا کا فیصلہ کیا ہے تو یہ اچھی بات ہے، لیکن ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر کے شام سے فوج واپس بلانے کے اعلان کے بعد فوجیوں کی واپسی کا عمل شروع ہوچکا ہے جبکہ یہ عمل سو روز میں مکمل کرلیا جائے گا۔

  • امریکا نے شام سے اپنی افواج واپس بلانے پر غور شروع کردیا

    امریکا نے شام سے اپنی افواج واپس بلانے پر غور شروع کردیا

    واشگنٹن: امریکا نے شام سے اپنی افواج واپس بلانے پر حتمی غورکرنا شروع کردیا، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ بہت جلد شام سے اپنی افواج واپس بلالی جائیں گی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق طویل عرصے سے امریکی افواج شام میں موجود ہیں، امریکی حکام کے مطابق افواج نے وہاں اپنے اہداف حاصل کرلیے ہیں اس لیے افواج کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا جارہا ہے۔

    امریکی حکام کا کہنا تھا کہ شام سے افواج واپس بلانے کے حوالے سے تفصیلات نہیں بتاسکتے اور ابھی اس حوالے سے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا ہے۔

    امریکی حکام کا کہنا تھا کہ شام سے افواج کو واپس بلانے سے قبل اتحادیوں سے مشورہ کیا جائے گا۔

    دوسری جانب پینٹاگون کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے اپنے اتحادیوں کے ساتھ شام میں کام کرتے رہیں گے۔

    مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوج واپس بلانے کا اعلان کردیا

    ری پبلکن سینیٹر لِنڈسے گراہم نے شام سے امریکی افواج کو واپس بلانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے امریکا اور دنیا کے دوسرے ممالک میں خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ شام سے افواج کو واپس بلانے سے ایران، داعش اور بشارالاسد کی کامیابی تصور کیا جائے گا، اس طرح کے اقدامات سے گریز کیا جائے۔

    واضح رہے کہ رواں سال مارچ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے اپنی افواج واپس بلانے کا اعلان کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ فوج نے شام میں داعش کو شکست دے کر اپنے اہداف حاصل کرلیے ہیں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شام میں امریکی افواج کا کام داعش کو شکست دینا تھا فوج نے یہ کام بخوبی سر انجام دیا ہے، فوجی جوان جلد اپنی سرزمین پر واپس پہنچ جائیں گے۔

  • یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن مشرقِ وسطیٰ کا وہ رستا ہوا زخم ہے جو اب اس حالت میں آگیا ہے کہ اگر بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ لاعلاج بھی ہوسکتا ہے، اس منظرنامے میں سویڈن سے اچھی خبر یہ آئی ہے کہ آئینی حکومت اور برسرِ پیکارِ حوثیوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئےہیں۔

    بتایا جارہا ہے کہ یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر کیے جارہے تھے ، جن میں سے تین پر اتفاق ہوگیا ہے جبکہ دو پر حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ یمن کی آئینی حکومت اور فی الحال ملک کے اکثریتی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ان حوثی قبائل کے درمیان کن نکات پر اتفاقِ رائے ہوسکا ہے اور کون سے موضوعات ابھی بھی سرد خانے کی نظر ہوئے؟ اس پر ہم بعد میں نظر ڈالتے ہیں ، پہلے یہ دیکھ لیں کہ یمن تنازعہ آخر ہے کیا اور اس کی عالمی منظر نامے پر کیا اہمیت ہے۔

    یمن جنگ کا پس منظر


    یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکزکیاہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج کئی سال سے جنگ کی عبرت ناک آگ میں جھلس رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے عالمی طاقتیں رواں سال سامنے آئیں اور مملکت میں متحارب دونوں گروہوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے کہا گیا۔

    القاعدہ کے حملوں سے بے حال اس ملک میں عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا اور عبد اللہ صالح کے بعد یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔ اس صورتحال سے القاعدہ نے بھی فائدہ اٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ داعش نے بھی اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی لیکن مجموعی طور پر میدان حوثی قبائل کے ہاتھ رہا۔

    مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد حوثی قبائل کو شکست دینے اور ہادی کی حکومت کو بحال کرانے کے لیے حملے شروع کرتا ہے جس کے نتیجے میں آئینی حکومت عدن نامی علاقہ چھیننے میں کامیاب ہوجاتی ہے لیکن ملک کا مرکزی علاقہ صنعا تاحال حوثی قبائل کے قبضے میں ہے جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ایران ان کی درپردہ مدد کررہا ہے۔

    بد ترین انسانی المیہ


    اس ساری خانہ جنگی کے سبب یمن ایک ایسے انسانی المیے میں تبدیل ہوگیا جس کی جنگوں جدید تاریخ میں دور دور تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    آئینی حکومت اور حوثی قبائل کے درمیان امن معاہدہ


    سنہ 2016 میں ایک بار حوثی قبائل اور آئینی حکومت نے مذاکرات کی کوشش کی تھی تاہم وہ مذاکرات بری طرح ناکام ہوئے اور فریقین ایک دوسرے کو مذاکرات کی ناکامی کا سبب گردانتے رہے ۔ دونوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے باوجود جنگ نہیں روکی گئی جس کے سبب مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ رواں سال سب سے پہلے امریکا نے معاملے کے دونوں فریقوں کو جنگ بند کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کا کہا گیا جس کی برطانیہ اور اقوام متحدہ دونوں کی جانب سے حمایت کی گئی۔ امریکا میں یمن کےمعاملے پر سعودی عرب کی حمایت ختم کرنا آپشن بھی موضوع ِ گفتگو رہا جس کے بعد بالاخر دسمبر 2018 میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مذاکرات کے لیے سویڈن میں اکھٹے ہوئے۔

    یمن کی آئینی حکومت کا وفد پانچ دسمبر کو سویڈن آیا جبکہ حوثی قبائل کا وفد پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ مذاکرات اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے یمن مارٹن گریتھس کی سربراہی میں منعقد ہوئے ، یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر ہورہے تھے جن میں ایئرپورٹ کا کنٹرول، قیدیوں کا تبادلہ ، معیشت کی بہتری، حدیدہ میں قیام امن اور بحیرہ احمر کنارے واقع القصیر کی بندرگاہ کا کنٹرول شامل ہیں۔

    ایک ہفتہ جاری رہنے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں بالاخر طے پایا ہے کہ صنعاء ایئر پورٹ سے ملکی پروازیں چلانے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ دوسرے نکتے پر طے پایا ہے کہ دونوں فریق قیدیوں کا تبادلہ کریں گے اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ آئل اینڈ گیس سیکٹر کو دوبارہ بحال کیا جائے گا تاکہ معیشت کا پہیہ چلے ۔ یہ تین نکات ایسے ہیں جن پردونوں فریق مکمل طور پرراضی ہیں لیکن اصل مسئلہ حدیدہ شہر اور اس سے جڑے پورٹ کا ہے جو کہ یمن کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینی حکومت چاہتی ہے کہ شہر کا اختیار ان کے پاس ہو جبکہ پورٹ کے معاملے پر فریقین اقوام متحدہ کی نگرانی پر رضامند ی کا اظہا رکررہے ہیں تاہم اس کا فارمولا طے ہونا باقی ہے۔ حوثی باغی چاہتے ہیں کہ حدیدہ شہرکوایک نیوٹرل حیثیت دی جائے ۔

    سنہ 2016 کے بعد سے اب تک یمن کے معاملے پر ہونے والی یہ سب سے بڑی پیش رفت ہے اور یمن کے عوام کے لیے اس وقت کی سب سے زیادہ مطلوبہ شے ، یعنی امن کیونکہ امن ہی وہ چابی ہے جس سے سارے راستے کھل جاتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فریقین اس معاہدے پر عمل درآمد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں، یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یمن صرف داخلی شورش کا شکار نہیں بلکہ سعوودی عرب اور ایران بھی اس ملک میں اپنی قوت کا بھرپور اظہار کررہے ہیں اور اگر اس معاہدے سے ان دونوں طاقتوں کے مفادات پر ضر ب آتی ہے تو پھر اس پر عمل درآمد انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ دونوں ممالک بھی ایسے معاشی دور سے گزر رہے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ہی سب کے لیے بہتر ہے۔