Tag: ایران

  • جی سی سی ممالک کا ایران کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف مشترکہ کوششوں کا عہد

    جی سی سی ممالک کا ایران کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف مشترکہ کوششوں کا عہد

    ریاض : خلیج تعاون کونسل کے 39 ویں اجلاس میں رکن ممالک نے ایران کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف مشترکا کوششیں کرنے پر زور دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں منعقدہ خلیج تعاون کونسل کے ایک روزہ 39 واں اجلاس اختتام پذیر ہوگیا جس میں بحرین، کویت، عمان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے وفود نے شرکت کی۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کے سربراہان مملکت اجلاس شریک ہوئے جبکہ قطر کے وزیر خارجہ کی سربراہی میں ایک وفد نے اجلاس میں شرکت کی۔

    عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں رکن ممالک نے مشرق وسطیٰ کو درپیش مسائل سے نمٹنے کےلیے اتحاد و بہتر تعلقات قائم کرنے پر زور دیا۔

    جی سی سی رکن ممالک نے شام میں جاری بحران کے حل، یمن جنگ تنازعے کو ختم کرنے کے لیے تعاون کی یقین دہانی، فلسطین کا معاملہ اور ایرانی کارروائیوں کے خلاف مشترکا کوششیں کرنے کا عہد کیا۔

    جی سی سی اجلاس میں مشترکا افواج کے سربراہ کی نامزدگی کے لیے سعودی فوج کے جنرل عید اوواد کو نامزد کیا گیا جو مستقبل قریب میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

    اجلاس کے اختتام پر متحدہ عرب امارات نے خلیج تعاون کونسل کے 40 ویں سربراہی اجلاس کی میزبانی کی خواہش کا اظہار کیا جسے متفقہ رائے سے منظور کرلیا گیا۔

    خلیج تعاون کونسل کا ایک روزہ 39 واں اجلاس سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی سربراہی میں ریاض میں منعقد ہوا تھا۔

  • ایران میں آئل ٹینکر سے بچوں‌ کی بازیابی: معمہ حل ہوگیا

    ایران میں آئل ٹینکر سے بچوں‌ کی بازیابی: معمہ حل ہوگیا

    کراچی:‌ ایران میں آئل ٹینکر سے بچوں‌ کی بازیابی کا معمہ حل ہوگیا، ایرانی حکومت کا موقف سامنے آگیا.

    سفارتی ذرائع کے مطابق ایرانی حکام نے موقف اختیار کیا ہے کہ ٹینکر سے ان بچوں کو ماہی روڈ کسٹم پوائنٹ سے بازیاب کروایا گیا، جنھیں افغانستان سے لایا جارہا تھا۔

    [bs-quote quote=”ایران میں بچوں کی اسمگلنگ کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں سنسنی پھیل گئی تھی” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    ایرانی حکام کے  مطابق تمام بچےاس وقت ایران کے برجند کیمپ میں موجود ہیں، بچوں کو جلد ایران سے افغانستان بھیج دیا جائے گا.

    یاد رہے کہ ایران میں بچوں کی اسمگلنگ کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں سنسنی پھیل گئی تھی  اورکے پی کے حکومت کی جانب سے معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کا اعلان کیا گیا تھا۔


    ایران میں بچوں کی اسمگلنگ کی ویڈیو: معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں، ترجمان کے پی حکومت


    خیال کیا جارہا تھا کہ ان بچوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اس ضمن میں مردان کا ایک گھرانا بھی سامنے آیا، جس نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان میں سے ایک بچی فرشتہ نور ہے، جو تین ماہ پہلے کھو گئی تھی۔

    البتہ سفارتی ذرائع کے مطابق ایرانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ تمام بچے ڈرائیورکےرشتےدار تھے۔

    ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ڈرائیورکے پاس ایران کا ویزا موجود تھا اور وہ اپنے خاندان کوغیر قانونی طریقے سے ایران لانا چاہتا تھا۔

  • ایران: چابہار پولیس ہیڈکوارٹر پر خودکش حملہ، 3 جاں بحق

    ایران: چابہار پولیس ہیڈکوارٹر پر خودکش حملہ، 3 جاں بحق

    تہران : ایران کے ساحلی شہر چابہار میں پولیس ہیڈکوارٹر کے قریب کار بم دھماکے میں تین افراد جاں بحق متعدد زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق ایران کے جنوبی ساحلی شہر چابہار میں نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے پولیس کمانڈوز کے ہیڈکوارٹر پر کچھ دیر قبل بم حملہ کیا جس کے نتیجے میں 15 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد ہنگامی خدمات اور طبی امداد فراہم کرنے والے عملے نے موقع پر پہنچ زخمیوں اسپتال منتقل کیا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے دھماکے کی زد میں آکر زخمی ہونے والے کچھ افراد کی حالت تشویش ناک ہے جس کے باعث ڈاکٹرز نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

    ایرانی میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس ہیڈکوارٹر پر ہونے والا دھما کا خودکش تھا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق تاحال کسی تنظیم یا گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں ہے، سیکیورٹی فورسز نےواقعے کے فوراً بعد جائے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کردیا۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ حکومت نے واقعے کو دہشت گرد حملہ قرار دے کر تفتیش کا آغاز کردیاہے۔

    خیال رہے کہ چابہار ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کا شہر ہے جہاں آئے روز ایسے ناخشگوار واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

  • ایران میں 6.4 شدت کے زلزلے، سیکڑوں افراد زخمی

    ایران میں 6.4 شدت کے زلزلے، سیکڑوں افراد زخمی

    تہران : ایران میں 6.4 شدت کے زلزلے نے تباہی مچا دی، زلزلے کے نتیجے میں 100 سے زائد شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات تصدیق کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایران کے صوبے کرمنشاہ  میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں کئی مکانات و عمارتیں متاثر ہوگئیں اور  سیکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔

    حکام کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ کرمنشاہ میں محسوس کیے جانے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.4 ریکارڈ کی گئی۔

    ایران کے ادارے ارضیاتی طبعیات کا کہنا ہے کہ زلزلے کا مرکز سرپل ذھب سے 17 کلومیٹر جنوب مغرب میں تھا جس کی گہرائی 7 کلومیٹر تھی جبکہ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت 6.3 اور گہرائی 10 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس ہونے کے بعد عوام کلمہ طیبہ کا ورد کرتی ہوئی گھروں سے باہر نکل آئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ بیک وقت عراقی دارالحکومت میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔

    یاد رہے کہ گذشتہ بھی کرمانشاہ کے میں آنے والے 7.3 شدت زلزلے کے نتیجے میں 600 افراد ہلاک ہوئے تھے۔


    مزید پڑھیں : ایران میں زلزلے سے 2 افراد ہلاک، 200 سے زائد زخمی


    خیال رہے کہ تین ماہ قبل بھی ایران میں 6.0 شدت کے زلزلے نے تباہی مچائی تھی، زلزلے کے نتیجے میں 2 ہلاک جبکہ 200 سے زائد شہریوں کے زخمی ہوئے تھے۔

  • عالمی طاقتوں کے مدمقابل سعودی عرب کے دفاع کو تیار ہیں، ایرانی صدرحسن روحانی

    عالمی طاقتوں کے مدمقابل سعودی عرب کے دفاع کو تیار ہیں، ایرانی صدرحسن روحانی

    تہران: ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کے مدمقابل سعودی عرب کے دفاع کو تیار ہیں، سعودی شہریوں کو بھائیوں کی طرح مانتے ہیں۔

    تہران میں منعقدہ سالانہ اسلامی یکجہتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ مغربی ممالک نے مشرقی وسطیٰ میں اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے اسرائیل جیسا کینسر کا پھوڑا قائم کیا، دہشت گردوں اور عالمی طاقتوں کے مدمقابل سعودی عرب کے دفاع کو تیار ہیں۔

    ایرانی صدر نے کہا کہ دوسری عالمی جنگ کا نتیجہ خطے میں کینسر کے ناسور کی صورت میں نکلا، اسرائیل ایک جعلی حکومت ہے جسے مغربی ممالک نے بنایا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ امریکا مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرکے اسرائیل کو محفوظ بنا رہا ہے جبکہ خطے میں ایران کے حریف سعودی عرب کے ساتھ امریکا خوشامد کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔

    حسن روحانی نے کہا کہ ہم سعودی شہریوں کو بھائیوں کی طرح مانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ مکہ و مدینہ میں رہنے والے ہمارے بھائیوں جیسے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ایران کے خلاف مغربی سازش کوناکام بنائیں گے‘ حسن روحانی

    واضح رہے کہ سعودی عرب نے ایران سے تقریباً تین برس قبل ایران میں قائم سفارت خانے کے باہر مسلسل احتجاج اور آگ لگانے کے واقعے کے بعد اپنے سفارتی تعلقات ختم کردئیے تھے۔

    یاد رہے کہ شام اور یمن میں جاری جنگی تنازع میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔

  • یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    یمن میں جنگ کے بھڑکتے شعلوں کو اب تین سال بیت چکے ہیں، یہ جنگ اس عرب بہار کے نتیجے میں رونما ہوئی جو کہ مشرقِ وسطیٰ کے لیے خون آلود بہار ثابت ہوئی ہے۔ یمن میں تنازعے کی ابتدا ہوئی 2011 میں جب طویل عرصے سے مسند حکومت پر فائزعلی عبداللہ الصالح کو عوامی دباؤ کے نتیجے میں اقتدار اپنے نائب منصور ہادی کو سونپنا پڑا۔

    نئے صدر ہادی کو درپیش مسائل میں سب سے اہم مسئلہ القائدہ کے حملے، جنوبی یمن میں جاری علیحدگی پسند تحریک، فوجی حکام کی سابق صدر سے وفاداریاں اور ان کے ساتھ ساتھ کرپشن ، بیروزگاری اور امن و امان کے مسائل شامل تھے ۔

    [bs-quote quote=”عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا تو یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    آگے بڑھنے سے قبل ہم ایک نظر ڈالتے ہیں یمن کے جغرافیے اور وہاں کے سماجی ڈھانچے پر جس کا اس جنگ میں انتہائی اہم کردار ہے۔یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکز کی اہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج ایک ایسی آگ میں جھلس رہا ہے جس کے سدباب کا مستقبل قریب میں دو ر دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔

    [bs-quote quote=”یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد 56 فی صد جب کہ زیدی شیعوں کی 42 فی صد ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    چلیں اب واپس چلتے ہیں ماضی کے منظر نامے کی طرف جس سے ہمیں واپس حال میں آنے میں مدد ملے گی۔ عبد اللہ صالح کے دور اقتدار میں حوثی قبائل جو کہ زیدی شیعوں پر مشتمل ہیں ، انہوں نے مرکزی حکومت کے ساتھ پہلے سے جنگ چھیڑ رکھی تھی ، جیسے ہی عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا تو یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی ، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔

    جنگ کے شعلے عروج پر


    اسی عرصے میں سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والا کثیر القومی اتحاد یمن کے تنازعے میں مداخلت کرتا ہے ، یہ وقت ہے مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔

    حوثی قبائل کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں ایران کی حمایت اور مدد حاصل ہے جس کے سبب خطے کے سنی ممالک میں تشویش پیدا ہونا یقیناً ایک قابلِ فہم بات تھی اور اسی سلسلے میں سعودی اتحاد نے یمن پر فضائی حملے شروع کیے کہ کسی طرح یمن کا کنٹرول واپس صدر ہادی کے حوالے کردیا جائے ۔ اس اتحاد کو امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہتھیار اور خفیہ اطلاعات فراہم کی جاتی رہیں، جن کی بنا پر سعودی عرب نے چن چن کر یمن پر حملے کیے۔

    [bs-quote quote=”سعودی اتحاد نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہتھیار اور خفیہ اطلاعات کی مدد سے یمن پر مہلک فضائی حملے کیے۔ دوسری طرف حوثی قبائل کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ یمن کا کنٹرول واپس صدر ہادی کے حوالے کر دیا جائے۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    سعودی اتحاد اگست 2015 میں جنوبی یمن کے ساحلی شہر عدن میں داخل ہوتے ہوئے حوثی قبائل اور ان کے حواریوں سے شہر کا تسلط لے کر اٹھے اور ہادی عدن نامی شہر میں اپنی عارضی حکومت بنانے میں کام یاب ہوگیا، حالاں کہ وہ تاحال یمن واپس نہیں آ ئے ہیں۔

    عدن کو چھڑائے جانے کے باوجود ابھی تک صنعا پر حوثیوں کا تسلط برقرار ہے اور جنوبی شہر تیز بھی ان کے تسلط میں ہے جہاں سے وہ سعودی عرب کی سرحدوں میں میزائل فائر کرتے ہیں۔ حوثیوں کی جانب سے کیے جانے والے ان میزائل حملوں نے سعودی مملکت اور افواج کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔

    بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سارے خونی منظر نامے میں دو فریق اوربھی ہیں اور ان میں سے ایک ہے القائدہ ( عرب ) اور اسی کے متوازی دولتِ اسلامیہ کے حمایت یافتہ جہادی گروپ، یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے سابق صدرصالح کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کیا اور بعد میں بھی ہادی کی حکومت کے لیے وبالِ جان بنے رہے ۔ انہوں نے جنوبی یمن میں علاقوں پر قبضے کیے اور بالخصوص عدن میں ایسے خون آشام حملے کیے ہیں کہ آسمان لرز اٹھا۔

    [bs-quote quote=”حوثی قبائل کے میزائل حملوں نے سعودی مملکت اور افواج کو بے پناہ نقصان پہنچایا، دوسری طرف القائدہ اور دولتِ اسلامیہ نے سعودی اتحاد کے زیرِ قبضہ علاقے عدن میں بے پناہ تباہ کن حملے کیے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جہاں ایک جانب یہ سارے عناصر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوکر یمن کو دنیا کی برباد ترین ریاست میں تبدیل کررہے ہیں وہی نومبر 2017 میں یمنی دار الحکومت صنعا پر ہونے والے بیلسٹک میزائل حملے نے سعودی عرب میں تشویش کی لہر دوڑادی جس کے بعد یمن کا محاصرہ شدید ترین کردیا گیا جس سے وہاں دنیا کی تاریخ کا بد ترین انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ سعودی اتحاد کا مؤقف ہے کہ وہ اس محاصرے سے یمن کے باغیوں کو ایران کی جانب سے اسلحے کی سپلائی کی روک تھام کر رہا ہے جب کہ تہران اس الزام کی ہمیشہ سے تردید کرتا آیا ہے۔

    سعودی اتحاد کا کچھ بھی مؤقف ہو لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پابندیوں سے ایک ایسا انسانی قحط جنم لے رہا ہے جو کہ دنیا نے کئی دہائیوں سے نہیں دیکھا ہے۔ تین سال کے عرصے میں اقوام متحدہ کی جانب سے قیام امن کے لیے کئی بار مذاکرات کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار ایسی تمام کوششیں ناکامی کا شکار ہوئیں۔

    طویل عرصے بعد اس سارے منظر نامے میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ کچھ دن قبل امریکا نے جنگ کے دونوں مرکزی فریقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ بند کرکے تیس دن کے اندرمذاکرات کی میز پر آئیں ۔ امریکی وزیردفاع جم میٹس کی جانب سے سامنے آنے والے اس مطالبے کی برطانیہ نے بھی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات ہی اس تنازعے کا واحد حل ہیں۔

    [bs-quote quote=”ایک طرف امریکا نے یمن میں فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا ہے، دوسری طرف سعودی اتحاد نے تباہ کن حملوں میں مزید شدت پیدا کر دی ہے، تیسری طرف شمالی یمن کے علیحدگی پسندوں نے جنوبی یمن سے علیحدگی کا پھر مطالبہ شروع کر دیا ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اس مطالبے کے ساتھ ہی حکومتی افواج اور سعودی اتحاد کی جانب سے حوثی قبائل کے خلاف کارروائیوں میں انتہائی شدت آگئی ہے اور لگتا یہ ہے کہ وہ قیام امن کے مذاکرات سے پہلے حوثیوں کو فیصلہ کن ضرب دینا چاہتے ہیں۔ یمن کی حکومت کے لیے ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ 1990 میں جنوبی یمن سے الحاق کرنے والے شمالی یمن کے علیحدگی پسندوں نے جو کہ اب تک حوثیوں کے خلاف حکومت کے ہمراہ صف آرا تھے ، اب انہوں نے ایک بار پھر جنوبی یمن سے علیحدگی کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔ اب مذاکرات کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسندوں کا معاملہ بھی سامنے رہے گا۔ اس تمام تر منظرنامے میں لگتا تو یہ ہے کہ یمن کےعوام کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں اور قیام امن کے لیے ابھی ایک طویل سفر ہے جو یمن کے شہریوں نے طے کرنا ہے۔

    یمن جنگ کے انسانی زندگی پراثرات


    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جدید تاریخ کا شدید ترین قحط یمن میں پڑنے جارہا ہے جس کے اثرات آئندہ کئی نسلوں پرمرتب ہوں گے۔ اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    [bs-quote quote=”اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جدید تاریخ کا شدید ترین قحط یمن میں پڑنے جارہا ہے جس کے اثرات آئندہ کئی نسلوں پرمرتب ہوں گے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    حرف ِآخر


    ان سارے عوامل کے پیشِ نظر ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی اتحاد، حوثی قبائل اور ایران کو اب اس ملک کے مجبور اور بے کس عوام پر رحم کرتے ہوئے جنگ بندی کی امریکی اپیل پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے ، بصورت دیگر مشرقِ وسطیٰ کا یہ دوسرا بڑا عرب ملک ، مسلم حکمرانوں کی ان بین الاقوامی سطح کی بے وقوفیوں کا شکار بن کربالکل ہی برباد ہوجائے گا۔ مسلم حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ عرب بہار کے نام پر اس خطے کے انسانوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ عالمی طاقتوں کی سجائی ہوئی بساط ہے اور اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔ خطے کے عوام اسلحے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہ اور ان فیکٹریوں کے مالکان کی عیاشیوں کی قیمت اپنے لہو سے ادا کررہے ہیں۔

    [bs-quote quote=”سعودی اتحاد، حوثی قبائل اور ایران کو اب اس ملک کے مجبور اور بے کس عوام پر رحم کرتے ہوئے جنگ بندی کی امریکی اپیل پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    وزیراعظم پاکستان اپنے دورۂ سعودی عرب کے بعد اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ سعودی عرب اگرچاہے تو پاکستان یمن کے تنازعے میں مصالحت کار کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ امریکی مطالبہ بھی یہی ہے کہ فریقین مذاکرات کی میز پر آئیں تو سعودی عرب کے لیے یہ سب سے اچھا موقع ہے کہ یمن کی اس بے مقصد جنگ سے وہ خود کو باہر نکال لے،بہ صورتِ دیگر وہ یہاں گردن تک دھنس چکا ہے اور فی الحال اس کے باہر نکلنے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا۔

    جاتے جاتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ کئی سال پہلے ایک کتاب پڑھی تھی جس کا عنوان ’قیامتِ صغرا ‘تھا۔ مؤلف کا نام ابھی یاد نہیں آرہا ہے لیکن کتاب میں احادیث کے حوالے سے وہ علامات جمع کی گئیں تھیں جن کا قیامت سےپہلے ظہور ہونا ہے۔ انہی میں سے ایک یہ بھی تھی کہ عدن( یمن ) کی گہرائیوں میں سے ایک ایسی ہولناک آگ برآمد ہوگی جو سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ محض چند سال کے بعد ہی قیامت کی وہ علامت مجسم ہوکر سامنے آچکی ہے اور اب یہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس آگ کو ٹھنڈا کرتے ہیں یا مزید تیل ڈال کراسے پورے خطے میں پھیلادیتے ہیں۔

  • دنیا بھر میں‌ دہشت گردی کا پشت پناہ ایران ہے، ٹرمپ

    دنیا بھر میں‌ دہشت گردی کا پشت پناہ ایران ہے، ٹرمپ

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی حمایت میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی انتہا پسند سرگرمیوں کے باعث خطے کو خطرات لاحق ہیں جس کا مقابلہ سعودیہ کے ساتھ ملکر کریں گے۔

    ان خیالات کا اظہار امریکی صدر نے منگل کے روز جاری بیان میں کیا جس میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کئی برسوں سے یمن میں سعودی عرب کے خلاف جاری جنگ کا ذمہ دار ایران ہے جو لبنان کی مسلح تنظیم حزب اللہ کا پست پناہ ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایرانی حکومت پڑوسی ملک عراق کی نوزائیدہ جمہوری حکومت کو بھی عدم استحکام میں مبتلا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا ایران پوری طاقت کے ساتھ کھلے عام ’مرگ بر امریکا اور مرگ بر اسرائیل‘ کے شعار بلند کرتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں کئی امریکی شہری اور دیگر بے گناہ افراد کے قتل میں ملوث ہے۔

    امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کے بعد سعودی عرب تیل پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور سعودیہ نے تیل کی قیمت بھی مناسب رکھی ہوئی ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں ایرانی سرگرمیوں کے خلاف سعودی عرب کے ساتھ اتحاد کو قائم رکھتے ہوئے غیر متزلزل شراکت داری جاری رکھے گا۔

    خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل جمال خاشقجی قتل کیس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی آئی اے کی رپورٹ قبل ازوقت ہے حتمی رپورٹ آنے تک کچھ نہیں کہہ سکتے مگر ایسا ہوسکتا ہے کہ قتل کا حکم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا ہو۔

  • یورپی یونین کا ایران کے خلاف پابندیاں لگانے پر غور

    یورپی یونین کا ایران کے خلاف پابندیاں لگانے پر غور

    برسلز: یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ایران کے خلاف یورپ میں دو ناکام حملوں کی پاداش میں پابندیاں لگانے کے امکانات کا جائزہ لینے پر اتفاق رائے ظاہر کردیا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یورپ میں ناکام حملوں کی ذمہ داری ایرانی خفیہ اداروں پر عائد کی گئی تھی، اس پیش رفت کے بعد ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کے مطالبات زور پکڑتے جارہے ہیں۔

    یورپی پارلیمنٹ کے کم سے کم 15 ارکان نے ان حملوں کے حوالے سے یورپی یونین کی خاموشی اور ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ہدف تنقید بنایا تھا۔

    دوسری جانب ڈنمارک حکومت یورپی یونین میں اپنے اتحادیوں سے تہران کو سزا دینے کے لیے مشورے کررہی ہے، ایران پر تین حکومت مخالف کارکنوں کو ڈنمارک کی سرزمین پر قتل کیے جانے کا الزام تھا۔

    یہ پڑھیں: فرانس نے ایرانی انٹیلی جنس کے اثاثے منجمد کردئیے

    یورپی یونین میں خارجہ امور کی نگران فیڈ بریکا موگرینی کا کہنا تھا کہ ڈنمارک میں جو کچھ ہوا وہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔
    یورپی یونین کی اعلیٰ عہدیدار کا یہ بیان ایران کے خلاف یورپ کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کا عندیہ سمجھا جارہا ہے۔

    یورپی سفارت کاروں نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ اتحاد کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ روز دو ایرانی شہریوں پر فرانس میں بم دھماکے کا منصوبہ تیار کرنے کی پاداش میں سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے، ایسا فیصلہ اتحاد میں شامل دوسرے ملکوں کی جانب سے بھی ملتے جلتے اقدامات کی راہ ہموار کردے گا۔

    واضح رہے کہ رواں سال امریکا کی جانب سے جوہری معاہدے سے نکلنے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں لگانے کے بعد سے یورپی یونین تہران کے ساتھ محتاط انداز میں معاملات چلا رہا تھا۔

  • امریکا نے ایران پر ایک مرتبہ پھر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں

    امریکا نے ایران پر ایک مرتبہ پھر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں

    تہران/واشنگٹن : امریکی حکام نے جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد ایران کے ملت اور مہر بینک سمیت کئی کمپنیوں پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی حکومت کی جانب سے رواں برس جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایک مرتبہ پھر ایران پر اقتصاد پابندیاں عائد کردی ہیں جن اداروں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں ان میں ایران کا مہر اور ملت بینک بھی شامل ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایران کی ٹریکٹر ساز کمپنی، سپاہ پاسداران کی مالی معاونت کرنے والا بڑا مالیاتی ادارہ اور ایک بینک کو ایرانی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ مالیاتی ادارے پر ایرانی سپاہ پاسداران کے پیراملٹری گروپ کی معاونت کا الزام عائد کیا ہے، جو کم عمر بچوں کو فوجی تربیت فراہم کرتے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امریکا نے ایران کے ملت بینک پر بسیج فورس کے مہر بینک سے تعاون کرنے کا الزام عائد کرکے قدغنیں لگائی ہیں جبکہ مہر اقتصاد بینک کے زیر انتظام کام کرنے والی کمپنیوں پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    خیال رہے کہ امریکا کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے بعد رواں سال جون میں عالمی طیارہ ساز کمپنی نے بھی ایران کو جہاز کی فروخت روک دی تھی۔

    امریکا نے عالمی جوہری معاہدے سے دست برداری کے بعد ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں جس کے باعث امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد اس ملک پر ماضی میں لگائی جانے والی اقتصادی پابندیاں دوبارہ بحال کردی ہیں۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال مئی میں ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران پر سخت پابندیاں لگائیں گے، ایران سے جوہری تعاون کرنے والی ریاست پر بھی پابندیاں لگائیں گے۔

  • ایرانی فورسز کی شام میں موجودگی تک تعمیر نو میں مدد نہیں کریں گے، امریکی وزیر خارجہ

    ایرانی فورسز کی شام میں موجودگی تک تعمیر نو میں مدد نہیں کریں گے، امریکی وزیر خارجہ

    واشنگٹن: امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ جب تک شام میں ایرانی فورسز موجود ہیں امریکا شام کی تعمیر نو میں کسی قسم کی مدد نہیں کرے گا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ شام کی تعمیر نو میں اس وقت ہم کوئی مدد نہیں کرسکتے جب تک ایرانی فورسز شام میں موجود ہیں پہلے ایرانی فورسز کو شام سے نکلنا ہوگا۔

    امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کو شام سے مکمل طور پر نکل جانے کی ضمانت دینا ہوگی ورنہ ہم شام کی تعمیر نو کے لیے ایک ڈالر بھی صرف نہیں کریں گے۔

    مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ شام میں جاری تنازع کا پرامن سیاسی حل چاہتے ہیں، شام کے حوالے سے ہمارے مطالبات میں پہلا مطالبہ ایرانی فورسز کا شام سے انخلا ہے۔

    واضح رہے کہ ایران کے حوالے سے سخت موقف رکھنے والے امریکی مشیر جان بولٹن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ داعش کی موجودگی تک امریکی فوج شام میں موجود رہے گی اس کے ساتھ ساتھ اگر شام میں ایرانی فورسز موجود رہتی ہیں تو امریکا بھی شام میں موجود رہے گا۔

    یاد رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے شام میں کارروائی جاری رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ شام میں ایران کو مضبوط ہونے سے روکنے کے لیے کارروائی جاری رہے گی۔

    خیال رہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے شام کی تعمیر نو کے لیے ڈونر ممالک کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔