Tag: ایمان قیصرانی کی شاعری

  • "دل جو سلگا تو دھواں جانے کدھر جائے گا؟”

    "دل جو سلگا تو دھواں جانے کدھر جائے گا؟”

    ایمان قیصرانی کی شاعری انسانی جذبوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ان کے کلام میں نسائی شعور اور عورت کے جذبات کا توانا اظہار دیکھا جاسکتا ہے۔

    درد مندی، سوز و گداز اور احساس بھی ایمان کے اشعار کا نمایاں وصف ہے، جسے وہ سادہ مگر نہایت دل نشیں‌ انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے مشہور قبیلے تمن قیصرانی بلوچ سے ہے، ایمان قیصرانی کے والد بشیر احمد عاجز قیصرانی نعت گو شاعر تھے۔ یوں شروع ہی سے انھیں بھی علم و ادب سے لگاؤ رہا اور وہ شاعری کی جانب راغب ہوئیں۔ ایمان نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان سے تعلیم مکمل کی اور درس و تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ انھوں‌ نے جامعہ کی سطح پر اردو کی تدریس کے ساتھ ادبی سرگرمیاں‌ بھی جاری رکھیں۔ ان کے دو مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ یہاں‌ ہم ایمان قیصرانی کی ایک خوب صورت غزل آپ کے ذوق کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    پھول بکھریں گے، پرندوں سے شجرجائے گا
    رائیگاں دشت میں بارش کا ہنر جائے گا

    اور کیا ہوگا بھلا روٹھ کے جانے والے
    بس یہ کاجل مرے تکیے پہ بکھر جائے گا

    رائیگانی میری آنکھوں میں لکھے گی نوحے
    تو اگر عہدِ وفا کر کے مُکر جائے گا

    کل اسے دیکھ لیا شہر میں ہنستا بستا
    وہ تو کہتا تھا کہ بچھڑے گا تو مر جائے گا

    جس نے تاوان میں آنکھوں کے خسارے جھیلے
    وہ کوئی خواب بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

    آنکھ سلگی ہے تو پھوٹے ہیں ہزاروں جھرنے
    دل جو سلگا تو دھواں جانے کدھر جائے گا؟

    صبح کا بھولا ہے ایمان یقیناً اک دن
    وہ کبھی شام ڈھلے لوٹ کے گھر جائے گا

  • تری خوشبو نہیں ملتان سے جانے والی!

    تری خوشبو نہیں ملتان سے جانے والی!

    دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو
    کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے

    دنیا بھر میں جہاں کرونا کی وبا کے سبب عام میل جول متاثر ہوا، وہیں مصافحہ جیسی دیرینہ اور خوب صورت روایت بھی احتیاط کی نذر ہوگئی۔ ایمان قیصرانی کا یہ شعر اسی طرف اشارہ کرتا ہے، لیکن سماجی فاصلہ برقرار رکھنے اور اس احتیاط سے متعلق اپنے خیال کو شعر کے قالب میں‌ ڈھالتے ہوئے شاعرہ نے سماج میں‌ افراتفری اور انتشار پر بھی طنزیہ انداز میں‌ چوٹ کی ہے۔

    ایمان قیصرانی کا تعلق ضلع ڈیرہ غازی خان کے مشہور قبیلے تمن قیصرانی بلوچ سے ہے۔ان کے والد بشیر احمد عاجز قیصرانی نعت گو شاعر تھے۔ یوں‌ ایمان کو علم و ادب سے لگاؤ اور شاعری کا شوق ورثے میں‌ ملا۔ ایم اے اردو اور ایم فل بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے مکمل کرنے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔

    ایمان قیصرانی کی شاعری مضامینِ درد و الم سے مرصع ہے۔ ان کی شاعری انسانی جذبوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ایمان کا کلام منفرد استعاروں اور تشبہیات سے آراستہ نظر آتا ہے۔ ان کے اشعار میں بھرپور نسائی شعور اور عورت کے جذبات کا توانا اظہار ملتا ہے۔

    ایمان قیصرانی جامعہ کی سطح پر اردو کی تدریس کے ساتھ ادبی سرگرمیاں‌ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے دو مجموعہ کلام منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ اس تعارف کے ساتھ ایمان قیصرانی کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے۔

    خطۂ یاد، نہ امکان سے جانے والی
    تری خوشبو نہیں ملتان سے جانے والی

    پھر کسی اور نے روکا ترا رستہ ویسے؟
    پھر کوئی اور ملی جان سے جانے والی

    بھول ہر وقت کے خدشوں کو، یقیں کر میرا
    چھوڑ کر میں نہیں ایمان سے جانے والی

    کوچۂ ہجر ہو یا دار، بتا لگتی ہوں؟
    میں کہیں پر کسی فرمان سے جانے والی

    تم نے دیکھی ہے وہ ضدی وہ بلوچن پگلی!
    جان دے کر بھی نہ پیمان سے جانے والی

    اس طرف جھیل نے روکا ہے تو دیکھو اس سمت
    آخری بس بھی ہے کاغان سے جانے والی

    وقت کہتا ہے چراغـوں کو منّور کر لو!
    دھوپ ویسے بھی ہے دالان سے جانے والی

    تجھ میں کیا عجز ہے ایمان یہ جھکنے والا
    اس میں کیا بات ہے احسان سے جانے والی


    شاعرہ: ایمان قیصرانی