Tag: این اے 245

  • NA-245: کراچی کا پختون ووٹ والا ایک اہم لیکن گنجلک حلقہ

    NA-245: کراچی کا پختون ووٹ والا ایک اہم لیکن گنجلک حلقہ

    انتخابی حلقہ NA-245 کراچی غربی-II قومی اسمبلی کا وہ حلقہ ہے جس میں کراچی ضلع غربی کا اورنگی ٹاؤن ایریا شامل ہے۔ بنیادی طور پر یہ سیٹ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جیتتی آ رہی تھی لیکن 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار عطا اللہ نیازی نے یہ حلقہ اپنے نام کیا جو اس بار آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہیں لیکن عوامی سطح پر وہ پی ٹی آئی ہی کے امیدوار ہیں۔ اس حلقے سے پچھلے جنرل الیکشن میں حافظ نعیم اور شاہی سید جیسے امیدوار بھی کھڑے تھے۔

    قومی اسمبلی کی 22 نشستوں میں سے اس نشست پر الیکشن 2024 میں اس بار امیدواروں کی تعداد 23 ہے لیکن صرف 5 امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کے مطابق اس حلقے کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 75 ہزار 285 ہے، جن میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 20 ہزار 253 ہے جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 55 ہزار 32 ہے۔

    حلقہ بندی کا گنجلک جال

    این اے 245 پر ایک نگاہ ڈال کر ایسا لگتا ہے جیسے کافی سوچ بچار کے بعد یہ حلقہ ترتیب دیا گیا ہو، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ کیا واقعی خاص پارٹی کو سہولت فراہم کرنے کے لیے یہ حلقہ بندی کی گئی ہے، تاہم جس طرح سے دور دور اور ایک دوسرے سے نہایت مختلف اور متنوع آبادیوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے، اسے دیکھ کر امیدواروں کو فتح حاصل کرنے کے لیے سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو نہایت متنوع آبادیوں سے ووٹ حاصل کرنا ہوگا، لیکن ہر آبادی ایک خاص سیاسی رجحان رکھتی ہے، اور خاص سیاسی پارٹی کی طرف مائل ہے، جس کی وجہ سے سب ہی امیدواروں کو ایک واضح اکثریت کے حصول میں خاصی مشکل پیش آئے گی۔

    یہ انتخابی حلقہ قصبہ، اسلامیہ اور پیر آباد جیسے مکس کالونیوں سے شروع ہوتا ہے جہاں پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا، لیکن جمعیت علماے اسلام وہ پارٹی ہے جس کی اس حلقے میں نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے بھی حمایت کی ہے، اور اے این پی نے تو اپنے مضبوط اور مستقل امیدوار امیر نواب کو اس کے مقابل بٹھا دیا ہے، تو جے یو آئی ان علاقوں میں نتیجے پر واضح طور پر اثر انداز ہوگی۔

    گبول کالونی، بلوچ پاڑا، لاسی محلہ بلوچ گوٹھ، اسی طرح کی دیگر گوٹھ، اور خود منگھوپیر کا وسیع علاقہ پاکستان پیپلز پارٹی کا علاقہ ہے، جس میں گزشتہ انتخابات میں پی پی کا امیدوار جیتا تھا، تاہم جماعت اسلامی کا امیدوار محض 400 ووٹوں سے پیچھے رہ گیا تھا۔ اسی طرح بخاری کالونی، اورنگی کے کئی سیکٹرز، داتا نگر، علی گڑھ کالونی، مجاہد آباد، صابری چوک، بنگلا بازار اور اتحاد ٹاؤن وہ علاقے ہیں جہاں ایم کیو ایم کو لیڈ حاصل ہوتی ہے لیکن جماعت اسلامی کا امیدوار بھی اس کے ٹکر میں موجود ہوگا۔

    اس طرح یہ انتخابی حلقہ متنوع آبادی پر تو محیط ہے، تاہم اس میں زیادہ تر اردو بولنے والے اور پختون پس منظر والی آبادی کی اکثریت ہے، پختون آبادیوں جیسا کہ فرنٹیئر کالونی، قصبہ کالونی، بنارس کالونی، اور پیر آباد کا ووٹ ماضی میں ہمیشہ جماعت اسلامی کی طرف رہا، تاہم اس کے مقابل اے این پی ہمیشہ ایک مضبوط امیدوار رہا، لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے بعد سے اس علاقے کے پختونوں کا ووٹ بری طرح پی ٹی آئی کی طرف منتقل ہوا ہے، لیکن پی ٹی آئی کا امیدوار عطااللہ آزاد امیدوار کے طور پر اس علاقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں، اس کے باوجود ایک بڑا ووٹ اس بار بھی ان کی طرف جائے گا۔

    NA-245 پارٹی اور امیدوار

    اس حلقے میں کُل 256 پولنگ اسٹیشن اور 822 پولنگ بوتھ ہوں گے، اور میدان میں مجموعی طور پر 23 امیدوار ہیں، جن میں سے 11 آزاد حیثیت سے کھڑے ہوئے ہیں، جب کہ 12 امیدوار ایسے ہیں جو یا تو کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں یا سماجی اور برادری کی سطح پر کسی بینر تلے کھڑے ہوئے ہیں، جیسا کہ سلیمان خیل قبائل موومنٹ یا پاکستان عام آدمی موومنٹ۔

    تاہم اس انتخابی حلقے کے قابل ذکر امیدواروں میں امین اللہ (جمعیت علمائے اسلام پاکستان)، سید حفیظ الدین (ایم کیو ایم پاکستان)، صدیق اکبر (پاکستان پیپلز پارٹی)، عطا اللہ (پی ٹی آئی آزاد)، محمد اسحاق خان (جماعت اسلامی) شامل ہیں۔ اے این پی کی جانب سے سابق صوبائی وزیر محنت امیر نواب انتخاب لڑ رہے تھے تاہم اب وہ جے یو آئی کے امین اللہ کے حق میں دست بردار ہو چکے ہیں، اسی طرح مسلم لیگ ن نے بھی امین اللہ کی حمایت کی ہے۔

    عطا اللہ نیازی

    عطا اللہ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 2018 میں اس نشست پر ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کے مقابلے میں نمایاں برتری کے ساتھ فتح حاصل کی تھی۔ لیکن اس بار نہ وہ ’بلے‘ کے انتخابی نشان پر لڑ رہے ہیں نہ ہی انھیں ماضی کی طرح کھل کر انتخابی مہم چلانے کی آزادی حاصل ہے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت میں بہت مشکل حالات میں یہ انتخاب لڑ رہے ہیں، ان میں سے عطا اللہ بھی ہیں، جن کا انتخابی نشان ’ریکٹ‘ ہے اور جنھوں نے پوسٹرز کے علاوہ کوئی انتخابی مہم نہیں چلائی۔ ان ہی پوسٹرز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی جانب سے کھڑے ہیں۔

    عطا اللہ پی ٹی آئی کے وہ امیدوار ہیں جنھوں نے جون 2022 میں دھکمی دی تھی کہ اگر پی ٹی آئی چیئرمین کو کچھ ہوا تو وہ حکمرانوں پر خود کش حملہ کر دیں گے، انھوں نے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ان کے جیسے ہزاروں خودکش بمبار ہیں جو خود کو اڑانے کے لیے تیار ہیں۔

    سید حفیظ الدین

    سید حفیظ الدین پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کراچی ڈویژن کے چیف آرگنائزر تھے، لیکن پھر انھوں نے 14 فروری 2012 کو پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ 2013 کے عام انتخابات میں حلقہ PS-93 (کراچی-V) سے وہ پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر سندھ کی صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن پھر انھوں نے پاکستان سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور 2018 کے عام انتخابات میں حلقہ PS-114 (کراچی ویسٹ-III) سے الیکشن ہار گئے۔ اب وہ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔

    اس نشست پر حفیظ الدین کے جیتنے کے امکانات اس لیے روشن ہیں کیوں کہ یہی حلقہ ہے جس سے 2002، 2008 اور 2013 میں متحدہ قومی موومنٹ نے قومی نشست جیتی تھی۔ تاہم ان کے لیے موجودہ حلقہ بندی اور پی ٹی آئی کی بدستور موجود مقبولیت کے آگے آسانی سے نشست جیتنا ممکن نہیں ہوگا۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی بھی اس حلقے سے بڑا ووٹ حاصل کرے گی اور پھر ایم کیو ایم کے ووٹ والے علاقوں میں جماعت اسلامی کی جانب سے انھیں سخت مقابلے کا سامنا ہوگا۔

    صدیق اکبر

    سندھ میں پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے دوران ہی موجودہ انتخابی حلقے بنائے گئے ہیں، این اے دو سو پینتالیس میں نہ صرف منگھوپیر کے علاقے میں پی پی کا ووٹ ہے، اور یہاں سے گزشتہ انتخابات میں پی پی کے امیدوار نے جماعت اسلامی کے امیدوار کو صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے شکست دی تھی، بلکہ پختون آبادی میں بھی پیپلز پارٹی کا ایک قابل ذکر ووٹ موجود ہے۔ اس وقت عوامی سطح پر جن دو بڑے امیدواروں کی جیت کا تاثر پایا جاتا ہے، ان میں ایم کیو ایم کے امیدوار کے بعد دوسرا نمبر صدیق اکبر ہی کا ہے۔ وہ یہ نشست جیتنے کے لیے پوری طرح پر امید ہیں، اور اس امید کی وجہ پی ٹی آئی کی میدان میں ’کمزور موجودگی‘ ہے۔

    امین اللہ

    این اے دو سو پینتالیس کے انتخابی حلقے میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کا امیدوار بھی اپنی اہمیت رکھتا ہے، کیوں کہ یہ وہ حلقہ ہے جہاں ’مذہبی ووٹ‘ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کچھ علاقوں میں جماعت اسلامی تو کچھ میں جے یو آئی کو بڑی حمایت حاصل ہے۔ 2018 کے انتخابات میں یہاں سے ایم ایم اے کا امیدوار چوتھے نمبر پر آیا تھا، لیکن اس کی بنیادی وجہ پی ٹی آئی کا میدان میں داخل ہونا تھا، پختونوں اور مذہبی ذہن کا اکثر ووٹ ’بلے‘ کا نشان لے گیا تھا، جو کہ اس بار اس قوت کے ساتھ میدان میں موجود نہیں ہے۔

    اس کے علاوہ جے یو آئی کے امیدوار حاجی امین اللہ کو اے این پی اور مسلم لیگ ن کی بھی حمایت حاصل ہو گئی ہے، جس سے انھیں اے این پی کا یہاں کا قومیت پسند ووٹ بھی حاصل ہو جائے گا۔ اس حلقے میں ن لیگی ووٹ کبھی بھی ایسا نہیں رہا جو بلدیاتی انتخابات میں بھی اپنے امیدوار کو فتح دلا سکے، تاہم ایک تعداد تو ضرور ایسی ہے جو کسی کے پلڑے کے وزن کو بڑھا سکتی ہے۔ امین کا انتخابی نشان ’کتاب‘ ہے، جسے یہاں ہمیشہ مقدس کتاب کے تناظر میں پیش کر کے عوام سے ووٹ لیا گیا۔ تاہم اسی حلقے سے تحریک لبیک پاکستان کا امیدوار وزیر احمد نورانی بھی الیکشن لڑ رہے ہیں، اور حیرت کی بات ہے کہ یہاں سے ماضی میں ٹی ایل پی نے لوگوں کی توقع کے برعکس اچھا ووٹ نکالا ہے، تو جے یو آئی کا کافی سارا ووٹ ٹی ایل پی کے سمت بھی جا سکتا ہے، جس سے مقابلے میں ان کی مجموعی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔

    محمد اسحاق خان

    اس حلقے کے چند علاقوں میں ایک عرصے سے جماعت اسلامی کا مضبوط ووٹ موجود ہے، جس سے اسحاق خان بلدیاتی انتخابات میں ہمیشہ مستفید ہوئے، اور وہ پختون آبادی میں جماعت اسلامی کراچی کا برسوں سے نمائندہ چہرہ رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں اے این پی کو تسلسل سے شکست دینے والے اسحاق خان کی انتخابی مقبولیت اس وقت گہنا گئی جب علاقے میں ان کے خلاف پارٹی کے اندر ہی اختلافی آوازیں اٹھنے لگیں، اور ان کو ہٹانے کے لیے باقاعدہ گروپ بندی بھی ہوئی۔ چناں چہ جب پہلی بار مقامی سطح پر انھیں کونسلر (ناظم) کے انتخابات میں شکست ہوئی تو انھوں نے پھر صوبائی نشست کی طرف دیکھنا شروع کیا اور 2013 میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر انھوں نے صوبائی سیٹ کے لیے الیکشن ہارا۔ اب جماعت اسلامی نے اس علاقے سے اسحاق خان کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا ہے، جس کی صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف ووٹرز بہت منتشر ہیں بلکہ خود جماعت اسلامی کے اپنے ووٹرز کی ایک تعداد انھیں ووٹ کرنے سے گریزاں ہے۔ چناں چہ اس پس منظر میں وہ اس انتخابی حلقے کے جماعت اسلامی کی جانب سے سب سے کمزور امیدوار ہیں۔ تاہم پختون آبادی اور ایم کیو ایم کے ووٹ والے علاقوں سے جماعت اسلامی کے نام پر انھیں اتنا ووٹ مل سکتا ہے کہ وہ چوتھے نمبر پر آ سکیں۔

  • کراچی: این اے 245 میں ضمنی الیکشن کے لیے پولنگ کا وقت ختم

    کراچی: این اے 245 میں ضمنی الیکشن کے لیے پولنگ کا وقت ختم

    کراچی: شہر قائد کے انتخابی حلقے این اے 245 میں ضمنی انتخاب کے لیے پولنگ شروع ہو چکی ہے، ووٹنگ کا عمل شام 5 بجے تک بلا تعطل جاری رہے گا۔

    اس نشست پر پاکستان تحریک انصاف کے محمود مولوی، ایم کیو ایم کے امیدوار معید انور، پی ایس پی کے سید حفیظ الدین، مہاجر قومی موومنٹ کے محمد شاہد اور ٹی ایل پی کے محمد احمد رضا مد مقابل ہیں۔

    فاروق ستار آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں موجود ہیں، مجموعی طور پر سیٹ کے لیے 15 امیدواروں میں مقابلہ ہے۔ جب کہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے امیدوار ایم کیو ایم کے حق میں دستبردار ہوئے۔

    یاد رہے کہ قومی اسمبلی کی یہ نشست ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔

    این اے 245 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تقریباً 5 لاکھ ہے، جو امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے، 203 پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس اور 60 حساس قرار دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمشنر سندھ کے مطابق انتخابی مراکز پر پولیس اور رینجرز اہل کار تعینات کر دیے گئے ہیں، جب کہ کسی بھی ناخوش گوار واقعے سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کے جوان بھی اسٹینڈ بائی ہیں۔

    حلقے میں 5 ہزار سے زائد اہل کار سیکیورٹی فرائض پر مامور ہیں، ہر پولنگ اسٹیشن پر پولیس کا دستہ 10 اہل کاروں پر مشتمل ہے، جب کہ رینجرز سو سے زائد پولنگ اسٹیشنز پر موجود ہیں۔

    پولنگ میں‌ تاخیر

    بعض پولنگ اسٹیشنز پر ایجنٹس کے بروقت نہ پہنچنے کی وجہ سے ووٹ ڈالنے کا عمل تاخیر کا شکار ہوا، پولنگ اسٹیشن نمبر 125 اور 130 خدادا داد کالونی، پولنگ اسٹیشن 23 سے 25 پی ای سی ایچ ایس بلاک تھری میں‌ پولنگ مقررہ وقت پر شروع نہ ہو سکنے کی شکایت موصول ہوئیں۔

    پریزائڈنگ آفیسر کا کہنا تھا کہ انتظامات مکمل ہیں تاہم پولنگ ایجنٹ نہ آنے کی وجہ سے پولنگ شروع ہونے میں‌ تاخیر ہوئی، ڈی آر او علی اصغر سیال نے پولنگ اسٹیشن 23 سے 25 پی ای سی ایچ ایس بلاک تھری کا دورہ کیا، جہاں پولنگ ایجنٹس نہیں پہنچے وہاں سیکیورٹی انچارج کے سامنے بیلٹ باکس سیل کیے گئے۔

    میڈیا کوریج

    ڈی آر او علی اصغر سیال کے مطابق میڈیا کو پولنگ اسٹیشنز پر کوریج کی اجازت ہے، انھوں نے کہا جن پولنگ اسٹیشن پر کوریج سے روکنے کی شکایت آئی ہے وہاں بات کروں گا۔

    ووٹنگ کا عمل سست روی کا شکار

    گورنمنٹ اسلامیہ گرلز کالج کے پولنگ اسٹیشنز میں دس بجے تک صرف 24 ووٹ کاسٹ ہوئے، یہاں 6 پولنگ اسٹیشنز قائم ہیں، پولنگ اسٹیشن 110 میں 3 مرد ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کیا، 111 میں مردوں کے چار ووٹ کاسٹ ہوئے، 112 میں ایک خاتون نے، 113 میں دو مردوں اور ایک خاتون، 114 میں 5 خواتین اور چار مردوں، 115 میں صرف چار مردوں نے ووٹ کاسٹ کیا۔

    سندھی مسلم سوسائٹی کے گرلز بواٸز پراٸمری اور سیکنڈری اسکول میں واقع 4 پولنگ اسٹیشنز پر بھی پولنگ کا عمل سست روی کا شکار ہے، پولنگ عملہ ووٹرز کے انتظار میں بیٹھا ہے، چھٹی کے باعث بھی ووٹرز کا پولنگ اسٹیشنز پر رش کم ہے۔

    الیکشن کمیشن کی اپیل

    ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ عوام بلاخوف و خطر گھر سے ووٹ ڈالنے کے لیے نکلیں، گڑ بڑ کرنے والوں اور انتخابی عمل کو متاثر کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا، الیکشن کے پُرامن انعقاد کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے گئے ہیں، پاک آرمی اور رینجرز بھی حلقے میں موجود ہیں، کسی بھی صوبائی اور وفاقی وزیر ماسوائے ووٹرز کو حلقہ میں داخلے کی اجازت نہیں، تمام اُمیدواروں کے ساتھ یکساں برتاؤ کیا جائے گا۔

    پریذائیڈنگ افسران کون؟

    ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی طرف سے یہ الزام کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو پریذائیڈنگ آفیسرز لگا دیا گیا ہے، سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ انھوں نے کہا تمام پریذائیڈنگ افسران سرکاری ملازم ہیں، اور ان کی تعیناتی قانون کے مطابق کی گئی ہے۔

    پی ٹی آئی رکن اسمبلی پولنگ اسٹیشن پر

    ایم کیو ایم کا الزام ہے کہ تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی فردوس شمیم نقوی پولنگ کے دوران پولنگ اسٹیشن سے باہر نکلتے ہوئے پکڑے گئے، اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے۔ ایم کیو ایم پولنگ ایجنٹس کا کہنا تھا کہ فردوس شمیم نقوی انتخابات پر اثر انداز ہو رہے ہیں، یہ الیکشن کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے، نہ حلقے میں ان کا ووٹ ہے نہ وہ پولنگ ایجنٹ ہیں اس کے باوجود وہ پٹیل پاڑہ اور دیگر علاقوں میں پولنگ اسٹیشنز کے اندر گئے۔

    پولنگ کے عمل میں ایک گھنٹے کا اضافہ

    پولنگ اسٹیشن نمبر 143، سولجر بازار میں پولنگ کے دوران بدنظمی کے باعث پولنگ کا عمل رک گیا، جس پر آر او اور ڈی آر او پہنچ گئے۔ ڈی آر او علی اصغر سیال نے  پولنگ کا عمل دوبارہ شروع کر دیا، اور پولنگ کے عمل میں ایک گھنٹے کا اضافہ کر دیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ پریزائڈنگ افسر محبوب نے تمام فارم اور لفافے پر تمام پولنگ ایجنٹس سے قبل از وقت دستخط کروا لیے تھے، واقعے کی اطلاع ملتے ہی فوری کارروائی کی گئی، یہ واقعہ پولنگ اسٹیشن نمبر 143 اور 144 میں ہوا۔ تاہم ڈی آر او نے تمام فارم منسوخ کر دیے ہیں، پولنگ کا عمل ایک گھنٹے کے لیے رک گیا تھا، اس لیے پولنگ اسٹیشن میں اب شام 6 بجے تک پولنگ جاری رہے گی۔

    سولجر بازار، گرما گرمی

    وقت گزرنے کے ساتھ ضمنی انتخاب کے ماحول میں گرما گرمی آ گئی ہے، سولجر بازار میں تین سیاسی جماعتوں کے کارکنان آمنے سامنے آ گئے، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم پاکستان اور ٹی ایل پی کے کارکنان نے ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی کی، پی ٹی آئی کراچی کے صدر بلال غفار کارکنان کے ہمراہ پہنچ گئے تھے۔

  • کراچی میں متوقع بارشیں : این اے 245 پر ضمنی الیکشن متاثر ہونے کا اندیشہ

    کراچی میں متوقع بارشیں : این اے 245 پر ضمنی الیکشن متاثر ہونے کا اندیشہ

    کراچی : شہر قائد میں متوقع بارشوں کے باعث این اے 245 پر ضمنی الیکشن متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، محکمہ موسمیات نے 15 سے 21اگست تک بارش کی پیش گوئی کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 245 پر ضمنی انتخاب بارش سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کو محکمہ موسمیات سے کراچی میں متوقع بارشوں کی رپورٹ موصول ہوئی ہے۔

    محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ جس میں 15سے 21اگست کراچی میں مزید بارشیں ہوں گی۔

    محکمہ موسمیات کی جانب سے الیکشن کمیشن کو مراسلے میں کہا ہے کہ 15اگست کو بارش کا60فیصد ، 16 سے 18 اگست تک تیز بارش کا 80فیصد امکان ہے۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ 19 سے 21 اگست تک کراچی میں ہلکی بارش متوقع ہے۔

    خیال رہے کراچی کے حلقہ این اے 245 پر ضمنی انتخاب 21 اگست کو ہونا ہے ، ضمنی الیکشن کیلئے انتخابی سامان کی ترسیل 20اگست کو ہونی ہے۔

    یاد رہے این اے 245 کی نشست پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایم این اے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔

    واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی کے حلقہ این اے 245 کے ضمنی انتخاب کے لیے محمود مولوی کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔

  • عامر لیاقت کی کامیابی کا نوٹی فکیشن معطل کیا جائے ،  فاروق ستار کی درخواست

    عامر لیاقت کی کامیابی کا نوٹی فکیشن معطل کیا جائے ، فاروق ستار کی درخواست

    کراچی : ایم کیو ایم کے سینئر رہنما فاروق ستارنے این اے دو سو پینتالیس کے نتائج الیکشن ٹریبونل میں چیلنج کردیئے اور کہا ایم کیو ایم پاکستان کے بہت سے امیدوار ہیں، جنہیں زبردستی ہرایا گیا، ہم سرخرو ہوں گے، ساری سیٹوں پر پھر الیکشن ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر فاروق ستار نے این اے 245 کے نتائج کو الیکشن ٹریبونل میں چیلنج کردیا، فاروق ستار نے درخواست مؤقف اپنایا ہےکہ بائیس ہزار بیلٹ پیپرز غائب ہیں، شواہد فارم چھیالیس میں موجود ہیں، کسی پولنگ ایجنٹس کو فارم پینتالیس فراہم نہیں کیا گیا۔

    فاروق ستار نے درخواست میں عامر لیاقت کی کامیابی کا نوٹی فکیشن معطل کرنے کی استدعا کی ہے۔

    ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے سندھ ہائی کورٹ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے بہت سے امیدوارہیں جنہیں زبردستی ہرایا گیا، گنتی کے دوران دندھالی سے جیت سے ہار میں تبدیل کیا گیا۔

    سندھ ہائی کورٹ میں این اے 245 کے انتخابات کو چیلینج کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کرنے کے لئے آنے والے ایم کیوایم کے رہنما فاروق ستار کا کہنا تھا کہ مجھ سمیت الیکشن ٹرائبیونل میں امیدواروں نے درخواستیں دائر کی ہیں، ثبوت اور گواہوں کے ساتھ اپیل دائر کردی ہے۔

    فاروق ستارنے الیکشن کے بعد تاخیر سے عدالت سے رجوع کرنے کے سوال پر کہا کہ بلی تمام تیاری کے ساتھ آئی ہے، مکمل انوسٹی گیشن کے بعد آئی ہے، میں نے تمام ایم کیو ایم کے امیدواروں کے جانب عدالت سے رجوع کیا ہے۔۔

    ان کا کہنا تھا کہ فارم پینتالیس نہیں دئیے گئے ہیں جو پریزائڈنگ افسراں کے دستخط شدہ ہونے چاہئیں تھے نہیں ملے، ریٹرنگ آفیسر نے اپنی مرضی سے رزلٹ تیار کئے ہیں بیلٹ پیپر ز کا آڈٹ ہونا چاہیے۔

    رہنما ایم کیو ایم نے کہا افغان شہریوں کو شہریت دینے پرایم کیو ایم سے بات چیت ہونی چاہیے، محصورین بنگلا دیش نے دو بار ہجرت کی،ا ن کا پہلاحق ہے، سب سے پہلے محصورین مشرقی پاکستان کو شہریت دیں ، پھر بہاریوں کو شہریت دی جائے پھر کسی اور کا سوچا جائے۔

  • فاروق ستار کا این اے 245  کے انتخابی نتائج  چیلنج کرنے کا اعلان

    فاروق ستار کا این اے 245 کے انتخابی نتائج چیلنج کرنے کا اعلان

    کراچی: ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے این اے دو سو پیتنالیس کے انتخابی نتائج کوالیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا اور کہا فیصلہ آنے تک عامرلیاقت کی کامیابی کا نوٹیفکیشن معطل کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق میں ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے این اے دو سو پیتنالیس کے انتخابی نتائج کوالیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے لیے ان کی قانونی ٹیم نے 850 صفحات کی درخواست تیارکرلی ہے۔

    درخواست میں عامرلیاقت کی کامیابی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کی استدعا بھی کی جائے گی جبکہ درخواست کے ساتھ بے ضابطگیوں کےشواہدبھی منسلک کیے گئے ہیں۔

    درخواست گزارفاروق ستار نے مؤقف اختیار کیا کہ این اے 245میں بے ضابطگیوں کے ناقابل تردید شواہد ہیں، صرف این اے245 میں 22ہزار بیلٹ پیپرزغائب ہیں، 22 ہزار بیلٹ پیپرز غائب ہونے کے شواہد فارم 46 میں موجود ہیں۔

    فاروق ستار کی جانب سے درخواست میں ہمارے پولنگ ایجنٹس کو باہرنکال دیاگیا، کسی پولنگ ایجنٹ کو فارم 45 فراہم نہیں کیا گیا اور استدعا کی فیصلہ ہونے تک عامرلیاقت کی کامیابی کا نوٹیفکیشن معطل کیا جائے۔

    کراچی سٹی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں فاروق ستار نے کہا این اے 245 کے نتائج چیلنج کرنے جا رہا ہوں ، میرے پاس شواہد موجود ہیں امید ہے الیکشن ٹربیونل سنے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ میری زندگی کا مشن عوام کی خدمت ہے، عوام ہی ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں گے، جو فیصلہ کریں قبول ہوگا۔

    اس سے پہلے سٹی کورٹ میں لاوٴڈ اسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی کے مقدمے کی سماعت ہوئی، ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار عدالت میں پیش ہوئے۔

    عدالت نے سولجر بازار تھانے میں درج مقدمے میں پولیس فائل طلب کرتے ہوئے سماعت تین اکتوبر تک ملتوی کردی، فاروق ستار کے خلاف تھانہ نیوٹاوٴن اور تھانہ سولجر بازار میں دو مقدمات زیر سماعت ہیں۔

    خیال رہے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں کراچی کے حلقے این اے 245 سے  تحریک انصا ف کے عامر لیاقت حسین کامیاب ہوئے جبکہ ایم کیو ایم کے فاروق ستار  دوسرے نمبر پر رہے تھے۔

    واضح رہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار ملک بھر میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات کے بعد سے پارٹی میں غیر فعال تھے انہوں نے گزشتہ دنوں اشارہ دیا تھا کہ تحریک انصاف کے کچھ دوستوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت بھی دی۔

    چند روز قبل  ایم کیو ایم پاکستان کے سابق کنونیئر اور رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا تاہم  رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کے استعفیٰ کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے کسی بھی صورت قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

  • پولنگ اسٹیشن تبدیل کرکے دھاندلی  کی گئی، فاروق ستار

    پولنگ اسٹیشن تبدیل کرکے دھاندلی کی گئی، فاروق ستار

    کراچی : ایم کیو ایم پاکستان سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے کہا این اے 245 غوثیہ اسکول کے 4 ہزارسے زائد ووٹ منتقل ہوئے، اچانک پولنگ اسٹیشن تبدیل کرنے سے ووٹ ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان سربراہ   ہوئے کہا کہ پولنگ اسٹیشن تبدیل کرکے دھاندلی کی گئی، ووٹرز کس طرح 2 کلومیٹر چل کر ووٹ کاسٹ کریں گے۔

    فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اچانک پولنگ اسٹیشن تبدیل کرنے سے ووٹ ضائع ہونے کا خدشہ ہے، این اے 245 غوثیہ اسکول کے 4 ہزار سے زائد ووٹ منتقل ہوئے، ووٹوں کو اچانک پی آئی بی اسکول میں منتقل کردیا گیا۔

    سربراہ ایم کیو ایم پاکستان نے مطالبہ کیا کہ انتخابی عمل کی رفتارسُست ہے،پولنگ کا وقت بڑھایا جائے، پولنگ اسٹیشن تبدیل ہونے کے باعث ابتک پولنگ شروع نہ ہوسکی۔

    اس سے قبل فاروق ستار کا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد کہنا تھا کہ ایم کیوایم اپنی تمام روایتی سیٹیں جیتے گی، امید کرتے ہیں آج کا دن خیریت سے گزرے گا۔

    فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ووٹرزگھروں سےنکلے توکسی کو دھاندلی کا موقع نہیں ملے گا، کراچی اورسندھ کےعوام ایم کیو ایم کے حق میں فیصلہ کریں گے، کامیاب ہوکرعوام کے مسائل مستقل بنیادوں پرحل کریں گے۔


    مزید پڑھیں :  عام انتخابات 2018 کے لیے پولنگ کا عمل شروع


    واضح رہے کہ پاکستان کے گیارہویں عام انتخابات کے لیے ملک بھر میں پولنگ کا عمل کا آغاز ہوچکا ہے، جو بلا تعطل 6 بجے تک جاری رہے گا، 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • کراچی: این اے 245 سے فاروق ستارکے کاغذات نامزدگی مسترد

    کراچی: این اے 245 سے فاروق ستارکے کاغذات نامزدگی مسترد

    کراچی : ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے کراچی کے حلقہ این اے 245 سے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما ڈاکٹرفاروق ستار کے این اے 245 سے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے۔

    فاروق ستار نے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے قومی اسمبلی کی نشت پر کراچی کے تین حلقوں سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جن میں این اے 241،245،247 کے حلقے شامل ہیں۔

    ریٹرننگ افسر نے حلقہ این اے 245 سے ڈاکٹرفاروق ستار کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی جس کے بعد انہیں مسترد کردیا گیا۔

    ریٹرننگ افسر کے مطابق ایم کیوایم رہنما فاروق ستار نے 2 مقدمات میں مفرور ہیں اور انہوں نے یہ مقدمات چھپائے جس پر ان کے کاغذات کو مسترد کیے گئے۔

    الیکشن 2018: امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا آج آخری روز

    واضح رہے کہ انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا آج آخری روز ہے۔ الیکشن کمیشن کے ترمیم شدہ انتخابی شیڈول کے مطابق آراوز کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں 22 جون تک دائرہوسکیں گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔