Tag: اینٹی بایوٹکس

  • نوزائیدہ بچوں‌ کو اینٹی بایوٹک دینے کا پریشان کن نقصان سامنے آ گیا

    نوزائیدہ بچوں‌ کو اینٹی بایوٹک دینے کا پریشان کن نقصان سامنے آ گیا

    نوزائیدہ بچوں‌ کو اینٹی بایوٹک دینے کا پریشان کن نقصان سامنے آ گیا ہے، طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ شیر خوار کو دی جانے والی اینٹی بایوٹک بلوغت کی عمر میں آنتوں کی صحت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی طبی جریدے جرنل آف فزیولوجی میں شائع شدہ تحقیقی مقالے میں خبردار کیا گیا ہے کہ شیر خوار بچوں کو اینٹی بایوٹکس دینے کے مستقبل میں کئی نقصانات سامنے آ سکتے ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے اور کم وزن بچوں کو نہ صرف انفیکشن کے علاج بلکہ اس لیے بھی کہ وہ انفیکشن سے محفوظ رہیں، معمول کے مطابق اینٹی بایوٹکس دی جاتی ہیں۔

    تاہم نوزائیدہ چوہوں پر ایک تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ ابتدائی زندگی میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے مائیکرو بائیوٹا، اندرونی اعصابی نظام اور آنتوں کی کارکردگی پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جن بچوں کو اینٹی بایوٹک دی جاتی ہے وہ بڑے ہو کر معدے کے مسائل کا سامنا کر سکتے ہیں۔

    میلبورن یونیورسٹی کے شعبہ اناٹومی اینڈ فزیالوجی کی تحقیقی ٹیم کی یہ دریافت پہلی بار یہ ظاہر کرتی ہے کہ نوزائیدہ چوہوں کو دی جانے والی اینٹی بایوٹکس کے دیرپا اثرات ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں معدے کے افعال میں خلل پڑتا ہے، آنتوں کی حرکت پذیری کی رفتار متاثر ہو جاتی ہے، اور جوانی میں اسہال جیسی علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    ریسرچ کے دوران تحقیقی ٹیم نے چوہوں کو ان کی زندگی کے پہلے دس دنوں تک ہر روز وینکومائسن کی خوراک کھلائی، اس کے بعد بلوغت تک ان کی نشوونما معمول کے مطابق ہوتی رہی، اور اس کے بعد آنتوں کی ساخت، کارکردگی، مائکرو بائیوٹا اور اعصابی نظام کی پیمائش کے لیے ان کی آنتوں کے ٹشوز کا جائزہ لیا گیا۔

    محققین نے دیکھا کہ سامنے آنے والی تبدیلیاں چوہوں کی جنس پر بھی منحصر تھیں، انھوں نے مادہ اور نر چوہوں کے فضلوں میں فرق پایا، نر چوہوں کے فضلے کا وزن کم تھا۔ تاہم نر اور مادہ دونوں کے پاخانے میں پانی کی مقدار زیادہ تھی، جو کہ اسہال جیسی ایک علامت ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ چوہوں کی آنتیں، مائکرو بائیوٹا اور اعصابی نظام انسانوں کے مقابلے میں کم پیچیدہ ہیں، لہٰذا یہ نتائج فی الحال انسانی نوزائیدہ بچوں سے براہ راست منسلک نہیں کیے جا سکتے، محققین اس سلسلے میں مزید ریسرچ کریں گے، اور یہ دیکھا جائے گا کہ کیا ابتدائی زندگی میں اینٹی بایوٹک کا استعمال میٹابولزم اور دماغی افعال پر اثرات مرتب کرتا ہے؟

  • کرونا کے مریضوں پر اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کے حوالے سے اہم ہدایت

    کرونا کے مریضوں پر اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کے حوالے سے اہم ہدایت

    کولکتہ: بھارتی ریاست مغربی بنگال میں حکومت نے ایک اہم ہدایت جاری کی ہے کہ کرونا وائرس کے مریضوں پر اندھا دھند اینٹی بائیوٹکس کا استعمال نہ کیا جائے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مغربی بنگال کی حکومت نے جو ایڈوائزری جاری کی ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ کو وِڈ 19 ایک وائرل بیماری ہے اور اس میں اینٹی بائیوٹکس کا کوئی خاص اثر نہیں ہے۔

    یہ بات سامنے آئی تھی کہ مغربی بنگال کے اسپتالوں میں کرونا مریضوں پر اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کیا جا رہا تھا، اس سلسلے میں حکومت کو ایڈوائزری جاری کرنی پڑی، جس میں کہا گیا کہ کو وِڈ نائنٹین وائرل بیماری ہے اس لیے کرونا مریضوں کو اینٹی بائیوٹک دوائیں اس وقت تک نہ دی جائیں جب تک وہ کسی دوسری بیماری سے متاثر نہ ہوں۔

    یہ ایڈوائزری ریاست کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی کی ہدایت پر تشکیل کردہ ماہرین کی 2 ٹیموں کے کرونا کے علاج کے لیے قائم اسپتالوں کے دوروں اور علاج کا جائزہ لینے کے بعد جاری کی گئی ہے۔

    ٹیم کا کہنا تھا کہ اسپتالوں میں کرونا وائرس کے بیش تر مریضوں کو ڈیکسو سائیکلین اور ازیتھرومائسین دی جا رہی تھیں، ڈاکٹرز کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کرونا کے علاج کا طریقہ بہت مختلف ہے۔

    ایڈوائزری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیکٹریا کو مارنے والی دواؤں کے استعمال سے گریز کیا جائے، اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹک دوائیں ان مریضوں کو دی جائیں جو آکسیجن پر ہیں یا ان کی صحت یابی کی رفتار سست ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کرونا کے تمام مریضوں کو اینٹی بائیوٹک دوائیں دینے کی کوئی ضرورت نہیں، اگر جانچ میں دیگر بیماریوں کی تشخیص ہوتی ہے تواس وقت اینٹی بائیوٹک دی جا سکتی ہے۔

    واضح رہے کہ جون میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرونا مریضوں میں اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ استعمال سے اموات زیادہ ہو رہی ہیں۔