Tag: ایسوپ

  • ’’سورج شادی کر رہا ہے!‘‘

    ’’سورج شادی کر رہا ہے!‘‘

    زمانۂ قدیم میں‌ بھی تہذیبیں اور معاشرے لوگوں کے اخلاق کو بہتر بنانے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تربیت اور اصلاح کے عمل کو اہمیت دیتے تھے۔ اس کے لیے سبق آموز واقعات کو کہانی اور دل چسپ حکایات کی صورت میں‌ بیان کیا جاتا تھا۔ آج صدیوں بعد بھی ایسی حکایتیں پڑھی جائیں‌ تو نہ صرف ان کی اثر انگیزی، تازگی اور معنویت برقرار ہے بلکہ آج بھی زندگی کے سفر میں‌ ہماری راہ نما ہیں۔

    یہاں‌ ہم ایسوپ کی ایک حکایت کا اردو ترجمہ نقل کررہے ہیں۔ قبلِ مسیح کے اس دانا و حکیم کا تعلق یونان سے تھا۔ حکایت کچھ یوں ہے:

    ’’ایک جنگل میں تمام چرند پرند جشن منا رہے تھے، جشن منانے والوں میں قریبی تالاب کے مینڈک بھی شامل تھے، ایک بوڑھا مینڈک جو قریب ہی بیٹھا یہ تماشا دیکھ رہا تھا، اس نے جوان مینڈکوں سے پوچھا، یہ تم سب کس بات کا جشن منا رہے ہو؟ مینڈکوں نے پُرجوش انداز میں کہا، شاید آپ کو معلوم نہیں کہ ’’سورج شادی کر رہا ہے۔‘‘

    یہ سن کر اس بوڑھے مینڈک نے کہا بیوقوفو، اس میں خوشیاں منانے کا کیا جواز ہے، کیا تم غور نہیں کرتے؟ ان تالابوں جن میں‌ تم پھدکتے پھرتے ہو، کو خشک کرنے کے لیے کیا ایک ہی سورج کافی نہ تھا، ذرا سوچو اگر اس نے شادی کر لی تو پھر ہم سب کا انجام کیا ہوگا۔ یہ سورج، اس کی بیوی اور پھر اس کے ہونے والے بچّے مل کر ہمارا تالاب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے تالابوں کو ریگستان میں بدل دیں گے۔ چنانچہ یہ شادی ہمارے لیے بربادی اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے موت کا پیغام ہے۔‘‘

    ایسوپ کی اس حکایت سے معلوم ہوا کہ اکثر لوگ غور و فکر کے بجائے کسی بات پر فوری بہل جاتے ہیں‌ جس میں ان کا اپنا ہی نقصان چھپا ہوتا ہے۔ واقعی دنیا میں ایسے احمق لوگ بھی ہیں جو ان باتوں پر خوشیاں مناتے ہیں جو خود ان کے لیے خسارے کا باعث ہوتی ہیں۔

  • برتر کون….؟ (دل چسپ حکایت)

    برتر کون….؟ (دل چسپ حکایت)

    ایک دفعہ چیونٹی اور ایک مکھّی کہیں آمنے سامنے ہوگئیں۔ باتوں باتوں میں‌ ایسا ہوا کہ ان میں اس بات پر تکرار شروع ہوگئی کہ کون برتر ہے۔

    مکھی کہنے لگی کہ دنیا میں کون سی مجلس عیش و نشاط کی ہوتی ہے کہ جس میں ہم شریک نہیں ہوتے۔ سارے بُت خانے اور عالی شان عمارتیں میرے لیے کھلی رہتی ہیں۔ بتوں کے آگے کا خاصہ ہم چکھتے ہیں اور شاہ زادوں کی دعوت کھاتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ بغیر خرچ اور دردِ سر کے یہ سب چیزیں ہم کو میسّر ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی بادشاہوں کے تاج پر پاؤں رکھ دیتے ہیں اور کبھی کبھی نازنینوں کے لب سے لب ملاتے ہیں۔ بھلا تیری کیا حقیقت ہے کہ میرے آگے اپنی بزرگی جتاتی ہے؟

    چیونٹی نے یہ سنا تو غصّے سے جواب دیا، چپ رہ! اور فخرِ بے ہودہ نہ کر۔ تجھے کیا معلوم نہیں کہ مہمان اور بن بلائے میں کتنا فرق ہے؟ اور تیری صحبت کو لوگ ایسا پسند کرتے ہیں کہ جہاں تجھے پاتے ہیں مار ڈالتے ہیں۔ تجھ سے کسی کو کچھ حاصل نہیں، یہاں تک کہ جس چیز کو تُو چھوتی ہے اس میں پِلو پڑ جاتے ہیں۔ اور خوب صورتوں کے منہ چومنے پر ناز مت کر۔ گھورے پَر کے غلیظ کے سوا تیرے منہ سے کیا نکلتا ہے جس کو معشوق اور لطیف طبع لوگ پسند کریں۔ اور میرا حال یہ ہے کہ بندی جو خود پیدا کرتی ہے، اسی کو کھاتی ہے اور لوٹ اور تاراج سے علاقہ نہیں رکھتی اور گرمیوں کے دن میں خوب ذخیرہ کرتی ہے تاکہ جاڑوں میں اوقات بسر ہو۔ اور تیری زندگی اس کے برعکس کٹتی ہے کہ چھے مہینے اٹھائی گیروں کی طرح ادھر اُدھر سے لوٹ پاٹ کر کھاتی ہے اور باقی چھے مہینے فاقہ کرتی ہے۔

    حاصلِ کلام یہ کہ انسان کو بات منہ سے نکالتے ہوئے خوب سوچ لینا چاہیے اور اپنی حیثیت و مرتبہ دیکھ کر بات کرنا چاہیے۔ ہم جب تک اپنے گریبان میں نہیں‌ جھانکتے، ہمیں‌ اپنا آپ ہی اچھا نظر آتا ہے، لیکن جب دوسروں سے اپنے بارے میں سنتے ہیں تو جو حقیقت سامنے آتی ہے، وہ ہمارے لیے باعثِ شرم اور آزار بھی ہوسکتی ہے۔ سچ ہے، ہر ایک کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔

    (ماخذ: جوہرِ اخلاق، مصنّف ایسوپ)

  • یہ صرف کوّا ہے! (ایک مشہور حکایت)

    یہ صرف کوّا ہے! (ایک مشہور حکایت)

    کتنی ہی صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن ایسوپ کی حکایتوں، قصّے اور کہانیوں‌ کا سحر آج بھی برقرار ہے۔ اسے قدیم یونان کا باسی بتایا جاتا ہے جس کے مفصّل اور درست حالاتِ زندگی تو دست یاب نہیں‌، مگر اس قصّہ گو کی حکایتیں آج بھی مقبول ہیں۔ اس کی سبق آموز اور نہایت دل چسپ حکایتوں کا دنیا بھر کی زبانوں میں‌ ترجمہ کیا گیا ہے۔

    مرزا عصمت اللہ بیگ نے ایسوپ کی کئی حکایات کا اردو ترجمہ کیا تھا جو 1943ء میں کتابی شکل میں‌ شایع ہوئی تھیں۔ اسی کتاب سے ایک نصیحت آموز قصّہ پیشِ خدمت ہے۔

    ایک سرسبز میدان میں بہت سی بھیڑیں اور ان کے بچّے چرتے پِھر رہے تھے۔ کسی پہاڑ کی چوٹی سے عقاب اڑتا ہوا آیا اور ایک بچّے پر جھپٹ پڑا۔ وہ اسے پنجوں میں‌ دبا کر تیزی سے اڑ گیا۔

    ایک کوّا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے دل میں‌ خیال کیا کہ میں‌ بھی ایک جانور پر جھپٹ کر اور اسے اپنے پنجوں میں پکڑ کر کیوں نہ اڑ جاؤں۔

    یہ ارادہ کرکے وہ بھی بھیڑ کے ایک بچّے پر جھپٹا اور اس کے بالوں میں‌ اچّھی طرح اپنے پنجے گاڑ کر اڑنا چاہا، مگر وہ تو بھیڑ کے بالوں‌ میں‌ اس طرح الجھے کہ کوّے کو اپنے پنجے نکالنا مشکل ہو گیا۔ آخر کار بے دم ہو کر اپنے پَر مارنے لگا۔

    بھیڑوں کا مالک قریب ہی بیٹھا کوّے کی اس حرکت کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ وہ اٹھا اور کوّے کو پکڑ کر اس کی دُم اور پَر کاٹ ڈالے۔ شام کو اپنے گھر پہنچ کر اسے اپنے بچّوں کے حوالے کر دیا۔

    بچّوں نے پوچھا، "بابا یہ کیا جانور ہے؟”

    باپ نے جواب دیا، "اگر تم اس جانور سے پوچھو گے تو یہ اپنا نام عقاب بتائے گا، مگر میں‌ خوب جانتا ہوں کہ یہ صرف ایک کوّا ہے۔”