Tag: ایزرا پاؤنڈ

  • ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں!

    ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں!

    یہ اس برس کی بات ہے جب ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلی تھی۔ شہر شہر ہنگامے ہو رہے تھے۔ میرٹھ کیسے بچا رہتا۔ وہ بھی اس کی زد میں آگیا۔

    اردگرد ہندوستان چھوڑ دو کے نعرے لگ رہے تھے۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس، گرفتاریاں مگر میرٹھ کالج میں امن و امان تھا۔ بس ایک صبح کالج کے کسی گوشے میں یہ نعرہ بلند ہوا۔ سمجھو کہ جیسے کسی نے بھس میں چنگاری پھینک دی۔ آگ فورا ہی بھڑک اٹھی۔ کلاسوں سے لڑکے بھرا کھا کر نکلے۔ نعرہ بازی شروع ہوگئی۔ کسی نے گھما کر پتھر مارا اور ایک کمرے کے کسی دریچے کے شیشے چکنا چور ہوگئے۔ بس پھر دروازوں، دریچوں کے شیشے چکنا چور ہوتے چلے گئے۔ جب ہجوم کسی طور قابو نہ آیا تو پولیس طلب کرلی گئی۔

    مگر پولیس کے آنے سے پہلے میرٹھ کے جانے مانے لیگی راہ نما ڈاکٹر اشرف کالج آن پہنچے۔ مسلمان طلباء میں جو لیڈر قسم کی مخلوق تھا، اسے ہدایات دیں اور چلے گئے۔ میں نے اردگرد نظر ڈالی تو دیکھا کہ مسلمان طلباء بھاگنے کے بجائے لپک جھپک پرنسپل چٹر جی کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ میں بھی ان میں جا شامل ہوا۔ آگے آگے جو گھڑ سوار تھا، اس نے اپنے دستہ کو ہدایت دی کہ کر لو انہیں گرفتار۔ مگر چٹر جی بیچ میں آگئے۔

    "نہیں انہیں نہیں۔ یہ میرے بچّے ہیں۔”

    سو رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت

    کالج بند ہوگیا مگر پروفیسر مکر جی کلاس سے اپنی بے تعلقی کو زیادہ دن برداشت نہ کرسکے، جلد ہی اس جمود کو توڑا اور کلاس لینا شروع کر دی۔ آج یوں ہوا کہ انگریزی شاعری کے نئے رجحانات پر بات کرتے کرتے کہیں ایزرا پاؤنڈ کا حوالہ آگیا۔ لیجیے پھر ایزرا پاؤنڈ پر ہی رواں ہوگئے۔ یہ دھیان ہی نہیں رہا کہ ایزرا پاؤنڈ تو کورس میں شامل ہے ہی نہیں۔ ذرا وقفہ آیا تو ایک طالب علم ڈرتے ڈرتے کھڑا ہوا اور جھجھکتے ہوئے بولا: سر، ایزرا پاؤنڈ ہمارے کورس میں نہیں ہے۔

    بس مکر جی کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ کورس؟ میں کورس نہیں پڑھاتا، تمہیں انگریزی ادب پڑھاتا ہوں۔ یہ کہا، سامنے رکھی کتاب کہنے والے طالبِ علم کی طرف پھینک کر ماری اور بھنّا کر باہر نکل گئے۔ کلاس ہکا بکا کہ یہ کیا ہوا۔

    اگلے دن کلاس میں طلباء سب موجود، مکر جی غائب۔ بہت انتظار کیا مگر بے سود۔ تب طلباء کو احساس ہوا کہ مکر جی کچھ زیادہ ہی خفا ہوگئے ہیں۔ اگلے دن طلباء کی ایک ٹولی ان کے گھر پہنچی۔ منت سماجت کی، روٹھے ہوئے کو منایا اور کلاس میں لے کر آئے۔ یہ تھے ہمارے پروفیسر مکر جی۔

    (ماخوذ از "جسجتو کیا ہے”)

  • ایزرا پاؤنڈ: بیسویں صدی کا صاحبِ اسلوب شاعر جسے پاگل خانے بھیج دیا گیا تھا

    ایزرا پاؤنڈ: بیسویں صدی کا صاحبِ اسلوب شاعر جسے پاگل خانے بھیج دیا گیا تھا

    ایزرا پاؤنڈ نے کہا تھا کہ نقّاد کو کچھ سوال ایسے بھی اٹھانے چاہییں جن کا کوئی جواب نہ دیا جا سکے، ان میں سے بعض سوال ایسے بھی ہوں جن میں نہ تو ادیبوں کو کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچے نہ ادب کو!

    جہانِ ادب میں‌ تو ایزرا پاؤنڈ کو بہت پذیرائی ملی اور اس کی تخلیقات کو سراہا گیا، لیکن امریکی حکومت کے لیے وہ اپنے فکر و خیالات کی وجہ سے ناقابلِ‌ برداشت تھا، سو اُسے بدترین حالات میں قید جھیلنا پڑی۔ شہرۂ آفاق امریکی شاعر ایزرا پاؤنڈ نے دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر امریکا میں جبر اور سخت مصائب اٹھائے۔ جرأتِ اظہار کی پاداش میں‌ رہائی کے بعد بھی اُسے کئی پابندیوں کا سامنا رہا۔ وہ ایک بڑا نقّاد بھی تھا۔

    ایزرا پائونڈ 1885 میں‌ پیدا ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو اس نے اٹلی میں اپنے قیام کے دوران جنگ کی مخالفت میں تقاریر کیں جس میں‌ وہاں‌ لوگوں کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مخالفت پر اکسایا۔ جنگ ختم ہوئی تو اس کی عمر 60 سال تھی اور اُسے قیدی بنا لیا گیا۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی حکومتوں کی مخالفت پر ایزرا پاؤنڈ کو غدار اور جنونی بھی قرار دے دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ اسے پاگل ثابت کرکے امریکا کے ایک پاگل خانے میں داخل کرایا گیا جہاں وہ 73 برس تک بند رہا۔ اپنے وقت کے مشہور شاعر رابرٹ فراسٹ نے اس پر حکام کو درخواست دی اور ایزرا پاؤنڈ کو پاگل خانے سے نکلوایا۔

    ایزرا پاؤنڈ کے بارے میں‌ مشہور تھا کہ وہ ایک جھگڑالو اور جھکّی انسان ہے، لیکن اپنے وقت کے بڑے تخلیق کاروں‌ اور اہلِ قلم نے اسے انقلابی اور بڑا شاعر قرار دیا ہے۔ ممتاز اہلِ قلم نے اس کے افکار و خیالات کو سراہا ہے۔ ایزرا پاؤنڈ کی نظم دی ویسٹ لینڈ بھی بیسویں صدی کی شان دار تخلیق کہلاتی ہے۔

    پاگل خانے سے رہائی کے بعد ایزرا پاؤنڈ دوبارہ اٹلی چلا گیا اور وہاں فلورنس کے ایک اسپتال میں ایک مرض کے سبب چل بسا۔ ایزرا پاؤنڈ کا یومِ‌ وفات یکم نومبر 1972ء ہے۔

    یونان، اٹلی اور فرانسیسی ادب کا گہرا مطالعہ کرنے والے ایزرا پاؤنڈ نے اپنی تخلیقات میں نت نئے تجربے کیے جو فکر و نظر کے ساتھ اسلوب کی انفرادیت کے تجربات تھے۔ وہ شاعری میں‌ نئی جہات سے آشنا کرنے کے لیے مشہور ہوا۔ یورپ اور مشرقی تہذیبوں سے ایزرا پاؤنڈ نے جو استفادہ کیا تھا، وہ اسے جدیدیت کی تحریک کا بانی بنانے میں معاون ثابت ہوئے۔

    برطانیہ میں‌ قیام کے دوران 1912ء تک ایزرا پاؤنڈ نے اپنی نظموں کے چار مجموعے شایع کروائے۔ امریکا کے اس سچّے اور خوب صورت شاعر کی بہترین نظمیں وہ ہیں جو اس نے چینی، جاپانی اور اطالوی ادب سے متاثر ہو کر لکھی ہیں۔ اس کے خیالات و جذبات میں قدیم داستانوں، عوامی گیتوں اور جدید معاشرتی ہیجان نمایاں‌ ہیں‌ جن کو اس نے بڑے سلیقے سے اپنی شاعری میں‌ پیش کیا۔

  • مشہور شاعر ایزرا پاؤںڈ جسے پاگل خانے بھیج دیا گیا تھا

    مشہور شاعر ایزرا پاؤںڈ جسے پاگل خانے بھیج دیا گیا تھا

    ایزرا پاؤنڈ نے کہا تھا کہ نقّاد کو کچھ سوال ایسے بھی اٹھانے چاہییں جن کا کوئی جواب نہ دیا جا سکے۔ ان میں سے بعض سوال ایسے بھی ہوں جن میں نہ تو ادیبوں کو کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچ سکے نہ ادب کو۔

    جہانِ ادب میں‌ تو ایزرا پاؤنڈ کو بہت پذیرائی ملی اور اس کی تخلیقات کو سراہا گیا، لیکن امریکی حکومت کے لیے اس کے بعض خیالات ناقابلِ‌ برداشت تھے، سو اسے قید اور بدترین سزا جھیلنا پڑی۔

    وہ امریکا کا ایک بڑا شاعر تھا جس نے دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر امریکا میں جبر کا سامنا کیا۔ اسے قید کے بعد جرأتِ اظہار کی پاداش میں‌ پابندیوں کا سامنا رہا۔ وہ ایک زبردست نقّاد بھی تھا۔

    ایزرا پائونڈ 1885 میں‌ پیدا ہوا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو وہ اٹلی میں مقیم تھا جہاں‌ اس نے جنگ مخالف تقریریں شروع کر دیں اور لوگوں کو امریکا اور اس کے اتحادیوں‌ کی مخالفت پر اکسایا۔ جنگ کے خاتمے پر ساٹھ سالہ ایزرا پاؤنڈ کو قید کر لیا گیا اور اس مخالفت کی بنا پر اسے غدار اور جنونی قرار دیا گیا۔ بعد میں‌ وہ امریکا میں‌ ایک پاگل خانے میں داخل کرایا گیا جہاں 73 کی عمر تک رہا۔ مشہور شاعر رابرٹ فراسٹ کی درخواست پر ایزرا پاؤنڈ کو پاگل خانے سے نجات ملی تھی۔

    ایزرا پاؤنڈ کے بارے میں‌ مشہور تھا کہ وہ ایک جھگڑالو اور جھکّی انسان ہے، لیکن اپنے وقت کے بڑے تخلیق کاروں‌ اور اہلِ قلم نے اسے انقلابی اور بڑا شاعر قرار دیا اور اس کے افکار و خیالات کو سراہا۔ ایزرا پاؤنڈ کی نظم دی ویسٹ لینڈ کو بیسویں صدی کی شان دار تخلیق کا درجہ حاصل ہے۔

    پاگل خانے سے رہائی کے بعد وہ دوبارہ اٹلی چلا گیا جہاں فلورنس کے ایک اسپتال میں بیماری کے سبب اس کی موت واقع ہوگئی۔ ایزرا پاؤنڈ نے یکم نومبر 1972ء کو وفات پائی تھی۔

    ایزرا پاؤنڈ نے یونان اٹلی اور فرانس کا ادب چھان مارا تھا۔ وہ نت نئے ڈھب اور اسلوب کے ساتھ فکر و نظر کے اظہار کے لیے مختلف انداز اپناتا اور تجربات کرتا رہا۔ وہ شاعری میں‌ نئی جہات سے آشنا کرنے کے لیے مشہور ہوا۔ یورپ اور مشرقی تہذیبوں سے استفادہ اور مطالعہ نے اسے جدیدیت کی تحریک کا بانی بنا دیا۔

    برطانیہ میں‌ قیام کے دوران 1912ء تک اس نے اپنی نظموں کے چار مجموعے شایع کروائے۔ امریکا کے اس سچّے اور خوب صورت شاعر کی بہترین نظمیں وہ ہیں جو اس نے چینی، جاپانی اور اطالوی ادب سے متاثر ہو کر لکھی ہیں۔ اس کے خیالات و جذبات میں قدیم داستانوں، عوامی گیتوں اور جدید معاشرتی ہیجان نمایاں‌ ہیں‌ جن کو اس نے بڑے سلیقے سے اپنی شاعری میں‌ پیش کیا۔