Tag: ایسٹ انڈیا کمپنی

  • چمن کے سنگلاخ پہاڑوں پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی یادگاریں، ویڈیو دیکھیں

    چمن کے سنگلاخ پہاڑوں پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی یادگاریں، ویڈیو دیکھیں

    چمن : دوسری جنگ عظیم کے دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نے جرمن نازی فوج کو گرم پانی سے روکنے کیلئے دریائے کوژک کے پہاڑوں پر بنکر نما مورچے تعمیر کیے تھے جو آج بھی قائم ہیں۔

    اے آر وائی نیوز چمن کے نمائندے اختر گلفام کی رپورٹ کے مطابق چمن میں کوژک کا یہ پہاڑی سلسلہ جغرافیائی طور پر اہم ترین دفاعی مقام کی حیثیت رکھتا ہے، یہ سطح سمندر سے 8880 فٹ بلند ہے جو ایک خوبصورت سیاحتی مقام بھی ہے۔

    اس وقت کے انجنیئروں نے 8 ہزار فٹ بلند وبالا پہاڑی سلسلوں پر200سے زائد بنکرز بنائے، جس کیلئے تعمیراتی سامان خچروں کے ذریعے اوپر پہنچایا گیا۔ اس وقت اس منصوبے میں مزدوری کرنے والے مقامی مزدوروں کی اولادوں نے بتایا کہ جس طرح ان بنکرز کو تعمیر کیا گیا وہ بھی ایک یادگار ہے۔

    یہ مورچے مضبوطی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں جبکہ ان میں سے بہت سے آج بھی اپنی اصل حالت میں برقرار ہیں جن میں توپ خانے، مشین گن، بم پروف مورچے اور بنکر نما حفاظتی برج شامل ہیں۔

    ایک مورچے کی پختہ دیوار 3 فٹ موٹی ہے جبکہ اس میں چار سے پانچ انچ کے فاصلے پر 2، 2 انچ لوہے کی موٹی سی سلاخیں بھی نصب ہیں تاکہ مورچے طیارہ شکن ہتھیاروں سے متاثر نہ ہو سکیں۔

    یہ بنکر نما مورچے بلوچستان کے شہر چمن میں 1940ء میں برطانیہ نے تعمیر کرائے تھے جو آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

  • برطانوی راج میں مضحکہ خیز مقدمات اور سزائیں

    برطانوی راج میں مضحکہ خیز مقدمات اور سزائیں

    برصغیر میں تجارت کا پروانہ لے کر آنے والے انگریزوں نے جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے اپنے قدم جمائے اور ہندوستان میں برطانوی راج قائم ہوگیا تو انتظامی امور کے ساتھ قانون سازی اور عدالتی نظام بھی متعارف کروایا۔ انگریزی قانون کے ذریعے بااختیار افسر ہندوستانیوں‌ کی تذلیل کر کے خوش ہوتے تھے۔

    غدر کے بعد تو ہر انگریز افسر کو اختیار تھا اور وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو گولی مارنے کا حکم یا پھانسی دینے یا جیل بھیجنے کا حکم دے دیتا تھا۔ باغیوں ہی نہیں عام شہریوں کا بھی قتل کیا گیا اور معمولی جرم پر یا کسی انگریز افسر کی مرضی کے خلاف کام ہوجانے پر سزا سنا دی جاتی تھی۔

    یہاں ہم برطانوی راج میں جرم و سزا سے متعلق کتاب تاریخِ جرم و سزا سے چند پارے نقل کررہے ہیں۔ اس کے مصنّف امداد صابری ہیں‌ جن کی یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

    امداد صابری ہندوستان کے نام ور صحافی اور مجاہدِ آزادی تھے جنھیں تحریر اور تقریر میں کمال حاصل تھا۔ انھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جو ادب اور تاریخ کے موضوع پر بہت مفید اور لائقِ مطالعہ ہیں۔ ان کی کتاب سے اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    طریقۂ عدل
    اس زمانہ میں عدل کا طریقۂ کار انتہائی مہمل اور طفلانہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیسٹنگز نے عدالتوں کا بندوبست کیا۔ اور انگریزی عدالتوں کی بنیاد رکھی۔اور اس نے انگریزی کلکٹروں کے ساتھ پنڈت اور مولوی مقرر کئے جو ان کو دھرم شاستر اور فقہ کے اصول سمجھاتے تھے۔ اس نے کلکتہ میں اپیل کی دو عدالتیں بھی قائم کیں جو دیوانی اور فوجداری مقدمات علیحدہ علیحدہ فیصلہ کرتی تھیں۔ قانون کی ایک کتاب بنائی گئی تھی تاکہ عوام قانون سے واقف ہو جائیں۔

    بنگال کے پہلے سپرنٹنڈنٹ کی ڈائری
    انگریزی قانون پر شروع میں جس طرح عمل درآمد ہوا وہ بہت بھونڈا اور مضحکہ خیز تھا جو شاید کسی بھی حکومت کے دور میں اس بے ڈھنگے طریقے سے شروع نہ کیا گیا ہوگا۔ جب سپریم کورٹ (موجودہ ہائیکورٹ ) قائم ہوا اور اس کی حیثیت یہ تھی کہ چند زیورات تک چوری کے مقدمات ابتدائی سماعت کے لئے وہاں پیش کئے جاتے تھے۔ اور سزائے تازیانہ، تشہیر کرنے اور جوتوں کی سزا دینے اور دریا پار کرنے کا اختیار بطور خود سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تھا۔

    اگر آپ کو وہ مضحکہ خیز منظر دیکھنا ہے تو آئیے کلکتہ کے پہلے سپرنٹنڈنٹ پولیس پلیڈل کی ڈائری کے چند اوراق ملاحظہ کیجئے۔

    بھگوڑے ملازم کی سزا
    4 جون 1775، آج میں ناشتہ سے فارغ ہو کر اپنے برآمدہ میں بیٹھا ہوا حقہ پی رہا تھا کہ مسٹر جان نگول کے ملازم نے رپورٹ کی کہ اس کے آقا کا باورچی رنجن کام چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ اور اس کی جگہ جو نیا باورچی رکھا گیا ہے اسے رنجن نے مارا۔ میں نے رنجن کو بلوایا۔ معلوم ہوا وہ پرانا مفسد ہے اور ایسی حرکتوں کی بناء پر اس کا کان بھی کاٹا جا چکا ہے۔ میں نے حکم دیا کہ رنجن کو دس بید لگائے جائیں اور اسے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔

    دھوکہ دہی کی سزا
    کرنل واٹسن نے رپورٹ کی کہ رام سنگھ نے انہیں دھوکہ دیا اور اپنے کو بڑھئی ظاہر کر کے تنخواہ وصول کی حالانکہ وہ حجام ہے اور بڑھئی کے کام سے بالکل واقف نہیں۔ حکم ہوا کہ رام سنگھ کے پندرہ بید لگائے جائیں اور قلی بازار میں کرنل واٹسن کی کوٹھی تک اسے تشہیر کیا جائے۔

    مرمت حسبِ وعدہ نہ کرانے/ لونڈی کے فرار پر سزا
    کپتان اسکاٹ نے شکایت کی کہ بنارسی نے ان کی گاڑی کی مرمت حسبِ وعدہ نہیں کی، حکم دیا گیا کہ بنارسی کے دس جوتے لگائے جائیں۔ اینڈرسن پگی نے رپورٹ کی کہ ان کی لونڈی بھاگ گئی لیکن اسے چوکیدار نے گرفتار کر لیا۔ لونڈی کے دس بید لگائے گئے اور اسے مسٹر اینڈرسن کے حوالے کر دیا گیا۔

    چوری کی سزا
    جیکب جوزف نے شکایت کی کہ اس کے باورچی متھول نے چند برتن چرائے۔ میں نے حکم دیا کہ ملازم کو ہرنگ باڑی میں اس وقت تک قید رکھا جائے جب تک وہ برتن واپس نہ کر دے۔ رام ہری نے فریاد کی کہ رام گوپال اس کے بچے کی گردن سے تلسی دانہ اتار کر بھاگ رہا تھا اسے موقع پر گرفتار کر لیا گیا۔ حکم ہوا کہ مجرم کو پانچ جوتے لگا کر اسے سارے شہر میں تشہیر کیا جائے۔

    سرکاری حکم نہ ماننے کی سزا
    آٹھویں ڈویژن کے سپاہی بائیکس نے ایک لڑکے کے مولیہ کو گرفتار کر کے میرے سامنے پیش کیا۔ وہ کئی بار چوری کے الزام میں سزا یاب ہو چکا تھا اور آخری مرتبہ میں نے حکم دیا تھا کہ اسے پندرہ بید لگا کر ہمیشہ کے لئے دریائے ہگلی کے دوسری جانب نکال دیا جائے۔ لڑکا مفسد ہے، میرے حکم کے خلاف دریا کو عبور کیا پھر کلکتہ آیا اور گرفتار کر لیا گیا۔ میں نے اسے بیس بیدوں کی سزا دی اور دریا پار کرا دیا۔

    راہ گیروں کو چھیڑنے کی سزا
    مسٹر نوملے نے اپنے حقہ بردار کلو کی رپورٹ کی کہ وہ سڑک پر راہگیروں کو چھیڑتا ہے، حکم ہوا پانچ جوتے لگائے جائیں۔

    غلط رپورٹ کرنے کی سزا
    باقر محمد نے مسماۃ رام رجنی کے خلاف شکایت کی کہ اس نے مستغیث کی بیوی کو مغلط گالیاں دی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ باقر محمد کی بیوی بھی مسماۃ رام رجنی سے کم بد مزاج اور جنگجو نہیں ہے۔ دونوں عورتیں آپس میں گالی گلوچ کرتی رہتی ہیں۔ چونکہ اس فضول شکایت سے میرا وقت خراب ہوا تھا اس لئے باقر محمد اور رام رجنی دونوں کو پانچ پانچ روپیہ جرمانہ کی سزا دی اور کہہ دیا کہ آئندہ اس قسم کی شکایت میرے کانوں تک پہنچی تو رام رجنی اور محمد باقر کی بیوی دونوں کو دریا پار کرا دیا جائے گا۔

    چور کی تشہیر/ کام چور کو جوتوں کی سزا
    مسٹر کینڈل نے اپنی مہترانی کے خلاف شکایت کی کہ وہ آبدار خانہ کی بوتلیں چرا کر ایک کالے (یعنی ہندوستانی) دکاندار بکتا رام کے ہاتھ فروخت کرتی ہے۔ بکتا رام نے اقبال جرم بھی کیا۔ نیٹو (Native) بنیوں کی شرارت کا سدباب کرنے کے لئے حکم دیا گیا کہ بیس بید بکتا رام کے لگائے جائیں۔ اور دس بید مہترانی کے اور دونوں کو پنجرے میں بٹھا کر تشہیر کی جائے۔

    کمپنی کے کلرک مسٹر پیسیج نے شکایت کی کہ خدا بخش اور پیاری نے ان سے پیشگی تنخواہ لے لی ہے مگر دونوں کام نہیں کرتے۔ دونوں کو دس دس جوتوں کی سزا دی گئی۔

    چاول کے عمل سے ملزم کی گرفتاری
    مسٹر ولنکسن کے بنگلہ میں چوری ہوئی، انہوں نے عمل کے ذریعے چور پکڑنے کے لئے ایک ملّا کی خدمت حاصل کی۔ ملّا نے ان کے ملازموں کو چاول چبانے کے لئے دیے۔ ولنکسن کی دائی گوری کے منہ سے سوکھے چاول نکلے اور اس پر شبہ ہوا۔ دائی نے ملّا کو بطور رشوت دس روپے نقد دیے کہ وہ مسٹر ولنکسن سے اس کی چوری کا ذکر نہ کرے۔ مسٹر ولنکسن کو خبر ہو گئی۔ انہوں نے مجھ سے رپورٹ کی۔ حکم دیا گیا کہ دائی کو تفتیش کے لئے تیسرے ڈویژن کے تھانہ میں بند رکھا جائے۔

    جوتا لگانا قانونی سزا تھی
    مسٹر پلیڈل کی ڈائری کے مطالعہ سے ہندوستان میں برطانوی انصاف کی ابتدائی انگریز پرستی کی قلعی کھل جاتی ہے کہ وہ کس طرح رعایا پر انگریزوں کا رعب جمانے کے لئے صرف حسبِ وعدہ مرمت نہ ہونے پر جوتے پڑواتا ہے۔ اس ڈائری سے ان باتوں پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہندوستانی امراء کس طرح انگریزوں کے جلو میں بھی مشعلچی ہوتے تھے۔ اور انگریز حقہ پیتے تھے۔ لونڈی غلام رکھنے کا عام رواج تھا۔ انگریزوں کے قبضہ میں بھی لونڈیاں تھیں۔ اگر کوئی لونڈی اپنے مالک کے ظلم و ستم سے بھاگتی تو اسے سزائے تازیانہ کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔جوتے لگانا ایک قانونی سزا تھی۔ برطانوی نظم و نسق سے پیشترعادی مجرموں کا ایک کان کاٹا جاتا تھا۔

    مولویوں کے عملیات کا زور
    اس زمانہ کے انگریز بھی مولویوں کے عملیات کے قائل تھے۔ اور چوری تک کے معاملات میں مولویوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ اور وہ اٹھارہویں صدی میں مشتبہ چوروں کا پتہ چاول چبوا کر لگاتے تھے۔

    سزائے تشہیر کا طریقہ
    مسٹر پلیڈل کی ڈائری میں بعض مجرموں کے لئے جو سزائے تشہیر تجویز کی ہے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ مجرم کو بڑے سے چوبی پنجرے میں بند کر دیتے تھے۔ اور پنجرہ ایک خاص قسم کی بنی ہوئی اونچی گاڑی کے دھرے سے (جس کے پہیے پندرہ سولہ فٹ بلند ہوتے تھے) لٹکا دیا جاتا تھا۔ پولیس کے سپاہی گاڑی کے ساتھ ہوتے تھے اور ایک شخص ڈھول بجا کر مجرم کے نام، جرم اور نوعیتِ جرم کی تشہیر کرتا تھا۔

  • "خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی!”

    "خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی!”

    تیمور کی وفات کے بعد اس کی نسل میں کوئی ایسا باصلاحیت شخص پیدا نہیں ہوا جو تیمور کی عظیم الشّان سلطنت کو بکھرنے سے بچا سکتا تھا۔ چنانچہ تیمور کے بعد وسط ایشیا میں تیموری شہزادے اور امرا نے چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں اور خانہ جنگی میں مبتلا ہو گئے۔

    انہیں میں ایک ریاست فرغانہ تھی جس کا حکم ران عمر شیخ مرزا تھا۔ ہندوستان کی مغل سلطنت کا بانی بابر مرزا اسی عمر شیخ مرزا کا لڑکا تھا۔ بابر کا سلسلۂ حسب و نسب باپ کی طرف سے تیمور اور ماں کی طرف سے چنگیز خان سے ملتا ہے۔ لہٰذا بابر کی رگوں میں تیمور اور چنگیز دونوں کا خون تھا۔ 1494ء میں عمر شیخ مرزا کا انتقال ہوا۔ اس وقت بابر کی عمر صرف 12 سال تھی۔ شدید خانہ جنگی کے حالات میں نو عمر بابر کے لیے فرغانہ کی چھوٹی سی ریاست کی حفاظت کرنا قریب قریب ناممکن تھا۔

    چنانچہ 10 سال تک بابر خود کو اور اپنی ریاست کو بچانے کے لیے ہمسایہ ریاستوں کے حکم رانوں سے جنگ و جدل میں الجھا رہا۔ وسط ایشیا کے حالات سے مایوس ہو کر بابر نے افغانستان کا رخ کیا اور 1504ء میں کابل فتح کر کے وہاں ایک مضبوط حکومت قائم کر لی۔ اس وقت ہندوستان میں لودھی پٹھان حکومت کررہے تھے۔ پنجاب کی خود مختار مسلم ریاستوں اور لودھی حکم رانوں کے درمیان علاقائی تسلط کے لیے اکثر جھڑپیں ہوا کرتی تھیں۔

    ملتان کے حاکم نے بابر مرزا کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ بابر ویسے بھی ہندوستان کے ان علاقوں پر جو تیمور فتح کرچکا تھا، اپنا حق سمجھتا تھا اور ان کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ہندوستان پر کئی حملے کیے تھے۔ ملتان کے حاکم کی دعوت پر بابر نے ہندوستان پر آخری حملہ کیا اور 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر آگرہ اور دہلی پر قبضہ کرلیا۔ پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کی شکست سے اقتدار پٹھانوں کے ہاتھ سے نکل کر تیموری مغل خاندان میں منتقل ہو گیا۔

    اگرچہ پٹھانوں نے راجپوتوں کو شکست دے کر ہندوستان کا اقتدار چھین لیا تھا، لیکن سلطنتِ دہلی کے دور میں راجپوتانہ عملاً مختلف راجپوت خاندانوں کے تسلط ہی میں رہا۔ لودھی حکومت کے دور میں سلطنتِ دہلی سکڑ کر ایک علاقائی حکومت بن گئی تھی اور راجپوت دوبارہ ہندوستان کا اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ لہٰذا بابر کے حملے کے وقت راجپوت ابراہیم لودھی کا ساتھ دے کر مشترکہ طاقت کے ساتھ بیرونی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہے۔ کیونکہ راجپوت سمجھتے تھے کہ بابر تیمور کی طرح لودھی حکومت کو تباہ و برباد کرکے واپس چلا جائے گا اور وہ لودھیوں سے لڑ کر حکومت حاصل کرنے کے بجائے لودھی حکومت کے تباہ شدہ کھنڈر پر اپنی حکومت کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن بابر نے دہلی سلطنت کو ختم کر کے مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ تب راجپوتوں کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ دہلی کی مرکزی حکومت کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے حرکت میں آگئے۔

    چتوڑ کے راجہ رانا سانگا کی قیادت میں راجپوتوں کی متحدہ فوج نے بابر کو ہندوستان سے نکال کر باہر کرنے کے لیے پیش قدمی کی۔ بہت سارے افغان سردار جو لودھی خاندان کی تباہی کے بعد بابر کے جانی دشمن ہوگئے تھے وہ بھی راجپوتوں سے مل گئے۔ 16 مارچ 1527ء کو بابر نے 12 ہزار کی فوج کے ساتھ کنواہہ کے مقام پر راجپوتوں اور افغانوں کی دو لاکھ متحدہ فوج کا مقابلہ کیا اور انہیں شکستِ فاش دی۔

    کنواہہ کی جنگ کے بعد بہت سارے شکست خوردہ افغان سردار بنگال کے حاکم نصرت شاہ کے پاس پہنچ گئے اور نصرت شاہ کی مدد سے انہوں نے بابر سے ایک بار پھر جنگ کی۔ 6 مئی 1529ء کو بابر نے نصرت شاہ اور شکست خوردہ افغان سرداروں کی متحدہ فوج کو دریائے گھاگرا کے کنارے شکست دی۔ کنواہہ اور گھاگرا کی جنگ کے بعد مغل اقتدار کو چیلنج کرنے والا اور دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی دعویٰ دار باقی نہ رہا۔

    مغل سلطنت کا عروج و زوال:
    ہندوستان میں مغل حکومت 315 سال تک رہی۔ پہلے 181 سال بابر کی تخت نشینی (1526ء) سے لے کر اورنگ زیب کی وفات (1707ء) تک مغل سلطنت کے عروج کا زمانہ ہے۔ اگر ان 181 سالوں میں سے 15 سال جب اقتدار شیر شاہ سوری اور اس کے خاندان میں رہا (1540ء تا 1555ء) نکال دیے جائیں تو مغلیہ سلطنت کے عروج کا زمانہ 166 سال کا ہوتا ہے۔ اس دوران نہایت عظیم صلاحیتوں کے چھے بادشاہ مغلیہ سلطنت کو نصیب ہوئے:

    بابر (1526ء تا 1530ء)
    ہمایوں (1530ء تا 1556ء)
    اکبر (1556ء تا 1605ء)
    جہانگیر (1605ء تا 1627ء)
    شاہجہاں (1627ء تا 1657ء)
    اورنگ زیب (1657ء تا 1707ء)

    1707ء سے 1799ء یعنی 82 سال کا دور مغلیہ سلطنت کا عہدِ زوال ہے۔ اس دور میں مغلوں کی فوجی قوت آپس کی خانہ جنگی میں تباہ ہوگئی۔ انگریزوں نے بنگال اور مدراس کی طرف سے ہندوستان کی سیاست میں دخل اندازی شروع کردی تھی۔ لیکن دہلی کی مرکزی حکومت کا کوئی حقیقی دعوے دار ابھی پیدا نہیں ہوا تھا۔

    1799ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ہندوستان کے سیاسی افق پر صرف مرہٹہ طاقت باقی رہ گئی تھی جسے مختلف محاذوں پر شکست دے کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1803ء تک اقتدار سے بے دخل کردیا اور مرہٹہ سردار ایک ایک کرکے کمپنی بہادر کے حلقہ بگوش ہو گئے۔

    مرہٹہ طاقت کو کچلنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی کی مرکزی حکومت کی دعوے دار بن کر ہندوستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئی۔ چنانچہ 1803ء میں جنرل لیک کی سرکردگی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں علی گڑھ اور آگرہ پر قبضہ کرنے کے بعد دہلی میں داخل ہوئیں تو مغل شہنشاہ شاہ عالم بے بسی کے عالم میں ایک پھٹے ہوئے شامیانے کے نیچے انگریزوں کے استقبال کے لیے کھڑا ہوا تھا۔ جنرل لیک نے مغل شہنشاہ کو اپنی حفاظت میں لے کر اس کا وظیفہ مقرر کر دیا اور پھر برّعظیم کا اقتدارِ اعلیٰ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں چلا گیا۔ 1799ء سے 1857ء کی پہلی جنگِ آزادی یعنی 58 سال تک مغل اقتدار برائے نام باقی رہا۔

    اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نہایت حکمت سے ہندوستانی عوام کو باور کراتی رہی کہ خلقت خدا کی، ملک شہنشاہ کا اور حکومت کمپنی بہادر کی۔ یہ نعرہ انگریزوں نے اس لیے ایجاد کیا تھا کہ ہندوستانی عوام کیا ہندو، کیا مسلمان کی وفاداریاں مغل سلطنت سے اس درجہ مضبوطی سے وابستہ ہوچکی تھیں کہ وہ مغل حاکم کے علاوہ کسی اور کی بادشاہت کا تصور کر نہیں سکتے تھے۔

    1857ء کی جنگِ آزادی میں انگریزوں نے نہ صرف اپنی عسکری برتری کو منوالیا بلکہ سیاسی برتری بھی تسلیم کروا لی اور تاجِ برطانیہ نے کمپنی کو بے دخل کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کرکے ان پر بغاوت کا الزام لگا کر جلا وطن کر دیا۔ اب انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نعرہ کو بدل دیا اور کہنے لگے: "ملک ملک معظم کا اور حکم انگریزوں کا۔”

    (ماخوذ: ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا حصّہ، مؤلفہ ڈاکٹر محمد مظفر الدّین فاروقی)

  • الیگزینڈر برنس: افغان تاجر کے روپ میں جاسوسی کرنے والا انگریز افسر

    الیگزینڈر برنس: افغان تاجر کے روپ میں جاسوسی کرنے والا انگریز افسر

    وادیِ مہران میں قدیم دور سے تہذیب اور ثقافت کا سفر جاری ہے۔ یہاں صدیوں سے زندگی رواں دواں ہے اور وہ دریا بھی آج تک بہہ رہا ہے جسے تاریخ کے صفحات میں‌ ہندو، سندھو، سندھ، اٹک یا نیلاب کے نام سے پکارا گیا ہے۔

    دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں اسی دریا کے دونوں کناروں پر پروان چڑھیں۔ ہم اسے دریائے سندھ کہتے ہیں۔ مشہور ہے کہ صدیوں قبل سکندرِ اعظم اور ابنِ بطوطہ نے بھی اس دریا کی سیر کی تھی، لیکن الیگزینڈر برنس وہ انگریز جاسوس، محقق، تاریخ نویس اور سیّاح تھا جس نے علمی و تحقیقی مقصد کے لیے دریائے سندھ کی سیر کی اور اسے پہلی بار تحریری طور پر محفوظ کیا۔

    الیگزینڈر برنس ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک افسر تھا جسے ہندوستان کی تاریخ میں جاسوس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ اسکاٹ لینڈ کا باسی تھا۔ اس نے 1805ء میں ’مونٹروس‘ شہر میں آنکھ کھولی۔ الیگزینڈر برنس نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوجوانی میں برطانوی کمپنی کی ملازمت اختیار کی اور اسے بمبئی بھیج دیا گیا۔ ابتدائی طور پر اسے ہندوستان کے ساحلی شہر سورت میں ہندی زبان کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔

    وہ ذہین، قابل اور زبانیں‌ سیکھنے کا شوقین تھا۔ اس نے ہندوستان میں جلد فارسی سیکھ لی بلکہ اس پر عبور حاصل کر لیا۔ اس کام یابی نے برنس کو عدالت میں فارسی سے دستاویز کا مترجم مقرر کروایا۔ کمپنی نے الیگزینڈر برنس کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اسے ’ڈپٹی اسسٹنٹ کوارٹر ماسٹر جنرل‘ کے عہدے پر فائز کردیا۔ اس وقت وہ صرف 21 سال کا تھا۔ اسی زمانے میں‌ اس نے ہندی کے علاوہ بھی کئی مشرقی زبانیں لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں مہارت حاصل کرلی تھی۔

    1831ء میں اس نے کمپنی کی جانب سے دریائے سندھ کے داخلی راستوں کا سروے مکمل کیا تھا۔ برنس نے اس کام کے لیے اس وقت کے تالپور حکم راں اور کمپنی سے دریائے سندھ میں سفر کرنے کی اجازت لی تھی۔ اس سروے کے دوران الیگزینڈر برنس نے بحیثیت تاریخ نویس بھی اپنے مقاصد کو مدِ نظر رکھا اور دریا کے بہاؤ کے بالکل اختتامی علاقوں کے نقشے بھی مرتب کیے۔ وہ اس سفر کو مکمل کر کے 1831ء میں لاہور پہنچا تھا اور بہت خوش تھا، کیوں کہ اس نے سرکاری کام ہی مکمل نہیں‌ کیا تھا بلکہ ایک تاریخی اور سیاحتی مقصد بھی پورا ہوگیا تھا۔ اس نے اپنی سروے رپورٹ جمع کروائی، جس میں سندھ سمیت پورے ہندوستان کی مکمل رپورٹ مع نقشہ جات شامل تھی۔ کہتے ہیں یہ رپورٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان پر قبضہ کرنے کی غرض پوری کرنے میں‌ بہت مددگار ثابت ہوئی۔

    اس کے ایک برس بعد وہ 1832ء اسے افغانستان کا مشن سونپا گیا جس میں اسے انتہائی خطرناک علاقوں کا سروے جو حقیقتاً‌ کمپنی کے لیے ”جاسوسی“ تھا، کا کام انجام دینا تھا۔ اسے محتاط اور غیر محسوس طریقے سے اپنا کام انجام دینے کے لیے تیّار کیا گیا تھا، کیوں کہ ان علاقوں میں کمپنی اور انگریزوں کے لیے بہت خطرہ تھا اور وہاں بغاوت کی فضا تھی۔

    الیگزینڈر برنس نے اس کام کے لیے بھیس بدل لیا اور افغان تاجر کا روپ میں روانہ ہوا۔ وہ فارسی اور چند مقامی زبانیں‌ جانتا تھا جس کے بعد اس نے حلیہ ہی نہیں عادات و اطوار بھی افغان شہری جیسی اپنا لیں۔ وہ اس کی مشق کرتا رہا اور اپنے اس سفر میں بنگالی فوج کے ایک سرجن ’سر جیمس جیراڈ‘ کو بھی شریک کرلیا۔ برنس کو اس وقت رنجیت سنگھ کی جانب سے فوجی دستے دیے گئے تھے جن کے ساتھ وہ پشاور، جلال آباد اور کابل سے ہوتے ہوئے، لکھنؤ اور بخارا تک جا پہنچا اور کام یابی سے اپنا کام انجام دیتے ہوئے بمبئی لوٹ آیا۔ اس پورے سفر کی سروے رپورٹ اور تمام تحقیقی کام ”دی نیویگیشن آف دی انڈس اینڈ جرنی بائی بلخ اینڈ بخارا“ کے نام سے کمپنی نے شایع کروایا اور اس کے فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں تراجم بھی کرائے گئے۔

    برنس کے اس کام کی انگلستان میں بھی بہت پذیرائی ہوئی۔ اسے ہندوستان میں اہم فوجی ذمہ داریاں نبھانے کو دی گئیں اور اس نے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پائی۔ لیکن اب وہ ایک جاسوس مشہور ہو چکا تھا اور افغانستان کے باغی گروہ موقع کی تلاش میں تھے جب اس سے بدلہ چکا سکیں۔ وہ کابل میں‌ رہائش پذیر تھا جہاں اس کی حفاظت کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔

    2 نومبر 1841ء کو باغی افغانوں نے کابل میں اس کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا، اور الیگزینڈر برنس، اس کے اہلِ خانہ اور دیگر انگریز افسران کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ برنس کے گھر کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ یوں افغانوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزوں‌ سے بدلہ لے لیا۔

    الیگزینڈر برنس کو اس وقت کے ہندوستان اور پورے خطّے میں انگریزوں کا جاسوس ہی لکھا اور کہا جاتا ہے، لیکن وہ پہلا تاریخ نویس ہے جس نے دریائے سندھ کی سیر کو تحریری شکل میں محفوظ کیا اور اس سے متعلق معلومات و حقائق کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

  • جنگِ آزادی:ہندوستان کی اوّلین مجاہد بیگم حضرت محل کا تذکرہ

    جنگِ آزادی:ہندوستان کی اوّلین مجاہد بیگم حضرت محل کا تذکرہ

    تاریخِ ہند کے صفحات جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشوں، اور مکروفریب کی داستان سناتے ہیں اور تجارت کے بہانے ہندوستان پر قبضہ کرنے والے انگریزوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، وہیں ہمیں‌ بیگم حضرت محل جیسے کرداروں کے بارے میں جاننے کا موقع بھی ملتا ہے۔

    بیگم حضرت محل نے مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو متحد ہو کر آزادی کی جنگ لڑنے پر آمادہ کیا۔ بیگم حضرت محل کو ہندوستان کی اوّلین خاتون مجاہدِ آزادی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    وہ ایک دور اندیش، بہادر اور غیّور ہندوستانی تھیں جنھوں نے برطانوی حکومت کی” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کو بھانپ کر مسلمانوں اور ہندوﺅں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوششیں کیں اور اپنے قول و عمل سے تحریکِ جنگِ آزادی کو ایک نیا رخ دیا۔

    حضرت محل فیض آباد میں 1820ء میں پیدا ہوئیں۔ وہ کوئی معمولی عورت تھیں اور نہ ہی کسی عام گھرانے کی فرد۔ بیگم حضرت محل اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کی رفیقِ حیات تھیں۔

    مغل سلطنت کی کم زوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے 1856ء میں مختلف ریاستوں اور علاقوں پر اپنا راج قائم کرتے ہوئے جب واجد علی شاہ کو جلاوطنی پر مجبور کردیا اور انھیں کلکتہ بھیج دیا تو بیگم حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھالی اور انگریزوں کے خلاف میدانِ‌ عمل میں اتریں‌۔ انھوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوششیں کرتے ہوئے انگریزوں کو ہندوستان بھر سے باہر نکالنے کی جدوجہد شروع کی۔

    بیگم حضرت محل نے قابض انگریز افواج کو للکارا اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے میدان میں برطانوی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے اتریں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ بیگم حضرت محل انگریزوں کے اندازے سے کہیں بڑھ کر پُرعزم و باحوصلہ نکلیں، وہ پالیسی ساز اور تنظیمی امور میں طاق تھیں۔

    1857ء کی جنگ کے دوران انھوں نے اودھ میں اپنی فوج کی قیادت کی اور اپنے عوام کی امنگوں اور امیدوں کا مرکز بنی رہیں جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انھوں نے انگریزوں سے دو سال تک لڑائی جاری رکھی اور اپنی افواج کو منظّم رکھنے کے ساتھ طاقت میں اضافہ کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے مسلسل متحرک اور فعال کردار ادا کرتی رہیں، لیکن ایک وقت آیا جب مالی مسائل اور دوسری مشکلات کے باعث فوج اور ریاست کی سطح پر مدد اور حمایت کم ہوتی چلی گئی، لیکن انھوں نے شکست تسلیم نہ کی بلکہ اس موقع پر جب انگریز حکومت نے انھیں مراعات کی پیشکش کی تو بیگم حضرت محل نے اسے ٹھکرا دیا۔

    بدقسمتی سے اپنوں کی سازش اور دغا بازی اور دوسرے ریاستی حکم رانوں کے تعاون سے محرومی کے سبب وہ اپنی آزادی کے خواب کی تکمیل نہ کرسکیں، لیکن حضرت محل جب تک زندہ رہیں، انگریزوں کے آگے ہتھیار نہیں‌ ڈالے اور ان کے خلاف مہم جوئی جاری رکھی۔

    بیگم حضرت محل کی زندگی کا سورج 7 اپریل 1879ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انھوں نے نیپال میں‌ اپنی زندگی کی آخری سانس لی، لیکن ان کی جدوجہد اور قربانیاں رائیگاں نہیں‌ گئیں بلکہ ان کے اسی جذبے اور آزادی کے جنون نے ہندوستانی عورتوں کو بھی ہمّت اور حوصلہ دیا اور ہندوستان آزاد ہوا اور اسی سے متاثر ہوکر مسلمان خواتین مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھی ہوئیں اور تحریکِ پاکستان کو کام یاب بنایا۔

  • "بندوبست دوامی” کیا ہے؟

    "بندوبست دوامی” کیا ہے؟

    1800 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں زمینوں کا محصول اکٹھا کرنے کی غرض سے نئے قانون کے تحت ایک نیا زمین داری نظام شروع کیا جسے بندوبست دوامی (Permanent Settlement) کہا جاتا ہے۔

    ایسٹ انڈیا کمپنی سے پہلے ہندوستان کی مغلیہ حکومت مختلف علاقے ایک ایک سال کے لیے پٹے پر دیا کرتی تھی اور ہر سال ان علاقوں کی نیلامی ہوتی تھی۔ سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو ایک سال کے لیے زمین داری مل جاتی تھی۔

    مغلوں کے دیوان (اہل کار) نہ صرف بولی لگانے والے زمین داروں سے ٹیکس وصول کرتے تھے بلکہ وہ اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ کہیں رعایا کے ساتھ غیر ضروری سختی نہ برتی جائے۔

    دیوان کو یہ اختیار بھی تھا کہ عوامی شکایات اور ان کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے زمین داری کا معاہدہ ختم کر دیں۔

    بعد میں معاہدہ الٰہ باد میں شاہ عالم دوّم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو پورے بنگال کی دیوانی عطا کی اور اس کے علاوہ 50 لاکھ روپے بطور تاوان جنگ بھی انگریزوں کو ادا کیے گئے تو انگریزوں نے ٹیکس اکٹھا کرنے کا قانونی اختیار حاصل کرلیا، لیکن ماہر اسٹاف کی کمی کی وجہ سے انگریزوں کو اس میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1770 کا قحط پڑا تو انتظامیہ کی امور میں‌ کم زوریاں بھی سامنے آئیں۔

    اس کے بعد 1786 میں لارڈ چارلس کارنوالس گورنر جنرل بن کر ہندوستان آیا اور اسی نے 1790 میں دس سال کے لیے بندوبست دوامی (Permanent Settlement) کا نظام نافذ کیا جسے 1800 میں مستقل کر دیا گیا۔

    اس نظام میں ہر سال نیلامی کے بجائے ایک بار نیلامی اور آئندہ ہر سال اسی بولی کو زمین کا ٹیکس مقرر کیا گیا تھا۔

  • "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    ہندوستان پر برطانوی راج کے دوران جہاں اس خطے کے عام باسیوں اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو انگریزی زبان سمجھنے اور گوروں کے ساتھ بات چیت میں دشواری پیش آتی تھی، اسی طرح انگریزوں کو بھی براہ راست عوام سے رابطے میں زبان ہی رکاوٹ تھی۔

    بعض انگریز صوبے دار اور بڑے عہدوں پر فائز افسران مقامی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہوئے۔ کچھ نے سرکاری ضرورت کے تحت اور بعض نے ذاتی خواہش اور دل چسپی سے فارسی سیکھنے کے لیے اتالیق کی مدد لی۔ تاہم عام بول چال اور بات تھی، مگر بامحاورہ اور شاعرانہ گفتگو ہضم کرنا آسان تو نہ تھا۔ اسی سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ پڑھیے۔

    مشہور ادیب آغا حشر کاشمیری کے ایک شناسا خاصے باذوق، صاحبِ علم اور فارسی پر عبور رکھتے تھے۔ کہتے ہیں ایرانی بھی ان کی فارسی دانی کو تسلیم کرتے تھے، لیکن ان دنوں مولوی صاحب روزگار سے محروم تھے اور معاشی مسائل جھیل رہے تھے۔

    آغا حشر ان کے حالات سے اچھی طرح واقف تھے اور کوشش تھی کہ کسی طرح مولوی صاحب کی ملازمت ہوجائے۔ ایک روز کسی نے آغا صاحب کو بتایاکہ ایک انگریز افسر فارسی سیکھنا چاہتا ہے اور کسی اچھے اتالیق کی تلاش میں ہے۔

    آغا صاحب نے بمبئی کے ایک معروف رئیس کے توسط سے مولوی صاحب کو اس انگریز افسر کے ہاں بھجوا دیا۔

    صاحب بہادر نے مولوی صاحب سے کہا۔

    "ویل مولوی صاحب ہم کو معلوم ہوا کہ آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے۔”

    مولوی صاحب نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا۔ "حضور کی بندہ پروری ہے ورنہ میں فارسی سے کہاں واقف ہوں۔”

    صاحب بہادر نے یہ سنا تو مولوی صاحب سے ادھر ادھر کی دو چار باتیں کیں اور نہایت احترام سے رخصت کر دیا، لیکن جس رئیس نے انھیں بھیجا تھا، اس سے شکایت یہ کی کہ بغیر سوچے سمجھے ایک ایسے آدمی کو فارسی پڑھانے کے لیے میرے پاس کیوں بھیجا جو اس زبان کا ایک لفظ تک نہیں جانتا۔

  • برصغیر میں 166 سال قبل آج پہلی بار ٹرین چلی تھی

    برصغیر میں 166 سال قبل آج پہلی بار ٹرین چلی تھی

    ریلوے آج برصغیر پاک و ہند میں سفر کا سب سے اہم اور سستا ذریعہ ہے ، کیا آ پ جانتے ہیں کہ اس خطے میں پہلی بار ٹرین 166 سال قبل آج کے دن چلی تھی۔

    سنہ 1857 کی جنگ آزادی تک برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی اور حکومتِ برطانیہ اس کے معاملات کمپنی کے ذریعے ہی طے کیا کرتی تھی۔1849 میں برطانوی پارلیمنٹ میں ایک ایکٹ منظور کیا گیا جس کے ذریعے برصغیر میں ریلوے کا نظام قائم کرنے ایک کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

    گریٹ انڈین پینن سیولا  ریلوے (عظیم جزیرہ نما ہند ریلوے) کے نام سے یہ کمپنی 50 ہزار پاؤنڈ کے شراکتی سرمائے سے شروع کی گئی تھی۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ معاہد ہ کیا اور ریلوے لائن کی تعمیر شروع کردی۔

    ابتدائی طور پر 1300 میل لمبائی کی ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ تیار کیا گیا  جس کا مقصد بمبئی ( ممبئی) کو مدراس کے شہر چنائے سے جوڑنا تھا۔ بمبئی کی طرح ہندوستان کے مشرقی علاقوں میں چنائے بھی ایک اہم پورٹ کا حامل تھا۔ ابتدائی روٹ میں  پونا، ناسک، اورنگ آباد، احمد نگر، شعلہ پور، ناگ پور، امراوتی اور حیدر آباد شامل تھے۔

    اس منصوبے سے عوام کو تو ایک اہم سفری ذریعہ میسر آیا لیکن اس کے قیام  کا اصل مقصد کاٹن ،  سلک ، افیون، شکر اور مصالحوں کی تجارت کو فروغ دینا تھا۔

     لائن بچھنا شروع ہوئی اوربالاخر بمبئی سے تھانے شہرتک کا کام مکمل ہوا تو آج سے 166 سال قبل آج کے دن یعنی 16 اپریل 1853 کو برصغیر میں پہلی مسافر ٹرین بمبئی کے بوری بندر اسٹیشن سے روانہ ہوکرتھانے کے اسٹیشن پہنچی۔ یہ ایک تاریخ ساز دن تھا۔ اس سفر میں کل 57 منٹ لگے اور ٹرین نے 21 میل کا فاصلہ طے کیا تھا۔

    اس سفر میں کل 400 مسافر تھے اور تین لوکو موٹو انجن جن کے نام سلطان ، سندھ اور صاحب تھے ، 14 بوگیوں پر مشتمل ریل گاڑی کو کھینچ کر لے گئے تھے ۔

    اگلے مرحلے میں سنہ 1954 میں تھانے سے کلیانہ  تک لائن بچھائی گئی۔سنہ 1856 میں یہ لائن کیمپولی تک پہنچی اور اس کے بعد 1858 میں ریلوے سے پونے تک کا سفر بھی ممکن ہوگیا۔ جہاں یہ لائن تجارتی بنیادوں پر استعمال ہورہی تھی، وہیں مسافر بھی اس سے مستفید ہورہے تھے۔

    سنہ 1961 میں یہ لائن  تھل گھاٹ تک جا پہنچی اور اس کے ساتھ ہی ایک اور لائن کلیانہ سے بھور گھاٹ ،شعلہ پقور اور رائے چور سے ہوتی ہوئی سنہ 1868 میں مدراس تک جا پہنچی جو کہ اس کا مرکزی اسٹیشن تھا۔

    اسی اثنا میں سندھ ریلوے کا کام بھی شروع ہوچکا تھا اور سنہ 1858 میں کراچی سے کوٹری  کام شروع کیا گی اور 108 میل کے اس فاصلے پر تین سال میں کام مکمل کرکے سنہ 1861 میں دونوں شہروں کو  براستہ ریلوے لائن منسلک کردیا گیا۔ کراچی کا سٹی ریلوے اسٹیشن اس شہر کا سب سے قدیم اسٹیشن ہے اور برطانوی ہندوستان کا آخری اسٹیشن بھی اسی کو تصور کیا جاتا  تھا۔

    بے شک ریلوے کی آمد  کے ساتھ ہی برصغیر میں انقلابی تبدیلیوں کا دور شروع ہوگیا۔ جہاں ایک جانب تجارت کو سرعت ملی وہیں عوام کو بھی سفری سہولیات میسر آئیں اور پورا خطہ آنے والی چند دہائیوں میں ریلوے لائن کے ذریعے آپس میں منسلک ہوگیا۔

    اس زمانے میں استعمال ہونے والے اسٹیم لوکو موٹو انجن آج پوری دنیا میں صرف نیل گری پہاڑی سلسلے کی مقامی ریلوے لائن پر چل رہے ہیں، اس کے علاوہ باقی تمام انجن ریلوے میوزمز کا حصہ بن چکے  ہیں۔

  • ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح لوٹا، پاکستان اکانومی واچ

    ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح لوٹا، پاکستان اکانومی واچ

    اسلام آباد : پاکستان اکانومی واچ کے چیئرمین بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد اسلم خان نے کہا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح لوٹا۔

    مہنگائی کا بڑھانا موجودہ حکومت کی مجبوری ہے جس کا سبب سابق حکومتوں کے کارنامے ہیں ، جس نے جاتے ہوئے خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔

    اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ملک کو بچانے کے لئے عوام قربانی دیں، ملک قرضوں کے سہارے زیادہ عرصہ نہیں چلتے اور نہ ہی راتوں رات تبدیلی آ سکتی ہے، معاشی استحکام سے ڈالر کی قدر اور توانائی و اشیائے ضروریہ کی قیمتیں معتدل ہو جائیں گی۔

    برگیڈئیر محمد اسلم خان نے مزید کہا کہ پاکستان کو سیاستدانوں بیوروکریسی اور دیگر با اثر شخصیات اور اہم شعبوں نے طویل عرصہ تک اتنا لوٹا ہے کہ عوام کو کسی پر اعتماد نہیں رہا مگر اب صورت حال بدل گئی ہے اور موجودہ حکومت کو دوسری بار غیر ملکی قرضہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

  • آج شیرِمیسور ٹیپو سلطان کا 219 واں یوم شہادت ہے

    آج شیرِمیسور ٹیپو سلطان کا 219 واں یوم شہادت ہے

    آج برصغیر کے دلیرحکمران اور ایسٹ انڈٰیا کمپنی کے بڑھتے ہوئے سیلِ رواں کے سامنے آخری دیوار ’’شیر میسور‘‘ ٹیپو سلطان کی شہادت کو 219 برس بیت گئے۔

    ‘ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا، آپ ہندوستان کے شہربنگلور میں 20 نومبر 1750ء کو اس وقت کے حکمران حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سلطان حیدرعلی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو بزورِ طاقت روکے رکھا اور کئی بارانگریزافواج  کو شکست فاش بھی دی۔

    tipu-post-5

    آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ہندوستان میں ایک مضبوط مزاحمت کاسلسلہ جاری رکھا اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کیلئے سنجیدہ و عملی اقدامات کیے۔ سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں، صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا۔ سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ برصغیر کی بدقسمتی کہ نظام اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کیلئے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا۔


    ٹیپو سلطان کے والد امریکا کی آزادی کے ’ہیرو‘ قرار


    tipu-post-3

    برصغیر کی شان فتح علی عرف ٹیپو سلطان کا قول ہے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ اور وہ تادمِ شہادت اپنے اسی قول پرعمل پیرا رہے۔


    مزید پڑھیں: ٹیپو سلطان کے زیراستعمال اسلحہ لندن میں نیلام


    ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی اور وہ مذہبی تعصب سے پاک تھے یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو مملکت خداداد کا نام دیا، حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے۔

    ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ذاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔

    Tipu-post-1

    ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کے بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظّم کیا ۔ اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔

    میسور کی چوتھی جنگ سرنگاپٹم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غداروں میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیچھے لے گيا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور سرنگاپٹم کے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش فرمایا۔


     ٹیپوسلطان کا یوم پیدائش منانے پر انتہاپسندوں کی ہنگامہ آرائی


    2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھارت برسراقتدار آنے کے بعد سے دیگر کئی مسلم حکمرانوں کی طرح ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی پر مذہبی عدم رواداری اور بڑے پیمانے پر ہندوؤں کے قتل کاالزام عائد کیا جانے لگا۔

    TIPU 4

    نومبر 2015ء میں کرناٹک کی برسراقتدار سدارمیا کی زیرقیادت کانگریس حکومت نے حسب سابق ٹیپوسلطان کے یوم پیدائش کا جشن منایا تو ریاست کے مَدِیْکیرِی علاقے میں ایک مسلم تنظیم اور وشوا ہندو پریشد کے بیچ پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جن میں ایک ہندو اورایک مسلم شخص ہلاک ہوا۔