Tag: ایم کیو ایم

  • آفاق احمد نے گاڑی پر اجرک کی بجائے پاکستانی پرچم والی نمبر پلیٹ لگا لی

    آفاق احمد نے گاڑی پر اجرک کی بجائے پاکستانی پرچم والی نمبر پلیٹ لگا لی

    کراچی (03 اگست 2025): آفاق احمد نے گاڑی پر اجرک کی بجائے پاکستانی پرچم والی نمبر پلیٹ لگا لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد نے گاڑی پر نئی نمبر پلیٹ لگا دی، تاہم انھوں نے اجرک والی پلیٹ کی بجائے پاکستانی پرچم والی لگائی ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آفاق احمد نے نمبر پلیٹ پر اجرک والی پٹی پر اپنے ہاتھوں سے پاکستانی پرچم والا اسٹیکر چسپاں کیا۔

    یاد رہے کہ آفاق احمد نے یکم اگست سے نمبر پلیٹ پر قومی پرچم لگانے کی مہم کا اعلان کیا تھا، گزشتہ روز انھوں نے گاڑی کی پلیٹ پر قومی پرچم والا اسٹیکر لگا کر مہم کا آغاز کردیا ہے۔

    چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ نے کہا تھا کہ عوام کے پاس آپشن ہونا چاہیے کہ وہ اجرک والی پلیٹ لگائیں یا قومی پرچم والی، انھوں نے مؤقف اختیار کیا کہ موٹر سائیکل یا گاڑی کی خریداری کے وقت نمبر پلیٹ اجرا کی فیس لائف ٹائم وصول کی جاتی ہے، شہریوں سے دوبارہ رقم کا مطالبہ کرنا غلط ہے۔

  • سندھ اسمبلی میں آوارہ کتوں کے خلاف تحریک التویٰ جمع

    سندھ اسمبلی میں آوارہ کتوں کے خلاف تحریک التویٰ جمع

    کراچی (02 اگست 2025): سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم نے آوارہ کتوں کے خلاف تحریک التویٰ جمع کرا دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آوارہ کتوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے واقعات کے خلاف ایم کیو ایم رکن اسمبلی نے سندھ اسمبلی میں تحریک التویٰ جمع کرا دی۔

    رکن سندھ اسمبلی عامر صدیقی نے تحریک التویٰ میں مطالبہ کیا ہے کہ آوارہ کتوں کو مارنا حل نہیں ہے، سندھ حکومت اس سلسلے میں مؤثر حکمت عملی بنائے، کیوں کہ روزانہ بچے اور بزرگ آوارہ کتوں کے کاٹنے سے زخمی ہو رہے ہیں، جس سے خوف اور بے چینی پھیل چکی ہے۔

    آوارہ کتے ایم کیو ایم سندھ اسمبلی
    ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی میں ہفتے کو آوارہ کتوں کے حوالے سے تحریک التویٰ جمع کرا رہے ہیں

    تحریک التویٰ کے مطابق عامر صدیقی نے کہا ہے کہ آوارہ کتوں کو ریبیز ویکسین دی جائے، اور ہر تحصیل میں ڈاگ شیلٹرز قائم کیے جائیں، نیز عوامی آگاہی مہم بھی چلائی جائے۔

    ایم کیو ایم رکن اسمبلی نے تجویز دی کہ مسئلے کے حل کے لیے ماہرین اور این جی اوز کی مشاورت سے حکمتِ عملی بنائی جا سکتی ہے، یہ عوام کی صحت اور تحفظ کا مسئلہ ہے، جس پر فوری، سنجیدہ اور ہمدردانہ اقدامات ناگزیر ہیں۔


    کے فور منصوبے پر کتنے ارب روپے خرچ ہو چکے، کتنا کام ہو گیا؟


    واضح رہے کہ سندھ سمیت پاکستان میں کتے کے کاٹے کے تکلیف دہ واقعات کس حد تک بڑھ چکے ہیں اور حکومت اس حوالے سے کتنی خاموش ہے، اس کا اندازہ گزشتہ برس جون کے محض ایک ہفتے کی رپورٹ سے ہوتا ہے، این آئی ایچ نے بتایا تھا کہ ایک ہفتے میں ملک میں کتے کے کاٹے کے سب سے زیادہ 5 ہزار 259 کیسز پنجاب سے رپورٹ ہوئے تھے، جب کہ سندھ میں 1 ہزار 886 شہری آوارہ کتوں کا نشانہ بنے۔ خیبر پختونخوا میں 635، بلوچستان میں 110، آزاد کشمیر میں 66، گلگت بلتستان میں سگ گزیدگی کا 1 کیس رپورٹ ہوا۔

  • کے فور منصوبے پر کتنے ارب روپے خرچ ہو چکے، کتنا کام ہو گیا؟

    کے فور منصوبے پر کتنے ارب روپے خرچ ہو چکے، کتنا کام ہو گیا؟

    کراچی (02 اگست 2025): ایم کیو ایم رہنما امین الحق نے پاکستان پیپلز پارٹی کی طویل عرصے کی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’کے فور‘ منصوبے پر اس نے ایک روپیہ بھی نہیں لگایا، جب کہ اب یہ منصوبہ تیزی سے تکمیل کے مرحلے تک رواں دواں ہے۔

    ایم کیو ایم رہنما امین الحق نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’کراچی کا انفراسٹرکچر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، پیپلز پارٹی کی 18 سالہ صوبائی حکومت اور 5 بار وفاقی حکومت کے باوجود شہری اور دیہی سندھ تباہ حال ہے، اور سندھ حکومت کی کرپشن اور نااہلی عروج پر ہے۔‘‘

    امین الحق کے فور منصوبہ کراچی
    کے فور منصوبہ جس پر وفاق کی طرف سے کام جاری ہے

    انھوں نے کہا اٹھارویں ترمیم کے بعد پانی فراہم کرنے کی ذمے داری صوبائی حکومت کی ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کے فور کے منصوبے پر صوبائی حکومت نے ایک روپیہ تک نہیں لگایا، اب ایم کیو ایم کی کاوشوں سے کے فور منصوبہ وفاق کے زیر انتظام منتقل ہو گیا ہے تو اب یہ 126 ارب کا ہو چکا ہے، جس پر 82 ارب خرچ اور 72 فی صد کام مکمل ہو چکا ہے۔

    امین الحق نے کہا ایم کیو ایم کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وفاق سے کراچی، حیدرآباد اور شہری سندھ کے لیے بڑا پیکج حاصل کر سکیں تاکہ محرومیوں کا ازالہ ہو، میئر کراچی کی نااہلی کے باعث جو کام شہر میں مکمل نہیں ہو پا رہے ہیں، ایم کیو ایم کے ایم این ایز فنڈز سے اسے مکمل کریں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ 27 ویں ترمیم کے معاملے پر ایم کیو ایم کو ابھی تک اعتماد میں نہیں لیا گیا، وفاق سے ہمارا معاہدہ ہے کہ ستائیسویں ترمیم 140-A کے حوالے سے ہوگی، اس ترمیم کے ذریعے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل، میئر، چیئرمینز کے اختیارات اور بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ سندھ میں مستقبل قریب میں کوئی الائنس نہیں ہو سکتا، کراچی، حیدرآباد سمیت سندھ کی ترقی، ترقیاتی پیکج کی تقسیم اور اسکیموں کی تکمیل پر پی پی بات کرنا چاہے تو ضرور کریں گے۔

  • نئے نمبر پلیٹ: ایم کیو ایم کا دوبارہ رجسٹریشن فیس کی وصولی پر اعتراض

    نئے نمبر پلیٹ: ایم کیو ایم کا دوبارہ رجسٹریشن فیس کی وصولی پر اعتراض

    کراچی: شہر قائد میں موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی نمبر پلیٹ کے سلسلے میں ایم کیو ایم نے دوبارہ رجسٹریشن فیس کی وصولی پر اعتراض کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم کی مرکزی کمیٹی نے کہا ہے کہ شہری پہلے ہی رجسٹریشن کے وقت یہ فیس دے چکے ہیں، اب دوبارہ اس مد میں رقم لینا عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔

    نمبر پلیٹوں کے حصول میں مشکلات اور ٹریفک پولیس کی جانب سے شہریوں کے بھاری چالان کے تناظر میں ایم کیو ایم اراکین اسمبلی کا وفد جلد صوبائی وزیر ایکسائز سے ملاقات کرے گا، مرکزی کمیٹی نے اراکین اسمبلی کو صوبائی وزیر سے ملاقات کر کے مسئلے پر بات چیت اور عوامی سہولیات کے حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

    مرکزی کمیٹی نے کہا ہے کہ صوبائی وزیر سے ملاقات کر کے موٹر سائیکل اور گاڑیوں کے نمبر پلیٹس کی فراہمی، ٹریفک پولیس کی بے جا کارروائیوں اور محکمہ ایکسائز کی سست روی جیسے عوامی مسائل کی نشان دہی کی جائے۔

    کمیٹی کے مطابق شہر قائد میں 33 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلیں اور 23 لاکھ دیگر گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں، جن کے مالکان کو آن لائن اپلائی کرنے کے باوجود نمبر پلیٹس وقت پر موصول ہو رہی ہیں، نہ ہی متعلقہ محکمے کی جانب سے شکایتوں کا فوری ازالہ کیا جا رہا ہے، اور شہریوں کو سڑکوں پر پولیس کی دھمکیوں اور گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ کا سامنا ہے۔

    کمیٹی نے اراکین کو ہدایت کی کہ صوبائی وزیر ایکسائز سے ملاقات کر کے انھیں محکمہ کی جانب سے مرکزی شاہراہوں پر موبائل کیمپس قائم کرنے کا مشورہ دیں، اور مطالبہ کریں کہ آن لائن اپلائی کرنے والوں کو نمبر پلیٹ بذریعہ کوریئر گھر تک پہنچائی جائے۔

    ایم کیو ایم کا یہ بھی مؤقف ہے کہ نمبر پلیٹ کے لیے فیسوں پر نظر ثانی کی جائے اور پرانی فیس ادا کرنے والوں کو رعایت دی جائے۔

  • لیاری عمارت سانحہ، ایم کیو ایم اور سندھ حکومت نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگا دیے

    لیاری عمارت سانحہ، ایم کیو ایم اور سندھ حکومت نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگا دیے

    کراچی: لیاری عمارت سانحے پر سیاست عروج پر ہے، ایم کیو ایم اور سندھ حکومت نے حادثے کے سلسلے میں ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگا دیے۔

    تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی علی خورشیدی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا عمارت گرنے کی ذمہ دار صرف سندھ حکومت ہے، غیر قانونی تعمیرات ایس بی سی اے کراتا ہے، گارنٹی سے کہتا ہوں آگے مزید ایسے واقعات ہوں گے۔

    ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید نے رد عمل میں کہا کہ کراچی میں غیر قانونی پورشن کی تعمیرات کا آغاز 2000 سے ہوا جو ایم کیو ایم کے سیکٹر اور یونٹس کے ذریعے کروائی گئیں، جب کہ ایس بی سی اے اور دیگر اداروں میں آج بھی سسٹم ایم کیو ایم کے ماتحت ہے۔

    علی خورشیدی نے کہا انھوں نے کراچی کو ٹیمو ورژن آف میکسیکو سٹی بنا دیا ہے، جسے مافیا چلا رہی ہے، آپ کو بلڈنگ بنانی ہے تو ایس بی سی اے کو رشوت دینی ہوگی، 4 لوگوں کو معطل کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، پہلے اتنی انکوائریاں ہو چکی ہیں، ان کا کیا ہوا ہے اب تک؟


    لیاری عمارت سانحے میں جاں بحق افراد کی تعداد 17 ہو گئی، ہیومن باڈی ڈکٹیکٹر کی مدد سے سرچنگ جاری


    ایم کیو ایم کے رہنما نے کہا 17 سالوں سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے، سندھ حکومت کے 10 روپے کے 12 ترجمان ہیں، 17 سالوں کے بارے میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے ہی جواب مانگا جائے گا، حکومت پورے صوبے کے ادارے برباد کر چکی ہے۔

    سندھ حکومت کی ترجمان سعدیہ جاوید نے کہا کراچی میں بھتے اور غیر قانونی تعمیرات کی وجہ ایم کیو ایم ہے، قانونی بلڈرز کو بھتے کی پرچیاں دے دے کر شہر سے بھگا دیا گیا تھا، ایم کیو ایم کیوں بھول جاتی کہ شہر میں چائنا کٹنگ کی موجب بھی وہی ہے، علی خورشیدی صاحب ایم کیو ایم مرکز کے بالکل سامنے غیر قانونی عمارت موجود ہے۔

    سعدیہ جاوید نے مزید کہا ایم کیو ایم مرکز کے عین سامنے پارک میں تعمیرات کی گئیں ہیں، کیا کبھی اس کے خلاف بھی درخواست دی گئی ہے، آج بھی ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی کر رہے ہیں، لیکن اب مگرمچھ کے آنسو بہا کر ہمدردیاں وصول کرنا چاہتی ہے۔

    علی خورشیدی کا کہنا تھا کہ پورے کراچی میں 500 سے زائد عمارتیں مخدوش حالت میں ہیں، لیکن ایس بی سی اے صرف نوٹس دے کر اپنی جان چھڑا لیتا ہے، اور کوئی عملی اقدام نہیں اٹھاتا، اگر یہی حال ہی رہنا ہے تو قانون سازی کر لیں کہ اگر آپ نے کام کرانا ہے تو رشوت دینی ہوگی۔

    انھوں نے کہا ایس بی سی اے کے افسر کروڑوں نہیں اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں، سندھ اسمبلی میں کئی بار اس پر شدید تنقید کی گئی ہے، یہاں حکومت نہیں مافیا کی حکومت ہے۔

  • ’’نمبر پلیٹ کے نام پر عوام کو لوٹنے کا نیا طریقہ ناقابلِ قبول ہے‘‘

    ’’نمبر پلیٹ کے نام پر عوام کو لوٹنے کا نیا طریقہ ناقابلِ قبول ہے‘‘

    کراچی: ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی نے کراچی میں نمبر پلیٹ کے نام پر عوام کو لوٹنے کی مذمت کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے اسمبلی اراکین نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ نمبر پلیٹ کے اجرا کا عمل شفاف اور فوری بنایا جائے، اور اس مسئلے کے حل ہونے تک شہریوں کو مہلت دی جائے۔

    اراکین اسمبلی نے نمبر پلیٹ کے نام پر عوام کو لوٹنے کا نیا طریقہ ناقابلِ قبول قرار دیا، اور کہا حکومت سندھ نے پولیس اور ٹریفک پولیس کے ذریعے شہریوں پر بھاری جرمانے عائد کر کے ان کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کا نیا طریقہ اپنایا ہے۔

    انھوں نے کہا شہریوں کو ایکسائز ڈپارٹمنٹ کی جانب سے نمبر پلیٹ جاری کرنے میں کئی ماہ کی تاخیر کا سامنا ہے، اور عملے کی جانب سے رشوت طلب کرنا معمول بن چکا ہے، شہریوں کو 4 سے 5 ماہ بعد کی تاریخیں دی جا رہی ہیں، اور اس کے باوجود بھی رشوت کے بغیر ان کا کام نہیں کیا جاتا۔


    گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کے حوالے سے اہم فیصلہ


    ایم کیو ایم کا مؤقف ہے کہ پولیس اور ٹریفک پولیس مخصوص نمبر پلیٹ نہ ہونے کی بنیاد پر موٹر سائیکل اور گاڑی مالکان پر ہزاروں روپے کے جرمانے عائد کر رہی ہے، یہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے۔

    اراکین سندھ اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ حکومت سندھ اس لوٹ مار کو بند کرے، ورنہ احتجاج کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔

  • گوداموں میں اربوں روپے مالیت کی گندم ضائع ہونے کی عدالتی انکوائری کا مطالبہ

    گوداموں میں اربوں روپے مالیت کی گندم ضائع ہونے کی عدالتی انکوائری کا مطالبہ

    کراچی: ایم کیو ایم نے کراچی کے مختلف گوداموں میں اربوں روپے مالیت کی گندم ضائع ہونے کی عدالتی انکوائری کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم اراکین سندھ اسمبلی نے کراچی کے مختلف گوداموں میں اربوں روپے مالیت کی گندم ضائع ہونے کی عدالتی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔

    اراکین نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ کا محکمہ خوراک کرپشن کی مائن بن چکا ہے، ہزاروں ٹن گندم مارکیٹ پہنچنے کی بجائے گودام میں پڑے پڑے سڑ گئی ہے، انھوں نے کہا کہ روٹی کپڑا اور مکان کے جھوٹے سیاسی نعرے کے دعویدار عوام میں ایکسپوژ ہو چکے ہیں۔

    ایم کیو ایم ارکان نے سوال اٹھایا کہ کیا اتنے بڑے ذخیرے کو چھپایا جانا عام شہریوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف نہیں؟ انھوں نے کہا کہ محکمہ خوراک سندھ کے گوداموں میں سالوں سے ہزاروں ٹن گندم ذخیرہ ہے، جو خراب ہو چکا ہے، گندم کا خراب ہونا محکمہ خوراک کے کرپٹ افسران اور ذخیرہ اندوزوں کے گٹھ جوڑ کا واضح ثبوت ہے۔


    اٹک میں گندم کی فصل کی کٹائی، سرکاری ریٹ کم ہونے پر کسان پریشان


    انھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی محکمہ خوراک عدالتوں کے سامنے بیان جمع کروا چکا کہ ہزاروں ٹن گندم چوہے کھا گئے، یا پھر خراب ہو گئی، سندھ کا محکمہ خوراک ہر سال اپنی کرپشن کے ریکارڈ توڑ رہا ہے، صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی ملی بھگت مصنوعی مہنگائی کی ذمّہ دار ہے۔

    سندھ اسمبلی کے اراکین نے مطالبہ کیا ہے کہ محکمہ خوراک کے کرپٹ افسران کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا لایا جائے اور اس معاملے کی پس پردہ محرکات کو سامنے لا کر ذمّہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔

  • سینیٹ ضمنی انتخاب، ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی امیدوار کی حمایت کا فیصلہ

    سینیٹ ضمنی انتخاب، ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی امیدوار کی حمایت کا فیصلہ

    کراچی: سینیٹ کے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم نے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو سینیٹ کے ضمنی انتخاب کے سلسلے میں اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کے امیدوار کی حمایت کریں گے۔

    اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کا وفد ناصر حسین شاہ کی قیادت میں کل ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد جائے گا، ناصر شاہ نے علی خورشیدی کے ذریعے ایم کیو ایم کی قیادت سے حمایت کی درخواست کی تھی۔

    ذرائع پی پی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی درخواست پر ایم کیو ایم کی طرف سے انھیں مثبت جواب آیا ہے۔ واضح رہے کہ سینیٹ کی یہ نشست سینیٹر تاج حیدر کے انتقال پر خالی ہوئی تھی، جس پر پی پی کی طرف سے وقار مہدی امیدوار ہیں۔


    تاج حیدر کہاں پیدا ہوئے؟ ابتدائی تعلیم کس اسکول سے حاصل کی؟


    یاد رہے کہ تاج حیدر کا انتقال 8 اپریل کو ہوا تھا، وہ کراچی کے اسپتال میں زیر علاج تھے، ان کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنماؤں میں کیا جاتا تھا اور وہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے جنرل سیکریٹری، پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی تھے، اس کے علاوہ وہ پی پی سندھ کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔

  • صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کا ایم کیو ایم کو الیکشن لڑنے کا چیلنج

    صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کا ایم کیو ایم کو الیکشن لڑنے کا چیلنج

    صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے ایم کیو ایم پر نفرت کی سیاست کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کا چیلنج دے دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان پر نفرت کی سیاست کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اپنی مردہ سیاست جگانے کیلیے نفرت کی سیاست کرینگے تو اجازت نہیں دینگے۔

    سندھ کے وزیر اطلاعات نے ایم کیو ایم کو الیکشن لڑنے کا چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس مینڈیٹ ہے تو میں ابھی استعفیٰ دیتا ہوں اور وہ بھی دیں۔ دوبارہ الیکشن کرا لیتے ہیں، پتہ چل جائے گا کہ کس کے پاس مینڈیٹ ہے۔ ہر الیکشن میں پی پی کو پہلے سے زیادہ سیٹیں اور ووٹ ملے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم خود ہی شکست کے خوف سے بلدیاتی انتخابات سے بھاگی تھی۔ وہ اب دوبارہ الیکشن لڑ لے، عوام کی سپورٹ ایم کیو ایم کے ساتھ ہے تو عوام فیصلہ کرینگے۔

    شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے چند دنوں سے سندھ حکومت کیخلاف مہم شروع کی گئی ہے اور ڈمپرز حادثات کو جواز بنا کر نفرت انگیز بیانات دیے جا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے الزام لگایا کہ کراچی کا امن خراب ہو رہا ہے جب کہ وہ خود ماضی میں بد امنی کی سب سے بڑی ذمہ دار تھی۔ اب پھر وہ بھائی کو بھائی سے لڑانے کی کوشش کر رہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کی ترقی کا حب کراچی کو سمجھا جاتا ہے۔ ہم کسی صورت کراچی میں بدامنی نہیں ہونے دیں گے۔ ایم کیو ایم کے دوستوں سے گزارش ہے کہ آپ کو احتجاج کرنا ہے تو وہ آپ کا آئینی حق ہے، لیکن تنقید برائے تنقید کی سیاست نہ کریں۔اس وقت پاکستان کیخلاف بیرونی سازشیں ہو رہی ہیں اور ہم سب نے ہی مل کر ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے۔

    پریس کانفرنس میں سندھ کے وزیر اطلاعات میں صوبائی حکومت کی جانب سے کراچی اور صوبے بھر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی تفصیلات بھی بتائیں اور چیلنج دیا کہ صحت کے حوالے سے جو پی پی نےکام کیے ہیں، اگر ایم کیو ایم سمیت کسی بھی سیاسی جماعت نے صحت کے لیے کوئی ایک کام کیا ہے تو بتائے۔

  • سڑکوں کے لیے ملنے والے 15 ارب کے فنڈ کے استعمال سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ فاروق ستار کی تجویز

    سڑکوں کے لیے ملنے والے 15 ارب کے فنڈ کے استعمال سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ فاروق ستار کی تجویز

    کراچی: فاروق ستار نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک اہم تجویز میں نشان دہی کی ہے کہ کراچی کی تباہ حال سڑکوں کے لیے ملنے والے 15 ارب کے فنڈ کے استعمال سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟

    ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے آج بدھ کو اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈمپر حادثات میں شہریوں کی ہلاکت اور مرتضیٰ وہاب کی ایم کیو ایم کو ساتھ کام کرنے کی پیش کش کے حوالے سے اہم نکات پیش کیے۔

    ایم کیو ایم رہنما نے کہا مرتضیٰ وہاب کی آفر سے پہلے ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کو کراچی کی ترقی کے لیے پیش کش کر چکی ہے، ایم کیو ایم کے اراکین قومی اسمبلی وفاق سے ملنے والے 15 ارب سے بدحال سڑکیں بنانا چاہتے ہیں، جو شہر کا اہم مسئلہ ہے، لیکن اس سے قبل شہر بھر میں سیوریج اور نکاسی کا کام مکمل ہونا چاہیے۔

    فاروق ستار نے کہا گٹر ابلتے رہیں، لائنوں سے پانی رستا رہے، تو ایسے میں سڑکیں نہیں بن سکتیں، ایک سال میں سڑکیں پھر ٹوٹ پھوٹ جائیں گی، مرتضیٰ وہاب اور سعید غنی سے کہتا ہوں آئیں اس پر اتفاق کریں، اور یہاں سے شروع کریں، اور اس مقصد کے لیے واٹر کارپوریشن اور کے ایم سی کا نکاسئ آب کا بجٹ استعمال کریں، اس کے بعد دیگر چیزوں پر بھی اشتراک عمل ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا طریقہ میں نے دے دیا ہے، اللہ کرے مرتضیٰ وہاب اور پی پی کو بات سمجھ جائے۔

    آفاق احمد کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج

    ان کا کہنا تھا شہر کراچی لاوارث ہے، یہاں جنگل کا قانون ہے، یہ صوبائی حکومت کی بے حسی اور مجرمانہ غفلت ہے کہ ڈمپر حادثات پر نہ کوئی ایکشن لیا گیا ہے نہ کوئی تحقیقات کی گئی ہیں، جو لوگ حادثے میں جاں بحق ہوئے ان کے گھرانوں سے تعزیت تو دور، حکومتی نمائندوں نے مذمت تک نہیں کی، نہ ذمے داروں سے باز پرس کی گئی۔

    فاروق ستار نے کہا رہزنی کی بڑھتی وارداتیں، بچوں کے اغوا کا بڑھتا رجحان یہ سب صوبائی حکومت کے نئے سال کے تحفے ہیں، 16 برسوں میں 30 ہزار ارب کا بجٹ اور کارکردگی کیا ہے؟ اور اب تاجروں کو بلا کر ان سے صرف یہ کہنا کہ انھوں نے چغلی کیوں کی، کیا اس سے مسئلے حل ہو جائیں گے؟

    انھوں نے کہا صوبائی حکومت بتائے تیس ہزار ارب میں سے کراچی کو کتنا ملا؟ حادثات کی روک تھام پر کتنے پیسے لگے؟ جرائم کی روک تھام پر کتنا خرچ ہوا اور کیا کامیابی ملی؟ سولہ سال کا آڈٹ بنتا ہے، لیکن ان کی شان بے نیازی اور ڈھٹائی برقرار ہے، یہ حادثات و واقعات صوبائی حکومت کی کارکردگی کا آئینہ ہیں۔