Tag: ایم کیو ایم

  • گورنر سندھ کون ہوگا؟ ایم کیو ایم نے 5 نام بھجوا دیے

    گورنر سندھ کون ہوگا؟ ایم کیو ایم نے 5 نام بھجوا دیے

    کراچی: سندھ کا اگلا گورنر کون ہوگا؟ اس سلسلے میں ایم کیو ایم قیادت نے حتمی 5 نام وزیر اعظم شہباز شریف کو ارسال کر دیے۔

    ذرائع کے مطابق گورنر سندھ کے نام پر مسلم لیگ ن کا ایم کیو ایم قیادت سے رابطہ ہوا جس کے بعد کنوینئر ایم کیو ایم نے رابطہ کمیٹی سے مشاورت کر کے پانچ نام وزیر اعظم شہباز شریف کو بھجوا دیے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ رابطہ کمیٹی سے حتمی رائے لینے کے بعد ناموں کی فہرست شہباز شریف کو بھجوائی گئی ہے۔

    ایم کیو ایم ذرائع نے بتایا کہ گورنر سندھ کے لیے ایم کیو ایم کی جانب سے عامر خان، وسیم اختر، نسرین جلیل، کشور زہرہ اور عامر چشتی کے نام وزیر اعظم کو ارسال کیے گئے ہیں، اور ان ناموں پر رابطہ کمیٹی کے ہر رکن سے رائے لی گئی ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم سے گورنر سندھ کے لیے نام مانگے تھے، جس پر ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت سے وقت مانگ لیا تھا، اس وقت ذرائع کا کہنا تھا کہ عامر خان، فروغ نسیم اور نسرین جلیل کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ اب ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ کے لیے مشاورت میں شامل فروغ نسیم نے اپنا نام خود واپس لے لیا تھا۔

    سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل کا استعفیٰ 18 اپریل کو منظور ہوا تھا، جس کے بعد سے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی قائم مقام گورنر سندھ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

  • ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات 2 مراحل میں کرانے پر اعتراضات اٹھا دیے

    ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات 2 مراحل میں کرانے پر اعتراضات اٹھا دیے

    کراچی: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) نے بلدیاتی انتخابات 2 مراحل میں کرانے پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر ایم کیو ایم نے الیکشن کمیشن کو ایک اعتراضی مراسلہ بھیج دیا ہے، جس میں 2015 کے طرز پر صوبے میں بلدیاتی انتخابات 3 فیزز میں کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    یہ مراسلہ ڈپٹی کنوینئر کنور نوید جمیل کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا ہے، اس میں لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا کام صرف الیکشن کرانا نہیں بلکہ آئین و قانون کے تحت صاف و شفاف اور دھاندلی سے پاک الیکشن کرانا ہے۔

    مراسلے کے مطابق محکمہ بلدیات سندھ کی تجویز پر اس بار سندھ میں دو فیزز کے تحت الیکشن کرانے کا اعلان کیا گیا ہے، پہلے فیز میں سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص اور بے نظیر آباد ڈویژن جب کہ دوسرے فیز میں حیدر آباد اور کراچی ڈویژن میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    خط میں ایم کیو ایم کا مؤقف ہے کہ 2015 میں 1998 کی مردم شماری کے تحت صوبے میں تین فیزز میں الیکشن کرائے گئے تھے، جب کہ آبادی 3 کروڑ اور کراچی میں 6 ڈسٹرکٹ تھے، اب صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے، 2017 کی مردم شماری کے مطابق صوبے کی آبادی 5 کروڑ سے زائد جب کہ کئی جگہ نئے ڈسٹرکٹس اور ٹاؤنز بنائے گئے ہیں۔

    خط کے مطابق کراچی میں 7 ڈسٹرکٹس، 25 ٹاؤن اور ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن کا الیکشن ہونا ہے، صورت حال کو دیکھتے ہوئے نئے تشکیل دیے گئے ڈسٹرکٹس اور ٹاؤنز میں الیکشن کے لیے اسٹاف، امن و امان کے پیش نظر سیکیورٹی میں اضافہ اور پولنگ اسٹیشنز کو بڑھانا ہوگا۔

    مراسلے میں ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ اس صورت حال کے پیش نظر اگر 3 کی بجائے 2 فیزز میں الیکشن کرائے جاتے ہیں تو سیکیورٹی صورت حال بھی متاثر ہو سکتی ہے اور اسٹاف کی کمی کا سامنا بھی ہو سکتا ہے، اس لیے الیکشن کمیشن اس پر نظر ثانی کرے اور 2015 کی طرح تین فیزز میں الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنایا جائے۔

    خط میں ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت الیکشن کمیشن شفاف اور منصفانہ الیکشن کے انعقاد کے لیے اقدامات کرے۔

  • ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان چارٹر آف رائٹس پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟

    ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان چارٹر آف رائٹس پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟

    کراچی: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پیپلز پارٹی کے درمیان طے پانے والے چارٹرڈ آف رائٹس پر عمل درآمد کے سلسلے میں دونوں جماعتوں کے درمیان بڑی بیٹھک آج تین بجے ہوگی۔

    ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں ایم کیو ایم کی جانب سے کنور نوید جمیل، محمد حسین، خواجہ اظہار الحسن، جاوید حنیف اور حمید الظفر شامل ہوں گے، جب کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے ناصر شاہ، سعید غنی، مرتضیٰ وہاب، جام خان شورو سمیت دیگر شریک ہوں گے۔

    ملاقات میں معاہدے میں طے ہونے والے 18 نکات کی تشکیل، طریقہ کار اور ان پر عمل درآمد کی حکمت عملی پر مشاورت ہوگی، بلدیاتی ترمیمی ڈرافٹ کے حوالے سے بھی مشاورت کی جائے گی، جب کہ ایم کیو ایم چند دنوں میں بلدیاتی ڈرافٹ پر تیار کردہ تجاویز پیپلز پارٹی کو پیش کرے گی۔

    ایم کیو ایم تاحال وفاقی کابینہ کا حصہ بننے کا فیصلہ نہ کر سکی

    ذرائع کے مطابق کوٹہ سسٹم کے تحت نوکریوں اور اب تک جعلی ڈومیسائل بنانے، نوکریاں حاصل کرنے اور جعلی ڈومیسائل کو منسوخ کرنے کے حوالے سے کمیشن بنانے پر بھی مشاورت ہوگی، اور کراچی کے حوالے سے ماسٹر پلان، سیف سٹی پراجیکٹ کی تکمیل، سمیت دیگر معاملات پر دونوں کمیٹیاں اپنی تجاویز سامنے رکھیں گی۔

    ایم کیو ایم کا مؤقف ہے کہ سندھ میں کابینہ میں شمولیت یا وزارتیں اہم نہیں، مسائل کا حل اور چارٹر آف رائٹس کے نکات پر عمل درآمد ہماری ترجیح ہے۔

  • ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل، دعوے کہاں گئے؟

    ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل، دعوے کہاں گئے؟

    وزیراعظم بننے کے 9 روز بعد بالآخر شہباز شریف 34 رکنی کابینہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے اور حلف اٹھانے والوں میں ایم کیو ایم کے بھی دو وفاقی وزیر شامل ہیں جب کہ سندھ میں گورنر کیلیے بھی ایم کیو ایم سے نام مانگے گئے ہیں۔

    ایم کیو ایم کی جانب سے وفاقی کابینہ میں حلف اٹھانے والوں میں سید امین الحق اور فیصل سبزواری شامل ہیں، امین الحق کو تو ان کی پرانی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی دی گئی ہے جب کہ اس بلاگ کے تحریر کیے جانے تک فیصل سبزواری کو وزارت بحری امور دیے جانے کا امکان ہے جب کہ شنید ہے کہ گورنر کیلیے ایم کیو ایم کی جانب سے عامر خان، نسرین جلیل اور سابق وفاقی وزیر فروغ نسیم کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔

    متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جو کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھی اور اُس حکومت میں بھی اس کے دو وفاقی وزیر شامل تھے لیکن عدم اعتماد کے گرما گرم ماحول میں ایم کیو ایم نے اپنی سوچ بدلی اور پونے چار سال بعد اس کو خیال آگیا کہ پی ٹی آئی سے اس نے جو معاہدہ کیا تھا اس میں سے ایک پر بھی عملدرآمد نہ ہوا اور اس کے بعد کئی روز تک مشاورت در مشاورت کے بعد عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند روز قبل وہ اس وقت کی متحدہ اپوزیشن میں شامل ہوگئی۔

    جس وقت ایم کیو ایم نے یہ فیصلہ کیا تو اپنے فیصلے کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے کہا کہ ان کا مطمح نظر حکومت، وزارتیں اور گورنر شپ نہیں بلکہ سندھ کے شہری مسائل بالخصوص بلدیاتی اختیارات، لاپتہ کارکنوں کی بازیابی، بند دفاتر کی واپسی جیسے اہم مسائل کا حل شامل ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران متعدد بار ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی جانب سے تواتر کے ساتھ یہ بیانات سامنے آتے رہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہونگے اور ان کا موجودہ اتحاد صرف معاہدے کے نکات پر عملدرآمد تک محدود ہے۔

    اس دوران ایم کیو ایم کے کنوینر سمیت دیگر رہنماؤں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان لفظی گولہ باری بھی جاری رہی اور سابقہ حلیف ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشی کرتے رہے تاہم اب جب کہ ایم کیو ایم باقاعدہ وفاقی حکومت میں شامل ہوگئی ہے اور جلد ہی گورنر سندھ بھی ایم کیو ایم کا ہوگا اور امکان ہے کہ سندھ کابینہ میں بھی ایم کیو ایم کو حصہ دیا جائیگا، اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر حیران و پریشان ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پہلی یا دوسری بار کسی حکومت کا حصہ بنی ہو، ایم کیو ایم کی پارلیمانی تاریخ کے 34 سالہ ادوار کا جائزہ لیں تو یہ 1993 سے 1996 کا دور بغیر حکومت کے ایم کیو ایم نے گزارا جب کہ اس کے خلاف فوجی آپریشن جاری تھا اس کے علاوہ ایم کیو ایم تقریبا 30 سال تک ہر حکومت کا کسی نہ کسی صورت میں حصہ رہی ہے، ایم کیو ایم کے پاس گزشتہ دور حکومت میں بھی دو وزارتیں تھیں، جب کہ ملک کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک گورنر رہنے کا اعزاز متحدہ کے نامزد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے پاس رہا ہے جو کہ ایک دہائی سے زیادہ وقت تک مسلسل گورنر سندھ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

    اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر پہلے سابق حکومت سے باہر نکلنے اور اب پھر ایک نئی حکومت میں شامل ہونے کے فیصلے پر حیران ہے کہ ایم کیو ایم اقتدار کے ایوانوں کا حصہ ہونے کے باوجود اب تک اپنے مسائل حل نہیں کراسکی تو اب اس نئی حکومت کا حصہ بن کر اپنے کون سے حقوق حاصل کرلے گی جس سے شہری سندھ کا بھلا یا عوام کا فائدہ ہوگا؟

    نہ نہ کرتے پیار تم ہی سے کر بیٹھے
    کرنا تھا انکار مگر اقرار تم سے کر بیٹھے

    اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے عام ووٹر سمیت شہریوں کی جانب سے ایم کیو ایم کے پی ٹی آئی سے کیے گئے تین بنیادی مطالبات سے متعلق سوال بھی کیا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم لاپتہ کارکنان کی عدم بازیابی، بند دفاتر واپس نہ دیے جانے اور مقدمات ختم کیے جانے جیسے مطالبات پورے نہ ہونے کا جواز بنا کر پی ٹی آئی حکومت سے علیحدہ ہوئی جب کہ یہ ایشوز پی ٹی آئی دور حکومت کے دوران رونما نہیں ہوئے بلکہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومتوں کے ادوار میں ہوئے جن کی وہ آج پھر ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے جب کہ یہ بات ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی قوتوں کو معلوم ہے کہ ایم کیو ایم کے مذکورہ بنیادی مطالبات کسی سیاسی حکومت یا جماعت کے حل کرنے کے بس کی بات نہیں ہے۔

  • گورنر سندھ کے لئے عامر خان ، فروغ نسیم اور نسرین جلیل کے ناموں پر غور

    گورنر سندھ کے لئے عامر خان ، فروغ نسیم اور نسرین جلیل کے ناموں پر غور

    اسلام آباد : وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم سے گورنر سندھ کے لیے نام مانگ لیے، جس کٓے بعد عامر خان ،فروغ نسیم اور نسرین جلیل کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم سے گورنر سندھ کے لیے نام مانگ لیے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت سے وقت مانگ لیا ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ عامر خان ، فروغ نسیم اور نسرین جلیل کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے ، حتمی ناموں پر مشاورت جاری ہے ، حتمی فیصلہ رابطہ کمیٹی کرے گی۔

    ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ گورنر سندھ ن لیگ سے بھی ہو سکتا ہے۔

    خیال رہے ایم کیو ایم کے دو رہنما وفاقی کابینہ کا حصہ بن چکے ہیں ، سید امین الحق اور فیصل سبزواری نے آج وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف لیا۔

    یاد رہے وزیراعظم شہبازشریف اور ایم کیوایم پاکستان کے وفد کی ملاقات ہوئی تھی ، جس میں ایم کیوایم سے کابینہ کیلئے دو نام مانگے گئے تھے، جس پر ایم کیوایم کا کہنا تھا کہ مشاورت کے بعد دو نام دیئے جائیں گے۔

    بعد ازاں میاں شہباز شریف کراچی دورے کے دوران ایم کیو ایم کے عارضی مرکز بہادر آباد گئے تو اے آر وائی نیوز کے استفسار پر کہ کیا ایم کیو ایم نے گورنر شپ کی کوئی بات کی؟ انھوں نے جواب دیا، نہیں ایم کیو ایم سے گورنر شپ کی کوئی بات نہیں ہوئی۔

  • ایم کیو ایم سے گورنر شپ کی کوئی بات نہیں ہوئی: وزیر اعظم

    ایم کیو ایم سے گورنر شپ کی کوئی بات نہیں ہوئی: وزیر اعظم

    کراچی: وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے سندھ کی گورنر شپ کے لیے کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز جب میاں شہباز شریف کراچی دورے کے دوران ایم کیو ایم کے عارضی مرکز بہادر آباد گئے تو اے آر وائی نیوز کے استفسار پر کہ کیا ایم کیو ایم نے گورنر شپ کی کوئی بات کی؟ انھوں نے جواب دیا، نہیں ایم کیو ایم سے گورنر شپ کی کوئی بات نہیں ہوئی۔

    وزیر اعظم شہباز شریف کی اے آر وائی سے ایکسکلوزیو گفتگو میں انھوں نے ایم کیو ایم کو کابینہ میں شامل کیے جانے کے سوال پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا اور جواب دیے بغیر ہی روانہ ہو گئے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم نے ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے ملاقات کے لیے بہادر آباد میں واقع ایم کیو ایم پاکستان کے ہیڈ آفس کا دورہ کیا تھا، ایم کیو ایم قیادت نے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارک باد پیش کی۔

    کیا آپ گورنر سندھ بننے جارہی ہیں؟ صحافی کے سوال پر نسرین جلیل نے کیا جواب دیا

    ایم کیو ایم قیادت نے صوبہ سندھ اور بالخصوص کراچی کی تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

    وزیر اعظم نے کراچی سرکولر ریلوے اور K-4 جیسے اہم ترقیاتی منصوبوں کی بر وقت تکمیل پر زور دیا، وزیر اعظم نے کراچی میں ایک نئی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا۔

  • ایم کیو ایم اب اگر کسی حکومت کا حصہ بنی تو آئینی عہدہ لے گی: ذرائع

    ایم کیو ایم اب اگر کسی حکومت کا حصہ بنی تو آئینی عہدہ لے گی: ذرائع

    کراچی: ایم کیو ایم پاکستان نے سیاسی صورت حال پر حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔

    ذرائع کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے آئندہ کی سیاسی صورت حال کے پیش نظر اپنے اہداف کا تعین کر لیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم اب اگر کسی حکومت کا حصہ بنی تو آئینی عہدہ لے گی۔

    ذرائع نے کہا کہ آئینی عہدہ قومی اسمبلی میں اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر یا سینٹ کی چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین شپ ہو سکتی ہے، اس عہدے کو حاصل کرنے کا مقصد نام نہاد جاگیر دارانہ سسٹم کو ایک ہی رولنگ کے ذریعے ختم کرنا ہے۔

    ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کی قیادت کو یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ اگر ان کے گھروں پر احتجاج کے لیے کوئی آئے گا تو پھر ان کے کارکنان کو بھی روکنا مشکل ہو جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے کردار کشی کرنے والوں کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم سے رابط کر لیا ہے۔

    ایم کیو ایم قیادت کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کیوں ناراض ہے، اگر انھیں کرنا ہے تو اپنے اراکین اسمبلی پر ناراضگی کا اظہار کرے، جو انھیں چھوڑ کر چلے گئے، ایم کیو ایم اتحادی جماعت تھی اور تحریک انصاف کے نشان پر کامیاب نہیں ہوئی تھی۔

  • آو مل کر کھاتے ہیں، گیت خوشی کے گاتے ہیں؟ ایم کیو ایم کیخلاف سوشل میڈیا پر صارفین کی ٹرولنگ

    آو مل کر کھاتے ہیں، گیت خوشی کے گاتے ہیں؟ ایم کیو ایم کیخلاف سوشل میڈیا پر صارفین کی ٹرولنگ

    کراچی : سوشل میڈیا صارفین نے پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک بار پھر ساتھ چلنے کے وعدے پر ایم کیوایم کو سندھ اسمبلی میں خواجہ اظہار الحسن کی پڑھی نظم یاد دلا دی۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت سے علیحدگی اور پیپلز پارٹی سے معاہدے کے بعد ایم کیوایم کیخلاف سوشل میڈیا پرصارفین کی ٹرولنگ جاری ہے۔

    خواجہ اظہار اپنے نئے اتحادیوں کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے کیا رائے رکھتے تھے، اس پر صارفین نے دس نمبر اور دس فیصد کا ذکر چھیڑدیا۔

    صارفین نے مل کر کھانے کی باتوں پر ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن کی پڑھی نظم یاد دلاتے ہوئے کہا پھر ساتھ چلنے کا وعدہ، عوام کے نام ایک اور معاہدہ!

    یاد رہے خواجہ اظہار الحسن نے سندھ اسمبلی میں ایک ںظم پڑھی تھی ، آؤ مل کر کھاتے ہیں، آؤ مل کر کھاتے ہیں ، گیت خوشی کے گاتے ہیں، آؤ مل کر کھاتے ہیں۔

    جب وقت پڑا تو بھاگیں گے، جدہ اور لندن اپنا ہے
    مل کر بھوک مٹاتے ہیں، آؤ مل کر کھاتے ہیں
    میں 10% تم 10 نمبر، دونوں مل کر کچھ کر جائیں
    اک تازہ ڈھونگ رچا تے ہیں، آؤ مل کر کھاتے ہیں
    گھوڑے لوَٹے، سب آئیں گے تھیلے بھر بھر لے جائیں گے
    اک اور دکان لگاتے ہیں، آؤ مل کر کھاتے ہیں
    تو عدل کا شور مچائے جا، میں ظلم کو عام کیے جاؤں
    اس طرح سے کام چلاتے ہیں، آؤ مل کر کھاتے ہیں
    ہم ماضی میں بھی کھاتے تھے، اب اور زیادہ کھائیں گے
    کب کہنے سے شرماتے ہیں، آؤ مل کر کھاتے ہیں
    اس ملک سے اتنا پیار ہمیں، چپہ چپہ بیچیں گے ہم
    اس ملک سے پیار نبھاتے ہیں، آؤ مل کر کھاتے ہیں
    ہے پہلے بھی لُوٹا اس کو، پر قوم بھلا بیٹھی ہم کو
    اک اور سبق سکھلاتے ہیں آؤ مل کر کھاتے ہیں
    میرے گھوڑے بیتاب بہت، ڈربی کھولو میں آتا ہوں
    ہر شہر میں ریس لگاتے ہیں آؤ مل کر کھاتے ہیں
    اک دوجے کے دشمن تھے یہ اے یاسر جی کچھ دن پہلے
    اب دونوں یہ فرماتے ہیں آؤ مل کر کھاتے ہیں۔

  • رابطہ کمیٹی نے متحدہ اپوزیشن سے ایم کیو ایم معاہدے کی توثیق کر دی

    رابطہ کمیٹی نے متحدہ اپوزیشن سے ایم کیو ایم معاہدے کی توثیق کر دی

    کراچی: رابطہ کمیٹی نے متحدہ اپوزیشن سے ایم کیو ایم معاہدے کی توثیق کر دی۔

    ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی نے متحدہ اپوزیشن سے معاہدے کی توثیق کر دی ہے، رابطہ کمیٹی نے خالد مقبول صدیقی کو ہر فیصلے کا اختیار بھی دے دیا ہے۔

    رابطہ کمیٹی نے حکومت سے علیحدگی کے فیصلے اور اپوزیشن کے ساتھ جانے کے فیصلے کی بھی توثیق کی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں تمام اراکین سے فرداً فرداً رائے طلب کی گئی تھی، اور انھوں نے متفقہ طور پر حمایت کا فیصلہ کیا۔

    ایم کیوایم اور اپوزیشن کے درمیان کیا معاہدہ ہوا؟ مندرجات سامنے آگئے

    واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اور اپوزیشن کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے مندرجات اے آر وائی نیوز سامنے لے آیا، اس معاہدے پر خالد مقبول صدیقی، بلاول بھٹو، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، اختر مینگل، اور خالد مگسی نے دستخط کیے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ معاہدے کے تحت ایم کیو ایم وفاقی کابینہ سے علیحدگی اختیار کرے گی، اور سندھ حکومت ایک ماہ میں بلدیاتی قانون میں ترامیم کا مسودہ سندھ اسمبلی میں پیش کرے گی۔

    معاہدے کے تحت بلدیاتی قانون کو آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق بنایا جائے گا، سندھ میں جعلی ڈومیسائل کے اجرا کے لیے قانون سازی کی جائے گی، ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی مرتضیٰ وہاب اپنے عہدے سے مستعفی ہوں گے، بلدیاتی اداروں کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے گا، حیدر آباد کراچی میں بلدیاتی کونسلز میں ایڈمنسٹریٹر کا تقرر مشاورت سے ہوگا۔

    واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور متحدہ اپوزیشن آج 4 بجے مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے۔

  • تحریک عدم اعتماد : ایم کیو ایم پاکستان کا وفاقی کابینہ سے استعفے دینے کا اعلان

    تحریک عدم اعتماد : ایم کیو ایم پاکستان کا وفاقی کابینہ سے استعفے دینے کا اعلان

    اسلام آباد : ایم کیو ایم پاکستان نے وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ سے استعفے دینے کااعلان کردیا ، دونوں وزرا اپنے استعفے وزیراعظم کو بھجوائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان نے وفاقی کابینہ چھوڑنے کو فیصلہ کرلیا، اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے دونوں وزرا آج ایک بجے اپنے استعفے دیں گے۔

    ایم کیو ایم وزرا کے استعفے تحریر ہوچکے ہیں، دونوں وزرا اپنے استعفے وزیراعظم کو بھجوائیں گے۔

    دوسری جانب ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کا اہم مشاورتی اجلاس آج دوپہر 2بجے ہوگا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اجلاس کی صدارت کریں گے۔

    اجلاس میں رابطہ کمیٹی اراکین کو معاہدے اور اپوزیشن سے ملاقات پر اعتماد میں لیا جائے گا اور اجلاس کے بعد 4بجے ایم کیو ایم قیادت عدم اعتمادپرحتمی اعلان کرے گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم 4بجے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ملکر پریس کانفرنس کرے گی ، پریس کانفرنس میں متحدہ اپوزیشن کے اہم رہنما اور قیادت بھی شامل ہوگی۔