Tag: ایملی زولا

  • ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    1902ء میں ایملی زولا کی حادثاتی موت نے جہانِ ادب کو ایک زرخیز ذہن اور باکمال تخلیق کار سے محروم کردیا۔ وہ 29 ستمبر کی ایک رات کو گہری نیند میں خاموشی سے یہ دنیا چھوڑ گیا۔

    اس حادثاتی موت کا سبب بظاہر ایک مستری کی غفلت تھی۔ واقعے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    جب یورپ کا اقتدار اور کلچر اپنے عروج پر تھا تو فرانس کی تیسری جمہوریہ میں ایملی زولا ایک بڑے ناول نگار کی حیثیت سے ابھرا اور اپنے اسلوبِ بیان سے نام پیدا کیا۔ ایملی زولا نے اپنے عہد کو ایک صحافی کی نظر سے دیکھا، مشاہدے اور تجربے سے مواد اکٹھا کیا۔ واقعات اور کرداروں کو خوب صورتی سے جمع کیا اور لکھنا شروع کر دیا۔

    ایملی زولا فرانس کا ممتاز ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840ء ہے۔

    اس نے متعدد محکموں میں معمولی نوکری کی، کلرک کے طور پر کام کیا اور پھر ایک اخبار سے منسلک ہوگیا جہاں سے اس کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ ہوا۔ اس ادیب کی کہانیاں موپساں جیسے نام ور ادیبوں کے ساتھ شایع ہوئیں۔ وہ عظیم ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا ادیب تھا۔

    ایملی زولا کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری مشہور تھا۔ اس نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ فرانس کے صدر کے نام 1898ء میں لکھا گیا ایک خط اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ ثابت ہوا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کو فرانس کی بڑی بدنامی تصوّر کیا گیا۔ حکومت نے اس پر مقدمہ کر دیا اور عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا کسی طرح فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لی۔ بعد میں یہ کیس ختم ہوا اور زولا واپس پیرس آ گیا۔

    وطن لوٹنے کے بعد وہ دوبارہ تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے "کیے” کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، تاہم عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، اس کے باوجود ریاست نے اسے برداشت نہ کیا اور قیاس ہے کہ ایملی زولا کو “قتل” کروا دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو بظاہر اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا جس کے باعث کمرے کو گرم رکھنے کے لیے دہکائے گئے کوئلوں کے دھویں اور گیس کا اخراج نہیں ہوسکا۔ نیند میں دَم گھٹنے کے باعث زولا کی موت واقع ہوگئی۔

    اس وقت اسے محض حادثہ تصوّر کیا گیا، لیکن اس افسوس ناک واقعے کے دس برس بعد اسی مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اس نے زولا کے گھر کی چمنی کا منہ بند کیا تھا۔

    فرانسیسی زبان میں زولا کے کئی ناول اور کہانیوں کے مجموعے منظرِ عام پر آئے جن کا بعد میں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

  • ایک مستری کی غلطی جو مشہور ادیب کی موت کا سبب بن گئی

    ایک مستری کی غلطی جو مشہور ادیب کی موت کا سبب بن گئی

    ایملی زولا کی موت ایک حادثہ تھی۔ یہ 1902 کی بات ہے جب‌ وہ گہری نیند میں اس جہانِ رنگ و بُو کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا۔ اس کی موت بظاہر ایک مستری کی غلطی کے سبب واقع ہوئی تھی۔

    اس حادثے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    ایملی زولا فرانس کا معروف ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840 ہے۔

    ایملی زولا متعدد محکموں میں کلرک کے طور پر کام کرنے کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگیا اور شہرت کا سفر شروع کیا۔ وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ تھا۔ اس نیچرلسٹ ادیب نے موپساں جیسے نام ور اور دیگر ہم عصر ادیبوں کے ساتھ اپنی کہانیاں‌ چھپوائیں اور خوب شہرت سمیٹی۔ دنیا بھر کے نقاد مانتے ہیں کہ فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ ایملی زولا کو پڑھا گیا۔

    وہ کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری تھا۔ زولا نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ فرانس کے صدر کے نام 1898 میں لکھے گئے ایک خط کی صورت سامنے آیا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کی وجہ سے دنیا میں فرانس کی بڑی بدنامی ہوئی۔ حکومت نے زولا پر مقدمہ کر دیا اور اسے عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لے لی۔

    اس خط کا پس منظر وہ سازش تھی جس میں‌ پھنسائے گئے ایک یہودی کیپٹن نے کسی طرح‌ اس کے خلاف زولا کی مدد حاصل کی اور درخواست کی کہ وہ اِس سازش کو بے نقاب کرے۔ اس پر فرانس میں‌‌ خوب بحث ہوئی اور کیپٹن کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا گیا، یہی نہیں بلکہ اسے پورے اعزازات سمیت بری کر دیا گیا اور یوں‌ یہ کیس ختم ہوا تو زولا بھی واپس پیرس آ گیا۔

    وہ وطن واپسی کے بعد اپنے تخلیقی کام میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے کیے کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، لیکن عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، لیکن ریاست اس کا وجود برداشت نہ کرسکی اور مشہور ہے کہ اسے "قتل” کروایا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن غلطی سے چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا اور زولا کے کمرے میں‌ کوئلوں کی گیس بھر گئی۔ وہ دَم گھٹنے سے مر گیا۔ سب نے اسے ایک حادثہ ہی مانا تھا، لیکن زولا کی موت کے دس سال بعد مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اسی نے ارادتآ زولا کے گھر کی چمنی کو بند کیا تھا اور یوں‌ گیس بھرنے سے اس کی موت ہوگئی۔