Tag: اینٹی باڈیز

  • کرونا وائرس سے ہونے والے ایک اور نقصان کا انکشاف

    کرونا وائرس سے ہونے والے ایک اور نقصان کا انکشاف

    کرونا وائرس کسی جسم پر حملہ آور ہونے کے بعد جہاں اسے مختلف نقصانات پہنچاتا ہے وہیں اس حوالے سے ایک اور اثر کا انکشاف ہوا ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس جسم میں ایسے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے جو بیماری اور ریکوری کے بعد بھی برقرار رہتا ہے اور ایسا ان افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے جن میں بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے یا علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    سیڈرز سینائی میڈیکل سینٹر کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جب لوگ کسی وائرس یا دیگر جراثیموں سے بییمار ہوتے ہیں تو ان کا جسم اینٹی باڈیز نامی پروٹینز کو متحرک کرتا ہے تاکہ حملے کو روکا جاسکے، مگر کچھ کیسز میں لوگوں میں آٹو اینٹی باڈیز بنتی ہیں جو وقت کے ساتھ جسم کے اپنے اعضا اور ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر رہنے والے افراد میں متعدد اقسام کی آٹو اینٹی باڈیز مکمل صحت یابی کے 6 ماہ بعد بھی موجود ہوتی ہیں۔

    اس تحقیق سے قبل محققین کو معلوم تھا کہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے مدافعتی نظام پر اتنا زیادہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ آٹو اینٹی باڈیز بنانے لگتا ہے۔

    مگر اس تحقیق میں پہلی بار بتایا گیا کہ معمولی بیمار یا بغیر علامات والے مریضوں میں بھی آٹو اینٹی باڈیز کی سطح وقت کے ساتھ برقرار رہ سکتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ان نتائج سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کیا چیز کووڈ 19 کو ایک منفرد بیماری بناتی ہے، مدافعتی نظام کے افعال متاثر ہونے کے ایسے رجحانات طویل المعیاد علامات کے تسلسل کا باعث بن سکتے ہیں جس کو لانگ کووڈ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں 177 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں ماضی میں کووڈ کی تشخیص ہوچکی تھی۔

    ان افراد کے خون کے نمونوں کا موازنہ ایسے صحت مند افراد کے نمونوں سے کیا گیا جن کو وبا سے قبل جمع کیا گیا۔

    تحقیق میں معلوم ہوا کہ کرونا وائرس سے متاثر تمام افراد میں آٹو اینٹی باڈیز کی سطح میں اضافہ ہوچکا تھا اور ان میں سے کچھ آٹو اینٹی باڈیز ایسے افراد میں بھی موجود ہوتی ہیں جن میں مدافعتی نظام صحت مند خلیات پر ہی حملہ آور ہوجاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے آٹو اینٹی باڈی سرگرمیوں کے سگنلز کو دریافت کیا جو عموماً دائمی ورم سے جڑے ہوتے ہہیں اور اعضا کے مخصوص نظاموں اور ٹشوز جیسے جوڑوں، جلد اور اعصابی نظام میں انجری کا باعث بنتے ہیں۔

    اب وہ اس تحقیق کو مزید آگے بڑھانے کے خواہشمند ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کون سی اقسام کی آٹو اینٹی باڈیز کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والی افراد میں موجود ہوتی ہیں۔

    چونکہ اس تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو ویکسینز کی تیاری سے قبل کووڈ سے متاثر ہوئے تھے تو اب محققین ویکسی نیشن کے بعد بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں آٹو اینٹی باڈیز کا جائزہ بھی لینا چاہتے ہیں۔

  • کووڈ 19 سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟

    کووڈ 19 سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟

    کووڈ 19 کی وبا کو 2 سال گزرنے کے بعد اب بھی اس کے بارے میں مختلف تحقیقات جاری ہیں اور حال ہی میں ماہرین نے جاننے کی کوشش کی کہ اس وبا سے بچانے والی اینٹی باڈیز جسم میں کب تک برقرار رہتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کے کنگز کالج لندن کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈیٹا اور دیگر حالیہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی آتی ہے مگر وائرل ذرات اور متعدی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیاں بیماری کے 10 ماہ بعد بھی دریافت ہوسکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں 38 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو برطانیہ میں کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے، ان افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں شامل کچھ ماہرین نے ایک سابقہ تحقیق میں دریافت کیا تھا کہ اینٹی باڈی کی سطح بیماری کے 3 سے 5 ہفتے بعد عروج پر پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتی ہے، مگر اس وقت یہ واضح نہیں تھا کہ اس کمی کا سلسلہ 3 ماہ بعد بھی برقرار رہتا ہے یا نہیں۔

    اب نئی تحقیق میں انہوں نے بیماری کو شکست دینے والے افراد کے نمونوں میں 10 ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا۔

    انہوں نے کرونا وائرس کی مختلف اقسام کے خلاف اینٹی باڈیز سرگرمیوں کے شواہد بھی حاصل کیے، یعنی جو مریض کرونا کی اوریجنل قسم سے متاثر ہوئے تھے، ان کو بھی کرونا کی زیادہ متعدی اقسام کے خلاف کسی حد تک تحفظ ملتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ ان افراد کے نمونوں میں ہونے والی اینٹی باڈی سرگرمی ایلفا، گیما اور بیٹا کے خلاف ہوئی مگر ان کی طاقت زیادہ نہیں تھی۔

    انہوں نے وضاحت کی کہ کووڈ سے بیمار ہونے والے افراد میں وائرس کے خلاف ٹھوس اینٹی باڈی ردعمل بنتا ہے مگر یہ اثر مختلف اقسام کے خلاف گھٹ جاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اوریجنل وائرس کے اسپائیک پروٹین پر مبنی ویکسینز سے بھی نئی اقسام کے خلاف وسیع اینٹی باڈی ردعمل جسم میں بن سکتا ہے۔

  • کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا

    بچوں کو کووڈ 19 لاحق ہونے کے خطرات کم ہوتے ہیں مگر حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے متاثرہ بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی معمولی شدت سے متاثر ہونے والے بچوں میں بیماری کو شکست دینے کے بعد اینٹی باڈیز بننے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں 57 بچوں اور 51 بالغ افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔ ان سب میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ماہرین کی جانچ پڑتال سے صرف 37 فیصد بچوں میں بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا جبکہ بالغ افراد میں یہ شرح 76 فیصد رہی۔

    ماہرین کے مطابق دونوں گروپس میں وائرل لوڈ لگ بھگ یکساں تھا مگر پھر بھی بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں کم تھی۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بچوں کے جسم میں خلیاتی مدافعتی ردعمل بھی اس طرح نہیں بنا جیسا بالغ افراد میں دیکھنے میں آیا۔

    اس تحقیق میں شامل تمام افراد 2020 میں اس بیماری سے متاثر ہوئے تھے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اس وقت گردش کرنے والے کرونا کی قسم (ڈیلٹا) سے متاثر بچوں میں بھی ایسا ہو رہا ہے، اس بارے میں ابھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

    اسی طرح یہ سمجھنے کے لیے بھی تحقیقی کام کی ضرورت ہے کہ آخر بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اینٹی باڈی ردعمل بننے کا امکان کم کیوں ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اب اینٹی باڈیز نہ بننے کی وجہ سے بچوں میں ری انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا نہیں، یہ بھی ابھی معلوم نہیں۔

  • اونٹ کرونا وائرس کے خاتمے میں کس طرح مددگار ہوسکتے ہیں؟

    اونٹ کرونا وائرس کے خاتمے میں کس طرح مددگار ہوسکتے ہیں؟

    لندن: برطانوی سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ لاما اور اونٹ کے ذریعے انسانوں سے کرونا وائرس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ لاما اور اونٹ میں بننے والی مختصر اینٹی باڈیز یعنی نینو باڈیز کرونا وائرس کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں۔

    روزالن فرینکلن انسٹی ٹیوٹ برطانیہ کے سائنسدانوں نے ابتدائی طور پر تجربہ گاہ میں رکھے گئے ایک لاما میں کرونا وائرس داخل کیا تو لاما کے جسم میں موجود ایک خاص نینو باڈی نے وائرس کو جکڑ کر مزید پھیلنے سے روک دیا۔

    لاما میں سے یہ نینوباڈی الگ کی گئی اور اگلے مرحلے میں اسے ہیمسٹرز پر آزمایا گیا جو وائرس سے متاثر کیے گئے تھے۔ ہیمسٹرز میں بھی اس نینو باڈی نے وہی کارکردگی دکھائی جس کا مظاہرہ یہ لاما میں کرچکی تھی۔

    لاما سے حاصل شدہ نینو باڈی کو اسپرے کی شکل میں براہ راست ناک کے ذریعے پھیپھڑوں میں پہنچایا جاسکتا ہے جو اس کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔

    یہ بھی بتاتے چلیں کہ عام اینٹی باڈیز کے مقابلے میں نینو باڈیز کی جسامت بہت کم ہوتی ہے لیکن اب تک کی تحقیق میں انہیں ایسے کئی وائرسز اور جرثوموں کے خلاف بھی مؤثر پایا گیا جن پر روایتی اینٹی باڈیز کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

  • موڈرنا کی ویکسین کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    موڈرنا کی ویکسین کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    بیلجیئم میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق موڈرنا کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین سے کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی تعداد فائزر / بائیو این ٹیک ویکسین کے مقابلے میں دگنی ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں موڈرنا اور فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد کے مدافعتی ردعمل کا موازنہ کیا گیا تھا، تحقیق میں بیلجیئم ہاسپٹل سسٹم کے لگ بھگ ڈھائی ہزار کے قریب ورکرز کو شامل کیا گیا تھا۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ سے محفوظ رہنے والے افراد میں کووڈ ویکسین کے استعمال سے اوسطاً 2881 یونٹس فی ملی لیٹر اینٹی باڈیز بن گئیں۔

    اس کے مقابلے میں فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں یہ شرح 1108 یونٹ فی ملی لیٹر رہی۔ تحقیق میں اینٹی باڈیز کے فرق کی وضاحت کی چند وجوہات بھی بیان کی گئی۔

    تحقیق کے مطابق موڈرنا ویکسین میں متحرک جز کی شرح 100 مائیکرو گرامز جبکہ فائزر میں 30 مائیکرو گرامز تھی، اسی طرح موڈرنا ویکسین کی 2 خوراکوں میں 4 ہفتے جبکہ فائزر ویکسین کی خوراکوں میں 3 ہفتے کا فرق تھا۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئے۔

  • لانگ کووڈ میں مبتلا رہنے کا فائدہ بھی سامنے آگیا

    لانگ کووڈ میں مبتلا رہنے کا فائدہ بھی سامنے آگیا

    کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے بعد طویل عرصے تک برقرار رہنے والی اس کی علامات یعنی لانگ کووڈ مریضوں کی زندگی مشکل بنائے رکھتی ہے، تاہم اب اس کا ایک فائدہ بھی سامنے آگیا۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ جن افراد کو کرونا وائرس کی سنگین شدت یا طویل المعیاد علامات (لانگ کووڈ) کا سامنا ہوتا ہے ان میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے جو مستقبل میں بیماری سے بچانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    اس تحقیق میں 548 ہیلتھ ورکرز اور 248 دیگر افراد کا جائزہ کرونا کی وبا کے آغاز سے اب تک لیا گیا۔

    مجموعی طور پر 837 میں سے 93 افراد یا 11 فیصد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی یا ان میں تحقیق کے آغاز سے 6 ماہ کے اندر اینٹی باڈیز بن گئیں۔ ان میں سے 24 میں علامات کی شدت سنگین تھی جبکہ 14 میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    ایک تہائی مریضوں میں تھکاوٹ، سانس لینے میں دشواری اور سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی جیسی علامات دیکھی گئیں جو کم ازکم ایک ماہ تک برقرار رہیں۔ 10 فیصد مریضوں میں علامات کا دورانیہ کم از کم 4 ماہ تک برقرار رہا۔

    کووڈ سے متاثر زیادہ تر افراد میں اینٹی باڈیز بن گئیں، اینٹی باڈیز کی سطح کا انحصار علامات کی شدت پر رہا۔

    سنگین علامات کا سامنا کرنے والے 96 فیصد مریضوں میں آئی جی جی اینٹی باڈیز دریافت ہوئیں جبکہ معمولی سے معتدل علامات کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح 89 فیصد اور بغیر علامات والے مریضوں میں 79 فیصد تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ دماغی تبدیلیاں بشمول دماغی دھند، یادداشت یا بینائی کے مسائل متاثرہ افراد میں مختلف تھے مگر یہ علامات کئی ماہ تک برقرار رہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جن افراد میں علامات کا تسلسل وقت کے ساتھ برقرار رہا ان میں اینٹی باڈیز کی سطح بھی وقت کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ اینٹی باڈی کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی معمول کا حصہ ہوتی ہے، مگر یہ اینٹی باڈیز جسم کو دوبارہ بیماری سے بچانے میں طویل المعیاد تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

  • کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    کووڈ 19 سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    کووڈ 19 سے متاثر ہونا ایک خوفناک تجربہ ہوسکتا ہے تاہم اس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو ماہرین نے اچھی خبر سنا دی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں کووڈ سے بیمار ہونے والے 97 فیصد افراد میں ایک سال بعد بھی وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔

    یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی تحقیق میں 250 ایسے افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جو فروری سے اپریل 2020 کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اوسطاً ان افراد میں 6 ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح 98 فیصد اور ایک سال بعد 97 فیصد تھی۔

    تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئیں ان میں 6 ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح 97 فیصد جبکہ ایک سال بعد 96 فیصد تھی، جبکہ سنگین شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح 100 فیصد تھی۔

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کرونا وائرس کی مختلف اقسام سے متاثر ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی شرح کیا تھی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ مختلف اقسام سے بیماری کی معتدل سے سنگین علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں 6 ماہ سے ایک سال بعد اینٹی باڈیز کی شرح 90 فیصد تک تھی۔ تاہم جن افراد میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں یا شدت معمولی تھی، ان میں اینٹی باڈیز کی شرح 6 بعد گھٹ کر 85 فیصد اور ایک سال بعد 79 فیصد ہوگئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں وقت کے ساتھ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح گھٹ سکتی ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ انہیں ہر سال بوسٹر شاٹ کی ضرورت ہو۔

    اس سے قبل مئی 2021 میں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں اس بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم 8 ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ 19 کی شدت جتنی بھی ہو اور اس کی عمر جو بھی ہو، یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم 8 ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    اس تحقیق کے دوران 162 کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا، ان میں سے 29 مریض ہلاک ہوگئے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور اپریل 2020 میں اکٹھے کیے گئے اور ایک بار پھر نومبر 2020 کے آخر میں ایسا کیا گیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں، اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی آئی، مگر بیماری کی تشخیص کے 8 ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔

    تحقیق میں صرف 3 مریض ایسے تھے جن میں اینٹی باڈی ٹیسٹ مثبت نہیں رہا تھا۔

  • اینٹی باڈیز فراہم کرنے والی ادویات کے حیران کن نتائج

    اینٹی باڈیز فراہم کرنے والی ادویات کے حیران کن نتائج

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کو اینٹی باڈیز فراہم کرنے والی ادویات نہ صرف کووڈ 19 کے شکار افراد کے لیے مؤثر ہیں بلکہ یہ اس سے محفوظ لوگوں کو بھی تحفظ فراہم کر سکتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں شائع شدہ نئی تحقیقی رپورٹس کے مطابق 2 اینٹی باڈیز کے امتزاج پر مبنی دوا سے کووڈ 19 سے متاثر افراد کے اسپتال میں داخلے یا موت کا خطرہ 70 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    اس تحقیق میں شامل 10 رضا کار کووڈ 19 کے نتیجے میں ہلاک ہوئے، مگر ان کو اینٹی باڈیز کی جگہ پلیسبو استعمال کروایا گیا تھا، دوسری جانب ری جینوران فارماسیوٹیکلز نے اپنے ٹرائل کے جزوی نتائج جاری کیے ہیں۔

    اس ٹرائل میں بھی اینٹی باڈیز کے امتزاج کو آزمایا جارہا تھا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ اس کی مدد سے کووڈ 19 کے مریضوں کے ساتھ موجود گھر والوں میں علامات والی بیماری کی روک تھام میں سو فیصد کامیابی حاصل ہوئی۔

    ان دونوں ٹرائلز کے نتائج کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے جبکہ ری جینوران کے نتائج ٹرائل میں شامل ایک چوتھائی افراد پر مبنی تھے۔

    اینٹی باڈیز ایسے پروٹینز ہوتے ہیں جو وائرس سے منسلک ہو کر اسے خلیات کو متاثر کرنے سے روکتے ہیں، مگر عام طور پر ایسا بیماری کا شکار ہونے یا ویکسی نیشن کے چند ہفتوں بعد ہوتا ہے۔

    ان ادویات کا مقصد ابتدا سے ایسی ایک یا 2 اینٹی باڈیز کے ڈوز فراہم کرنا ہے جو لیبارٹری ٹیسٹوں میں کرونا وائرس کے خلاف مؤثر رہے۔

    ری جینوران کے ٹرائل میں 2 ہزار سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا اور جو نتائج جاری کیے گئے، وہ 409 افراد پر اس کی آزمائش کے حوالے سے تھے۔

  • جرمنی کرونا وائرس کا اینٹی باڈیز سے علاج کرے گا

    جرمنی کرونا وائرس کا اینٹی باڈیز سے علاج کرے گا

    برلن: جرمنی کرونا وائرس کے علاج کے لیے اینٹی باڈیز کا تجربہ کرنے جارہا ہے جس کے بعد وہ یہ تجربہ کرنے والا پہلا یورپی ملک بن جائے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جرمنی کرونا وائرس کے علاج کے لیے ایٹنی باڈیز کا تجربہ کرنے والا پہلا یورپی ملک بننے جا رہا ہے، اینٹی باڈیز کے ذریعے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرونا وائرس کا علاج بھی کیا گیا تھا۔

    جرمنی کے وزیر صحت جینز سپاہن کا کہنا ہے کہ حکومت نے 4 ہزار 86 ملین ڈالر کے عوض 2 لاکھ خوراکیں خرید لی ہیں، جرمنی کی وزارت صحت کی ترجمان کا کہنا ہے کہ تمام مریضوں کو یہ خوراکیں مفت فراہم کی جائیں گی۔

    جرمنی نے ایک امریکی دوا ساز کمپنی ریجنی رون اور ایلی للی سے اینٹی باڈی کاک ٹیل حاصل کی ہے۔

    ریجنی رون کمپنی لیبارٹری میں تیار کردہ دو قسم کی اینٹی باڈیز کو ملا کر کاک ٹیل تیار کرتی ہے، ان اینٹی باڈیز میں انفیکشن سے لڑنے والے پروٹین موجود ہوتے ہیں جو کرونا وائرس کو انسانی خلیوں میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔

    دوسری جانب ایلی للی نے کرونا کے علاج کے لیے صرف ایک اینٹی باڈی کے استعمال سے خوراکیں تیار کی ہیں، جرمن وزیر صحت کے مطابق آئندہ ہفتے 2 مختلف قسم کی اینٹی باڈیز یونیورسٹی اسپتالوں میں مہیا ہوں گی۔

    جرمن وزیر صحت کا کہنا ہے کہ یورپی یونین میں جرمنی اینٹی باڈیز حاصل کرنے والا پہلا ملک ہے جو کرونا کے علاج میں ان کا استعمال کرے گا، انہوں نے مزید کہا کہ کرونا وائرس کے شروع کے اسٹیج میں اینٹی باڈیز کے ذریعے علاج بیماری کو مزید بگڑنے سے روک سکتا ہے۔

  • کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے خوشخبری

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے لیے خوشخبری

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کو اس مرض کے خلاف تحفظ مل جاتا ہے، جسم میں پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز آئندہ 6 ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک لوگوں کو اس بیماری کا دوبارہ شکار ہونے سے بچاتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی جانے والی 2 نئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ کرونا وائرس سے بننے والی اینٹی باڈیز آئندہ 6 ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک لوگوں کو اس بیماری کا دوبارہ شکار ہونے سے بچاتی ہیں۔

    یہ نتائج ویکسینز کے لیے اچھی خبر ہیں جو اینٹی باڈیز بناکر مدافعتی نظام کو متحرک کر سکیں گی۔

    یو ایس نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کے محققین نے دریافت کیا کہ بیماری کے نتیجے میں جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز سے لوگوں کے لیے خطرہ کم ہوتا ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس طرح کا تحفظ ایک مؤثر ویکسین سے بھی مل سکے گا۔

    یو ایس نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نیڈ شارپ لیس کا کہنا ہے کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ایک بار اس بیماری کے شکار ہونے کے بعد ری انفیکشن کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ان دونوں تحقیقی رپورٹس میں 2 اقسام کے ٹیسٹوں کو استعمال کیا گیا تھا، ایک میں خون میں اینٹی باڈیز کو ٹیسٹ کیا گیا، جو بیماری کے کی ماہ بعد جسم میں موجود ہوتی ہیں۔

    دوسرے ٹیسٹ میں پی سی آر یا دیگر کے ذریعے نمونے حاصل کر کے جسم میں وائرس کی موجودگی کو جاننے کی کوشش کی گئی۔

    پہلی تحقیق میں آکسفورڈ یونیورسٹی ہاسپٹلز کے 12 ہزار سے زائد طبی ورکرز کو شامل کیا گیا تھا۔ ان میں سے 1265 میں کرونا وائرس اینٹی باڈیز کو 6 ماہ بعد دریافت کیا گیا جبکہ صرف 2 میں وائرس کا ٹیسٹ مثبت رہا، تاہم ان میں بھی علامات سامنے نہیں آئیں۔

    دوسری تحقیق میں 30 لاکھ سے زائد افراد کو شامل کیا تھا، جن کی جانب سے امریکا کی 2 پرائیویٹ لیبارٹریز سے اینٹی باڈی ٹیسٹ کروائے گئے تھے۔ ان میں سے صرف 0.3 فیصد ایسے تھے جن میں ابتدا میں اینٹی باڈیز کو دیکھا گیا مگر بعد میں کرونا وائرس کی موجودگی ثابت ہوئی۔

    ڈاکٹر نیڈ شارپ لیس کا کہنا ہے کہ یہ بہت اطمینان بخش ہے کہ ہماری طرح آکسفورڈ کے محققین نے بھی دوبارہ بیماری کے خطرے میں اتنی ہی کمی کو دریافت کیا، درحقیقت اگر اینٹی باڈیز موجود رہیں تو ری انفیکشن کا خطرہ 10 گنا کم ہوجاتا ہے

    امریکا کے سینٹ جوڈ چلڈرنز ریسرچ ہاسپٹل کے وبائی امراض کے ماہر جوشوا وولف کا کہنا ہے کہ اینٹی باڈیز بذات خود تحفظ فراہم نہیں کرسکتیں، مگر اس سے اشارہ ملتا ہے کہ مدافعتی نظام کے دیگر حصے جیسے ٹی سیلز وائرس کے کسی بھی نئے حملے سے لڑنے کے کے قابل ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ وائرس کے خلاف مدافعت کب تک برقرار رہتی ہے، تاہم دوبارہ کووڈ 19 کے شکار ہونے کے کیسز کی تصدیق ہوئی ہے، تو بیماری سے صحتیابی کے بعد لوگوں کو احتیاطی تدابیر پر عمل جاری رکھنا چاہیئے۔