Tag: اینگزائٹی

  • اینگزائٹی پر قابو پانے کا نہایت آسان حل

    آج کل کے تیز رفتار دور اور مقابلے بازی کی فضا میں ہر شخص بے چینی اور اضطراب یعنی اینگزائٹی کا شکار ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ سانس کے ایک خاص عمل سے اینگزائٹی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

    اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے تحت کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سانس لینے کی مشقیں، مراقبے کے مقابلے میں دماغی صحت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہیں جو کہ اضطراب یا اینگزائٹی کے علاج میں اینٹی ڈپریسنٹس جیسی افادیت رکھتی ہیں۔

    صرف 5 منٹ تک ایک خاص طریقہ کار کے مطابق سانس لینا اضطراب کو کم کرنے میں ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

    جو لوگ شعوری طور پر سانس لینے اور اسے خارج کرنے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں وہ صحت کے حوالے سے بہترین فوائد حاصل کر سکتے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کی نسبت جو مراقبے کے ذریعے صحت کو بہتر بنانے کے خواہش مند ہیں۔

    سانس کی مشق اور اضطراب کے درمیان تعلق کو دیکھنے کے لیے کیلی فورنیا میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک تحقیق کی جس میں ایک ماہ تک 108 شرکا کو ایک نئے اور بے ترتیب کنٹرول شدہ مطالعے کے لیے شامل کیا گیا۔

    اس میں روزانہ 5 منٹ کی سانس کی تکنیک نے موڈ اور اضطراب کو اسی طرح کے فوائد فراہم کیے جیسے کہ روزانہ ذہن سازی یا مراقبے کے پانچ منٹ فراہم کرتے ہیں۔

    اگر آپ نیند کو بہتر بنانے اور دن کے وقت کے تناؤ کو کم کرنے، شدید کام، زندگی میں سکون اور کسی بیماری سے صحت یاب ہونے کے خواہاں ہیں، تو ایسی صورت میں کسی بیرونی مدد کے بجائے صرف سانس کی مشق آپ کو ان تمام مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔

    موجودہ تجربے میں شامل تمام شرکا نے ہر روز سانس کی مشق کے بعد اپنے موڈ اور دل کی دھڑکن، سانس لینے کی شرح، اور نیند سمیت اہم علامات میں بہتری کی اطلاع دی۔

    دوسری جانب ایسے افراد جنہوں نے ہر روز اپنی سانسوں پر پانچ منٹ تک کام کیا وہ مہینے کے آخر میں سب سے زیادہ تناؤ سے نجات پانے والوں میں شامل تھے جبکہ انہوں نے اپنی ذہنی اور جسمانی صحت میں روز بروز بہتری کو بھی محسوس کیا۔

  • جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور اینگزائٹی آج کل کے عام امراض بن گئے ہیں اور ہر دوسرا شخص ان کا شکار نظر آتا ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کا ایک اور سبب تلاش کرلیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں تو مختلف دماغی امراض و مسائل کی بڑی وجہ جینیات، دماغ کی کیمسٹری، ماحولیاتی عوامل اور کوئی طبی مسئلہ یا بیماری ہوتا ہے، تاہم اس کا تعلق جسم میں مختلف غذائی اجزا کی کمی سے بھی ہوسکتا ہے۔

    ان کے مطابق جسم میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغ کے اس حصے میں کیمیائی تبدیلیوں میں اضافہ کردیتی ہے جو پینک اٹیکس (شدید گھبراہٹ)، گھٹن محسوس ہونے، سانس کے تیزی سے چلنے اور اینگزائٹی (بے چینی) کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: برگر آپ کو نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے

    تحقیق کے لیے 21 افراد پر مشتمل گروہ کی جانچ کی گئی جو پینک ڈس آرڈر اور اینگزائٹی میں مبتلا تھے۔ ان میں سے کچھ افراد کو معمولی نوعیت کے پینک اٹیکس کا سامنا ہوتا جو گھر میں ہی کنٹرول کرلیا جاتا، البتہ کچھ کو ایمرجنسی میں اسپتال جانے کی ضرورت پڑ جاتی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ ان کے پینک اٹیک کی شدت ان کے جسم میں موجود غذائی اجزا کی سطح پر منحصر تھی، شدید اینگزائٹی اور پینک اٹیکس کا شکار افراد میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی سطح کم تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ دونوں اجزا دراصل دماغ میں پیدا ہونے والے کیمیائی مادے سیرو ٹونین کو فعال کرتے ہیں، سیرو ٹونین دماغ میں خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں استعمال کی جانے والی بہت سی اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں بھی سیرو ٹونین کو بڑھانے پر کام کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پہلو پر مزید جامع تحقیق کی ضرورت ہے، تاہم صحت مند اور متوازن غذا کا دماغی صحت مندی سے نہایت گہرا تعلق ہے۔

  • ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    آج کل ذہنی تناؤ اور ڈپریشن ایک نہایت عام شے بن گئی ہے اور ہر دوسرا شخص اس کا شکار نظر آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے ایک اوسط طالب علم کو ہونے والا ذہنی تناؤ ایسا ہے جیسا نصف صدی قبل باقاعدہ دماغی امراض کا شکار افراد میں ہوا کرتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ نے آج کل کے نوجوانوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ کیریئر کے لیے بھاگ دوڑ، اچھی تعلیم کے لیے جدوجہد اور تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔

    ان کے مطابق آج کل کے ایک اوسط طالب علم میں موجود ذہنی دباؤ اور اینگزائٹی کی سطح بالکل وہی ہے جیسی سنہ 1950 میں دماغی امراض کا شکار ایسے افراد میں ہوا کرتی تھی جنہیں باقاعدہ دماغی امراض کے اداروں میں داخل کروایا دیا جاتا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر گزرتی دہائی کے ساتھ لوگوں میں ڈپریشن کی سطح میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور نوجوان اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی آنا ہے۔

    ہم پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تنہائی پسند ہوگئے ہیں۔ ہم اپنا زیادہ تر وقت اسمارٹ فون کے ساتھ اور سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اور سماجی و مذہبی سرگرمیوں میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں، ہم شادی بھی دیر سے کرتے ہیں۔

    ہم اپنی زندگی میں بہت کچھ چاہتے ہیں جیسے دولت اور بہترین لائف پارٹنر، لیکن اس کے لیے ہمارے پاس غیر حقیقی تصورات ہیں اور ہم حقیقت پسند ہو کر نہیں سوچتے۔

    ہمارے ڈپریشن کو بڑھانے والی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہم دن بھر بری خبریں دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ہم دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگوں اور حادثات کے بارے میں پڑھتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ دنیا رہنے کے لیے ایک خطرناک جگہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے دنیا آگے بڑھتی جائے گی اور ترقی کی رفتار تیز ہوتی جائے گی ہمارے اندر ڈپریشن اور اینگزائٹی کی سطح میں بھی اضافے کا امکان ہے۔

  • نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ملک و معاشرے کے لیے ایک کارآمد فرد ثابت ہو اور ایک اچھی زندگی گزارے، اور اس کے لیے وہ تمام کوششیں بروئے کار لاتے ہیں۔

    اکثر والدین کو لگتا ہے کہ ہر وقت سختی کا رویہ بچوں کی تربیت میں معاون ثابت ہوتا ہے مگر ان کی یہ سوچ ان کے بچوں کو بڑے ہو کر شدید قسم کے نفسیاتی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرنا، ان پر چیخنا چلانا، ان کی بات کو رد کرنا اور ان کے معصوم جذبات کا خیال نہ رکھنا ان پر ذہنی تشدد کے برابر ہے۔

    تحقیق کے مطابق بچپن میں اس طرح کا ذہنی تشدد سہنے والے بچے بڑے ہو کر بے شمار نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے اینگزائٹی، ڈپریشن، ٹراما اور خودکش خیالات کے حامل ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں کئی جسمانی مسائل جیسے سر میں درد،جسم میں درد اور ہاضمے کے مسائل بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف والدین ہی بچوں پر ذہنی تشدد کے باعث نہیں، والیدن کے علاوہ دیگر رشتے دار، پڑوسی، اسکول میں دوست یا ٹیچر یا باہر سے آنے والے افراد بھی والدین سے نظر بچا کر بچوں کے ساتھ برا سلوک کر سکتے ہیں۔

    ایسے افراد کے سامنے بچے نہایت غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ آپ انجانے میں ایسے ضرر رساں افراد پر اپنے بچے کے حوالے سے بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق بچوں پر والدین کا چیخنا انہیں ذہنی طور پر شدید متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جب بچوں سے چیخ کر بات کی جائے، یا چلا کر انہیں ڈانٹا جائے تو ان کا ننھا ذہن انہیں سیلف پروٹیکشن یعنی اپنی حفاظت کرنے کا سگنل دیتا ہے۔ اسی طرح ایسے موقع پر بچے کو دماغ کی جانب سے یہ سگنل بھی ملتا ہے کہ وہ شدید ردعمل کا اظہار کرے۔

    یہ دونوں چیزیں ایک نشونما پاتے دماغ کے لیے نہایت مضر ہیں جس سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور اس کے اثرات آگے چل کر واضح ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جن کا بچپن اس طرح گزرا ہو کہ انہوں نے چیختے چلاتے افراد کا سامنا کیا ہو، ایسے افراد اپنی زندگی میں شدید قسم کے نفسیاتی مسائل اور ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

  • خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟

    خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟

    آج کل کے دور میں بے چینی یا اینگزائٹی کا مرض عام ہوگیا ہے۔ لیکن عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین اس مرض کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ ماہرین اس کی چند بنیادی وجوہات پیش کرتے ہیں۔

    دراصل بے چینی ایک کیفیت کا نام ہے جو گھبراہٹ، بہت زیادہ خوف اور ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے۔ ان تمام مسائل کو اینگزائٹی ڈس آرڈرز کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک عام ذہنی مرض ہے اور دنیا بھر میں ہر 100 میں سے 4 افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔

    بے چینی کے مرض میں مبتلا افراد کام کی طرف کم دھیان دیتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔

    کیمبرج یونیورسٹی میں ایک تحقیق کی گئی کہ معلوم کیا جاسکے اس مرض سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں یا مرد۔ نتائج سے پتہ چلا کہ جتنے مرد اس مرض سے متاثر ہوتے ہیں اس سے دگنی تعداد میں خواتین اس سے متاثر ہوتی ہیں۔

    طبی محققین نے معلوم کرنے کی کوشش کہ خواتین کیوں اس مرض کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    خواتین اور مردوں کی ذہنی بناوٹ میں فرق ہوتا ہے جبکہ خواتین ہارمونل اتار چڑھاؤ کا بھی شکار ہوتی ہیں۔ خواتین کی زندگی میں آنے والی مختلف تبدیلیوں کا اثر ان کے ہارمونز پر بھی پڑتا ہے جس سے ان میں بے چینی اور اس سے متعلق مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

    جسمانی ساخت کے علاوہ مرد و خواتین کے رویے بھی اس مرض کا سبب بنتے ہیں۔ خواتین ہر مسئلہ کو سر پر سوار کرلیتی ہیں اور پریشان ہوتی رہتی ہیں جبکہ مرد عموماً اس مسئلہ کا حل سوچ کر اس سے چھٹکارہ حاصل کرلیتے ہیں یا پھر نظر انداز کردیتے ہیں۔

    health-2

    خواتین اپنی زندگی میں جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہیں جس کا اثر ان پر ساری زندگی قائم رہتا ہے۔ اسی طرح بچپن میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کا اثر بھی تادیر رہتا ہے اور جسمانی حیاتیات پر اپنا اثر ڈالتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں ’ہپوکیمپس‘ کی طرف خون کا بہاؤ غیر معمولی طور پر بڑھ جاتا ہے یا گھٹ جاتا ہے۔ ’ہپوکیمپس‘ ہمارے دماغ کا ایک حصہ ہے جو جذبات سے تعلق رکھتا ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرض کو ہرگز نظر انداز نہ کیا جائے اور ابتدائی علامات ظاہر ہوتے ہی اس کا علاج کروایا جائے۔ دوسری صورت میں یہ شدید ڈپریشن کی شکل اختیار کرسکتا ہے جس میں انسان خود کو یا دوسروں کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔

    بے چینی کی صورت میں طبی ماہر کے مشورے سے دوائیں استعمال کی جاسکتی ہیں، بات چیت کے ذریعہ اسے ختم کیا جاسکتا ہے یا طرز زندگی بدل کر بھی اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بھاری ورزش کرنا دماغی صحت میں بہتری کے لیے معاون

    بھاری ورزش کرنا دماغی صحت میں بہتری کے لیے معاون

    کیا آپ کو مختلف دماغی و نفسیاتی مسائل خصوصاً اینگزائٹی (بے چینی) کا سامنا ہے، تو اس ضمن میں بھاری ورزشیں کرنا آپ کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

    یہ دعویٰ حال ہی میں کی جانے ایک تحقیق میں سامنے آیا جس میں دیکھا گیا کہ وہ افراد جو مسلز بنانے والی بھاری بھرکم ورزشیں جیسے ویٹ لفٹنگ کرتے ہیں، وہ افراد اینگزائٹی کے مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    آئر لینڈ میں کی جانے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ باقاعدگی سے ورک آؤٹ کرنے والے افراد مختلف اقسام کے ذہنی و نفسیاتی مسائل سے دور رہتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ گو کہ ورزش نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی اور نفسیاتی صحت پر بھی مفید اثرات مرتب کرتی ہے تاہم اس کا تعلق ہمیشہ سے ہلکی اقسام کی ورزش سے جوڑا جاتا رہا ہے جن میں سانس کی مشقیں بھی شامل ہیں۔

    ان کے مطابق ورک آؤٹ دراصل دماغ کی توجہ کا مرکز تبدیل کردیتا ہے اور وہ پریشان کن چیزوں کو چھوڑ کر سخت ورزش کی طرف مبذول ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ورک آؤٹ کرنے سے قبل یہ غذائیں کھائیں

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ورزش سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ورزش کے دوران ادھر ادھر کے بارے میں سوچنے کے بجائے دماغ کو بھی ورزش پر مرکوز رکھا جائے اور بھاری ورزش اس ضمن میں معاون ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ محنت آپ کو دماغی اور جسمانی دونوں طور پر مشغول رکھے گی۔

    تحقیق میں تجویز کیا گیا کہ اینگزائٹی کے علاج کے لیے مہنگی دوائیں کھانے کے بجائے ورک آؤٹ کرنا آسان علاج ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس تحقیق پر مزید کام کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ابھی مزید جامع نتائج جاری کیے جائیں گے۔


    انتباہ: یہ مضمون قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ مضمون میں دی گئی کسی بھی تجویز پر عمل کرنے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ اور ہدایت ضرور حاصل کریں۔

  • اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    آج کل کی مصروف زندگی میں، جب ہر شخص خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہے، اور اپنے ساتھ موجود افراد سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہے، مختلف ذہنی ونفسیاتی مسائل عام ہوگئے ہیں جن میں ڈپریشن اور اینگزائٹی سرفہرست ہیں۔

    اینگزائٹی یا بے چینی دراصل ایک کیفیت کا نام ہے جو گھبراہٹ، بہت زیادہ خوف اور ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے۔ ان تمام مسائل کو اینگزائٹی ڈس آرڈر کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک عام ذہنی مرض ہے اور دنیا بھر میں ہر 100 میں سے 4 افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔

    صرف امریکا میں 4 کروڑ بالغ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟

    اینگزائٹی کے مرض میں مبتلا افراد کام کی طرف توجہ نہیں دے پاتے اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔

    ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اینگزائٹی کو کم کرنے کا حل یہ ہے کہ آپ ایسے کام کریں جس سے آپ کو خوشی اور طمانیت کا احساس ہو۔

    اس سلسلے میں یہ عادات اینگزائٹی کو ختم یا کم کرنے میں نہایت معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

    سوشل میڈیا کو ختم کریں

    social-media

    زیادہ تر ذہنی و نفسیاتی مسائل کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلا قدم سوشل میڈیا کا استعمال کم کرنا ہے۔

    ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک، ٹوئٹر یا انسٹا گرام کا حد سے زیادہ استعمال آپ کو تنہا اور غیر مطمئن بنا دیتا ہے۔

    بے چینی یا ڈپریشن کا شکار ہونے کی صورت میں سب سے پہلے سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت کو کم سے کم کریں۔ یہ عادت دراصل آپ کی لاعلمی میں آپ میں مختلف نفسیاتی و دماغی پیچیدگیوں کو جنم دیتی ہے۔

    تخلیقی کام کریں

    colours

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے چینی سے چھٹکارہ پانے کے لیے کسی تخلیقی کام سے مدد لیں اور اس کے لیے سب سے بہترین اور آسان حل تصویر کشی کرنا یا لکھنا ہے۔

    ماہرین کے مطابق رنگوں کو استعمال کرتے ہوئے مختلف تصاویر بنانا آپ کے ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے اور آپ پرسکون ہوجاتے ہیں۔ رنگ دراصل ہمارے اندر منفی جذبات کے بہاؤ کو کم کرتے ہیں اور ہمارے اندر خوش کن احساسات جگاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: رنگوں کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی

    اسی طرح اگر آپ اپنے ذہن میں آنے والے ہر قسم کے خیالات کو لکھ لیں گے تب بھی آپ کا ذہن ہلکا پھلکا ہوجائے گا اور آپ خود کو خاصی حد تک مطمئن محسوس کریں گے۔

    گھر سے باہر وقت گزاریں

    nature

    گھر سے باہر وقت گزارنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پرہجوم سڑکوں پر چہل قدمی کریں۔ یہ عمل آپ کی بے چینی اور ذہنی دباؤ میں اضافہ کردے گا۔

    اس کے برعکس کسی پرسکون جگہ، کھلی ہوا میں یا فطرت کے قریب وقت گزاریں۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    کھلی ہوا میں، سمندر کے قریب، ہلکی دھوپ میں، اور جنگل یا درختوں کے درمیان گزارا گیا وقت فوری طور پر آپ کے اندر موجود مایوسانہ اور منفی جذبات کو ختم کردے گا اور آپ خود میں ایک نئی توانائی محسوس کریں گے۔

    دلچسپ ٹی وی پروگرام یا کتاب

    tv

    بے چینی کو کم کرنے کے لیے کوئی دلچسپ ٹی وی شو یا دلچسپ کتاب بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ ٹی وی پروگرام یا کتاب بوجھل اور دقیق نہ ہو بلکہ ہلکا پھلکا یا ترجیحاً مزاحیہ ہو۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ ہنسنے کے فوائد جانتے ہیں؟

    مزاحیہ پروگرام دیکھنے یا پڑھنے کے دوران قہقہہ لگانے اور ہنسنے سے آپ کا ذہنی دباؤ خاصا کم ہوجائے گا اور آپ خود کو پرسکون محسوس کریں گے۔

    ورزش کریں

    exercise

    ورزش نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی طور پر بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ دماغ کو پرسکون بنانے والی ورزشیں جیسے مراقبہ یا یوگا تو اینگزائٹی کے خاتمے کے لیے فائدہ مند ہیں ہی، ساتھ ساتھ جسمانی ورزشیں بھی آپ کے دماغ کو پرسکون بنانے میں مدد دیں گی۔

    مزید پڑھیں: ورزش کرنے کے چند دلچسپ طریقے

    جسمانی ورزش آپ کو جسمانی طور پر تھکا دے گی جس کے بعد آپ کو نیند کی ضرورت ہوگی اور یوں آپ کا دماغ بھی پرسکون ہوگا۔