Tag: این آر او کیس

  • مشرف عدالتوں کےحکم سےباہرنہیں گئے،انہیں بھیجنے کافیصلہ اس وقت کی حکومت نے کیا، چیف جسٹس

    مشرف عدالتوں کےحکم سےباہرنہیں گئے،انہیں بھیجنے کافیصلہ اس وقت کی حکومت نے کیا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : این آر او کیس میں چیف جسٹس نے کہا واضح کردوں مشرف عدالتوں کے حکم سے باہر نہیں گئے، مشرف کو ملک سے بھیجنے کافیصلہ اس وقت کی حکومت نے کیا، مشرف آئندہ پیرکوآجائیں کوئی گرفتار نہیں کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے این آراوکیس میں پرویز مشرف کی وطن واپسی سے متعلق سماعت کی، وکیل کی جانب سے پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی اور درخواست کی کہ رپورٹ کو عام نہ کیا جائے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ایسے بہت سے مریض تو پاکستان میں بھی ہوں گے، جس پر وکیل پرویز مشرف نے کہا عدالتی حکم پر پرویز مشرف آنے کو تیار ہیں، مشرف کے ڈاکٹرز کو واپسی پر ملنے کی اجازت دی جائے اور ان کا نام ای سی ایل میں نہ ڈالا جائے۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا ک مشرف واپس آکرنام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دیں تو وکیل نے کہا مشرف کا نام ای سی ایل میں ایک عدالتی حکم پر دیا گیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دئے دبئی علاج کے لیے بہترین ملک نہیں، دبئی سے بہتر علاج پاکستان میں دستیاب ہے، پرویزمشرف واپس آکر 342کا بیان ریکارڈ کرائیں، مشرف آئندہ پیرکوآجائیں کوئی گرفتار نہیں کرے گا، جیسے ٹرائل کورٹ حکم کرے گی ویسا ہوگا۔

    وکیل پرویز مشرف نے دلائل میں کہا آرٹیکل 6سمیت دیگر مقدمات بھی ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا مشرف حکومت کی اجازت سےبیرون ملک علاج کےلیےگئے۔

    چیف جسٹس نے کہا واضح کر دوں مشرف عدالتوں کے حکم سے باہر نہیں گئے، مشرف کو ملک سے بھیجنے کافیصلہ اس وقت کی حکومت نے کیا۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ پرویزمشرف کے خلاف بہت سے مقدمات ہیں، بنیادی حقوق تو مقدمات کی صورت میں ختم نہیں ہوتے، اگربنیادی حقوق ملتے تو ڈیڑھ 2سال مشرف باہر نہ رہتے۔

    چیف جسٹس نے کہا مشرف صرف ایک کیس میں مفرور ہیں، پرویزمشرف صاحب واپس آ جائیں، آرٹیکل 6کامقدمے مدنظر رکھ کر حکم جاری نہ کرنےکاکہہ دیں گے اور کیا گنجائش درکار ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے این آر او میں حصہ لیا ان کے کیخلاف بھی کارروائی کی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا مشرف واپس آئیں ممکن ہےعلاج کےلیےباہرجانے کی اجازت مل جائیں۔

    مزید پڑھیں : پرویز مشرف نہیں آتے تو ریڈ وارنٹ جاری کردیں گے ، چیف جسٹس

    گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کو وطن واپسی پر رینجرز کی سیکورٹی دینے اور عدالت پہنچنے تک کسی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اگر سابق صدر نہیں آتے تو ریڈ وارنٹ جاری کردیں گے، ایسا نہ ہو ان حالات میں آنا پڑے جوعزت دارانہ طریقہ نہیں۔

    سپریم کورٹ نے سابق صدر کی میڈیکل رپورٹ ایک ہفتے میں طلب کی تھی، جس پر وکیل مشرف اختر شاہ نے کہا تھا پورٹ جمع کرادوں گا، گزارش ہے، اسے چیمبر میں دیکھیے گا، پرویز مشرف صاحب سے پہلے ملنا چاہیے تھا شاید میں نے ضائع کردیا۔

  • این آر او کیس، آصف زرداری اور بچوں‌ کے اثاثوں‌ کی تفصیلات طلب

    این آر او کیس، آصف زرداری اور بچوں‌ کے اثاثوں‌ کی تفصیلات طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آصف زرداری سےپھر گزشتہ 10سال کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کرلی اور بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم برقرار رکھا جبکہ سابق صدر کی بے نظیر بھٹو کے اثاثوں کی تفصیلات نہ مانگنے کی نظرثانی اپیل منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے این آر او کیس میں 10 سالہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے سے متعلق آصف زرداری کی نظرثانی کی درخواست پر سماعت کی۔

    چیف جسٹس نے کہا آصف زرداری تفصیل دینے سے کیوں شرما رہے ہیں؟ بعض سوالات براہ راست آصف زرداری سے پوچھیں گے، ممکن ہےان کے پاس تمام سوالات کے جواب ہوں۔

    جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے آصف زرداری عام آدمی نہیں، سابق صدر پاکستان ہیں اور آج عوامی عہدے پر ہیں ، آصف زرداری سےکہا صرف اپنی معلومات فراہم کریں۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ صرف اثاثے ظاہر کرنے کا کہہ رہے ہیں، آصف زرداری اعلی ترین عہدہ پر رہے ، زرداری کو خوش ہونا چاہیے کہ صفائی کا موقع ملا۔

    وکیل آصف علی زرداری نے کہا عدالت محترمہ شہید کا ٹرائل نہ کرے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے توبہ توبہ محترمہ کے ٹرائل کا سوچ بھی نہیں سکتا، اثاثے مانگنا ٹرائل کرنا نہیں ہوتا، تشنگی ہے محترمہ کی شہادت کا درست ٹرائل نہیں ہو سکا، محترمہ کی شہادت کاٹرائل آصف زرداری کے دور میں ہوا۔

    لطیف کھوسہ ضمانت منسوخی کی اپیل سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو رہی۔

    وکیل نے استدعا کی عدالت 10 کی بجائے 5سال کے اثاثے کی تفصیل مانگ لے اور صرف زیر کفالت بچوں کی تفصیل مانگے، جس پر چیف جسٹس نے کہا طے ہونا چاہیے بیٹوں کےاثاثے کیا ہیں؟

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا آپ کے اعتراض پر غور کریں گے۔

    عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی 5 سالہ اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری سے دس سال کےاثاثوں کی تفصیل پھر طلب کرلی اور کہا بینظیربھٹو کے بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم برقرار ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ محترمہ کے علاوہ زرداری صاحب کے اثاثوں کی تفصیل دیں گے، زرداری کے جو بچے بالغ ہیں، ان کی تفصیل کیسے دیں،جس پر عدالت نے بے نظیر بھٹو سے ترکے میں ملی جائیداد کی تفصیلات جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    عدالت نےاپنے 29 اگست کے حکم نامے پر سابق صدر کی بے نظیر بھٹو کے اثاثوں کی تفصیلات نہ مانگنے کی نظرثانی اپیل منظور کرلی۔

    این آر اوکیس میں آصف زرداری کےاثاثوں کی تفصیل نہ آنے پر چیف جسٹس نے کہا ہم نے ابھی آصف زرداری کو کچھ نہیں کہا، صرف اثاثوں کی تفصیلات مانگی تھیں، مقدمات دوبارہ کھولنےکا حکم بھی دے سکتے ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا جودستاویز طلب کیں ان کی تفصیلات کس نےضائع کیں، تاثر ہےتمام شواہد زرداری نے خود ضائع کیے۔

    چیف جسٹس نےفاروق نائیک سے مکالمے میں کہازرداری اثاثوں کی تفصیل نہیں دینا چاہتےتوانکی مرضی، عدالت نے مکمل انصاف کے لیے تفصیلات مانگی ہیں، یہ عوامی اہمیت کامعاملہ ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھافی الحال اسے کرپشن کیس قرار نہیں دےرہے، کیوں نہ آصف زرداری کوطلب کرلیں،آپ انکی موجودگی میں دلائل دیں۔

    بعد ازاں کیس کی سماعت 2ہفتے کےلیے ملتوی کردی۔

    مزید پڑھیں : آصف زرداری کا دس سالہ اثاثوں کی تفصیل دینے سے انکار، سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 29 اگست کو این آر او کیس میں سابق صدور پرویز مشرف اور آصف زرداری کی 10 سالہ اثاثوں کی تفصیلات اور اندرون و بیرون ملک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کی تھیں۔

    جس کے بعد سابق صدر آصف زرداری نے دس سال کے اثاثوں کی تفصیل دینے سے انکارکر تے ہوئے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔

    آصف زرداری نےعدالت میں دی گئی نظرثانی درخواست میں سوالات اٹھائے ہیں کہ کیایہ عدالتی حکم بنیادی حقوق کے آرٹیکل 184/3 کے تحت آتا ہے؟

    انھوں نے سوال کیا کہ کیا بے نظیربھٹو کے اثاثوں کی تفصیل مانگنا قبرکے ٹرائل کے مترادف نہیں؟ کیا بچوں کی بھی ایک عشرے کی اثاثوں کی تفصیلات طلب کی جا سکتی ہیں؟ کیاسپریم کورٹ کی جانب سےحکم نامہ آئین کےخلاف نہیں؟