Tag: ایسوپ کی حکایت

  • چیونٹی اور پیوپا (قدیم یونانی حکایت)

    چیونٹی اور پیوپا (قدیم یونانی حکایت)

    ایک چمکیلی دوپہر کو ایک چیونٹی خوراک کی تلاش میں تیزی سے بھاگی جا رہی تھی کہ اس کا ٹاکرا ایک پیوپا سے ہوا جو اپنی جون بدلنے کی حالات میں تھا۔

    پیوپا نے اپنی دُم ہلائی تو چیونٹی اس کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے احساس ہوا کہ یہ بھی کوئی جاندار ہے۔ وہ حقارت سے بولی: ” بیچارے جانور، تمہیں دیکھ کر تو ترس آتا ہے، تمہاری قسمت کتنی خراب ہے کہ تم حرکت بھی نہیں کر سکتے، اور اپنے خول میں قید صرف دم ہلا سکتے ہو، جب کہ میں اپنی مرضی اور خوشی سے ادھر، ادھر تیزی سے دوڑ سکتی ہوں۔ اور اگر میں چاہوں تو سب سے اونچے درخت کی سب سے اوپر والی شاخ تک بھی پہنچ سکتی ہوں۔” پیوپا نے یہ سب سنا لیکن چیونٹی کو جواب دینے سے گریز کیا۔

    کچھ دنوں بعد کے جب چیونٹی کا گزر ایک بار پھر وہاں سے ہوا۔ وہاں پیوپا کا بس خول پڑا تھا۔ وہ حیران ہوئی کہ اس خول میں موجود پیوپا کہاں گیا۔ ابھی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اسے اپنے اوپر سائے کا احساس ہوا۔ اس نے اٹھا کر دیکھا تو اسے بڑے بڑے پروں والی ایک رنگ برنگی خوب صورت تتلی ہوا میں اڑتی نظر آئی۔

    تتلی نے چیونٹی سے کہا: "میں وہی پیوپا ہوں جسے تم نے چند روز قبل دیکھ کر اس پر ترس کھایا تھا اور اپنی برتری جتلائی تھی، اب مجھے تم پر ترس آتا ہے۔”

    یہ کہہ کر تتلی فضا میں بلند ہوئی اور موسمِ گرما کی ہوا کے دوش پر، فضا میں تیرتی، چیونٹی کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوگئی۔

    سبق: کسی کا ظاہر دیکھ کر عجلت میں کوئی قیاس کرنا اور اس پر اپنی رائے دینا شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔

    (مشہور یونانی داستان گو ایسوپ کی ایک حکایت جس کا ترجمہ قیصر نذیر خاورؔ نے کیا ہے)

  • ’’سورج شادی کر رہا ہے!‘‘

    ’’سورج شادی کر رہا ہے!‘‘

    زمانۂ قدیم میں‌ بھی تہذیبیں اور معاشرے لوگوں کے اخلاق کو بہتر بنانے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے تربیت اور اصلاح کے عمل کو اہمیت دیتے تھے۔ اس کے لیے سبق آموز واقعات کو کہانی اور دل چسپ حکایات کی صورت میں‌ بیان کیا جاتا تھا۔ آج صدیوں بعد بھی ایسی حکایتیں پڑھی جائیں‌ تو نہ صرف ان کی اثر انگیزی، تازگی اور معنویت برقرار ہے بلکہ آج بھی زندگی کے سفر میں‌ ہماری راہ نما ہیں۔

    یہاں‌ ہم ایسوپ کی ایک حکایت کا اردو ترجمہ نقل کررہے ہیں۔ قبلِ مسیح کے اس دانا و حکیم کا تعلق یونان سے تھا۔ حکایت کچھ یوں ہے:

    ’’ایک جنگل میں تمام چرند پرند جشن منا رہے تھے، جشن منانے والوں میں قریبی تالاب کے مینڈک بھی شامل تھے، ایک بوڑھا مینڈک جو قریب ہی بیٹھا یہ تماشا دیکھ رہا تھا، اس نے جوان مینڈکوں سے پوچھا، یہ تم سب کس بات کا جشن منا رہے ہو؟ مینڈکوں نے پُرجوش انداز میں کہا، شاید آپ کو معلوم نہیں کہ ’’سورج شادی کر رہا ہے۔‘‘

    یہ سن کر اس بوڑھے مینڈک نے کہا بیوقوفو، اس میں خوشیاں منانے کا کیا جواز ہے، کیا تم غور نہیں کرتے؟ ان تالابوں جن میں‌ تم پھدکتے پھرتے ہو، کو خشک کرنے کے لیے کیا ایک ہی سورج کافی نہ تھا، ذرا سوچو اگر اس نے شادی کر لی تو پھر ہم سب کا انجام کیا ہوگا۔ یہ سورج، اس کی بیوی اور پھر اس کے ہونے والے بچّے مل کر ہمارا تالاب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے تالابوں کو ریگستان میں بدل دیں گے۔ چنانچہ یہ شادی ہمارے لیے بربادی اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے موت کا پیغام ہے۔‘‘

    ایسوپ کی اس حکایت سے معلوم ہوا کہ اکثر لوگ غور و فکر کے بجائے کسی بات پر فوری بہل جاتے ہیں‌ جس میں ان کا اپنا ہی نقصان چھپا ہوتا ہے۔ واقعی دنیا میں ایسے احمق لوگ بھی ہیں جو ان باتوں پر خوشیاں مناتے ہیں جو خود ان کے لیے خسارے کا باعث ہوتی ہیں۔