Tag: ایلس ان ونڈر لینڈ

  • لیوس کیرول: ایک مقبول ناول نگار جو ماہرِ ریاضی بھی تھا

    لیوس کیرول کا بچّوں‌ کے لیے تخلیق کردہ محیّرالعقول اور دل چسپ واقعات پر مبنی ناول بعنوان ’ایلس ان ونڈر لینڈ‘ (Alice’s Adventures in Wonderland) 1865ء میں شایع ہوا تھا۔ یہ کہانی کتابی شکل میں اپنے قارئین اور بعد میں‌ فلمی پردے پر شائقینِ سنیما میں بھی مقبول ہوئی۔

    اس ناول کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے آج بھی بچّے ہی نہیں بڑے بھی نہایت شوق سے پڑھتے ہیں جب کہ اس کی اشاعت کو ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اِس مدّت میں ایلس ان ونڈر لینڈ پر مبنی کئی ڈرامے اور فلمیں اسکرین کی زینت بنیں۔ ناول کے مصنّف لیوس کیرول نے 14 جنوری 1898ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    لیوس کیرول کا اصل نام چارلس ڈاج سن تھا۔ لیکن وہ اپنے قلمی نام سے پہچانے گئے۔ لیوس کیرول کا تعلق برطانیہ سے تھا جہاں انھوں نے 27 جنوری 1832ء کو آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے وہ اساتذہ میں ذہین طالبِ علم کی حیثیت سے پہچانے گئے۔ ان کی دل چسپی کا مضمون ریاضی تھا اور وہ اس کے ماہر بنے۔ بعدازاں آکسفورڈ میں‌ ریاضی کے استاد مقرر ہوئے۔ انھوں نے اپنے علمی ذوق و شوق اور تحقیق و اختراع سے کام لے کر ریاضی اور سائنس کے متعدد بنیادی اصول اور قاعدے سکھانے کے طریقے بھی ایجاد کیے۔ وہ علم و فنون کے بھی دلدادہ تھے اور اسی شوق نے انھیں لکھنے کی جانب مائل کیا۔

    لیوس کیرول نے شارٹ اسٹوریز لکھیں اور شاعری بھی کی جب کہ مذکورہ ناول نے انھیں دنیا بھر میں شہرت دی۔ وہ فوٹو گرافی اور مصوّری کا بھی شوق رکھتے تھے اور ایک آرٹسٹ کی حیثیت سے یہ ہنر بھی آزمایا۔

    لیوس کیرول نے نوعمری میں شارٹ اسٹوریز لکھنا شروع کیں اور ساتھ ہی نظمیں‌ بھی کہنے لگے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات مقامی جرائد کو بھیجیں تو مدیران نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور کہانیاں شایع ہونے لگیں۔ 1854ء سے 1856ء کے دوران مصنّف کی حیثیت سے ان کی تحریروں کو قومی سطح کے اخبارات اور رسائل میں جگہ ملی۔ لیوس کیرول اپنی تخلیقات میں طنز اور مزاح کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

    مصنّف کے مشہور ناول ایلس ان ونڈرلینڈ کو نقاد حیران کن ادبی شہ پارہ تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو قاری کو حیران کن دنیا میں لے جاتی ہے۔ اس میں‌ ایک معصوم لڑکی خرگوش کے بِل میں گر جاتی ہے، اور پھر وہ ایک انوکھی دنیا میں پہنچ جاتی ہے جہاں‌ اسے عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ اسے پڑھتے پڑھتے قاری بھی ایک بہت مختلف دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ اپنے ناول کی اوّلین اشاعت میں کیرول نے اپنے ہی تیّار کردہ تصویری خاکے شامل کیے تھے۔

  • وہ غیر معمولی اعصابی بیماری جس کا نام ایک مقبول ناول سے ماخوذ ہے

    وہ غیر معمولی اعصابی بیماری جس کا نام ایک مقبول ناول سے ماخوذ ہے

    لیوس کیرول وہ قلمی نام ہے جس سے لگ بھگ ڈیڑھ سو برس قبل ’ایلس اِن ونڈر لینڈ‘ (Alice in Wonderland) نامی کتاب شایع ہوئی تھی اور آج بھی دنیا بھر میں‌ مقبول ہے۔ یہ ایک ناول ہے جسے بچّے شوق سے پڑھتے ہیں اور اس کہانی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس پر کئی ڈرامے اور فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔

    ناقدین نے اسے ایک ادبی شہ پارہ بھی کہا ہے جس کا قاری خود کو حیران کُن واقعات میں ڈوبتا اور ایک عجیب دنیا کی مختلف مخلوقات کے درمیان پاتا ہے۔ چارلس ڈاج سن کو اس کا مصنّف بتایا جاتا ہے جس نے قلمی نام سے اپنی یہ کہانی 1865ء میں شایع کروائی تھی۔ اس کا مرکزی کردار دس برس کی ایلس لڈل اور اس کی دو بہنیں ہیں جنھوں نے انوکھی دنیا کے حیران کن واقعات کو ہمارے سامنے رکھا ہے۔

    اس کہانی کے مصنّف اور اس کے کرداروں کے اس تذکرے کے بعد اب ہم اس بیماری کے بارے میں جانتے ہیں جو اسی مختصر ناول کے نام سے موسوم ایک اعصابی مسئلہ ہے۔ اسے ایلس اِن ونڈر لینڈ سنڈروم (Alice in Wonderland syndrome) کہا جاتا ہے اور یہ نام جان ٹوڈ نے تجویز کیا تھا۔ وہ ایک انگریز ماہرِ نفسیات تھا۔

    جان ٹوڈ نے 1955 میں لیوس کیرول کی کتاب کے مرکزی کردار ایلس کو ذہن میں‌ رکھتے ہوئے اس طبّی پیچیدگی کو یہ نام دیا تھا، دراصل کہانی میں‌ وہ لڑکی ایسے حالات سے گزرتی ہے جس میں اسے اپنے اردگرد موجود اشیا اور مخلوق کی شکل اور جسامت بگڑی ہوئی نظر آتی ہے۔

    اسے اکثر ماہرین نے ایک اعصابی بیماری قرار دیا ہے اور اسے ٹوڈز سنڈروم کے نام سے بھی شناخت کرتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایک غیر معمولی اعصابی پیچیدگی ہے، اس میں کسی انسان کا بصری تأثر اس طرح‌ خراب ہوسکتا ہے کہ وہ اجسام کو ان کے حقیقی نہیں مماثل روپ میں‌ دیکھنے لگتا ہے۔ اسے کسی بھی جسم کا سائز یکسر مختلف دکھائی دے سکتا ہے جس میں چہرہ، ہاتھ اور پیر شامل ہیں۔ اسے یہ اعضا چھوٹے یا بہت بڑے نظر آنے لگتے ہیں۔

    عام طور پر اسے دردِ شقیقہ جیسی حالت تصوّر کیا جاتا ہے، لیکن اس میں‌ مبتلا شخص کسی جسم کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان میں‌ بگاڑ دیکھتا ہے یا وہ انھیں‌ غیر متناسب پاتا ہے۔ ایسے مریض فریبِ نظر اور وقت گزرنے کے احساس کی بھی شکایت کر سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس طبّی پیچیدگی کا اب تک کوئی مؤثر اور مکمل علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ تاہم، ایک ماہر معالج دردِ شقیقہ سے نجات کے لیے کوشش اور تدابیر اختیار کرتا ہے جب کہ دوا کے ساتھ مریض کو ضروری ہدایات دے کر اس اعصابی بیماری کو ختم کرنے میں‌ مدد دیتا ہے۔

  • ’ایلس ونڈر لینڈ میں‘ کے خالق لیوس کیرول کا تذکرہ

    ’ایلس ونڈر لینڈ میں‘ کے خالق لیوس کیرول کا تذکرہ

    ’ایلس ونڈر لینڈ میں‘ (Alice’s Adventures in Wonderland) 1865ء میں شایع ہونے والا وہ ناول ہے جسے آج بھی بچّے ہی نہیں بڑے بھی نہایت شوق سے پڑھتے ہیں۔ اِس ناول پر کئی ڈرامے اور فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔ یہ ناول لیوس کیرول کی تخلیق ہے۔

    14 جنوری 1898ء کو لیوس کیرول ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کا اصل نام چارلس ڈاج سن تھا۔ تاہم قلمی دنیا میں اس نے لوئس کیرل کے نام سے شہرت پائی۔ اس کا وطن برطانیہ تھا جہاں چارلس ڈاج سن نے 27 جنوری 1832ء میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ ایک ذہین طالبِ علم اور ریاضی کا ماہر تھا۔ بعد میں‌ وہ آکسفورڈ میں‌ اسی مضمون کا استاد مقرر ہوا اور اپنے علم اور تحقیق سے ریاضی اور سائنس کے بنیادی اصول اور قاعدے سکھانے کے طریقے ایجاد کیے۔

    دنیائے ادب میں لیوس کیرول نے اپنے ناولوں اور شارٹ اسٹوریز کے علاوہ ایک شاعر کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل کی۔ اسی طرح وہ فوٹو گرافر اور مصوّر کے طور پر بھی سامنے آیا۔

    لیوس کیرول نے نوعمری میں شارٹ اسٹوریز لکھنا شروع کی تھیں اور ساتھ ہی شاعری بھی۔ اس نے اپنی تخلیقات مقامی جرائد کو بھیجیں جن کی اشاعت نے اسے بڑا حوصلہ دیا اور 1854ء سے 1856ء کے دوران اس کی تخلیقات کو قومی سطح کے اخبارات اور رسائل میں جگہ ملی۔ وہ اپنی نثر اور نظم میں گہرے طنز اور مزاح کے لیے بھی مشہور تھا۔

    برطانوی ادیب اور شاعر لیوس کیرول کی کہانی ایلس ان ونڈرلینڈ کو ایک حیران کن ادبی شہ پارہ کہا جاتا ہے جس میں ایک لڑکی خرگوش کے بل میں گرنے کے بعد ایک انوکھی دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔ اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ اسے پڑھتے پڑھتے قاری بھی ایک اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ اپنی اس کتاب کے لیے کیرول نے خاکے بھی خود بنائے تھے جو ناول میں شامل کیے گئے۔